ايام العرب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ايام العرب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سنہرا اسلامی دور: عربوں نے کس طرح یورپ میں کاغذ متعارف کروایا ؟

(28 اگست 2020 بی بی سی اردو )

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہر بار جب آپ ’رِم‘ سے کاغذ نکال کر کمپیوٹر پرنٹر میں ڈالتے ہیں تو اس ایک عمل کے دوران ایک اعتبار سے آپ خطاطی یا لکھائی کی لگ بھگ دو ہزار سال پر محیط تاریخ کا سفر طے کر لیتے ہیں۔

کاغذ دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے چین میں ایجاد ہوا تھا۔ لیکن کاغذ کے لیے مستعمل انگریزی زبان کا لفظ ’پیپر‘ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں کی طرح مصر میں پائے جانے والے ایک آبی پودے یا سرکنڈے کے یونانی اور لاطینی نام ’پپائرس‘ سے نکلا ہے۔

قدیم جغرافیہ عرب

قدیم جغرافیہ عرب کے ماخذ پر ایک نظر
قدیم جغرافیہ عرب 
عرب کو "عرب" کیوں کہتے ہیں ؟ اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ، "عرب" اعراب سے مشتق ہے جس کے معنی زبان آوری اور اظہار مافی الضمیر کے ہیں ، چونکہ عرب کی قوم نہایت زباں آور اور فصیح اللسان تھی اس لئے اس نے اپنا نام عرب رکھا ، اور اپنے سوا تمام دنیا کو اس نے عجم یعنی " بے زبان " کے نام سے پکارا، لیکن حقیقت میں یہ صرف نکتہ آفرینی اور دقّت رسی ہے ، دنیا میں ہر قوم اپنی زبان کی اسی طرح جوہری ہے جس طرح عرب ۔

علمائے انساب کہتے ہیں کہ اس ملک کا پہلا باشندہ یعرب بن قحطان ، جو یمنی عربوں کا پدر اعلی ہے ، اس لئے اس ملک کے باشندوں کو اور نیز اس ملک کو عرب کہنے لگے ، لیکن یہ بالکل خلاف قیاس اور معلومات تاریخی کے مخالف ہے ، نہ یعرب اس ملک کا پہلا باشندہ تھا اور نہ لفظ عرب کسی قاعدہ لسانی یمن تھا۔اس لئے سب سے پہلے خود یمن یعنی  جنوبی عرب کو عرب کہنا چاہیئے ، لیکن اس کے برخلاف "عرب " کا لفظ پہلے شمالی عرب کے لئے مستعمل ہوا ۔

اہل جغرافیہ کہتے ہیں اور بالکل صحیح کہتے ہیں کہ "عرب " کا پہلا نام " عربۃ " تھا جو ۔۔ بعد کو عموما " عرب " بولا جانے لگا ، اور اس کے بعد ملک کے نام سے خود قوم کا نام بھی قرار پاگیا چنانچہ شعرائے عرب کے اشعار سے بھی جو عرب کی تنہائی ڈکشنری ہے ، اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔

اسد بن جاحل کہتا ہے۔
وعربۃ ارض جدّ فی الشر اھلھا     کما جدّ فی شرب النقاخ ظماء
ابن منقذ ثوری کا شعر ہے ۔
لنا ابل لم یطمث الذُّل بینھا    بعربۃ ماواھا بقرن فابطھا
ولوا ن قومی طاوعتنی سراتۃ      امرتھم الامر الذی  کان اریحا
اسلام کے بعد بھی یہ نام باقی رہا ، ابو سفیان کلبی رسول اللہ ﷺ کی مدح میں کہتے ہیں۔
ابونا رسول اللہ و ابن خلیلہ      بعربۃ بوَّانا فنعم المرکب
ابوطالب بن عبد المطلب کی طرف جو قصیدہ منسوب ہے ، (گو صحیح نہیں ) اس کا ایک شعر ہے ۔
وعربۃ دار لا یحل حرامھا                 من الناس الا اللوذعی الحلاحل
(ان مذکورہ اشعار کی تفصیل کے لئے دیکھئے معجم البلدان ، یاقوت لفظ" عربۃ ")

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ اس ملک کا نام " عربۃ " کیوں قرار پا یا ؟ اصل یہ ہے کہ تمام سامی زبانوں میں " عربۃ " صحرا ، اور بادیہ کا مفہوم رکھتا ہے ۔ عبرانی میں  "عربا"  یا "عرابۃ " کے معنی بدویت کے ہیں اور اعراب اہل بادیہ اور صحرا نشینوں کے لئے اب تک مستعمل ہے ۔ چونکہ عرب کا ملک زیادہ تر ایک بیابان بے آب گیاہ ہے اورخصوصا وہ حصہ جو حجاز سے بادیۂ عرب و شام اور سینا تک پھیلا ہواہے ، اس لئے اس کا نام "عربا" قرار پایا ، اور پھر رفتہ رفتہ وہاں کے باشندوں کو " عرب " کہنے لگے ۔

قرآن مجید میں لفظ" عرب " ملک عرب کے لئے کہیں نہیں بولا گیا ہے ، حضرت اسمعیل ؑ کی سکونت کے ذکر میں "واد غیر ذی زرع" یعنی " وادی ناقابل کاشت"  کہا گیا ہے۔ اکثر لوگ اس نام  کو عرب کی حالت طبعی کا بیان سمجھتے ہیں ، لیکن اوپر جو حقیقی بیان ہے اس سے واضح ہے کہ یہ لفظ عرب کا بعینہ لفظی ترجمہ ہے ، چونکہ اس عہد میں اس غیر آباد ملک کا کوئی نام نہ تھا اس لئے خود لفظ " غیر آباد ملک " اس کانام پڑگیا ، توراۃ میں بھی اسمعیل ؑ  کا مسکن  " مدبار " بتایاگیا ہے ، جس کے معنی بیابان اور غیر آباد قطعہ کے ہیں اور جو بالکل عرب کا ترجمہ اور"واد غیر ذی زرع " کے مرادف ہے ۔

تورات میں لفظ " عربا" عرب کے ایک خاص قطع زمین کے معنی میں متعدد بار آیا ہے ، لیکن یقینا اس وسعت کے ساتھ اطلاق نہیں ہواہے جس وسعت کے ساتھ اب یہ کیا جاتاہے ، لفظ " عربا" سے صرف و ہ قطعہ زمین مراد لیا گیا ہے جو حجاز سے شام و سینا تک وسیع ہے ۔ (استثنا ) عام ملک عرب کے لئے زیادہ تر مشرق اور مشرق کی زمین کا استعمال ہوا ہے ، اور کبھی جنوب کا ، کیونکہ عرب فلسطین کے مشرق و جنوب دونوں گوشوں میں ہے ۔

لفظ " عرب " سب سے پہلے 1000ق ،م میں حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں سننے میں آتاہے اور پھر اس کے بعد عام طور سے اس کا استعمال عبرانی ، یونانی اور رومانی تاریخوں میں نظر آتاہے اسیریا کے کتبات  میں  800ق ،م  میں عرب کانام " عریبی " لیا گیا ہے ۔ اسلام سے پہلے ہی یہ لفظ پورے ملک کو جو یمن سے شام تک وسیع ہے محیط تھا ۔
عبارت بالا سے ظاہر ہوگا کہ عرب قدیم کے جغرافیہ کے تین ماخذ ہیں ، تورات ، یونان ، و رومان ، اور خود عرب ، اور ایک عجیب اتفاق یہ ہے کہ یہ تین مختلف ماخذتین مختلف زمانوں سے متعلق ہیں ، تورات کا بیان 2500 ق م  سے تقریبا 800ء،  یونان و رومان کا بیان 500 ق م (ہیروڈوٹس ) سے 200ء (بطلیموس ) تک ہے ۔

خود عربوں کے بیانات عرب کے مقامات کے متعلق جو بعہد اسلام مدون ہوئے چند مشہور قبائل کے مقامات سکونت کے سوا (مثلا احقاف  مسکن عاد ،  مدین ،مسکن ثمود ، یمامہ، مسکن طسم و جدیس حجاز مسکن جریم ، یمن مسکن قحطان )عہد مسیح ؑ سے بعد کے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ عرب تصنیف و تالیف سے  آشنا نہ تھے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ "صاحب البیت ادری بمافیہ"۔ عرب کے شعراء کا عام مذاق یہ ہے کہ وہ قصائد میں محبوب کے دیار و مسکن او راپنے سفر کے مقامات و منازل کا تذکرہ  کیا کرتے ہیں ، علمائے اسلام نے ان ہی سے عرب کا جغرافیہ وصفی ترتیب  دیا ہے ۔

( تاریخ  ارض قرآن ، جلد اول ص 66-69،  علامہ سید سلیمان ندویؒ )

مکہ مکرمہ کو قرآن نے " امّ القریٰ"(آبادیوں کی ماں ) کیوں کہا؟

مکہ مکرمہ کو  قرآن نے " امّ القریٰ"(آبادیوں کی ماں ) کیوں کہا؟



اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
 "وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا "(الانعام:92)
"یہی کتاب ہے ہم نے  اس کو نازل کیا ہے ۔برکت والی ہے ۔ تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو اس سے پہلے ہو چکی ہیں تاکہ آپ ڈرئیں(اہل)  ام القری(مکہ )  اور اس کے ارد گرد والوں کو بھی "
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ  اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں  "اُم القریٰ" بستیوں کی اصل اور جڑ کو کہتے ہیں مکہ معظمہ تمام عرب کا دینی اور دنیاوی مرجع تھا اور جغرافیائی حیثیت میں بھی قدیم دنیا کے وسط میں مرکز کی طرف واقع ہے اور جدید دنیا (امریکہ) اس کے نیچے ہے اور روایات حدیث کے موافق پانی سے زمین بنائی گئی تو اول یہی جگہ کھلی تھی۔ ان وجوہ سے مکہ کو "ام القریٰ" فرمایا اور آس پاس سے مراد یا عرب ہے کیونکہ دنیا میں قرآن کے اول مخاطب وہی تھے۔ ان کے ذریعہ سے باقی دنیا کو خطاب ہوا اور یا سارا جہان مراد ہو جیسے فرمایا: لَیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً۔
صاحب تفسیر مظہر ی فرماتے ہیں :  تاریخی روایات  کے مطابق ابتداء آفرینش میں پیدائش زمین کی ابتداء یہیں سے ہو ئی ہے ، نیز سارے عالم کا قبلہ اور عبادت میں مرکز توجہ یہی ہے ۔  سید سلیمان ندوی ( تاریخ ارض القرآن ) میں لکھتے ہیں :
کسی نے کہا  کہ مکہ روحانی مرکز ہےجہاں  روح کی سیرابی کا سامان  فراہم  کیا گیا  ۔ اس لیے اس کو ام القری کہا ، بعض نے کہا قدیم جغرافیہ کے لحاظ سے  یہ زمین کے عین وسط میں واقع ہے ۔ یہ شہر دنیا کی تہذیبوں کا سنگم تھا  اس کی ایک طرف مصری ، رومی ، یونانی تہذیب تھی  اور دوسری طرف کلدانی ، ایرانی اور ہندی  تہذیب تھی ۔بہر حال  جو بھی اسباب ہو،  تاریخ کی روشنی میں ہم  اس کا  تفصیلا جائزہ لیں گے ۔
تاریخ نے عرب میں چار بار  انسانی طوفان  آتے دیکھا ۔ایک حضرت مسیح سے ڈھائی  یا تین ہزار سال پہلے ،  پھر ایک طوفان پانچ سو سال  قبل مسیح اٹھا جو نسبتا کم تھا ۔ تیسری بار معینی اور سبائی قبائل اٹھے اور پھیلے ،سب سے آخری  انسانی سونامی   جو پہلی صدی ہجری میں چھٹی صدی  عیسوی کے  بعد اٹھا  سب سے زیا دہ پر زور ،  وسیع الاثر تھا  جو ایک   طرف ہندوستان کے درو دیوار سے ٹکرایا تو دوسری طرف  بحر ظلمات تک جا پہنچا ۔
مؤرخ ابن قتیبہ  جس نے 276 ھ میں وفات پائی ہے لکھتے ہیں :
" سام بن نوح نے درمیانی زمین :  مکہ ،  اطراف مکہ مثلا : یمن، حضر موت،  عمان ، بحرین ، سیرین ، وبار ، دو ،دہنا  تک آباد ہو ا۔"
اسی طرح مؤرخ  یعقوبی،  جو ابن قتیبہ کے معاصر ہے  لکھتے ہیں : "فرزندان سام کے قبضے میں حجاز ،یمن اور باقی ملک آیا ۔"