تصوف کے متعلق اقبال کا رویہ


تصوف  کے متعلق اقبال کا رویہ


اقبال کے فکر و تاثر پر بحث و تنقید مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا فیصلہ نہ کیا جائے کہ تصوف کے متعلق اقبال کا کیا رویہ تھا۔ اس سے قبل اس کا تعین لازمی ہے کہ تصوف ہے کیا چیز عشق کے لفظ کی طرح یہ لفظ بھی قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اورنہ اس زمانے کے معاصرانہ ادب میں موجو د ہے۔ طلوع اسلام کے دو سو سال بعد تک بھی کوئی صاحب دل دین دار صوفی کہلاتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کسی کے یلے اس سے زیادہ اور کوئی شرف نہ تھا کہ وہ مومن ہو اور لوگ اس کے تقوے اور تزکیہ نفس کو قابل تحسین اور قابل تقلید سمجھیںَ اس کا آج تک کوئی فیصلہہ نہیں ہو سکا کہ صوفی کا لفظ کہاں سے آیا۔ کسی نے اس کو صفا سے مشتق سمجھا اور کسی نے اصحاب صفہ سے اس کا جوڑ ملایا۔ کسی نے کہا کہ یہ یونانی لفظ سوفی سے ماخوذ ہے جس کے معنی عرفان کے ہیںَ لیکن اب مسلم اور غیر مسلم محققین زیادہ تر اس پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ یہ لفظ صوف سے مشتق ہے ۔ درویش خڈا سے لو لگانے والا اور تنعم دنیوی سے گریز کرنے والا زاہد رسول کریمؐ کی طرح کملی والا ہوتا ہے۔ یہ کملی عام طور پر صوف ہی کی ہوتی تھی جو ایک کھردری قسم کی اون کی بافت تھی۔ مسلمانوں میں صوفیہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ وہ طرز فکر و تاثر اور زندگی جسے تصوف کہتے ہیں۔ اسلام میں کہیںخارج سے داخل ہوئی بعض صوفیوں نے اپنے سلسلے کو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے ملایا ہے اور بعض نے ابوبکر صدیقؓ سے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ چیز رسول کریمؐ کے اسوہ حسنہ کا عکس اور اخلاق نبوی کو قلب میں سمونے کا نام ہے۔ بعض نے یہ بھی کہا کہ رسو ل کریمؐ کی غار حرا کی خلوت تصوف یا ولایت ہی کا دور تھا جو نبوت کا پیش خیمہ بن گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو تصوف یا انگریزی زبان میں مسٹیسزم کہتے ہیں وہ دین کے ارتقاء اور اس کی گہرائی میں ہر جگہ پیدا ہوئی ہے۔ ا یک خاص انداز کے تصوف میں ہندو قوم سے زیادہ کسی نے غوطہ زنی نہیں کی اور ہندو دھرم ویدانت اور بدھ مت پر پہنچ کر اور ویدوں سے اپنشدوں کی طرف عروج فکر و عمل میں تصوف ہی تصوف بن گیا۔ اس یک طرفہ روحانیت اور ذات و صفات ہستی واجب الوجود پر غور کرتے ہوئے اس پر احدیت یا ادویت ویدانت نے ایسا تسلط جمایا کہ حیات و کائنات اورتمام ماسوا مایا یا فریب ادراک رہ گئے اور رفتہ رفتہ دیوتا بھی مایا ہی کا ایک جزو بن گئے۔ نفس انسانی کی انفرادیت شرک بن گئی اور یہ سارا سلسلہ ایک حایت گریز تصور میں منتج ہوا۔ عملی زندگی میں خیر و شر کی پیکار کو باطل ہونے سے بچانے کے لیے بھی بعض اہم کوششیں ہوئیں جن میں کرشن مہاراج کی طرف منسوب بھگوت گیتا کے حقائق کو عمل سے ہم آغوش کرنے کی ایک لاجواب کوشش ہے۔ اس کتاب میں وحدت وجود اور توحید کو جہاد عملی اور جہاد نفسی کے ساتھ اس طرح مربوط کیا ہے کہ حیات گریز تصوف کی بہت سی خامیاں اس میں رفع ہو گئی ہیں۔ اس بنا پر علامہ اقبال اس کتاب کے لیے بے حد مداح تھے اور فرماتے تھے کہ ہندو قوم اس کتاب کی وجہ سے ابل مبارک ہے۔
ہر قوم کے تصوف میں بعض میلانات مشترک طور پر پائے جاتے ہیں۔ صوفی اس مادی زندگی کو اگر بالکل باطل اور بے اصل نہ بھی سمجھے اور اسے خدا ہی کی آفرینش اور اس کی مشیت کا مظہر قرار دے تو بھی روحانی زندگی کے مقابلے میں اس کو ہیچ سمجھتا ہے۔ حتی الوسع دام علائق سے رہائی چاہتا ہے۔ جسمانی آرزوئوں کو اقل قلیل حد تک پورا کرتا ہے اور اسے بھی مقصود نہیں بلکہ روحانیت کا ایک ادنی مگر ضروری وسیلہ سمجھتا ہے۔
صوفی میںخدا کا تصور تجسیم و تشبیہ سے پاک ہوتا ہوا کمال تنزیہ تک جا پہنچتا ہے اور خڈا کے صفات تمثیلی باطنی یا اضافی ر ہ جاتے ہیں کیوںکہ اس کی ذات وراء الوراء ہے سبحان اللہ عما یصفون۔ یہاں پہنچ کر توحید کے ڈانڈے وحدت وجود سے جاملتے ہیں اور دونوں میں امتیاز دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔
علماء و فقہا اور عوام کے نزدیک دین رفتہ رفتہ کچھ ظواہر و شعائر میں محصور ہو جاتا ہے تمام توجہ اوامر و نواہی کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ دین ایک کالید بے روح بن جاتاہے۔ اہل دین متشابہات بلکہ محکمات کی متضاد نما تاویلوں میں الجھ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں روح  دین کی حفاظت کے لیی یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف لایا جائے۔ کیا کرنا اور کیا نہ کرنا کے علاوہ بلکہ اس سے زیادہ  اس کی تلقین اہم ہو جاتی ہے کہ انسان کو کیا ہونا چاہیے۔ ظواہر پر منحصر دین اور فقط معاملات کو سلجھانے والی فقہ رفتہ رفتہ ا س جذبے سے عاری ہو جاتی ہے جسے صوفیہ اور علامہ اقبال عشق کہتے ہیں۔ عبادت کا مقصود حصول ثواب رہ جاتاہے۔ جس سے آخرت میں نعمت جنت حاصل ہو اور انسان عذاب دوزخ سے بچ جائے۔ نیکی اور بدی کے اندر جو ذاتی اور نفسی نقد سزا اور جزا مضمر ہے اس کی حقیقت سے دیندار ناآشنا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے صوفی کہلانے والوں میں رابعہؒ کا ذکر ملتا ہے جن کو لوگ مجذوب یا مجنوں سمجھتے تھے۔ ایک روز دیکھاگیا کہ وہ بازار سے گزر رہی ہیں ایک ہاتھ میں کسی ظرف میں پانی ہے اور دوسرے میں کسی ظرف میں کچھ دہکتے ہوئے کوئلے ہیںَ لوگوں نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو اور یہ کیا لیے جاتی ہو؟ رابعہؒ نے جواب دیا کہ اس پانی سے دوزخ کی آگ کو بجھانے اور اس آگ سے جنت کو آگ لگانے جا رہی ہوں تاکہ لوگ اعمال کا مدار عشق الٰہی پر رکھیں اور اس جسمانی عذاب و ثواب کے امید و بیم سے نجات حاصل کریں۔ اسی تصور کو غالب نے ذرا انوکھے انداز میں بیان کیا ہے:
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو
تمام اقوام کے تصوف میں ایک بات مشترک ملتی ہے کہ او ر وہ یہ ہے کہ محسوسات اور معقولات کے علاوہ اور ان سے کہیں زیادہ ادراک حقیقت کے ذرائع اور ہیں جو وجدانی ہیں۔ انسان کے ظاہری حواس کچھ باطنی حوس بھی ہیں جو ہستی کے بعض ایسے پہلوئوں کو منکشف کرتے ہیں جن تک عام عقل و احساس کی رسائی نہیں۔ کشف حقیقت کا سب سے بڑا ذریعہ عشق ہے جو محض تاثر یا جذبہ نہیں بلکہ مصدر بصیرت و معرفت ہے۔ زندگی کا مقصد اسی عشق کو ترقی دیتا ہے کہ جس سے ظاہر و باطن کی خامیاں رفع ہو جاتی ہیں اور اس کی بدولت جو عرفان نفس پیدا ہوتا ہے وہ خود شناسی اور جہاں شناسی کے علاوہ خدا شناسی کی راہیں بھی کشادہ کر دیتا ہے۔ تصوف کوئی طریق استدلال اور محض ایک نظریہ حیات نہیںبلکہ ایک طر ز زندگی ہے۔ جس میں ہر چیز کے متعلق زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے اور زندگی کے رسمی اقتدار کی نئی تقدیر ہوتی ہے۔
ان تمام وجوہ اشتراک کے باوجود مختلف ادیان کے تصورات میں تصوف کا رنگ ایک گونہ جدا جدا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی ملت میں مختلف صوفیا کا رنگ مختلف معلوم ہوتا ہے بعض خدا مست اور مجذوب معلوم ہوتے ہیں بعض خلوت پسند اور ہر قسم کے علائق سے گریز کرنے والے ہیں۔ بعض اپنی روحانیت اور معرفت سے دوسرو ں کو متاثر کرنا اور ان کی زندگیوں میں تزکیہ پیداکرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ بعض کی طبیعتوں پر بقا کے مقابلے میں فنا کا تصور زیادہ حاوی دکھائی دیتا ہے۔ بعض پر گریہ طاری رہتا ہے اور بعض کے اندر ایک ازلی سرور ان کے چہروں پر بھی تبسم آفرین ہوتاہے  بعض اپنے دین کی شریعت پر بھی سختی کے ساتھ پابند ہوتے ہیں اور بعض شریعت کے مقابلے میں طریقت اور معرفت اور عشق کا فضل سمجھتے ہیں اور کہیںدونوں میں تصادم ہو تو وہ شریعت کے ظاہری احکام کی زیادہ پروانہیںکرتے۔ مختلف صوفیہ نے تصوف کی جو تعریفیں کی ہیں وہ بھی اسی وجہ سے مختلف ہیں کہ ان کا طرز فکر اور طرز عمل جدا جدا ہے اور ان کے نفسی احوال میں بھی تفاوت معلوم ہوتا ہے۔
ہمارا اصل موضوع یہ ہے کہ تصوف کے عالم میں اقبال کا کیا مقام ہے اور اقبال کو صوفی کہہ سکتے ہیں یا تصو ف کا مخالف۔ اقبال کا سرسری مطالعہ کرنے والوںنے اس بارے میں عجیب رائیں قائم کر رکھی ہیں۔ اقبال کے تصوف کے موافق یا مخالف ہونے کی بابت بحث اس وقت شروع ہوئی جب انہوںنے اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں حافظ شیرازی ک متعلق بڑی بیباکی سے اشعار لکھ ڈالے ہیں۔ جن میں حافظ کے نظریہ حیات پر سخت اور تلخ تنقید تھی۔ صدیوں سے فارسی پڑھنے والو ں نے حافظ کو صوفیہ کرام میں شمار کر رکھا ہے۔ مسلمان عام طورپر اس کو لسان الغیب کہتے ہیں اور اپنی زندگی کے اہم امو رکے متعلق دیوان حافظ سے فال نکالتے ہیں اس تفاول کے متعلق خاص  و عام کے عجیب و غریب تجربات ہیں کہ کس طرح براہ راست ان کو اپنے سوال کاجواب اور مشکل کشائی کے لیے صحیح مشورہ حاصل ہوا۔ بادشاہ بھی امور سلطنت میں حافظ کی طرف رجوع کرتے ہیں جہانگیرنے اپنی توزک میں لکھا ہے کہ مجھے جب باپ کی وفات کی خبر ملی تو میں پایہ تخت سے کوسوں دور تھا اور پایہ تخت میں تخت شاہنشاہی پر بیٹھنے بٹھانے والے حریف موقع پر موجود تھے۔ بعض مصاحبین نے یہ مشورہ دیا کہ اس وقت آگرے کی طرف رخ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ میں بھی کمال اضطراب اور تذبذب میں تھا۔ فوراً خیال آیا کہ لسان الغیب سے پوچھا جائے اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کیا جائے۔ دیوان کھولا اور فال نکالی سامنے ہی یہ شعر موجود تھا کہ:
بشہر خود رام و شہر یار خود ہاشم
حافظ کے کلام میں اس قدر گونا گونی اورمجاز و حقیقت کی ایسی آمیزش ہے کہ جو پڑحنے والوںکے لیے تو نہایت دلکش اور وجد آفرین ہے لیکن سمجھنے والے اس کو حیرت اور تذبذب میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض شارحین نے اس تمام مجاز کو معرفت و عشق الٰہی بنا دیا ہے اور بعض اس کو لذت پرست عاشق مجازی سمجتھے ہیں۔ بعضوں کے نزدیک اس کی شراب شراب معرفت ہے۔ اور عشق الٰہی کی مے طہور ہے لیکن بعضوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ وہ افشردہ انگورہے اس کا فیصل ادیب اور نقاد قیامت تک نہ کرسکیں گے کیوں کہ خالی مجاز اور خالص حقیقت دونوں کے متعلق ثبوت میں حافظ کے سیکڑوں اشعا ر ہر حریف پیش کر سکتا ہے۔ اقبال نے حافظ پر تنقید محض اس لیے کی ہے کہ اس کے کلام کا آغاز جو طباع پر اثر ہوتا ہے وہ لذت پرستی اور عل سے گریز ہے اس میں سکون پرستی اور قناعت کوشی کی تعلیم ہے۔ اس کے پڑھنے والے انسان کی خودی میں کوئی قوت اور استواری پیدا نہیںہوتی۔ اس کا عشق خلاق اور فعال نہیں ہے۔ اوراقبال کے ہاں عشق کا زیادہ تر یہی مفہوم ہے۔ اقبال خانقاہی تصوف کا مخالف ہے لیکن حافظ کا تصوف تو خانقاہی بھی نہیں اور وہ اقبال کی طرح فقیہ اور خانقاہی صوفی دونوں کا مخالف ہے۔ اگرچہ وجہ اختلاف مختلف ہے۔ بہرحال اقبال اپنی شاعری سے جو انقلاب پیدا کرنا چاہتا تھا اور جس اصلاح کوشی کا طالب تھا وہ بات حافظ میںنہیں ملتی۔ اور جو کچھ وہاں ملتا ہے وہ اقبال کے نظریہ حیات کے خلاف پڑتاہے۔ اقبال خواجہ حافظ کو صوفی نہ سمجھتے تھے۔ مولانا شبلی کا میلان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تصوف کی نہایت گہری اور بلند چیزیں بھی نہایت دلکش اور حکیمانہ انداز میں حافظ میں ملتی ہیں۔ اقبال اس کی یہی وجہ سمجھتے تھے کہ تصوف کے افکار اس زمانے میں عام تھے اور علاوہ ازیں بقول شیخ علی حزیں تصوف برائے شعر گفتن خوب است۔
اس کے باوجود بھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اقبال حافظ سے بالکل متاثر نہ تھے ۔ خود فرماتے تھ کہ بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حافظ کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے۔ اقبال کی فارسی کی اکثر غزلیں ایسی ہیں ک ہان کو دیوان حافظ میں داخل کر دیا جائے تو پڑھنے والے حافظ کے کلام سے ا س کا امتیاز نہ کر سکیں۔
ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ تصوف اور صوفیہ کی بہت سے قسمیں ہیں۔ اقبا ل ایک قسم کے تصوف کے مخالف تھے اور دوسری قسم کا تصوف ان کی شاعری کا بہترین سرمایہ ہے۔ اقبال نہ کسی فقیہ کے مقلد اور معتقد ہوئے اور نہ کسی حکیم  اور فلسفی کے استدلالی فلسفے نے ان کو طمانیت بخشی۔ اسلام کی تمام تاریخ میں سے اقباال نے فقط رومی کو اپنا مرشد قرار دیا مگر رومی نہ فقیہ ہے اور نہ فلسفی۔ اگرچہ اقبال کی طرح فقہ و فلسفہ سے خوب واقف ہے۔ لیکن زیادہ تر عشق ہی کا راگ الاپتا ہے۔
زان طرف کہ عشق می افزاد درد
بو حنیفہ و شافعی درسے نکرد
اقبال کے والد بھی صاحب دل صوفی تھے اور اقبال اپنے باپ کے بھی مرید تھے۔ اور ایک صوفیانہ سلسلے میں بیعت کا بھی  انہوںنے ذکر کیا ہے۔ اقبال کو زندگی کے متعلق ہر اہم سوال کا جواب عارف رومی ہی سے ملتا ہے۔ اور وہ مثنوی کو ہست قرآن در زبان پہلوی سمجھتے ہیں۔ اب کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جلال الدین رومی کو صوفی بلکہ امام صوفیہ نہ سمجھاجائے اور اسے اسلام سے ایک بھٹکا ہوا شخص خیال کیا جائے لیکن اس کیلیے تو مغرب و مشرق میںشاید ہی کوئی صاحب فہم بھی تیار نہ ہو۔ اگرچہ رومی کو کافر سمجھنے والے مناظرہ باز ملا اس زمانے بھی  تھوڑے بہت موجود تھے اور بعدمیں کہیں کہیں ؤابھرتے رہے ہیں۔ شیعیت نے زیادہ تر تصوف سے روگردانی کی ہے میر عبا س شوستری کا یہ شعر مشہور ہے جو اس نے اپنی تعریف اور عارف رومی کی مذمت میں کہاہے:
ایں کلام صوفیان شوم نیست
مثنوی مولوی روم نیست
ایک پنجابی شاعر نے بھی کہاہے  کہ اگر رومی او رجامی کو کافر نہ کہوں تو اور کسی کو کہوں لیکن رومی کے متعلق یہ فتویٰ مسلمان علما و صلحا اور خاص و عام کے نزدیک مبنی بر جہالت ہے۔ اقبال نے کبھی اپنے آ پ کو صوفی نہیںکہا لیکن رومی بھی تو عام طور پر صوفیوں کی ہی مذمت کرتے ہیں۔جس طرح دین کے مدعی ظاہر پرست ملا حامیان شرع متین کہلانے کے باوجود دین کی روح سے بیگانہ تھے اسی طرح جب تصوف کا چرچاہوا اور اہل دل نے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کیا تو دین کے مقلدوں کی طرح تصوف کے مقلد بھی پیدا ہوگئے۔ جو بولی تو صوفیہ ہی کی بولتے تھے اور ظاہری انداز بھی ویسا ہی بنا لیتے تھے۔ لیکن دراصل توہم پرست اوراقتدار پسندتھے اور کشف و کرامات سے مریدوں پر رعب جماتے تھے۔
اس زمانے میں بعض مدعیان اصلاح او رمفسر قرآن ایسے پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے یکسر تمام احادیث نبوی کا دفتر باطل سمجھ کر سوختنی قرار دیا ہے۔ یہ لوگ درحقیقت اصلاح معاشرت کی تجویزوں میں دوسری ملتوں کے نقال ہیں اوراس نقال کو اصل اسلام بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک صوفی کا خلوت گزینی میں محویت ذات الٰہی کی مشق کرتے ہوئے یہ قول مشہورہے کہ بخدا آنچنان مشغولم کہ از رسول خجالتہا دارم تا بہ اولوالامر چہ رسد۔ اسی قول کو ذرا سی تبدیلی کے ساھت ان لوگوں پر منطبق کر سکتے ہیں کہ باقرآں آنچناں مشولم از حدیث خجالتہا ارم تا بہ صوفیہ چہ رسد۔ لطیفہ یہ ہے کہ اسے بعض علامہ اقبال کے اس قدر معتقد ہیں کہ اسے مجتہد العصر اور محی الملکت و الدین کہتے ہیں لیکن اپنی کوتاہ بینی اور کج اندیشی کی وجہ سے اظہار تاسف کرتے ہیں کہ افسوس اقبال جیسا مجدد بچپن اور شباب ہی میں کچھ باپ کی وجہ سے اور کچھ روایتی تصوف کا شکار ہو کر آخر تک رومی جیسے انسان کو اپنا مرشد اور سیر افلاک میں اپنا رہنما سمجھتا رہا۔ ورنہ کہاں علامہ اقبال جیسا بالغ نظر انسان اور کہاں رومی جیسا صوفی جو اسلام اور قرٓن سے ہٹ کر اناپ شناپ باتیں کرتا ہے۔ ایسے نافہموں کو اپنے تضاد فکر کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور اسی لیے اپنی متضاد بیانی سے کچھ شرم بھی نہیں آتی بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ تمام عمر ایسا شدید دھوکا کھانے والا اور زندگی کے ہر مسئلے کو مرشد رومی کے سامنے بغرض حل پیش کرنے والا تمہارے نزدیک واقف رموز قرآن اور ترجمان حقیقت کیسے ہو سکتاہے؟ ان سے سوال کرنا چاہیے کہ اقبال کی گمراہی اور حقیقت ناشناسی کا اس سے زیادہ قوی ثبوت اور یا ہو سکتا ہے کہ تمہارے نزدیک جو تصوف قاطع قرآن ہے اسی کے امام عارف رومی کو اقبال ہر مفسر اور ہر فقیہ سے افضل سمجھتا ہے۔ خود اس سے فیض حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی مریدی کی دعوت دیتا ہے۔ کیا ایسے اقبال کو تصوف کا مخالف کہہ سکتے ہیں۔ وہ تو خدا اوررسول کے عشق کا بہترین حامل سمجھتا ہے۔ رومی کی معتقدی میں اقبال نے بہت کچھ کہا ہے۔ مندرجہ ذیل چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
٭٭٭
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
٭٭٭
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
٭٭٭
صحبت پہ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف
٭٭٭
یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ
یا حیرت فارابی یا تاب و تب رومی
٭٭٭
نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی
بال جبریل میں مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال و جواب زندگی کے اہم مسائل کے متعلق پڑھنے اور غور کرنے کے قابل ہیں۔ مثنوی مولوی معنوی حکمت و عرفان اور عشق کا ایک ایسا بحر زخار ہے کہ دین و دنیا کے متعلق جتنے اہم سوال بھی کسی کے دل میں پیدا ہوں ان کا جواب اس میں کہیں نہ کہیں مل جائے گا یہ ہر تفسیر و تاویل و استدلال سے زیادہ دل نشین اور یقین آفرین ہو گا:
ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحر پر آشوب و پراسرار ہے رومی
٭٭٭
تو بھی ہے اسی قافلہ شوق میں اقبال
جس قافلہ شوق کا سالار ہے رومی
٭٭٭
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
ایں فرو تر رفت و تا گوہر رسید
آں بگردابے چو خس منزل گرفت
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
٭٭٭
عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد
از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی
٭٭٭
مطرب غزلے بیتے از مرشدروم آور
تا غوطہ زند جانم در آتش تبریزے
٭٭٭
بیا کہ من ز خم پیر روم آوردم
مے سخن کہ جواں تر ز بادہ عنبی است
جلال الدین رومی اور جرمنی کے مشہور فلسفی کا مقابلہ کرتے ہوئے اقبال نے جو اشعار پیام مشرق میں لکھے ہیں وہ اس سے بیشتر ایک عنوان کے تحت درج ہو چکے ہیں۔ مغربی فلسفے میں ہیگل کے نظریہ وجود میںمنطقی عقل کا کمال نظر آتا ہے۔ اس نے زندگی کے پیچاک کو سلجھانے کی کوشش میں اس کے تار وجود میں ایسی گرہوں کااضافہ کیا ہے ہ جن کو کھولنے کی کوششوں میں پیشہ ور فلسفی بھی عاجز ہو جاتے ہیں۔ ہیگل کی عقلی کوششوں کی داد دینے کے بعد اقبال  کہتا ہے کہ جب اس کے دریائے تفلسف میں میری عقل کی کشتی ڈوبنے اور ڈگمگانے لگی تو ایک پیر یزدانی خضر آسا مجھے بچانے اور سنبھالنے کے لیے غیب سے نمودار ہوا۔ یہ بزرگ عارف رومی تھے۔ انہوںنے مجھ سے کہا کہ عقلیت کے کس گرداب میں خواہ مخواہ چکر کھا رہے ہو۔ حقیقت ازلی کو عقل کی روشنی سے تلاش کرنا ایساہی ہے جیسا کہ کوئی چراغ لے کر آفتاب کو ڈھونڈنے نکلے۔ تو سراب میں کشتی رانی کر رہا ہے۔ تشنہ لب بھی رہے گا اور تیری کشتی بھی کسی ساحل مراد پر نہ پہنچے گی۔
نگہ شوق تیز تر گردید
چہرہ بنمود پیر یزدانی
آفتابے کہ از تجلی او
افق روم و شام نورانی
شعلہ اش در جہان تیرہ نہاد
بہ بیاباں چراغ رہبانی
معنی از حرف او ہمی روید
صفت لالہ ہائے نعمانی
گفت با من چہ خفتہ برخیز
بہ سرابے سفینہ می رانی؟
بہ خرد راہ عشق می پوئی
بہ چراغ آفتاب می جوئی
اقبال نے جن حکمائے مغرب کو بہت بلند پایہ اور نکتہ رس پایا ہے ان میں س ایک بیگانہ روز گار گوئٹے بھی ہے۔ اپنی شاعری کی ابتدام یں اس ے غالب کو اس کا مثیل قرار دیا تھا:
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے
گوئٹے کے شاہکار فوسٹ کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اقبال نے ہیگل کو تو بو علی اور فارابی و رازی کی طح حقیقت نارس ہی کہاہے لیکن گوئٹے سے وہ اپنی طبیعت کی مماثلت محسوس کرتا ہے اور یہ درست ہے کہ غالب سے کہیں زیادہ اقبال اپنی وسعت وپرواز فکر میں گوئٹے کا مثیل ہے۔ پیام مشرق گوئٹے کے شرقی غربی دیوان کے جواب میں ہی لکھا گیا جلال الدین رومی جو اقبال کا مرشدہے اس کے افکار کی ہم رنگی اقبال کو گوئٹے میں بھی نظر آتی ہے۔ جلال و گوئٹے کی نظم کے تحت میںاقبال نے ایک نوٹ لکھا ہے جو درج ذیل ہے:
’’نکتہ دان المنی سے مراد گوئٹے ہے جس کا ڈرامہ فوسٹ مشہور و معروف ہے اس ڈرامے میں شاعر نے حکیم فوسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کی قدیم روایت کے پیرائے میں انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدراج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کمال فن خیال میں نہیں آ سکتا‘‘۔
گوئٹے کی قدر شناسی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقبال نے اپنے مرشد رومی اور گوئٹے کو ایک جا جنت میں ہم کلام  کر دیا اور رموی کی زبان سے گوئٹے کو رمز شناس عشق ہونے کی سند عطا کی۔ اس ڈرامے میں بھی ابلیس کی زیرکی سے آدم کا عشق برسر پیکار ہے۔ اور آخر کار عشق فتح یاب ہوجاتاہے۔ رومی صدیوں پہلے اس پیکار کا لب لباب اس شعر میں کہ گیاتھا:
داند آں کہ نیک بخت و محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
نکتہ دان المنی را در ارم
صحبتے افتاد با پیر عجم
شاعرے کو ہمچو آں عالی جناب
نیست پیغمبر والے دارد کتاب
خواند بر دانائے اسرار قدیم
قصہ پیمان ابلیس و حکیم
گفت رومی اے سخن را جاں فکار
تو ملک صید استی و یزداں شکار
فکر تو در کنج دل خلوت گزید
ایں جہان کہنہ را باز آفرید
سوز و جاں بہ پیکر دیدہ ای
در صدف تعمیر گوہر دیدہ ای
ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست
ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست
داند آں کو نیک بخت و محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
اقبال گوئٹے سے بھی زیادہ برگساں کا مداح اور اسکے عقل و وجدان کے تقابلی فلسفے سے متاثر تھا۔ اپنا نظریہ حیات اقبال نے برگساں سے حاصل نہیں کیا لیکن اس کا استدلالی استحکام برگساں کے ہاں بہت قومی ہے۔ ظاہر ہے کہ اقبال شعر میں اس قسم کا منظم فلسفہ پیش نہ کر سکتا تھا شاعری میں طر ز بیان اور طرز استدلال منطقی نہیںہوتا۔ اگرچہ منطقی استدلال سے زیادہ دلنشیں اور یقین آفریں ہوتا ہے۔ اقبال نے کہیں برگساں اور رومی کی باہمی موافقت کے متعلق اشعار نہیں کہے۔ لیکن برگساں کے ہاں وجدان حیات عقل کی محدود افادیت اورعشق کی خلاقی اسی انداز سے ملتی ہے جو انداز رومی اور اقبال دونوں کا ہے پیغام برگساں کے اشعار رومی اور اقبال ہی کانظریہ حیات اور ا تصوف کی اساس ہیں جو ان تینوں ہم رنگ پایا جاتا ہے:
تا بر تو آشکار شود راز زندگی
خد را جدا ز شعلہ مثال شرر مکن
بہر نظارہ جز نگہ آشنا میار
در مرز و بوم خود چو غریباں گزر مکن
نقشے کہ بستہ ہمہ اوہام باطل است
عقل بہم رساں کہ ادب خوردہ دل است
بروننگ بائرن غالب اور رومی کے نظریات حیات ایک ایک شعر میں اس طرح بھر دیے ہیں کہ دریا کوزے میں آ گیا ہے۔ روحی میلان جوش حیات اور تعمری خودی بروننگ کے کلام کا امتیازی جوہر ہے۔طالب علمی کے زمانے میں اپنی ایک نظم میں نے کشمیر سے علا مہ اقبال کو بھیجی تھی اسے پڑھ کر علامہ نے مجھے لکھا کہ تخیل پر قابو رکھنا چاہیے تاکہ وہ عنان گسیختہ نہ ہو جائے۔ اوراس کے علاوہ ایک مشورہ بھی دیا تھا کہ بروننگ کو پڑھا کرو۔ بائرن میں وہ چیز نہ تھی جسے روحانیت کہ سکیں۔ اس کا میلان زیادہ تر لذت پرستی اور قوت پرستی کی طرف معلوم ہوتا تھا۔ گوئٹے نے بھی غالباً ایکٹر مین سے باتیں کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ بائرن کے کلام میں قوت کا غیر معمولی مظاہر ہ ہے۔ اس کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ امر تو حقیقی ہے کہ قوت کائنات کی فطرت کا اساسی عنصر ہے۔ اور اسی لیے انسانی طبیعت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ غالب کے ہاں زندگی کی تلخیوں کے باوجود گوارائی حیات موجود ہے۔ بلکہ وہ زندگی میں تلخی کے اضافے کا خواہش مند معلوم ہوتا ہے۔ فارسی میں غالب کی ایک بلند پایہ غزل ہے جس کا مطلع ہے:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم
در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
اس تمام غزل میں ایک ہی موڈیا کیفیت طبع محسوس ہویت ہے۔ بروننگ بائرن اور رومی تینوں اسی زمین میں ایک ایک شعر کہہ کر اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اقبال کا مقصد یہ ہے کہ ان تینوں پر رومی کا تفوق ثابت کیاجائے:
بروننگ
بے پشت بود بادہ سر جوش زندگی
آب از خضر بگیرم و در ساغر افگنم
بائرن(جو روحانی رہنمائوں کا قائل نہیں اور اپنے خون جگر میں سے فیض حاصل کرنا چاہتا ہے)۔
از منت خضر نتواں کرد سینہ داغ
آب از جگر بگیرم و در ساغر افگنم
غالب
تا بادہ تلخ تر شود و سینہ ریش تر
بگدازم آبگینہ و در ساغر افگنم
رومی
آمیزشے کجا گہر پاک او کجا
از تاک بادہ گیرم و در ساغ افگنم
روحانی قوت اور جوش و مستی نہ خضر سے طلب کرو اور نہ اپنے جگر سے اور نہ مے انگور کے ساغر سے جس کی تیزی اور تلخی میں اضافہ بھی کچھ کام نہ آئے گا۔ الوہیت کے تاکستان سے براہ رات انگور توڑو اور اس کا افشردہ پیو
مرشد رومی کی مریدی کے اشعار اقبال کے تمام مجموعوں پر پھیلے ہوئے ہیںَ اور جاوید نامے میں تو شروع سے آخر تک وہی رہبر ہے۔ اقبال کو اپنا نظریہ حیات اورم یلان طبع غیر معمولی بصیرت اور جوش کے ساتھ فقط رومی میں نظر آیا۔ اگر رومی کا نظریہ فکر و عمل اور اس کا عشق تصوف کہلا سکتا ہے تو اقبال کے صوفی ہونے میں کیا شک نہیںہو سکتا ہے؟ اقبال کو رفتہ رفتہ یہ احساس پید اہو گیا تھا کہ اس دور میں میں اس کا خلیفہ ہوں اور مجھے بھی اس کی طر ح دین کی ظاہر پرستی اور فلسفے کی سائنس کی مظاہر پرستی کے خلاف جہاد کرنا ہے اور انسانوں کی زندگی می دوبارہ عشق کوسرچشمہ حیات بنانا ہے۔ جس سے حقیقی بصیرت اور قوت پیدا ہو سکتی ہے اور اگر شرق و غرب دونوں کی تہذیبیں ا س  نظریہ زندگی کی طرف نہ آئین تو دونوں کی خیریت نہیں۔فردو س میں سنائی نے رومی سے کہا کہ مشرق میں درویشی کا سہ آش ہی رہ گئی ہے اورصوفی و فقیر کہلانے والوں میں بھی اس خودی کا احساس نہیں جو خدا سے ہم کنار کرتی ہے۔ حلاج جس نے انا الحق کہ کر خودی کی ماہیت کو حق قرار دیا تھا وہ بھی وہاں موجود تھا۔ وہ بول اتھا کہ مرد قلدنر مشرق میں پیدا ہوا ہے اس نے پھر راز خودی کو فاش کیا ہے اس لیے وہاں تجدید حیات کی امید ہو سکتی ہے:
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہی وہی کاسہ وہی آش
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش
آخر میں رومی کی ملت اسلامیہ کے مرض ضعف کی تشخیص اقبال کی زبانی پیش کر کے ہم رومی کی مرشدی اور اقبال کی مریدی سے رخصت ہوتے ہیں:
رومی
غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک
ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک
ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک
کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک
گستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تو ہے نغمہ رومی سے بے نیاز اب تک
اس انتخاب سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کے ہاں رومی کا تصوف بدرجہ اتم بلکہ بیان کی کچھ مزید لطافتوں کے ساتھ موجود ہے۔ اب ذرا اس پر بھی نظر ڈال لیں کہ اقبال جس تصوف کا مخالف ہے وہ کیا چیز ہے۔
مسلمان صوفیہ کے افکار و تاثرات میں بعض ایسے عناصر داخل ہوگئے جو اسلام کی اصل تعلیم کے اندر سے نہ ابھرے تھے۔ بلکہ ان ادیان اور فلسفوں کے راتستے سے داخل ہوئے تھے کہ جن میںر وحانیت تجریدی ہوتے ہوتے حیات گریز ہو گئی تھی۔ عیسائیت بھی ابتدائی صدیوں میں رہبانیت تھی اور بعد میں عملاً تو نہیں لیکن عقیدہ زندگی اور فطرت کو حقیر غیر اصلی اور شیطانی مظہر سمجھ کر اس سے گریز ہ کی تلقین کرتی رہی ہے۔ فرنگ کی زندگی میں یہی زبردست تضاد موجودہے جو اکثر عیسائیوں کے نفوس کے اندر ابھی تک کشاکش پیدا کر رہا ہے کہ ایک طرف کمال درجے کی مادی ترقی اور لذت پرستی ہے اور دوسری طرف دینی عقائد میں وہی رہبانیت کا رنگ موجو د ہے۔ بعض مستشرقین نے یہ لکھا ہے کہ شروع میں مسلمان صوفی عیسائی راہبوں کی تقلید سے پیدا ہوئے اور وہ بھی عیسائی راہبوں کی طرح یا غار و کوہ میں خلوت نشین ہو گئے یا خانقاہوں میں مشاغل حیات کو ترک کر کے روحانی مشقیں کرنے لگے۔ ہندو مت اور بدھ مت دونوں نے زندگی سے فرار ہی سکھایا ہے اور بھکشو اور سادھو کو جو معاشرت کے کسی کاروبار میں حصہ نہ لے اور نہ تاہل کا کاروبار اپنے کندھوں پر ڈالے دوسرے انسانوں سے افضل سمجھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ درویش کی زندگی انسانوں کانصب العین بن گئی۔ ہندوئوں اور بدھوں میں تو احدیت اور تنزیہ نے اس توحید کو فنا کر دیا جس میں ایک خد ا سے انسان کا شخصی رابطہ ہوتا ہے۔ خواہ وہ عابد و معبود کا رشتہ ہو اور خواہ عاشق و معشوق کا۔ عیسائیت میں اس کے برعکس توحید کے اندر اس وقت تجسیم اور تشبیہہ داخل ہو گئی کہ خداے مجسم سمجھ کر انسان کی پوجا دین بن گئی۔ اس دنیا اور انسانی معاشرت سے اس کو بھی کوئی واسطہ نہ رہا۔ ایک طرفپجاری انسان اور دوسری طرف مجسم خدا رہ گیا۔ دنیا اور اس کے مشاغل تلبیس ابلیس بن گئے ۔ یہاں تک کہ از منہ متوسطہ میں راہبوں نے جسمانی طہارت بھی ترک کر دی کہ جسم کی طرف توجہ کرنے سے روحانیت اور توجہ الی اللہ میں خلل آتا ہے۔ یہ غیر اسلامی عناصر جابجا مسلمانوں کے تصوف کے اندر داخل ہو گئے۔ یہاں نفس کشی اور مشق فنا دین بن گئی۔ انسانی خودی گناہ کبیرہ قرار دی گئی اور وجودک ذنب اس غیر اسلامی تصوف کا مسلمہ عقیدہ بن گیا۔
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
کسی نے کہا کہ منصور کو اس لیے مصلوب کیا گیا ہے کہ وہ حق کے ساتھ انا بھی کہتا ہے  اور حق کے ساتھ انا کا احساس ایک ناقابل معافی اور قابل تعزیر جرم تھا۔
تصوف کی تمام شاعری فلسفیانہ ہونے سے زیاد ہ عشقیہ شاعری ہے لیکن عشق کا رنگ اور اس کا تقاضا مختلف صوفیوں میںمختلف نظر آتا ہے۔ اقبال رومی کے عشق کا قائل ہے مگر اور بہت سے صوفیہ ہیں جن کے عشق می اس کو انسان کی خودی اور تمام فطرت سوخت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کے ہاں خدا کا عشق انسانوں کی محبت کے منافی نہیں بلکہ اس کا بہترین مظہر انسانوں کی باہمی محبت ہے۔ وہ اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی جہاں بانی چاہتا ہے۔ اس کے خلاف بعض صوفیہ کے عشق کا یہ حال ہے کہ خدا کا عشق مجرد اور الگ ہو کر دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے مثلا ابوسعید ابو الخیر فرماتے ہیں:
صحرائے دلم عشق تو شورستاں کرد
تا مہر کسے دگر نہ روید ہر گز
اقبال کے نزدیک ایسا عشق حیات افزاہونے کے بجائے حیات سوز ہے۔ خدا کے عشق کا تو یہ نتیجہ ہونا چاہیے کہ اس کی آفرینش کے ہر پہلو کے ساتھ محبت ہو اور اس کی توسیع و اضافہ کی کوشش کی جائے۔ محویت اور بے خودی عشق کی ایک کیفیت ہے۔ لیکن اگر اس میں احساس خودی بالکل ہی جاتا رہے تو اقبال اس کو درست نہیں سمجھتا۔ وہ تو عشق سے خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ وہ خدا سے اس قسم کی بے خودی کا طالب نہیں ہے کہ انسان اشیاء و اشخاص و حوادث سے بے خبر ہو جائے جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
مستم کن آنچناں کہ ندانم ز بے خودی
در عرصہ خٰال کہ آمد کدام رفت
اقبال تجلیات کے تنوع کا آرزو مند ہے۔ اس میلان کے صوفی اقبال سے بیشتر بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ اقبال کایہ شعر پہلے درج ہو چکا ہے:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
دیکھیے قدیم زمانے کاعارف بھی اس خواہش کو کس خوبصورتی سے پیش کر رہاہے:
اگر او دیدہ دادت کہ دیدارش بہ او بینی
طلب کن دیدہ دیگر کہ دیدار دگر دارد
اگر ہر ساعتے صد بار رخسارش بصد دیدہ
ہمی بینی مشو قانع کہ رخسار دگر دارد
متصوفانہ شاعری میں اکثر اس قسم کے افکار اور اشعار ملتے ہیں جن میں عشق الٰہی کو نین سے گریز کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اقبا ل اس کا قائل نہیں وہ تو کونین کو اپنے دامن میں لینا چاہتا ہے بلکہ دیگر نادیدہ اور وجود ناپذیر برفتہ عالم کی طرف قدم بڑھانا چاہتا ہے۔ ہر صوفی کے نزدیک عشق شہادت کا طالب ضرورہے۔ لیک اس شہادت کا مقصد تسخیر فطرت ہونا چاہیے نہ کہ عالم کو حقیر سمج کر ا س سے گریز۔ اقبال کو کسی صوفی کے یہ اشعار شاید پسند نہ آتے:
دو عالم را بہ یک بار از دل تنگ
بروں کردیم تا جاے تو باشد
دو عالم باختن نیرنگ عشق است
شہادت ابتدائے جنگ عشق است
تذکرۃ الاولیا میں غیر اسلامی تصوف کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک صوفی کے متعلق لکھاہے کہ اس کواپنے بیٹے سے بہت محبت تھی۔ اس کے دل میں یہ خلش پیدا ہوئی کہ کسی دوسرے کی محبت خدا کی محبت کے منافی اور اس میں خلل اندا ز ہے۔ اس لیے اس نے خدا سے دعا مانگی کہ یا رب ا س بیٹے کی محبت کو میرے دل سے نکال دے۔ یہی وہ تجریدی روحانیت اور رہبانیت ہے جس سے بچنے سے اسلام نے تلقین کی تھی۔ لیکن ایسی چیزیں غلط تصوف کے راستے سے مسلمانوں میں داخل ہو گئیں۔
اقبال کو بعض صوفیہ کے تصوف کی اس روش  سے بھی بیزاری تھی کہ اس نے شریعت کے بعض احکام کو اپنے عشق و مستی کے مقابلے میں بہت ثانوی حیثیت دے دی۔ مثلاً اسلام نے جہاد کو اپنی تعلیم کا جزو اعظم قرار ددے دیا ہے کہ اگر اسلا م یا مسلمان کفر کے غلبے سے خطرہ محسوس کریں تو وہ تلوار سے دین کی مدافعت کریں۔ لیکن صوفیہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ شہید عشق غازی سے افضل ہوتا ہے۔ یہ رباعی بھی ابو الخیر کی ہے۔ رباعی نہایت دلکش ہے اور علامہ اقبال فر ماتے ہیں کہ اس دلکشی کی وجہ سے ہی یہ نہایت خطرناک ہے۔ غازی اگر شہید ہو جائے تو وہ کشتہ دشمن ہوتا ہے اورعاشق الٰہی کی شہادت دوست کے ہاتھوں سے واقع ہوتی ہے۔ اس سے استدلال کیا ہے کہ شہید عشق کو جہاد میں شہادت پانے پر بھی فضیلت ہے:
غازی برہ شہادت اندر تگ و پوست
غافل کہ شہید عشق فاضل تر ازوست
در روز قیامت ایں بداں کے ماند
کیں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست
اقبال کا تصوف صحرا نوردی اور غار نشینی کا قائل نہیں۔ یہ سب زندگی سے گریز کے بہانے ہیں۔ عشق قطع علائق کانام نہیں اور قطع علائق پوری طرح ہو بھی کہاں سکتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
کہ کرد قطع تعلق کدام شد آزاد
بریدہ ز ہمہ با خدا گرفتار است
اقبال کا خدا انسان کی خودی کی پرورش چاہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اس کے وصال میں انسانوں سمیت باقی ساری کائنات گم ہوجائے۔ خدا کے وصل کے یہ معنی ہونے چاہئیں کہ اس کے ہر مظہر سے وصال پیدا ہو۔ خدا کی ذات کے ساتھ اس کے عالم صفات بھی ہے۔ اور خلوت ذات کے ساتھ جلوت صٖفات بھی ہے۔ صحرا نوردی میں تو بس ایک طرف عاشق ہو گا اوردوسری طرف خدا کی ذات۔ عاشق کے نفس کی اندرونی پیچ و تاب باقی رہ جائیں گے اور باقی نہ معرفت عالم اور نہ خدمت خلق۔ یہ نہ اسلام ہے اورنہ تقاضائے فطرت۔ عشق کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دل کو بنجر بنا دے۔ یہ سر بصحرا دادن کا تصوف عیسوی اورویدانتی ہے ۔ اسلامی نہیں:
در کوے خودم منزل و ماویٰ دادی
در بزم وصال خود مرا جا دادی
القصہ بصد کرشمہ و ناز مرا
عاشق کردی و سر بصحرا دادی
عشق کی تلقین اور اس کاجوش و خروش ہر صوفی میں پایا جاتاہے۔ لیکن اس کے تقاضے ہر اہل دل کے ہاں مختلف ہیںَ اگر اقبا ل نے بہ تکرار اپنے عشق کی توضیح نہ کی ہوتی اور اس کے تقاضوں کو واضح نہ کیا ہوتا تو اس کی عشقیہ شاعری عام صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری کے سلسلے کی ایک کڑی بن جاتی۔ لیکن روایتی صوفیانہ افکار و نظریات اور اقبال کے تصورات میں بعض پہلوئوں میںایک بین فرق نمایاں ہے۔ اقبال کے خودی کے نظریات کے لیے ہم نے ایک الگ باب باندھا ہے۔ لیکن اس کے خودی کے تصور کو اس کے عشق کے تصور سے الگ کرنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ہاں عشق اور خودی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ خودی کی تعلیم کے بعض اہم پہلو پہلے اکابر صوفیا میں بھی ناپید نہیں۔ لیکن خودی کی حقیقت اور اس کا استحکام ان کے ہاں اقبال کے مقابلے میں ذرا دھیما ہے۔ مثلاً سنائی کے حدیقہ میں سے چند اشعار لیجیے۔ ان میں وہ نفس انسانی کو ایک الٰہی جوہر کہتااہے لیکن جو مثال استعمال کرتا ہے اس میں خدا کے نور مطلق کے مقابلے میں عالم و آدم محض ایک سایہ رہ جاتے ہیں ظاہر ہے کہ سایہ بے مایہ ہوتاہے اور اس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی۔ اقبال کے ہاں خودی ایک سایہ نہیں بلکہ ایک مستقل حقیقت ہے۔ جو عرفان و قوت اندوزی سے ابدی بن جاتی ہے۔ جام جم میں سنائی (کذا) انسانی نفس یا خودی کے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں اس کے ایک حصے سے اقبال متفق ہو سکتے ہیں لیکن دوسرا پہلو ان کے نظریے کے منافی دکھائی دیتاہے:
اصل نزدیک و اصل دور یکے ست
ما ہمہ سایہ ایم و نور یکے ست
اس شعر سے قطع نظر کر کے باقی اشعار ایسے ہیں جو خودی کے بارے میں کلام اقبال کے ہم رنگ ہیں:
چوں نہاد تو آسمانی شد
صورتت سربسر معافی شد
نامہ ایزدی تو سر بستہ
باز کن بند نامہ آہستہ
خویشتن را نمی شناسی قدر
ورنہ بس محتشم کسی اے صدر
صنع را برترین نمونہ توئی
خط بے چون و بے چگونہ توئی
بیش ازیں گر دو حرف می خوانی
ترسمت بر جہی کہ سبحانی
مسلمانوں کے تصوف پر زیادہ تر وحدت وجود کا مسئلہ چھایا ہوا ہے۔ اور اسی نے بادہ تصوف میں نشہ بھی پیدا کیا ہے۔ اقبال نے عشق اور خودی کے نظریات اور کیفیات کو بیان کرتے ہوئے حتی الوسع اس سے گریز ہی کیا ہے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ وحدت وجود دینی مسئلہ نہیںبلکہ فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ اقبال کے بانگ درا کے مجموعے میں کہیں کہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ اثڑ کچھ روایتی تصوف کا تھا اور کچھ فلسفے کا‘ جس کا میلان ہمیشہ زیادہ تر وحدت وجود کی طرف رہا ہے۔ اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد ان کے کیمبرج کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے انہیں لکھا کہ طالب علمی کے زمانے میں تو تم زیادہ تر ہمہ اوستی معلوم ہوتے تھے اب معلوم ہوتاہے کہ ادھر سے ہٹ گئے ہو۔ مسلمانوں کی شاعری کا نہایت دلکش حصہ متصوفانہ شاعری کا ہے۔ اس میں بعض صاحب دل صوفی شاعر بھی ہیں جو ذاتی تاثرات کو ادا کرتے ہیں اور بعض تصوف کے نظریہ حیات سے لذت اندوز ہیں جو مسائل تصوف کو بڑی لطافت سے شعر کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ فیضی و عرفی اور غالب اور صف دوم کے بہت سے شعراء اسی موخر الذکر صف میں ہیں اور وہ خو د محسوس کرتے ہیں کہ ہم محض متلذذ بالمسائل ہیں اور اصلی کیفیت کا نقشہ ہم میں نہیںہے۔
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ذرا دیکھیں کہ اقبال کے ابتدائی کلام میںکہاں کہاں وحدت وجود کا تصور جھلکتا ہے وحدت وجود کا اعلان کرنے والے منصور شہید کو اقبا نے آکر تک گمراہ خیال نہیںکیا بلکہ اس کے انا الحق سے اپنے نظریہ خودی کو استوار کیا۔ بانگ درا کی شمع کی نظم میں جو فلسفیانہ افکار سے لبریز ہے آخر میں کہتے ہیں:
ہاں آشنائے لب نہ ہو راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں
٭٭٭
قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل
التجائے ارنی سرخی افسانہ دل
جگنو پر نظم ہے اس کے آخری بندمیں تمام مظاہر کی کثرت کو ایک ہی وحدت کے شون بتایاہ ہے اور یہ وحدت وجود ہی کا ایک پہلو ہے علامہ اقبال ایک روز دوران گفتگو میں وحدت وجود یک خلاف کچھ فرما رہے تھے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ میں نے عرض کیاجناب بھی تو جگنو والی ن؟ظم میںہمہ اوستی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ وہاں میں نے مظاہر فطرت کی اساسی وحدت کو بیان کیاہے یہ فطرت کی وحدت وجود ہے جو صوفیہ کے ہمہ اوست کے نظریے سے الگ چیز ہے اور غالباً ورڈز ورتھ کا بھی ذکر کیا کہ فطرت کے متعلق اس کی نظر اور تاثر بھی اسی انداز کے ہیں:
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل بو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہے
سوامی رام تیرتھ ایک ہمہ اوستی ویدانتی صوفی تھے۔ ان کی موت دریا میں ڈوبنے سے واقع ہوئی ا س پر علامہ اقبال لکھتے ہیں:
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرہ بیتاب تو
پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو
آہ کھولا اس ادا سے تو نے راز رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو
نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
لا کے دریا میں نہاںموتی ہے الا اللہ کا
٭٭٭
تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے
٭٭٭
کمال وحدت عیاں ہے ایسا نوک نشتر سے تو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
٭٭٭
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں
بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں
اس سے بہتر وحدت وجود پر اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو کائنات کے بعض مظاہر میں سوتاہے اورشعور انسانی میں آ کر بیدارہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وحدت وجود کے بعض متصوفانہ نظریات سے وہ بہت متنفر ہو گئے۔ ایک روز مجھ سے فرمایا کہ ان ہمہ اوستیوں نے فرق مراتب ک وملحوظ نہیں رکھا اور حیات و کائنات کو خدا کا ایک خواب بنا دیا۔ اگر خدا تعالیٰ ازلی نیند سے بیدار ہو جائے توتمام مظاہر غائب ہو جائیں اور انسان بھی معدوم ہو جائیں۔ کسی کا ایک شعرسنایا:
تا تو ہستی خداے در خواب است
تو نہ مانی چو او شود بیدار
کسی دریدہ دہن متصوف کا ایک اور نہایت گستاخ شعر سنایا جس کو درج کرنا میں ابنیا کی توہین سمجھتا ہوں۔ مضمون یہ تھا کہ عاشقان یک رنگ کے نزدیک انبیا اور ابلیس ہم سنگ ہوجاتے ہیں خوف طوالت سے ہم اقبال کے اور اشعار نقل نہیں کرتے جو ابتدائی دور کے ہیں اور جن میں جا بجا روایتی تصوف کے نظریات جھلکتے ہیں۔
وحدت وجود کی شاعری فارسی زبان  میں جس قدرملتی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اسلام کے باہر ادیان اور مذاہب فلسفہ سب نے آخر میں یہیں تان توڑی تھی۔ یہ ناممکن بات تھی کہ ان کوماننے والی ملتوں کے افراد جب حلقہ اسلا م میں داخل ہوئے تو وہ یہ چیز اپنے ساتھ نہ لیتے آتے۔ قرآن میں کچھ آیات ایسی تھیں جن کی وجودی تاویل ہو سکتی تھی۔ چنانچہ وحدت الوجود کے فلاسفہ اور صوفیہ نے انہیں کا سہارا لیا ۔ لیکن ان سے ایسے نتائج اخذ کیے جو مسلمانوں کو اسلامی توحید سے دور لے گئے۔ کائنات کے تمام مظاہر میں علت ع معلول اور اضافات موجود ہیں۔ اگران سب کو باطل سمجھ کر اور محض ظلی قرار دے کر ساقط کر دیا جائے تو خدا کی ذات محبت کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ خالق کی تمام مخلوق بے اصل ہوجاتی ہے۔ صوفیہ نے اسی احدیت معرا عن الصفات و اضافات کو اصل توحید سمجھ لیا ہے اور توحید کی یوں تعریف کی ہے:
نکو گوے نکو گفت است در ذات
کہ التوحید اسقاط الاضافات
اسلامی توحید محض شرک کو باطل قرار دینے کا نام ہے۔ وجودیوں نے کہا کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کے وجود ہی کا اقرا ر بطلان عظیم ہے۔ اس سے نفس انسانی بھی عدم ہو گیا:
صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاق عدیم داریم ما
(بیدل)
قرآن تو شدت سے موجودات کی حقیقت کی تلقین کرتا ہے اگرچہ وہ حقیقت خدا کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ وحدت الوجود کی نسبت المانوی فلسفی شوپن ہار لکھتا ہے کہ یہ دہریت کی شاعری ہے۔ اور امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کہتاہے کہ اس کے اندر خیرو شر کا امتیاز مٹ جاتا ہے اورانسان کو اخلاقی تعطیل حاصل ہو جاتی ہے۔ سحابی کی یہ رباعی اس تعطیل کی معاون معلوم ہوتی ہے:
عالم بخروش لا الٰہ الا ہوست
غافل بگماں کہ دشمن است او یا دوست


دریا بوجود خویش موجے دارد
خس پندارد کہ ایں کشا کش با اوست
خواجہ فرید الدین عطار کے ہاں بھی وحدت وجود کا بڑا زور شور ہے۔ کائنات اور خدا کی وحدت کے ساتھ نفس انسانی اور ذات ربی کی وحدت بھی اکثر صوفیہ کا دین بن گیا اور کفر و دین میں یہ فرق رہ گیا کہ وحدت وجود کو ماننے والا مومن اور نہ ماننے والا کافر۔ چنانچہ خواجہ صاحب فرماتے ہیں:
ہر کہ از وے نزد انا الحق سر
او بود از جماعت کفار
محمود شبستری نخل طور پر تجل الٰہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر درست میں سے یہ آواز نکل سکتی ہے کہ میں رب ہوں تو انسان میں سے اس آواز کا نکلنا ناروا کیسے ہو سکتا ہے:
روا باشد انا الحق از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے
خواجہ صاحب فرماتے ہیں:
گر ہر دو کون موج بر آرند صد ہزار
جملہ یکے ست لیک بہ صد بار آمدہ
ایں وحدت است لیک بتکرار آمدہ
اسی مضمون کو غالب نے، جو بڑی شدت سے وحدت وجود کا قائل تھا، یوں ادا کیا ہے کہ اگر مشعل کو زور سے ایک دائرے میں گھمایا جائے تو وہ ایک مسلسل دائرہ معلوم ہوتا ہے حالانکہ چیز ایک ہی ہے جس نے سرعت سیر سے یہ دھوکا پیدا کیا ہے:
سخن یکے ست ولے در نظر ز سرعت سیر
کند چو شعلہ جوالہ نقطہ پرکاری
اقبال نے اس انداز کی وحدت وجود کو نظری لحاظ سے غلط اور عملی لحاظ سے مضر سمجھا، لہٰذا مسلمانوں کے روائتی تصوف کا ایک بڑا عنصر اقبال کے ترقی یافتہ تفکر و تاثر میں سے غائب ہو گیا۔ وحدت وجود کے اندر نظری لحاظ سے تو عشق کا بھی کوئی مقام نہ ہونا چاہیے تھا، لیکن نفس انسانی کی منطق کچھ الگ قسم کی ہے۔ وحدت وجود کے زور شور کے ساتھ عشق کا زور شور بھی موجود ہے۔ حالانکہ عاشق و معشوق، شاہد و مشہود اور عابد و معبود اگر حقیقت میں ایک ہی ہوں تو نہ پرستش ہو سکتی ہے اور نہ عشق۔ ذوق وصل کے لیے پہلے فرق و فراق مقدم ہے۔
مرزا غالب نے تو صاف کہہ دیا کہ پرستش بھی ایک دھوکا ہی ہے:
دیدہ بیرون و دروں از خویشتن وپر وانگہی
پردۂ رسم پرستش درمیاں انداختہ
یہ تضاد معلوم ہوتا ہے، لیکن ہے حقیقت کہ دو متضاد نما کیفیتیں صوفیہ میں ملتی ہیں:
عشق و اوصاف کردگار یکے ست
عاشق و عشق و حسن یار یکے ست
لیکن اس کے باوجود یہ کیفیت ہے کہ:
از خجالت نمی شکید دل
می برد عقل و می فریبد دل


عاشقان تو پاک بازانند
صید عشق تو شاہ بازانند
(دیکھئے اقبال کا شاہین یہاں نمودار ہو گیا ہے):
عشق شورے در نہاد ما نہاد
جان ما در بوتہ سودا نہاد


گفتگوے در زبان ما فگند
جستجوے در درون ما نہاد
یہ عاشق کون ہے؟ خدا خود ہی ہے:
بر مثال خویشتن حرفے نوشت
نام آن حرف آدم و حوانہاد


ہم بچشم خود جمال خود بدید
تہمتے بر چشم نابینا نہاد
اقبال کو اس روایتی تصوف پر جو اعتراض ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر صوفیہ کو یہ تصوف جبر کی طرف لے آیا۔ جبر و قدر کی بحث متکلمین نے شروع کی تھی اور جبر یہ و قدریہ دو گروہ بن گئے تھے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کے مابہ النزاع مسائل میں سے ایک اختیار انسانی کا مسئلہ تھا۔ا شاعرہ جبری تھے اور معتزلہ قدری۔ قرآن نے زندگی کے دیگر اہم مسائل کی طرح اس میں بھی اعتدال اور توازن عقل سلیم کا راستہ اختیار کیا کہ خدا قادر مطلق ضرور ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ اس کی مشیت کا نتیجہ ہے، لیکن اس کی مشیت عقل و عدل و رحم سے ہم کنا رہے۔ خدا نے اپنی مرضی سے انسان کو ایک گونہ صاحب اختیار بنایا ہے تاکہ وہ جبر سے نہیں بلکہ اپنی آزادانہ رضا سے اپنی مرضی کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر دے۔ لیکن انسان کلیتاً مختار بھی نہیں ہے۔ اس کے اختیار کے بھی کچھ حدود ہیں۔ انسان بیک وقت بعض حیثیتوں سے مختار اور دیگر حیثیتوں سے مجبور ہے۔ ’’الایمان بین الجبر والاختیار‘‘ اگر اختیار کو تسلیم نہ کیا جائے تو دین کی تمام تعمیر ہی منہدم ہو جاتی ہے۔ اقبال کئی وجوہ سے رومی کا مرید ہے، لیکن ایک بڑا سبب یہ ہے کہ صوفیہ کرام میں رومی سے زیادہ کوئی اختیار کا قائل معلوم نہیں ہوتا۔ مثنوی کے اندر اس کی نہایت حکیمانہ بحث ہے، جس میں عارف رومی نے نہایت لطیف نکتے پیدا کیے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ فلاسفہ اور متکلمین جبر و اختیار کے مسئلے میں کتے سے بھی زیادہ جاہل معلوم ہوتے ہیں۔ کتے کو اگر کوئی شخص پتھر مارے تو حالانکہ چوٹ اسے پتھر سے لگی ہے لیکن کتا پتھر پر غضب آلود نہیں ہوتا، وہ پتھر مارنے والے پر جوش انتقام میں جھپٹتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ پتھر بے چارہ تو جماد مجبور ہے اس لیے اس کا کیا قصور ہے۔ قصود اس صاحب اختیار انسان کا ہے جس نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا ہے۔ روایتی تصوف میں جو نفی خودی کا زور و شور ہے اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کو مطلقاً مجبور سمجھا جائے۔ رومی کے سوا تصوف کا تمام لٹریچر زیادہ تر جبر ہی کی تعلیم سے لبریز ہے۔ دیوان حافظ میں بے شمار اشعار اس مضمون کے ملیں گے:
در کوے نیک نامی ما را گذر نہ داند
گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را


حافظ بخود نہ پوشید ایں خرقہ مے آلود
اے شیخ پاک دامن معذر دار مارا
’’ گلشن راز‘‘ تصوف کی ایک مشہور منظم کتاب ہے۔ یہ محمود شبستری کی تصنیف ہے جو وجودی بھی ہے اور جبری بھی اور کسی ضعیف حدیث کے حوالے سے یہ شعر کہہ گیا ہے:
ہر آں کس را کہ مذہب غیر جبر است
نبی فرمود کاں مانند گبر است
فرید الدین عطار نے فرمایا تھا کہ وحدت الوجود کا منکر کافر ہے۔ اب محمود شبستری کہتے ہیں کہ جو جبر کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ تصوف اسلام کی عام تعلیم میں زیادہ تر امام غزالی کی بدولت داخل ہوا، لیکن امام غزالی اپنی تمام حکمت اور عرفان کے باوجود بعض اشعری عقائد سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکے۔ انہوں نے کسب کا ایک غیر تشفی بخش نظریہ ’’ احیاء العلوم‘‘ میں پیش کیا ہے، جو حقیقت میں جبر ہی کا پردہ ہے کہ ہوتا آخر میں سب کچھ خدا ہی کی مرضی سے ہے لیکن اچھے اور برے اعمال جن انسانوں کی زندگی میں سرزد ہوتے ہیں ان کے ثواب و عذاب کا عمل کرنے والوں نے اکتساب کر لیا۔ کیوں کہ ان اعمال کے مرود و محل وہ بن گئے تھے۔ کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس کسب میں اختیار کا کیا شائبہ ہے۔
اقبال نے جس غیر اسلامی تصوف کی بیخ کنی کو اپنا فرض قرار دیا اس کی تعلیم روایتی تصوف میں جا بجا پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے انسان کی خودی بے حقیقت ہو جاتی ہے اور اختیاط مطلقاً سوخت ہو جاتا ہے۔ اس تصوف میں عشق کے اندر کوئی فعالی کیفیت نہیں رہتی۔ وہ سراسر ایک انفعالی تاثر رہ جاتا ہے جس کا مقصد کمالی عجز سے اپنی انفرادیت کو سوخت کر دینا ہے۔ اس تمام تعلیم کا لب لباب بھی یک جا ’’ گلشن راز‘‘ سے زیادہ اور کہیں نہیں ملتا۔ محمد حسین آزاد کا ایک شعر ہے:
جہاز عمر رواں پر سوار بیٹھے ہیں
سوار خاک ہیں بے اختیار بیٹھے ہیں
’’ گلشن راز‘‘ کے مندرجہ ذیل اشعار میں پہلے شعر میں مضمون کچھ اسی کے مماثل ہے:
تو می گوئی مرا ہم اختیار است
تن من مرکب و جانم سوار است


کدامی اختیار اے مرد جاہل
کسے را کو بود بالذات باطل


چو بود تست یکسر ہمچو نابود
نگوئی اختیارات از کجا بود


موثر حق شناس اندر ہمہ جاے
منہ بیرون ز حد خویشتن پاے


چناں کاں پیش یزداں اہرمن گفت
مریں نادان احمق ما و من گفت


بما افعال را نسبت مجازی است
نسب خود در حقیقت لہو و بازی است
آخر میں جو استدلال کیا ہے وہ بالکل مہمل ہے کہ اختیار نہ ہونے پر بھی انسان کو امر و نہی کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس مسکین کو مجبور ہونے پر بھی مختار قرار دیا گیا ہے۔ تکالیف شرعی سے یہ جبری کیسے منکر ہو سکتا تھا؟ اور بقول عارف رومی تکالیف شرعی اختیار کے بغیر مہمل ہو جاتے ہیں لیکن خود شبستری کو اپنی منطق کی لغویت کا کچھ احساس نہیں فرماتے ہیں:
ندارد اختیار و گشتہ مامور
زہے مسکیں کہ شد مختار و مجبور


بہ شرعت زاں سبب تکلیف کردند
کہ از ذات خودت تعریف کردند
اقبال کے پاس زندگی کی تمام بنیادی صداقتوں کی کسوٹی قرآن ہے اور تصوف میں سے بھی اس نے وہی چیزیں اخذ کی ہیں جن میں قرآنی نظریہ حیات کی وسعت اور گہرائی دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کی توحید، توحید قرآنی ہے جو فلسفیانہ اور متصوفانہ وحدت الوجود سے متمائز ہے۔ وہ انسان کو صاحب اختیار ہستی سمجھتا ہے کیوں کہ قرآن اسے اپنے افعال پر ایک گونہ قدرت عطا کرتا ہے۔ اختیار ہی وہی امانت ہے جسے جمادی، نباتی اور حوانی فطرت مجبور نے خطرناک سمجھ رک قبول نہ کیا۔ قرآن دنیا و مافیہا کو مایا فریب ادراک نہیں کہتا وہ ایمان اور عمل سے انسان کی خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ انسان کے اندر عشق الٰہی کو بھی خالق کی طرح آفرید گار ہونا چاہیے۔ اسلام رہبانیت اور خانقاہ نشینی کا مخالف ہے۔ محبت الٰہی کا تقاضہ محض خلوت نہیں بلکہ جلوت بھی ہے۔ اقبال صوفیہ کبار کے ساتھ عقیدت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں اس کو ان کے فکر و نظر کا کوئی پہلو غیر اسلامی اور منافی حیات دکھائی دیتا ہے وہاں وہ بے باکانہ مخالفت بھی کرتا ہے۔ وہ رومی کا مرید بھی ہے لیکن محی الدین ابن عربی کا مخالف ہے، جس کی کتاب ’’ فصوص الحکم‘‘ میں اس کو توحید سے زیادہ الحاد نظر آتا ہے۔ وہ بڑی عقیدت سے مجد دالف ثانی کے تصوف کا قائل ہے جس نے تصوف کو دوبارہ شریعت اسلامی سے ہم آغوش کرنے کی کوشش کی، کیونکہ دور اکبریٰ میں ویدانت اور تصوف کی ہم نوائی اسلام کے بنیادی عقائد کی بیخ کنی کر رہی تھی جس سے اسلام کا نظام متزلزل ہو رہا تھا۔ جس زمانے میں تصوف کا بہت زور شور تھا اس زمانے میں بھی غلط اندیش اور غلط کار صوفیوں کے خلاف خود بلند مرتبہ صوفیہ نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اقبال نے ماضی کے تصوف پر بھی تنقید کی ہے اور زمانہ حال کے پیشہ ور مدعیان طریقت کا بھی پول کھالا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہ نکالنا چاہیے کہ وہ اس کا قائل ہے کہ تصوف نے اسلام کی کچھ خدمت نہیں کی۔ اگر اس کا یہ عقیدہ ہوتا تو وہ جا بجا اپنے کلام میں صوفیہ کبار سے فیضان کا ثبوت نہ دیتا۔ صوفیہ کبار  نے فقہا اور علماء ظاہر کے مقابلے میں عشق اور تزکیہ باطن کی تلقین کی اور اپنی زندگی کے نمونوں سے لوگوں کو متاثر کیا۔ لیکن اب جو زمانہ حال میں صوفی رہ گئے ہیں ان میں معدودے چند کے سوا اقبال کو معرفت و عشق کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ان کے خلاف وہ جو کچھ کہتا ہے وہ تمام تصوف کی تلقیض نہیں بلکہ اس طرز فکر و عمل کی تردید ہے جس نے ادنیٰ درجے کی اقتدار پسندی کو روحانیت کا جامہ پہنا کر عوام کو دھوکے میں مبتلا کیا ہے۔ سچے درویش کبھی کسی زمانے میں دنیا سے ناپید نہیں ہوتے۔ وہ اب بھی کچھ ظاہر ہیں اور کچھ پنہاں۔ لیکن اقبال چاہتا ہے کہ اب اس درویشی کا رنگ بدل جائے۔ درویش صرف خلوت گزیں نہ ہو بلکہ خارجی اور باطنی فطرت کا رمز آشنا اور فکر و نظر میں انقلاب پیدا کرنے والا ہو۔ ایک روز فرماتے تھے کہ مجھے خانقاہ حضرت نظام الدین میں خواجہ حسن نظامی نے ایک صاحب سے متعارف کرایا اور فرمایا کہ یہ صاحب دل درویش ہیں۔ میں نے اس درویش سے پوچھا کہ ملت اسلامیہ کے عروج و زوال اور اس کی موجودہ تباہ حالی پر بھی آپ نے غور کیا۔ا س کے متعلق آپ کی بصیرت کیا کہتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہم درویش ہیں اور اس قسم کی باتوں سے ہم واسطہ نہیں رکھتے۔ یہ کہہ کر فرمانے لگے کہ بتاؤ کہ اس قسم کے تصوف کو ہم کیا کریں۔ علامہ اقبال کو شوق تھا کہ اگر کوئی صاحب کسی صاحب کا دل پتا دیں تو اس سے مل کر کچھ فیض حاصل کیا جائے اور کسی اہم سوال کا حل اس سے پوچھا جائے۔ اہم سوال ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ مسلمانوں کا برا حال کیوں ہے اور اس تباہ حالت سے وہ کب اور کیسے نکلیں گے؟ فقیر نجم الدین صاحب سے علامہ اقبال کے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔ ان کے صاحب زادے نے احوال اقبال میں لکھا ہے کہ علامہ کو یہ خبر دی گئی کہ ایک سچا صاحب بصیرت درویش درگاہ علی ہجویری (داتا گنج بخشؒ ) میں آج کل آیا ہوا ہے۔ فقیر صاحب نے علامہ اقبال کو آمادہ کیا کہ مل کر چلیں گے اور اس سے کچھ پوچھیں گے۔ علامہ اس پر راضی ہو گئے۔ لیکن سوانح نگار کا بیان ہے کہ فقیر نجم الدین علامہ کو ہمراہ لے جانے کے لئے گئے تو دیکھا کہ وہ کچھ حیران سے بیٹھے ہیں۔ پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو علامہ نے فرمایا کہ وہ درویش خود یہاں آ گیا اور مجھ سے کہا کہ تمہارے سوال کا جواب یہ شعر رومی ہے۔ حالانکہ میں نے اس سے کوئی سوال نہ کیا تھا، مگر میرا ارادہ تھا کہ اگر ملوں تو یہ سوال پوچھوں گا:
ہر بناے کہنہ کا باداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند
اقبال اب دریشوں کو خلوت گزینی سے نکالنا چاہتا تھا تاکہ وہ مشاہدہ فطرت بھی کریں اور اصلاح ملت بھیـ:
بیا با شاہد فطرت نظر باز
چرا در گوشہ خلوت گزینی


ترا حق داد چشم پاک بینے
کہ از نورش نگاہے آفرینی
اقبال اس تصوف کو بے اثر سمجھتا ہے جو حق بینی اور عشق آفرینی کے بعد انسانوں کی زندگی میں انقلاب پیدا نہ کرے۔ چنانچہ جاوید نامے میں ’’ زندہ رود‘‘ نے حلاج سے جو سوالات کیے ہیں ان کے جواب میں حلاج نے کہا ہے کہ درویشی جو انقلاب آفریں نہیں ہے وہ کسی کام کی نہیں۔ قلب کے اندر جو حق کا نقش پیدا ہو اسے باہر جہاں پر مرقسم ہونا چاہیے تاکہ مرد خدا کا دیدار عام ہو جائے۔
نقش حق اول بجاں انداختن
باز او را در جہاں انداختن


نقش جاں تا در جہاں گردد تمام
می شود دیار حق دیدار عام

٭٭٭