نظریہ وطنیت کے خطرناک نتائج
خاص جغرافیائی حدود کے اندر ایک خاص خطہ زمین یا ملک کے رہنے والے لوگ جن میں بالعموم ملک کے علاوہ زبان نسل اور رنگ کا اشتراک بھی موجود ہوتاہے اور جو اپنے آپ کو ان اوصاف کے اشتراک کی بنا پر دوسروں سے الگ ایک گروہ یا جماعت تصور کرتے ہیں ایک قوم کہلاتے ہیں اور وہ خطہ زمین جس میں وہ رہتے ہیں ان کا وطن کہلاتا ہے۔ ایسے لوگ اگرانبیاء کی ہدایت کو نظر انداز کر نے کی وجہ سے خدا کی معرفت اور محبت سے بے نصیب ہوں تو اپنے ان ظاہری مشترک اوصاف کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اپنی زندگی کے جس مرحلہ پر بھی وہ منظم ہو کر ایک ریاست کی صورت میں آ تے ہیں وہ اپنی ریاست کا نصب العین اپنی قومیت یاوطنیت ہی کے تصور کو بناتے ہیں جس میں وہ خاص نسل اور زبان اور اپنے خاص رنگ اورجغرافیائی امتیازات کو بھی شامل سمجھتے ہیں اس زمانہ میں خدا کی جگہ لینے والے تمام غلط اور ناقص سیاسی نظریات میں سب سے زیادہ رواج پانے والے اور سب سے زیادہ پست اور رجعت پسندانہ اور نوع انسانی کے لیی سب سے زیادہ ضرر رساں نظریات میں سے ایک قومیت یا وطنیت کا نظریہ ہے یہ نوع انسانی بدقسمتی سے کہ اس وقت دنیا کی بیشتر ریاستیں اپنی اپنی وطنیت یا قومیت کے نصب العینوں پر قائم ہیں مثلاً انگریزی قومیت یا وطنیت انگلستانی ریاست کا فرانسیسی قومیت فرانسیسی ریاست کا اطالوی قومیت اطالوی ریاست کا۔ امریکی قومیت امریکی ریاست کا اور ہندوستانی قومیت ہندوستانی ریاست کا نصب العین ہے۔
نظریہ وطنیت کی بنیادیہ عقیدہ ہے کہ جو سب سے پہلے عیسائی مغرب کے نام نہاد مہذب لوگوں نے ایجاد کیا تھا اوراب پوری دنیا میں پھیل گیا ہے کہ سیاست کو مذہب سے الگ رہنا چاہیے۔ اقبال اس دور کا پہلا مفکر ہے جس نے بڑی شدت کے ساتھ نظریہ وطنیت کیب بنیاد رکھی یعنی مذہب اور سیاست کی دوئی کی مخالفت کی ہے اس کے نقصانات کو واضح کیا ہے اور اسکی نامعقولیت کا پردہ چاک کیاہے۔ اقبال نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دوئی کا اصل نوع انسانی کے لیے ایک نہایت خطرناک ہے۔ دوئی ملک اور مذہب دونوں کی ناکامی اور نامرادی کا سبب ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ انسانوں کے قومی اور بین الاقوامی اخلاق کو بگاڑتی ہے اور دوسرے وحدت انسانیت کو پارہ پارہ کر کے تباہ کن بین الاقوامی جنگوں کا باعث بنتی ہے۔ دور حاضر کی عیسائی تہذیب اگر ا س کے خطرناک نتائج سے آگاہ نہیں تو یہ اس کا اندھا پن ہے۔ نوع انسانی کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ روحانیت (جنیدی) اور سلطنت (اردشیری) آپس میں مل جائیں۔
دوئی ملک و دین کے لیے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کا نابصیری
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری
نظریہ وطنیت مروجہ عیسائیت کی پیداوار ہے
عیسائیت کے مزاج کی وجہ سے ضروری تھا کہ مغرب کی عیسائی دنیا آکر کا مذہب کو سیاست سے الگ کر دے۔ عیسائیت نے دنیا کو ترک کرنے رہبانیت اختیار کرنے اور غاروں میںگھس کر خدا کی عبادت کرنے کی تعلیم دی ہے۔ سیاست کے لیے جو بلاشبہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے عیسائیت کے نظریہ انسان کائنات میں یا اس کے بانی کی عملی زندگی میں کوئی راہ نمائی نہیں ملتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ انسانکی پوری زندگی کی راہ نمائی کے لیے اپنی عملی زندگی کو ایک نمونہ کے طورپر پیش کرنے کے لیے آئے تھے بلکہ ان کی تعلیم کا مدعا یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی مذہبی زندگی میں ریاکاری اور نافرمانی کے جو عناصر پیدا ہوگئے تھے وہ ان کی بجائے اخلاص اور یقین کے اوصاف پید اکیے جائیں۔ عیسائیت کے علماء یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کا یہ مشن نہیں تھا کہ وہ اپنی تعلیمات سے کسی قوم کو یا کسی برتر قسم کی قوم کو دنیاوی اور مادی طورپر عظمت سے ہم کنار کریں۔یہی سبب ہے کہ جب لوگوں نے ان کو اپنا بادشاہ بنانا چاہا تو وہ پہاڑ پر چڑھ گئے۔ سیاست اور جنگ کے سمیت انسان کی پوری عملی زندگی کی راہ نمائی کے لیے ایک مثال یا نمونہ پیش کرنا رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تھا جو آپ کے بعد آنے والے تھے۔
مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ
مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ
سیاسی زندگی کی مذہبی قیادت کے متعلق عیسائیت کی خاموشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جدید عیسائی ریاستیں وجود میں آئیں تو وہ اس قابل نہ تھیں کہ ایک سچی عیسائی زندگی کے مذہبی اور سیاسی پہلوئوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مدغم کر سکیں۔ کلیسا اور ریاست کے طویل اور تلخ جھگڑوں کے بعد عیسائی دنیا عیسائیت کی تعلیم اور توقع کے عین مطابق اس نتیجہ پر پہنچنے کے لیے مجبور ہوئی کہ سیاست کومذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا اور لہٰذا دونوں کو ایک دوسرے ؤسے الگ کر دیا گیا۔ اس طرح اپنی اصلی حدود کے اندر سکڑ جانے اور انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ایک ضروری شعبہ کو اپنے آپ سے الگ کر دینے سے عیسائیت نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ترقی یافتہ متمدن دنیا کے لیے قابل عمل نہیں۔ سیاست سے ایک دفعہ الگ ہونے کے بعد عیسائیت اس قابل نہ ہو سکتی تھی کہ وہ قوم کی اجتماعی زندگی کے کسی شعبہ کو بھی اپنے تصرف میں رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مغر ب کی ایک عیسائی ریاست کا وہ نصب العین جو درحقیقت اس کے سارے اعمال و افعال کا محرک ہوتا ہے۔ عیسائیت کا خدا نہیں بلکہ کسی جغرافیائی‘ نسلی یا لسانی وطنیت کا تصورہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کی اخلاقی پابندیوں سے رہا ہونے کے بعد یورپ کی ہر ریاست ایک ایسا دیو مہیب بن گئی ہے جس کے پائوں میں کوئی زنجیر نہیں۔ اور جو اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے ہر طرف لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ عیسائیت کی جن خامیوں کی وجہ سے مغرب کی قومیں مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنے پر مجبور ہوئی ہیں اسلام ان سے مبرا ہے۔ کیونکہ بانی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود ایک ریاست بنائی جو آپؐ کے بعد بھی موجود رہی اور متمدن دنیا پر چھا گئی لہٰذا ہمیں مغربی تہذیب کے اندھا پن سے حصہ لینے کی ضرورت نہیں۔ اقبال نے ان حقائق کو چار شعروں میں بیان کیا ہے۔
کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری
خصومت تھی سلطانی و راہبی میں
کہ یہ سربلندی تھی وہ سر نبریری
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
سیاست لادین کے تقاضے
سیاست جب دین سے جدا ہو جائے تو وہ شیطان کی لونڈی بن جاتی ہے۔ کیونکہ پھر اس کے لیے کوئی اندرونی اخلاقی پابندی یا رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ پھر وہ سوچ ہی نہیںسکتی کہ تہذیب اور شرافت کے دور انسانیت کے تقاضے کیا ہیں کمینگی ا س کی فطرت بن جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے تھوڑے سے مادی فائدہ کے لیے ہر بڑے سے بڑا ظلم روا رکھتی ہے۔ اس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ دوسری قوموں کو لوٹنے مارنے پر اسے ملامت نہیں کرتا۔ جب سے اہل مغرب کی سیاست کلیسا سے الگ ہوئی ہے وہ کمزور قوموں پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے کے لیے آزاد ہے۔
مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لادین
کینز اہرمن و دون نہاد و مردہ ضمیر
ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر
جب وطن ایک ریاست کا نصب العین بنتا ہے تو ہر غلط سیاسی نصب العین کی طر ح وہ بھی ایک جھوٹے معبود یا بت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ جس کی پرستش خدا کی بجائے کی جاتی ہے لیکن چونکہ وطن محض خدا کا پیدا کیا ہوا مٹی اورپتھر کا بنا ایک خطہ زمین ہوتا ہے جس میں خدا کی صفات کی کوئی جھلک بھی موجود نہیں ہوتی۔ لہٰذا وطن پرستوں کو اسے خدا کے مقا م پر کھڑا کرنے کے لیے بڑا تکلف کرنا پڑتاہے۔ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے جھوٹے معبود کو خدا کی صفات حسن و کمال کا مصنوعی اور فرضی لباس اور اپنے ہاتھ سے پہنائیں اور پھر یہ یقین کریں کہ یہ لباس مصنوعی اور فرضی نہیںچنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ معبودان کا خالق بھی ہے اور رب ہے اورکوئی عظمت‘ کوئی زیبائی‘ اور اچھائی ایسی نہیں جو اس میں موجود نہ ہو۔ وہ اسے مادر وطن یا پدر وطن کہتے ہیں۔ اس کے مدحیے لکھتے ہیں۔ اس کے گن گاتے ہیں اس کے جھنڈے کے سامنے بڑی عاجزی اور بڑے احترام سے قیام اور رکوع کرتے ہیں۔ اس کے راہ نمائوں کی تصویروں اور مجسموں اور حنوط کی ہوئی لاشوں کو پوجتے ہیں۔ درسی کتابوں میں اس کی تعریفیں لکھتے ہیں اور سارے نظام تعلیم کی تشکیل اس طرح سے کرتے ہیں کہ طلبا بچپن ہی سے اس کی محبت میں مست و مخمورہو جائیں۔ اس معبود کے پجاری اس کو اپنی ساری زندگی کا مدار و محور بناتے ہیں ان کا ہر کام‘ ان کا چلنا ‘ پھرنا‘ اٹھان بیٹھنا اور جینا اور مرنا اسی معبود کے لیے وقف ہوتا ہے۔ ان کا نظام تعلیم ہی نہیں بلکہ ان کی جماعتی زندگی کا ہر ایک پہلو اس معبود کی ضروریات کے ماتحت تشکیل پاتا ہے گو وہ خدا کو بھی مانتے ہوں اور کسی نہ کسی مذہب سے بھی اپنا تعلق ظاہر کرتے ہوں لیکن خدا یا مذہب سے ان کا تعلق برائے نام اورسطحی ہوتا ہے۔ اور ان کا اصلی معبود ان کا وطن ہی ہوتا ہے ۔ جب کبھی ایسا موقع پیدا ہوجائے کہ ان کا مذہب ان کی وطنیت کے تصور کے ساتھ مزاحمت کررہاہوتا ہے اور مذہب یا خدا اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی اقدار (مثلاً انسانیت‘ نیکی‘ عدل‘ حریت وغیرہ) کے تقاضے ان کے سیاسی تصور کے تقاضوں سے متصادم ہو رہے ہوں تو وہ ہمیشہ خدا او رمذہب اور انسانیت اور نیکی اور عدل اور حریت کے تقاضوں کو لات مارکر اپنے سیاسی تصورکا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان کے لیی اس کی فطرت کے قوانین کی رو سے ناممکن ہے کہ وہ بیک وقت د و نصب العینوں سے محبت کرے اور دونوں کو مساوی اہمیت دے۔ اگر وطنیت پرست لوگ مذہب اور اخلاق کو اہمیت دیں تو وہ قوم پرست نہیں بلکہ خدا پرست ہوں گے ارو اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ ایک وطنیت پرست کا مثلاًایک فرانسیسی عیسائی کا اصلی نصب العین عیسائیت نہیں بلکہ فرانسیسی وطنیت ہے۔ اقبا ل نے ایک تقریر سے دلچسپ راہ نمائی ملتی ہے ’’ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر ‘‘میں اقبال نے کہا تھا:
’’کسی فرانسیسی کے مذہب پر نکتہ چینی کیجیے وہ بہت ہی کم متاثر ہوگا اس لیے کہ آپ کی نکتہ چینی نے اس اصول کو مس نہیں کیا جو اس کی قومیت کی روح رواں ہے لیکن ذرا اس کے تمدن اور اس کے ملک یا پولیٹکل سرگرمیوں کے کسی شعبہ کے متعلق اس کی قوم کے مجموعی طرز عمل یا شعار پر تو خروہ گیری کر دیکھیے۔ پھر اس کی جبلی عصبیت کا شعلہ بھڑک نہ اٹھے تو ہم جانیں۔ بات یہ ہے کہ فرانسیسی کی قومیت کا انحصار اس کے معتقدات مذہبی پر نہیں ہے۔ بلکہ جغرافیائی حدود یعنی اس کے ملک پر ہے پس جب آپ اس خطہ زمین پر جسے اس نے اپنے تخیل میں اپنی قومیت کا اصلی اصول قرار دے رکھا ہے معترض ہوتے ہیں تو آپ اس کی عصبیت کو واجبی طور پر برانگیختہ کرتے ہیں‘‘۔
(مقالات اقبال صفحہ 121,122)
نفرت کا بیج
وطنیت کے نظریہ میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ چونکہ اس کی بنیاد ایک ایسے ملک کی والہانہ محبت پر ہوتی ہے جو خاص جغرافیائی حدود رکھتا ہے اور جس میں ایک خاص زبان بولنے والے ااور ایک خاص نسل اور رنگ اور خاص عادات و رسوم کے لوگ بستے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے اندر باقی ماندہ تمام نوع انسانی کے خلاف ایک مستقل اور خطرناک نفرت پیداکر دیتاہے اگرچہ ہر قوم نفرت کے اس شرم ناک جذبہ کو شیریں الفاظ اور دلکش تصورات اور معصومانہ پند ونصائح اور نیکی‘ عدل صداقت‘ انسانیت‘ شرافت‘آذادی‘ اخوت‘ تہذیب ایسی اخلاقی اقدار کی منافقانہ حمایت کے لباس میں چھپا کر رکھتی ہے۔ لیکن دراصل یہی جذبہ ہے کہ جو وطنیت پرست قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنے اور کمزور اور پسماندہ قوموں پر اپنے حقیر مادی فوائد کے لیے طرح طرح کے ننگ انسانیت کے مظالم ڈھانے پر اکساتارہتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ یہ قومیں جھوٹ ‘ فریب ‘ عیاری ‘مکاری‘ اور بددیانتی کو سیاست کے لیے ضروری عناصر سمجھتی ہیں۔ ان کو قابل اور ہوشیار سیاست دانوں کا فن لطیف اور کمال ہنر شمار کرتی ہے اور سے ڈپلومیسی اور سٹیٹسمین شپ کے بظاہر مہذب ناموں سے تعبیر کرتی ہیں۔ چونکہ وطنیت پرست قوم دوسری قوموں کے خلاف اپنے مفادات کی حفاظت اور اعانت کے لیے ہی زندہ ہوتی ہے وہ مجبور ہوتی ہے کہ اس غرض کے لیے دوسری قوموں کے مفاد کو پامال کرتی رہے۔ وہ نظریہ جس نے کلیسا کے زوال کے بعد مغربی اقوام کو بہت زیادہ متاثر کیا یہی نظریہ وطنیت ہے پھر پہلی جنگ عظیم کے بعد اشتراکیت ؤکے خلاف اپنے آپ کو اور زیادہ محفوظ اور مضبوط کرنے کے لیے جرمنی اور اٹلی میں نازی ازم اور فاشزم ایسے انتہا پسند نظریات کا جامہ اوڑھ لیا۔ جو قوم وطنیت کے نظریہ کو اختیار کر چکی ہو وہ خدا کے عقیدہ سے سرزد ہونے والے صحیح اور عالم گیر ضابطہ اخلاق کی پابند نہیں رہ سکتی۔ اس لیے کہ نظریہ وطنیت کا اپنا ایک ضابطہ اخلاق ہے جس میں ریاست کو فروغ دینے والی ہر ایک بدا خلاقی اور بے ایمانی روا ہے۔ یورپ اس گھٹیا قسم کے ضابطہ اخلاق کا پابند ہونے کے بعد اس کے تابہ کن اثرات سے بچ نہ سکتا تھا اور یہ تباہ کن اثرات اب تک دو ایسی عالمگیر جنگوں کی صورت میں رونما ہوئے ہیں جن میں خونریزی تاریخ میں بے مثال ہے۔ اب یہی ضابطہ اخلاق اس کو تیسری ان سے بھی زیادہ تباہ کن جوہری جنگ کے شعلوں کی طرف دھکیلتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اقبال نے نظریہ وطنیت کی ان خوفناک ممکنات کو جان لیا تھا اور پہلے ہی اہل یورپ کو آنے والی خونریزی سے باخبر کر دیا تھا۔
شفق نہیں مغربی افق پر جوئے خون ہے یہ جوئے خون ہے
طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
عبث توقعات
افسوس ہے کہ نظریہ وطنیت کے بعض کوتاہ اندیش مشرقی مبلغین جو یورپ کی تقلید میں بڑے پر جوش ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ نظریہ وطنیت کے جن ہولناک نتائج کا سامنا یورپ کر چکا ہے اور کر رہا ہے وہ ناگریر نہیں اورایک قومی سیاست دوسری قومی ریاستوں کے ساتھ اچھا برتائو کرنے اور پوری انسانی کے لیے ہمدردی اور خیر سگالی کے جذبات رکھنے کے باوجود ایک قومی ریاست کی حیثیت سے اپنے مفاد کی پوری نگہبانی کر سکتی ہے۔ یہ خیال قطعی طور پر غلط ہے۔ ہر نظریاتی جماعت عمل کے کچھ یقینی رجحانات رکھتی ہے جو اس کے نظریہ کی سرشت کے اندر موجود ہوتے ہیں اور جو اسے ایک خاص طریق پر اور ایک خاص سمت میں عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک خاص نظریہ حیات سے ایک خاص قسم کے عمل کا ظہور اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ یہ ضروری ہے کہ ہر درخت اپنا ہی پھل لائے۔ ایک قومی ریاست کا وجود قومیت ے نظریہ پر مبنی ہوتا ہے اور اس کا کردار اس وقت تک نہیں بدلا جا سکتا جب تک کہ اس کا نظریہ ہی بدل نہ جائے۔ ایک قومی ریاست کے وجود کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ باقی ماندہ نوع بشر سے الگ ایک جماعت ہے اور ہمیشہ اس سے الگ رہے۔ لہٰذا ایسی محبت‘ رواداری‘ ہمدردی اور خیر سگالی جو ان کی اپنی جماعت کی حدود سے نکل کر تمام نوع انسانی کو اپنے احاطہ میں لے لے اس کی سرشت میں موجود نہیں ہوتی۔ جب ایک قومی ریاست خدا کی محبت اور خدا کے خوف کی وجہ سے خود غرضٰ اور خود پروری کو ترک کر کے دوسری ریاستوں کے ساتھ ہمدردی محبت نیکی اور انصاف کا برتائو کرنا اپنا اصول بنا لے گی ۔ تو اسے بسا اوقات اپنے تنگ نظریہ قومی مفاد کو اس اصول کی خاطر قربان کرنا پڑے گا۔ گویا یہ اصول اس کے قومی نظریہ پر حکمران ہو جائے گا۔ ا س کا مطلب یہ ہو گا کہ ریاست کا نظریہ بدل گیا ہے اور وہ ایک وطن پرست ریاست کی بجائے خدا پرست ریاست بن گئی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے نظریہ قومیت کے تقاضوں کی وجہ سے یہ اصول اختیار نہ کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ بدستور ایک قومی ریاست ہے جسے خدا‘ مذہب‘ اخلاق اور انسانی ہمدردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔