مشاہیر عالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر عالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

تقي الدين المقريزي (شيخ المؤرخين) Al-Maqrizi

عمر الخيام (حجة الرياضيين) Omar Khayyam

ياقوت الحموي (الجغرافى الآديب) Yaqut al-Hamawi

محمد بن الإدريسي (أطلس العرب) Muhammad ibn el-Idrisi

ابن الشاطر (فلكى العرب) Ibn al-Shatir

زرياب (قيثارة الحضارة) Ziryab

الحسن بن الهيثم (أمير الظل والنور) Ibn al-Haytham

الحضارة الاسلامية و العلم Islamic civilization and science

الدميري (عبقرى حياة الحيوان الكبرى) Kamal eldin El Demiry

أبو الحسن المسعودي (رحالة فى مروج التاريخ) Abu al Hasan al Mas'udi

يعقوب بن إسحاق الكندي (فيلسوف العرب) Al-Kindi

جابر بن حيان (أبو الكيمياء) Jabir ibn Hayyan

سيبويه (إمام النحاة) Sibawayh

أبو نصر محمد الفارابي (الفيلسوف الموسيقي) ...

محمد بن موسى الخوارزمي (أبو الرياضيات) Muḥammad ibn Musa al-Khwarizmi









أبو عبد الله محمد بن موسى الخوارزمي عالم مسلم يكنى باسم الخوارزمي وأبو جعفر قيل أنه ولد حوالي 164هـ 781م (وهو غير مؤكد) وقيل أنه توفي بعد 232 هـ أي (بعد 847م) وقيل توفي سنة 236 هـ. يعتبر من أوائل علماء الرياضيات المسلمين حيث ساهمت أعماله بدور كبير في تقدم الرياضيات في عصره. [3] اتصل بالخليفة العباسي المأمون وعمل في بيت الحكمة في بغداد وكسب ثقة الخليفة إذ ولاه المأمون بيت الحكمة كما عهد إليه برسم خارطة للأرض عمل فيها أكثر من 70 جغرافيا، وقبل وفاته في 850 م/232 هـ كان الخوارزمي قد ترك العديد من المؤلفات في علوم الفلك والجغرافيا من أهمها كتاب الجبر والمقابلة الذي يعد أهم كتبه وقد ترجم الكتاب إلى اللغة اللاتينية في سنة 1135م وقد دخلت على إثر ذلك كلمات مثل الجبر Algebra والصفر Zero إلى اللغات اللاتينية.

أبو بكر الرازى (أمير الأطباء) Abu Bakr Al Razi



أبو بكر محمد بن يحيى بن زكريا الرازي عالم وطبيب فارسي (ح. 250 هـ/864 م - 5 شعبان 311هـ/19 نوفمبر 923 م)، ولد في مدينة الري. وهو أحد أعظم أطباء الإنسانية على الإطلاق كما وصفته زجريد هونكه في كتابها شمس الله تسطع على الغرب حيث ألف كتاب الحاوي في الطب كان يضم كل المعارف الطبية منذ أيام الإغريق حتى عام 925م وظل المرجع الطبي الرئيسي في أوروبا لمدة 400 عام بعد ذلك التاريخ .

الجاحظ فيلسوف الأ دب الساخر


بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار

تعارف اور ترجمہ: قیصر شہزاؔد


باروخ یا بینے ڈکٹ اسپینوزا ۲۴ نومبر ۱۶۳۲ء کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈم کے یہودی محلے میں پیدا ہوئے۔ 
بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار 
ان کے آباؤ اجداد وہاں پرتگیزی مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے منتقل ہوئے تھے۔ پہلے چھ میں سے چار درجوں تک ابتدائی تعلم مقامی  یہودی دینی مدرسے میں حاصل کی ۱۶۵۰ ءسے ۱۶۵۴ءکے درمیان کسی وقت وہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں داخل ہوئے جہاں لاطینی کے ساتھ وہ  دیکارت کے فلسفے سے بھی متعارف ہوئے۔اسپینوزا کا تعلق ایک دیکارتی عالم اور مذکورہ ادارے کے بانی فرانسسکس فان ڈین اینڈن (۱۶۰۲ء۔۱۶۷۴ء) کے حلقہء فکر سے تھا جس میں کئی عقلیت پسند اور صحائفِ مقدسہ کے ناقد شامل تھے۔ 

یہودی راسخ العقیدگی سے مخالف نظریات رکھنے کی بنا ء پریہودیوں نے ۲۷ جولائی ۱۶۵۶ءکو اسپینوزا کا مذہبی مقاطعہ کردیا۔ بعض مصادر کے مطابق ان نظریات میں خدا کے شارع اور یہودیوں کے منتخب قوم ہونے سےانکار شامل تھا۔ مقاطعے کے کچھ عرصہ اور رسالہء اصلاحِ فکر (Treatise on the Emendation of Intellect) مکمل کرنے کے بعد ۱۶۶۱ ءمیں اسپینوزا ایک اور شہر رینسبرگ( Rijnsburg )منتقل ہوگئے وہاں انہوں نے اپنی کتاب اصول فلسفہء دیکارت (Descartes’ Principles of Philosophy) کا پہلا حصہ ایک شاگرد کو املاء کرایا۔۱۶۶۱ء سے ۱۶۶۲ ءکے درمیان ہی انہوں نے ولندیزی زبان میں خدا، انسان اور اس کی فلاح پرمختصر رسالہ (Short Treatise on God, Man and his Well-Being)تحریر کیا۔

یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل

بیسویں صدی اگر کسی مفکر کے نام سے منسوب ہو سکتی ہے تو وہ بلا شبہ کارل مارکس ہیں۔کیا اکیسویں صدی میں بھی اسی طرح ان کے افکارکی آب و تاب بر قراررہ سکتی ہے؟

5۔مئی کو دنیا بھر میں مارکس(1818-1883) کا یومِ پیدائش منایاگیا۔زمانی اعتبار سے ان کا تعلق انیسویں صدی سے تھا۔تاہم ان کافکری ظہورصحیح معنوں میں بیسویں صدی میں ہوا۔یہ وہی تھے جن کے افکار نے سرمایہ داری کے خلاف ایک جوابِ دعویٰ ترتیب دیا اور ایک عالم نے اسے قبول کرلیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اشتراکیت نے سرمایہ داری کو لگام ڈالی ورنہ وسائل کا ارتکازشاید اس سے کہیں بد ترین صورت اختیار کر لیتاجتنا آج دکھائی دیتاہے۔اس لیے مارکس جیسا جلیل القدر مفکر یقیناً یہ استحقاق رکھتا ہے کہ اسے پس ِمرگ بھی یاد کیا جائے ۔

جو لوگ دوسروں کے لیے جیتے اور عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں،وہ عالمِ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہوتے ہیں۔تاہم کسی کی عظمت کے اعتراف سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اس کے افکار سے بھی پوری طرح اتفاق رکھتے ہو۔اسی لیے مارکس کی تحسین کے باوجود ،علم کی دنیا میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مارکس ازم اکیسویں صدی میں بھی عالمِ انسانیت کو متبادل فکری ڈھانچہ فراہم کر سکتا ہے؟ 

بیسویں صدی میں ،جب دنیا کے ایک بڑے حصے نے اشتراکیت کوبطورمتبادل نظامِ فکر وریاست قبول کر لیا تواشتراکیت کے نئے مظہر،مارکس ازم، کو یہ موقع ملا کہ وہ عالمِ انسانیت کے لیے اپنی عملی افادیت ثابت کرے۔سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں وہ لوگ برسرِ اقتدار آئے جواس نظامِ فکر کو ایک نظام ِ ریاست میں ڈھالنے کے لیے پُر جوش تھے۔تجربہ سے دنیا نے یہ دریافت کیا کہ یہ جبر کا بدترین نظام ہے جو اشتراکی ریاستوں میں بسنے والوں کا مقدر بنا ہے۔لینن اور سٹالن جیسے لوگوں کے نام ان کی فہرست میں شامل ہوئے جن کے ہاتھ لاکھوں انسانوں کا لہو سے رنگین تھے۔اشترکیت نے جو تصورِ انقلاب دیا،تشدد اس کا جزوِ لاینفک تھا۔

دوسری طرف سرمایہ داری نے چولا بدلا اور خود کو اشتراکی چیلنج کا سامنا کر نے کے لیے تیار کیا۔سرمائے کے ساتھ محنت کی قدر کو کسی حد تک قبول کیا۔فلاحی ریاست کے تصورکو تسلیم کرتے ہوئے، کم ازکم اجرت کا تعین کیا۔جمہوریت کو اختیار کرتے ہوئے،عام آدمی کو مشورے میں شریک کیا اور یوں اس جبر کا خاتمہ کر دیا جو انقلاب کی بنیاد بن سکتا تھا۔مارکسسٹ اسے سرمایہ داری کی ایک چال قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ سرمایہ دار نے دراصل غریب طبقات کے ساتھ دھوکہ کیا اور یوں اس انقلاب کے امکانات کو سبو تاژ کیا جو دنیا میں وسائل کی مساوی تقسیم کا نقیب تھا۔

ممکن ہے یہ چال ہو لیکن اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک کامیاب چال تھی۔اس کے ساتھ جب اشتراکیت بھی کوئی متبادل دینے میں ناکام رہی تو دنیا نے بڑی حد تک سرمایہ داری نظام پر اتفاق کر لیا۔میرا احساس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں لچک کا ہونا‘ ارتقا کو قبول کر نا اور اس کے ساتھ متبادل کا نہ ہونا ،وہ عوامل ہیں جنہوں نے دنیا کو مجبور کیا کہ وہ سرمایہ داری کو بطور نظام قبول کر لیں۔آج اس امرِ واقعہ سے انکار ممکن نہیں کہ پوری دنیا بالفعل سرمایہ داری پر ایمان لا چکی ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں استحصال شامل ہے۔آج اس نے انسانی ذہانت کو قید کر کے اپنی خدمت پر لگا رکھا ہے۔دنیا کے ذہین ترین لوگ، بالواسطہ یا بلا واسطہ، اس پر مامور ہیں کہ سرمایہ دار کو دولت جمع کرنے کے حربے سکھائیں،اس کے لیے دلائل تراشیں اور اس حیلہ سازی کا معاوضہ پائیں۔علوم کی تشکیل بھی ایسے خطوط پر کی گئی ہے کہ وہ سرمایہ داری کے خدام کا کردار ادا کریں۔اس پس منظر میں عالمِ انسانیت کو یقیناً ایک متبادل کی ضرورت ہے۔یہ متبادل مگر مارکس ازم نہیں ہو سکتا۔

اس کے اسباب متنوع ہیں۔یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔صرف اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ مارکس ازم یا اشتراکیت انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔سماجی علوم میں اشتراکیت یا مادیت کے زیرِ اثر جو نظریات پیش کیے گئے اور جن کے تحت انسانی فطرت کی تشکیل کو خارجی اور سماجی عوامل کے تابع ثابت کیاگیا،وہ تاریخ اور عقل کی کسوٹی پر پورا نہیں اترے۔انسانی فطرت آفاقی اصولوں پر قائم ہے۔انسانی رویوں پر خارجی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں مگر فطرتِ انسانی کا جوہر زمان و مکان سے ماورا ہے۔یہی جوہر ہے جس نے نہ تو سرمایہ داری نظام کو پوری طرح قبول کیا اور نہ اشتراکیت کو۔

اس کی ایک معقول وجہ ہے۔سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں اصلاً مادی تصورات ہیں۔یہ انسان کو اوّ ل و آخر ایک مادی وجود قرار دیتے ہیں۔یوں ان کا وظیفہ صرف مادی مطالبات کا جواب فراہم کر نا ہے۔انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک مادی وجود نہیں رکھتا۔اس کا ایک اخلاقی وجود بھی ہے۔اس کے اپنے مطالبات ہیں جو مادی مطالبات کے علاوہ ہیں۔مادیت پر مبنی نظام ہائے فکر اگرچہ اخلاقیات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ اس کی بنیاد بھی مادی وجود میں تلاش کرتے ہیں۔جیسے 'ہیومن ازم ‘پر مبنی نظام ِ اخلاق جو دراصل کسی افادیت پسند (Utilitarianism) تصور پر کھڑا ہے۔انسان کاتاریخی ا ور نفسیاتی مطالعہ ،اس کے بر خلاف یہ بتا تا ہے کہ انسانی اخلاقیات کا ماخذ کہیں اور ہے۔ 

اگر یہ مقدمہ درست ہے تو انسان کو کسی ایسے نظامِ فکر کی ضرورت ہے جواسے مادی ہی نہیں، ایک اخلاقی اور روحانی وجود بھی تسلیم کرتا ہو۔اخلاقی وجود کا استحکام، کسی تصورِ خدا کے بغیر ممکن نہیں۔یہ صلاحیت صرف مذہب میں ہے جوانسان کو ایک 'پورا آدمی‘ تصور کرتے ہوئے،اس کو اپنا مخاطب بناتا ہے۔اسلام مذہب کی جدید ترین،مکمل،سب سے ترقی یافتہ اور آخری شکل ہے۔گویایہی ایک ایسے نظام کی بنیاد بن سکتا ہے جو سرمایہ داری کے عذاب سے انسان کو بچا سکے۔

اگر یہ مقدمہ درست ہے تو اس سے ایک سوال پیدا ہو تا ہے:اہلِ مذہب کو بھی بیسویں صدی میں مواقع ملے۔وہ کیوں کوئی متبادل دینے میں ناکام رہے؟اس کا ایک ہی جواب دیا جا تا ہے کہ وہ مذہب کے خود ساختہ تصورات پر مبنی تجربات تھے۔قصور مذہب کا نہیں، تفہیمِ مذہب کا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہی عذر ہے جو مارکس ازم کے علم بردار بھی پیش کرتے ہیں۔وہ لینن یا سٹالن کو مارکس ازم کاحقیقی نمائندہ نہیں سمجھتے۔ان کے خیال میں مارکس کے افکار ہنوز کسی تجربہ گاہ کی تلاش میں ہیں۔

علم کی دنیا میں یہ بحث جاری رہے گی۔میرے نزدیک انسان کی فطرت سے ہم آہنگ نظام ِ فکر وہی ہے جو پیغمبروں کا تجویز کردہ ہے۔انسان اپنی عقل سے جو سوچ سکتا تھا،اس کے حیران کن مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔جدید سیاسی افکار اور ریاستی تجربات بھی اس کی مثال ہیں۔ان کے بہت سے پہلو انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں جن کی وجہ سے ان کی عالمگیر پزیرائی ہوئی ہے جیسے جمہوریت۔اگر ان میں انسان کے اخلاقی وجود کا اثبات شامل ہوجائے تو یہ انسانی دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔جس طرح علامہ اقبال نے 'روحانی جمہوریت‘ کی بات کی تھی۔اگر چہ خود انہوں نے اس تصور کی وضاحت نہیں کی لیکن ان کے علمی کام سے جو مفہوم اخذ ہوتا ہے،وہ یہی ہے کہ جمہوریت میں اگر انسانوں کے سامنے جواب دہی کے ساتھ، خدا کے حضور میں جواب دہی کا احساس شامل ہو جائے تواس سے ایک پرامن معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔

مارکس ازم سے اختلاف کے باوجود،مارکس کی عظمت کا اعتراف ،میں اپنے لیے واجب سمجھتا ہوں۔برسوں پہلے ،اقبال نے ہم جیسے لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایاتھا: 
صاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیل
یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل


(خورشید ندیم ، کالم نگار روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت،  7 مئی 2018 )