بعثت محمد ﷺ سے پہلے ہندوستان کے حالات

مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ("")

ہندوستان کے مؤرخین کا اس نقطہ پر اتفاق ہے کہ چھٹی صدی عیسوی سے جو زمانہ شروع ہوتا ہے وہ مذہبی، اجتماعی اور اخلاق لحاظ سے اس ملک کی تاریخ کا (جو کسی زمانہ میں علم و تمدن اور اخلاقی تحریکات کا مرکز رہا ہے ) پست ترین دور تھا، ہندوستان کے اردگرد دوسرے ممالک میں جو اجتماعی اور اخلاقی انحطاط رونما تھا، اس میں یہ ملک کسی سے پیچھے نہ تھا اس کے علاوہ بھی کچھ خصوصیات تھیں جن میں اس مکے ذیل میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ (۱) معبودوں کی حد سے بڑھی ہوئی کثرت (۲) جنسی خواہشات کی بحرانی کیفیت (۳) طبقاتی تقسیم اور معاشرتی امتیازات ۔

نت نئے دیوتا

چھٹی صدی عیسوی میں بت پرستی پورے عروج پر تھی ، وید میں دیوتاؤں کی تعداد ۳۳ تھی ، اس صدی میں تینتیس (۳۳) کروڑ ہوگئی ، اس عہد میں ہر پسندیدہ شئے ہر کشش رکھنے والی اور زندگی کی کوئی ضرورت پوری کرنے والی چیز دیوتا بن گئی تھی، جس کی پوجا کی جاتی تھی ، اس طرح بتوں اور مجسموں ، دیوتاوں اور دیویوں کا کوئی شمار نہ تھا ، ان دیوتاوں اور قابل پرستش اشیاء میں معدنیات وجمادات ، اشجار ونباتات ، پہاڑ اور دریا ، حیوانات ، حتی کہ ۤلات تناسل سب ہی شامل تھے ، اس طرح یہ قدیم مذہب ، افسانوی روایات اور عقائد وعبادات کا ایک دیومالا بن کر رہ گیا ، ڈاکٹر گستاولی بان ْتمدن ہندٗ میں لکھتا ہے: 


دنیا کی تمام اقوام میں ہندو کے لئے پرستش میں ظاہری صورت کا ہونا لازمی ہے ، اگرچہ مختلف ازمنہ میں مذہبی اصلاح کرنے والوں ہندو مذہب میں توحید کو ثابت کرنا چاہا ہے، لیکن یہ کوشش بالکل بے فائدہ ہے ، ہندو کے نزدیک کیا ویدی زمانہ میں اور کیا اس وقت ہر چیز خدا ہے جو کوئی چیز اس کی سمجھ میں نہ آئے ، یا جس سے وہ مقابلہ نہ کر سکے ، اس کے نزدیک پرستش لائق ہے ، برہمنوں اور فلسفیوں کی نہ صرف کل کوششیں جو انھیں نے توحید قائم کرنے کے لئے کیں ، بلکہ کل وہ کوششیں بھی جو وہ دیوتاوں کی تعداد گھٹا کر تین پر لانے کے لئے عمل میں لائے محض بیکار اور رائیگاں گئیں ، عوام الناس نے ان کی تعلیم کو سنا اور قبول کیا ، لیکن عملا یہ تین خدا تعداد میں بڑھتے گئے اور ہر ایک چیز میں ،ہر ایک رنگ بو میں اُن کے اوتار نظر آنے لگے؛ (۱؎ تمدن ہند ص 440 - 441 ۲؎ ہوئن سیانگ کاسفر نامہ "فوکوئی کی" (مغربی سلطنت) ۳؎ ایضا)
چھٹی ساتویں صدی میں بُت سازی کے فن نے بڑی ترقی کی، اس عہد میں فن اپنے کمال کو پہونچ گیا تھا، سارے ملک میں بُت پرستی کا دور دورہ تھا، حتیٰ کے بودھ مت اور جینی مذہب کو بھی مذاق عام کا ساتھ دینا پڑا اور اپنی زندگی اور مقبولیت کو قائم رکھنے کے لئے اسی روش کو اختیار کرنا پڑا، بُت پرستی کے اس عروج اور مورتیوں اور مجسّموں کی کثرت کا اندازہ چینی سیّاح ہوئن سیانگ (جس نے ۶۳۰ ؁ء اور ۶۴۴ ؁ء کے درمیان ہندوستان کی سیاحت کی ہے) کے اس بیان سے ہو سکتا ہے جس میں اس نے راجہ ہرش (۶۴۷-۶۰۶ کے) جشن کی کیفیت سنائی ہے، ہوئن سیانگ لکھتا ہے:۔

"راجہ ہرش نے قنوج میں علمائے مذہب کا مجمع کرایا، کوئی پچاس (۵۰) ہاتھ اونچے مینار پر گوتم بدھ کی طلائی مورت نصب کی گئی تھی، اس کی دوسری چھوٹی مورت کا بڑی دھوم دھام سے جلوس نکالا گیا جس میں ہرش نے سکر دیوتا کے لباس میں چتر برداری کی اور اس کے حلیف راجہ وائی کا مروپ نے مگس رانی کی۔" ۲؎

ہوئن سیانگ نے ہرش کے خاندان یا درباریوں کے متعلق لکھا ہے کہ تو شیو کا پرستار تھا، اور کوئی بودھ مت کا پیرو ہو گیا تھا، بعض لوگ سورج کی پوجا کرتے تھے، بعض وشنو کی، ہر شخص آزاد تھا جس دیوی دیوتا کو چاہے اپی پرستش کے لئے مخصوص کرے اور چاہے تو سب کی پوجا کرے۔ ۳؎

جنسی بحران

شہوانی جذبات اور جنسی (SEXUAL) میلان کو اُبھارنے والے عناصر مذہبی صورت میں جس قدر ہندوستان کے قدیم مذہب و تمدن میں ہیں، کسی دوسرے ملک میں نہیں پائے جاتے، 


ملک کی مقدس کتابوں اور مذہبی حلقوں نے اہم واقعات ، حوادث کے وقوع اور موجودات کے وجود کی توجیہ کے سلسلہ میں دیویوں اور دیوتاوں کے باہم اختلاط اور بعض اونچے گھرانوں پر ان کی توجہات کے بعض ایسے واقعات اور روایتیں بیان کی ہیں، جن کو سن کر آنکھیں نیچی اور پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہے ، ان حکایتوں کا سادہ لوح اہل مذہب پر جو بڑے اخلاص اور جوشِ ایمانی کے ساتھ ان کہانیوں کو دہراتے ہیں ، جو کچھ اثر پڑ سکتا ہے ، اس کا قیاس کرنا کچھ مشکل نہیں ، ظاہر ہے کہ ان کے اعصاب اور جذبات پر یہ روایتیں غیر شعوری طور پر اثر انداز ہوں گی ، اس کے علاوہ بڑے دیوتا (شیو) کے آلہ تناسل (لنگم) کی پوجا ہوتی تھی ، اور بچے جوان مرد عورت سب اس میں شریک ہوتے تھے ، ڈاکٹر گستاولی بان اس کی اہمیت اور اس کے ساتھ اہل ہند کے شغف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

ْ ْہندووں کو مورتوں اور ظاہری علامات سے بے انتہا انس ہے ، ان کا کوئی مذہب کیوں نہ ہو اس کے اعمال کو یہ نہایت اہتمام سے بجالاتے ہیں ، ان کے مندر پرستش کی چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں ، جن میں سب سے مقدم لنگم اور یونی ہیں ، جن سے مراد مادہ خلقت کے دونوں جزو ہیں ، اشوک کے ستونوں کو بھی عام ہندو لنگم خیال کرتے ہیں ، اور اسطوانہ اور مخروطی شکلیں ان کے نزدیک واجب التعظیم ہیں (تمدن ہند ص ۴۴۱ ۲)

بعض مورخین کا بیان ہے کہ ایک مذہبی فرقہ کے مرد برہنہ عورتوں کی اور عورتیں برہنہ مردوں کی پرستش کرتے تھے، (؎ سیتارتھ پرکاش (دیانند سرسوتی) ص۳۴۴) مندروں کے محافظ ومنتظم بداخلاقی کا سرچشمہ تھے ، اور بہت سی عبادت گاہیں اخلاقی جرائم (CORRUPTION) کا مرکز تھیں ، راجاووں کے محل اور بادشاہوں کے دربار میں بے تکلف شراب کا دور چلتا اور سرمستی میں اخلاقی حدود برقرار نہ رہتے ۔

 اس تن پروری ونفس پرستی کے بالکل متوازی نفس کشی ، ریاضت ومجاہدہ (جوگ اور تپسیا) کا سلسہ بھی جاری تھا ، جس میں حد درجہ غلو اور انتہا پسندی سے کام لیا جاتا تھا ، ملک ان دونوں سروں کے درمیان اعتدال وتوازن سے محروم تھا ، چند افراد نفس کشی اور روحانی ترقی میں مصروف تھے ، اور عام آبادی شہوانیت اور نفس پرستی کے دھارے میں بہی چلی جارہی تھی ۔

طبقہ واریت

کسی قوم کی تاریخ میں اس قدر بین طبقہ واری امتیاز اور پیشوں اور زندگی کے مشغلوں کی ایسی نمٹ اور اٹل تقسیم کم دیکھنے میں آئی ہے ، جیسی ہندوستان کے قدیم مذہبی ومعاشرتی قانون میں ہے ، ذات پات کی تفریق ، اور پیشوں کی جکڑ بندیوں کی ابتدا وید کے آخری زمانہ سے شروع ہو جاتی ہے ، آریوں نے اپنی نسل اور اس کی خصوصیات کو مخفوظ رکھنے ، اس ملک میں اپنی فاتحانہ حیثیت قائم رکھنے اور اپنا تفوق وبرتری برقرار رکھنے کے لئے اس طبقہ واری تقسیم اور نسلی امتیاز کو ضروری سمجھا ، ڈاکٹر گستاولی بان لکھتا ہے :

’’ویدی زمانہ کے آخر میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ مختلف پیشے کم وبیش آبائی ہوتے جارہے تھے ، اور ذات کی تقسیم شروع ہو چکی تھی ، اگرچہ تکمیل کو نہیں پہونچی تھی ، ویدی آریوں کو یہ خیال پیدا ہوچکا تھا کہ وہ اپنی پرانی نسل کو اقوام مفتوحہ کے میل جول سے محفوظ رکھیں ، اور جس وقت یہ قلیل التعداد فاتحین مشرق کی طرف بڑھے اور انھوں نے دیسی اقوام کے ایک بہت بڑے گروہ کو فتح کر لیا تو یہ ضرورت اور بھی زیادہ ہوگئی، اور مقننوں کو اس کا لحاظ کرنا لازمی ہوگیا ، نسل کے مسائل کو آریہ سمجھ چکے تھے ، انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ اگر کوئی قلیل التعداد فاتح قوم اپنی پوری حفاظت نہ کرےتو وہ بہت جلد مفتوح اقوام میں کھپ جاتی ہے ،اور اس کا نام ونشان باقی نہیں رہتا۔(؎ تمدن ہند ص۳۱۱)

لیکن اس کو ایک مرتب ومفصل قانون کی شکل دینے کا سہرا منوجی کے سر ہے ، منوجی نے پیدائش سے تین سو (300)برس پہلے (جب ہندوستان میں برہمنی تہذیب عروج پر تھی )ہندوستان سماج کے لئے اس قانون کو مرتب کیا اور تمام اہل ملک نے اس کو بالاتفاق قبول کیا اور اس نے بہت جلد ملکی قانون اور ایک مذہبی دستاویز کی حیثیت اختیار کرلی ، یہ وہی قانون ہے جس کو ہم آج منوشاستر کے نام سے جانتے ہیں ۔

منو شاستر میں چارذاتیں بیان کی گئی ہیں (1)برہمن یعنی مذہبی پیشوا(2)چھتری لڑنے والے (3)ویش زراعت وتجارت پیشہ،اور(4)شودرجن کا کوئی خاص پیشہ نہ تھا ، اور جو دوسری ذاتوں کے صرف خادم تھے ، منوشاستر میں ہے :۔

قادر مطلق نے دنیا کی بہبودی کے لئے اپنے منہ سے اور اپنے بازووں سے اور اپنی رانوں سے اور اپنے پیروں سے برہمن، چھتری، ویش، اور شودر کو پیداکیا ۔(؎ منوشاستر باب اول ص۳۱ )

اس دنیا کی حفاظت کے لئے اس نے ان میں سے ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ فرائض قرار دئے ۔(؎ ایضا ص۸۷)

برہمنوں کے لئے وید کی تعلیم اور خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے دیوتاوں کے چڑھا وے دینا اور دان دینے لینے کا فرض قرار دیا۔(؎ ایضا ص۸۸ )

چھتری کواس نے حکم دیا کہ خلقت کی حفاظت کرے ،دان دے ،چڑھاوے چڑھائے ،وید پڑھے ،اور خواہشات نفسانی میں نہ پڑے ۔ (؎ایضا ص۸۹)

ویش کو اس نے یہ حکم دیا کہ مویشی کی سیوا کرے ،دان دے ،چڑھاوے چڑھائے،

وید پڑھنے ،تجارت لین دین زراعت کرے ‘(منوشاستر باب اوَّل ؃ ۹۰)

’’شورد کے لئے قادرمطلق نے صرف ایک ہی فرض بنایا وہ ان تینوں کی خدمت کرنا ہے (؎۔ایضاً ؃ ۹۱)‘‘

اس قانون نے برہمنوں کو دوسری ذاتوں کے مقابلے میں اتنا امتیاز اور تفوق وتقدس عطاکیا تھا کہ وہ دیوتاوں کے ہمسر بن گئے منو شاستر میں ہے :۔

’’جب کوئی برہمن پیدا ہوتا ہے تو وہ دنیا میں سب سے اعلی مخلوق ہے ،وہ بادشاہ ہے کل مخلوقات کا ،اور اس کا کام ہے شاستر کی خفاظت"  (؎ ایضاً ؃ ۹۹)

’’جو کچھ اس دنیا میں ہے برہمن کا مال ہے چو نکہ وہ خلقت میں سب سے بڑاہے ،کل چیزیں اسی کی ہیں ۔‘‘    (؎ ایضاً ؃ ۱۰۰)

’’برہمن کو ضرورت ہو تو وہ بلا کسی گناہ کے اپنے غلام شودر کا مال بہ جبر لے سکتاہے ،اس غصب سے اس پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا کیوں کہ غلام صاحب جائداد نہیں ہو سکتا، اس کی کل املاک مالک کا مال ہے "-(؎ ایضاً باب ہشتم ؃ ۴۱۷ )

’’جس برہمن کو رگ دیدیا ہے وہ بالکل گناہ سے پاک ہے ،اگر چہ وہ تینوں عالم کو ناس کیوں نہ کردے یا کسی کا بھی کھانا کیوں نہ کھائے ‘‘(؎ ایضاً باب نہم ؃ ۲۶۲)

’’بادشاہ کو کیسی ہی سخت ضرورت ہو اور وہ مرتابھی ہو تو بھی اسے برہمنوں سے محصول نہ لینا چاہئے اور نہ اپنے ملک کے کسی برہمن کو بھو ک سے مرنے دینا چاہئے ‘‘ (؎ ایضاً باب ہفتم ؃ ۱۳۳)

’’سزائے موت کے عوض میں برہمن کا صرف سر مونڈاجائے گا ،لیکن اور ذات کے لوگوں کو سزائے موت دی جائے گی ‘‘ (؎ ایضاً باب ہشتم ؃ ۳۷۹)

اس قانون میں چھتری اگرچہ ویش اور "دس (۱۰) سال کی عمر کا برہمن اور سو (۱۰۰) سال کی 

بد قسمت شودر

باقی رہے اچھوت شودر تو وہ ہندوستانی سماج میں اس شہری و مذہبی قانون کی رو سے جانوروں سے پست درجہ کے اور کتوں سے زیادہ ذلیل تھے۔ منو شاستر میں ہے : "برہمن کی خدمت کرنا شودر کے لئے نہایت شودر کےعمر کا چھتری گویا آپس میں باپ بیٹے کا رشتہ رکھتے ہیں، لیکن ان دونوں میں برہمن باپ ہے۔" ( منو شاستر، باب دوم ص ۱۳۵۔) مقابلہ میں بلند ہیں، لیکن برہمنوں کے مقابلہ میں وہ بھی ہیچ ہیں، منو لکھتے ہیں :قابل تعریف بات ہے، اور اس کے سوا کسی اور چیز سے اسے اور کوئی اجر نہیں مل سکتا۔" ( ایضاً باب دہم، ص ۱۲۹) "شودر کو اگر موقع ملے تو اسے نہیں چاہیے کہ مال و دولت جمع کرے کیونکہ شودر دولت جمع کر کے برہمنوں کو دکھ دیتا ہے۔" ( ایضاً۔)" اگر شودر دوجوں پر ہاتھ یا لکڑی اٹھائے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے گا اور اگر وہ غصہ میں لات مارے تو اس کا پیر کاٹ ڈالا جائے گا۔" ( ایضاً باب ہشتم، ص ۲۸۰۔)"اگرکوئی شودر کسی دوج کے ساتھ ایک ہی جگہ بیٹھنا چاہے تو بادشاہ کو چاہیے کہ اس کے سُرین کو دغوا دے اور اسے ملک بدر کر دے یا اس کے سُرین کو زخمی کرا دے۔" ( ایضاً ص ۲۸۱۔) "اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے۔ اگر اس کا دعویٰ کرے کہ اس کو وہ تعلیم دے سکتا ہے، تو کھولتا ہوا تیل اس کو پلایا جائے۔" ( ایضاً۔)

"کتے، بلی، مینڈک، چھپکلی، کوئے، اُلو اور شودر کے مارنے کا کفارہ برابر ہے۔" ( منو شاستر۔)

ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت

برہمنی زمانہ اور تہذیب میں عورت کا وہ درجہ نہیں رہا تھا، جو ویدی زمانہ میں تھا، منو کے قانون میں (بقول ڈاکٹر لی بان) عورت ہمیشہ کمزور اور بے وفا سمجھی گئی ہے، اور اس کا ذکر ہمیشہ حقارت کے ساتھ آیا ہے۔ ( تمدن ہند ص ۲۳۶)

شوہر مر جاتا تو عورت گویا جیتے جی مر جاتی اور زندگہ درگور ہو جاتی، وہ کبھی دوسری شادی نہ کر سکتی، اس کی قسمت میں طعن و تشنیع اور ذلت و تحقیر کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ بیوہ ہونے کے بعد اپنے متوفی شوہر کے گھر کی لونڈی اور دیوروں کی خادمہ بن کر رہنا پڑتا۔ اکثر بیوائیں اپنے شوہروں کے ساتھ ستی ہو جاتیں۔ ڈاکٹر لی بان لکھتا ہے "بیواؤں کو اپنے شوہروں کی لاش کے ساتھ جلانے کا ذکر منو شاستر میں نہیں ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم ہندوستان میں عام ہو چلی تھی، کیونکہ یونانی مؤرخین نے اس کا ذکر کیا ہے۔" ( ایضاً ص ۲۳۸۔)

غرض یہ سرسبز و شاداب ملک جو فطرت کے خزانوں سے مالا مال تھا، سچے آسمانی مذہب کی تعلیمات سے عرصہ سے محروم ہونے اور مذہب کے مستند ماخذوں کے گم ہو جانے کی وجہ سے قیاسات و تحریفات کا شکار اور رسوم و روایات کا پرستار بنا ہوا تھا، اور اس وقت کی دنیا میں جہالت و توہم پرستی، پست درجہ کی بُت پرستی، نفسانی خواہشات اور طبقہ داری ناانصافی میں پیش پیش تھا، اور دنیا کی اخلاقی و روحانی رہبری کے بجائے خود اندرونی انتشار اور اخلاقی بدنظمی میں مبتلا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

("")- انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ص 48-56