خطوط نبوی (ﷺ)کی تحقیق

 خطوط  نبوی (ﷺ) کی تحقیق

محمد رسول اللہ ﷺ کے مبارک خط کی تصویر  جو رومیوں  کے مسیحی بادشاہ ھرقل کو  لکھاگیا تھا   


ڈاکٹر حمید اللہ کا بیان ہے کہ عہد ِنبوی کے کوئی پونے تین سو مکتوب اور معاہدات  یکجا کیے جاچکے ہیں۔ (رسول اکرم (ﷺ) کی سیاسی زندگی، ڈاکٹر محمد حمید اللہ ،ص:311)
’’گذشتہ 2 صدیوں میں آپ(ﷺ) کے 6 مکتوبات اپنی اصلی حالت میں دستیاب ہوچکے ہیں، یہ مکاتیب نجاشی شاہ حبشہ، منذر بن ساوی گورنر بحرین، قیصر روم ہرقل، شاہ مصر و اسکندریہ مقوقس،شہنشاہ ایران خسرو پرویز کسریٰ، شاہ عمان جیفر و عبدان کے نام ہیں ‘‘ ( مکتوبات نبوی، مولانا محبوب رضوی ،  طبع پاکستان، ص:305)
آپ(ﷺ)کے مکاتیب کو سب سے پہلے حضرت عمرو بن حزم انصاری (رضی اللہ عنہ)نے مرتب کیا تھا،انہوں نے آپ(ﷺ) کے 21 مکاتیب گرامی جمع کئے تھے‘‘-
 ڈاکٹر حمید اللہ نے ” الوثائق السیاسیہ“ کے نام سے بہت جامع کام کیا ہے،جس کا اردو ترجمہ ”رسول اکرم (ﷺ)کی سیاسی زندگی“ کے نام سے دستیاب ہے- اس موضوع پر اردو میں اب تک جنہوں نے سب سے زیادہ قابل قدر کام کیا ہے، وہ مولانا سید محبوب رضوی صاحب ہیں،موصوف نے اپنی کتاب ”مکتوبات نبوی (ﷺ)“ میں آقائے نامدار(ﷺ)کے سب سے زیادہ  مکاتیب اور تحریری معاہدات  جمع کردئے ہیں -
اس کے علاوہ مولانا حفظ الرحمن صاحب نے ”بلاغ مبین“ میں آپ (ﷺ)کے مکاتیب کو جمع کیا ہے -
صاحبزادہ عبد المنعم خان نے ”رسالات محمدیہ“ میں مکتوبات نبوی (ﷺ)کی کافی تعداد جمع کردی ہے-


نامہ مبارک بنام نجاشی ،شاہ حبشہ:

’’نجاشیکے نام تین مکاتیبِ نبوی (ﷺ)  کا تذکرہ  سیرت کی کتب میں موجود ہے  البتہ معروف وہ  ہے جس کے ملنے پر شاہ نجاشی نے اسلام قبول کر لیا تھا‘‘- (ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، الہدایہ والنہایہ، ج:4، ص:262)

نامہ مبارک بنام نجاشی ، شاہ حبشہ

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-من محمد رسول اللہ الی النجاشی عظیم الحبشہ سلام علی من اتبع الھدی اما بعد انی احمد الیک اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن واشھد ان عیسی ابن مریم البتول الطیبہ الحصینہ فحملت بعیسی من روحہ و نفخہ کما خلق ادم بیدہ وانی ادعوک الی اللہ وحدہ لا شریک لہ و الموالاة علی طاعتہ وان تتبعنی وتؤمن بالذی جاءنی فانی رسول اللہ و انی ادعوک وجنودک الی اللہ عزوجل وقد بلغت و نصحت فاقبلونصیحتی- والسلام علی من التبع الھدی‘‘
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-اللہ کے رسول محمد (ﷺ)کی طرف سے حبشہ کے عظیم نجاشی کی جانب،سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے- ’’اما بعد‘‘ میں اس اﷲ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی حقیقی بادشاہ ہے -وہ تمام عیبوں سے پاک ہے،امن دینے والا اور سب کا نگہبان ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عیسی ابن مریم (علیہ السلام)اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اللہ تعالی نے مریم بتول طیبہ عفیفہ کی جانب القاء کیا (کہ وہ اللہ کے نبی (حضرت)عیسٰی (علیہ السلام) کی والدہ بنیں) پس اللہ ہی نے ان کو اپنی روح سے پیدا کیااور اس کو (حضرت مریم (علیھا السلام) میں)پھونک دیا-جیسا کہ اس نے (حضرت آدم (علیہ السلام)کو اپنے دست قدرت سے بنایا -میں تجھے اللہ کی طرف اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی محبت کی طرف بلاتا ہوں جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ تو میری اتباع کرے اور اس پر یقین کرے جو اللہ کی طرف سے میرے پاس آیا ہے(یعنی قرآن) کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں اور میں نے اللہ کا حکم پہنچادیا اور تمہیں نصیحت کر دی پس تم میری نصیحت قبول کر و اور سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے‘‘-
اس خط کے بارے میں ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:”11مئی 1939ءکو جب میں نے آکسفورڈ میں"  ابتدائے سن ہجری کے چند عربی مکتوبات مدینہ "پر لیکچر دیا تو پروفیسر مارگولیتھ نے جلسے میں بیان کیا کہ ایک مکتوب نبوی جو نجاشی حبشہ کے نام بھیجا گیا تھا،دستیاب ہوگیا ہے اور اسکارٹ لینڈ کے ایک شخص کے پاس ہے- جلسے کے بعد میں نے پروفیسر کے توسط سے اس شخص کو ایک خط بھیجا-کئی ماہ بعد مجھے اس کا جواب حید ر آباد میں ملا-۔۔۔جواب میں مکتوب مبارک کی ایک نقل جو ہاتھ سے کی گئی تھی،منسلک تھی اور وعدہ کیا گیا تھا کہ اسکارٹ لینڈ واپسی پر مجھے فوٹو بھی دیا جائے گانیز اس مکتوب پرایک مضمون بہت جلد لندن کے رسالہ جے آر ای ایس میں بھی چھپے گا (بعد میں یہ مضمون مذکورہ رسالہ کے جنوری 1940ءکے شمارہ میں چھپا اور اس مذکورہ مکتوب کا فوٹو بھی شائع ہوا)‘‘-(ڈاکٹر محمد حمیداللہ،رسول اکرم (ﷺ) کی سیاسی زندگی، ص:401)
نامہ مبارک بنام کسری‘ شاہ فارس:
مؤرخین عام طور پر یہ لکھتے ہیں کہ خسرو پرویز نے رسول اکرم (ﷺ) کے مکتوب گرامی کو چاک کر دیا تھا-مگر اس کے بعد مکتوب گرامی کا کیا ہوا،اس بارے میں کسی نے کچھ نہیں لکھا-البتہ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ کسری نے ٹکڑے اکٹھے کرکے ابن حذافہ(قاصد) کو دے دیے تھے کہ رسول اللہ (ﷺ) کوبطور ہدیہ دے دینا تاہم اس وقت کون جانتا تھا کہ کسری کی عظیم الشان سلطنت تباہ ہوجانے والی ہے اور جس تحریر کو بظاہر چاک کر کے پھینک دیا گیا ہے وہ مرور زمانہ اور گردش روزگارکے باوجود 1400 سال کے بعد بھی دستیاب ہو سکتی ہے‘‘-(محمد یونس،رسول اللہ (ﷺ) کا سفارتی نظام،ص 415)- اس خط کا متن یہ ہے ۔ 

نامہ مبارک بنام کسری ، شاہ فارس 

’بسم اللہ الرحمن الرحیم-من محمد ابن عبداللّٰہ ورسولہ الی کسری عظیم فارس سلام علی من التبع الھدی و امن باللّٰہ ورسولہ وشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ ادعوک بدعایة اللّٰہ فانی انا رسول اللّٰہ الی الناس کافة لا نذر من کان حیا و یحق القول علی الکافرین اسلم تسلم فان ابیت فان اثم المجوس علیک‘‘
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-اللہ کے رسول محمد (ﷺ)کی طرف سے فارس کے عظیم کسری کی جانب،سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد(ﷺ)اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں-میں تجھے اللہ کے دین کی طرف بلاتا ہوں کیونکہ میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول (بھیجا ہوا)ہوں تاکہ ہر زندہ انسان کو (آخرت) کاڈر سناؤں اور کافروں پر اللہ کی بات ثابت ہو جائے - اسلام قبول کرو سلامت رہو گے-پھر اگرتو نے انکار کیا تو تمام مجوسیوں(کے اسلام قبول نہ کرنے)کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا‘‘-
٭مئی 1963 کی دسویں یا اس کے لگ بھگ زمانہ میں ساری دنیا کے تمام بڑے اخباروں نے بیروت کی یہ اطلاع شائع کی کہ وہاں کے سابق وزیر خارجہ (ہنری فرعون)کے موروثی ذخیرے میں اصل مکتوب نبوی بنام کسری دریافت ہوا ہے-یہ دریافت چونکہ ڈاکٹر صلاح الدین المنجد نے کی تھی -اس لیے انہوں نے 22 مئی1963ءکوبیروت کے روزنامہ ’’لحیوة‘‘ میں اس نامہ مبارک کا فوٹو ایک تحقیقی مضمون کے ساتھ شائع کیا-
ڈاکٹر حمید اللہ نے مذکورہ خط کے بارے میں کچھ اقتباسات اپنی کتاب میں نقل کئے ہیں کہ ہنری فرعون کے والد نے پہلی جنگ کے اختتام پر یہ دستاویز دمشق میں ڈیڑھ سو اشرفی میں خریدی،یا تو اس کو خود معلوم نہ تھا یا اس نے اپنے اہل خانہ کو نہ بتایا کہ یہ کیا چیز ہے-بہرحال ہنری فرعون کو 1962ءتک معلوم نہ تھا کہ یہ مکتوب نبوی (ﷺ) ہے-نومبر 1962ءکے آخر میں اس نے یہ خط صلاح الدین المنجد کے سپرد کیا کہ اس کو پڑھنے کی کوشش کریں-یوں یہ خط منظر عام پر آیا-( ڈاکٹر محمد حمید اللہ ،رسول اکرم (ﷺ)کی سیاسی زندگی، ص :233)
(۱)یہ ایک رق جھلی ہے جس کا رنگ مرور زمانہ کی وجہ سے تبدیل ہو گیا ہے اور کانچ کے ایک فریم میں بند ہے-(۲)جھلی پرانی اور نرم ہے، گہری خاکی رنگ کی ہے،اس کے کنارے کالے پڑ گئے ہیں-یہ 38 سینٹی میٹر لمبی اور ساڑھے اکیس سنٹی میٹر چوڑی ہے (۳)یہ جھلی مستطیل سی ہے مگر چوڑائی یکساں نہیں ہے،اوپر زیادہ چوڑی ہے اور نیچے کم -(۴)اس پر عبارت 15 سطروں پر مشتمل ہے مگر کوئی سطر اڑھائی سم ہے تو کوئی ساڑھے اکیس سم-(۵)عبارت کے نیچے گول مہر ہے جس کا قطر تین سم ہے-(۶)جھلی کے نچلے حصے نے پانی کا مار کھایا ہے-جس کے باعث بعض جگہ الفاظ مٹ گئے ہیں اور بعض جگہ مدھم ہو گئے ہیں-مہر کی عبارت مٹ گئی ہے (۷)اس جھلی کو کسی نے پھاڑنے کی کوشش کی ہے چنانچہ وہ تیسری سطر سے دائیں طرف سے وسط تک چری گئی ہے-پھر طولا دسویں سطر تک پھٹی ہے-( ڈاکٹر محمد حمید اللہ، رسول اکرم(ﷺ) کی سیاسی زندگی، ص :244)

نامہ مبارک بنامِ مقوقس ‘شاہ قبط مصر: 

نامہ مبارک بنام مقوقس ، شاہ قبط مصر

’’بسم ﷲ الرحمن الرحیم من محمد ابن عبد ﷲ ورسولہ الی المقوقس عظیم القبط سلام علی من التبع الھدی اما بعدفانی ادعوک بدعایة السلام اسلم تسلم یوتک ﷲ اجرک مرتین فان تولیت فعلیک اثم القبط یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواءبیننا وبینکم ان لا نعبدالاﷲ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون ﷲ فان تولوافقولوااشہدوا بانا مسلمون‘‘
’بسم اللہ الرحمن الرحیم -اللہ کے رسول محمد(ﷺ)کی طرف سے قبط کے عظیم مقوقس کی جانب،سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے-اما بعدمیں تمہیں اسلام کے کلمہ کی دعوت دیتا ہوں-اسلام لے آؤ سلامت رہو گے اور اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا-پھر اگر تو نے رو گردانی کی تو تجھ پر تمام قبط(کے اسلام نہ لانے)کا گناہ ہوگا-اے اہل کتاب تم ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں پھر اگر وہ رُوگردانی کریں تو آپ کَہ دیجیے کہ تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں‘‘-
٭ڈاکٹر حمید اللہ مذکورہ خط کی دریافت کی بابت لکھتے ہیں: ’’موسیو بارتل می نامی ایک مستشرق اپنے کچھ ساتھیوں سمیت کچھ عرصے سے مصر کی قدیم ترین زبان کا مطالعہ کرنے لگے ہیں-خاص کر قبطی زبان کے مخطوطات تلاش کر رہے ہیں جو مصر کے تنہائی پسند راہبوں کے قبضے میں موجود ہیں اور عہد سلف کے متعلق قیمتی آثار پر مشتمل ہیں-اسی تلاش کے دوران ایک دن جب وہ تھکن سے چور چور ہو چکے تھے-اخمیم کے قریب ایک راہب خانے کوپہنچے-اس راہب خانے میں ایک عربی مخطوط دستیاب ہوا جو صورت میں بہت معمولی نظر آتا تھا اس کی جلد سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اصل میں کسی ایسی کتاب کے لئے تیار کیا گیا تھا جو خاصے بڑے حجم کی ہوگی- یہ جلد کناروں سے خراب ہو گئی تھی اور اس کے اندر سے کچھ قبطی حروف دکھائی دے رہے تھے-ہمارے سیاح نے کوشش کی کہ اس پہلے ورق کو الگ کر ے جو متعدد لکھے ہوئے اوراق کو لپٹا ہوا معلوم ہوتا تھا-چنانچہ جب احتیاط سے اسے علیحدہ کیا گیا تو فی الحقیقت اندر سے کوئی دس اوراق برآمد ہوئے جن پر قبطی زبان کےقدیم خط میں انجیل لکھی ہوئی تھی-ان اوراق کو ایک موٹے کاغذ میں لپیٹا گیا تھا اور سب کوجوڑ دیا گیا تھا، وسطی حصہ جو باہر سے دونوں پہلوؤں کو ملاتا تھا سیاہ چمڑے کے ایک ٹکڑے سے بنا ہوا تھا-چنانچہ موسیو بارتل می نے دونوں پہلوؤں سے ان قبطی اوراق کو یکے بعد دیگرے جدا کیا جو کتاب کے داخلی حصے پر مشتمل تھے-اس پر انہیں ان اوراق کے اندر بیچ میں دونوں پہلوؤں پر چمٹا ہوا کھال یا جھلی کا ایک ٹکڑا نظر آیا جسے کیڑوں نے دو جگہ سے چاٹ لیا تھا-موسیو بارتل می کو اس پر اس خط میں کچھ عربی حروف سے نظرآئے، ہزار کوشش کے بعد انہوں نے لفظ محمد کو پڑھ لینے میں کامیابی حاصل کی-اب اس میں کوئی شبہہ نہ رہا کہ یہ دستاویز خاصی دلچسپی کی حامل ہے اس لئے انہوں نے جتنی احتیاط ممکن تھی برت کر اس کھال کو پوری طرح علیحدہ کرنے کی کوشش کی،چاہے وہ کتنی ہی کوشش کرتے اسے بھگونے اور نم کرنے پر مجبو ر تھے-اس کاروائی میں چند الفاظ جو پہلے ہی سے مٹ چلے تھے پوری طرح غائب ہو گئے-اس خط کو کچھ دنوں بعد موسیو بارتل می نے سلطان عبد المجید خان اول کے ہاتھ تین سو اشرفیوں میں فروخت کر دیا-یہ خط تبرکات نبوی (ﷺ) کے ساتھ مصر کے شاہی خزانے میں داخل ہو گیا -یہ نامہ مبارک عجائب خانہ توپ قابلی سرائے میں محفوظ ہے 1966ءمیں اس کو عجائب خانہ میں کھول کر رکھ دیا گیا کہ ہر کوئی اس خط کو دیکھ سکتا ہے- (ڈاکٹر حمید اللہ، رسول اکرم (ﷺ) کی سیاسی زندگی، ص:152-153)
نامہ مبارک بنام ہر قل‘ قیصرروم:
حضور اکرم (ﷺ) کا وہ مکتوب مبارک جو آپ (ﷺ)نے روم کے شہنشاہ ہرقل کے نام ارسال فرمایاتھا :

نامہ مبارک بنام ہرقل ، قیصر روم 

’’بسم ﷲ الرحمن الرحیم-من محمدابن عبد ﷲ و رسولہ الی ھرقل عظیم الروم سلام علی من اتبع الھدی-اما بعد فانی ادعوک بدعایة السلام اسلم تسلم یوتک ﷲ اجرک مرتین فان تولیت فعلیک اثم الاریسین ویا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواءبیننا وبینکم ان لا نعبد الا ﷲ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنابعضا اربابا من دون ﷲ فان تولوافقولوااشہدوا بانا مسلمون‘‘
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-اللہ کے رسول محمد (ﷺ) کی طرف سے ر وم کے عظیم ہرقل کی جانب،سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے-اما بعدمیں تمہیں اسلام کے کلمہ کی دعوت دیتا ہوں-اسلام لے آؤ سلامت رہو گے اور اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا-پھر اگر تو نے رو گردانی کی تو تیری تمام جاہل رعایا (کے اسلام نہ لانے)کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا اور اے اہل کتاب تم ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کاشریک ٹھہرائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں پھر اگر وہ رو گردانی کریں تو آپ کَہ دیجیے کہ تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں‘‘-


یہ 1976ءمیں دستیاب ہوا-اسلامی تاریخ کے اس نادر تحفے کو متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زاید النہیان (مرحوم) نے لاکھوں روپے دے کر لندن سے اپنے ملک منتقل کر لیا تھا-انہوں نے اس مکتوب مبارک کے حقیقی اوراصلی ہونے کی تحقیق کے لئے دنیا بھر کے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں،جنہوں نے پوری چھان بین کے بعد اس کی صحت اور اصلیت کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد ہی ہماری تاریخ کے اس عظیم ورثے کو شیخ زاید نے لاکھوں روپے کے عوض خرید لیا تھا- تاریخی حوالوں کے مطابق رسول (ﷺ) کا یہ خط اردن کے ہاشمی سلطنت کے بانی اور سابق سربراہ شاہ حسین کے دادا شاہ عبداللہ کی ملکیت تھا-شاہ عبد اﷲنے اس کو اپنی آخری بیوی ملکہ نجدہ کو مہر کے طور پر دیا تھا-ملکہ نجدہ تین سال قبل عمان سے ترک وطن کر کے ہند چلی گئی تھیں اور یہ خط سوئزر لینڈ کے ایک بنک میں محفوظ کر دیا گیا تھا-اسی خط کے اصل ہونے کی تصدیق برٹش میوزیم کے ماہرین نے کی ہے اور اس کے اصل اور قدیم ہونے کی تصدیق اس کھال سے ہی ہوتی ہے جس پر یہ تحریر کیا گیا تھا-(محمد یونس،رسو ل اللہ (ﷺ) کا سفارتی نظام،ص:376، 377-378)
نامہ مبارک بنام منذر بن ساوی حاکم بحرین:

نامہ مبارک بنام ساوی حاکم بحرین 

’’بسم ﷲ الرحمن الرحیم- من محمد رسو ل ﷲ الی المنذر بن ساوی سلام علیک فانی احمد ﷲ الیک الذی لا الہ غیرہ واشھد ان لا الہ الا ﷲ و ان محمدا عبدہ و رسولہ- اما بعد فانی اذکرک ﷲ عزوجل فانہ من ینصح فانما ینصح و انہ من یطع رسلی و یتبع امرھم فقد اطاعتی و من نصح لھم فقد نصح لی و ان رسلی فقد انمو علیک خیرا و انی قد شفعتک فی قومک فاترک للمسلمین ما اسلموا علیہ و عفوت من اھل الذنوب فاقبل منھم وانک مھما تصلح فلن نعزلک عن عملک ومن تام علی یہودیة او مجوسیة فعلیہ جزیة‘‘
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم-اللہ کے رسول محمد (ﷺ)کی طرف سے منذر بن ساوی کے نام،سلام ہوتجھ پر میں تجھ سے اس خدا کی حمد بیان کرتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ)اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں-اما بعد میں تجھے اللہ عزوجل کی یاد دلاتا ہوں جو نصیحت قبول کرتا ہے وہ اپنے فائدے کیلئے کرتاہے اور جس نے میرے قاصدوں کی پیروی کی اور ان کی ہدایت پر عمل کیا تو ا س نے بلا شبہ میری پیروی کی اور جس نے اس کی خیر خواہی کی اس نے گویا میری خیر خواہی کی اور میرے قاصدوں نے آکر تمہاری توصیف کی اور میں نے تمہاری قوم کے بارے میں تمہاری سفارش قبول کی پس وہ املاک مسلمانوں کے پاس چھوڑ دو جن پر وہ اسلام لانے کے وقت قابض تھے اور گناہوں سے درگزر کرتا ہوں- لہٰذا تم بھی ان سے (توبہ)قبول کر لو اور جب تک تم اصلاح احوال کرتے رہو گے تو ہم تمہیں ہرگز معزول نہیں کریں گے اور جو شخص یہودیت یا مجوسیت (آتش پرستی)پر قائم رہنا چاہے اس پر جزیہ ہے‘‘-


٭بحرین کے ایرانی گورنر منذر بن ساوی کے نام مکتوب نبوی استنبول کے تبرکات میں محفوظ ہے اسے عثمانی خلیفہ سلطان عبدا لمجید خان اول نے کسی فرانسیسی سیاح سے خریدا تھا-فرانسیسی سیاح نے 1885ءمیں اسے ایک مصری راہب سے حاصل کیا تھا -یہ ایک باریک سیاہی مائل بھوری کھال پر مرقوم ہے- (محمد ریاض، حضرت رسالت مآب (ﷺ) کے مکاتب،ص :119)



سید محبوب رضوی لکھتے ہیں:”اتفاق سے نامہ مبارک بنام مقوقس کی طرح اس کو ترکی کے سلطان عبدالمجید خان نے فرانسیسی سیاح کو ایک بڑی قیمت دے کر خرید لیا اور قسطنطنیہ میں دوسرے تبرکات نبوی (ﷺ)کے ساتھ رکھوایا-منذر اور مقوقس کے نام خطوط کا انداز تحریر ایک دوسرے سے بڑی حد تک ملتا ہے اس لئے بہت ممکن ہے کہ یہ مکتوب بھی صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) ہی کے دست مبارک سے لکھا ہوا ہو- ”(رضوی،مکتوبات نبوی،ص: 164)

یہ خط آپ ﷺ کی طرف سے مسلیمہ کذاب کو لکھاگیا  ۔ یہ ترکی   کے شہر استنبول میں   توپ کاپے محل میوزیم میں محفوظ ہے ۔