انسانی خودی سے مراد، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

انسانی خودی سے مراد
جب اقبال کہتا ہے کہ خودی انسان میں رونماہوئی ہے تو وہ خودی اسی قول کن کی قوت کو کہتا ہے جو خودی یا زندگی کی تمام صفات جمال و جلال کی حامل ہے۔
یہی قوت روح انسانی ہے جس کے متعلق قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ خدا کا امر یا حکم ہے۔ اقبال کے اس خیال کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھا ہے کہ اقبال حلول کا قائل ہے لیکن دراصل جس طرح سے ایک مصور کی خودی یا شخصیت تصویر میں حلول نہیں کرتی اور اپنی تمام صفات کمال کے ساتھ تصویر میں جلوہ گر ہونے کے باوجود اس سے الگ تھلگ رہتی ہے اس طرح سے خدا کی ذات یا خودی اس کی مخلوق کائنات میں حلول نہیں کرتی بلکہ اپنی تمام صفات کمال کے ساتھ مادی حیوانی اور انسانی کائنات میں جلوہ ریز ہونے کے باوجود اس سے جدا رہتی ہے۔
تخلیقی کائنات کے مراحل
یہاں اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح سے قول کن کی تخلیقی قوت نے برقی لہروں کی حرکت سے کام لیا اور ان کو گرہوں کی شکل دے کر ایسی برقی اکائیاں بنا دیں جو یا تو بے بار تھیں یا مثبت اور منفی باروں(Charges) کی حامل تھیں اور جن کو ہم نیوتران، پروتان اور الکتران کہتے ہیں اور پھر کس طرح سے ان برقی اکاؤں کی باہمی کشش سے کام لے کر اس قوت نے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر جواہر(Atoms) کی شکل دے دی اور پھر کس طرح سے اس نے جواہر کی باہمی کشش کے ذریعہ سے ان کو عناصر کے سالمات(Maecules) کی شکل میں جوڑ دیا اور پھر کس طرح سے مادہ کے دھوئیں یا گیس کا ایک بہت بڑا بادل وجود میں آیا جو اور چھوٹے چھوٹے بادلوں میں بٹ گیا اور پھر کس طرح سے ان بادلوں سے تاروں کے جمگٹھے بن گئے اور سیاروں کے نظام وجود میں آئے جن میں سے ہمارا نظام شمسی ایک ہے۔
طبیعیات کی کتابوں میں اس مادی ارتقاء کی تفصیلات موجود ہیں اگرچہ زمانہ حال کی لادینی طبیعیات کے حکماء اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ اصل قوت جو مادی ارتقاء کے پیچھے کام کر رہی تھی وہ خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کی قوت تھی حاصل یہ ہے کہ خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی بے پناہ قوت مادی نور کو ربوبیت یا ارتقاء کی منزلوں کی طرف برابر آگے دھکیلتی رہی اور وہ برابر ارتقاء کرتا رہا۔ اور اس کا مادی ارتقاء ہمارے کرہ ارض پر اس وقت مکمل ہوا جب مادہ اس قابل ہو گیا کہ زندگی کو جنم دے سکے اور جب وہ اس قابل ہوا تو پہلوا حیوان جو وجود میں آیا وہ ایک خلیہ کا حیوان تھا جسے امیبا کہتے ہیں جس طرح سے کائناتی نور انسان کی اولین مادی صورت تھی امیبا انسان کی اولین حیوانی شکل تھی پھر امیبا خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی قوت سے برابر ارتقاء کرتا رہا۔ یہاں تک کہ مکمل جسم انسانی نمودار ہوا۔ جسم انسانی کے ظہور پذیر ہونے کے بعد انسان کی ساری ترقی اس کی نفسیاتی یا نظریاتی ترقی ہے جو اس کے روحانی اور نظریاتی کمال کا باعث ہو گی۔
خدا کے حسن کی کشش ہر چیز میں ہے
چونکہ خدا کے قول کن اصل خدا کی محبت ہے جو کشش اور جذب ہی کا دوسرا نام ہے لہٰذا ربوبیت کے کام کو جاری رکھنے کے لئے خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی قوت نے ہمیشہ کشش یا جذب کی صورت میں اپنا اظہار کیا ہے۔
طبیعیاتی مرحلہ ارتقاء میں اس کشش نے برقی قوت کے مثبت اور منفی باروں کی باہمی کشش اور تمام مادی قوانین کی شکل اختیار کی حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں ممد حیات اعمال و افعال کی کشش اور تمام حیاتیاتی قوانین کی صورت میں اپنا اظہار کیا اور انسانی مرحلہ ارتقاء میں نصب العین کی محبت کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ اقبال نے جا بجا اس کا ذکر کیا ہے کہ آرزوئے حسن یا عشق ایک جذب یا کشش کی صورت میں دنیا کی ہر چیز کے اندر موجود ہے عشق ہی کی قوت سے مادی، حیاتیاتی اور انسانی سطح ارتقاء پر کائنات کے تمام تخلیقی اور ارتقائی اعمال جاری ہوتے ہیں یہ خدا ہی کی محبت یا آرزوئے حسن ہے یعنی خدا کی وہی آرزوئے حسن جس کا مقصد خدا کا اپنا نصب العین ہے جو انسان میں نمودار ہوئی ہے اور نمودار ہو کر منتہائے حسن یعنی خدا کی طلب گار ہوئی ہے اسی طلب حسن کے ذریعہ سے انسان اپنے حسن کے کمال کو پہنچے گا اور وہ نصب العینی انسان بنے گا جسے خدا پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر خدا کی یہ محبت جس کا حامل خدا کا قول کن ہے کائنات کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے باطن میں نہاں ہو کر آگے نہ جاتی تو انسان میں کیسے نمودار ہو سکتی تھی۔
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں
شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق
دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے، اس کی
کہیں سامان مسرت کہیں ساز غم ہے
کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے
سورج اور چاند کی گردش جس کا بنیادی سبب برق کے مثبت اور منفی باروں کی باہمی کشش ہے لا الہ یعنی خدا کی محبت کے اس سوز ہی سے ممکن ہوئی ہے جو بعد میں انسان کے اندر نمودار ہوا ہے بلکہ یہ سوز پہاڑوں میں اور گھاس کے تنکوں میں اور ہر چیز میں موجود ہے۔
مہر و ماہ گر دوز سوز لا الہ
دیدہ ام ایں سوز را در کوہ و کاہ
خدا کی محبت کے اس سوز اور زور سے ہی جو بعد میں انسان کے اندر نمودار ہوا ہے آسمان گردش کرتا ہے اور کائنات کا تمام کاروبار چلتا ہے یہی سوز محبت آفرینش کائنات کی غرض و غایت ہے۔
نقطہ ادوار عالم لا الہ
انتہائے کار عالم لا الہ
چرخ را از زور او گردنگی
مہر را پائندگی رخشندگی
بحر گوہر آفرید از تاب او
موج در دریا تپید از تاب او
خاک از موج نشیمن گل شود
مشت پر از سوز او بلبل شود
شعلہ در رگہائے تاگ از سوز او
خاک مینا تابناک از سوز او
نغمہ ہایس خفتہ ور ساز وجود
جودیت اے زخمہ ور ساز وجود
قرآن حکیم میں ہے کہ دنیا کی ہر چیز خدا کے حسن کی ستائش کرتی ہے۔
وان من شی الا یسبح بحمدہ
(اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی پاکیزگی کی ستائش نہ کرتی ہو)

اس آیت میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ہر چیز میں خدا کی محبت ہے۔