انسان کی تخلیق میں صفات جلال و جمال کا عمل، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

انسان کی تخلیق میں صفات جلال و جمال کا عمل
اگر ہم اپنے آپ پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے جب ہم کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے بہت سے امکانات ہمارے ذہن میں آتے ہیں لیکن جب ہم فی الواقع وہ کام کرنے لگتے ہیں تو ہم صرف ایک امکان کو جو ہمارے مقصود سے در حقیقت مطابقت رکھتا ہے خوب اور حق اور زیبا سمجھ کر چن لیتے ہیں اور باقی تمام امکانات کو جو دراصل خوب اور ناخوب اور حق اور باطل اور زشت اور زیبا کا ممزوح یا مرکب ہوتے ہیں نا خوب اور باطل اور زشت سمجھ کر رد کردیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مقصود سے پوری پوری مطابقت نہیں رکھتے جو امکان حق اور خوب اور زیبا ہوتا ہے وہ صرف ایک ہی ہوتا ہے لیکن باطل اور ناخوب اور زشت امکانات جو حق و باطل کی شرکت سے بنتے ہیں بہت سے ہوتے ہیں۔
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
عمل ارتقاء میں تخریب اور تبذیر کی حکمت
خد اکی تخلیق کی صورت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خدا کا کسی امکان کو سوچنا اس کو پیدا کر دینا ہے۔ خدا پہلے اپنے پسندیدہ تخلیق کے تمام امکانات کو عمل میں لاتا ہے اور پھر اس ایک امکان کو چن لیتا ہے جو تخلیق کی صورت اختیار کرنے کے بعد یعنی عملی طور پر اس مقصد کے مطابق اور لہٰذا خوب اور حق دار زیبا ثابت ہوتا ہے اور باقی امکانات کو یا تو وہ صفحہ ہستی سے بالکل مٹا دیتا ہے یا نظر انداز کر دیتا ہے جس کے نتیجہ کے طور پر وہ جس حالت کو پہنچ جاتے ہیں اسی پر قائم رہتے ہیں اور مزید ترقی نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ کائنات کے ارتقاء کے دوران مادی حیاتیاتی اور انسانی سطح ارتقاء پر ایسی مخلوقات بھی وجود میں آتی رہی ہیں جو خدا کے نصب العین یعنی انسانیت کاملہ کی تخلیق سے براہ راست کوئی تعلق نہ رکھتی تھیں اور فقط تخلیق کے اصل مرکزی سلسلہ کی ضمنی یا اتفاقی پیداوار تھیں اور یہی وجہ ہے کہ خودی ایسی مخلوقات کو یا تو مٹا دیتی رہی یا ایک ہی حالت پر موجود رہنے کے لئے چھوڑ دیتی رہی۔ مثلاً خودی نے لاکھوں نظام ہائے شمسی پیدا کئے لیکن بظاہر صرف ایک نظام شمسی اس کے مقصد کے مطابق تھا۔ یعنی وہ جس کے ایک زمین نامی سیارہ میں زندگی نمودار ہو کر نشوونما پا رہی ہے اس نے لاکھوں گلشنوں کو پیدا کیا ہو گا لیکن اس کا مقصود صرف چند خوبصورت پھول تھے جن کی اقسام نباتاتی عمل ارتقاء میں باقی رہ گئی ہیں۔ اس نے قدرت میں سینکڑوں ناخوشگوار آوازیں پیدا کی ہوں گی۔ تب جا کر اسے چند خوش گلو پرندوں کے دل آویز نغمے میسر آئے ہیں، اس نے ہزاروں انبیاء پیدا کئے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہی کو تعلیم نبوت کے کمال پر پہنچایا اور موثر حالت میں باقی رکھا اس طرح سے یہ بات اس کی فطرت میں ہے کہ وہ اقبال کے الفاظ میں گویا اپنے آپ کو فریب دے دے کر اپنے مقصود کو حاصل کرتی ہے۔ بعض لوگ اسے قدرت کا قہر یا اسراف سمجھتے ہیں۔ لیکن در حقیقت خودی کا یہ کام اس کی فطرت کے عین مطابق ہے اگر خودی ایسا نہ کرے تو وہ خودی نہ ہو۔ خودی جو چیز پیدا کرنا چاہتی ہے وہ فی الفور پیدا نہیں کرتی بلکہ قدرت اور اختیار کے باوجود اپنے آپ پر لازم کرتی ہے کہ پہلے بہت سے ناکام تجربات کرتی اور نا مکمل تخلیقات کا خون کرتی رہے لیکن آخر کار اس کی تخلیق اس کمال کو پہنچتی ہے جو اس کا مقصود ہوتا ہے۔ اس ظاہری قہر اور اسراف کے بغیر جمال معنوی کی تخلیق اور تکمیل ممکن نہیں ہوتی۔ خودی کی صفات کے مطابق حسن کی تخلیق اور تکمیل کے لئے غیر حسن کی تخلیق اور تباہی ضروری ہے۔ علامہ اقبال اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خود فریبی ہائے او عین حیات
ہمچو گل در خون وضو عین حیات
بہریک گل خون صد گلشن کند
از پئے یک نغمہ صد شیون کند
شعلہ ہائے اور صد ابراہیم سوخت
تا چراغ ایک محمد بر فروخت
عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی
خلق و تکمیل جمال معنوی
صد نیستاں کاشت تا یک نالہ رست
صد چمن خون کرد تا یک لالہ رست
نقشبا آورد و افگند و شکست
تا بلوح زندگی نقش و توبست
نالہ ہا در کشت جاں کاریدہ است
تا نوائے یک اذاں بالیدہ است
مدتے پیکار با اصرار واشت
با خداوندان باطل کار داشت
تخم ایماں آخر اندر گل نشاند
باز بانت کلمہ توحید خواند
ترک و اختیار تخلیق کے لوازمات ہیں
ترک اور اختیار کے اسی عمل کی وجہ سے جو تخلیق کو لازم ہے اور جس کا دارومدار محبت پر ہے۔ اقبال تخلیق کو کسی محبوب کی جستجو سے تعبیر کرتا ہے۔
آفریدن جستجوئے دلبرے
دا نمودن خویش را بر دیگرے
تخلیق و تکمیل کائنات کی غرض سے ترک و اختیار کے اس عمل کا ذکر قرآں حکیم میں ہے:
"یمحو اللہ ما یشاء یثبت و عندہ ام الکتاب" (41)
(خدا اپنی تخلیق میں جس چیز کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب یا لوح محفوظ ہے۔ جس میں یہ بات طے شدہ موجود ہے کہ کیا چیز مٹائی جائے گی اور کیا چیز باقی رکھی جائے گی)
"وربک یخلق ما یشاء و یختار وما کان لھم الخیر۔ سبحن اللہ و تعالیٰ عما یشرکون" (القصص:68 )
(اور تمہارا رب جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور پھر اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے جس چیز کو چاہتا ہے مزید ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچانے کے لئے چن لیتا ہے لیکن ایسا چناؤ ان لوگوں کے بس میں نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو معاذ اللہ انسان خدا کا شریک ٹھہرتا لیکن خدا پاک ہے اور بلند ہے ہر اس چیز سے جسے یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں)
قبول حق کیلئے ترک باطل ضروری ہے
خودی جب اپنے نصب العین کی آزردگی عمل تشفی اور تسکین کرنے لگتی ہے تو اسے معاً معلوم ہونے لگ جاتا ہے کہ کون کون سی چیزیں ہیں جو اس کے نصب العین کی نقیض ہیں اور جن کی آرزو وہ نہیں کر رہی اور جن کا وجود اس کی آرزو کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ باطل باہر سے نہیں آتا بکہ حق کے ساتھ ہی اس کے نقیض کے طور پر خود بخود نمودار ہو جاتاہے یہ ایسا ہی ہے کہ جب ہم ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہوں تو ضروری ہوتا ہے کہ ہم اس کی مخالف سمت کو پیچھے چھوڑتے جائیں حرکت کی فطرت میں ہے کہ اس سے بیک وقت دو سمتیں نمودار ہوتیں ہیں ایک موافق اور دوسری مخالف۔ تخلیق بھی ایک قسم کی حرکت ہے اور اس سے بھی دو سمتیں پیدا ہوتی ہیں ایک موافق اور دوسری مخالف، خودی کے لئے نصب العین کی سمت حق ہے اور نصب العین کے خلاف کی سمت باطل ہے۔ جب خودی نصب العین کی طرف ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو غیر نصب العین کو (جو اس کے نقیض کے طور پر پاس ہی موجود ہوتا ہے) ایک قدم پیچھے چھوڑ جاتی ہے حق کے قبول کو باطل کا ترک لازم آتا ہے اور جس حد تک ہم حق کو قبول نہیں کرتے ہم باطل کو قبول کرتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم حق کو قبول کریں اور باطل کو معاً ترک نہ کریں یا باطل کو قبول کریں اور حق کو معاً ترک نہ کریں۔ روشنی کا تصور تاریکی کے بغیر سچ کا جھوٹ کے بغیر انصاف کا ظلم کے بغیر اور حق کا باطل کے بغیر ممکن نہیں جو شخص سچ انصاف اور حق سے محبت کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ، ظلم اور باطل سے نفرت کرے۔ اسی طرح سے سچائی، انصاف اور حق کی اعانت جھوٹ، ظلم اور باطل کی مخالفت کے بغیر ممکن نہیں۔ خودی کے تخلیقی عمل کے ہر قدم پر جس طرح سے حق یا حسن ایک نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے اسی طرح سے باطل بھی ایک نئی صورت میں اس کے سامنے آتا ہے اور حق یا حسن کی اس شان سے ہمکنار ہونے کے لئے باطل کی اس نئی صورت کو فنا کرنا خودی کے لئے ضروری ہوتا ہے ابلیس باطل کی قوتوں پر مسلط ہے۔ خودی کے لئے ضروری ہے کہ ان قوتوں سے کسی حالت میں بھی صلح نہ کرے بلکہ ان کے بالمقابل اپنی جلالی صفات کا مظاہرہ کرے اور ان کے ساتھ پوری قوت سے نبرد آزما ہو کر ان کو راستہ سے ہٹا دے ورنہ اس کی ترقی اور تکمیل خطرہ میں پڑ جائے گی:
بزم یا دیواست آدم را وبال
رزم یا دیواست آدم را کمال
جلال کی تائید کے بغیر جمال بے اثر اور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ وہ غیر محفوظ اور غیر مکمل سمجھا جاتا ہے۔ جمال کا کمال یہی ہے کہ وہ جلال کے ساتھ ہو ورنہ وہ ناقص ہے اور نقص حسن کا نقیض ہے۔
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
ترا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بیباک
تخریب تعمیر کیلئے ناگزیر ہے
چونکہ کائنات کی تخلیق میں خدا کی صفات جلال و جمال دونوں اپنا کام کر رہی ہیں کائنات میں ربوبیت یا تعمیر اور استیصال یا تخریب بھی دونوں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کار فرما ہیں۔ تخریب تعمیر کی اغراض کے ماتحت اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے عمل میں آتی ہے لہٰذا کائنات کی تعمیر کی طرح تخریب بھی خدا کی محبت اور رحمت اور ربوبیت کی مظہر ہے اور خدا کی صفات جلالی بھی ویسی ہی قابل ستائش ہیں جیسی کہ صفات جمالی، قرآن حکیم میں ایک مقام پر ارشاد ہے کہ جو قوم خدا کے نشانات کو جھٹلایا کرتی تھی۔ خدا نے اسے تباہ کر دیا اور جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیا اور پھر اس کے بعد آیت کا تتمہ ہے کہ سب ستائش اللہ کے لئے ہے جو اہل جہاں کا رب ہے اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس قوم کی ہلاکت بھی خدا کی محبت اور رحمت اور ربوبیت کا مظہر تھی اور یہ وہ صفات ہیں جن کی وجہ سے خدا ستائش کے لائق ہے اس لئے کہ اگر یہ قوم تباہ نہ ہوتی تو تخلیق حسن کے راستہ میں بدستور ایک رکاوٹ بنی رہتی اور پھر کائنات کی ربوبیت اپنے کمال کو نہ پہنچ سکتی۔
"فقطع دابر القوم الذین ظلموا و الحمد للہ رب العلمین۔"
(اور ان لوگوں کی جڑ کٹ گئی جنہوں نے خدا کے نشانات کو جھٹلایا تھا اور سب ستائش اللہ کے لئے ہے جو اہل جہان کا رب ہے)
ایک باغبان اپنے باغ کے حسن کو قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہے کہ درختوں کے نیچے اور کیاریوں میں سے ایسے پودوں کو اکھاڑ کر باہر پھینک دے جو اس کے مقصد کے مطابق نہیں اور غیر ضروری ہونے کے علاوہ ان پودوں اور درختوں کی کھاد اور نمی کو جذب کر لیتے ہیں جن پر باغ کے حسن کا دار و مدار ہے اس کے لئے درانتی کو استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا کہ پودوں کو کھاد اور پانی مہیا کرنا اس کے تخریبی کام کے بغیر اس کا تعمیری کام بار آور نہیں ہو سکتا لہٰذ ا اس کا تخریبی کام بھی قابل ستائش ہے اس نکتہ کو سمجھانے کے لئے مولانا روم ایک درزی کی مثال دیتے ہیں۔
جب ایک درزی کوٹ تیار کرنے لگتا ہے تو کپڑے کو بہت سے ٹکڑوں میں کاٹ دیتا ہے اور پھر بعض ٹکڑوں کو چن لیتا ہے اور بعض کو بیکار سمجھ کر رد کر دیتا ہے اسے بجا طور پر کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے کپڑے کے ایک حصے کو کیوں ضائع کر دیا ہے۔
عمل تخلیق میں حق کے ساتھ باطل نیکی کے ساتھ بدی اور زیبائی کے ساتھ زشتی کا ظہور ضروری رہے
الغرض خودی کی فطرت کی بنا پر جس میں جمال اور جلالی دونوں قسم کی صفات موجود ہیں یہ ضروری ہے کہ جب خودی ایک حسین اور کامل نصب العینی مخلوق کو بتدریجی وجود میں لانے کا عمل شروع کرے تو اس عمل کی ابتدا کے ساتھ ہی حسن کے بالمقابل قبح زیبائی کے بالمقابل زشتی، حق کے بالمقابل باطل اور نیکی کے بالمقابل بدی فوراً موجود ہو جائیں جب تک تخلیق کا آغاز نہ ہو اس وقت تک عملی طور پر معلوم نہیں ہو سکتا کہ کون سی چیز مقصد تخلیق کے مطابق ہے اور کون سی غیر مطابق لہٰذا حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ حسن کیا ہے اور قبح کیا ہے زیبائی کیا ہے، اور زشتی کیا ہے، نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے، خیر کیا ہے اور شر کیا ہے، جب تک شاخ نہ پھوٹتی نہ گل ہوتا ہے اور نہ خار اور جب پھوٹتی ہے تو دونوں نکل آتے ہیں اسی طرح سے جب تک خودی تخلیق کا آغاز نہیں کرتی زشت اور نکو دونوں کا وجود نہیں ہوتا لیکن جب آغاز کرتی ہے تو دونوں خود بخود بیک وقت نمودار ہو جاتے ہیں۔ ورنہ تخلیق جاری ہی نہیں رہ سکتی کیونکہ تخلیق ترک زشت اور اختیار نکو کا ہی نام ہے:
چہ گویم نکتہ زشت و نکو چیست
زبان لرزو کہ معنی پیچ دار است
برون از شاخ بینی خار و گل را
درون او نہ گل پیدا نہ خار است
تخلیق سے روگردانی کفر ہے
انسان جب بھی نیکی اختیار کرتا ہے اور بدی ترک کرتا ہے تو خدا کے مقصد کی تائید کرتا ہے اور خدا کی تخلیق میں شریک ہوتا ہے اگر وہ خدا کی تخلیق میں شریک نہ ہو ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بدی کو اختیار کر لیاہے اور نیکی کو ترک کر دیا ہے اور وہ خدا کے تصور حسن اور مقصد تخلیق کا مخالف ہے ایسے شخص کو اگر کافر یا زندیق کہا جائے تو بالکل بجا ہے:
ہر کہ اورا لذت تخلیق نیست
پیش ماجز کافر و زندیق نیست
لوح محفوظ اور تقدیر
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کائنات کی شعوری یا ذہنی حالت میں جسے قرآن حکیم نے لوح محفوظ یا ام الکتاب یا کتاب مبین یا کتاب محفوظ کہا ہے تخلیق کے امکانات کے تمام سلسلے موجود ہوتے ہیں اور ہر سلسلہ امکانات آزادانہ طور پر ظہور پذیر ہو کر رد یا قبول کئے جانے کے لئے مہیا ہوتا ہے۔ تاہم ان میں سے صرف ایک سلسلہ امکانات ایسا ہوتا ہے جو خدا کے مقصد سے پوری پوری مطابقت رکھتا ہے اور قبول ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی حقیقت کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیق کے آزاد ہونے کے باوجود کیوں قرآن نے فرمایا ہے کہ کوئی خشک یا تر چیز لوح محفوظ سے باہر نہیں ۔
’’ ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین 59‘‘
او رایک حدیث میں ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ لکھا گیا ہے اور اسے لکھنے کے بعد قلم خشک ہو گیا ہے کہ اس سے اور کچھ لکھا نہیں جا سکتا (جف القلم بما ھو کائن)کائنات کی اسی شعوری حالت کو اقبال زمان خالص کہتا ہے اسی زمان خالص کو قرآن حکیم نے تقدیر کا نام بھی دیا ہے۔
اقبال لکھتے ہیں:

’’ زمان خالص جیسا کہ ہمارے شعوری تجربہ کے گہرے تجزیہ سے آشکار ہے الگ الگ رجعت پذیر واقعات کی ایک لڑی نہیں بلکہ ایک عضوی کل ہے جس میں ماضی پیچھے نہیں رہ جاتا بلکہ حال کے ساتھ رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ مستقبل زمان خالص کے لئے ایک طے شدہ حقیقت کے طور پر موجود ہوتا ہے لیکن ان معنوں میں نہیں کہ وہ سامنے پڑا ہوا ہے اور اسے فقط عبور کرنا باقی ہے بلکہ ان معنوں میں کہ وہ اس کی فطرت میں ایک ایسے امکان کی حیثیت سے موجود ہوتا ہے جسے آزادانہ طور پر رد یا قبول کیا جا سکتا ہے۔ جب زمان کو اس طرح سے ایک عضوی کل کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اسی کو قرآن حکیم نے تقدیر کا نام دیا ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے عالم اسلامی کے اندر اور باہر نہایت ہی غلط طور پر سمجھا گیا ہے۔ تقدیر زمان کی وہ حالت ہے جس میں اس کے ممکنات ابھی پردہ خفا سے باہر آئے ہوئے نہیں ہوتے۔‘‘