کائنات کی تخلیق کا عمل
کائنات کی تخلیق کی صورت میں بھی تخلیق کے یہی لوازمات اظہار پاتے ہیں۔ خدا کے قول کن کے وقت کائنات اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ خدا کے شعور میں موجود ہو گئی تھی۔ کائنات کی اس ذہنی یا شعوری حالت کو ہی خدا نے کن کا حکم دیا تھا۔ کائنات کی ایسی حالت کو ہی قرآن حکیم نے لوح محفوظ یا ام الکتاب کہا ہے تاہم تخلیق کی صورت میں کائنات کا خارجی ظہور فی الفور نہیں ہوا بلکہ اس نے تدریجی ارتقاء کے ایک عمل کی صورت اختیار کی ہے اور یہ عمل عرصہ دراز سے جاری ہے اور جب تک نوع انسانی اپنی تکمیل کی انتہا کو نہیں پہنچ جاتی برابر جاری رہے گا۔ تخلیق حسن کی جانب خودی کے ارادہ کی حرکت کا نام ہے۔ حرکت تخلیق کی اصل ہے جس کے بغیر تخلیق ممکن ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کی بنیاد حرکت ہے اور پوری کائنات متحرک ہے:
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود
خودی یا زندگی کا راز اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ وہ اپنے مقصود کی طرف اڑنے یعنی نہایت سرعت کے ساتھ حرکت کانے کا ایک ذوق ہے۔
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
جب تک کائنات فقط خدا کے شعور میں تھی وہ زمان و مکان میں نہیں تھی لیکن جب اس نے خارج میں تخلیق کی صورت اختیار کی اور اس کی حرکت وجود میں آئی تو اس حرکت کے ساتھ ہی زمان و مکان بھی وجود میں آ گئے کیونکہ حرکت کے معنی یہ ہیں کہ جو چیز حرکت کر ہی ہے وہ ایک ابتدا سے ایک انتہا کی طرف آگے بڑھ رہی ہے اور لہٰذا ایسا کرتے ہوئے کچھ وقت صرف کر رہی ہے اور کچھ فاصلہ طے کر رہی ہے یعنی اس کی حرکت زمان و مکان میں ہے۔ پھر تخلیق کائنات کی ابتدا کے ساتھ ہی خوب و نا خوب اور زشت و زیبا اور حق و باطل کا امتیاز بھی نمودار ہو گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ وہ حسن کو ضد حسن سے ممیز کرتی ہے اور جب حسن کے کسی تصور سے محبت کرتی ہے تو اس کی ضد سے بیزار ہوتی ہے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب سے قرب تلاش کیا جائے اور بیزاری کا تقاضا یہ ہے کہ محبت کی خاطر مرجع بیزاری کو دور کیا جائے اور برباد کیا جائے چونکہ خودی سراسر محبت ہے اس کی تمام صفات فقط اس کی محبت کی خدمت اور اعانت کے لئے اور محبت کے مقاصد کی تحصیل اور تکمیل کے لئے اظہار پاتی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خودی کی جملہ صفات اس کی مرکزی صفت محبت کے تقاضے یا شوؤں یا کوائف ہیں اور ان صفات کی شکل میں خود محبت ہی اپنی مختلف حالتوں اور موقعوں کا اظہار کرتی ہے۔
خدا کی تخلیق میں صفات جمال و جلال کی کار فرمائی
تاہم کائناتی خودی کی بعض صفات ایسی ہیں کہ وہ براہ راست اور بلا واسطہ محبت کی خدمت اور اعانت کرتی ہیں۔ مثلاً رب، حافظ، حفیظ، وکیل، رحمن، رحیم، مومن، مہیمن، غفار، وہاب، رزاق، باسط، رافع، رقیت، معز، فتاح وغیرہ ایسی صفات کو صفات جمال کہا جاتا ہے اور بعض صفات ایسی ہیں کہ وہ بالواسطہ یعنی محبت کے راستہ کی رکاوٹوں کو دور کر کے محبت کی خدمت اور اعانت کرتی ہیں مثلاً قہار، مذل، منتقم، مانع، ضار وغیرہ ایسی صفات کو صفات جلال کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ اگر اس کی صفات جمال اپنے اظہار کے لئے کسی ایسے تصور حسن کا تقاضا کرتی ہیں جس کی تحصیل اور تکمیل کے لئے وہ اپنی تخلیقی اور تربیتی کارروائی کرے تو اس کی صفات جلال اپنے اظہار کے لئے ایسے ضد حسن تصورات کا تقاضا کرتی ہیں جنہیں وہ اپنے آپ کا مخالف اور غیر سمجھے اور اپنے تصور حسن کی تخلیق اور تکمیل کی خاطر اپنے راستہ سے ہٹائے اور برباد کرے۔
لہٰذا وہ حسن کے ساتھ ضد حسن بھی پیدا کرتی ہے اور ضد حسن سے اس کی بیزاری محبت حسن کے تابع رہتی ہے۔ کائنات کی تخلیق کے اندر قدم قدم پر جدوجہد اور کش مکش اور پیکار کا باعث یہی حقیقت ہے اقبال اس حقیقت کا ذکر اس طرح سے کرتا ہے:
ساز داز خود پیکر اغیار را
تا فزاید لذت پیکار را
مے شود از بہر اغراض عمل
عامل و معمول و اسباب و علل
انسان کی تخلیق میں صفات جلال و جمال کا عمل
اگر ہم اپنے آپ پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے جب ہم کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے بہت سے امکانات ہمارے ذہن میں آتے ہیں لیکن جب ہم فی الواقع وہ کام کرنے لگتے ہیں تو ہم صرف ایک امکان کو جو ہمارے مقصود سے در حقیقت مطابقت رکھتا ہے خوب اور حق اور زیبا سمجھ کر چن لیتے ہیں اور باقی تمام امکانات کو جو دراصل خوب اور ناخوب اور حق اور باطل اور زشت اور زیبا کا ممزوح یا مرکب ہوتے ہیں نا خوب اور باطل اور زشت سمجھ کر رد کردیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مقصود سے پوری پوری مطابقت نہیں رکھتے جو امکان حق اور خوب اور زیبا ہوتا ہے وہ صرف ایک ہی ہوتا ہے لیکن باطل اور ناخوب اور زشت امکانات جو حق و باطل کی شرکت سے بنتے ہیں بہت سے ہوتے ہیں۔
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول