خدا اپنے محبوب کی جستجو میں ہے، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خدا اپنے محبوب کی جستجو میں ہے
کائنات کی ہر چیز بتا رہی ہے کہ خدا کا ایک محبوب ہے جو اس سے بچھڑا ہوا ہے اور جسے وہ اپنی مسلسل تخلیقی فعلیت کے ذریعہ سے تلاش کر رہا ہے خدا کی محبت کبھی لالہ کی خوبصورت پتیوں پر اپنا پیغام لکھتی ہے کبھی پرندوں کے سینوں سے نکلنے والی درد ناک ہاؤ ہو میں ظاہر ہوتی ہے کبھی نرگس کے پھول میں آ نکلتی ہے گویا کہ چاہتی ہے کہ نرگس کی آنکھ سے اپنے محبوب یعنی مستقبل کی کامل نوع بشر کا مشاہدہ کرے اور حسینوں کے کرشمے کیا ہیں گویا خدا ان کی حسین آنکھوں سے اپنی محبت کا پیغام سنا رہا ہے۔ زمان و مکان کیا ہیں گویا ہمارے فراق میں خدا کی ایک محبت بھری آہ ہے جس نے زمان و مکان کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک حسین و جمیل پیکر خاکی کے حسن کا دیدار کرنے کے لئے خدا نے پوری کائنات کا ہنگامہ برپا کیا ہے یہ تماشائے رنگ و محبوب کے نظارہ کے لئے ایک بہانہ ہے خدا اپنی محبت کی وجہ سے کائنات کے ذرہ ذرہ میں پوشیدہ ہے اور لہٰذا ہم سے نا آشنا ہے اس کے باوجود وہ ماہتاب کی طرح آشکار ہے اور اسی طرح کاخ و کو کی آغوش میں چمک رہا ہے۔ عرض زندگی کا ایک گوہر تابدار ہماری اس خاکی کائنات میں گم ہے کیا وہ خدا ہے جسے ہم تلاش کر رہے ہیں یا ہم ہیں جنہیں خدا تلاش کر رہا ہے بات ایک ہی ہے۔ یہ گوہر تابدار ہم ہوں یا خدا جب ایک ملے گا تو دوسرا بھی ساتھ ہی مل جائے گا۔
ماز از خدائے گم شدہ ایم و بحستجوست
چوں ما نیاز مند و گرفتار آرز است
گاہے بہ برگ لالہ نوسید پیام خویش
گاہے درون سینہ مرغان بہ ہاؤ ہوست
و نرگس آرمید کہ بیند جمال ما
چنداں کرشمہ دان کہ نگاہش بہ گفتگوست
آہے سحر گہی کہ زند در فراق ما
بیرون و اندروں زبر و زیر چار سو ست
ہنگامہ بست از پئے دیدار خاکئے
نظارہ اور بہانہ تماشائے رنگ و بوست
پنہاں ہر ذرہ ذرہ و نا آشنا ہنوز
پیدا چوں ماہتاب و باغوش کاخ و کوست
در خاکدان ما گہر زندگی گم است
ایں گوہرے کہ گم شدہ ما ایم یا کہ اوست
کروڑوں برس کا عمل ارتقا خدا کے ایک لمحہ میں سما جاتاہے
ارتقاء کا یہ عمل ہمارے پیمانہ وقت کے مطابق کروڑوں برس کی مدت میں پھیلا ہوا ہے لیکن خدا کے نزدیک ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ کا جھپکنا گویا ادھر خدا نے قول کن کہا اور ادھر کائنات کی وہ حالت کمال وجود میں آ گئی جس کے بعد قیامت کا زمانہ آنا مقدر ہے۔
"واما امر السا عۃ ا لا کملح البصر اوھواقرب"(سورہ النحل : 77)
(اور قیامت کا آنا ایسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ کا جھپکنا بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے)
'انما امرہ اذا اراد شیا ان بقول لہ کن فیکون"
(اس کے حکم کی یہ کیفیت ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے)
لیکن اگر ہم وقت کے اپنے پیمانہ کے مطابق کائنات کی تخلیق کے عمل کا جائزہ لے رہے ہوں اور اس کی تفصیلات اور جزئیات کا مطالعہ کر رہے ہیں جیسا کہ ہم کرنے پر مجبور ہیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ آنکھ جھپکنے کی یہ مدت اس قدر طویل ہے کہ کروڑ ہا برس کا عمل ربوبیت یا عمل ارتقاء جس کا ایک حصہ گزر چکا ہے اور ایک ابھی باقی ہے اس کے اندر سمایا ہوا ہے اور جب سے نسل انسانی پیدا ہوئی ہے نسلاً بعد نسلاً اس عمل ربوبیت کا مشاہدہ کرتی جا رہی ہے آئن سٹائن کے نظریہ نے اب اس حقیقت کو ریاضیاتی طور پر منکشف کیا ہے کہ وقت ایک اضافی چیز ہے۔ شعور کی ہر سطح کے لئے وقت کا پیمانہ الگ ہوتا ہے ہمارے بعض خوابوں سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ ہماری بیداری کی حالت کا ایک لمحہ ہماری نیند کی حالت کے ئی گھنٹوں بلکہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔
اسی طرح سو سال کا عرصہ موت کی حالت میں صرف ایک دن یا ایک دن کے حصہ کے برابر ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے:
"فاماتہ اللہ ماۃ عام ثم بعثہ قال کم لبثت قال لبثت یوماً او بعض یوم"
(اور خدا نے اسے ایک سو سال تک حالت موت میں رکھا اور پھر اسے زندہ کیا۔ لوگوں نے پوچھا تم کتنا عرصہ حالت موت میں رہے تو اس نے جواب دیا ایک دن یا اس کا کچھ حصہ) پھر قرآن میں ہے کہ خدا کا ایک دن ہماری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔
"فی یوم کان مقدار الف سنہ مما تعدون"
(ایک ایسے دن جس کی طوالت تمہارے حسابات کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوتی ہے)
اقبال لکھتے ہیں:

’’ اگر ہم اس حرکت کا جس کانام تخلیقی ہے خارج سے مشاہدہ کریں دوسرے الفاظ میں اگر ہم اسے ذہنی طور پر سمجھیں تو یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہزاروں سال کی مدت میں پھیلا ہوا ہے کیونکہ قرآن کی مصطفحات کے مطابق اور تورات کی مصطفحات کے مطابق بھی خدا کا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے لیکن ایک اور نقطہ نظر سے یہ ہزاروں سال کا عمل تخلیق ایک واحد ناقابل تقسیم فعل ہے جو ایسا سریع الحرکت ہے جیسے کہ آنکھ کا جھپکنا۔‘‘