اقبال اور فنون لطیفہ، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال اور فنون لط
شروع میں اس امر کی کسی قدر وضاحت درکا ہے کہ کن فنون کو فنون لطیفہ کہتے ہیں اور دیگر فنون سے ان کو کون سے صفت ممتاز کرتی ہے۔ کچھ فنون ایسے ہیں جو انسان نے محض زندہ رہنے کی کوشش میں خاص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیدا کیے ہیں۔ انسان کو غذا چاہیے۔ شروع میں وہ غذا یا خود رو پھلوں سے حاصل کرتا تھا یا دوسرے جانوروں کا شکار کر کے۔ انسان کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ وہ آلات ساز حیوان ہے۔ دوسرے حیوانوں کو فطرت ان کے اعضا ہی میں آلات مہیا کر دیتی ہے۔ لیکن انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فطرت کے عطا کردہ اعضاء کے اعمال میں آلات سے اضافہ کرتا ہے تاکہ ان کی افادیت بڑھ جائے۔ ہزار ہا برس قبل کے تمدن حجری میں پتھر کے نوک دار ٹکڑے ملتے ہیں جو انسان کے اولین آلات جارحہ ہیں۔ غاروں اور درختوں کی پناہوں سے نکل کر انسان کو سر چھپانے اور موسم کی شدت سے اور دام و دد کی حملہ آوری سے محفوظ رہنے کے لیے کاشانے بنانے پڑے۔ جیسے جیسے انسان کی حاجتیں بڑھتی گئیں اور اس کی طبیعت کی لطافتوں میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے حیاتیاتی افادیت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ خالی مادی افادیت کے علاوہ اس کے ذوق جمال کو بھی ترقی ہوئی۔ یہ امر غور طلب ہے کہ یہ ذوق جمال انسان میں کب پیدا ہوا۔ اس کے ماخذ اور اس کی ابتداء پر غور کرنے کے لیے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آیا ذوق جمال انسان ہی کی خصوصیت ہے یا حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بلکہ حیوانات سے بھی اور آگے جا کر دیکھنا پڑے گا کہ نباتات میں بھی ذوق جمال کے مظاہر موجود ہیں یا نہیں۔ بعض حکماء اس کو اور دور تک لے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک جمادات میں بھی حسن آفرینی موجود ہے۔ بعض کیمیائی عناصر یا مرکبات میں جو کرسٹل ہیں ان میں جیومیٹری کے بہت دلکش نقشے دکھائی دیتے ہیں اور ہر کرسٹل کا ایک ڈیزائن مقرر ہے ج
س سے وہ سر مو تجاویز نہیں کرتا۔ اکثر حکماء طبیعین کا عقیدہ ہے کہ زندگی جمادات کے اندر ہی سے مخصوص تراکیب عناصر کے پیدا ہونے کے بعد ظہور میں آئی ہے۔ زندگی جمادات میں خارج سے داخل نہیں کی گئی۔ بعض مفکرین ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ جمادی اور میکانکی مادے میں سے زندگی کا ظہور کسی طرح قابل فہم نہیں۔ اس کا کوئی ماخذ جمادات سے خارج ہی نہیں ہو گا۔ فیثا غورسی کہتے تھے کہ زندگی ہم آہنگی اور توازن کی ایک خاص صورت کا نام ہے اور ہم آہنگی اجرام فلکیہ کی حرکات اور گردشوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ان گردشوں سے موسیقی پیدا ہوتی ہے، جسے ہمارے کان نہیں سن سکتے۔ فلسفہ مسلمانوں کے افکار میں بھی داخل ہو گیا تھا۔ اس کے زیر اثر غالب نے یہ شعر کہا ہے
:
پیکر عشاق ساز طالع ناساز ہے
نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے
صوفیہ خدا یا ہستی مطلق کو حسن مطلق بھی کہتے ہیں، جس کا موجودات کے تمام مدارج اور تمام مظاہر میں بفرق مراتب ظہور ہوتا ہے۔ ’’ اللہ جمیل ویحب الجمال‘‘ خدا خود جمیل ہے اور جمال سے محبت رکھتا ہے۔ خدا کائنات میں جو صورت گری کرتا ہے اس میں حسن آفرینی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔
اس سوال کا جواب کہ انسان میں ذوق جمال کب اور کیوں کر پیدا ہوا، تمام فطرت کے مشاہدے سے مل سکتا ہے۔ حسن آفرینی اگر جمادات، نباتات اور حیوانات سب میں پائی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسانیت کا دور اولیں بھی اس سے معرا ہو۔ انسان کے بچے آغاز طفولیت ہی میں اچھی آواز اور دلکش رنگوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ لوریاں، جن میں موسیقی ہوتی ہے ان کے لیے سکون آفرین اور خواب خوش کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ جانوروں پر بھی موسیقی کا اثر ہوت اہے۔ یورپ میں بعض جگہ یہ تجربہ کیا گیا کہ اگر دودھ دوہتے ہوئے ریڈیو لگا دیا جائے جس سے اچھی موسیقی نکل رہی ہو تو گائے دودھ زیادہ دیتی ہے۔ ذوق جمال سے موجودات کا کوئی درجہ اور کوئی پہلو مطلقاً معرا دکھائی نہیں دیتا۔ فرانس میں بعض مقامات پر ایسے غار برآمد ہوئے ہیں جن میں دیواروں پر اعلیٰ درجے کی تصویریں ان جانوروں کی بنی ہوئی ہیں جنہیں ناپید ہوئے کوئی پچاس ہزار برس گزرے ہوں گے۔ یہ زمانہ اس خطے میں سیلاب برف کا دور تھا۔ اور دور وحشت کا انسان ان غاروں میں رہتا تھا۔ تلاش غذا میں بعض جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ اس کے ذہن میں ان جانوروں کے نقشے مرتسم ہو گئے تھے اور اپنی طویل فرصت میں اس کا یہ شغل تھا کہ جو سامان بھی میسر تھا اور جو آلات بھی وہ بنا سکا تھا، ان کی مدد سے ان جانوروں کی تصویریں بناتا رہتا تھا۔ ان تصویروں میں نقش و نگار اس کمال اتقان سے بنائے گئے ہیں کہ یقین نہیں آ سکتا کہ دور وحشت کا بے تمدن انسان ایسی کاریگری کر سکتا تھا۔ بعض حکماء کا خیال ہے کہ حیوانی زندگی میں جمال جنسی جذبے نے پیدا کیا ہے۔ نر اور مادہ میں جنسی کشش کی شدید ضرورت تھی اس لیے فطرت جانوروں میں اس غرض کو پورا کرنے کے لیے جمال پیدا کرتی تھی۔ یہ نظریہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں بھی ملتا ہے اور اس کی نہایت ترقی یافتہ صورت فرائڈ کی نفسیات ہے۔ جس نے انسانی تہذیب و تمدن، مذاہب اور فنون لطیفہ، تمام کا ماخذ جنسی شہوت ہی کو قرار دیا ہے، جو ان تمام مظاہر میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ فرائڈ کے پاس ہر مظہر حیات کی توجیہہ جنسی جذبہ ہے جسے وہ لبیڈو کہتا ہے۔ ہر قسم کا حسن بھی لبیڈو ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ہر قسم کے عشق کا پروردگار بھی یہی جذبہ ہے:
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدرت را می شناسم
فنون لطیفہ شروع سے ہر قسم کے مذہب کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ انسان کا بہترین فن تعمیر، جس میں حسن و عظمت کی آمیزش ہو، جو جمیل بھی ہو اور جلیل بھی، اس کے معبدوں میں نظر آتا ہے۔ سنگ تراشی، صنم تراشی اور مصوری بھی شروع سے مذہب کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ مذہب کے تصورات میں بھی فن لطیف موجود ہے۔
اقبال کا نظریہ حیات اسلامی ہے، اس لیے اقبال کے کلام میں سے ان افکار کا انتخاب کرنا پڑے گا جہاں اس نے فنون لطیفہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور ان خیالات کو اسلامی نظریہ حیات سے وابستہ کیا ہے۔ اقبال خود ایک فن لطیف میں صاحب کمال تھا۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ حکیم بھی تھا اور فن لطیف کے ماخذ اور مقصود پر حکیمانہ نظر بھی ڈال سکتا تھا۔ اکثر بڑے شعراء ایسے گزرے ہیں جو اپنے فن میں کامل تھے، لیکن اس کی ماہیت کے متعلق انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ خوش قسمتی سے اقبال ان چند باکمالوں میں سے تھا جن کی طبیعت میں شعر اور حکمت کی ایسی لطیف آمیزش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں شاعر کے کلام پر یہ قول صادق آتا ہے کہ:
’’ان من الشعر لحکمتہ و ان من البیان لسحرا‘‘
زاہدان خشک اور فقہائے بے ذوق نے اسلام کے عقائد کو اس انداز سے پیش کیا کہ معترضین کے لیے اس اعتراض کی گنجائش پیدا ہو گئی کہ اسلام میں قریباً تمام فنون لطیفہ حرام ہیں۔ اچھی شاعری کے متعلق تو ان کی زبان بند تھی کیوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اچھے اشعار کی داد دیتے تھے اور اچھے اشعار کہنے پر شاعروں کی انعام و اکرام سے ہمت افزائی کرتے تھے۔ لیکن باقی فنون لطیفہ زہد خشک کی زد میں آ گئے۔ موسیقی جیسی روح پرور چیز مطلقاً حرام ہو گئی یا مکروہ، جس سے اجتناب تقوے کا تقاضا بن گیا۔ مسلمانوں میں بڑے بڑے صاحب کمال موسیقار گزرے ہیں لیکن یہ شغل ان کا فطری اور ذوقی تھا۔ راسخ الاعتقاد مذہبی طبقہ زیادہ تر اس سے گریز ہی کرتا رہا۔ روحانی طبقے میں بعض صوفیہ کی بدولت سماع حلال ہو گیا، لیکن اس کے حلال و حرام ہونے کے متعلق اب تک بحث جاری ہے۔ ہم نے بعض محفلوں میں دیکھا ہے کہ جہاں موسیقی شروع ہوئی وہاں سے کوئی خشک ملا سر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ موسیقی سے گریز کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک رفیع الشان عمارت میں چھت سے جھاڑ آویزاں تھے جن سے لٹکتے ہوئے بلور کے ٹکڑے جنبش ہوا سے ٹکرا ٹکرا کر دلآویز آواز پیدا کرتے تھے۔ ایک ملا وہاں موجود تھے، وہ لپک کر اس نغمہ زا جھاڑ کی طرف گئے اور اسے دونوں ہاتھوں سے ساکن کرنے کی کوشش کی تاکہ اس نغمے سے ان کی شمع خراشی اور دل خراشی نہ ہو۔ ایک اسی قسم کی محفل عروسی میں سے موسیقی شروع ہوتے ہی ایک شیخ الشیوخ جو ایک بڑی یونیورسٹی میں دینیات کے پروفیسر تھے، بیزار ہو کر فرار ہو گئے۔ اسی یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے ایک اور پروفیسر جو جید عالم دین ہونے کے باوجود ذوق جمال سے معرا نہ تھے، وہ وہیں بیٹھے رہے۔ میں نے دریافت کیا کہ مفتی صاحب آپ کو موسیقی سے گریز نہیں؟ اس کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ان کا نام بھی عبداللطیف تھا اور انہوں نے جواب بھی نہایت لطیف دیا کہ بھائی موسیقی اگر سریلی ہو تو حلال اور اگر بے سری ہو تو حرام ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے علمائے ظاہر میں فنون لطیفہ سے یہ بے تعلقی کیوں پیدا ہوئی؟ اس کا جواب مشکل نہیں۔ جواب کا پہلا حصہ یہ ہے کہ موسیقی ایک قسم کی نہیں ہوتی اور اس کا ذوق رکھنے والے انسان بھی ایک قسم کے نہیں ہیں۔ موسیقی جذبات انگیز چیز ہے۔ ہر قسم کے جذبات موسیقی کے ذریعے سے ابھارے جا سکتے ہیں۔ دنیا میں اکثر عشرت پسندوں نے اس کو ادنیٰ جذبات کی انگیخت کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ ایک چیز جس کا نہایت عمدہ استعمال بھی ممکن تھا، زیادہ تر شہوائی جذبات کا آلہ بن گئی۔ ادنیٰ انسانوں کی صحبت نے موسیقی کو غذائے روح بنانے کی بجائے غذائے شہوت بنا دیا۔ پرہیز گاروں کا ایسی صحبتوں سے اجتناب لازمی ہو گیا مگر صوفیہ نے جب اس کو روحانیت میں استعمال کیا تو نوائے نے روح کی دمساز بن گئی۔ اخوان الشیاطین کے سازوں میں شیطان مضراب زن تھا، مگر خدا مست انسانوں کو چنگ و رباب میں سے آواز دوست سنائی دینے لگی۔ مولانا روم کا رباب کے متعلق مشہور شعر ہے:
خشک تار و خشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ایں آواز دوست
کسی اور کا صوفیانہ شعر ہے:
کسانیکہ یزداں پرستی کنند
بر آواز دولاب مستی کنند
اقبال کہتا ہے:
مہجور جناں حورے نالد بہ رباب اندر
اکثر علماء اسلام کی فنون لطیفہ سے گریز کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کی نظر طلوع اسلام کے دور پر تھی۔ اس دور تک عربوں کا یہ حال تھا کہ فنون لطیفہ میں سے ان کے ہاں نہ مصوری تھی اور نہ حسین و جمیل صنم تراشی۔ لات و عزیٰ، ہبل اور دیگر دیوتاؤں کے بت یونانیوں کے بتوں کی طرح جمیل نہ تھے۔ نہایت بھدے قسم کی سنگ تراشی تھی۔ اور یہ تمام فن جو ابھی لطیف ہونے کی بجائے زیادہ تر کثیف ہی تھا، ان کے مشرکانہ عقائد کا مظہر تھا۔ وہاں مصوری یا صنم تراشی نے مشرکانہ مذہب سے الگ ہو کر کوئی مستقل حیثیت اختیار نہ کی تھی۔ مصوری اور بت تراشی کا مشرکانہ مذہب سے ایسا گہرا رابطہ تھا کہ ان دونوں کا الگ کرنا محال تھا۔ا سی وجہ سے توحید کی تلقین کرنے والے انبیاء بنی اسرائیل نے جانداروں کی صورتیں بنانا حرام کر دیا تھا، کیوں کہ بنی اسرائیل کے گردا گرد بڑے زور کی صنم تراشی اور دیوتا پرستی تھی اس کا قلع قمع اسی طرح ہو سکتا تھا کہ صورت گری کو قیا جائے۔ حضرت سلیمان ؑ کو شاید اپنے زمانے میں یہ خطرہ اس شد ت کے ساتھ محسوس نہ ہوا اس لیے انہوں نے تماثیل بنوانے سے پرہیز نہ کیا، جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ دور حاضر میں جب کہ فنون لطیفہ بہت حد تک مشرکانہ عقائد سے آزاد ہو گئے ہیں انسانی فطرت اور اس کی آرزوؤں کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں، فنون لطیفہ کے متعلق مہذب قوموں کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے۔ لیکن آرٹ کے اندر غیر معمولی قوت اظہار کے ساتھ ساتھ ایک یہ آفت لگی رہتی ہے کہ ایک خطرے سے اس کو نجات ہوتی ہے تو کوئی دوسری قسم کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، مگر یہ کیفیت مذہب کی بھی ہے کہ وقتاً فوقتاً انبیاء اور صلحا و مجددین اس کو آلائشوں سے پاک کر کے خالص بناتے ہیں، لیکن کچھ زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پاتا کہ مذہب کے اندر مخرب حیات عناصر دین کا روپ دھار کر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ جس طرح ادیان کی اس مسلسل تخریب سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان مذہب کو یکسر ترک کر دے، کیوں کہ حقیقی زندگی کے تمام سرچشمے بھی صحیح دینی عقائد ہی کے اندر ہیں، اسی طرح فنون لطیفہ سے بھی انسانیت قطع تعلق نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ فنون لطیفہ حسن و عشق کے بہترین مظاہر اور اخلاق عالیہ کے موثر عوامل بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ہر زمانے کا مصلح اعظم، خواہ وہ سقراط و افلاطون کی طرح حکیم ہو یا انبیاء کی طرح گہرے روحانی وجدان سے بہرہ اندوز، اپنے زمانے کے فنون لطیفہ پر نظر ڈال کر دیکھتا ہے کہ آیا فن لطیف روح کی پرورش کر رہا ہے یا قلب و نظر کے لیے سامان موت ہے۔ یونانی علوم عقلیہ کے علاوہ فنون لطیفہ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ لیکن سقراط کے زمانے میں ان کے فنون لطیفہ میں بھی ایسی باتیں پیدا ہو گئی تھیں کہ سقراط و افلاطون نے ’’ جمہوریہ‘‘ میں جو ایک نصب العینی مملکت اور معاشرت کا خاکہ تجویز کیا اس میں سے شعراء کو خارج کر دینے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ ان کے نزدیک شعراء کی شاعری حکمت کش ہو گئی تھی۔ ہومر کی شاعری یونانیوں کے ہاں فن لطیف کا ایک شاہکار تھی، لیکن اس کے اندر بھی صنمیات سموئی ہوئی تھی۔ اس میں جن دیوتاؤں کا ذکر تھا ان میں سے بعض معمولی انسانی شریفانہ اخلاق سے بھی عاری تھے۔ بعض دیوتا چور اور رہزن تھے اور بعض بے پناہ قسم کے زانی۔ لیکن ہومر کے ہاں اچھی باتیں بھی ملتی تھیں، اس لیے سقراط و افلاطون نے یہ تجویز کیا کہ ہومر کے فقط منتخب حصے بچوں کو پڑھائے جائیں اور بد اخلاق دیوتاؤں سے ان کو آشنا نہ کیا جائے۔ حالی کے زمانے تک مسلمانوں کی شاعری کا جو حال تھا اس کے متعلق مسدس میں ان کے اشعار سقراط و افلاطون سے بھی زیادہ غصے سے لبریز ہیں:
یہ شعر و قصابر کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے ہے جو بدتر


عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے


گنہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے
دیکھئے حالی خود شاعر ہے اور شعر ہی میں شاعروں کی مذمت کر رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شعر کی اصلاح چاہتا ہے۔ اسے مطلقاً حرام کرنا نہیں چاہتا۔ اسی غرض سے اس نے شعر و شاعری پر ایک بلیغ اور محققانہ مقدمہ لکھا اور خود سید احمد خاں علیہ الرحمتہ کے زیر اثر اپنی شاعری کا رخ بدل دیا۔ اچھی شاعری دین و اخلاق کی بھی ایسی خدمت گزار ہو سکتی ہے کہ سید صاحب نے مسدس حالی کی نسبت فرمایا کہ یہ میری تحریک سے لکھی گئی اور یہ ایسا نادر کارنامہ ہے کہ خدا نے روز قیامت میں اگر مجھ سے پوچھا کہ دنیا سے تو عمل صالح کا کیا تحفہ ہمارے لیے لایا تو یہ عرض کروں گا کہ میرا سب سے بڑھ کر قابل انعام و اجر عمل یہ ہے کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔
حالی حیات انگیز شاعری میں اقبال کا پیش رو ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اگر حالی نے شاعری کا رخ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید اقبال کا بھی ظہور نہ ہوتا۔ اقبال میں حالی کا درد ملت موجود ہے، مگر اس کی حکیمانہ نظر حالی سے بہت زیادہ اور وسیع اور گہری ہے۔ غالب کی حکمت پسندی اور پرواز تخیل بھی اقبال کے اندر ترقی یافتہ صورت میں موجود ہے۔ غالب نے فیضان الٰہی کا اپنے کلام میں ہر جگہ استعمال نہیں کیا وہ بہت کچھ قدیم انحطاطی روایات کا شکار رہا۔ لیکن اقبال کے ہاں تفکر و تاثر غلط روایات کے خس و خاشاک سے پاک ہو گئے۔
اقبال بھی ایک مصلح و مبلغ شاعر ہے اور چونکہ فن لطیف کی ماہیت، اس کے حسن و قبح، اس کے صحیح اور غلط استعمال سے خوب واقف ہے اس لیے فنون لطیفہ پر اس کی تنقید بہت حکمت آموز اور اصلاح گوش ہے۔ اقبال کا زاویہ نگاہ دینی ہے، اس لیے وہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ دین اور فنون لطیفہ کے باہمی روابط کو واضح کرے۔ ضرب کلیم میں چار اشعار کی ایک نظم کا عنوان دین و ہنر ہے:
سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ


ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی
بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ


اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فنون و افسانہ


ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ
اقبال کے پاس زندگی کے ہر شعبے اور ہر شغل کو جانچنے کا ایک ہی معیار ہے۔ اس کے پاس نفس انسانی کی ماہیت اور اس کے ممکنات کا ایک تصور ہے جس کی وضاحت کے لیے اس نے کم و بیش ہزار اشعار کہے ہیں۔ انسان کی خودی ایک لطیفہ ازلی ہے وہ صفات الٰہیہ سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم اسی خودی کی بیداری اور استواری کی تلقین ہے۔ انسان کی خودی میں تسخیر النفس و آفاق کی لامتناہی قوتیں مضمر ہیں اور مقصود حیات ان مضمرا ت کو معرض وجود میں لانا ہے۔ اس کے ارتقاء کی کوئی انتہا نہیں۔ یہی مقصود حیات خیر و شر کا بھی پیمانہ ہے۔ انسان نے اپنے ارتقاء میں جو کچھ پیدا کیا ہے اس کا اصلی مقصد خودی کی ترقی ہی تھی۔ ادیان کا ظہور بھی اسی سے ہوا۔ تمام علوم و فنون اسی سے پیدا ہوئے۔ سیاست اور معاشرت کے تمام ادارے اسی سے ظہور میں آئے۔ انسان کبھی بھٹکا بھی تو اسی کوشش میں غلط روی سے بھٹکا، لیکن ہمیشہ گر کر سنبھلتا رہا۔ کبھی کبھی خودی کی غلط روی اس کو خود کشی کی طرف بھی لے آتی ہے اگرچہ وہ اس خود کشی کو بھی اپنی خودی ہی کا مظہر سمجھ لیتا ہے۔ انساں کے تمام مشاغل، تمام تصورات اور تمام اداروں کی تہ میں خودی کا لعل بے بہا پوشیدہ ہے۔ اسی گوہر کے متعلق اقبال کا ایک شعر ہے:
گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے
بندش اگرچہ مست ہے مضموں بلند ہے
مندرجہ صدر چار اشعار میں اقبال نے فنون لطیفہ کے ساتھ انسان کے تمام دیگر مشاغل کو بھی شامل کر کے سب کے متعلق ایک ہی مختصر فتویٰ دیا ہے کہ اگر ان سے انسان کے نفس کی تمام قوتوں میں اضافہ ہو تو یہ سب عین حیات ہیں۔ اور ادب، دین و سیاست اگر انسان کو تخریب اور پستی کی طرف لائیں تو سب ڈھکوسلا رہ جاتے ہیں اور امتیں اس سے ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں۔
اسی نظم کے ساتھ ایک دوسری نظم ’’ تخلیق‘‘ پر ہے جس کا موضو ع بھی یہی ہے کہ افکار تازہ سے جہان نو پیدا ہوتا ہے اور جب فن و ادب میں تازہ آفرینی نہ رہے اور لوگ اگلے ہوئے نوالوں ہی کو بار بار نگلنا اور چبانا شروع کریں تو سمجھ لیجئے کہ خودی پر موت وارد ہو گئی۔ مشرق کے دین اور فن دونوں میں اقبال کو زندگی کے آثار نظر نہیں آتے:
خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا
آگے چل کر ہم اقبال کے کئی اشعار اس موضوع پر مشتمل پیش کریں گے کہ فن برائے فن ایک بے ہودہ نظریہ ہے۔ علامہ نہ علم برائے علم کے قائل تھے اور نہ فن برائے فن کے۔ کوئی مسجد بھی اگر تفاق کی خاطر بنائی جائے تو وہ بقلید اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قابل انہدام ہے۔ فرانسیسیوں نے پیرس میں ایک مسجد بنائی جس کے لیے کچھ رقم شمالی افریقہ کی مسلمان رعایاسے حاصل کی گئی تھی اور کچھ رقم کا اضافہ حکومت نے کیا ہو گا۔ راقم الحروف کو اس مسجد کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ فرانسیسیوں کا جو سلوک مسلمانوں سے ہے وہ دنیا کو معلوم ہے۔ یہ آزادی و برادری کے علم بردار مسلمانوں کو مغلوب اور مفتوح بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ریاکاری سے اپنی ملوکیت کی استواری کے لیے انہوں نے یہ مسجد بنائی تاکہ مسلمان انہیں اپنا ہمدرد سمجھیں۔ اس مسجد کی بناء نفاق اور ریا تھی اس لیے اس کی صناعی کے باوجود اس کا احساس مسلمان کو روح فرسا محسوس ہوتا ہے۔ خاکسار کی طبیعت پر بھی یہی اثر ہوا۔ اقبال کی روح کو بھی اس سے ٹھیس لگی۔ اس اثر کو بیان کرتے ہوئے وہ ہنر کے متعلق ایک بصیرت افروز بات بھی کہہ گئے ہیں کہ محض کمال ہنر کوئی چیز نہیں جب تک کہ وہ خلوص کی پیداوار نہ ہو:
مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے
کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ


حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے
تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ


یہ بت کدۂ انہیں غارت گروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ
اس کے مقابلے میں مسجد ’’ قوت الاسلام‘‘ پر ضرب کلیم میں چند اشعار اور ’’ مسجد قرطبہ‘‘ پر اقبال کی وہ لاجواب تاثر خیز اور حیرت انگیز نظم پڑھیے جس کے متعلق ایک صاحب نے جو فنون لطیفہ کی تقلید میں کچھ ورک رکھتے ہیں، لیکن خدا سے مسجود و سجود کے متعلق مائل بہ الحاد ہیں، ایک روز مجھ سے کہا کہ مسجد قرطبہ پر اقبال کی نظم فن شعر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ صاحب فن کی بحیثیت فن داد دے رہے تھے۔
اقبال مسجد قوت الاسلام کو یا مسجد قرطبہ کو محض فن کی نظر سے نہیں دیکھ رہا بلکہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ یہ تعمیریں قوت حیات کے مظاہر ہیں۔ اور اصلی فن وہی ہے جو زندگی کا مظہر ہو، زندگی کے انفعالی اور انقلابی یاس آفرین پہلوؤں کا نہیں، بلکہ اس کی فعال قوتوں کا، جو ارتقائی اور انقلابی ہیں۔ مسجد قرطبہ نے اقبال کے دل میں جو تاثرات اور افکار پیدا کیے لازم تھا کہ ان کے اظہار کے لیے اقبال اپنا نظریہ فن بھی اس ضمن میں بیان کر دے کیونکہ مسجد قرطبہ فن تعمیر کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے۔ فن لطیف کے متعلق حکماء کے جو بلند پایہ نظریات ہیں ان میں سے ایک نظریہ بھی ہے کہ فن لطیف آنی کو جاودانی بنا دیتا ہے اور دریچہ زمان سے جھانک کر انسان لازمانی حقائق سے روشناس ہوتا ہے۔ ایک اچھے شاعر میں بھی یہ بات ہوتی ہے:
مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم
وراے شاعری چیزے دگر ہست
یہ چیزے دگر انہیں حقائق کا ادراک ہے جو سرمدی ہیں ۔زمانی و مکانی نہیں بلکہ الوہیت مطلقہ کا پرتو ہیں۔ اہل دل کے لیے روحانی موسیقی میں بھی یہی صلاحیت ہوتی ہے۔ کہ نفس کو ہستی کے باطن میں غوطہ دے کر اس حقیقت مطلقہ سے براہ راست ہم آغوش کرتی ہے جس کو اگر الفاظ میں بیان کیا جائے تو بعض کوتاہ بین گمراہ ہو جائیں اور عالم کے تمام لوگوں کا زاویہ نگاہ الٹ پلٹ ہو جائے:
سر پنہان است اندر زیر و بم
فاش اگر گویم جہاں برہم زنم
بعض تصویروں میں بھی یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کو دیکھ کر صورت پرستی کی بجائے انسان کسی اور عالم میں گم ہو جاتا ہے اور تصویر حقیقت مطلقہ کی طرف محض ایک اشارے کا کام دیتی ہے۔ عالم رنگ و بو اور جہان آب و گل میں تصویر، مصور اور معمار سے زیادہ پائدار ہوتی ہے لیکن کمال پائداری کے باوجود آخر کار زمانہ اس کو فنا کر دیتاہے۔ فن لطیف کی جاودانی اس کے مظاہر میں نہیں بلکہ اس تاثیر میں ہے جو انسان کو زمان و مکان ا ور حوادث کے عالم سے ماوریٰ لے جاتی ہے۔ اقبال پہلے یہ کہتا ہے کہ:
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات
انسانی تاریخ میں بڑے بڑے عظیم الشان معجزہ ہائے ہنر مرور ایام سے ناپید ہو گئے۔ کہیں کھنڈر باقی ہیں اور کہیں نشان بھی نہیں ملتا، لیکن فلاسفہ فن لطیف نے فن کی خوبی اور کمال کو جانچنے کے لیے ایک یہ معیار بھی قائم کیا ہے کہ فن جس قدر حقیقی مظہر حیات ہوتا ہے اسی قدر اس کو ثبات حاصل ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے ہزار ہا تعمیر کے اعلیٰ نمونے پیدا کیے، اب ان میں سے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں، لیکن سارا جہان تاج محل کو دیکھنے آتا ہے اور اسے معجزہ فن سمجھتا ہے۔ مادی اور زمانی حیثیت سے لازوال وہ بھی نہیں، لیکن مقابلتاً اس میں ثبات زیادہ ہے۔ دنیا میں ہزار ہا شعراء پیدا ہوئے جن کا اب نہ کوئی نام جانتا ہے اور نہ ان کے کلام کا نمونہ ملتا ہے لیکن ہومر، حافظ، سعدی، شیکسپیئر، گوئٹے پر زمانے کی دستبرد کا کوئی اثر نہیں۔ اس ثبات میں مطلقیت اور ابدیت کا پرتو ہے۔ا قبال کے نزدیک اعجاز فن کے یہ نمونے ان مردان خدا کی خلاقی کا نتیجہ ہیں، جن کے باطن میں زندگی کا وہ سرچشمہ تھا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ عشق کو موت نہیں اس لیے وہ اپنے زمانی و مکانی مظاہر کو بھی ثبات بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام


مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
عشق کی بدولت جو اعجاز حسن پیدا ہوتا ہے اس کی بقا میں فطرت کس قدر کوشاں ہے، اس کا ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ پھو ل جو پروردگار حسن و عشق کے رسول ہیں، چند روز اپنی بہار دکھا کر مرجھا کر خاک ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے مصادر حیات تخم فنا نہیں ہوتے۔ روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد کا تسکین بخش جواب فطرت کے پاس یہ ہے کہ اگلی بہار میں ایک مرجھائے ہوئے پھول کے بیج اپنی قسم کے سو پھول پیدا کر دیتے ہیں۔ فطرت بھی اپنے فن لطیف کے مظاہر کو ثبات بخشتی ہے لیکن یہ انداز ثبات ایک خاص نوعیت کا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ معجزۂ فن کی نمود زندگی کی باطنی بے تابیوں کا اظہار ہے۔ خون جگر سے نمود کے یہی معنی ہیں۔ مرزا غالب کا بھی یہی نظریہ تھا کہ اچھا شعر محض صناعی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ قلب و جگر کے سوز و گداز کا نتیجہ ہوتا ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
غالب ایک ولولہ انگیز اور بصیرت افروز غزل کے مقطع میں آفرینش شعر کی نفسیات کو بیان کرتا ہے:
بینی ام از گداز دل در جگر آتشے چو سیل
غالب اگر دم سخن رہ بضمیر من بری
اگر ایسے اشعار کہتے ہوئے میرے باطن پر نگاہ ڈال سکو تو تمہیں نظر آئے کہ گداز دل سے آتش سیال جگر کی طرف بہ رہی ہے۔ عرفی نے بھی اسی کیفیت کو بیان کیا ہے:
بحفظ گریہ مشغولم اگر بینی درونم را
ز دل تا پردۂ چشمم دو شاخ ارغوان بینی
اقبال نے کمال فن سے تمام فنون لطیفہ کی حقیقت کو دو شعروں میں سمیٹ لیا ہے:
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صورت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود


قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرود و سرود
مصوری، سنگ تراشی، تماثیل سازی، موسیقی، شاعری سب کو یہاں کس حسن اختصار سے جمع کیا ہے:
’’قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل‘‘
ایسا بلیغ مصرع ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔ فطرت خارجی ہو یا فن لطیف اس میں یا جلال پایا جاتا ہے یا جمال۔ بے پایاں سمندر اور فلک بوس سلسلہ کہسار میں جلال طبیعت کو متاثر کرتا ہے اور ایک نازک پھول جلال کا نہیں بلکہ جمال کا مظہر ہوتا ہے۔ بعض تعمیریں ایسی ہیں جن میں جلال کو جمال سے ہم آغوش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ تاج محل کی تعمیر میں بڑی وسعت اور رفعت ہے، لیکن فن کار کا کمال یہ تھا کہ اس نے جلال کو جمال میں چھپا دیا ہے اور پوری تعمیر ایک خوش نما، لطیف اور ہلکی پھلکی چیز معلوم ہوتی ہے کہ اس کو شیشے کے ایک فانوس کے اندر ہونا چاہیے۔ صفات الٰہیہ میں بھی ایک پہلو جمال کا ہے، دوسرا پہلو جلال کا۔ قہاری، جباری اور جبروت جلال کے مظاہر ہیں اور مخلوق سے محبت اور اس پر رحمت از روئے قرآن تمام موجودات پر محیط ہے، جمال ایزدی کا اظہار ہیں۔ خدا کی ذات میں جلال و جمال کی صفات میں کوئی تضاد نہیں۔ اسی طرح فن کا کمال یہ ہے کہ اس میں بھی یہ دونوں پہلو اس طرح ایک دوسرے میں سموئے ہوں کہ ان کا ظاہری تضاد ایک وحدت میں رفع ہو جائے۔ مسجد قرطبہ میں اقبال کو یہی اعجاز فن نظر آیا:
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل
یہاںپر یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خود اقبال کے بہترین کلام میں یہ خوبی موجود ہے۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اقبال کے کلام میں جلال جمال پر غالب ہے۔
یہ غلط خیال اس لیے پیدا ہوا کہ اقبال نے خود کہیں کہیں جوش بیان میں جلال کو جمال پر غالب کر دیا ہے اور جمال کی حیثیت وہاں ثانوی دکھائی دیتی ہے:
مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک


مری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی
کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک


نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک


مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بیباک
٭٭٭
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
٭٭٭
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن
٭٭٭
خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
٭٭٭
باغباں زور کلامم آزمود
مصرعے کارید و شمشیرے درود
اس جلالی جذبی کے سینکڑوں اشعار اقبال کے کلام میں ملتے ہیں اور یہ اس کے نظریہ حیات کی ایک امتیازی خصوصیت ہے، لیکن کون صاحب ذوق سلیم کہہ سکتا ہے اس کے نظریے اور پیرایہ بیان میں جمال نہیں۔ وہ بعض اوقات ایک ہی شعر میں جلال و جمال دونوں کی یکجا تلقین کرتا ہے۔ رزم حیات کے لیے سیل کہسار ہو جا، لیکن بزم میں جوے خیاباں کی طرح نرم رو ہو:
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
٭٭٭
اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی
اس کے ہاں شہسوار کی صفت غارت گری اور چنگیز خانی نہیں۔ شہسوار کو ہمت و قوت کے ساتھ خلق عظیم کا بھی مالک ہونا چاہیے جو ایک جمالی صفت ہے:
آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار
حامل خلق عظیم صاحب صدق و یقین
اس مضمون کے بے شمار آپ کو اقبال کے کلام میں ملیں گے جہاں وہ جمال و جلال کی ہم آہنگی کو زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہے۔ جلال اگر بے جمال ہو جائے تو اس میں ابلیس کی صفت پیدا ہو جاتی ہے جس طرح زیرکی اگر عشق سے معرا ہو جائے تو وہ شیطان کی حیلہ گری رہ جاتی ہے:
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
رفتہ رفتہ مسلمانوں کے ادبیات میں ذوق جمال زیادہ تر انفعالی ہو گیا تھا جس سے ایک ادنیٰ قسم کی لذت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے خلاف رد عمل لازمی تھا تاکہ جلال اور ہستی فعال کے پہلو کو نمایاں کیا جائے۔ انحطاط کی وجہ سے قرآن میں بھی مسلمانوں کو تقدیر کا وہ مفہوم نظر آیا جس سے انسان کا اختیار اور اس کی جدوجہد نفس کا دھوکا بن جاتی ہے۔ یہ عقیدہ کہ زاہد کا زہد اور عاصی کا گناہ سب ازل سے مقدر ہے اور انسان کو تن بہ تقدیر عجز اختیار کرنا چاہیے۔ اشاعرہ کا علم الکلام، صوفیہ کی وحدت وجود، حکماء کی جبر پرستی سب انسان کو بے بس کرنے میں متحد ہو گئے۔ صوفیہ میں فقط عارف رومی نے اس کے خلاف جہاد کیا اور زمانہ حال میں اقبال نے مسلمانوں کو قرآنی تقدیر کا مفہوم بتایا۔ مسلمانوں کی ادبیات میں غلط نظریہ حیات کی بدولت عجز اور قناعت اور رضا و تسلیم کی تعلیم ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھنے کی تلقین بن گئی۔ اقبال اس قسم کے مذہب اور اس قسم کے ادب کو انحطاط کی پیداوار سمجھتا ہے:
اسی قرآن میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر


’’تن بہ تقدیر‘‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر


تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتی ہے قوموں کا ضمیر
فن لطیف کا ایک شعبہ ڈراما بھی ہے جس کے لیے تھیٹر قائم کیے جاتے ہیں۔ ہر ڈرامے میں مختلف کردار ہوتے ہیں اور اداکار ان کرداروں کو اس طرح اپنی شخصیت میں سموتے ہیں کہ اگر شیطان کا پاٹ ادا کر رہے ہیں تو مجسم ابلیس نظر آئیں۔ اچھے صاحب کمال اداکار وہ شمار ہوتے ہیں جو نہایت کامیابی سے اپنی شخصیت کسی دوسرے کردار کی نقالی میں ہنگامی طور پر ختم کر دیں۔ اس کمال آفرینی کا رفتہ رفتہ یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اداکار اپنی خو کو کھو بیٹھتا ہے۔ اچھا ڈراما دیکھنے والوں کو نفسی اور اخلاقی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، لیکن اداکار کی نفسیات خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ مغرب میں بھی بعض نقادان فن نے اس تخریب کا اقرار کیا ہے:
حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات


یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے!
رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات
مغربی تہذیب میں ڈرامے کا رواج بہت عام ہے۔ بعض ڈرامے اصلاح معاشرت کی خاطر لکھے جاتے ہیں، جیسے برناؤشا کے ڈرامے اور بعض محض تفریح و تفنن کے لیے۔ لیکن یہ عجب بات ہے کہ مغرب میں بھی کوئی سنجیدہ شخص اداکاروں کے اخلاق کا قائل نہیں بلکہ یہ ایک مسئلہ بن گیا ہے کہ اداکاری کے فن کو اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہالی وڈ کے ستاروں کی جو اخلاقی زندگی ہے وہ عوام و خاص کے نزدیک ایک مضحکہ خیز چیز ہے۔ ایک طرف تو اداکاروں کو یہ داد ملتی ہے کہ بے پایاں دولت ان کو اجرت میں دی جاتی ہے اور دوسری طرف یہ مشتہر ہوتا ہے کہ نکاح کے معاملے میں:
از یک بگستی بہ دگر پیوستی
فارسی شاعر نے تو یوں ہی تفریحاً کہا تھا کہ ہر موسم بہار میں ایک نئی شادی کیا کر، کیوں کہ پچھلے سال کا کیلنڈر بے کار ہو جاتا ہے:
زن نو کن اے مرد در ہر بہار
کہ تقویم پاریں نیاید بکار
لیکن امریکہ کے مشہور اداکار مرد و زن دوسری بہار کی آمد کا بھی انتظار نہیں کرتے۔ کیا اقبال کی تنقید غلط ہے کہ خودی میں جو سرور و سوز و ثبات حیات ہے وہ کاملاً تمثیل میں ناپید ہو جاتا ہے؟ یہ درست ہے کہ ڈراما بعض اوقات اصلاح خلق کے لیے لکھا جاتا ہے، لیکن اس اصلاح کی تمثیلی تلقین کرنے والے اپنی زندگی میں کیا مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فن برائے فن کے قائل کہتے ہیں کہ فن لطیف کا کام اصلاح کوشی نہیں ہے اور فن کاروں کو عام اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھنا درست نہیں۔
اقبال نے اہل ہنر کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں بھی اچھے ہنر کو خودی کے احساس کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ ادبیات میں فکر و ذکر یا دین و دانش کی جو پیکار نظر آتی ہے وہ خودی کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ اگر خودی بیدار ہو تو فکر و ذکر میں کوئی تضاد نہ ہو۔ یہ چپقلش خودی کا غیاب پیدا کرتی ہے اور خودی کے حضور سے روح پرور شعر و سرود کا عالم پیدا ہوتا ہے، مگر یہ ہمارے غزل گوؤں کی شاعری اور ہمارے پیشہ ور مطربوں اور حسن فروشوں کا سرود نہیں:
تیری خودی اک غیاب معرکہ ذکر و فکر
تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود
٭٭٭
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود!
اقبال رومی کی طرح ’’ سماع راست‘‘ کا دالدہ ہے، لیکن ان معنوں میں سماع راست کہاں؟ روح انسانی کے جتنے بلند اقدار ہیں وہ پیشہ وروں کی بدولت اپنی روح کو کھو بیٹھتے ہیں۔ مذہب کو بھی انہیں لوگوں نے خراب کیا جنہوں نے اس کو پیشہ بنا لیا۔ اسلام تو کوئی مذہب پیشہ جماعت پیدا نہ کرنا چاہتا تھا جو برہمنوں کی طرح ملت اسلامیہ پر مسلط ہو جائے، لیکن اب پیشہ ور فقیہ اور ملا کہتے ہیں کہ مذہب کا علم ہمارا اجارہ ہے۔ اسی اجارہ داری نے ہمیشہ روحانیت اور اخلاق حسنہ کو فنا کیا ہے۔ فنون لطیفہ کی بھی یہی حالت ہے کہ پیشہ ور شاعروں نے شاعری کو ہوس پرستی کا سنڈاس اور دروغ بافی کا ایک طومار بنا دیا۔ موسیقی پیشہ بن کر میراثیوں اور ارباب نشاط کے حوالے ہو گئی۔ کرشن کی بانسری اور عارف رومی کی نے، مطرب و مغنی کے ساز بن گئے۔ ایک صوفی نے کیا خوب کہا ہے کہ سڑک کے کنارے قرآن کی آیات پڑھ کر بھیک مانگنے والے گداگر کے دل میں اگر قرآن کا ایک حرف بھی اتر جائے تو وہ گداگری کی بجائے دنیا و مافیہا سے مستغنیٰ ہو جائے۔ا قبال کہتا ہے کہ مغنی بھی اگر دل کے رمز سمجھ جائے تو اس کا ہنر کمال کو پہنچ جائے:
جس روز دل کے رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہاے ہنر ہیں طے


آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے
اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے؟
اس سے قبل ثبات ہنر کا تذکرہ ہو چکا ہے اور بعض صوفیہ و حکماء کا یہ نظریہ بھی بحث میں آ چکا ہے کہ ہنر مند انسان اپنی فطرت کو زمانی و مکانی حدود و قیود سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔ فن لطیف کے متعلق ایک ادنیٰ قسم کا نظریہ یہ ہے کہ فن لطیف فطرت کی نقالی کا نام ہے۔ یہ خیال ارسطو میں بھی ملتا ہے جو اپنی خشک حکمت کی وجہ سے ذوق جمال سے محروم تھا۔ اسی لیے وہ فن لطیف کا اصلی مقصود نہ پا سکا۔ اس کے ہاں ابدیت اور حقیقت مطلقہ کا پرتو فقط منطقی تصورات میں پایا جاتا ہے۔ اقبال فن لطیف کی ماہیت سے خوب واقف ہے۔ انسان اپنے فنون میں ہمیشہ فطرت کی نقالی نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا فن ادنیٰ درجے کا ہوتا ہے فن لطیف کا اصل کام فطرت کی کثافتوں میں لطافت پیدا کرنا ہے اور بقول ورڈز ورتھ اس نور کی جھلک دکھانا ہے جو خشکی او رتری میں نظر نہیں آتا مگر روح انسانی کو روشن کرتا ہے۔ انسان کا وظیفہ حیات فطرت کی ترمیم و تزئین ہے:’’ تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘‘ اسی عقیدے کا اظہار ہے۔ اہرام مصر پر اقبال نے جو اشعار کہے ہیں ان میں بھی اسی خیال کو واضح کیا ہے کہ دیکھو فطرت نے توریت کے ٹیلے بنائے جو صحرا کی طوفانی ہواؤں سے ہر روز اپنا مقام بدلتے رہتے ہیں، اسی ریگ رواں کے صحرا میں فراعنہ مصر نے وہ اہرام کھڑے کر دیے جو دس ہزار سال سے حوادث فطرت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس زمانی مکانی عالم میں ابدیت کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ فطرت کا مقابلہ ہے، اس کی نقالی نہیں:
اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں
فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر


اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک
کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر؟


فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو
صیاد ہیں مردان ہنر منہ کہ نخچیر؟
اچھے اہل ہنر ایسا فردوس نظر تعمیر کرتے ہیں جو نہاں خانہ ذات کو چشم تماشا پر فاش کر دیتا ہے۔ ہنر کا کام نو آفرینی ہے۔ پرانے بتوں کو مندروں یا عجائب خانوں میں رکھ کر ان کی پرستش کرنا اور زندگی کا نئی ہنر مندی میں اظہار نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہنر کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اس ہنر کے جنازے سے اورنگ زیب کے سوانح کا ایک مشہور واقعہ یاد آ گیا۔ عالمگیر کے زمانے میں سیاست، معاشرت اور ہنر سب زوال پذیر تھے۔ اس کی مسلسل کوشش بھی زوال کو نہ روک سکی۔ موسیقی عیاشی کا آلہ بن گئی تھی۔ اس نے ارباب نشاط اور مطربوں پر کچھ قدغن لگائی۔ احتجاج میں انہوں نے مرحوم موسیقی کا ایک جنازہ نکالا اور قلعے کے سامنے سے ماتمی جلوس کو گزارا تاکہ بادشاہ کو بھی اطلاع ہو جائے۔ عالمگیر نے دیکھا تو کہا کہ ان سے کہ دو کہ اس کی قبر ذرا گہری کھودیں تاکہ آسان سے اس کا حشر نہ ہو سکے۔
ضرب کلیم میں ایک نظم کا عنوان فنون لطیفہ ہے۔ ان اشعار میں تصورات اور نظریات زیادہ تر وہی ہیں جنہیں اقبال نے بالتکرار مگر انداز بیان کی بوقلمونی کے ساتھ بے شمار اشعار میں بیان کیا ہے:
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
فن لطیف کے متعلق یہ نظریہ بعض بڑے بڑے حکمائے فرنگ کے جمالیاتی نظریات کے خلاف ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ فن لطیف کا کام دلکش نفسیاتی دھوکا پیدا کرنا ہے۔ شاعری ہو یا مصوری، ڈراما نویسی ہو یا ناول نگاری، ان سب کا مقصود زندگی کے تلخ حقائق سے گریز ہے۔ فرائڈ کے نزدیک حقیقت آشنائی صرف طبعی اور فرائڈ کی پیدا کردہ نفسیاتی سائنس میں پائی جاتی ہے۔ فقط انہیں میں حوادث حیات و کائنات کا کماھی مشاہدہ ہوتا ہے۔ سائنس کا کام جذبات اور تمناؤں کی فریب آفرینی سے بچنا ہے، مگر اس کے نزدیک دین اور فن لطیف دونوں فرار کے راستے ہیں۔ خدا کے تصور کے غیر حقیقی اور سیمیائی ہونے پر ا س نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے وہ کہتا ہے دین انسان کی عاجزی اور بیکسی کی پیداوار ہے۔ جب حقیقی دنیا میں کوئی سہارا اور جائے پناہ نظر نہیں آتی اور یہاں کوئی ہستی تمام آرزوؤں کو پورا کرنے کی کفیل نہیں ہوتی تو انسان ایک ایسے عالم کا تصور قائم کر لیتا ہے جو مصائب سے پاک ہے او رجہاں اس دنیا کی تمام نا انصافیوں اور تلخیوں کی تلافی کی توقع ہے۔ جہلا کے لیے تو یہ سارا کچھ مفید ہی معلوم ہوتا ہے لیکن کسی حقیقت پسند کے لیے اس دھوکے میں زندگی بسر کرنا حکمت کے شایان شان نہیں۔ مذہب کے مقابلے میں وہ فنون لطیفہ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ان کے دلکش دھوکوں کو وہ بے ضرر تفریح خیال کرتا ہے۔ فن لطیف کا کام دلآویز مگر موہوم چیزوں کو ہنگامی طور پر موجود بنا دینا ہے۔ اس کے مقابلے میں رسکن یا ورڈز ورتھ جیسے مفکر اور شاعر فن لطیف کی بابت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ زندگی کے بہت سے حقائق تلخ ہیں۔ لیکن ان کا علاج دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ہمت اور صبر اور روحانی زاویہ نگاہ سے ان تلخیوں کے نیش کو نوش سے بدلا جائے۔ بروننگ کا نظریہ حیات زیادہ تر یہی ہے، لیکن ورڈز ورتھ صوفی مزاج شاعر ہے وہ اس حقیقت کو محسوس کرتا ہے کہ زمانی و مکانی عالم سے گریز انسان کو ایک موہوم دنیا میں نہیں لے جاتا۔ فن لطیف دھوکوں سے مسرت آفریں نہیں ہوتا بلکہ نفس انسانی کو ضمیر فطرت سے آشنا کرتا ہے۔ کسی بالغ نظر شاعر کی شاعری میں ’’ وراے شاعری چیزے دگر‘‘ جو کچھ ہے وہ حقیقت حیات کا اظہار ہے جو خالی طبعی سائنس کے بس کی چیز نہیں۔ اعلیٰ درجے کی شاعری ہو یا روح پرور نغمہ اس میں اس روحانی گروہ کے لیے وہی کچھ ہے جس کے متعلق رومی کہتا ہے:
سر پنہان است اندر زیر و بم
فن لطیف کا کا مسرت آفرینی نہیں۔ا گرچہ روح کو اس سے ایک گہری تسکین حاصل ہوتی ہے۔ فن لطیف میں لذت و الم کا تضاد مٹ جاتا ہے۔ سوز ساز بن جاتا ہے اور وہ آفرین نغمے مسرت انگیز ترانوں کے مقابلے میں روح کے تاروں کو زیادہ مرتعش کرتے ہیں۔ یہ محض غم غلط کرنے کا سامان نہیں:
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ ہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رہا کہتے ہیں
(غالب)
اگر فن لطیفہ کا وظیفہ مسرت آفرینی نہیں تو الم آفرینی بھی اس کا مقصود نہیں۔ زندگی میں افسردگی اور یاس پیدا کرنے والا ہنر اپنے مقصد میں ناکام ہے۔ جو سوز حیات مقصود ہنر ہے وہ زندگی کے مصائب پر نالہ فغاں کا نام نہیں۔ سوز حیات زندگی کی ماہیت میں داخل ہے، مگر یہ وہ سوز نہیں جو حوادث سے مغلوب ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ محض طبعی حکمت مظاہر کے سطحی روابط سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور وجدان حیات کی زبان طبیعات کی قانونی زبان نہیں۔ استدلالی فلسفہ بھی اگرچہ بعض اوقات سائنس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ بھی طبیعیات میں الجھا رہتا ہے:
رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست
ایک گتھی کو سلجھاؤ تو دو پیچاک اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ وجدان حیات کی زبان فن لطیف ہے، جو محض فن نہیں بلکہ حقیقت رس نظر اور عرفانی تاثر کا اظہار ہے۔ یہ محض ذوق نظر سے پیدا نہیں ہوتا اس کا ماخذ وہ کیفیت ہے جسے اقبال خون جگر کہتا ہے۔ انسان کے نفس کی گہرائیوں میں سے نکلی ہوئی بات کبھی شعر بن جاتی ہے، کبھی نغمہ اور کبھی اس کا اظہار رنگ و سنگ کے واسطے سے ہوتا ہے، مگر وہ ضمیر حیات کا انکشاف ہوتا ہے۔ ضمیر حیات میں امید ہی امید ہے یاس نہیں۔ یاس انسان کے لیے بھی کفر ہے اور عام فطرت کے لیے بھی۔ مشرقی شاعری، ہندی بھاشا کے دوہے ہوں یا اردو اور فارسی شاعری کی یاس انگیز غزلیں، اس قسم کا سب ہنر زندگی کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر شاعر کی غزل گو یا اس کی اپنی زندگی کا مرثیہ ہوتی ہے۔ کربلا کے عظیم الشان مجاہدانہ حوادث کو بھی مسلمانوں نے ماتم میں تبدیل کر دیا، حالانکہ قوم میں اگر زندگی ہوتی تو انہیں واقعات سے انقلاب انگیز اور ہمت خیز شاعری پیدا ہو سکتی تھی۔ حالی اور اقبال سے پہلے اردو شاعری کا کمال انیس و دبیر کے مرثیوں میں ظاہر ہوا۔ لیکن یہ زوال کا کمال تھا یہ قول میرا نہیں بلکہ علامہ اقبال کا ہے۔
اقبال کے کلام پر آپ نظر ڈال کر دیکھئے اس میں کہیں مرثیہ نظر نہ آئے گا۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں جو ایک طویل اور حکمت و تاثیر سے لبریز نظم کہی ہے اس میں بھی آہ و زاری کہیں نہیں۔ دنیا میں ہر چیز کی بے ثباتی کا ذکر کر کے فوراً اس حقیقت حیات کی طرف اپنا رخ بدلتا ہے جس میں زندگی موت پر غالب آتی رہتی ہے۔ ہمارے غزل گووں میں میر تقوی بڑا استاد گزرا ہے اور اکثر بڑے بڑے شعرا نے اسے داد دی ہے:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا


ریختے کے تمہیں استاد نہی ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
میر کے نشتر بہتر ہوں یا ہزار، سب میں ایک شکست خوردہ اور انفعالی کیفیت ہے:
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
٭٭٭
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
غالب کے ظلمت کدے میں بھی شب غم ہی کا جوش ہے۔ شمع جو دلیل سحر ہے وہ بھی خاموش ہے۔ اس ظلمت کی وجہ سے دن اور رات یکساں ہو گئے ہیں:
چوں صبح من زسیاہی بہ شام مانند است
چہ گویمت کہ ز شب چند رفت و تا چند است
عصر حاضر میں فانی بدایونی غزل کا استاد تھا۔ اس کی تمام شاعری میں حرمان و حسرت و یاس کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے دوست جوش ملیح آبادی نے اس کے سامنے ایک روز کہا کہ بھائی تمام دنیا تمہارے لیے ایک امام باڑا ہے جس کے اندر تم ایک تعزیہ معلوم ہوتے ہو۔ ایسے شعراء کے لیے زندگی کی حقیقت دکھ کے سوا کچھ نہیں۔ اس شاعری پر ہندی فلسفے اور مذہب کا گہرا اثر ہے جو تمام زندگی کو ایک سزا یا دھوکا سمجھتا ہے۔ حکمت اور گیان کا کام راہ گریز دریافت کرنا ہے جو راہ عمل نہیں، کیوں کہ نیک و بد دونوں اعمال کی بدولت انسان واگون کے چکر میں سے نہیں نکل سکتا۔ اقبال جیسے شاعر جب سوز حیات ابدی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ میر اور فانی کی نالہ کشی نہیں ہوتی۔ اقبال نے تماما ردو اور فارسی شاعری کا رخ پلٹ دیا اور یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ اگر اس نے حکمت کے اور بیش بہا موتی اپنے کلام میں نہ بھی بکھیرے ہوتے تو بھی یہ اکیلا کارنامہ اپنی ملت اور نوع انسان پر ایک بڑا احسان شمار ہوتا۔ اچھا ہنر وہ ہے جس سے بقول ٹینی سن ملتوں کے قلوب استوار ہوں اور جو قوموں کا رخ انحطاط سے عروج کی طرف پلٹ دے۔ فنون لطیفہ کے عنوان سے جو پانچ اشعار ہیں اسی نظریہ ہنر کا لب لباب پیش کرتے ہیں:
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا


مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا


جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا


شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا


بے معجزۂ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
اردو اور فارسی کا ایسا برا حال کیوں ہوا۔ موضوع سخن کے لحاظ سے شاعری کا زوال ایران سے شروع ہوا۔ وہاں قصیدہ گوئی میں ایک طرف جھوٹ کا طوفان پیدا ہوا۔ اہل ہنر نے اپنا ہنر اور اپنی خودی زر ے عوض بیچ ڈالی۔ اس کے بعد شاعری میں ہوس پرستی اور امرد پرستی کا سیلاب آیا۔ تصوف نے بہت کچھ اس کی اصلاح کی اور صوفیانہ شاعری میں عشق جنسی جذبات سے بلند ہو گیا لیکن اعلیٰ افکار اور جذبات کے ساتھ ساتھ حیات گریز نظریات بھی متصوفانہ شاعری میں داخل ہو گئے، اس لیے وہاں بھی انفعالی کیفیت کا غلبہ ہو گیا۔ اردو شاعری کو یہ سب کچھ ورثے میں ملا اور ادھر ہندی فلسفہ تھا جو تمام زندگی کو دکھ اور دھوکا قرا ردیتا تھا۔ یہ وراثت بھی اردو شاعروں کے حصے میں آئی۔ تمام شاعری اور موسیقی اندوبگینی سے لبریز ہو گئی۔ اکثر شاعر جو زندگی کا ماتم کرتے تھے وہ ان کا کوئی ذاتی تجربہ نہ تھا۔ یہ زیادہ تر شاعرانہ روایات کی تقلید تھی، جیسے شراب کو نہ چھونے پر بھی شاعر خواہ مخواہ شرابی بنتا ہے، اسی طرح عاشق نہ ہونے پر بھی بہ تکلف و تصنع بازاری عشق کا دعویٰ کرتا ہے۔ تصوف کے جو افکار تھے وہ بھی سب روایتی تھے۔ کئی شاعر زندگی کو ابھارنے کی کوشش کرتے تھے لیکن افکار و تاثرات میں کوئی جدت نہ تھی۔
نظیر اکبر آبادی نے روایتی شاعری کو بالائے طاق رکھ کر گرد و پیش کی زندگی کو اپنی نظر سے دیکھ کر شاعری کی تو تذکرہ نویسوں نے اس کو قابل اعتنا ہی نہ سمجھا۔ اس کی نظر بہت حکیمانہ یا صوفیانہ نہ سہی لیکن جو کچھ کہتا ہے وہ نظر سے دیکھ کر کہتا ہے اور وہی کچھ کہتا ہے جو محسوس کرتا ہے۔ متقدمین اور متاخرین میں سے کوئی شاعر اس کے لیے قابل نظر تقلید نمونہ نہیں۔ دور حاضر میں حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری حالی سے قبل نظر نہیں آتی، مگر اس کو بھی صناع اور مقلد شاعری نے استاد نہ مانا۔ اقبال نے زندگی کو اپنی نظر دیکھ کر شاعری شروع کی تو عرصہ دراز تک روایت پسند اساتذہ اور زبان کے اجارہ داروں کا یہی مشغلہ رہا کہ اس کے کلام میں تذکیر و تانیث اور محاورے کے سقم تلاش کئے جائیں۔ اقبال کہتا ہے کہ ہنر میں جدت زندگی کو اپنی نظر سے دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ مقلد محض، خواہ دین میں ہو اور خواہ ہنر میں، چشمہ حیات سے سیراب نہیں ہوتا، وہ دوسروں کی زندگی میں کی آبیاری کر سکتا ہے:
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے


خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیماے قمر سے


دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے


اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
شاعری کے علاوہ مصوروں کے متعلق بھی اقبال کو یہی شکایت ہے کہ یہ بھی مقلد ہی نظر آتے ہیں۔ یہ خیال درست ہے کہ آرٹ کسی قوم کی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی ہماری مصوری کو دیکھے تو اس کی ملت کا زاویہ نگاہ، اس کی تمنائیں اور آرزوئیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ مغرب میں نشاۃ ثانیہ سے قبل کلاسیکی آرٹ موجود تھا جس میں عیسوی تصورات کی آمیزش ہو گئی تھی۔ نشاۃ ثانیہ میں جب حیات فرنگ نے ایک نئی کروٹ لی تو ایک نیا آرٹ پیدا ہو گیا۔ مائیکل انجیلو اور ریمبرانٹ وغیرہ اس نئی زندگی کا اظہار رنگ و سنگ میں کرتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و تمدن میں مصوری کو زیادہ فروغ حاصل نہ ہو سکا۔ جس کے اسباب اس سے قبل بیان ہو چکے ہیں۔ عصر حاضر میں جب یہاں مصوری کی طرف توجہ ہوئی تو زیادہ تر اس میں فرنگ کے مختلف اسکولوں کی کورانہ تقلید تھی۔ کچھ ایسے تھے جنہوں نے راجپوت اسکول کی پیروی کی، کچھ قدیم مغل روایات کے مقلد ہو گئے، جن کی ابتداء اکبر و جہاں گیر کے ذوق سے ہوتی ہے۔ اس دور میں بھی کچھ ایرانی اساتذہ کی نقالی نظر آتی ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی جن مصوروں نے نام پیدا کیا ہے ان کی تصویروں میں بھی اپنے وطن اور اپنی قوم کے جذبات کہیں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ گذشتہ نصف صدی میں مغرب میں مصوری کے کچھ انوکھے اسکول پیدا ہوئے، جن میں سے بعض اہل مغرب کے لیے بھی قابل فہم نہ تھے۔ وہ مصوری اپنی جنم بھوم میں بھی معما تھی۔ نقالی سے وہ معما ہمارے ہاں اور مضحکہ خیز بن گیا۔ کسی قنوطی شاعر کا شعر ہے:
اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کیا ہے کوئی خواب ہے دیوانے کا
بہت سی تصویریں جواب نمائشوں میں لٹکائی جاتی ہیں دیوانوں کے خواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن تقلید کی انتہا یہ ہے کہ یہ سپنے بھی یہاں کے دیوانوں کے اپنے سپنے نہیں ہیں، بلکہ مغربی دیوانوں کے خوابوں کے خاکے ہیں۔ انسانوں کے جونقشے ان میں نظر آتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت ہے کہ ’’ سر لون کا، منہ پیاز کا، امچور کی گردن‘‘ کسی زمانے میں ہمارے ہاں شاعری مہمل گوئی پر اتر آئی تھی اور شعر کو معما یا گورکھ دھندا بنانا استادی کا کمال شمار ہوتا تھا۔ مرزا غالب بھی ایام شباب میں اس بے راہ روی کے شکار ہوئے لیکن پختگی کے بعد سنبھل گئے۔ لوگ ایسے شعر بھی کہتے تھے اور نکتہ آفرین شارح ان کی شرح میں داد ذہانت دیتے تھے:
ٹوٹی دیا کی کلائی زلف الجھی بام میں
مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں
قبر تھی بام فلک پر اور سمندر جام میں
٭٭٭
پہلے تو روغن گل بھینس کے انڈے سے نکال
پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال
مغرب کی مصوری پر اب ایسا ہی دور آیا ہے او رہمارے ہاں کے مصوروں نے اس کی نقالی شروع کر دی ہے۔ ایک فرنگی نقاد نے ہمارے مصوروں کی ان تصویروں کو دیکھا اور کہا کہ یہ فرنگ کے فلاں فلاں اسکولوں کی کامیاب یا ناکام نقالی ہے۔ تمہارا پاکستانی آرٹ کہاں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم کو اپنی خودی کا احساس نہ ہو او رہنر اس کی مخصوص تمناؤں اور زوایائے نگاہ کا آئینہ دار نہ ہو، تب تک مصوری زندگی کی ترجمان نہیں بن سکتی۔ اقبال نے ہماری موجودہ مصوری پر پانچ اشعار میں جو تنقید کی ہے اس سے ہمارے مصوروں کو اپنی حقیقت معلوم ہو جانی چاہیے:
کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل
ہندی بھی فرنگی کا مقلد عجمی بھی


مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد
کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلیٰ بھی


معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات
صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی نئی بھی


فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے
آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی
سرود حلال اور سرود حرام کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی اقبال کے پاس معیار وہی خودی کی بیداری اور استواری ہے۔ سرود بھی علم اور فطرت کی دیگر قوتوں کی طرح ایک بے طرف اور غیر جانبدار چیز ہے۔ مختلف قسم کی موسیقی مختلف تاثرات پیدا کرتی ہے اس لیے علی الاطلاق موسیقی کو نہ حلال کہہ سکتے ہیں اور نہ حرام۔ سرود حلال وہ ہے جس سے دل میں محض کوئی عارضی تموج ہی پیدا نہ ہو بلکہ وہ ایک پائدار اثر چھوڑ جائے، جس سے زندگی کا رنگ بدل جائے۔ عارضی طور پر تو ایک جرعہ شراب سے بھی انسان غم و خوف سے پاک ہو جاتا ہے، لیکن ’’ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ جو اولیاء کی ایک مستقل کیفیت ہے، وہ ایمان ہی کی پختگی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے ایمان کو کئی راستوں سے تقویت پہنچتی ہے۔ اس کا ایک راستہ سرود حلال ہے:
جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
بعض صوفیائے کرام نے اسی انداز کے سماع کو حلال قرار دیا ہے:
بر سماع راست ہر کس چیر نیست
طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست
(رومی)
اقبال اس کا منظر ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایسے نے نواز پیدا ہوں جن کے نغموں سے دل میں ایسی کشود ہو جو زندہ و پائندہ رہے:
جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی
منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود
جو نغمہ زندگی کی قوتوں کو لوریاں دے کر سلا دے یا حسرت و حرماں سے لبریز ہو وہ سرود حرام میں داخل ہے۔ ارباب نشاط کی ہوس انگیز موسیقی بھی مخرب خودی ہی ہے:
اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام
حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب
اقبال نے فکر و تاثر اور فن شعر کے بہت سے سانچے فارسی شاعری سے حاصل کیے اور جا بجا اس نے فراخدلی سے اس کا اقرار بھی کیا ہے۔ فارسی شاعری نے اپنے ہزار سالہ ارتقاء میں انداز بیان میں بڑی لطافتیں اور نزاکتیں پیدا کیں۔ نظریات حیات اور افکار کی ثروت کے لحاظ سے بھی یہ سارا دفتر ایسا نہیں جس کے متعلق کوئی منصف مزاج شخص یہ کہہ سکے کہ ’’ ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ‘‘ تصوف کی شاعری جتنی لطیف اور بلند فارسی میں ملتی ہے اتنی دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں، لیکن خاص حالات اور روایات کی وجہ سے اور کچھ عجمی طبیعت کی بدولت اس کے اندر کچھ ایسے تصورات اور تاثرات بھی ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے انسان کی فعلی قوتوں کو سلا دیا۔ فارسی شاعری پر کہیں لذتیت طاری ہو گئی اور کہیں سکون طلبی اور کہیں زندگی کے متعلق قنوط پیدا ہو گیا۔ اقبال نے جو اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں اپنی قوم کو حافظ کے تغزل سے پرہیز کی تلقین کی اس کی وجہ یہی تھی کہ حافظ میں کہیں جبر کی تعلیم ہے اور کہیں کھلم کھلا ابیقوری قسم کی لذت پرستی۔ وہ کہیں ہمت سے زندگی کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ تمام مصائب کا علاج آب طرب ناک سے کرنا چاہتا ہے۔ حافظ کے کلام میں مجاز کا پہلو حقیقت پر غالب دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر اس کے سب مجاز کو استعارہ سمجھ لیا جائے تو الگ بات ہے۔ چنانچہ اکثر مسلمان شارحین نے ایسا ہی کیا ہے اور کہا ہے کہ حافظ کی شراب شراب معرفت ہے، لیکن کھینچ تان کر بھی ایسے اشعار کو کوئی کیسے تصوف بنائے گا:
مے دو سالہ و معشوق چار دہ سالہ
ہمین بس است مرا صحبت صغیر و کبیر


آن تلخوش کہ ساقی الم الخبائش خواند
اشھی لنا واحلی من قبلتہ العذارا
یہاں وہ کھل کر کہتا ہے کہ میں اسی شراب کا ذکر کر رہا ہوں جسے اسلام نے ام الخبائث کہا ہے۔ مجھے تو وہ بوسہ معشوق سے زیادہ شیریں معلوم ہوتی ہے۔ حافظ کے متعلق مولانا شبلی کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کے ہاں خیام والی لذت پرستی ہے۔ زندگی کے معمے سمجھ میں نہیں آتے تو انہیں جام شراب میں غرق کر دو۔ تنگ دستی ہو تو اس کو کوشش سے رفع کرنے کی بجائے مستی سے اس کا علاج کرو۔ مفلس بھی ہو گے تو اپنے تئیں قارون سمجھو گے:
ایام تنگ دستی در عیش کوش و مستی
کایں کیمیاے ہستی قاروں کند گدا را


حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر جو
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را
سکون طلبی اور لا ادریت کے ساتھ وابستہ ہے کہ زندگی کے اسرار کوئی نہ سمجھا لہٰذا جہاں تک ہو سکے اس چپقلش میں مت پڑو۔ اگر زندگی کے متعلق اس قسم کے تصورات اور اطمینان قلب کی تلاش کے ساتھ ساتھ حوادث حیات پر غلبہ پانے کی مجاہدانہ تلقین بھی ہو تو زندگی میں ایک اعتدال اور توازن پیدا ہو سکتا ہے:
اسرار ازل را نہ تو دانی و نہ من
ایں حرف معما نہ تو خوانی و نہ من
یہاں تک تو انبیاء اور اولیا بھی عجز ادراک میں شریک ہو سکتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ خیر و شر کی ماہیت بھی واضح نہیں لہٰذا جدوجہد کا ہے کوکی جائے، زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ فن لطیف میں طرب ناکی اور دل آویزی بھی ہوتی ہے، اور اس عنصر کو کون خارج کر سکتا ہے، لیکن زندگی فقط لطف اندوزی کا نام نہیں۔ یہ کوئی نہ کہہ سکے گا کہ اقبال خود عجمی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوتا تھا۔ عجم کا حسن طبیعت اس کی فارسی غزلوں میں جھلکتا ہے۔ بہت سی غزلیں اور متفرق اشعار ایسے ہیں کہ انہیں دیوان حافظ میں رکھ دو تو کسی صاحب ذوق سلیم کو بھی مزاج حافظ سے اجنبیت کا احساس نہ ہو، لیکن فرق یہ ہے کہ اقبال نے انہیں الفاظ کو اور معنی پہنا دیے ہیں اور حافظ شیراز کے ساتھ خالد جانباز کا رنگ بھی بعض اوقات ایک ہی غزل میں جھلکتا ہے۔
گورستان شاہی کی نظم میں اقبال نے یہ کہا تھا کہ قوم کی شان جلالی کا ظہور تاریخ اسلام میں ہو چکا ہے، اب شان جمالی کے ظہور کا زمانہ ہے:
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
لیکن فکر و تاثر میں ترقی کرتے ہوئے اور تقدیر امم کا جائزہ لیتے ہوئے بعد میں اس کا زاویہ نگاہ بدل گیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جمال کو جلال سے الگ نہیں کر سکتے۔ جلال موجود نہ ہو تو نبوت بھی بے اثر ہو جائے:
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ طلب طرب کا نتیجہ ہمیشہ مایوس کن ہوتا ہے۔ لذت پرستی خود اپنے محدود مقصود میں بھی کامیاب نہیں ہوتی۔ دنیا میں خود کشی کرنے والے انسانوں کی نفسیات کو اگر ٹٹولا جائے تو اس کی تہ میں یہی حقیقت ملے گی کہ ایک شخص زندگی سے لذت و راحت کا طالب تھا اور جب زندگی اس کو کانٹوں کا بستر محسوس ہونے لگی تو اس نے ناقابل علاج سمجھ کر اس کا خاتمہ کر دیا۔ عجمی شاعری میں اور اس کی تقلید میں اردو شاعری میں، آپ کو دونوں چیزیں بہم ملیں گی۔ ہوس پرستی اور لذت طلبی میں انہماک کے ساتھ ساتھ زندگی کی مرثیہ خوانی بھی ہے۔ لذتیت کے دوش بدوش افسردگی بھی ہے۔ زندگی کی لطافتوں اور خوش باشی کا انجام دیکھ کر انشا جیسے ہنسوڑے لذت پرست اور بذلہ سنج نے جو اپنی آخری کیفیت بیان کی ہے اسے پڑھ کر دل پر کس قدر افسردگی طاری ہوتی ہے:
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں


بسان نقش پاے رہرواں کوے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں
یہ شاعر کسی بلند نصب العین کے فقدان کی وجہ سے زندگی کے حوادث کا حریف نہ بن سکا۔ اقبال کی اصطلاح میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی خودی استوار نہ تھی۔
ہمارا تغزل ہوس پرستی کے ساتھ ساتھ افسردگی اور یاس سے لبریز ہے۔ جب فن لطیف میں یہ بات پیدا ہو جائے تو اس کی سرسری طرب ناکی اور دل آویزی سے بھی پرہیز لازم ہو جاتا ہے۔ اقبال کا نصب العین یہ تھا کہ عجم کے حسن طبیعت میں عرب یعنی اسلام کا سوز دروں داخل کر کے زندگی کے لیے اکسیر سعادت تیار کی جائے۔ اس مقصد کے حصول میں اقبال کی شاعری ایک کامیاب تجربہ ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اقبال کے اشعار طرب ناک اور دل آویز نہیں ہیں۔ یہ دل آویزی اس کو عجم سے حاصل ہوئی ہے۔ مگر اقبال کے ہاں یہ دل آویزی شمشیر خودی کو کند نہیں کرتی۔ اس کے ہاں نیام مرصع اور خوبصورت ہے لیکن اس کے اندر تلوار بھی تیغ دو دم ہے ’’مصرعے کارید و شمشیرے درود‘‘ :
ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز


افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستان
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز
فن لطیف کے متعلق ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کو فطرت خارجی اور فطرت انسانی کا آئینہ ہونا چاہیے۔ آئینے کا کام تنقید نہیں، آئینہ سب کچھ دیکھ کر خاموش رہتا ہے۔ وہ مبلغ نہیں ہوتا۔ مدح و ذم سے اس کو واسطہ نہیں۔ اقبال کا کمال دیکھئے کہ شیکسپیئر پر جو اشعار اس نے کہے ہیں ان کی ردیف ہی آئینہ ہے۔ شیکسپیئر کا کمال فن یہ ہے کہ زندگی کا جو پہلو اس کے سامنے آتا ہے اور کسی کردار کے جو خد و خال ہیں ان کو بعینہ آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اسی لیے کسی کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ شیکسپیئر کا مذہب کیا تھا۔ وہ مومن کو بحیثیت مومن اور کافر کو بحیثیت کافر پیش کرتا ہے، فتویٰ اور تنقید پڑھنے والے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ شیکسپیئر کے پچاس ڈرامے پڑھ کر انسان خود ایک قسم کا آئینہ بن جاتا ہے کسی خاص نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا میلان پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ شیکسپیئر کے کلام میں بھی حقیقت کا اظہار ہے لیکن اقبال کا نظریہ حیات حقائق حاضرہ میں انقلاب چاہتا ہے۔ انسان کی اصل حقیقت وہ نہیں جو اب ہے، بلکہ وہ ہے جو اسے ہونا چاہیے اور یہ چاہیے آئینے کی عکاسی میں نہیں آتا، مگر شیکسپیئر کی امتیازی خصوصیت کو کس عمدگی سے بیان کیا ہے:
شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ
نغمہ شام کو خاموشی شام آئینہ


برگ گل آئینہ عارض زیباے بہار
شاہد مے کے لیے حجلہ جام آئینہ


حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن
دل انساں کو ترا حسن کلام آئینہ
اس کے بعد اقبال کی شعر عجم پر تنقید کے آخری شعر کا مطلب اچھی طرح واضح ہو جائے گا:
اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ
از ہرچہ بآئینہ نمایند پرہیز
عجمی شاعری میں عاشق فقط اپنے سینے پر تیشہ چلاتا رہتا ہے ’’ چھاتی پہ رات ہجر کی کالا پہاڑ ہے‘‘ اور اسی پہاڑ پر کوہ کنی میں مبتلا رہتا ہے۔
کاو کاو سخت جانی ہاے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیر کا غالب
(غالب)
ہمچو فرہاد بود کوہ گئی پیشہ ما
کوہ ما سینہ ما ناخن ما تیشہ ما


بہر یک جرعہ مے منت ساقی نہ کشیم
اشک ما بادۂ ما دیدۂ ما شیشہ ما
اقبال فن لطیف کو جس خارہ تراشی کا آلہ اور وسیلہ بنانا چاہتا ہے وہ ایک الگ قسم کی ہے:
زمانہ با ت ونسازد تو با زمانہ ستیز
٭٭٭
چوں پختہ شدی خود را بر سلطنت جم زن
٭٭٭
گفتد جہان ما آیا بت می سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
اقبال کو اپنے وطن کے معاصرانہ فن لطیف میں کہیں خارہ تراشی نظر نہیں آتی۔ زیادہ تر غزلیں کسی اصلی یا تخیل کی پیداوار عورت کے متعلق اظہار ہوس ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ بھی غنیمت ہے کہ ایرانی امرد پرستی رفتہ رفتہ یہاں اردو کی شاعری میں ناپید تو نہیں لیکن کمیاب ہو گئی۔ اردو میں شاعری نے فعل میں جمع کا صیغہ استعمال کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ بات گول ہی رہے کہ معشوق مرد ہے یا عورت:
نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے
زمانہ حال میں عشقیہ شاعری میں کھلم کھلا تانیث کا صیغہ استعمال ہونے لگا ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ انسانی نفسیات میں ایک عملی تلطیف ہے جس کی بدولت جنسی عشق کی قوتیں غیر جنسی مقاصد عالیہ کا روپ اختیار کر لیتی ہیں، لیکن ہمارے غزل نویسوں کا عشق جنسی میلان سے آگے قدم ہی نہیں رکھتا۔ ان کا دل زلف پیچاں کے پیچاک سے نکلتا ہی نہیں، کیوں کہ نکلنا چاہتا ہی نہیں:
زلف پر پیچ میں دل ایسا گرفتار ہوا، چھٹنا دشوار ہوا
کچھ افسانے اخلاقی اور معاشرتی بھی ملتے ہیں، لیکن زیادہ تر افسانوں میں عورت کا عشق ہی محور داستان ہوتا ہے اور یہی افسانے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ جنسی عشق کی تخریبی کارروائیاں، بہت کچھ جدید نفسیات تحت الشعور سے اخذ کردہ اکثر افسانہ نویسوں کا کل سرمایہ ہیں۔ جس قدر عریاں نویسی ہو اسی قدر افسانہ نویس، صاحب کمال شمار ہوتا ہے اور اسی قدر اس کو قوم سے داد ملتی ہے۔ اگر شراب نوشی کا شکار ہو کر جوانا مرگ ہو جائے تو سارے ادیب اور پڑھنے والے اس کا ایسا ماتم کرتے ہیں کہ گویا حالی یا شبلی یا سرسید یا اقبال ثانی جہان فانی سے گزر گیا۔ مصوروں کی تصویروں میں بھی زیادہ تر عورتیں ہی نظر آئیں گی۔ برہنگی کو تو فرنگ کی مصوری اور سنگ تراشی نے فن کا لازمہ بنا دیا ہے۔ مصوروں اور بت تراشوں کے سامنے متناسب اعضا اور حسین چہروں والی عورتیں برہنہ ہو کر بطور موڈل کئی روز تک مادر زاد برہنگی میں فن کار کے بتائے ہوئے انداز میں روبرو موجود رہتی ہیں اور اس کی اجرت وصول کرتی ہیں۔ پاکستان میں نیوڈ آرٹ کا زیادہ رواج نہیں ہوا کیوں کہ مشرق میں نسوانی شرم و حیا ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ لیکن اکثر باکمال ہندی اور پاکستانی مصوروں کی تصویروں میں بھی متنوع لباس میں ملبوس عورتیں ہی نظر آتی ہیں۔ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو عورتیں سمجھ کر دیکھنے والے نقاد ذوق فن سے محروم ہیں۔ یہ عورتیں نہیں بلکہ اعلیٰ تصورات کی آیات یا علامات ہیں۔ ایسی تصویروں میں عورت عورت نہیں بلکہ ایک رمز ہے اور یہ رمز شناس یا خود مصور ہے یا معدودے چند نقادان فن۔ راقم الحروف نے ایک نقاد فن کے شبستان میں ایک برہنہ عورت کی تصویر آویزاں دیکھی اور اس سے کہا کہ میں فن مصوری کے رمز کو سمجھنا چاہتا ہوں، مجھے اس تصویر میں جن تصورات کا اشارہ ہے ذرا سمجھا دیجئے۔ آخر میں ذوق جمال سے ایسا محروم نہیں ہوں اور نفسیات سے بھی اتنا بے بہرہ نہیں ہوں کہ آپ کے سمجھانے سے بھی کچھ نہ سمجھ سکوں۔ اس نقاد کی قوت بیان بھی غیر معمولی تھی، لیکن اس کے باوجود اس نے کہا کہ میں کیا سمجھاؤں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ میں اس کے سوا اور کیا نتیجہ نکالتا کہ یہ تصویر جذبہ جنسی نے شبستان میں آویزاں کر رکھی ہے۔ اس کے سوا کچھ معنی ہوتے ہیں تو سمجھانے کی کچھ تو کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے ہی ہنوروں کے متعلق اقبال نے کہا ہے:
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار


چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار


ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
لیکن اب کچھ اشتراکی صاحبان فن ایسے بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے اعصاب پر مزدور و کسان سوار ہو گئے ہیں اور یہ بوجھ اس پہلے بوجھ کے مقابلے میں زیادہ وزنی اور زیادہ کثیف ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ کسی کامل الفن فنکار میں فن لطیف وہبی ہوتا ہے یا کسبی، انگریزی میں ایک مثل ہے کہ بننے سے کوئی شاعر نہیں بن سکتا۔ شاعر بطن مادر ہی سے شاعر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تلمیذ الرحمان ہونے کا بھی یہی مفہوم ہے اور شاعری کے جزو پیغمبری ہونے کے بھی یہی معنی ہیں۔ اس کا جواب اقبال نے مختصراً تینا شعار میں دیا ہے کہ ایجاد معانی کی غیر معمولی صلاحیت خدا داد ہوتی ہے لیکن فن کا کمال بے حساب محنت طلب بھی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قیمتی پتھر تو کانوں میں فطرت ہی پیدا کرتی ہے لیکن کوئی ہیرا تراشنے کے بغیر پوری طرح حسین اور نور افشاں نہیں بنتا:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
نابغہ یا جینیس کے متعلق کسی انگریز مفکر کا قول ہے کہ جینیس کے کمال میں ایک قلیل اساس فطری ہوتی ہے، جو مصدر الہام ہوتی ہے لیکن اس گنجینہ سینہ سے زیادہ محنت کا پسینہ کمال پیدا کرتا ہے۔ بعض لوگوں نے نبوت کے متعلق بھی اس قسم کی بحث کی ہے کہ وہ وہبی ہوتی ہے یا کسبی۔ خدا جس کو چاہے بغیر کسی استحقاق کے نبی بنا دیتا ہے یا کسی شخص کی روحانی ترقی اس کو اس درجے تک پہنچا دیتی ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس کی اساس وہبی ہے لیکن نبی کو اپنا وظیفہ نبوت ادا کرنے کے لیے دوسرے انسانوں سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے یہ جدوجہد نبوت سے قبل بھی ہوتی ہے اور بعثت کے بعد بھی مسلسل جاری رہتی ہے۔ حافظ نے اپنی استعداد کے وہبی ہونے کے متعلق کہا ہے:
چہ رشک می بری اے سست نظم بر حافظ
قبول خاطر و لطف سخن خدا داد است
لیکن خالی خدا داد صلاحیت سے حافظ حافظ نہ بن سکتا۔ اس کے کلام سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ فن تغزل میں اس نے فطری کے علاوہ مسلسل محنت اور مشق سے کام لیا ہے۔ فن میں باریکیاں مطالعے، مشاہدے اور محنت سے پیدا ہوتی ہیں۔ خود اقبال کو دیکھئے۔ اس کی شاعری کے ابتدائی دور میں بعض لوگوں نے زبان او رمحاورے پر اعتراضات کیے، ان اعتراضات کا ایسا تفصیلی اور مسکت جواب حوالوں اور مثالوں سے دیا گیا کہ معترض حیرت زدہ ہو گئے کہ اس شخص کو فن کے تمام پہلوؤں پر کتنا عبور ہے۔ یہ معلومات آسمان سے تو نازل نہیں ہوتیں، یہ علم مطالعے اور تفکر اور محنت کا نتیجہ تھا۔ یہ درست ہے کہ خالی محنت اقبال کو اقبال نہ بنا سکتی، اگر فطرت کی طرف سے غیر معمولی بصیرت ودیعت نہ ہوتی۔ خالی محنت سے صناعی میں ترقی ہو سکتی ہے لیکن صناعی اور قافیہ پیمائی شاعری نہیں۔ مانی ہو یا بہزاد ان کی محنتوں اور کاوشوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ فن کی طرف سے غفلت برتتے تو خام رہ جاتے۔ اقبال کا فیصلہ اس کے متعلق یہ ہے:
ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خدا داد
کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد


خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
مے خانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد


بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد
جس شاعری کو اقبال حیات افروز سمجھتا ہے اس کی وہ دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ ایک کو نغمہ جبریل کہتا ہے اور دوسری کو بانگ اسرافیل۔ یہ تقسیم قابل غور ہے۔ حکیم المانوی نطشے نے آرٹ کو اسی طرح دو انواع میں تقسیم کیا ہے اور یونانی صنمیات کی اصطلاحوں میں ایک کو وہ دیوتا اپولو سے وابستہ کرتا ہے اور دوسری نوع کو ڈیوانیسیس سے۔ یہ تقسیم اقبال کی تقسیم سے بہت مماثل ہے۔ اپولو عقلی اور جمالی پہلو کا نمائندہ ہے اور ڈایونیسیس میں حرکت و ہیجان اور جوش و مستی ہے۔ جبریل کو بھی بعض مسلمان شعرائ، حکما و صوفیہ نے خدا کی طرف سے انکشاف حقائق پر مامور تصور کیا، مگر اس میں عشق کی گرمی اور فراق کی تپش نہیں۔ جبریل و ابلیس کے مقابلے میں بھی ابلیس نے جبریل کو یہی طعنہ دیا کہ تجھ میں اضطراب حیات نہیں۔ معراج شریف کے قصوں میں بھی جو بہت کچھ تمثیلی ہیں جبریل ایک حد پر پہنچ کر رک جاتا ہے کہ اگر آگے پرواز کی جرأت کروں تو میرے پر چل جائیں۔ جس کی یہ تعبیر کی گئی ہے کہ جبریل عقل کا نمائندہ ہے اور عقل آستانے تک تو پہنچا دیتی ہے لیکن اس کی تقدیر میں حضور نہیں:
اگر یک سر موے بر تر پرم
فروغ تجلی بسوزد پرم
اپولو والا آرٹ ہم آہنگی، توازن اور جمال پیدا کرتا ہے لیکن ڈایونیسیس والا آرٹ زندگی کی جامد صورتوں کو درہم برہم کر کے اضطراب اور پیچ و تاب سے جدید مقاصد کی طرف بڑھتا ہے جو ابھی وجود پذیر نہیں ہوئے۔
جبریل کے مقابلے میں اسرافیل کا کام ایسا صور پھونکنا ہے جس سے پہلا تمام نظام عالم درہم برہم ہو جائے، تمام زندہ ہستیاں موت سے لرزاں ہوں اور تمام مردے قبروں سے نکل پڑیں۔قیامت سے بڑھ کر انقلاب عظیم اور کیا ہو سکتا ہے۔ قیامت کی ماہیت خدا ہی کو معلوم ہے، لیکن بہر حال وہ حیات و موت کا ایک انقلابی تصور ہے۔ افلاطون اور ارسطو دونوں جدوجہد کی زندگی کو جس میں اخلاقی کوششیں بھی داخل ہیں، تفکر محض کی زندگی سے ادنیٰ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں تغیر ثبات کے مقابلے مینا ور سکون و شکوت ازلی حرکت کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہیں۔ وہ ’’الان کما کان‘‘ بھی ہے اور ’’ کل یوم ہو فی شان‘‘ بھی۔ آفرینش میں افزائش بھی حیات ابدی کا وظیفہ ہے۔ شعر میں کبھی یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کبھی وہ یہ تفریق بھی کسی حد تک جمال و جلال کے امتیاز سے مماثلت رکھتی ہے۔
اقبال نے پہلے مصرع میں تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے مگر اس کے بعد فوراً اپنا نظریہ فن پیش کر دیا ہے:
میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن
یہ نکتہ ہے تاریخ امم جس کی ہے تفصیل


وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل
تاریخ امم اس نکتے کی تفصیل کیوں کر ہے اس کا صاف جواب یہ ہے کہ ملتوں کے فنون لطیفہ میں کبھی یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کبھی وہ، لیکن اپنی ملت کے لیے اس وقت اقبال کو نغمہ جبریلس ے زیادہ صور اسرافیل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس سے ایک محشر بپا ہو کر نیا عالم ظہور میں آئے۔
رقص بھی فنون لطیفہ میں داخل ہے اور یہ بھی موسیقی کی طرح ایک فطری چیز ہے۔ رقص تو بعض جانوروں میں بھی ہوتا ہے۔ طاؤس کے رقص کی دل آویزی مشہور ہے۔ بغیر سیکھنے سکھانے کے بچے بھی رقص کرتے ہیں ذرا سا موسیقی کا اشارہ کافی ہوتا ہے۔ موسیقی کی طرح رقص کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ جلال الدین رومی بھی بے اختیار ہو کر رقص کرنے لگتے تھے۔ ان کی تقلید میں ان کے نام لیوا مریدوں نے اس کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ وہ دف ونے کے ساتھ بے اختیار ہو کر زور زور سے گھومنے لگتے ہیں۔ اقبال نے کسی چینی حکیم کا قول نقل کیا ہے:
شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن
رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن
  
فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرار فن
شعر گویا روح موسیقی ہے رقص اس کا بدن
مگر اہل فرنگ نے رقص کو جنسی تسکین کا سامان بنا لیا ہے۔ یہ رقص اقبال کو پسند نہیں، جس میں زیادہ تر مرد و زن کی آہم آغوشی ہوتی ہے۔ اس میں جنسی جذبے کی آمیزش ہوتی ہے۔ اقبال وہ رقص چاہتا ہے جس میں روح کا ارتعاش بدن کی حرکات میں ظاہر ہو۔

فنون لطیفہ کا باہمی تعلق کس قسم کا ہے ؟ یہ بھی جمالیات کا ایک دلچسپ مسئلہ ہے۔ بعض حکما نے فنون لطیفہ میں فرق مراتب پیدا کیا ہے لیکن اس مینوہ متفق الرائے نہیں۔ کسی کے نزدیک موسیقی شعر سے افضل ہے اور کسی کے ہاں شعر کو موسیقی پر فضیلت حاصل ہے۔