ربوبیت ، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

ربوبیت
قرآن حکیم کی رو سے کائنات کے اندر تدریجی تخلیقی کے عمل کا وجود ایک حقیقت ہے اور اس کا باعث خدا کی ربوبیت ہے قرآن کی سب سے پہلی آیت
الحمد للہ رب العلمین
اس حقیقت کا اعلان کرتی ہے۔ امام راغب نے اپنی کتاب’’ المفردات‘‘ میں ربوبیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
ھو انشاء الشی حالاً فحالاً الی حد التمام
(وہ کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت تک نشوونما دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی حالت کمال کو پہنچ جائے) قرآن کی رو سے خدا رب السموات والارض آسمانوں اور زمین کا رب ہے اس لئے کہ وہ کائنات کا ایک کل کی حیثیت سے تدریجی ترقی دے رہا ہے اور پھر حدیث کے الفاظ میں خدا رب کل شی ہر چیز کا رب ہے۔ کیونکہ وہ کائنات کی عمومی تربیت اور تکمیل کے سلسلہ میں کائنات کی ہر چیز کی تربیت اور تکمیل کرتا ہے۔ مغرب کے حکماء بھی اپنے مشاہدات کی بنا پر اس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ کائنات میں تدریجی تکمیل کا عمل ہوتا رہا ہے اور وہ اس عمل کو ارتقا یا ایوولیوشن کا نام دیتے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات کو آج تک نہیں سمجھا کہ اس کا بنیادی سبب ایک قادر مطلق خدا کی تخلیق فعلیت یا ربوبیت ہے اور اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ نوع انسانی اپنے حسن و کمال کی اس انتہا تک پہنچے جو اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے۔ اکبر الہ آبادی نے ایوولیوشن کی حقیقت اور اس کو سمجھنے کی اہمیت کو ایک شعر میں بیان کیا ہے۔
ہے ایوولیوشن بس اک تفسیر رب العالمین!
کاش اس نکتے سے واقف ہوں مسلمان اندنون
ارتقاء
اقبال نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن حکیم اس نظریہ کی تائید کرتا ہے کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے۔ اقبال لکھتاہے:
’’ قرآن کی تعلیم اس بات کی موید ہے کہ کائنات ارتقاء کر رہی ہے اور بدی پر انسان کی آخری فتح کی امید سے پر ہے۔
قرآن کی رو سے انسان کو اختیار ہے کہ چاہے تو کائنات کے مقصد کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر حیات جاوداں سے بہرہ ور ہو جائے۔
ایحسب الانسان ان یترک سدا الم یک نطفۃ من منی یمنی ثم کان علقہ فخلق فسوی فجعل منہ الزوجین الذکر والانئی الیس ذالک بقادر علی ان یحیٰ الموتی"
(کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ بے کار سمجھ کر چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا وہ پیٹ میں پڑے ہوئے منی کے ایک قطرہ سے بنا ہوا نطفہ نہیں تھا پھر وہ جما ہوا خون بن گیا۔ پھر خدا نے اسے بنایا اور درست کیا اور اس سے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا۔ کیا یہ خدا مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں) یہ نہایت ہی غیر اغلب ہے کہ ایک وجود جس کے ارتقاء پر لاکھوں برس صرف آئے ہوں بے کار سمجھ کر پھینک دیا جائے۔ لیکن انسان فقط ایک ارتقاء کرتی ہوئی شخصیت کی حیثیت سے ہی کائنات کے مقصد کے ساتھ مطابقت پیدا کرتا ہے۔
انسان کا اولین ظہور
آگے چل کر اقبال لکھتا ہے:
’’ انسان کا اولین ظہور کس طرح سے ہوا۔ سب سے پہلے جاحظ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ حیوان کی زندگی کی نقل مکان اور ماحول سے تغیر پیدا ہوتا ہے۔ اخوان الصفا نے جاحظ کے خیالات کی مزید توضیح اور تشریح کی۔ تاہم ابن مسکویہ پہلا اسلامی مفکر گزرا ہے جس نے انسان کے اولین ظہور کا واضح اور بعض پہلوؤں سے کلیتاً جدید نظریہ پیش کیا۔ یہ بالکل قدرتی بات تھی اور روح قرآن کے بالکل مطابق تھی کہ رومی حیات بعد الممات کے مسئلہ کو زندگی کے ارتقاء کا مسئلہ سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک یہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں تھا۔ جسے ہم خالص مابعد الطبیعاتی قسم کے دلائل سے حل کر سکتے ہوں جیسا کہ بعض حکمائے اسلام نے سمجھا تھا۔ تاہم ا رتقاء کا نظریہ دور حاضر کے لئے امید اور ولولہ نہیں بلکہ مایوسی اور پریشانی کو ساتھ لے کر آیا ہے اور اس کا سبب دور حاضر کے اس بے بنیاد مفروضہ کے اندر پایا جا سکتاہے کہ انسان کی موجودہ حیاتیاتی اور نفسیاتی کیفیت یا حالت ارتقائے حیات کی آخری منزل ہے اور موت زندگی کی ایک واردات کی حیثیت سے کوئی تعمیری اہمیت نہیں رکھتی۔ اس دور کے انسان کو ایک رومی کی ضرورت ہے جو اس کے دل میں امید پیدا کر سکے اور زندگی کے لئے جوش اور ولولہ کی آگ بھڑکا سکے۔‘‘
’’ ریاضیات کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں ارتقاء کا تصور بھی آہستہ آہستہ تعمیر پاتا رہا ہے۔ جاحظ پہلا شخص ہے جس نے اس بات کی طرف توجہ کی کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کو سفر کر جانے سے پرندوں کے اندر جسمانی تغیرات رونما ہو جاتے ہیں اس کے بعد ابن مسکویہ نے جو البیرونی کا ہم عصر تھا اس خیال کو ایک واضح نظریہ کی شکل دی اور اپنی مذہبی کتاب ’’ الفوز الاصغر‘‘ میں اسے استعمال کیا۔ میں یہاں اس کے ارتقائی نظریہ کا اختصار پیش کرتا ہوں۔ اس کی علمی حیثیت کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا فکر کس سمت میں حرکت کر رہا تھا۔ ابن مسکویہ کا خیال ہے کہ ارتقاء کے سب سے نچلے درجہ میں پودوں کو پیدا ہونے اور نشوونما پانے کے لئے کسی بیج کی حاجت نہیں ہوتی او رنہ ہی وہ نوع کو بیج کے ذریعہ سے قائم رکھتے ہیں۔ اس قسم کے پودے جمادات سے صرف اس لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں کہ ان میں کس قدر حرکت کی قوت ہوتی ہے جو بلند درجہ کی نباتات میں اور ترقی کر جاتی ہے اور اپنا مزید اظہار اس طرح سے کرتی ہے کہ پودا اپنی شاخیں پھیلا دیتا ہے اور اپنی نوع کو بیج کے ذریعہ سے قائم رکھتا ہے۔ پھرحرکت کی قوت رفتہ رفتہ کرتی ہے یہاں تک کہ ہم ایسے درختوں تک پہنچ جاتے ہیں جن کا تنا اور پتے اور پھل ہوتے ہیں۔ ارتقاء کے ایک بلند تر درجہ پر نباتاتی زندگی کی اشکال اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کو اپنی نشوونما کے لئے بہتر زمین اور آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ارتقاء کے آخری درجہ میں انگو رکی بیل اور کھجو رکا درخت آتے ہیں جو گویا حیوانی زندگی کے دروازہ پر کھڑے ہیں۔ کھجور کے درخت میں جنسی امتیاز واضح طور پر نمودار ہو جاتاہے۔ جڑوں اور ریشوں کے علاوہ اس میں ایک ایسی چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو حیوان کے دماغ کی طرح کام کرتی ہے اور جس کی سلامتی پر کھجور کے درخت کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے یہ نباتاتی زندگی کے ارتقاء کا بلند ترین مقام ہے جس کے بعد حیوانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ حیوانی زندگی کی طرف پہلا قدم زمین میں گڑ جانے سے آزادی ہے۔ جو آزادی حرکت کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حیوانی زندگی کا اولین درجہ ہے۔ جس میں چھونے کی حس سب سے پہلے اور دیکھنے کی قوت سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہے۔ حسوں کے ارتقاء سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے۔ جیسا کہ کیڑوں مکوڑوں رینگنے والے جانوروں چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ چوپایوں کی حیوانی زندگی گھوڑے میں اور پرندوں کی حیوانی زندگی باز میں اپنے کمال پر پہنچتی ہے اور آخر کار بندر میں جو ارتقاء کی سیڑھی پر حضرت انسان سے صرف ایک قدم پیچھے ہے۔ انسانیت کی سرحدوں تک جا پہنچتی ہے۔ بعد کا ارتقاء ایسے حیاتیاتی تغیرات پیدا کرتاہے جس کے نتیجہ کے طور پر عقلی اور روحانی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں یہاں تک کہ انسانیت بربریت سے نکل کر تہذیب کے میدان میں قدم رکھ لیتی ہے۔‘‘

’’ اس طرح سے اسلامی فکر کے تمام خطوط کائنات کے حرکی یا ارتقائی تصور پر مرتکز ہو جاتے ہیں۔ اس نظریہ کو ابن مسکویہ کے اس تصور سے کہ زندگی ایک ارتقائی حرکت ہے اور ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے اور تقویت ملتی ہے۔‘‘