امت مسلمہ کا امتیاز، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

امت مسلمہ کا امتیاز
مسلمان قوم کا نصب العین خدا کا خالص‘ صحیح اور سچا عقیدہ ہے۔ جو شرک کی تمام آلائشوں سے پاک ہے اور خدا کا اس قسم کا عقیدہ صرف مسلمان قوم ہی کا امتیاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم اب تک زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ خدا کے احکام کا پابند رہے گا وہ لوگ جو ان کو چھوڑ دیں گے یا وہ لوگ جو ان کی مخالفت کریں گے ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت میں ہوں گے۔
لایزال من امتی امہ قائمہ بامراللہ لا یضرھم من خذلھم ولامن خالفھم حتی یاتی امر اللہ علی ذالک(ترمذی)
یہی وجہ ہے کہ ہر شدید حادثہ جو مسلمان قوم کو پیش آیا ان کی ہستی کو مٹانے کی بجائے ان کے لیے رحمت ثابت ہوا اور ان کے لیے مزید قوت کا سامان بن گیا۔ انقلاب زمانہ کے شعلے جب بھی ان کے باغ میں پہنچے تو اس باغ کے لیے بہار بن گئے۔
شعلہ ہائے انقلاب روزگار
چوں بباغ مارسد گرد و بہار
مثلاً غیر تاتاریوں کے حملوں نے مسلمانوں کے لیے جو آتش نمرود جلائی تھی وہ ان کے لیے گلزار بن گئی اور خدا نے ان غیر مسلم حملہ آوروں کو مسلمان بنا کر کعبے کی پاسبانی کے لیے مقرر فرمادیا۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
٭٭٭
آتش تاتاریان گلزار کیست
شعلہ ہائے او گل دستار کیست
آخر اگر تاریخ کے بڑے بڑے حادثات سے رومیوں‘ ساسانیوں اور یونانیوں کی ہستی مٹ گئی ہے تو ان حادثات کے باوجود مسلمانوں کی ہستی کیوں نہیں مٹ سکی۔ وجہ ظاہر ہے کہ مسلمان قوم خود حرکت ارتقا کا مقصود ہے اور ارتقا کے مقاصد کو پورا کرنے والی ہے۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیںہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زمان ہمارا
مسلمان فرد کا کردار
ایک فرد انسانی جو خدا کا صحیح عقیدہ رکھتاہے اور خدا سے سچی محبت رکھتا ہے وہ زندگی اور اس کی اقدار کے متعلق ایک صحیح نقطہ نظر سے بہرہ ور ہو جاتا ہے وہ جو بات سوچتا ہے کہتا ہے اور کرتا ہے اور وہ صحیح ہوتی ہے کیونکہ اس کا منبع یا مصدر صحیح ہوتا ہے۔ وہ ان باتوں کو پسند کرتا ہے جنہیں خد اپسند کرتا ہے ۔ جو درحقیقت نفرت کے قابل ہوتا ہے وہی جان سکتا ہے کہ نیکی سچائی انصاف مساوات اخوت آزادی‘ ترقی ایسی اصلاحات کے صحیح معنی کیا ہیں۔ چونکہ اس کا نصب العین تمام نقائص سے پاک ہوتا ہے اور وہ اس میں کوئی کمی یا نقص نہیں پاتا۔ لہٰذا اس سے مکمل اور مستقل طورپر محبت کر سکتا ہے۔ چونکہ خدا کی عبادت اور اطاعت سے اس کی محبت کا سوز ہر لمحہ ترقی کرتا جاتا ہے اسے یہ محسوس کر کے راحت ہوتی ہے کہ اس کا نصب العین اسے ہر لمحہ پہلے سے زیادہ حسین اور زیادہ دلکش نظر آتا ہے ۔ چونکہ اس کی محبت اس کی فطرت کے مطابق ہوتی ہے اور ااصانی سے کامیاب ہو جاتی ہے۔ محبت کی اس کامیابی سے اسے اطمینان قلب نصیب ہوتاہے اوروہ ہر قسم کی ذہنی بیماریوں اورپریشانیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت ترقی یافتہ اور متحد اور منظم اور طاقت ور اور دلیر ہو جاتی ہے۔
اسلامی ریاست کا کردار
جب اس قسم کے افراد ایک منظم جماعت یا ریاست کی صورت میں متحد ہو تے ہیں جیسا کہ ان کو آخر کار ہونا ہی ہوتا ہے تو وہ زندگی اور ا س کی اقدار کے متعلق اس ریاست کے افراد کی طرح ریاست کا نقطہ نظر بھی درست ہوتا ہے۔ ایسی ریاست اس قابل ہوتی ہے کہ اپنی عملی زندگی میں حسن نیکی اور صداقت کی تمام صفات کا اظہار ان کی پوری ہم آہنگی کے ساتھ مکمل اور مستقل طور پر کرتی ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے یہ صفات ریاست کی عملی زندگی کے مختلف شعبوں یعنی سیاسی‘ اخلاقی‘ اقتصادی قانونی‘ تعلیمی ‘اطلاعاتی‘ علمی اور فوجی شعبوںمیں زیادہ سے زیادہ منعکس ہوتی جاتی ہیں۔ ایسی ریاست میں کوئی اقتصادی‘ مذہبی‘ اخلاقی‘ سماجی اور سیاسی ناہمواریاں نہیں ہو سکتیںَ اس کے افراد آزادی اور مساوات کی نعمتوں سے کود بہر ہ ور ہوتے ہیں اور دوسروں کو مستفید کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ ان تمام قوتوں سے محفوظ ہوتے ہیں جو فر د کی آزادی کے ساتھ مزاحمت کرتی ہیں مثلاً ان کے لیے کوئی ایسے قواننی نہیںہوتے جو ان کو ان کی مرضی کے خلاف کام کرنے کیلیے مجبور کریں ۔ کیونکہ صحیح تعلیم کے ذریعہ سے ان کی مرضیاں صحیح ہو جاتی ہیں اورقانون ان صحیح مرضیوں کے مطابق بنایا جاتاہے پھر اس ریاست میں کوئی تعلیمی یا سماجی اثرات ایسے نہیں ہوتے جو ان کو بالواسطہ اور ان کے جاننے کے بغیر اس بات پر آماد کر یں کہ وہ اپنی کوئی ایسی مرضی پیدا کریں جو ان کی فطرت کی آرزوئے حسن کے خلاف ہو۔ جوں جوں اس کے افراد میں خدا کی عبادت اطاعت اور ستائش کا ذوق بڑھتا جاتا ہے اور ذکر اور فکر اور آیات اللہ یا مظاہر قدرت کے مطالعہ میں ان کا انہماک ترقی کرتا جاتاہے ۔ اپنے نصب العین کے لیے ان کی محبت بھی ترقی کرتی جاتی ہے ۔اور ریاست کا اندرونی اتحاد اور اتفاق بھی بڑھتاجاتا ہے۔ اور اس کی قوت اور جدوجہد کی صلاحیت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے یہ سب اوصاف درجہ کمال تک پہنچ جاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ریاست ایسے افراد کی ایک طاقت ور مملکت بن جاتی ہے جو نہایت ہی خوشحال اور خوش بخت اور مسرور اور مطمئن ہوتے ہیں۔ ان کا عقیدہ توحید ان کی مکمل اور مستقل قوت طاقت اور راحت کا ضامن ہوتا ہے۔
ملتے چوں مے شود توحید مست
قوت و جبروت مے آرد بدمست
فرد از توحید لاہوتی شود
ملت از توحید جبروتی شود
ہر دو از توحید مے گیرد کمال
زندگی این را جلال آن جمال
مستقبل کی عالمگیر ریاست ایک اسلامی ریاست ہو گی
ضروری بات ہے کہ ایسی ریاست بتدریج لیکن یقینی طور پر ایک وفاق یا فیڈریشن کی صورت میں دنیا کے کناروں تک پھیل جائے اور تمام نو ع انسانی پر محیط ہو جائے اور اس طرح سے قوموں کی باہمی کشمکش میں آخری فتح پانے والی اور شورش اقوام کو خاموش کرنے والی ریاست ثابت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے عقیدہ پر مبنی ہو گی جو انسان کی پوری فطرت کا ایک ہی تقاضا ہے۔ جو انسان کو مکمل او رمستقل طور پر مطمئن کر سکتاہے او ر جو تمام اندرونی نقائص اور تضادات سے مبرا ہونے کی وجہ سے پائیدا ر اور لازوال ہے۔ وہ ایسے خارجی اوصاف پر مبنی نہیں ہو گی جو عالمگیر نہ ہو سکیں اوراس کی وسعت کو محدود کر دیں۔مثلاً جغرافیائی حدود ‘ نسل زبان یا رنگ بلکہ وہ ایک ایسے عقیدہ پر مبنی ہو گی جو ہر انسان کے دل میں موجود ہو سکتا ہے۔ اور جسے پوری نسل انسانی اپنانا چاہتی ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ لینے والے سپاہیوں کو موت سے ایسی ہی محبت ہو گی جیسی کہ ریاست کے دشمنوں اور مخالفوں کو زندگی سے لہٰذا ان کی بے نظیر جرات اور حوصلہ مندی ریاست کی حفاظت کی ضمانت ہو گی اورپھر ماضی اور مستقبل کے تمام طبیعیاتی‘ حیاتیاتی اور نفسیاتی حقائق اس کے نصب العین یعنی عقیدہ توحید کی عقلی اور علمی تائید اور حمایت کریں گے جس کی وجہ سے وہ مخالفوں کے دلوں کو کشش کرے گا اور ریاست کی پیہم توسیع کا باعث ہو گا۔
اقبا ل کا سیاسی مسلک
چونکہ خدا کے تصور پر قائم ہونے والی ریاست انسان کے لیے ہر قسم کی برکتوں اور نعمتوں کا باعث ہوتی ہے اور غلط اور ناقص تصور پر قائم ہونے والی ریاست اس کے لیے ہر قسم کی مصیبتوں اور بدبختوں کا سبب بنتی ہے۔ اقبال نے بار بار اس بار پر زور دیا ہے کہ ریاست کسی غلط نصب العین پر نہیں بلکہ خدا کے صحیح نصب العین پر قائم ہونی چاہیے۔ سچا حکمران خدا ہی ہے ۔ اس کے علاوہ جس قدر تصورات ریاستوںکی بنیاد بنائے جاتے ہیں وہ جھوٹے خدائوں یا بتوں کی طرح ہیں جن کی طرف ان کے چاہنے والے خدا کی صفات غلط طور پر منسوب کرتے ہیں تاکہ ان کی ستائش اور پرستش کر سکیں اور ان کی ناپاک چوکھٹ پر اپنی عملی سیاسی زندگی کی تقدیس کو قربان کر سکیں۔
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمران ہے اک وہی باقی بتان آذری
اقبال ’’الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ میں لکھا ہے:

’’ایک سیاسی نظام کے طور پر سلام سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ توحید کے اصول کو نو ع انسانی کی عملی اور جذباتی زندگی کے اندر ایک زندہ قوت بنانے کی عملی تدبیر ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ خدا کی اطاعت کی جائے نہ کہ کسی تخت یا تاج کی اور چونکہ خدا ہی زندگی کی آخری روحانی بنیاد ہے۔ لہٰذا عملی طور پر خدا کی اطاعت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خود اپنی ہی فطرت کے بلند ترین تقاضوں کی اطاعت کرتا ہے‘‘۔