پیش گفتار
مسلمانوں کی کوششوں سے جن علوم و فنون کو فروغ نصیب ہوا ان کا سرچشمہ قرآن حکیم اور حدیث نبویؐ کا مطالعہ ہے۔ تفہیم قرآن کے لیے لغت، فقہہ اللسان، قواعد صرف و نحو اور فصاحت و بلاغت کے اصولوں پر توجہ ہوئی، احادیث کی تدوین اور ان کی صحت کے اصولوں کو متعین کرنے کے لیے تاریخ، اسماء الرجال، منطق، نفسیات وغیرہ کو ترقی نصیب ہوئی۔ آگے چل کر لسانیات، قواعد، لغت نویسی، تاریخ، سوانح نگاری غرض سینکڑوں علوم قرآن اور حدیث کے مطالعہ اور تفہیم کی بدولت وجود میں آئے۔ انہیں علوم میں تدوین و ترتیب ملفوظات کا فن ہے جس میں مسلمانوں کی صدیوں کی کاوشیں محفوظ ہیں۔
ملفوظات، لفظ سے مشتق ہے اور اس کا اطلاق اقوال و گفتار پر ہوتا ہے جسے سننے والا محفوظ کر لیتا ہے۔ عام طور پر یہ اقوال و گفتار صوفیائے کرام، علمائے دین، اکابر حکماء اور دانشوروں کے ہیں جن کو ان کے عقیدت مندوں نے بڑی محنت اور صحت کے ساتھ قلمبند کر کے اپنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے ترتیب و تدوین سے پیش کیا ہے۔ اکثر اکابر کے افکار و خیالات ان کی مستقل تصانیف اور تحریروں میں موجود ہیں، لیکن ظاہر ہے یہ تحریری سرمایہ مستقل اور اہم ہونے کے باوجود ان کی زندگی کے صرف چند لمحات کی تخلیق ہوتا ہے۔ روزانہ زندگی میں احباب اور عقیدت مندوں سے گفتگو میں بہت سے ایسے معاملات بیان ہوتے ہیں جو مستقل تحریروں میں جگہ نہیں پاتے لیکن جن سے ان کے افکار و نظریات کی تشریح اور تفسیر ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں اور خاص طور پر بے تکلف دوستوں سے بات چیت میں ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں جن کا مستقل تصانیف میں سراغ نہیں ملتا، مستقل تصانیف میں احتیاط اور مصالح بھی قدم قدم پر مصنف کے قلم کو پابند کرتے ہیں۔ بہت سی باتیں جو انسان کہنا چاہتا ہے وہ کھل کر نہیں کہہ سکتا اور اسی لیے تحریروں بالخصوص نظم میں اور اس میں بھی غزل میں خاص طور پر ایمائی انداز بیان اختیار کرنا پڑتا ہے غزل اور نظم میں علامات اور اشارات میں شاعر جو کچھ کہہ گزرتا ہے وہ اگر نثر میں صاف صاف بیان کر دے تو شاید زندگی دشوار ہو جائے۔ اس کی ایک مثال مختلف ادوار میں سیاسی گھٹن کا اظہار ہے۔ یہ خواہ اس دور قدیم کے شہر آشوبوں اور ہجویات میں ہو جس کی ایک مثال سودا کا کلام ہے، یا دور جدید میں فیض کی غزل، ان باتوں کا سادہ نثر میں اظہار شاید اتنا آسان نہ ہوتا۔ ملفوظات کی بات دوسری ہے، اس میں کہنے والا کھل کر بات کرتا ہے۔ کسی مصلحت، کسی پابندی، لحاظ، رکھ رکھاؤ کا اس کو احساس نہیں ہوتا۔ اس کی شخصیت جیسی کھل کر ان ملفوظات میں سامنے آتی ہے ویسی کسی اور تحریر میں ممکن نہیں ہوتی۔ اگر یہ اصول درست ہے کہ کسی تحریر کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس کے مصنف کے مزاج، افتاد طبع، نشست و برخاست اور روز مرہ زندگی کے معمولات کو سامنے رکھنا ضروری ہے تو ان ملفوظات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ کوئی فنکارانہ تخلیق اپنے خالق کی سیرت اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز سے بیگانہ نہیں رہ سکتی اور اس طرح فن کی تفہیم کے لیے فنکار کی تفہیم پہلا مرحلہ ہے اور ملفوظات اس مرحلہ سے گزرنے کا ایک اہم اور موثر ذریعہ ہیں۔
پھر اکثر یہ ہوتا ہے کہ کسی تحریر کو پڑھ کر پڑھنے والے کے ذہن میں کوئی الجھن پیدا ہوتی ہے، کوئی مسئلہ اٹھتا ہے، اس کا جواب اس تحریر میں نہیں ملتا، اگر مصنف موجود نہ ہو تو پھر ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق ایسے مسائل کی تشریح اور توجیہہ کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال مرزا غالب کے کلام کی مختلف شرحوں میں ملتی ہے کہ شارحین نے ایک ہی شعر کی طرح طرح تشریح کی ہے مگر بعض اشعار کی تشریح جو مرزا نے خود مولانا حالی کے سامنے بیان کی اس سے اس قیاس آرائی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بعض مسائل و معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا ذکر بعض تحریروں میں صرف ضمنی طور پر اور نہایت مختصر یا محض اشاروں تک محدود ہوتا ہے، ان کی تفسیر اور تشریح بھی ان ملفوظات کے ذریعے سے ہو جاتی ہے۔
علامہ اقبال بلا شبہ اپنے دور کے نابغہ تھے،ا نہوں نے فکر و خیال کی نئی راہیں ہمارے لیے کھولی ہیں۔زندگی کا ایک مثبت، موثر اور فعال نظریہ پیش کیا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے مختلف منازل اور مراحل کی نشان دہی کی ہے۔ شاعری میں انہوں نے موضوع اور اسلوب دونوں میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ وہ ایشیا کی بیداری کے نقیب و علمبردار ہیں اور ملت اسلامیہ کی میراث کے محافظ۔ ان کا فلسفہ اور ان کی شاعری بیسویں صدی کے نصف اول میں برصغیر کے افکار کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ بنیادی طور پر ان کا مقصد تشکیل الہیات جدید ملت اسلامیہ تھا جس کا نتیجہ ان کے مشہور خطبات ہیں جو خطبات مدراس کے نام سے مشہور ہیں اور جن کے متن انگریزی کے علاوہ اردو ترجمہ سید نذیر صاحب کا حواشی و تعلیقات کے ساتھ دستیاب ہے۔ ان کے خطبات، مقالات، مکاتیب، مضامین اور مجموعہ ہائے کلام سب مل کر اقبال کے فلسفہ، ان کے شاعرانہ مزاج و مذاق، ان کے نظریات اور عقائد کی تصویر مکمل کرتے ہیں، لیکن اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے ان کے ملفوظات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
ملفوظات اقبال کا پہلا ایڈیشن محمود نظامی صاحب نے مرتب اور شائع کیا ۔ سنہ اشاعت نہ ناشر نے لکھا ہے اور نہ اس کا ذکر پیش لفظ یا دیباچہ میں ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ نسخہ 1947ء سے پہلے شائع ہوا ہو گا۔ اس میں حسب ذیل مضامین شامل تھے:
1کیف غم (شیخ سر عبدالقادر)
2اقبال کی یاد میں (میاں بشیر احمد)
3علامہ اقبال کی صحبت میں (محمد حسین عرشی)
4میرا اقبال (مرزا جلال الدین بیرسٹر ایٹ لائ)
5ایک فیضانی لمحے کی یاد (ڈاکٹر تاثیر)
6 اقبال کے ہاں ایک شام (ڈاکٹر سعید اللہ)
7علامہ اقبال سے ایک ملاقات (پروفیسر حمید احمد خاں)
8عمر عزیز کے بہترین لمحے (حفیظ ہوشیار پوری)
9یاد ایام (خواجہ عبدالوحید)
10 چند ملاقاتیں (سید الطاف حسین)
11دو ملاقاتیں (سید عابد علی عابد)
12اقبال کے ہاں (خضر تمیمی)
13حضرت علامہ (عبدالواحد)
14بزم اقبال (سعادت علی خاں )اور
15مئے شبانہ (عبدالرشید طارق)
اس پر ایک مختصر پیش لفظ ہے جس سے ان مضامین کی شان نزول کا پتہ چلتا ہے یعنی حلقہ نقد و نظر جس میں لاہور کے کچھ باذوق پڑھے لکھے لوگ جمع ہوتے تھے اور مضامین پڑھے جاتے تھے اور اس میں لاہور کے نوجوان ادیب خاص طور پر شامل ہوتے تھے۔ اس پیش لفظ کے بعد مضامین کے مرتب کرنے والے جناب محمود نظامی کا تقریباً دو صفحوں پر مشتمل ایک مختصر دیباچہ ہے۔ ان مضامین کی اشاعت کا مقصد نظامی صاحب یوں بیان کرتے ہیں:
’’ پیش کرنے والے کو یقین ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد ہم نہ صرف شاعر اعظم کے فن کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ شاعر اعظم کی شخصیت کو سمجھنے میں بھی یہ ہماری ممد و معاون ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ شاعر اعظم اور اس کے پیغام کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے اس کی شخصیت کو سمجھنا لابدی ہے۔‘‘
یہ مجموعہ لالہ نرائن دت سہگل نے امرت الیکٹرک پریس لاہور سے پنڈت دھرم چند بھارگو بی ایس سی کے اہتمام سے چھپوا کر لوہاری گیٹ لاہور سے شائع کیا۔ پہلے ایڈیشن کی کل تعداد صرف ایک ہزار تھی اور اس کی قیمت چار روپے رکھی گئی تھی۔ صفحات کی کل تعداد 234تھی۔ کتاب کے آخر میں ناشر نے اپنی کتابوں کا ایک اشتہار بھی دیا ہے اور یہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور کی تصانیف کے کچھ تراجم ہیں۔ ترجمہ کرنے والوں میں حضرت یزدانی، احسان بی اے، منشی تیرتھ رام، جمیل احمد، منی رام دیوانہ، نرمل چندر (شرح گیتان جلی) اور احسان علی شاہ شامل ہیں۔ تین ناول شرت چندر چٹر جی کے ہیں، ترجمہ کرنے والے منی رام جی دیوانہ، رام سروپ کوشل اور کوئی صاحب حضرت آتش ہیں۔ دوسرے صفحہ پر مرزا ادیب کے صحرا نورد کے رومان، ان داتا، دنیائے آزاد اور موت کے راگ کا اشتہار ہے۔ راجہ مہدی علی خاں کی تصانیف و تراجم میں دنیا کی رنگیں مزاج عورتیں، ستارۂ صبح، شمع حرم اور کملا شامل ہیں۔ احسان علی شاہ کی تصانیف و تراجم میں مہر و ماہ، بیوی کی تلاش اور بیٹے شامل ہیں۔ ان اشتہارات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو ناشرین بھی اس وقت اردو کی کتابیں شائع کرتے تھے اور ان کے مصنفین اور مترجمین میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ اس ادارے کے اشتہار سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً کاروباری نقطہ نظر سے ناولوں اور افسانوں کی طباعت و اشاعت زیادہ سود مند تھی اور ناشرین کا زور بھی اسی پر صرف ہوتا تھا۔ا یسی صورت میں ایک خالص علمی اور فکری کتاب جیسی کہ ملفوظات اقبال ہے، اس ادارہ کی طرف سے علامہ اقبال کی حیثیت اور اہمیت کا اعتراف ہے، ورنہ جیسا کہ معلوم ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے ہندوؤں کی اکثریت اس اقبال کی تعریف کرتی رہی۔ جس نے کوہ ہمالہ اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور نیا شوالہ لکھا لیکن جوں ہی اقبال اپنے ذہنی سفر میں کشمکش کے دور سے نکلے اوران کی شاعری کا ملی اور آفاقی دور شروع ہوا تو ہندوستانی قومیت کے علمبرداروں نے بڑی مایوسی کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اس پہلے دور میں بھی جس میں ان پر ہندوستانی قومیت اور اس کے اثرات کا غلبہ نظر آتا ہے، ایک طرح کی جغرافیائی اور ملی کشمکش میں مبتلا تھے، خود ترانہ ہندی کو دیکھئے، آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
..............
..............
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
لیکن اس کا آخری شعر دیکھئے:
اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا
یہ درد نہاں بالآخر کیا ہو سکتا ہے؟ اقبال کی شاعری کا آغاز باقاعدہ بیسویں صدی کے آغاز سے ہوا اور ان کی نظم کوہ ہمالیہ مخزن کے پہلے شمارہ میں شائع ہوئی۔ سرسید احمد خاں کی وفات 1898ء میں ہوئی تھی اور اردو ہندی کے قضیہ کے بعد ان کو یقین ہو گیا تھا کہ ہندو اور مسلمان آئندہ اس ملک میں مل کر نہیں رہ سکتے اور بالآخر ان کو الگ ہونا ہی پڑے گا۔ یہی احساس اور بھی بہت سے محب وطن مسلمانوں میں بیدار ہونے لگا تھا۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے بھی اپنے مشہور مقالہ میں ملک کی اس تقسیم کی طرف اشارہ کیا تھا۔ 1905ء میں بنگالہ کی تقسیم اور پھر اس کی تنسیخ نے اس جذبے کو اور تقویت پہنچائی۔ اور1906ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی جس میں آگے چل کر 1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد کے اجلاس میں اپنا وہ تاریخی خطبہ پڑھا جسے پاکستان کی جدوجہد کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ خطبہ کسی وقتی، ہنگامی یا جذباتی لمحے کی پیداوار نہ تھا۔ اس کے پس منظر میں ایک طویل مطالعہ، مشاہدہ، غور اور فکر شامل ہیں۔ علامہ نے فرمایا تھا1؎:
’’ میں نے اپنی زندگی کا زائد حصہ اسلام، اور اسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسلسل اور متواتر تعلق کی بدولت جو مجھے تعلیمات اسلامی کی روح سے (جیسا کہ مختلف زبانوں میں اس کا اظہار ہوا ہے) رہا ہے، میں نے اس امر کے متعلق ایک خاص بصیرت پیدا کر لی ہے کہ ایک عالمگیر حقیقت کے اعتبار سے اسلام کی حیثیت کیا ہے۔ لہٰذا یہ فرض کرتے ہوئے کہ مسلمانان ہندوستان بہرحال اپنی اسلامی روح کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں، میں کوشش کروں گا کہ آپ کے فیصلوں کی رہنمائی کی جائے اسی بصیرت کی روشنی میں، خواہ اس کی قدر و قیمت کچھ بھی ہو، آپ کے دل میں اسی بنیادی اصول کا احساس پیدا کر دوں جس پر میری رائے میں تمام فیصلوں کا عام انحصار ہونا چاہیے۔‘‘
1؎ حرف اقبال، مرتبہ لطیف احمد شروانی، المنار اکادمی لاہور جولائی 1947ء طبع دوم، ص17,18 ترجمہ سید نذیر نیازی
یہ بنیادی اصول کیا ہے، اسے بھی علامہ کی زبان سے سنیے:
’’ حب الوطنی بالکل طبعی صفت ہے اور انسان کی اخلاقی زندگی میں اس کے لیے پوری جگہ ہے۔ لیکن اصل اہمیت اس کے ایمان، اس کی تہذیب اور اس کی روایات کو حاصل ہے، اور میری نظر میں یہی اقدار اس قابل ہیں کہ انسان ان کے لیے زندہ رہے اور ان کے لیے ہی مرے نہ زمین کے اس ٹکڑے کے لیے جس سے اس کی روح کو کچھ عارضی ربط پیدا ہو گیا ہے۔‘‘ 2؎
سو یہی وہ بنیادی اصول تھا جس تک رسائی کے لیے علامہ اقبال اپنے پہلے دور میں کشمکش سے گزرے۔ بانگ درا کے حصہ اول میں اس کشمکش کا اظہار جا بجا ہوا ہے۔ کل رنگین میں یہ اشعار دیکھیے:
میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے
میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے
مطمئن ہے تو، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں
زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں
اور صدائے درد کے یہ اشعار دیکھئے:
سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسایاں تو اک قرب فراق آمیز ہے
.......................
...........................
2؎ ایضاً ص16
حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینہ سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
اور جس نظم کا عنوان شمع ہے اس کا پہلا شعر:
بزم جہاں میں میں بھی ہوں اے شمع درد مند
فریاد در گرہ صفت دانہ سپند
اور ماہ نو کا یہ شعر:
نور کا طالب ہوں گھبراتا ہوں اس بستی میں میں
طفلک سیماب پا ہوں مکتب ہستی میں میں
زہد و رندی کے یہ آخری چار شعر ہیں:
گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے
موج دریا کے عنوان سے جو نظم ہے اس کے یہ دو شعر دیکھئے:
ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
کیوں تڑپتی ہوں یہ پوچھے کوئی میرے دل سے
زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں
وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں
ارباب نظر تنگی دریا اور وسعت بحر کے استعاروں اور علامتوں سے ہی اس کشمکش کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو محدود جغرافیائی وطنیت اور آفاقی ملت اسلامیہ کے تصور کی وجہ سے شاعر کو پریشان رکھتی ہے۔
یہ چند مثالیں بانگ درا کے حصہ اول سے لی گئی ہیں جن میں 1905ء سے پہلے تک کا کلام موجود ہے۔ 1905ء سے 1908ء تک دوسرا دور قیام انگلستان کا ہے۔ اس دور میں عبدالقادر کے نام، صقلیہ کے علاوہ 1907ء کی یہ غزل دیکھئے:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اور وہ راز کیا تھا:
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خار زار ہو گا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
اور پھر اس بیداری اور ہوشیاری کا پیغام علامہ کی شاعری، ان کے خطبات، مقالات، مضامین اور ان ملفوظات میں نہایت واضح طور پر ملتا ہے۔
ملفوظات کا دوسرا ایڈیشن پروفیسر حمید احمد خاں صاحب نے مرتب کیا اور اس میں صرف دو مضامین کا اضافہ کیا۔ ایک مضمون حکیم مشرق کے عنوان سے حکیم محمد حسن قرشی صاحب کا ایک اور ابا جان کے عنوان سے ڈاکٹر جاوید اقبال کا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا مضمون پہلے ایک ریڈیائی تقریر کی صورت میں تھا، ملفوظات کے طبع دوم میں شامل ہو ااور پھر ڈاکٹر جاوید اقبال کے مقالات کے مجموعہ مئے لالہ فام میں کسی قدر حذف و اضافہ کے بعد شائع ہوا۔ میں نے متن کی بنیاد طبع اول پر رکھی ہے۔ حکیم محمد حسن قرشی صاحب کا مضمون حکیم مشرق طبع دوم سے لیا ہے اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے مضمون کے لیے مئے لالہ فام میں شامل مقالہ کو متن بنایا ہے۔ پہلا اور دوسرا ایڈیشن دونوں کمیاب کیا تقریباً نایاب ہیں۔ جب ملفوظات کے متن اور حواشی کی ترتیب و تدوین میرے سپرد ہوئی تو میرے عزیز دوست اور رفیق مرحوم پروفیسر سید وقار عظیم نے بڑی تلاش سے پنجاب پبلک لائبریری سے طبع دوم کا ایک نسخہ میرے لیے حاصل کیا۔ خوش قسمتی سے پھر طبع اول کا نسخہ مجھے کراچی یونیورسٹی کے کتب خانہ سے مل گیا۔ میں نے اسی نسخہ کو متن میں استعمال کیا ہے۔
اس عرصے میں علامہ کے ملفوظات کے متعلق بعض چیزیں شائع ہوئیں۔ ان میں بعض مضامین ایسے تھے جن کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ خیال درست ہے کہ علامہ کے انتقال کے بعد وہ علامہ کے عقیدت مندوں، نیاز مندوں، مشیروں میں شامل ہو گئے اور بعض نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ علامہ شعر کہنے میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ بعض نے ان کی کبوتر بازی، بٹیر بازی اور پتنگ بازی کے بارے میں اپنی اختراعات سے بزعم خود مطالعہ اقبال میں بڑا اضافہ کیا۔ ایسی تحریروں کو اس متن میں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن بعض اور تحریریں معتبر ایسی شائع ہوئیں جن سے اس متن میں اضافہ ہوا۔ ان میں ایک روزگار فقیر ہے جس سے علامہ کے اہم ارشادات کو اضافہ متن کے تحت شامل کر لیا گیا ہے۔ دوسرا ماخذ ممتاز حسن مرحوم کی مرتبہ اقبال اور عبدالحق ہے۔ اس سے بھی متن میں مفید اضافے ممکن ہوئے ہیں۔ ملفوظات کے بعض مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں جن میں نذیر نیازی صاحب کا مجموعہ بھی شامل ہے۔ یہ مجموعہ عام طور پر دستیاب بھی ہے اور اس پر ضروری حواشی بھی موجود ہیں اس لیے اس کے متن یا اس متن پر دوبارہ حواشی تحریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بعض مجموعے زیر ترتیب ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے ملفوظات اقبال کی صحبت میں او رجناب صوفی تبسم کی یادداشتیں، امید ہے کہ یہ ملفوظات حواشی اور تعلیقات کے ساتھ شائع ہوں گے۔
اب میں مختصر طور پر اس تصویر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ان ملفوظات کو پڑھ کر ابھرتی ہے۔ علامہ اقبال ان ملفوظات میں ایک مرد مومن کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ان کے ایمان و ایقان کی اساس عشق رسولؐ ہے جن کے واسطے اور وسیلے سے اور جن کے وجدان کی اعلیٰ ترین شکل وحی کے ذریعے سے کلام الٰہی ہم تک پہنچا ہے۔ عشق رسولؐ میں اقبال کا غلو انتہائی شدید ہے اور ان کی نظم و نثر اور ان کے مکاتیب و مقالات میں جا بجا موجود ہے۔ ایسا ہونا یوں بھی ضروری تھا کہ بغیر اس کے کوئی مسلمان سچا اور پورا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس پاک ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی کامل ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ حضرت انسؓ سے بھی بعینہ یہ حدیث مروی ہے مگر اس کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں:
’’ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
ایک اور روایت میں بھی رسولؐ سے محبت کا ذکر خدا کی محبت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ حضرت انسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ تین باتیں جس کسی میں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی کا مزہ پائے گا، اللہ اور اس کا رسولؐ اس کے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں اور جس کسی سے محبت کرے تو اللہ ہی کے واسطے اس سے محبت کرے اور کفر میں واپس جانے کو ایسا برا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو۔
قرآن حکیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کی عزت و احترام کا جا بجا ذکر ہے۔ سورہ الاحزاب (آیت6) میں ارشاد ہوا ہے:
’’ النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم‘‘
نبی مسلمانوں کے لیے ان کی اپنی جانوں سے بھی مقدم ہے۔ اور سورہ الحجرات (5-6) میں ارشاد ہوا ہے:
’’ یایھا الذین امنو لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھرو الہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون‘‘
مسلمانو! تم اپنی آوازیں رسولؐ خدا کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نہ ان سے بہت زور سے بات چیت کیا کرو، جیسا کہ تم آپس میں کرتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس گستاخی کی وجہ سے تمہارے کیے کرائے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
ملفوضات میں اس کی مثالیں بکثرت ہیں، مثلاً محمد حسین عرشی صاحب سے سرمد کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی اور وہ مشہور شعر سامنے آیا:
ملا گوید احمد بفلک بر شد
سرمد گوید فلک با احمد در شد
کہا جاتا ہے کہ یہ وہی شعر ہے جس پر بعض علماء کا اعتراض تھا کہ اس میں معراج جسمانی سے انکار ہے اور ا سکی بناء پر سرمد کو واجب القتل قرار دیا گیا۔ علامہ نے فرمایا کہ یہ شعر مولانا روم کے اس شعر سے ماخوذ ہے:
تو مخور غم کہ نگردد یاوہ او
بلکہ عالم یاوہ گردد اندرو
علامہ نے وہ واقعہ بیان کیا جو اس شعر سے متعلق مولانا روم نے نظم کیا ہے۔ عرشی صاحب فرماتے ہیں:
’’ یہاں پہنچ کر حضرت علامہ ڈاڑھیں مار کر رونے لگے۔۔ مرزا جلال الدین فرماتے ہیں:‘‘
’’ ڈاکٹر صاحب التزام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے اس سے مسدس (حالی) سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں وہ بند:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
سے شروع ہوتے ہیں یا جو مسدس کے آخر میں ہیں انہیں بطور خاص مرغوب تھے۔ ان کو سنتے ہی ان کا دل بھر آتا اور وہ اکثر بے اختیار رو پڑتے، اسی طرح اگر کوئی عمدہ نعت سنائی جاتی تو ان کی آنکھیں ضرور پر نم ہو جاتیں، حضور رسالتمآب کے ساتھ انہیں جو وابستگی تھی اسی کی وجہ سے انہیں اولیائے کرام سے بھی خاص عقیدت تھی۔‘‘
غرض اقبال کے یہاں عشق رسولؐ کی جو نوعیت ہے وہ ان کے کلام نظم و نثر میں اتنی واضح ہے کہ یہاں اس کی تائید میں مزید مثالیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے علامہ نے قرآن حکیم، فقہ اسلامی، سیاست اسلامی تاریخ، تہذیب و تمدن اسلامی کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس سے ان پر اسلام کی عالمگیر حیثیت کا انکشاف ہوا تھا۔ قرآن کو وہ تعلیمات اسلام کا ماخذ سمجھتے تھے او رمسلمانوں کے بلکہ دنیا کے تمام مسائل کا حل قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں تلاش کرنا چاہتے تھے۔ قرآن اور حدیث سے ان کی دلچسپی اور وسعت مطالعہ کا اندازہ ملفوظات میں ان مباحث پر ان کے خیالات اور بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ آخر عمر میں ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ قرآن حکیم کے بارے میں وہ اپنے حواشی قلمبند کر دیں اور بقول خود یہ سب سے بڑا تحفہ تھا جو وہ عالم اسلام کو پیش کر سکتے تھے۔ اس کے لیے جس سکون و اطمینان، فارغ البالی، وسائل و ماخذ کی فراہمی درکار تھی وہ اس کے لیے برادر کوشش کرتے رہے۔ اور آخر میں سرسید راس مسعود مرحوم کی کوشش سے بھوپال میں نواب حمید اللہ خاں مرحوم کی سرپرستی میں کوئی صورت اس منصوبہ کی تکمیل کی پیدا ہو رہی تھی کہ پہلے راس مسعود اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد علامہ کا خود انتقال ہو گیا اور یہ منصوبہ ہماری بدنصیبی سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ افسوس کہ اب ہم میں کوئی شخص ایسی بصیرت کا مالک نظر نہیں آتا جو اس اہم تقاضے کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کا اظہار بڑے کرب کے ساتھ علامہ نے 19مارچ1935ء کو عرشی صاحب کے نام اپنے ایک خط میں کیا ہے جس کا ایک حصہ یہاںنقل کیا جاتا ہے:
’’ آپ اسلام اور اس کے حقائق کے لذت آشنا ہیں، مثنوی رومی کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہیے؟ شوق خود مرشد ہے۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں، اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی۔ افسوس ہے ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے:
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں
بہرحال قرآن اور مثنوی کا مطالعہ جاری رکھیے۔ مجھ سے بھی کبھی کبھی ملتے رہیے۔ اس واسطے نہیں کہ میں آپ کو کچھ سکھا سکتا ہوں بلکہ اس واسطے کہ ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کر جاتی ہے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوئے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے جن کو جاننے والے مسلمانان ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پیدا نہیں ہوتے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔۔۔۔ محمد اقبال‘‘
چنانچہ عرشی صاحب علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ان ملاقاتوں کے بارے میں عرشی صاحب لکھتے ہیں:
’’ میرے ان کے مکالمات کا غالب حصہ باریک روحانی، متصوفانہ اور قرآنی مسائل سے متعلق ہوتا ہے۔‘‘
چنانچہ عرشی صاحب نے ان بعض ملاقاتوں کی تفصیل اپنے مضمون میں بیان کی ہے۔ ایک اور مسئلہ جو ان ملفوظات کا موضوع ہے علم کی حقیقت ہے۔ حواشی و تعلیقات میں ہم اس مسئلہ پر کسی قدر تفصیل سے لکھ رہے ہیں اس لیے یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں، صرف عرشی صاحب کے حوالہ سے علامہ کا یہ قول نقل کرنا کافی ہے:
’’ فرمایا: علم کی دو قسمیں ہیں، ایک ہمارے اکتسابی معلومات کا ذخیرہ، ہم خود مخلوق الٰہی ہیں اور ہمارے اکتسابی آلات علمیہ ہماری مخلوق یعنی ہمارا علم مخلوق کا مخلوق ہے۔ پس ایسے علم کو علم الٰہی سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرا وہ علم ہے جو خواص کو عطا ہوتا ہے۔ وہ بے منت کسب، قلب و روح کے اعماق سے ابلتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا، اس علم کی کلید کیا ہے؟ فرمایا ’’ ارشاد خداوندی ہے قد افلح من زکھا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اس پر علم کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، تزکیہ نفس کا طریق کیا ہے؟ اس پر آپ نے صوفیہ کے بعض مشاغل کی طرف اشارہ کیا۔
اس مختصر حوالے سے جہاں علم کے باب میں علامہ اقبال کے خیالات کا سراغ ملتا ہے وہاں تصوف اور صوفیہ کے بارے میں بھی ان کے نقطہ نظر کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ بعض حلقوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ علامہ اقبال تصوف اور صوفیوں کے خلاف تھے۔ بیشک علامہ اقبال ان بعض خیالات سے متفق نہ تھے جو بعض صوفیہ سے منسوب ہیں لیکن وہ صوفیانہ تجربے اور واردات روحانی کے منکر نہ تھے بلکہ وہ تصوف جو اسلامی ہے اور جس کا ماخذ قرآن حکیم، احادیث نبوی، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کی پاک زندگی اور اکابر صوفیا کی تعلیمات ہیں۔ وہ ان کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ ایسے صوفیہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت ابو الحسن علی الہجویری داتا گنج بخش اور حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ اور بعض دوسرے نام شامل ہیں۔ منصور حلاج اور سرمد کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر وہ نہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں۔ ہم اس مسئلہ پر تفصیل سے اپنی کتاب اقبال اور مسلک تصوف میں بحث کر چکے ہیں جو علامہ کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں شائع ہو رہی ہے۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اس میں اس مسئلہ کا تفصیلی مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ملفوظات کا ایک اور اہم موضوع ملکی اور ملی سیاست ہے۔ اگرچہ اس بارے میں ملفوظات کم ہیں تاہم علامہ کا نقطہ نظر یہاں بھی وہی ہے جو ان کے خطبات اور تقریروں اور ان کی نظموں میں ہے۔ یعنی وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان اپنے اسلامی مزاج اور روایات سے دستبردار ہونا نہیں چاہتے اور ایک باعزت زندگی بسر کرنے کے لیے انہیں اپنی ملی حیثیت مستحکم کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی اور جماعت یا گروہ میں کم نہ ہو جائیں اور یہی مطالبہ پاکستان کی اساس ہے۔ 3؎مرزا جلال الدین اپنے مضمون مشمولہ ملفوظات میں فرماتے ہیں:
’’ میں سیاسی مسائل میں ڈاکٹر صاحب کا ہم خیال تھا۔ ان کی طرح میرا بھی یہی ایمان تھا کہ مسلمان کسی دوسری سیاسی جماعت میں مدغم ہو کر اپنی ملی حیثیت کو کھو دینے کی بجائے اپنی سیاسی تنظیم کے لیے خود کوشش کریں۔ چنانچہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم نے لندن میں انہیں
3؎ اس موضوع پر علامہ کے خطبات اور تقاریر کا ایک اچھا مجموعہ حرف اقبال ہے۔ مرتب لطیف احمد شروانی، محولہ بالا
مقاصد کے پیش نظر پان اسلامک سوسائٹی کے نام سے ایک نیم سیاسی انجمن قائم کر رکھی تھی جس کے جنرل سیکرٹری سر عبداللہ سہروردی تھے اور سر سلطان احمد اور میں جائنٹ سیکرٹریز۔‘‘
’’ اقبال کا تفکر و تدبر محض اس اسلامی سیاست تک محدود تھا جس کا ذکر کلام پاک میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ اسی سیاست کو انہوں نے اپنا موضوع سخن بنایا اور اسی نکتہ پر ان کے خیالات ابتدا سے آخر تک مرکوز رہے اور یہ نکتہ وحدت ملی تھا اس کے سوا وہ کسی اور سیاست کو درخور اعتنا نہ سمجھتے تھے۔‘‘
اس کے باوجود وہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کی سیاست سے بالکل بے تعلق نہ تھے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے قاری کو منجمد اور ماخذات کے اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی خط و کتابت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جس تصور کو انہوں نے اپنے الہ آباد کے خطبہ میں پیش کیا تھا وہ جن مراحل سے گزرا اسے دیکھنے کے لیے وہ دس سال سے زیادہ زندہ نہ رہے لیکن ان کے انتقال کو دس سال گزرے تھے کہ ان کا خواب ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کی صورت میں وجود میں آ گیا۔
زبان کا مسئلہ بھی ہمارا ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس باب میں علامہ کے خیالات کا سراغ ان مکاتیب میں ملتا ہے جو انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کو لکھے ہیں4؎ ان میں بعض کے اقتباسات دیکھئے:
4؎ بحوالہ اقبال نامہ حصہ دوم، مرتبہ شیخ عطاء اللہ، طبع لاہور 1951ء
’’ بہرحال اگر اردو کانفرنس کی تاریخوں تک میں سفر کے قابل ہو گیا تو انشاء اللہ ضرور حاضر ہوں گا لیکن اگر حاضر نہ بھی ہو سکا تو یقین جانیے کہ اس ہم معاملے میں کلیتہً آپ کے ساتھ ہوں۔ اگرچہ میں اردو زبان کی بحیثیت زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تاہم میری لسانی عصبیت دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں۔‘‘
جس کانفرنس کا اس خط میں ذکر ہے وہ علی گڑھ میں انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام ہوئی تھی اور راقم السطور اس وقت مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو کی انجمن اردوئے معلی کا سیکرٹری تھا اور اس حیثیت سے کانفرنس کے بعض امور اس کے ذمہ بھی تھے۔ یہ بڑا نازک دور تھا۔اور اردو ہندی کا جھگڑا اپنی انتہائی شدت پر تھا اور اس کانفرنس میں انجمن کی تنظیم نو اور اس کا دفتر دہلی منتقل کرنے کا مسئلہ در پیش کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے اس خط میں چند تجاویز پیش کی تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں اردو کی ترقی کے لیے پنجاب (لاہور) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ایک اور خط میں علامہ لکھتے ہیں:
’’ آپ کی تحریک سے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ بہت سے اعتبار سے یہ تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیں جس کی ابتدا سرسید رحمتہ اللہ علیہ نے کی تھی۔‘‘
یہ اشارہ ظاہر ہے تحریک اردو کی طرف ہے۔ ایک اور خط میں فرماتے ہیںـ:
’’ اردو زبان کے تحفظ کے لیے جو کوشش آپ کر رہے ہیں، ان کے لیے مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آپ کی شکر گزار ہوں گی۔ مگر آپ سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے کہ زبان کے بارے میں سرکاری امداد پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اور نئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کے بقا کا انحصار ہے۔‘‘
ملفوظات میں اقبال اور عبدالحق مرتبہ ممتاز حسن مرحوم کے حوالے سے جو اضافے کئے گئے ہیں، وہ اضافہ متن کے عنوان سے شامل ہیں۔ ان کے دو اقتباسات خاص طور پر قابل توجہ ہیں:
’’ 2فروری 1938ء کی نشست میں نذیر نیازی نے اقبال کے کہنے پر قائداعظم محمد علی جناح کی ایک تقریر پڑھ کر سنائی جو اسی روز اخبار میں چھپی تھی۔ اقبال اس تقریر کی دو باتوں پر خوش ہوئے۔ ایک تو جناح کے اس کہنے پر کہ بندے ماترم سے شرک کی بو آتی ہے۔ دوسرے اس پر کہ ہندی ہندوستانی کی تحریک دراصل اردو پر حملہ ہے اور اردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر‘‘
گویا علامہ اقبال اردو کو صرف ایک زبان، یا صرف کسی ایک علاقے کی زبان، یا صرف ایک گروہ کی زبان نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک یہ ایک ’’ تہذیب‘‘ کا نام اور علامت تھی جو برصغیر کی اسلامی تہذیب ہے۔
اردو کی اہمیت کے بارے میں اسی حوالے سے ایک قول اور دیکھئے:
7مارچ کی نشست میں اقبالؒ کا ارشاد تھا کہ انگریزوں نے باوجود سلطنت مغلیہ کے زوال و انتشار کے۔۔۔ یہ ملک مسلمانوں سے چھینا تھا مسلمانوں کے لسانی اور تہذیبی غلبہ کو وہ اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتے تھے، لہٰذا انہوں نے بڑی تن دہی سے اردو کو فروغ دیا تاکہ مسلمانوں کا رشتہ فارسی اور عربی سے کٹ جائے اور وہ اپنے علمی اور تہذیبی ورثہ سے محروم ہو جائیں مگر پھر اسی اردو سے جب مسلمانوں کے شعور ملی کو تقویت پہنچی اور وہ ان کی قومی زبان بن گئی تو یہ امر طبعاً حکومت کو ناگوار گزرا اور اب اس نے اردو کے مقابلہ میں ہندی کی حمایت شروع کر دی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے شعور ملی کی بیداری اور تقویت میں اردو کی اہمیت و حیثیت کا پورا اندازہ تھا۔
فنون لطیفہ، شاعری، موسیقی، مصوری، تہذیب مغرب، سوشلزم کمیونزم وغیرہ تحریکات، سماج میں عورت کی حیثیت غرض کتنے ہی موضوعات اور ہیں جن پر علامہ نے اپنی شاعری اور مقالات و مکاتیب میں اظہار کیا ہے اور ان ملفوظات سے ان کی مزید تائید، تشریح اور توضیح ہوتی ہے۔ ان سب پر اختصار سے گفتگو بھی طوالت کا باعث ہو گی۔ قارئین متن اور حواشی و تعلیقات کے حوالہ سے خود ان کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا ہے ان ملفوظات میں علامہ کی شخصیت اور ان کے معمولات کی تصویر مکمل کرنے کا سامان موجود ہے جو اور کسی ذریعے سے ممکن نہیں۔ آپ اس تصویر کو
5؎ اس موضوع پر ایک اچھا مطالعہ تحریک آزادی میں اردو کا حصہ از ڈاکٹر معین الدین عقیل ہے۔ یہ مقالہ راقم السطور کی نگرانی میں تیار ہوا اور کراچی یونیورسٹی نے اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ اب اسے انجمن ترقی اردو نے شائع کر دیا ہے۔ (طبع1976ء کراچی)
میرے تبصرہ کے بغیر دیکھئے۔ البتہ حمید اللہ خاں مرحوم نے ملفوظات کے طبع دوم 6؎ میں اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اس پیش گفتار کو ختم کرتا ہوں:
’’ ان (اقبال) کی شاعری کے موضوعات عظیم الشان اور نا محدود ہیں لیکن پھر بھی اس میں ان کی شخصیت کا ہر رنگ منعکس نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر وہ ایک مبلغ تھے، اور ان کی شخصیت کا یہی پہلو ان کے کلام میں نمایاں ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جو ان کی بلندی فکر، ان کے خلوص جذبات، ان کے جوش ایمان، ان کی چبھتی ہوئی طنز میں ہر جگہ جھلکتا ہے لیکن جن لوگوں کو علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف ملتا رہا وہ جانتے ہیں کہ ان چار عناصر کے علاوہ مرحوم کی فطرت کی تعمیر میں کچھ اور اثرات بھی شامل تھے۔ ان کا لطیف مزاح جو ان کے شاعرانہ کلام میں نظر نہیں آتا، ان کی شخصی زندگی کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ اسی طرح وہ محدود و مجبور مگر مضطرب بشریت بھی صرف اقبال کے مکالمات اور ذاتی احوال میں اپنی جھلک دکھاتی تھی جس کے پائے پر شاعر اسلام اور حکیم الامت کے مطلق انا کا منبر قائم تھا۔ یہی وہ منبر تھا جس سے اقبال اور اس کے نصب العینی مرد مومن کی ہم ضمیر آوازیں ایک آواز بن کر گونجتی تھیں۔‘‘
اور اب چند جملے حواشی، تصریحات اور تعلیقات کے باب میں دراصل ملفوظات اقبال کی ترتیب و تدوین و اشاعت جدید کی خدمت جب میرے سپرد ہوئی تو اصل کام یہی پیش نظر تھا، ملفوظات میں جن اشخاص، امصار، تحریکات، مسائل اور واقعات کا ذکر ہے
6؎ ملفوظات طبع دوم محولہ بالا ص6-7
ان کے حوالے درج کیے جائیں اور بعض باتیں جو اشاروں میں ہیں ان کی وضاحت ہو جائے۔ میں نے یہ کام دیانت داری سے اپنی بضاعت کے مطابق انجام دیا ہے اور پاورقی حوالوں میں ماخذ کا ذکر کر دیا ہے۔ اس لئے فہرست ماخذات آخر میں دوبارہ نقل نہیں کی گئی۔
کراچی 10جون1977ء
ابو اللیث صدیقی