عربی زبان کے مشاہیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عربی زبان کے مشاہیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

الجاحظ (فيلسوف الأدب الساخر) Al-Jahiz





الجاحظ الكناني هو أبو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب بن فزارة الليثي الكناني البصري (159 هـ-255 هـ) أديب عربي كان من كبار أئمة الأدب في العصر العباسي، ولد في البصرة وتوفي فيها. مختلف في أصله فمنهم من قال بأنه عربي من قبيلة كنانة ومنهم من قال بأن أصله يعود للزنج وأن جده كان مولى لرجل من بني كنانة وكان ذلك بسبب بشرته السمراء وفي رسالة الجاحظ اشتهر عنه قوله أنه عربي وليس زنجي حيث قال: 
الجاحظ : أنا رجل من بني كنانة، وللخلافة قرابة، ولي فيها شفعة، وهم بعد جنس وعصبة 
كان ثمة نتوء واضحٌ في حدقتيه فلقب بالحدقي ولكنَّ اللقب الذي التصق به أكثر وبه طارت شهرته في الآفاق هو الجاحظ، عمّر الجاحظ نحو تسعين عاماً وترك كتباً كثيرة يصعب حصرها، وإن كان البيان والتبيين وكتاب الحيوان والبخلاء أشهر هذه الكتب، كتب في علم الكلام والأدب والسياسية والتاريخ والأخلاق والنبات والحيوان والصناعة والنساء وغيرها.

ابن خلدون (مبدع المقدمة وواضع أساس علم الإجتماع) Ibn Khaldoun







عبد الرحمن بن محمد ، ابن خلدون أبو زيد، ولي الدين الحضرمي الإشبيلي (1332 - 1406م) مؤرخ من شمال افريقيا، تونسي المولد أندلسي الأصل، كما عاش بعد تخرجه من جامعة الزيتونة في مختلف مدن شمال أفريقيا، حيث رحل إلى بسكرة و غرناطة و بجاية و تلمسان، كما تَوَجَّهَ إلى مصر، حيث أكرمه سلطانها الظاهر برقوق ، ووَلِيَ فيها قضاء المالكية، وظلَّ بها ما يناهز ربع قرن (784-808هـ)، حيث تُوُفِّيَ عام 1406 عن عمر بلغ ستة وسبعين عامًا و دُفِنَ قرب باب النصر بشمال القاهرة تاركا تراثا ما زال تأثيره ممتدا حتى اليوم[ ويعتبر ابن خلدون مؤسس علم الاجتماع الحديث واب للتاريخ والاقتصاد.

ابن يونس (عالم الأرصاد) Ibn Yunus





ابن يونس المصري هو أبو الحسن علي بن أبي سعيد عبد الرحمن بن أحمد بن يونس بن عبد الأعلى الصدفي المصري، المولود بمصر حوالي عام 950م والمتوفى بها عام 1009 م. من مشاهير الفلكيين العرب الذي ظهروا بعد البتاني وأبو الوفا البوزجاني وربما كان أعظم فلكيي عصره. سبق جاليليو في اختراع بندول الساعة بعدة قرون. ولنبوغه أجزل له الفاطميون العطاء، وأسسوا له مرصدا على جبل المقطم قرب الفسطاط، وأمره العزيز بالله الفاطمي بعمل جداول فلكية أتمها في عهد الحاكم بأمر الله، ولد العزيز، وسماها  زيج الحاكمي. 
اشتمل هذا الزيج على 81 فصلا وكانت تعتمد عليه مصر في تقويم الكواكب. وقد ترجمت بعض فصول هذا الزيج إلى اللغات الأجنبية. وابن يونس هو الذي رصد كسوف الشمس وخسوف القمر عام 978 في القاهرة، وأثبت فيها تزايد حركة القمر، وحسب ميل دائرة البروج فجاءت أدق ما عرف قبل إدخال الآلات الفلكية الحديثة. وتقديرا لجهوده الفلكية، تم إطلاق اسمه على إحدى مناطق السطح غير المرئي من القمر.

الجاحظ فيلسوف الأ دب الساخر


نشأة الأدب المقـارن

1-    الإرهــاصـــات


من البديهي أن ظهور أي علم من العلوم تسبقه إرهاصات و عوامل ، تكون ممهدة لظهوره أو سببا في نشأته أو في تطوره  أو فيهما معا ، و الأدب المقارن هو من هذه العلوم التي سبقت ظهورها العديد من الإرهاصات ، و ساهمت في نشأتها العديد من العوامل ؛ و يمكن اعتبار الظواهر الأدبية العالمية    و التي من أهمها ظاهرة التأثير و التأثر بين الأداب إحدى أهم تلك الظواهر التي ارهصت لظهور هذا العلم.

و يمكن اعتبار أن أقدم ظاهرة في هذا المجال ، أي : ظاهرة تأثير أدب في أدب آخر ، و أبرزها و أكثرها نتائجا و انتاجا في القديم ، هي  ما حدث بين كل من الأدبين اليوناني و الروماني  من تأثير   و تأثر ، و التي يقول المؤرخون أن بدايتها كانت في عام 146 قبل الميلاد[1] و هي السنة التي غزى فيها الرومانيون اليونانيين و احتلوهم عسكريا ، و لكن هذا الإحتلال العسكري لليونانيين من طرف الرومانيين قد قابله احتلال عكسي و من نوع آخر ، يتمثل في احتلال اليونانيين للرومانيين أدبيا و ثقافيا ، فقد صار كل من الأدب و الفلسفة اليونانيين المرجع الأساس للفلاسفة و الكتاب الرومانيين ، بحيث اصبح الكتاب الرومانيون يحاكون اليونانيين في كل شئ ، فنجد مثلا أن كتاب المسرحيات الرومانيين قد تأثروا بالغ الأثر بالمسرحيين اليونانيين ، فالمسرحي التراجيدي الروماني  ( سينيكا) نجده قد تأثر بالمسرحيين اليونانيين التراجيديين أمثال سوفوكليس و يوريبيديس و  اسخيليوس و حاكاهم و حاكى بعض اساليبهم في المسرح ، و غيره الكثير من الكتاب الرومانيين الذين كان واضحا تأثير الأدب اليوناني في أدبهم . 

اللقاء 1، الأدب المقارن، د. أحمد إبراهيم درويش

د.محمد سلام فى محاضرة عن الأدب المقارن _ قناة النيل للتعليم العالى _

حـيـاة ابـن جِــنّــي ۔ ابو البشر احمد طيب

حياة ابن جني
(الملاحظة :  هذه المقالة جزء قُطف من رسالة الماجستر بعنوان : " مباحث الاعلال و الابدال في سر صناعة الاعراب لابن حنى " التي قدمتها (2014ء) الي الجامعة الاسلامية العالمية. اسلام آباد )

هو أبو الفتح عثمان بن جِنِّي، ولم تذكر كتب التراجم نسباً له بعد جني ولم يعرف من أسرته غير أبيه، وكان أبوه جِنّي روميا يونانيا وكان مملوكا لسليمان بن فهد بن أحمد الأزدي الموصلي .([1]) وينتسب ابن جني أزديا، ويذكر كنيته بأبي الفتح، في كتابه " المنصف شرح تصريف المازني " قال أبو الفتح عثمان بن جني رحمه الله.... ([2]) وعلى الرغم من شهرته بكنيته أبي الفتح لم تذكر المصادر أن له ولداً بهذا الاسم.

ويعرف من شعره أن أصله رومي، فقد قال: ([3])


فإنْ أُصبحْ بلا نَسَبٍ   فَعِلْمِي في الوَرَى نسبي


على أنـي أَؤُول إلـى     قُرومٍ سادةٍ نُجُبِ

قَياصرةٍ إذا نَطقوا       أَرمَّ الدَّهرُ ذو الخُطَبِ

أولاكَ دعا النَّبيُّ لهم     كفى شرفاً دعاءُ نَبي



وجِنِّي([4]) علم رومي ويذكرون أنه مُعرب كِنِّي. وقال ابن ماكولا في كتابه " المؤتلف والمختلف " حكي لي إسمعيل بن المؤمل أن أبا الفتح كان يذكر أن أباه كان فاضلا بالرومية" وظاهر أن ابن جني يريد تفسير اسم أبيه جني الرومي، وأن معناه في العربية: فاضل، وجني تكتب بالحروف اللاتينية ممثلة للفظ اليوناني Gennaius، ومعناه: كريم، نبيل، جيد التفكير، عبقري، مخلص.([5])

سید قطب شہید کی معروف نظم : اخی انت حر وراء السدود کا اردو ترجمہ

مصر کے معروف مصنف اور اخوان المسلمون کے شہید رہنما سید قطب نے قید کے آخری ایام میں ایک خوبصورت ایمان افروز نظم تحریر کی تھی، جس کا دلکش اردو ترجمہ محترم خلیل احمد حامدی صاحب نے قطب شہید کی تصنیف "معالم فی الطریق" کے اردو ترجمہ "جادہ و منزل" میں کیا ہے ۔

أخي أنت حر وراء السدود۔۔۔۔۔۔۔۔ أخي أنت حر بتلك القیود
إذا كنت باللہ مستعصما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فماذا يضيرك كيد العبيد

اے میرے ہمدم تو طوق و سلاسل کے اندر بھی آزاد ہے 
اے میرے دمساز! تو آزاد ہے، رکاوٹوں کے باوجود
اگر تیرا اللہ پر بھروسہ ہے 
 تو اِن غلام فطرت انسانوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں

قدیم جغرافیہ عرب

قدیم جغرافیہ عرب کے ماخذ پر ایک نظر
قدیم جغرافیہ عرب 
عرب کو "عرب" کیوں کہتے ہیں ؟ اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ، "عرب" اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی زبان آوری اور اظہار مافی الضمیر کے ہیں ، چونکہ عرب کی قوم نہایت زباں آور اور فصیح اللسان تھی اس لئے اس نے اپنا نام عرب رکھا ، اور اپنے سوا تمام دنیا کو اس نے عجم یعنی " بے زبان " کے نام سے پکارا، لیکن حقیقت میں یہ صرف نکتہ آفرینی اور دقّت رسی ہے ، دنیا میں ہر قوم اپنی زبان کی اسی طرح جوہری ہے جس طرح عرب ۔

علمائے انساب کہتے ہیں کہ اس ملک کا پہلا باشندہ یعرب بن قحطان ، جو یمنی عربوں کا پدر اعلی ہے ، اس لئے اس ملک کے باشندوں کو اور نیز اس ملک کو عرب کہنے لگے ، لیکن یہ بالکل خلاف قیاس اور معلومات تاریخی کے مخالف ہے ، نہ یعرب اس ملک کا پہلا باشندہ تھا اور نہ لفظ عرب کسی قاعدہ لسانی یمن تھا۔اس لئے سب سے پہلے خود یمن یعنی  جنوبی عرب کو عرب کہنا چاہیئے ، لیکن اس کے برخلاف "عرب " کا لفظ پہلے شمالی عرب کے لئے مستعمل ہوا ۔

اہل جغرافیہ کہتے ہیں اور بالکل صحیح کہتے ہیں کہ "عرب " کا پہلا نام " عربۃ " تھا جو ۔۔ بعد کو عموما " عرب " بولا جانے لگا ، اور اس کے بعد ملک کے نام سے خود قوم کا نام بھی قرار پاگیا چنانچہ شعرائے عرب کے اشعار سے بھی جو عرب کی تنہائی ڈکشنری ہے ، اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔

اسد بن جاحل کہتا ہے۔
وعربۃ ارض جدّ فی الشر اھلھا     کما جدّ فی شرب النقاخ ظماء
ابن منقذ ثوری کا شعر ہے ۔
لنا ابل لم یطمث الذُّل بینھا    بعربۃ ماواھا بقرن فابطھا
ولوا ن قومی طاوعتنی سراتۃ      امرتھم الامر الذی  کان اریحا
اسلام کے بعد بھی یہ نام باقی رہا ، ابو سفیان کلبی رسول اللہ ﷺ کی مدح میں کہتے ہیں۔
ابونا رسول اللہ و ابن خلیلہ      بعربۃ بوَّانا فنعم المرکب
ابوطالب بن عبد المطلب کی طرف جو قصیدہ منسوب ہے ، (گو صحیح نہیں ) اس کا ایک شعر ہے ۔
وعربۃ دار لا یحل حرامھا                 من الناس الا اللوذعی الحلاحل
(ان مذکورہ اشعار کی تفصیل کے لئے دیکھئے معجم البلدان ، یاقوت لفظ" عربۃ ")

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ملک کا نام " عربۃ " کیوں قرار پا یا ؟ اصل یہ ہے کہ تمام سامی زبانوں میں " عربۃ " صحرا ، اور بادیہ کا مفہوم رکھتا ہے ۔ عبرانی میں  "عربا"  یا "عرابۃ " کے معنی بدویت کے ہیں اور اعراب اہل بادیہ اور صحرا نشینوں کے لئے اب تک مستعمل ہے ۔ چونکہ عرب کا ملک زیادہ تر ایک بیابان بے آب گیاہ ہے اورخصوصا وہ حصہ جو حجاز سے بادیۂ عرب و شام اور سینا تک پھیلا ہواہے ، اس لئے اس کا نام "عربا" قرار پایا ، اور پھر رفتہ رفتہ وہاں کے باشندوں کو " عرب " کہنے لگے ۔

قرآن مجید میں لفظ" عرب " ملک عرب کے لئے کہیں نہیں بولا گیا ہے ، حضرت اسمعیل ؑ کی سکونت کے ذکر میں "واد غیر ذی زرع" یعنی " وادی ناقابل کاشت"  کہا گیا ہے۔ اکثر لوگ اس نام  کو عرب کی حالت طبعی کا بیان سمجھتے ہیں ، لیکن اوپر جو حقیقی بیان ہے اس سے واضح ہے کہ یہ لفظ عرب کا بعینہ لفظی ترجمہ ہے ، چونکہ اس عہد میں اس غیر آباد ملک کا کوئی نام نہ تھا اس لئے خود لفظ " غیر آباد ملک " اس کانام پڑگیا ، توراۃ میں بھی اسمعیل ؑ  کا مسکن  " مدبار " بتایاگیا ہے ، جس کے معنی بیابان اور غیر آباد قطعہ کے ہیں اور جو بالکل عرب کا ترجمہ اور"واد غیر ذی زرع " کے مرادف ہے ۔

تورات میں لفظ " عربا" عرب کے ایک خاص قطع زمین کے معنی میں متعدد بار آیا ہے ، لیکن یقینا اس وسعت کے ساتھ اطلاق نہیں ہواہے جس وسعت کے ساتھ اب یہ کیا جاتاہے ، لفظ " عربا" سے صرف و ہ قطعہ زمین مراد لیا گیا ہے جو حجاز سے شام و سینا تک وسیع ہے ۔ (استثنا ) عام ملک عرب کے لئے زیادہ تر مشرق اور مشرق کی زمین کا استعمال ہوا ہے ، اور کبھی جنوب کا ، کیونکہ عرب فلسطین کے مشرق و جنوب دونوں گوشوں میں ہے ۔

لفظ " عرب " سب سے پہلے 1000ق ،م میں حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں سننے میں آتاہے اور پھر اس کے بعد عام طور سے اس کا استعمال عبرانی ، یونانی اور رومانی تاریخوں میں نظر آتاہے اسیریا کے کتبات  میں  800ق ،م  میں عرب کانام " عریبی " لیا گیا ہے ۔ اسلام سے پہلے ہی یہ لفظ پورے ملک کو جو یمن سے شام تک وسیع ہے محیط تھا ۔
عبارت بالا سے ظاہر ہوگا کہ عرب قدیم کے جغرافیہ کے تین ماخذ ہیں ، تورات ، یونان ، و رومان ، اور خود عرب ، اور ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ یہ تین مختلف ماخذتین مختلف زمانوں سے متعلق ہیں ، تورات کا بیان 2500 ق م  سے تقریبا 800ء،  یونان و رومان کا بیان 500 ق م (ہیروڈوٹس ) سے 200ء (بطلیموس ) تک ہے ۔

خود عربوں کے بیانات عرب کے مقامات کے متعلق جو بعہد اسلام مدون ہوئے چند مشہور قبائل کے مقامات سکونت کے سوا (مثلا احقاف  مسکن عاد ،  مدین ،مسکن ثمود ، یمامہ، مسکن طسم و جدیس حجاز مسکن جریم ، یمن مسکن قحطان )عہد مسیح ؑ سے بعد کے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ عرب تصنیف و تالیف سے  آشنا نہ تھے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ "صاحب البیت ادری بمافیہ"۔ عرب کے شعراء کا عام مذاق یہ ہے کہ وہ قصائد میں محبوب کے دیار و مسکن او راپنے سفر کے مقامات و منازل کا تذکرہ  کیا کرتے ہیں ، علمائے اسلام نے ان ہی سے عرب کا جغرافیہ وصفی ترتیب  دیا ہے ۔

( تاریخ  ارض قرآن ، جلد اول ص 66-69،  علامہ سید سلیمان ندویؒ )

مکہ مکرمہ کو قرآن نے " امّ القریٰ"(آبادیوں کی ماں ) کیوں کہا؟

مکہ مکرمہ کو  قرآن نے " امّ القریٰ"(آبادیوں کی ماں ) کیوں کہا؟



اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
 "وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا "(الانعام:92)
"یہی کتاب ہے ہم نے  اس کو نازل کیا ہے ۔برکت والی ہے ۔ تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو اس سے پہلے ہو چکی ہیں تاکہ آپ ڈرئیں(اہل)  ام القری(مکہ )  اور اس کے ارد گرد والوں کو بھی "
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ  اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں  "اُم القریٰ" بستیوں کی اصل اور جڑ کو کہتے ہیں مکہ معظمہ تمام عرب کا دینی اور دنیاوی مرجع تھا اور جغرافیائی حیثیت میں بھی قدیم دنیا کے وسط میں مرکز کی طرف واقع ہے اور جدید دنیا (امریکہ) اس کے نیچے ہے اور روایات حدیث کے موافق پانی سے زمین بنائی گئی تو اول یہی جگہ کھلی تھی۔ ان وجوہ سے مکہ کو "ام القریٰ" فرمایا اور آس پاس سے مراد یا عرب ہے کیونکہ دنیا میں قرآن کے اول مخاطب وہی تھے۔ ان کے ذریعہ سے باقی دنیا کو خطاب ہوا اور یا سارا جہان مراد ہو جیسے فرمایا: لَیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً۔
صاحب تفسیر مظہر ی فرماتے ہیں :  تاریخی روایات  کے مطابق ابتداء آفرینش میں پیدائش زمین کی ابتداء یہیں سے ہو ئی ہے ، نیز سارے عالم کا قبلہ اور عبادت میں مرکز توجہ یہی ہے ۔  سید سلیمان ندوی ( تاریخ ارض القرآن ) میں لکھتے ہیں :
کسی نے کہا  کہ مکہ روحانی مرکز ہےجہاں  روح کی سیرابی کا سامان  فراہم  کیا گیا  ۔ اس لیے اس کو ام القری کہا ، بعض نے کہا قدیم جغرافیہ کے لحاظ سے  یہ زمین کے عین وسط میں واقع ہے ۔ یہ شہر دنیا کی تہذیبوں کا سنگم تھا  اس کی ایک طرف مصری ، رومی ، یونانی تہذیب تھی  اور دوسری طرف کلدانی ، ایرانی اور ہندی  تہذیب تھی ۔بہر حال  جو بھی اسباب ہو،  تاریخ کی روشنی میں ہم  اس کا  تفصیلا جائزہ لیں گے ۔
تاریخ نے عرب میں چار بار  انسانی طوفان  آتے دیکھا ۔ایک حضرت مسیح سے ڈھائی  یا تین ہزار سال پہلے ،  پھر ایک طوفان پانچ سو سال  قبل مسیح اٹھا جو نسبتا کم تھا ۔ تیسری بار معینی اور سبائی قبائل اٹھے اور پھیلے ،سب سے آخری  انسانی سونامی   جو پہلی صدی ہجری میں چھٹی صدی  عیسوی کے  بعد اٹھا  سب سے زیا دہ پر زور ،  وسیع الاثر تھا  جو ایک   طرف ہندوستان کے درو دیوار سے ٹکرایا تو دوسری طرف  بحر ظلمات تک جا پہنچا ۔
مؤرخ ابن قتیبہ  جس نے 276 ھ میں وفات پائی ہے لکھتے ہیں :
" سام بن نوح نے درمیانی زمین :  مکہ ،  اطراف مکہ مثلا : یمن، حضر موت،  عمان ، بحرین ، سیرین ، وبار ، دو ،دہنا  تک آباد ہو ا۔"
اسی طرح مؤرخ  یعقوبی،  جو ابن قتیبہ کے معاصر ہے  لکھتے ہیں : "فرزندان سام کے قبضے میں حجاز ،یمن اور باقی ملک آیا ۔"