صحیح اور پائیدار ریاست کی علامت
ریاستیں دو ہی قسم کی ہو سکتی ہیں یا تو کوئی ریاست خدا کے تصور پر مبنی ہو گی یا خدا کے کسی قائم مقام غلط و ناقص تصور پر مبنی ہو گی۔ چونکہ ریاست کے وجود کا باعث ہی خدا کی محبت کا جذبہ ہے جو خودی کی پوری فطرت ہے ظاہر ہے کہ وہی ریاست اپنے فطری مقصد کو پورا کرسکے گی وہی ریاست ارتقا کی منزل مقصودہوگی اور وہی ریاست زندہ اور قائم رہے گی جس کے سارے اعمال و افعال بالارادہ اور علی الاعلان خدا کی محبت کی خاطر خدا کی محبت کے سرچشمہ سے پھوٹیں گے ‘ اور جس کے پیش نظر اپنے اندر اور باہر خدا کی محبت اور اس کے خارجی عملی اظہار کو فروغ دینے کے سوائے کوئی دوسرا مقصد نہ ہو گا اور یا ہو گا تو اس مقصد کے ماتحت اس کے حصول کے ایک ذریعہ کے طورپر ہو گا۔
ریاست کے غلط نظریہ کے نقصانات‘ ناپائیداری
جب کوئی ریاست کسی غلط یا ناقص نصب العین پر مثلا کسی جغرافیائیـ‘لسانی یا نسلی قومیت یا وطنیت پر یا کسی بے خدا غلط فلسفہ پر مبنی ہو جائے تو اس نادانی کے لیے اسے شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ریاست پائیدار نہیںہوتی اور ارتقا کے عوامل اسے زود یا بدیر اپنے پے بہ پے ٹھوکروں سے نیست و نابود کر کے اس پائیدار عالمگیر ریاست کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں جو خدا کے نصب العین پر مبنی ہو گی۔ ایک غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست اس مجرم کی طرح ہے جسے موت کا حکم سنا دیا گیا ہو۔ لیکن حکم کے نافذ ہونے میں ابھی کچھ دن یا مہینے یا سال باقی ہوں۔ ایسی ریاست کئی صدیوں تک بھی زندہ رہے تو اپنی آنے والی نسلوں کی تباہی کو روک نہیں سکتی۔ اس کتاب میں خودی اور عمل تاریخ کے عنوان کے ماتحت بالتفصیل عرض کیا گیا ہے کہ ایک غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست کیوں مٹ جاتی ہے اور اس کے مٹنے کا عمل کون سے مرحلوں سے گزرتا ہے۔
پست اور غلط اخلاقی معیار
چونکہ ایک غلط نصب العین میں خدا کی صفات در حقیقت موجود نہیں ہوتیں اور صرف غلطی سے ا س کی طرف منسوب کی جاتی ہیں لہٰذا جو قوم اس سے محبت کرتی ہے اور اسے اپنی ریاست کی بنیاد بناتی ہے ا س سے دوسرا بڑا نقصان یہ بھگتنا پڑتا ہے کہ وہ زندگی اور اس کی اقدار اور اس کے مقاصد کے متعلق ایک غلط نقطہ نظر اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس کے افراد کی آرزوئے حسن جو صرف خدا کی محبت سے تشفی حاصل کر سکتی ہے ۔ مکمل طور پر مطمئن نہیں ہو سکتی۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ ان کا غلط تصور حسن اس آرزو سے مزاحمت کرتا ہے اور ان کی محبت کو اپنی طرف مبذول کرکے غلط راستہ پر ڈال دیتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسری قوموں کے ساتھ برتائو کرتے وقت سچائی‘ انصاف‘ دیانتداری‘ آزادی ‘ مساوات اخوت نیکی ایسی اخلاقی اقدار کے متعلق اس ریاست کا تصور مضحکہ خیز حد تک غلط ہے‘ جانبدارانہ اور تنگ دلانہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ یہ جاننے سے قاصر رہ جاتی ہے کہ عملی طور پر ان اقدار کے صحیح تقاضے کیا ہیں۔ اپنی بہترین کوششوں اور بہترین نیتوں کے باوجود اس قوم کے افکار و اعمال کی ندی غلط مقاصد کی سمت میں بہ نکلتی ہے۔ وہ ان چیزوں کو ناپسند کرتی ہے جو درحقیقت پسندیدہ اور قابل ستائش ہیں اور ان چیزوں کو پسند کرتی ہے جو درحقیقت ناپسندیدہ اور قابل نفرت ہیں۔
اخلاقی اقدار اور کردار کا منبع فقط ایک ہے اوروہ خدا کی محبت ہے۔ سچی نیکی اور اصلی سچائی وہ پھل اور پھول ہیں جو خدا کی محبت کے درخت پر نمودار ہوتے ہیں۔ اصلی پھل اور پھول ان کے اپنے ہرے بھرے درخت پر ہی مل سکتے ہیں۔ لیکن کاغذ کے بنے ہوئے نقلی پھل اور پھول جو لذت اور خوشبو سے عاری ہیں ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ جو فرد یا جماعت خدا کی سچی محبت سے محروم ہو اس سے اصلی نیکی‘ سچائی یا انصاف کی توقع عبث ہے ہر ضابطہ اخلاق کسی نصب العین سے پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر نصب العین کا قانون اخلاق جدا ہوتا ہے۔ غلط نصب العین سے پیدا ہونے والا قانون اخلاق وہ نہیںہو سکتا جو صحیح نصب العین سے پیدا ہوتا ہے اگرچہ اس کے لیے بھی وہی نام رکھ لیے جائیں اور وہی اصطلاحاات کام میں لائی جائیں۔ ہر غلط نصب العین کی نیکی الگ ہوتی ہے جو اس کی سرشت اور اس کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے ۔ دنیا میں گھٹیا قسم کی نیکی گھٹیا قسم کی سچائی اور گھٹیا قسم کے عدل یا انصاف کی اتنی ہی قسمیں ہیں جتنے کی غلط نصب العین یہی سبب ہے کہ بعض غلط نصب العینوں کو چاہنے والی قومیں ان اقدار کے مفہوم یا معنی پر متفق نہیں ہو سکتیں اور عین اس وقت جب ان میں سے ہر ایک دوسری گے گلے کاٹ رہی ہوتی ہے ہر ایک نہایت دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ یہ یقین رکھتی ہے کہ وہ نیکی انصاف اور سچائی کے لیے ایسا کر رہی ہے صحیح نصب العین ایک ہے لیکن غلط نصب العین بہت سے ہوتے ہیں اور جن میں سے ہر ایک اپنا الگ ضابطہ اخلاق رکھتا ہے اور تمنا رکھتا ہے کہ اسے غیر محدود وسعت اور قوت حاصل ہوتی ہے۔ اور اس کے اخلاقی قانون کو دنیا بھر میں قبول کیا جائے تاکہ جو عظمت ا س کی طرف منسوب کی جا رہی ہے وہ آشکار ہو اور غیروں کو بھی سچ مچ کی ایک حقیقت نظر آئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ غلط نصب العینوںپر قائم ہونے والی ریاستیں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ مخفی یا آشکار طور پر بر سر پیکار رہتی ہیں اور وقت پا کر بڑے پیمانہ پر تباہی لانے والے اسلحہ سے مسلح ہو کر ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں اترتی ہیں اور تباہی اور خونریزی کا بازار گرم کرتی ہیں۔
کمزوروں پر ظلم
چونکہ غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست کسی بلند عالم گیر اخلاقی قانون کی پابند نہیں ہوتی بلکہ اپنا قانون اخلاق فقط اپنے محدود اور تنگ ظرف نصب العین سے اخذ کرتی ہے اس کے نزدیک ہر ایسا فعل درست ہوتا ہے خواہ وہ کیسا ہی مذموم ہو جس سے اس کو کوئی مادی یا اقتصادی فائدہ پہنچتا ہو یا اس کے حلقہ اثر و اقتدار میں کوئی وسعت پیداہوتی ہو۔ لہٰذا وہ کمزور قوموں کے خلاف مخفی یا آشکار طور پر ہر قسم کی جارحانہ کاروائیاں کرنے میں دلیر ہوتی ہے اور ان کو محکوم بنانے اورمحکوم رکھنے کے لیے بلکہ اگر ضرورت ہو تو ان کو نیست و نابود کرنے یا کروانے کے لیے طرح طرح کے مظالم ڈھانا روا رکھتی ہے اور اس غرض کے لیے فوج اور پولیس کی قوت تعمیر کرتی ہے اور دارورسن اور زندان و سلاسل کی سزائوں سے کام لیتی ہے۔ یہ قاہری جس میں عدل کے تقاضوں کو جنہیں خدا دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے نظر انداز کر دیا جاتا ہے‘ کافری سیکم نہیں۔ جب ضابطہ اخلاق یا امرو نہی کا منبع خدا نہیںبلکہ کوء اور نصب العین ہو گا تو اس کا نتیجہ بھی یہی ہو گا۔ کہ طاقتور کمزور پر ظلم روا رکھے گا۔ اس دنیا میں حکومت(آمری) تسلط اور غلبہ(قاہری) کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن حکومت جب خدا کے سوائے کسی اور کی ہو تو وہ کفر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سروری خدا ہی کو زیب دیتی ہے خدا کے بندوں کو زیب نہیں دیتی البتہ خدا کے بندے خدا کے نائب بن کر خدا کی طرف سے حکومت کر سکتے ہیں قرآن میں الملک (بادشاہ) خدا کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اونچی شان والا سچا بادشاہ فقط خدا ہے۔
فتعا لی اللہ الملک الحق (۱۱۴:۲۰)
علاوہ تمام انسانی بادشا ہ فقط بت ہیں جن کو ہم پرستش کے لیے کھڑا کرلیتے ہیں۔
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمران ہے اک وہی باقی بتان آذری‘
غیر حق چون ناہی و امر شود
زور ور بر باتوان قاھر شود
زیر گردوں آمری از قاہری است
آمری از ماسوی اللہ کافری است
اصلی حاکم وہی ہے جو جبر سے کام نہ لے بلکہ لوگوں کی رضامندی سے حکومت کرے۔ قوت کے استعمال سے حکومت کرنا ڈاکوئوں کا کام ہے۔
فوج و زندان و سلاسل رہزنی است
اوست حاکم کز چنیں ساماں غنی است
انتشار اور ضعف
پھر غلط نصب العین کو چاہنے والی قوم کبھی اس سے پوری طرح محبت نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی حسن اور صداقت کی محبت کا فطری جذبہ غلط نصب العین کی محبت سے ٹکراتاہے اوراسے کمال پر پہنچنے نہیں دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غلط نصب العین کو چاہنے والی قوم پوری طرح سے متحد اور منظم نہیں ہو سکتی اور اپنی پوری قوت کے ساتھ نصب العین کے لیے کام نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اپنی ترقی اور خوشحالی کی ممکن انتہائوں تک نہیں پہنچ سکتی۔
غلامی سے رضامندی
کسی غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست کے لیے کبھی ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فرد کی سچی آزادی سے بہرہ ور کر سکے۔ ایسی ریاست کے ماتحت زندگی بسر کرنے والا فرد بظاہر آزاد ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت اپنے غلط نصب العین کا جو اس کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا غلام ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنی تمام غلط تعلیم کی وجہ سے اپنی غلامی سے راضی بھی ہوتا ہے۔ اگر فرد اپنی ایک ہی آرزو یعنی خد ا کی محبت اور اطاعت کی آرزو کی تشفی کرنے کے لیے آزاد نہیں تو اس کی آزادی کا کچھ مطلب نہیں۔ اگر وہ اپنے آپ کے لیے آزاد نہیں تو پھر کس کے لیے آزاد ہے۔ لیکن اس قسم کی ریاست میں ایسی خارجی قوتیں موجود ہوتی ہیں جو فرد کی اس آرزو کو پورا کرنے نہیں دیتیں۔ ایک تو اس میں ایسے قوانین نافذ ہوتے ہیں جو اسے اپنی فطری آرزوئوں کے خلاف کام کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں اور پھر اس میں فرد ایسے تعلیمی اور اخلاقی ماحول سے گھرا ہوا ہوتا ہے جو بتدریج اس کی فطری آرزوئوں کو ہی بدل دیتا ہے۔ جو چیز پہلے اس کی نگاہ میں اچھی ہوتی ہے وہ اسے بری نظر آنے لگتی ہے۔ اور جو چیز پہلے بری ہوتی ہے وہ اسے اچھی نظر آنے لگتی ہے۔
تھا جو ناخوب بتدریج وہ خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
لہٰذا اس کی بصیرت ناقابل اعتماد ہوتی ہے۔
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا
آخرت کا عذاب
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایمان و عمل کی اس دولت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ جو اسے موت کے بعد کی زندگی میں خدا کے عذاب سے بچا کر راحت اور آسودگی سے بہرہ ور کر سکتی ہے۔اور یہ نقصان بھی کتنا بڑا ہے کہ ہم اس کا اندازہ نہیںکر سکتے۔ گویا ایک نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست اس بات کا اہتمام تو کرتی ہے کہ فرد کی زندگی خوشحالی سے گزرے لیکن اس بات کو نہیں جانتی کہ فرد کی زندگی موت پر ختم نہیں ہوتی بلکہ زندگی کا بڑا حصہ موت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اور اس حصہ زندگی کی خوشحالی کا اہتمام یہ تقاضا کرتا ہے کہ فرد کو اس بات کا موقع دیا جائے اور ایسی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی آرزوئے حسن کی پوری پوری تشفی اور شخصیت کی پور ی پوری تکمیل کر کے اس بات کا یقین کر لے کہ وہ موت کے بعد زندہ رہے گا اور اس کے محاسبہ اعمال کا نتیجہ اس کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہو گا۔
اختصار
حاصل یہ ہے کہ اس ریاست کے افراد جو ایک غلط نصب العین پر قائم ہوتی ہو ہر لحاظ سے ناکام اور نامراد رہتے ہیں۔ دنیا میں ان کے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے غلط نصب العین کی پیروی ایک غلط قسم کی اخلاقی زندگی بسرکریں۔ اپنے جھوٹے معبود کے غلط تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کی فریب کاری‘ بددیانتی اور غرض پرستی سے کام لیں۔ ہر قسم کی بدنی اور ذہنی صعوبتیں برداشت کریں۔ بڑی بڑی قربانیاں کریں۔ بڑی بڑی محنتیں اٹھائیں۔ بڑی بڑی کاوشیں مول لیں اور اپنی اولادوں کو اس کی خدمت کے لیے بڑی بڑی تکلیفیں جھیل کر پالیں۔ لیکن اس ساری تگ و دو کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ان کا جھوٹا معبود خود ان سے رخصت ہو جاتا ہے اور ان کو ذلت کی موت مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہاں بات ختم نہیں ہوتی بلکہ جس طرح وہ دنیا میں راہ گم کردہ ہوتے ہیں آخرت میں بھی ہوتے ہیں اور اپنی بداعمالیوں کی سزا بھگت کر رہتے ہیں۔ ایسے لوگو ہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن حکیم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس دنیا کی زندگی میںاندھا ہو کر رہے گا وہ بعد از مرگ زندگی میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ سے اور دور ہو جائے گا۔
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعی واضمل سبیلا (۷۲:۱۷)
اس کے برعکس خدا کا صحیح اور خالص اسلامی عقیدہ چونکہ تمام نقائص اور شرک کے شوائب سے پاک ہوتا ہے وہ ایک نصب العین کی حیثیت سے ناپائیدار نہیںہوتا اور جو قوم اس سے وابستہ ہوتی ہے وہ بھی ناپائیدار نہیں ہوتی۔ قرآن حکیم کاارشاد ہے کہ خدا ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ان کے مضبوط اور پائیدار عقیدہ کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں مضبوطی سے قائم رکھتا ہے۔
یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا فی الاخرۃ( ۲۷:۱۴)
اور پھر یہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص معبود ان باطل کا انکار کرکے خدا پر ایمان لائے گا وہ یقینا ایک ایسے مضبوط حلقے کو تھام لے گا جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔
(ممن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقدا ستمسک بالعروۃ الوثقی لا انفصام لھا ۲۵۶:۲۴) خدا نے توحید کے پاکیزہ تصور کو ایک ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور شاخیں آسمان کو چھو رہی ہوں اور جو خدا کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتارہے۔
(ضرب اللہ مثلا کلمہ طیبہ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء تو فی اکلھا کل حین باذن ربھا ۲۷:۱۴)
اگرچہ ضروری ہے کہ ایسی قوم عارضی عروج پانے والی غلط نصب العینوں کی پرستار جماعتوں کی مخالفت اور چیرہ دستی کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لیے اپنی قوت کی کمی بیشی کے ادوار میں سے گزرتی رہے۔ تاہم وہ گاہ بگاہ سخت مشکل حالات سے دوچر ہونے کے باوجود زندہ رہتی ہے ۔ اور اپنے نصب العین کی اندرونی قوت‘ پاکیزگی اور کاملیت کی وجہ سے اس کی زندگی کبھی خطرہ میں نہیںہوتی۔ اگر اسے ایک مقام پر دبایا یا کمزور کیا جائے تو ہو کسی دوسرے مقام پر ابھرتی اور طاقت ور ہوتی ہے۔ سورج کی طرح کہ ادھر سے ڈوبتا ہے اور ادھر سے نکل آتا ہے:
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
اور آخر کار تمام مشکلات پر عبور پا کر اپنی پوری شان و شوکت کو پہنچتی ہے اور دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی قوم زندہ رہنے کے لیے اور زندہ رہ کر مقاصد ارتقاء کو پورا کرنے کے لیے وجود میں آتی ہے مٹنے کے لیے وجود میں نہیں آتی چونکہ وہ حاصل کائنات ہوتی ہے اور اس کا مٹنا پوری کائنات کے مٹنے کے مترادف ہوتا ہے۔
گرچہ مثل غنچہ دلگیریم‘
گلستان میرو اگر میریم قا