تمہید ، (فکر اقبال ) ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

تمہید
اقبال شاعر بھی ہے اور مفکر بھی، وہ حکیم بھی ہے اور کلیم بھی، وہ خودی کا پیغامبر بھی ہے اور بے خودی کا رمز شناس بھی، وہ تہذیب و تمدن کا نقاد بھی ہے اور محی الملت والدین بھی، وہ توقیر آدم کا مبلغ بھی ہے اور تحقیر انسان سے درد مند بھی۔ اس کے کلام میں فکر و ذکر ہم آغوش ہیں اور خبر و نظر آئینہ یک دگر۔ ایسے ہمہ گیر دل و دماغ کے مالک اور صاحب عرفان و وجدان کے افکار اور تاثرات کا تجزیہ اور اس پر تنقید کوئی آسان کام نہیں۔ اس نے زیادہ تر شعر ہی کو ذریعہ اظہار بنایا، کیوں کہ فطرت نے اس کو اسی حیثیت سے تلمیذ الرحمان بنایا تھا۔
کسی بڑے شاعر کے کلام میں سے ایک مربوط نظریہ حیات و کائنات کو اخذ کرنا ایک دشوار کام ہے۔ شاعری منطق کی پابند نہیں ہوتی اور شاعر کا کام استدلالی حیثیت سے کسی نظام فلسفہ کو پیش کرنا نہیں ہوتا۔ اقبال نے نثر میں اپنے افکار کو بہت کم پیش کیا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا فکر کبھی جذبے سے خالی نہیں ہوتا تھا اور حقیقت میں وہ اسرار حیات کو نثری استدلال میں پیش کرنے کا قائل ہی نہ تھا۔ وہ رازی اور بو علی کا مداح نہ تھا، اس کے پیش نظر ہمیشہ رومی جیسا عارف رہتا تھا، جس کے فکر کا ساز بے سوز نہ تھا۔ اس فرق کو اقبال نے لا تعداد اشعار میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ فقط اس قطعے سے بھی یہ فرق و تضاد واضح ہو جاتا ہے:
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردۂ محمل گرفت
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
نثری تنقید و تشریح میں فکر اقبال کو پیش کرنے والا کبھی اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر سکتا۔ گوئٹے نے کیا خوب کہا ہے کہ زندگی تو ایک ہرا بھرا درخت ہے لیکن اس کے متعلق نظریات برگ خزاں کی طرح زرد ہوتے ہیں۔ مضمون کو خشکی سے بچانے کی ایک ہی ترکیب ہو سکتی ہے کہ ہر موضوع کے متعلق اقبال کے اشعار بکثرت پیش کر دیے جائیں اور نثر کی تشریح اور تنقید کے رشتے میں ان انمول موتیوں کو پرو دیا جائے۔ مالا میں دھاگا موتیوں کے مقابلے میں بے قیمت اور بے حیثیت ہوتا ہے لیکن ایک بڑی خدمت انجام دیتا ہے، دھاگا نہ ہو تو موتی منتشر رہیں گے۔ دشواریوں کے باوجود اقبال کے افکار کو کسی نظم و ربط میں لانا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ مجموعی حیثیت سے اس کا نظریہ حیات واضح ہو سکے مگر شعر جیسی وجدانی اور جذباتی چیز منطقی تنقید و تجزیہ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور شاعر اس سے بے زار ہو کر انوری کی طرح کہہ اٹھتا ہے کہ ’’شعر مرا بمدرسہ کہ برو‘‘ لیکن سمجھنے اور سمجھانے کا اور کوئی طریقہ بھی نہیں۔
اقبال کے کلام کو محض شاعری کی حیثیت سے بھی دیکھ سکتے اور پرکھ سکتے ہیں، اگرچہ وہ کہہ گئے ہیں کہ خدا اس شخص کو نہ بخشے جس نے مجھے شاعر جانا۔ خود فرماتے تھے کہ اس کا امکان ہے کہ مستقبل میں فن شعر کے نقاد مجھے شاعروں کی فہرست میں سے خارج کر دیں لیکن شاعری، شاعری میں فرق ہے۔ اقبال کی شاعری وہ شاعری ہے جو شاعر کے تلمیذ الرحمان ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے اور جسے پیغمبری کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے اور جس کی نسبت ایک استاد بلیغ شعر کہہ گیا ہے:
مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم
وراے شاعری چیزے دگر ہست
فرماتے تھے کہ میں نے شاعری پر بحیثیت فن توجہ نہیں کی، اس کے لیے خاص محنت اور فرصت درکار ہے۔ جواب شکوہ پر ایک صاحب نے فنی تنقید کی اور زبان و محاورہ کے لحاظ سے اشعار کو قابل اصلاح قرار دیا۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے مسودے میں اس سے زیادہ اشعار اور الفاظ پر نشان لگا رکھے ہیں جن کے متعلق مجھے خود تسلی نہیں، لیکن تزئین کلام اور اصلاح زبان کے لیے فرصت چاہیے، جو مجھے میسر نہیں۔ تمام ملک میں شاعر غرا مشہور ہو جانے کے بعد بھی وہ بانگ درا کے مجموعے کی طباعت و اشاعت کی تعویق میں ڈالتے رہے کہ اکثر نظموں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ان کا کلام محض فن کی حیثیت سے بھی ہر قسم کے کمالات کا آئینہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اور بقول غالبـ:
خواہش شعر خود آں بود کہ گردد فن ما
اردو اور فارسی کے تمام اساتذہ میں سے شاید ہی کوئی دوسرا شاعر اس قماش کامل سکے، جس نے بغیر اپنی باطنی نفسی تحریک کے کبھی شعر نہیں کہا۔ اقبال کا تمام کلام آمد کا نتیجہ ہے، آورد کو اس میں کہیں دخل نہیں، اپنے متعلق بالکل بجا فرماتے ہیں کہ مجھے آرائش بیان مینکوششیں کرنے کی ضرورت نہیں:
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
اقبال کی شاعری میں بغیر کوشش کے سخن نغز کے تمام تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔ انسان کے لیے زبان فطرت بناتی ہے لیکن اس کے بعد صرف و نحو کے قواعد اس میں سے اخذ کر لیے جاتے ہیں جو اس کے اندر مضمر ہوتے ہیں، جس طرح شجر اور شگوفہ و ثمر فطرت کا جذبہ نما و نمود پیدا کرتا ہے، لیکن عالم نباتات آفرینش کے بعد ان قوانین کا سراغ لگاتا ہے جن کی تحقیق کی بدولت برگ درخت سبز معرفت کردگار کا دفتر معلوم ہوتا ہے۔ ایک متشاعر کے کلام میں صنعت مقدم ہوتی ہے اور آفرینش شعر موخر، لیکن تلمیذ الرحمان شاعر کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ شعر اپنی موزونی اور جمال کے ساتھ بے تکلف طبیعت میں ابھرتا ہے، اس کے بعد نقاد شعر دیکھتا ہے کہ اس میں خود بخود لطیف صنعتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ بڑے سے بڑا قادر الکلام شاعر جس کا مجموعہ کلام اقبال کے برابر ہو نہ تو خود اس کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ کوئی نقاد اس کا مدعی ہو سکتا ہے کہ اس کے کلام میں کہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی:
گر سخن اعجاز باشد بے بلند و پست نیست
در ید بیضا ہمد انگشتہا یک دست نیست
غالب بھی اگرچہ فطرت کا بنایا ہوا شاعر تھا لیکن وہ اپنے شعر کو فنی لحاظ سے کامل اور رفتہ و شستہ بنانے کی کوشش کرتا تھا، اس کے باوجود اس کے مختصر مجموعہ اردو میں ناقدوں اور شرح نویسوں نے زبان اور محاورے کی بے شمار خامیوں پر انگشت اعتراض دھری ہے۔ اقبال کے متعلق اتنی بات دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ فن کی طرف سے بے نیاز ہونے کے باوجود اس کے کلام میں قابل قبول اعتراض کی گنجائش کہیں شاذ و نادر ہی ملے گی۔ علامہ اقبال کے احتجاج کے باوجود یہ نا ممکن ہے کہ بحیثیت شاعر ان پر نظر نہ ڈالی جائے لیکن شعر اقبال بحیثیت فن اقبال کے فلسفہ حیات سے ایک الگ اور مستقل موضوع ہے۔
قرآن کریم نے سورۃ شعراء میں شاعر کی حیثیت اور اس کے انداز حیات کا مختصر مگر جامع الفاظ میں تجزیہ کیا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ نبی کریم ؐ کو مخالفین کبھی مجنوں کہتے تھے اور کبھی شاعر قرار دیتے تھے اور وہ محض اس لیے کہ قرآن میں اچھی شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں، تشبیہہ و تمثیل و استعارہ، مسجع اور مقفی سورتیں، دل نشیں انداز کلام، سبھی کچھ اس صحیفے میں بدرجہ کمال موجود ہے۔ اسرار حیات سے نا آشنا اور روح کی گہرائیوں سے بے تعلق ظاہر بینوں کو وہ ایک شاعر کا کلام دکھائی دیا، قرآن کو نازل کرنے والے نے اس کی تردید کی کہ ہم نے اس نبی کو شاعری نہیں سکھائی، پھر کہا ’’ آؤ تمہیں بتائیں کہ شاعر علی العلوم کیا ہوتے ہیں اور انبیاء سے ان کو کس طرح ممتاز کر سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ محض شاعر اچھا رہنما نہیں بن سکتا۔ اس کا کوئی مخصوص نظریہ حیات اور مقصود زندگی نہیں ہوتا، اس کی کوئی منزل معین نہیں ہوتی جس کی طرف وہ یقین اور استحکام سے گامزن ہو۔ وہ زندگی کی تمام وادیوں میں ہرذہ گردی کرتا ہے اور جس منظر سے جس طرح ہنگامی طور پر متاثر ہوتا ہے اس کو بیان کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے۔ اس کے جذبات اور تاثرات کی لہریں کسی آئین کی پابند نہیں ہوتیں، وہ کسی خاص ضابطہ حیات کا مبلغ نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ خود کسی یقین محکم پر زندگی بسر نہیں کرتا، وہ اپنے آپ کو اس کا پابند نہیں سمجھتا کہ اس کے قول اور فعل میں مطابقت ہو۔ حساس طبیعت رکھنے کی وجہ سے اس کے ہاں فقط تاثر اور اظہار تاثر ہے لیکن چونکہ اس کا تاثر ہنگامی ہوتا ہے اس لیے وہ کسی مستقل ارادے اور عمل میں تبدیل نہیں ہوتا، ایسے شخص کو جس کے مزاج میں تلون اور گوناگونی ہے، اگر کوئی رہنما سمجھ لے تو وہ یقینا گمراہ ہے۔‘‘
اس ضمن میں ایک لطیفہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی مسلمان سلطان کے دربار میں شعراء کو دعوت دی گئی کہ وہ ایک روز حاضر ہو کر اپنا کلام سنائیں۔ چوبداروں نے شاعروں کو ان کے گھروں سے جمع کیا اور ایک جلوس کی صورت میں ان کو ہمراہ لے کر قصر شاہی کی طرف چلے۔ بعض آوارگان بازار بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیے کہ اس طرح قصر شاہی میں داخل ہونے اور دربار میں حاضری کا موقع مل جائے گا۔ ان کا یہ حیلہ کامیاب ہو گیا۔ دربار میں شعراء کی صف کے پیچھے وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے ان کو بھی شاعر سمجھا۔ جب شعراء اپنا کلام سنا چکے تو اس پچھلی صف والوں کو حکم ہوا تم بھی اپنا کلام سناؤ۔ انہوں نے کہا کہ حضور ہم شاعر نہیں ہیں۔ اس پر بادشاہ کو نہایت غصہ آیا اور پوچھا کہ تم یہاں کس حیثیت سے داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک ظریف نے جواب دیا ’’ ہم غادون یعنی گمراہ لوگ ہیں اور از روئے قرآن شاعروں کے پیچھے پیچھے چلے آئے ہیں۔‘‘ اس پر دربار میں خوف قہقہہ لگا بادشاہ کا غصہ فرو ہوا اور ان کو بھی کچھ انعام اکرام مل گیا۔
قرآن حکیم اگر شاعروں کے متعلق فقط اتنا ہی کہہ کر چھوڑ دیتا تو بات ادھوری رہ جاتی لیکن قرآن کی نظم زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہوتی ہے، اسی لیے عام شعراء کی سیرت کا یہ نقشہ کھینچنے کے بعد یہ ارشاد ہے کہ اس گروہ میں کچھ مستثنیات بھی ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں شاعر کا حساس قلب اور حسن بیان عطا کیا جاتا ہے لیکن وہ ہرزہ گر نہیں ہوتے، وہ صاحب ایمان ہوتے ہیں اور ایک معین نظریہ حیات رکھتے ہیں اور اس ایمان کی بدولت ان سے اعمال صالحہ بھی سرزد ہوتے ہیں جو یقین محکم کا نتیجہ ہوتے ہیں، ان کے اقوال و افعال میں تفاوت نہیں ہوتا، ان کے بیان میں خلوص ہوتا ہے، وہ دروغ بیانی نہیں کرتے، جذبات رذیلہ ان کی طبیعت میں انہیں ابھرتے اور نہ ہی وہ سامعین کی طبیعتوں میں ان کو اکسانا چاہتے ہیں۔قرآن کے بیان کے مطابق ایسے شعراء کی تعداد نہایت قلیل ہو گی کیونکہ اس سورۂ میں ایسوں کو بطور استثناء پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود رسول کریم ؐ اچھے شعر کے قدر دان تھے بشرطیکہ اس سے اچھے افکار پیدا ہوں اور شریفانہ جذبات کی پرورش ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ جیسا سراپا عدل و عمل شخص بھی اچھی شاعری کا قدر دان تھا، وہ مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ اپنی اولاد کو اچھے اشعار یاد کرایا کرو۔ امراء القیس کے متعلق رسول کریم ؐ کی تنقید کس قدر حکمت آموز ہے، اسے بشعر الشعراء کہنے کے ساتھ ’’ قانہ ھم الی النار‘‘ بھی کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ کامل فن ہونے کے باوجود ایک شاعر ایمان اور اعمال صالحہ سے معرا ہو سکتا ہے اور اپنے کمال سے یہ کام لے سکتا ہے کہ جذبات رذیلہ کو ابھار کر لوگوں کو جہنم کی طرف لے جائے۔ شعر کی حیثیت بھی علم کی سی ہے کہ علم ایک زبردست مگر بے طرف قوت ہے: علم کے غلط استعمال سے ایک عالم بہ عمل اپنے آپ کو بھی تباہ کر سکتا ہے اور دوسروں کو بھی، لیکن علم کے صحیح استعمال سے انسانیت عروج حاصل کر سکتی ہے:
علم چون بر تن زنی مارے شود
علم چون بر جان زنی یارے شود
زندگی میں قوت کے ہو اور سرچشمے ہیں ان کابھی یہی حال ہے۔ مال کی بھی یہی کیفیت ہے، زندگی بسر کرنے کے لیے مال کی بھی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے کشتی چلانے کے لیے پانی لازم ہے: لیکن مال اگر کشتی روح کے اندر جائے تو اس کو ڈبو دے گا:
مال را گر بہر دین باشی ممول
نعم مال صالح گفتا رسولؐ
آب در کشتی ہلاک کشتی است
زیر کشتی بہر کشتی پشتی است
مسلمانوں میں شعراء بے شمار گزرے ہیں لیکن ایسے شعراء کو شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گن سکیں جو اس معیار پر پورے اتر سکیں، جو قرآن نے اچھے شاعر کے لیے قائم کیا ہے۔ زیادہ تر شعراء ایسے ہی ہیں جنہوں نے اپنے کمال کو ہوس پروری اور ہوس انگیزی ہی میں صرف کیا۔ شعرائے ہند اور شعرائے عجم کے تمام تذکرے دیکھ جاؤ، ان میں رومی، سنائی، عطار اور حالی جیسے شاعر خال خال نظر آئیں گے، باقی سب کا وہی حال ہے جو حالی نے مسدس میں لکھا ہے۔ شعر و قصائد کا دفتر زیادہ تر ناپاک ہی ہے۔
اقبال نے شاعری سے جو کام لیا ہے اس کی نظیر مسلمانوں کی شاعری کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اقبال کے کلام میں جو ثروت افکار ہے وہ عدیم المثال ہے، شاعری کے عام طور پر لطف طبع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو اعمال حسنہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر شاعری ہوتی بھی ایسی ہے لیکن شاعری کی ایک وہ بھی قسم ہے جو گرتوں کو ابھارتی ہے اور خستگان حیات کے دل قوی کرتی ہے۔ انگریزی شاعر ٹینی سن نے بجا فرمایا ہے کہ جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو اعلیٰ درجے کے اعمال حسنہ میں شمار کرنا چاہیے۔
اقبال کے افکار و تاثرات کی گوناگونی اور بو قلمونی کی کوئی حد نہیں لیکن جس طرح کائنات کی کثرت میں ایک وحدت مضمر ہے اسی طرح اقبال کے افکار بھی اپنے اندر ایک وحدت نظر رکھتے ہیں۔ اس ثروت افکار کو ضبط میں لانے کا بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ اس کو خاص عنوانات کے تحت مرتب کیا جائے۔ بعض مضامین اقبال کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ باب قائم کرنا پڑے گا، مثلاً عشق کا موضوع اگرچہ حکماء اور صوفیہ کے ہاں بکثرت ملتا ہے لیکن اقبال نے اس میں جو نکات پیدا کیے ہیں وہ کسی اور کے کلام میں نہیں ملتے۔ اسی طرح توقیر نفس اور عرفان نفس کا مضمون اگرچہ قدیم ہے لیکن اقبال نے خودی کا فلسفہ اس زور شور سے پیش کیا ہے اور اتنے پہلوؤں سے اس پر نظر ڈالی ہے کہ وہ اس کا خاص مضمون بن گیا ہے۔ اسلام کے متعلق بھی اس کا جو زاویہ نگاہ ہے وہ صوفی و ملا و حکیم سب سے الگ ہے۔ قومی شاعری کی ابتداء اگرچہ حالی نے کی لیکن اقبال جس طرح قومی مسائل سے دست و گریبان ہوا ہے اس کی مثال بھی کہیں اور نہیں ملتی۔ حدی خوانی حالی نے شروع کی لیکن محمل کو گراں دیکھ کر اقبال نے اس حدی خوانی کو تیز اور وجد آور بنا دیا۔ اقبال شرق و غرب کے بہترین اور بلند ترین افکار کا وارث ہے۔ اقبال نے اس ورثے کو صرف پیش ہی نہیں کیا بلکہ اس میں گراں بہا اور قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے، وہ صحیح معنوں میں آزادانہ اور محققانہ نظر رکھتا ہے، وہ اندھا دھند کسی کی تقلید نہیں کرتا، ہر چیز کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اس لیے کلیتاً کسی حکیم یا صوفی یا فقیہہ و مفسر سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ کسی بڑے مفکر کا قلب مومن اور دماغ کافر معلوم ہوتا ہے تو اس کی داد دیتے ہوئے اس پر بصیرت افروز تنقید بھی کرتا ہے۔ آزادانہ تحقیق و تنقید کے شوق میں کہتا ہے کہ کوئی نبی بھی پرانی لکیروں کا فقیر رہ کر پیغمبر نہ ہو سکتا:
چہ خوش بودے اگر مرد نکوے
ز بند پاستاں آزاد رفتے
اگر تقلید بودے شیوۂ خوب
پیمبر ہم رہ اجداد رفتے
اقبال پر درجنوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور بے شمار تقریریں اس پر ہو چکی ہیں لیکن یہ سلسلہ نہ ختم ہوا نہ ہو گا۔ اقبال پر جو کتابیں نہایت عالمانہ، نہایت بلیغ اور نہایت جامع ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب کی ’’ روح اقبال‘‘ اور مولانا عبدالسلام صاحب ندوی کی کتاب ’’ اقبال کامل‘‘ ان دو کتابوں کو ملا کر پڑھیں تو اقبال کے کلام اور اس کی تعلیم کا کوئی پہلو ایسا دکھائی نہیں دیتا جو محتاج تشریح اور تشنہ تنقید باقی رہ گیا ہو لیکن اقبال کے افکار میں اتنی گہرائی، اتنی پرواز اور اتنی وسعت ہے کہ ان کتابوں کے جامع ہونے کے باوجود مزید تصنیف کے لیے کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔ اقبال کا کلام ایک طرح کا مذہبی صحیفہ ہے اور مذہبی صحیفوں کی شرحوں کی طرح ہر لکھنے اور سوچنے والا اپنے انداز نگاہ اور انداز بیاں ہے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کر سکتا ہے۔ راقم الحروف نے بھی اقبال پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن وہ بعض مخصوص مضامین پر مشتمل ہے۔ میں پہلے جو کچھ لکھ چکا ہوں اس کتاب میں اس سے قطع نظر کرنا نا ممکن ہے اس لیے یا تو انہی کہی ہوئی باتوں کو دوسرے انداز میں کہنا پڑے گا یا لازماً کچھ اقتباسات دوران شرح میں درج کرنے ہوں گے۔ اقبال کے افکار کا احاطہ کرنا اور اس کے ہر خیال اور ہر تاثر کے مضمرات کو کماحقہ پیش کرنا کسی ایک مصنف کا کام نہیں اور نہ ہی کوئی ایک تصنیف اس کا حق ادا کر سکتی ہے۔ اقبال مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی شعور کا ایک جزو لاینفک بن گیا ہے۔ اقبال اگر انا الملت کا نعرہ لگاتا تو بجا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ساتھ اقبال بھی ابد قرار ہو گیا ہے، اگر اس کے افکار محدود اور ہنگامی ہوتے تو کچھ عرصے کے بعد زمانہ انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا، لیکن اقبال کے افکار اور اس کے وجدانات میں ایک لامتناہی صفت پائی جاتی ہے۔ جو نہ صرف زمان و مکان بلکہ اس ملت کے حدود سے بھی وسیع تر ہیجس کا عروج و زوال اس کا خاص موضوع فکر اور جس کا درد اس کے دل و جگر کا سرمایہ تھا۔
مختلف ادوار میں اقبال کے فکر میں ارتقاء کے مدارج کا مطالعہ زیادہ مشکلات پیش  نہیں کرتا، بانگ درا میں جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا، انہوں نے خود اپنی نظموں کو زمانی لحاظ سے مرتب کیا ہے، بعد میں شائع کردہ مجموعوں کی طباعت کا زمانہ بھی یقینی طورپر معلوم ہے، چنانچہ ابتداء سے انتہا تک اقبال کے فکر کا ارتقاء مطالعہ کرنے والے پر روشن ہو جاتا ہے اور اس زمانی ترتیب کی بدولت اقبال کی شاعری اور  ان کے تفکر کا ارتقاء بھی واضح ہو جاتا ہے۔

٭٭٭