بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار

تعارف اور ترجمہ: قیصر شہزاؔد


باروخ یا بینے ڈکٹ اسپینوزا ۲۴ نومبر ۱۶۳۲ء کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈم کے یہودی محلے میں پیدا ہوئے۔ 
بینے ڈکٹ اسپینوزا اور ان کے فلسفیانہ افکار 
ان کے آباؤ اجداد وہاں پرتگیزی مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے منتقل ہوئے تھے۔ پہلے چھ میں سے چار درجوں تک ابتدائی تعلم مقامی  یہودی دینی مدرسے میں حاصل کی ۱۶۵۰ ءسے ۱۶۵۴ءکے درمیان کسی وقت وہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں داخل ہوئے جہاں لاطینی کے ساتھ وہ  دیکارت کے فلسفے سے بھی متعارف ہوئے۔اسپینوزا کا تعلق ایک دیکارتی عالم اور مذکورہ ادارے کے بانی فرانسسکس فان ڈین اینڈن (۱۶۰۲ء۔۱۶۷۴ء) کے حلقہء فکر سے تھا جس میں کئی عقلیت پسند اور صحائفِ مقدسہ کے ناقد شامل تھے۔ 

یہودی راسخ العقیدگی سے مخالف نظریات رکھنے کی بنا ء پریہودیوں نے ۲۷ جولائی ۱۶۵۶ءکو اسپینوزا کا مذہبی مقاطعہ کردیا۔ بعض مصادر کے مطابق ان نظریات میں خدا کے شارع اور یہودیوں کے منتخب قوم ہونے سےانکار شامل تھا۔ مقاطعے کے کچھ عرصہ اور رسالہء اصلاحِ فکر (Treatise on the Emendation of Intellect) مکمل کرنے کے بعد ۱۶۶۱ ءمیں اسپینوزا ایک اور شہر رینسبرگ( Rijnsburg )منتقل ہوگئے وہاں انہوں نے اپنی کتاب اصول فلسفہء دیکارت (Descartes’ Principles of Philosophy) کا پہلا حصہ ایک شاگرد کو املاء کرایا۔۱۶۶۱ء سے ۱۶۶۲ ءکے درمیان ہی انہوں نے ولندیزی زبان میں خدا، انسان اور اس کی فلاح پرمختصر رسالہ (Short Treatise on God, Man and his Well-Being)تحریر کیا۔


 اس وقت تک وہ فلسفہء دیکارت کے پیرو ، شارح اور ایک ماہر عدسہ ساز کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔ اس شہر میں جہاں اسپینوزا کا قیام رہا اسے عجائب گھر کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ ۱۶۶۳ ءمیں یہاں سے اسپینوزا ہیگ کے قریب فوربرگ(Voorburg) نامی گاؤں منتقل ہوئے یہاں انہوں نے ۱۶۶۳ میں شائع ہونے والی کتاب اصولِ فلسفہء دیکارت اور مابعد الطبعیاتی افکار(Cogitata Metaphysica) مکمل کی اور اپنے شاہکار اخلاقیات (Ethics)پر کام کا آغاز کیا۔ ۱۶۶۵ءمیں رسالہء الہٰیات و سیاسیات (Tractatus Theologico-Politicus)لکھنے کا آغاز کیا۔ آخر کار ۱۶۶۹ءیا ۱۶۷۰ ءمیں وہ ہیگ منتقل ہوگئے یہاں انہوں نے ۱۶۷۰ءمیں یہ کتاب رسالہء الہیات و سیاسیات شائع کی جسے فوراً ہی ملحدانہ قرار دے کرپابندی لگادی گئی۔۱۶۷۳ءمیں اسپینوزا کو ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں نشستِ فلسفہ سنبھالنے کی پیشکش کی گئی مگر اسے انہوں نے ٹھکرا دیا۔

 ان کی سب سے بڑی کتاب اخلاقیات ۱۶۷۵ءمیں اشاعت کے لیے تیار تھی مگر مخالفانہ افواہوں کے ڈرسے اسے ان کی زندگی میں شائع نہ کیا گیا۔۱۶۷۶ءمیں مشہور جرمن فلسفی لائبنز ان سے ملنے آئے۔ البتہ اسپینوزا کو لائبنز کے متعلق کچھ شکو ک و شبہات تھے جس کی بنا پر انہو ں نے اپنے ایک دوست کو انہیں اپنی تحریریں دکھانے سے منع کردیا ۔ اسپینوزا کے شاگردو ں اور علمی مصاحبین کی کوئی کمی نہ تھی۔ جن لوگوں سے ان کی علمی اور فکری خط و کتابت رہی ان میں رائل سوسائٹی کے پہلے سیکرٹری اور سترہویں صدی یورپ کے ممتازدانشور ہنری اولڈنبرگ (۱۶۱۹ء۔ ۱۶۷۷ء) اور سمون ڈی وریز (۱۶۳۳ء۔ ۱۶۶۷ء) شامل ہیں ۔

اسپینوزا نے۲۱ فروری ۱۶۷۷ ء کو چوالیس سال کی عمر میں وفات پائی۔

ماخذ [Charles Jarrett, Spinoza: Guide for the Perplexed]

اسپینوزا کی شخصیت:

اسپینوزا کی وفات کے بعدتقریباً ایک صدی تک ان کے متعلق کسی بھی اچھے خیال کا اظہار کرنا جرم سمجھا جاتا رہا۔ ناقدین کا عام رجحان ان کی شخصیت و کردار کے متعلق ان کی آراء کی روشنی میں منفی اندازے قائم کرکے ان پر یقین کرنے کا ہی رہا۔ لہذا ایسے لوگوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ خیر و شر کی اضافیت اور عالمگیر جبریت پر یقین رکھنے والے کسی شخص کے پاس اچھا کردار رکھنے کا آخر محرک ہی کیا ہوسکتا ہے؟ اٹھارہویں صدی کےاختتام تک عام رائے دوسری انتہاء تک جا چکی تھی اور لوگوں نے اسپینوزا کے ’’خدا کی عقلی محبت‘‘ کے تصور پر زور دے کر انہیں عشقِ خداوندی میں ڈوبا ہو ا ایک ولی(God-intoxicated Saint) قرار دینا شروع کردیا تھا ۔ 

البتہ اگر ہم اسپینوزا کی زندگی کے اہم وقائع اور انہیں ذاتی طور پر جاننے والے لوگوں کی تحریری شہادتوں کی جانب متوجہ ہوں تو یہ بات یقینی طور پر سامنے آتی ہے کہ وہ فلسفیوں میں نفیس اور عمدہ ترین شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کا غالب جزو ان کا نصب العین صداقت کی جستجو تھا جس کی خاطر وہ کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہ کرتے تھے۔ اس سے نہ تو انہیں رشوت کے ذریعے روکا جاسکا نہ دھمکیوں کے ذریعے۔ اور اپنی آسائشوں کو انہوں نے بہت سہولت سے فقط اسے لیے تج دیا کہ انہیں کتابوں کے لیے رقم اور مطالعے کے لیے فرصت دستیاب ہوسکے۔ ان کے لیےکوئی بات اس دعوے سے زیادہ اہانت آمیز نہ تھی کہ ان کے فلسفیانہ خیالات نیکی کی زندگی کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔ 

انہوں نے بار بار اپنے دوستوں پر ان کی آراء دوسروں تک پہنچانے میں نیک نیتی سے کام لینے کا کہا (دیکھئے مختصر رسالہ، اختتامی کلمات) نیک نیتی اور اچھا کردار ان کی نظر میں اہم ترین چیزیں تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ اگر ترک (یعنی مسلمان) اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے فرائض بجا لائیں اور دوسروں کا احترام کریں تو وہ بھی روحِ مسیح سے بھرپور ہیں ۔ مسیح ؑ کو وہ انسانیت کا اعلیٰ ترین نمونہ قرار دیتے تھے۔ دولت اور مناصب کی ان کی نزدیک کوئی حیثیت نہ تھی لہذا انہوں نے ایک بڑی یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر کی نشست قبول کرنے سے انکار کردیا۔ 

لیکن شخصی طور پر بے پروا ہونے کے باوجود وہ سرد مہر یا متکبر نہ تھے۔ جس نے بھی ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا انہوں نے آگے بڑھ کر اسے قبول کیا ۔ وہ کئی ایسے سطحی علم رکھنے والے لوگوں کے ساتھ تعامل نے ناقابلِ یقین حد تک برداشت اور صبر کا مظاہر کرنے والے تھے جو اپنی فکری مشکلات لے کران کے پاس آتے۔ جب اسپینوزا کا مقاطعہ کیا گیا تو ان پر کئی الزامات لگائے گئے لیکن ان میں سے ایک بھی اخلاقی نوعیت کا نہ تھا۔

اسپینوزا، بہر حال، کوئی ولی نہ تھے اور تھپڑ مارنے والے کو دوسرا گال پیش کردینے پر بالکل ایمان نہ رکھتے تھے۔ نہ ہی وہ دنیا سے نفرت کرنے والے تھے۔ اپنے زمانے کے تکفیریوں کے جواب میں وہ سخت بات بھی کرنا جانتے تھے۔ وہ اپنے جذبات کے زیرِ اثر اس سے بہت زیادہ آسکتے تھے جتنا کہ ان کے فلسفے سے ان کی شخصیت کشید کرنے والوں کا خیال ہے۔ غیراخلاقی کردار رکھنے اوربلاجواز شک کرنے والوں پر وہ شدید غصہ میں آجایا کرتے۔ اپنے سادہ طرزِ زندگی کے باوجود وہ کوئی راہب نہ تھے اور معقولیت کی حدود میں زندگی کی مسرتوں اور تفریحات کے خلاف نہ تھے۔ 

انہیں یہ سمجھ نہ آتا کہ رونا بسورنا خدا کو کیونکر پسند ہو سکتا ہے ۔فلسفے کی طرف وہ مسرت کی تلاش میں ہی متوجہ ہوئے تھے نہ کہ دیکار ت کی طرح اپنے زمانے کے علوم پر مطمئن نہ ہونے کے باعث۔

(ماخوذ از وولف: ۱۹۱۰)

اسپینوزا کی تحریریں اور زیرِنظر کتاب:

اسپینوزا کی زندگی میں ان کی فقط دو کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے فقط ایک ان کے اپنے نام سے تھی: اصول ِ فلسفہ ء دیکارت ،دیکارت کی مبادیاتِ فلسفہ کے ایک حصے کی ہندسی انداز (Geometrical Method) میں تعبیرو تشریح پر مشتمل تھی جبکہ رسالہء الہیات و سیاسیات پر کسی مصنف کا نام درج نہ تھا۔اول الذکر کتاب کا مقصد دیکارت کے فلسفے کی تشریح کرنا تھا جس کے ساتھ اسپینوزا کے اختلافات اس زمانے (یعنی ۱۹ سال کی عمر)سے ہی تشکیل پانے لگے تھے لہذا انہی موضوعات پر خود اپنے فلسفیانہ افکار کی طرف اشارہ اسی کے ساتھ شائع ہونے والی کتاب مابعد الطبعیاتی افکار میں کیا۔ 

رسالہءالہیات و سیاسیات کا مقصد اپنے ترقی یافتہ فلسفے کو ظاہر کرنے سے پہلے لوگوں کے ذہنوں کو تعصبات سے پاک کرنا تھا لیکن اس پر سامنے آنے والے شدید مذہبی ردِ عمل کے باعث یہ خواب پور ا نہ ہوسکا۔ اس رسالے کے الہیاتی حصے میں درجِ ذیل مباحث پر گفتگو کی گئی ہے: نبوت اور انبیاء؛ عبرانیوں کا مشن اور کیا نبوت انہی کے ساتھ خاص ہے؟ ؛شریعت؛بائبل کی داستانو ں پر کس درجے کا ایمان رکھنا ضروری ہے؟ ؛تفسیرِ صحائف؛ عہدنامہء قدیم کی تاریخی تنقید؛ صحائف ِ انبیاء کا استناد وغیرہ ۔ اس کتاب کے تیرہویں باب کا عنوان کچھ یوں ہے: ’’یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ صحائف فقط بنیادی نوعیت کی سادہ باتوں کی تعلیم دیتے ہیں اور فرمانبرداری کے علاوہ کسی شے کی تلقین نہیں کرتے اور خدا کی حقیقت کے متعلق اتنا ہی بتاتے ہیں جتنا انسان ایک معین ضابطہ حیات کی رہنمائی میں قبول کرسکے‘‘۔

اگر الہٰیات کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس عنوان میں اسپینوزا کے فلسفے کے بنیادی مقصد کی جانب ایک اہم اشارہ ملتا ہے: صحائفِ مقدسہ میں موجود تصورِ خدا کی سادگی کے باعث فلسفیانہ بنیادوں پر نئے تصور کی تشکیل۔ مذکورہ کتاب میں سیاست کے حوالے سے ریاست کی بنیادوں ، افراد کے فطر ی اور شہری حقوق، اقتدارِ اعلیٰ کےاصول، مذہبی ریاست کی ناکامی کے اسباب، تاریخِ یہود سے اخذ کردہ چند سیاسی اصول اور آزادیء فکر پر گفتگو کی گئی ہے۔

ان کی وفات کے بعد شائع ہونے والے مجموعہ تصانیف(Opera Posthuma) میں رسالہء اصلاحِ فکر، اخلاقیات: ہندسی طرز پر ثابت شدہ اور رسالہء سیاست شامل تھے۔ زیرِ نظر کتاب مختصر رسالہ ۱۸۵۱ء میں دریافت کیا گیا۔

رسالہء اصلاحِ فکر جو اسپینوزا کی سب سے پہلی تحریر ہے یہ کتاب دیکارت کے مشہور مقدمے منہج کا بیان کی طرز پر خود نوشت سوانحی انداز میں لکھی گئی ہے اس میں مقصد و منہجِ تحقیق کو اخلاقی سیاق میں زیرِ بحث لایا گیا ہے اور زیادہ تر نظریہ ءعلم کے سوالات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس مختصر مگر نامکمل رسالے میں اسپینوزا نے تمام علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مقصد ’’اعلیٰ ترین مسرّت کا حصول‘‘ بتلایا ہے جس کےلیے عقل کی اصلاح اور تزکیے کا کوئی منہج تلاش کرنا ضروری ہے ۔

اسپینوزا کا شاہکار اخلاقیات ہے جسے عقلِ انسانی کا عظیم ترین کارنامہ کہا جاتا ہے ۔ یہ کتاب انہوں نے ۱۶۶۰ءسے ۱۶۷۵ءتک کے عرصے میں مکمل کی۔ یہ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے جن کے عنوانات کچھ یوں ہے: 

۱) خدا
۲)ذہن کی نوعیت اور اصل
۳)انفعالات کی حقیقت اور منبع
۴) انسانی پابندی یا انفعالات کی طاقت
۵)قوتِ عقل یا انسانی آزادی۔

ان میں سے ہر حصہ مختلف ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب کے موضوع کو ہندسی طریقے پر زیرِ بحث لایا گیا ہے ۔ آغاز میں بنیادی اصطلاحات کی تعریفیں پیش کی گئی ہیں اور ان میں سے بعض کی وضاحتیں بھی دی گئی ہے(مثلاً’’جوہر سے میری مراد وہ ہے جو اپنی ذات میں ہو اور بذریعہ خود جانا جائے‘‘ حصہ اول ، تیسری تعریف)، مسلّمات (مثلاً’’جن اشیا ء میں کچھ بھی باہم مشترک نہ ہو انہیں ایک دوسرے کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا۔۔۔‘‘حصہ اول: پانچواں مسلمہ )اور ان قضایا(مثلاً’’جوہر فطرتا اپنے نتائج سے پہلے ہوتا ہے‘‘ حصہ اوّل: قضیہ ۱) کی فہرست اور ثبوت(مثلاً’’یہ بات تیسری اور پانچویں تعریفوں سے واضح ہے‘‘ ) دیئے جاتے ہیں جن کو سامنے لانا مصنف کا بنیادی مقصد ہے۔ 

آخر میں کچھ ضمنی نتائج بھی ذکر کردیئے جاتے ہیں (مثلاً’’چنانچہ یہ واضح ہے کہ جوہر کو کوئی اور شے پیدا نہیں کرسکتی‘‘حصہ اول، ساتواں قضیہ، ضمنی نتیجہ)

اس کتاب کی مرکزی اہمیت کے باوجود ترجمے کے لیے اسے منتخب نہ کرنے کی دو وجوہات ہیں ایک اس کی طوالت اور دوسرا اس کا ہندسی اندازِ تحریر جو اس انداز سے ناواقف قارئین کے لیے مطالعے کو تھکا دینے والا بنا دیتا ہے۔ اس کے برعکس مختصر رسالہ اپنے نام کی طرح مختصر بھی ہے، اسپینوزا کے مخصوص فلسفیانہ افکار کے جامع تعارف پر مشتمل بھی ہے۔ اور اگرچہ اسے ہندسی انداز میں ترتیب نہیں دیا گیا پھر بھی بعض مقامات (مثلاً حصہ اول کے پہلے باب کے آغاز اور حصہ دوم کے آخری باب کےاختتام پر)پر اس اندازِ تقدیم کی ایک جھلک بہرحال نظرآجاتی ہے۔ اس میں نہ صرف اخلاقیات میں زیرِ بحث لائے گئے موضوعات سے شناسائی مل جاتی ہے بلکہ نظریہء علم پر لکھے گئے رسالہء اصلاحِ فکر کی بھی۔فلسفہء اسپینوزا کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مختصر رسالہ اخلاقیات کےمقدّمے اور خلاصے کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسپینوزا کے فلسفیانہ افکار:

۱) جوہر کی مابعد الطبعیات :

 اگرچہ عام طور پر جدید مغربی فلسفے کی تواریخ میں اسپینوزا کو خود سے پہلے دیکارت اور اپنے بعد لائبنز کے ہمراہ براعظمی عقلیت پسندوں میں شامل کیا جاتا ہے کئی محققین یہ دعوی کرنے میں بھی حق بجانب معلوم ہوتے ہیں کہ مکمل طور پر ان کی اس طرح درجہ بندی نہیں کی جاسکتی کیونکہ ان پرازمنہء وسطی ٰکے عیسائی فلسفے اور یہودی الہیات اور روحانیت کا واضح اثر دکھائی دیتا ہے۔ ان محققین میں نمایا ں ترین ہارورڈ یونیورسٹی کے بے مثال عالم ہیر ی آسٹرن وولف سن (۱۸۸۷۔۱۹۷۴)ہیں جنہوں نے اسپینوزا کے فلسفے کی تشریح میں دو جلدو پر مبنی ایک مبسوط کتاب شائع کی اور اسپینوزا کو دیکارت کے پیرو کے بجائے عصورِ وسطیٰ کے آخری بڑے فلسفی کے طور پر پیش کیا ۔ان نظریہء علم سے تعارف میں ہم اسپینوزا کے فلسفے میں تجریبیت سے ملتی جلتی کچھ آراء کا ذکر کریں گے۔

دیکارت کی کتاب مبادیاتِ فلسفہ کے ترجمے سے پہلے دیئے گئے تعارف میں ہم نےتحریر کیا تھا:

’’ مابعد الطبعیات کی کچھ مزید تفصیل میں جائیے تو جوہر [substance] کا تصور ایک ایسا محور تصور کیا جاسکتا ہے جس کے حوالے سے جدید مغربی فلسفے کے ارتقاء کو آسانی اور دلچسپی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ مابعد الطبعیاتی زاویہء نگاہ سے دنیا کو دو سطحوں کی اشیاء پر مشتمل دیکھا گیا جن میں سے کچھ بنیادی حیثیت کی جبکہ دیگر ثانوی حیثیت کی حامل اور اول الذکر اشیاء پر منحصر قرار دی گئیں ۔ سیب کا رنگ اور ذائقہ، اس کی خوشبو اور گولائی جیسی صفات کی حیثیت ثانوی ہے جبکہ بنیادی حیثیت ان سب سے وراء خود سیب کی ہے جس کے بغیر ان میں سے کوئی صفت تصور نہیں کی جاسکتی۔ اب جوہر کے متعلق کئی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور جدید فلسفیوں کو ان کے جوابات کےحوالے سے ایک عمومی فکری نقشے میں ایک مخصوص مقام دیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ اگر جوہر موجود ہے تو وہ کتنی تعداد میں پایا جاتا ہے اور اس کی نوعیت ذہن کی سی ہے یا مادی؟ دیکارت نے حتمی طور پر فقط دو طرح کے جواہر، جسم اور ذہن کا اقرار کیا لائبنز نے جواہر کی تعدادکو تو لامحدود قراردیا لیکن ان کے عام معنوں میں مادی ہونے کا انکار کیا ۔ اسپینوزا کے نزدیک جوہر صرف ایک ہے اور وہ خدا ہےاور جسم و ذہن دونوں اس واحد جوہر کی صفات ہیں ۔‘‘ (مبادیاتِ فلسفہ حصہ اول، پہلی قسط)

جوہر کو صرف ایک اور خدا قراردینا اسپینوزا کے فلسفے کا مرکزی اور اہم ترین نقطہ ہے۔ آئیے اس کی وجوہات، مضمرات اور اہمیت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :

نظریہ وحدانیتِ جوہر کو بہتر سمجھنے کے لیے اس کا موازنہ ہم اس کے برعکس تصور سے کرتے ہیں یہ تصور ہمیں روزمرہ زندگی میں بھی ملتا ہے اور فکروفلسفے کی دنیا میں بھی ہم اسے مختلف شکلوں میں دیکھتے ہیں ۔ اگرچہ روز مرہ زندگی میں ہم جوہر کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے لیکن پھر بھی ہمارا عمومی زاویہ ء نگاہ جو ہر کے وجود کے اثبات اور جواہر کی کثرت پر مبنی ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہم میں سے ہر شخص یہ مانتا ہے کہ وہ ایک مستقل وجود رکھتا ہے جوکسی اور شے کے وجود سے بالکل الگ تھلگ ہے اور ا گر باقی سب کچھ فنا بھی ہوجائے تو اس کا فوراً فنا ہوجان لازمی نہیں۔ اسی طرح ہمارے سامنے موجود مادی اشیاء ایک دوسری سے مستقل وجود رکھتی ہیں ۔ اسی طرح جو لوگ ہماری طرح فرشتوں یا دیگر غیر مادی موجودات پر ایمان رکھتے ہیں ان کے نزدیک ہر فرشتہ اگرچہ غیر مادی ہے لیکن ایک مستقل ذات ہے۔ یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام جواہر مادی نہیں بلکہ کئی جواہر روحانی بھی ہے۔ اس بنیادی وجدان کو فلسفہء قدیم میں مادے اور صورت کی ثنویت کی شکل دی گئی ۔ نظامِ موجودات میں اعلیٰ ترین کو ’’صورتِ بے مادہ‘‘ اورادنی ٰ ترین کو ’’بے صورت مادہ (ہیولیٰ)‘‘ کہہ دیا گیا اور باقی تمام موجود ات کو مقدارِ مادہ یا صورت کے اعتبار سے ان دونوں کے درمیان جگہ دی گئی۔ چونکہ بے مادہ صورت کو خدا سے مساوی قرار دیا گیا لہذا یہ ثنویت خدا اور کائنات کی ثنویت میں بھی ڈھل گئی۔ جواہر کی ثنویت کی اگلی اہم ترین مثال جسے اسپینوزا کا فوری فکری سیاق سمجھا جا سکتا ہے دیکارت کے ہاں ملتی ہے جس کے مطابق جوہر یا تو امتداد والی شے ہوسکتی ہے یا سوچنے والی۔ لہذا انسان ان دو جواہر ، روح اور جسم ، کا پراسرار مجموعہ ہے۔ (دیکھئے مبادیاتِ فلسفہ،حصہ اول: §۵۳)اب یہ ثنویت جس شکل میں بھی پیش کی جائے، چاہے وہ خالص مادے اور خالص صورت کی ہو، مادی کائنات اور غیر مادی خدا کی ہو یا روح اور جسم کی ہو اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ایک ہی ہے: ایک دوسرے سے کلیتاً مختلف اور جدا جواہر کا اشتراک ِ کارکیسے ہوتا ہے؟ جس طرح کسی زندہ شخص کا ایک بھوت کو چھولینا تصور نہیں کیا جاسکتا اسی طرح یہ تصور کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ خالص صورت خالص مادے کے ساتھ کیسے جڑ گئی؟ غیر مادی خدا نے مادے کو کیسے پیدا کیا؟ اور ہماری روح ہمارے جسم کو کیسے حرکت میں لاتی اور کس طرح اس سے متاثر ہوتی ہے؟

جواہر کی کثرت کاتصور اپنی مشکل سمیت سمجھ لینے کے بعداب یہ جاننا چاہیے کہ اس کثرت سے وحد ت تک کا فکری سفر اسپینوزا نے کیسے طے کیا۔ یہ سمجھنے کے لیے اگر ایک نظر فلسفہء قدیم اور دیکارت کے ہاں جوہر کی تعریف اور اس کے اطلاقات پر ڈالی لی جائے تو معاملہ آسان ہوسکتا ہے۔ازمنہء وسطیٰ کے فلسفیوں کے مطابق ’’جوہر وہ ہے جو اپنی ذات میں ہو نہ کہ کسی موضوع میں ‘‘ دیکارت کے نزدیک جوہر وہ شے ہے ’’جو اپنے وجود میں کسی اور کی محتاج نہ ہو۔‘‘ مبادیاتِ فلسفہ ، حصہ اوّل، §۵۱) پرانے فلسفے میں جوہر کی اس تعریف کے بعد ان اشیاء کی فہرست دی جاتی تھی جن پر ’’جوہر ‘‘ کی اصطلاح کا اطلاق کیا جانا چاہیے: مادّہ، صورت، جزئی شے، روح اور عقولِ مجردہ۔ اب ان فلسفیوں کا عمومی نقطہء نظر یہ تھا کہ خدا کو جوہر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اگرچہ وہ اپنی ذات میں ہے اسے باقی موجودا ت کے ساتھ کسی اصطلاح کے تحت شامل کردینا نامناسب ہے۔اگرچہ دیکارت نے خدا کے جوہر کہلائے جانے سے کلّی انکار نہیں کیا پھر بھی انہوں نے یہ ضرور کہا کہ’’’جوہر‘‘ کا اطلاق ایک ہی مفہوم میں خدا اور دیگر اشیاء پر نہیں ہوسکتا یعنی اس اصطلاح کا ایسا کوئی معقول مفہوم نہیں جو خدا اور اس کی مخلوقات کے مابین مشترک ہو۔‘‘ (مبادیاتِ فلسفہ،حوالہ ء سابق)اب اسپینوزا کے لیےجو فلسفے کو ریاضیاتی قطعیت کے ساتھ دیکھتے ہیں یہ صورتِ حال ناقابلِ قبول ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ۱) اگر جوہروہ ہے جو اپنی ذات میں ہو اور کسی اور میں نہ ہو یا کسی اور کا محتاج نہ ہو اور۲) خدا اپنی ذات میں ہے اور کسی اور میں یاکسی اور پر محتاج نہیں تو ان دو مقدمات سے لازمی اور ناگزیرنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا جوہر ہے۔ دوسرے یہ کہ جن اشیا ء پر جوہر کا اطلاق کیا جاتا ہے وہ حقیقت میں جواہر نہیں ہوسکتیں ۔ اگر مٹھاس اس لیے جوہر نہیں کہ وہ اپنے وجود میں سیب کی محتاج ہے تو سیب بھی تو مکان(space) کے بغیر نہیں پایا جاسکتا۔اور کیا کوئی شے خدا کے بغیر تصور کی جاسکتی ہے؟ لہذا اسپینوزا کی فراہم کردہ جوہر کی تعریف سے قطع نظر وحدانیتِ جوہر اور خدا کے جوہر ہونے کاتصور خود پہلے سے موجود تعریفوں کے ٹھیک ٹھیک اطلاق سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اگر جوہر فقط ایک ہے جوکہ خدا ہے تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ جوہر کا درجہ صرف خدا کے ساتھ خاص کردینے سے سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اشیاء جنہیں ہم جواہر سمجھے بیٹھے تھے ان کی کیا حیثیت ہے؟ تفصیل سے قطع نظر ، حقیقی جوہر(خدا) کی نسبت سے ان کی وہی حیثیت ہوگی جو ہم صفات، اعراض اور خواص کو دیتے ہیں ۔ لہذا اگر خدا جوہر ہے تو باقی سب کچھ اس کے ساتھ صفت اور اعراض کی حیثیت سے منسلک ہے۔ جس طرح کسی میٹھی’’ شے‘‘ کے باہر مٹھاس کا کوئی وجود نہیں اسی طرح اس فلسفے کی روشنی میں خدا سے باہر کوئی کائنات نہیں ۔ آئیے اب ہم اسپینوزا کی اخلاقیات (حصہ اوّل و دوم) سے ماخوذ بعض اقتباسات کی روشنی میں اس خاکے میں رنگ بھرتے ہیں :

حصہ اول:

تعریف۳۔ ’’جوہر ‘‘سے میری مراد وہ ہے جو اپنی ذات میں ہو اور اپنی ذات کے ذریعے جانا جائے۔۔

تعریف۴: ’’صفت‘‘ سے میری مراد وہ ہے جسے عقل جوہر کی ماہیت تشکیل دینے والےکی حیثیت سے ادراک کرے۔

تعریف ۵: ’’طور‘‘(mode) سے میری مراد جوہر کے تغیرات ہیں یعنی وہ جو کسی اور شے میں ہو اورکسی اور شے کے ذریعے جاناجائے۔

تعریف ۶: ’’خدا سے میری مراد ایک مطلقا ًلامتناہی ذات ہے یعنی ایک ایسا جوہر جو لامتناہی صفات کا حامل ہے جن میں سے ہر ایک ابدی اور لامتناہی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔

ان تعریفات کی روشنی میں ہمیں اسپینوزا کے تصوّرِ حقیقت کا عمومی نقشہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اسپینوزا کے مطابق تمام وجود تین درجوں پر مشتمل ہے جن میں سے بنیادی حیثیت فقط پہلے کی ہے۔

۱۔ جوہر: لامتناہی صفات کا حامل خدا

۲: صفات: فکر اور امتداد

۳: اطوار: صفات کی تخصیصات: حرکت اور سکون؛ جزئیات: مادی اشیاء، اذہان، جزئی افکار وغیرہ

اس سے پہلے کہ ہم یہ دیکھیں کہ جو مشکل ثنویت کو درپیش تھی یہ تصورِ حقیقت اسے کیسے حل کرتا ہے ’’طور‘‘ یا ’’اطوار‘‘کی اصطلاح کو سمجھنے کی کوشش کرتےہیں کیونکہ اسپینوزا کی تحریروں میں ہمار ا اس سے بار بار سامنا ہوگا(اگرچہ ہم دیکارت کے ہاں بھی اسے دیکھ چکے ہیں )۔ وہی سیب کی مثا ل ایک بار پھر لیتے ہیں ۔ عمومی نظریے کے مطابق سیب خود تو جوہر ہےلیکن ’’رنگ‘‘ اس کی ایک صفت ہے اگر یہ پوچھا جائے کہ فلاں سیب کا رنگ کیاہے تو جو خاص رنگ(سرخ یا سبز) جواب میں ذکر کیا جائے گا اسےفلسفے کی زبان میں رنگ کی صفت کا ایک طور[mode] یعنی انداز کہا جائے گا۔ یعنی سیب کے رنگین ہونے کا خاص انداز۔ یہ انداز ’’سرخ ہونا ‘‘بھی ہوسکتا ہے اور ’’سبز ہونا‘‘ بھی۔ اب اگر خدا جوہر ہے اور فکر اس کی صفت تو میرا ذہن اس صفت کا ایک طور ہے اور اسی طرح حرکت صفتِ امتداد کا ایک طور یا انداز ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ یہاں ہم بات کو آسان رکھنے کی کوشش میں اسپینوزا کے کئی انواع پر مشتمل پیچیدہ نظامِ اطوار کو کچھ زیادہ سادہ بنا کر پیش کررہے ہیں ۔تفصیلات کے شائق قارئین اس نظام کا ایک نقشہ یہاں دیکھ سکتے ہیں ۔

مزید یہ کہ چونکہ اسپینوزا نے صفت کی اصطلاح کے مفہوم کو امتداد اور فکر تک محدود کردیا لہذا روایتی صفاتِ خداوندی (مثلاً قدرتِ مطلقہ، یا علم)کو انہوں نے ’’خواص‘‘ کا نام دیا۔ مختصر رسالے کے باب ہفتم میں ان کے متعلق بتاتے ہیں کہ ایک خاصیت وہ ہے ’’جو ایک شے سےتعلق تو یقینا رکھتی ہیں مگر یہ نہیں بتاتیں کہ وہ شے ہے کیا‘‘

اب مادہ وصورت؍خدا وکائنات؍جسم و ذہن کے درمیان اشتراکِ کار کے مسئلے کی جانب آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اسپینوزا اسے کیسے حل کرتے ہیں ۔ جسم و روح کامسئلہ تو واضح طور پر دیکارت کے بعد سامنے آتا ہے لیکن خدا اور کائنات کے درمیان دوری سے نجات اور روحانی خدا سے مادی کائنات کے صدور کو قابلِ فہم بنانے کے لیے عقولِ عشرہ کا تصور پیش کیا گیا تھا جس کے مطابق کائنات خدا کی براہِ راست تخلیق ہونے کی بجائے ان عقول کے ذریعے صادر ہوئی اور خدا سے براہِ راست فقط عقلِ اول کا صدور ہوا لیکن ایک لمحے کا توقف ظاہر کردیتا ہے کہ اس حیلے سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے آگے منتقل ہوجاتاہے لہذا جو سوال پہلے کائنات اور خدا کے متعلق پیدا ہوا اب وہی سوال مادی کائنات اور عقلِ اول کے حوالے سے پیدا ہوجاتا ہے۔لہذا یہ مسئلہ لاینحل رہ جاتا ہے چنانچہ اسپینوزا نے اسے حل کرنے کے لیے ایک خطرناک قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا:بڑی جراء ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نےفکر کے ساتھ امتداد کو بھی خدا کی ایک صفت قرار دے دیا(مختصر رسالہ ، دوسرا باب) لہذا اب امتداد کی صفت کے حامل جوہر سے مادی اشیاء (جن کی جوہر کی حیثیت بہر حال نہیں مانی گئی )کا پیدا ہونا ناقابلِ فہم نہیں رہتا۔ البتہ اسپینوزا اپنے اس نقطہء نظر کو سادہ تجسیم کے مساوی قرار دینے پر تیار نہیں : ’’کچھ لوگ خدا کو ایک انسان کی مانند تصور کرتے ہیں جو جسم اور ذہن پر مشتمل اور انفعالات کے تابع ہےلیکن ہم اب تک جو ثابت کرآئے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ خدا کے متعلق صحیح علم سے کس قدر دور بھٹک رہے ہیں ۔ میں انہیں رد کرتا ہوں کیونکہ حقیقتِ خداوندی پر غور کرنے والے سب لوگ خدا کے جسمانی ہونے سے انکار کرتے ہیں ۔ اس بات کا قائل کردینے والا ثبوت یہ لوگ اس حقیقت میں پاتے ہیں کہ جسم سے مراد لمبائی، چوڑائی اور گہرائی پر مشتمل ایسی کمیت ہے جو متعین شکل سے محدود ہو؛ اور اس سے زیادہ نامعقول کوئی صفت خدا سے منسوب نہیں کی جاسکتی جو کہ مطلقاً لامتناہی ذات ہے(اخلاقیات، حصہ اول،پندرہواں قضیہ)[i]

جسم و ذہن کے حوالے سے اسی بات کی تطبیق یہ ہے کہ چونکہ جسم اور ذہن دو الگ جواہر نہیں بلکہ ایک ہی جوہر کی دو صفات کے مختلف انداز ہیں لہذا ان کی حیثیت ایک سکے کے دو رخوں کی سی رہ جاتی ہے اور ان کی جوہری ثنویت کے ساتھ ہی ان کے اشتراک کا مسئلہ بھی غائب ہوجانا چاہیے۔ اب حقیقت میں ایسا ہوتا ہے یا نہیں ؟ فی الوقت ہمیں اس سے بحث نہیں ظاہر ہے اسپینوزا کے زمانے سے آج تک بے شمار ماہرینِ الہٰیات اور فلسفیوں اس نظریے کی کمزوریوں (اور خوبیوں)کی جانب اشارہ کرچکے ہیں جو جدید فلسفے کی تواریخ اور اسپینوزا پر لکھی گئی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔[ii] یہ ذکر کردینا بھی مفید ہوگا کہ بیسویں صدی کے مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل نے جسم و ذہن کا مسئلہ حل کرنے کے لیے جو نظریہ[ غیرجانبدارانہ واحدیت] پیش کیا وہ بھی اسپینوزا کے نظریے سے ملتا جلتا تھا اگرچہ اول الذکر نے خدا یا جوہر کا تصور اپنے نظریے کا حصہ نہیں بنایا۔

ہم نے سوانحی خاکے میں یہودیوں کی جانب سے اسپینوزا کے مقاطعے کا ذکر کیا تھا۔ ان کے تصورِ خدا اور کائنات پر نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ عیسائی اور مسلم الٰہیات کے نکتہء نظر سے بھی یہ نظریات قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔مثال کے طور پر ’’تمام اشیاء فطرت کے ذریعے باہم متحد ہیں لہذا وہ سب ایک کُل ،یعنی خدا ، تشکیل دیتی ہیں‘‘ (بائیسواں باب) لیکن جدید فلسفے میں اسپینوزا کی اہمیت کے علاوہ یہی وہ مباحث ہیں جو کلامی سوالات اور مذہب و فلسفہ کے تعلق سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے ان کے مطالعے کو دلچسپ اور متعلق بناتے ہیں ۔

۲) نظریہ ء علم ، نفسیات، فلسفہء اخلاق اور تنقیدِ منطق:

مختصر رسالے کا دوسرے حصے میں انسان سے متعلق چھبیس ابواب پرمشتمل مباحث ہیں جن میں سے ہم یہاں دس منتخب ابواب کا ترجمہ پیش کررہے ہیں ہم نے سات ایسے ابواب منتخب کیے ہیں جن میں نظریہء علم کے تما م ضروری خد وخال آجاتے ہیں اس کے علاوہ ارادہ، انفعالات اور آزادی کے متعلق اسپینوزا کے مخصوص افکار کی نمائندگی کرنے والے تین ابواب بھی شامل کیے ہیں ۔

اسپینوزا کی مابعدالطبعیات کے مذکورہ بالا خلاصے خصوصا ً ان کے نقشہ ء حقیقت کی روشنی انسان کے متعلق سب سے بنیادی بات وہ ہے جس کا ذکر انہوں نے حصہ دوم کے مقدمے میں کیا ہے : ’’انسان جوہر نہیں بلکہ مجموعہ اطوار ہے ۔‘‘ انسان کی فردیت[personhood] کے اس انکار کو سمجھنے کے لیے یہی یاد رکھنا کافی ہے کہ جوہر فقط خدایا کل فطرت ہے اس سے نیچے جو کچھ بھی ہے وہ یا تو اس کی صفت ہے یا کسی صفت کا کوئی طور۔ اب اگر انسان مجموعہ اطوار ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے اطوار ہیں جن کا وہ مجموعہ ہے؟خدا کی صفات فکر اور امتدا د ہیں اور انسان میں ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک صفت کے اطوار پائے جائیں گے فکر کے اطوار اس کا ذہن، فہم، تصورات اور انفعالات ہوں گے جب کہ صفتِ امتداد کے اطوار اس کا جسم، اس کی ، شکل ، رنگ، قد و قامت اور حرکات و سکنات وغیرہ ہوں گی لیکن چونکہ مختصر رسالے کا موضوع طبعیات نہیں بلکہ مابعد الطبعیات اور نفسیات وغیرہ ہے اس لیے اس میں فقط وہ صفتِ فکر کے اطوار پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔

ان اطوار پر بحث کا آغاز اسپینوزا نے علمِ انسانی کےمشمولات یعنی تصورات کے تین مصادر کے ذکر سے کیا ہے :

۱) صرف اعتقادیا رائے: سنی سنائی یا تجربے کی بنیاد پر

۲)درست اعتقاد: عقلی استدلال کی روشنی میں

۳) واضح علم؍واضح اور ممیز ادراکات کے ذریعے:براہ راست دیکھ لینا (حصہ دوم: پہلا باب )

ان تینوں اقسام کے تصورات پر تکیہ کرنے سے انسان میں مختلف طرح کے نتائج پیدا ہوتے ہیں: پہلی قسم یعنی رائے سے انفعالات، دوسری قسم یعنی عقلی استدلال سے اچھی خواہشات، جبکہ تیسر ی قسم یعنی براہِ راست اور فوری علم سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ (حصہ دوم: دوسرا باب) اسپینوزا یہ بھی بتاتے ہیں کہ ناقص علم یعنی رائے سے کس طرح حیرت، ایک نوع کی ناقص محبت،نفرت اور خواہش پیدا ہوتی ہے (تیسرا باب) ایک اہم بات جو اسپینوزا کی بطور عقل پرست فلسفی تصویر کشی پر سوالیہ نشان لگادیتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک عقلی استدلال علم کی انتہاء نہیں بلکہ صرف ایک وسیلہ ہے: ’’استدلال ہماری سب سے بڑی صلاحیت نہیں بلکہ یہ اس زینے کی مانند ہے جس پر چڑھ کر ہم اپنی مطلوبہ جگہ تک پہنچ سکیں (چھبیسواں باب)‘‘ چوتھے باب کے اختتام پر اقسام ِ علم پر گفتگو سمیٹے ہوئے اسپینوزا نے سنی سنائی بات اور تجربے کی بنیاد پر تعمیم کے ذریعے حاصل کردہ اعتقاد کو دو الگ قسمیں قرار دیا جس سے تصورات کے مصادر تین کے بجائے چار ٹھہرے۔اور اعلی ٰ ترین مصدرعلم استدلالی عقل سے بڑھ کر ’’واضح علم ‘‘(تیسری یا چوتھی قسم)کو قرار دیا جو ان کی بیان کردہ تعریف کے مطابق وہ ہے ’’ جوہمارے کچھ دلائل سے قائل ہونے کے باعث نہیں بلکہ خود شے کو محسوس کرنے اور اس میں لذت حاصل کرنے حاصل ہوتا ہے‘‘(دوسرا باب) رائے اور عقل کے درمیان تعلق بھی واضح برتری کا نہیں کیونکہ’’ عقل محض سنی سنائی پر مبنی آراء کے خاتمے کا سبب تو بن سکتی ہے مگر ان کے خاتمے کا نہیں جو تجربے پر مبنی ہوں۔‘‘ (اکیسواں باب) اس لیے ’’چوتھی قسم یعنی واضح علم ہی اعلیٰ ترین ہے۔ کیونکہ رائے اکثر ہمیں غلطی پر مجبور کردیتی ہے۔ درست اعتقاد فقط اس لیے اچھا ہے کیونکہ یہ درست علم کا راستہ ہےاور ہماری توجہ ان اشیا ء جانب مبذول کراتا ہے جو واقعی محبت کے قابل ہیں لہذا ہمارا حتمی نصب العین اور اعلیٰ ترین معلوم، علمِ حقیقی ہی ہے۔‘‘ (چوتھا باب)

اسپینوزا کی عقلیت پسندی کو محدود بنانے والی ایک اور بات ان کا نظریہء صداقت ہے۔ خالص عقلیت پسندی کا تقاضا بلاشبہ صداقت کا نظریہ ء ارتباط (coherence theory) ہے جس کی رو سے ایک قضیہ تب صادق قرار پاتا ہے جب وہ دیگر درست قضایا سے منطقی طور پر مرتبط ہو جبکہ عقلیت پسندی کے بالمقابل تجریبیت کی نگاہ میں زیادہ اہمیت صداقت کے نظریہء مطابقت (correspondence theory) کی ہے جس کی روشنی میں صداقت کا انحصار قضایا کے باہم منطقی ارتباط پر نہیں بلکہ خارج میں موجود صورتِ حال کے ساتھ مطابقت پر ہے۔ اب دیکھئے اسپینوزا سچائی اور جھوٹ کی کیا تشریح کرتے ہیں : ’’’سچائی‘ کسی خاص شے کے ایسے اثبات یا انکار کا نام ہے جو اس شے سے موافق ہوا ور جھوٹ کسی شے کاایسا اثبات یا انکار ہے جو اس شے کے مطابق نہ ہو ۔ (پندرہواں باب) بادئ النظر میں یہ تعریف تجربی نظریہء صداقت سے بہت قریب معلوم ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے نظریہ ء علم میں دو نکات ایسے اور بھی ہیں ۔ نظریہ ء صداقت ہی کے سیاق میں قابلِ ذکر ان میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ ہمارا ’’فہم خالص انفعال(passivity) ہے یعنی ہماری روح اس طرح متاثر ہوتی ہے کہ اسے فکر کے دوسرے اطوار موصول ہوجاتے ہیں جن سے وہ پہلے واقف نہ تھی ‘‘(حصہ دوم پندرہواں باب) جبکہ سولہویں باب کے مطابق ’’اثبات یا انکار کرنے والے ہم نہیں بلکہ شے ہمارے اندر اپنا اثبات یا انکار کرتی ہے‘‘۔یہاں ہمارے ذہن میں جان لاک(۱۶۳۲۔۱۷۰۴) کا یہ خیال ہے کہ ’’باقی تمام تصورات کے خام مادے اور بنیاد کی حیثیت رکھنے والے اپنے سادہ تصورات کے وصول کرنے میں ذہن کامل طور پر منفعل ہوتا ہے‘‘ (مقالہ بابت فہمِ انسانی، کتابِ دوم ، بارہواں باب،§ ۱) تجریبیت کے ساتھ اسپینوزا کے دیگر اختلافات جو بھی ہوں، فہم کے منفعل ہونے کا تصور بہرحال انہیں کلاسیکی تجریبیت کے قریب لے آتا ہے یا کم از کم ان کے نظریہ ء علم کو اس کی مخالف انتہاء پر نہیں جانے دیتا۔(پروفیسر وولف کی رائے کے برعکس) یہ معاملہ مختصر رسالے کے نظریہ ء علم کی روشنی میں ہے البتہ اخلاقیات میں ایک مقام پر انہوں نے ضرور تصورات کے کسی لوح پر مرتسم گونگی تصویریں ہونے سے انکار کیاہے۔ (اخلاقیات دوسرا حصہ، انچاسواں قضیہ)

دوسرا نکتہ جہاں اسپینوزا ایک بار پھر ایک ایسے نظریے کے قریب جاتے دکھائی دیتے ہیں کلی اور عمومی تصورات کی وجودیاتی حیثیت سے تعلق رکھتا ہے ۔ افلاطون کے زمانے سے عقلیت پسند کلیات (مثلث، انسان، اچھائی وغیرہ ) کو ذہن سے باہر کسی نہ کسی سطح پر معروضی وجود کے حامل اور وہ مثالی تصورات قرار دیتے آئے ہیں جن کےساتھ جزئیات کا مطابقت رکھنا ضروری ہے۔ جبکہ اسپینوزا کے نزدیک یہ محض جہالت کی پیداوار ہے کیونکہ’’ یہ قطعی طور پر جزئیات ہی ہیں جن کی کوئی علت ہوتی ہے نہ کہ عام اشیاء کی جو کہ کچھ بھی نہیں‘‘ (حصہ اول، چھٹا باب) ارادے کی نوعیت سے بحث کے دوران وہ امورِ عقلی کو حقیقی طور پر پائی جانے والی اشیاء یعنی جزئیات سے الگ کرنے پر زور دیتےہیں اور ارادے کو کوئی الگ تھلگ شے ماننے والوں کو یہ امتیاز قائم نہ رکھ سکنے کا الزام دیتے ہیں : ’’ چونکہ انسان کبھی اِس شے کا ارادہ رکھتا ہے کبھی اُس شے کا لہذا اپنی روح میں وہ ایک عمومی طور تشکیل دے لیتا ہے جسے وہ ’’ارادے ‘‘ کا نام دیتا ہےبالکل اسی طرح جیسے وہ اِس یا اُس جزئی آدمی کو دیکھ کر کلی انسان کا تصور گھڑ لیتا ہے ۔اور چونکہ وہ امورِ عقلی کوحقیقی اشیاء سے مناسب طریقے سے جدا نہیں کرتا لہذا وہ انہیں فطرت میں حقیقی طور پر موجود اشیاءسمجھ لیتا ہے۔‘‘(حصہ دوم، سولہواں باب) چنانچہ ارادہ، فہم، نوع، کُل، نسبتیں، خیر و شر، کلی انسان یا دیگر کلی اور عمومی تصورات ، ان سب کا شمار ان کے نزدیک عقلی امور میں ہوتا ہے نہ کہ حقیقت میں موجود اشیاء۔ کلیات کے باب میں یہ نقطہء نظر اسپینوزا کو عقلیت اور تصوریت والوں کے پسندیدہ نظریہ ء کلیات ’’حقیقت پسندی‘‘(Realism) سے بہت دور لے جاتا ہے۔

اب چونکہ’’ ارادہ فطرت میں موجود کسی شے کانام نہیں بلکہ صرف اندازِ فکر کے طور پر وہم میں پایا جاتا ہے لہذا اس کے آزاد ہونے یا نہ ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘‘ (سولہواں باب) انسانی آزادی کے عمومی تصور (کوئی شے اپنی مرضی سے کرسکنے یا اس سے باز رہنے کی صلاحیت)سے انکار کرتے ہوئے اسپینوزا حقیقی آزادی کی یوں تعریف بیان کرتے ہیں : ’’یہ ایک ایسی مضبوط حقیقت ہے جو ہمارے فہم کو خدا کے ساتھ براہِ راست اتحاد کے ذریعے حاصل ہوتی ہے‘‘(چھبیسواں باب)

اوپر ہم نے اشارتاً خیر و شر کے متعلق اسپینوزا کی رائے کا ذکر کیا تھا۔ اس حوالے سے ان کی کہنا یہ ہے کہ ’’فطرت میں کوئی اچھائی یا برائی نہیں‘‘(حصہ اول، چوتھا باب) ’’اچھائی برائی اور گناہ وغیرہ، یہ صرف فکر کے اطوار ہیں اور اشیاء بالکل نہیں جن کی کوئی حقیقت ہو‘‘(حصہ اول، چھٹا باب)

خدا کے ساتھ محبت اور اس کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والا اتحاد اسپینوزا کے نزدیک انسان کی علمی و اخلاقی زندگی کا واحد نصب العین ہے ۔ محبت ان کے نزدیک کسی شے سے مسرت حاصل کرنے اور اس کے ساتھ ایک ہوجانے کے سوا کچھ نہیں ۔ ہماری محبت کی حقیقی مستحق نہ تو عارضی دنیاوی اشیاء ہیں اور نہ وہ جو ہیں تو ابدی مگر اپنے وجود کی بدولت نہیں بلکہ کسی اور علت کے باعث۔ ہمیں محبت کرنی ہے تو صرف خدا سے جو بذاتِ خود ابدی اور لازوال ہے۔ (دیکھئے پانچواں باب) اسپینوزا کے بقول ان کے فلسفے کا مرکزی نکتہ یہ ہے:’’ کامل ترین انسان وہ ہے جو خدا (جو کہ تمام موجودات میں سے اعلی ٰ ترین ہے )سے متحد ہوجائے اور اسی میں اپنی مسرت حاصل کرے۔‘‘ (چوتھا باب)

آخر میں منطق کے باب میں ایک خاص موضوع پر اسپینوزا کے کچھ خیالات کی جانب اشارہ کردیتے ہیں ۔ چونکہ ہندسی طریقِ کار میں اہم تصورات کی تعریف بنیادی حیثیت رکھتی ہے اس لیے ایک سے زیادہ مرتبہ منطقی تعریف کے قواعد پر مروجہ ارسطی نظریات پر تنقید کرتے اور اپنا تصور واضح کرتے ملتے ہیں۔ 

مختصر رسالے کے ساتویں باب میں جہاں یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا ’’خدا‘‘ کی منطقی تعریف فراہم کرنا ممکن ہے؟ اسپینوزا اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چونکہ درست منطقی تعریف فقط جنس اور فصل کے ذریعے دی جاسکتی ہے اور خدا اپنی وحدانیت کے باعث کسی اور جنس کی نوع نہیں لہذا اس کی تعریف بیان نہیں کی جاسکتی۔ اس استدلال کے بنیادی قضیے کو وہ ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ معلوم نہیں کیوں تمام ماہرینِ منطق اس بات پر متفق ملتے ہیں اور یہ بات انہوں نے کہاں سے سیکھی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ دعوی مان لیا جائے تو پھر کسی شے کی تعریف دینا ممکن نہ ہو۔ پھر وہ تعریف کی دو اقسام بیان کرتے ہیں ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو قاعدہ عام مخلوقات کی منطقی تعریف کے لیے ضروری ہے اس کا اطلاق جوہر؍خدا کی تعریف پر نہیں ہوسکتا۔ (حصہ اول باب ۷) تعریف کی نوعیت اور اس کے قواعد پر مزید تفصیلی بحث اسپینوزا اور ڈی وریز کے مابین فروری۔ مارچ ۱۶۶۳ میں ہونے والی خط وکتابت (خطوط نمبر ۸ اور ۹)میں دیکھی جاسکتی ہے۔

نوٹ: ترجمے کی غرض سے ہم نے مختصررسالے کا اسپینوزا کے کلیات (ترجمہ: سیموئیل شرلے: ۲۰۰۲ء)اور حواشی کے لیے پروفیسر اے وولف کے مرتب کردہ ۱۹۱۰ کے ایڈیشن سے رجوع کیا ہے۔ اپنے حواشی کی نشاندہی ہر نوٹ کے آخر میں (ق۔ش) سے کردی گئی ہے۔

-----------------------

حواشی:

[i] یہاں قاری کے ذہن میں یہ سوال پید ا ہونا لازمی ہے کہ اگر بطورِ صفت ِخداوندی امتداد سے اسپینوزا کی مراد کمیت یا جسم نہیں تو پھر کیا ہے؟ یہ سوال درست ہے اور حوالہ ء مذکور میں اسپینوزا نے اس کی وضاحت بھی کی ہے مگر ان مباحث کی تفصیلا ت میں ہم یہاں نہیں جاسکتے۔

[ii] صرف مثال کے طور پر ایک نمایاں اوراہم تنقید کی طرف اشارہ کردیتے ہیں جو پروفیسر ا لفریڈ ایڈورڈ ٹیلر (۱۸۶۹۔۱۹۴۵ ) کے ۱۹۳۷ میں مشہور فلسفیانہ مجلے مائنڈ میں دو حصوں میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں دیکھی جاسکتی ہے، اسپینوزیت کے چند تضادات (Some Incoherences in Spinozism)

حوالہ جات: 

مدرسہء تورات و تالمود میں حاصل کی۔ ۱۶۵۰ ءسے ۱۶۵۴ءکے درمیان کسی وقت وہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں داخل ہوئے جہاں لاطینی سیکھنے کے ساتھ وہ

Spinoza, Complete Works, trans. Samuel Shirley, ed. Michael L. Morgan (Indianapolis: Hackett, 2002).

A. Wolf, Spinoza’s Short Treatise on God, Man and His Well-Being (London: Adam and Charles Black, 1910)

ازمنہء وسطیٰ کے یہودی، مسیحی اور اسلامی فلسفے کے سیاق میں اسپینوزا کی لاجواب تفسیر:

Harry A. Wolfson, The Philosophy of Spinoza: Unfolding the Latent Processes of His Reasoning (Cambridge, MA. Harvard University Press, 1934), 2 Vols.

پروفیسر ٹیلر کی اسپینوزا پر تنقید اور دیگر اہم مقالات کا مفید مجموعہ:

A.E. Taylor, “Some Incoherencies in Spinozism,” in S. Paul Kashp, Studies in Spinoza: Critical and Interpretive Essays , Berkeley: University of California Press, 1972, pp. 189-212; 289-310.

Charles Jarrett, Spinoza, Guide for the Perplexed (London: Continuum, 2007)

مزید مطالعہ کے لیے:
ب ط
اسپینوزا کو فلسفہ ء دیکارت کے سیاق میں سمجھنے کی کاوشیں:

Henry E. Ellison, Benedict de Spinoza: An Introduction (New Haven: Yale University Press, 1987)

Edwin Curley, Behind the Geometrical Method: A Reading of Spinoza’s Ethics (Princeton, NJ: Princeton University Press, 1988)

اسپینوزا اور براعظمی عقلیت پسندی میں جوہر کی مابعد الطبعیات کا مطالعہ:

R.S. Woolhouse, Descartes, Spinoza, Leibniz: The Concept of Substance in Seventeenth Century Metaphysics (London: Routledge, 1993)

-------------