انسانی خودی کا یعنی خدا کی محبت کے جذبہ کا ظہور، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

انسانی خودی کا یعنی خدا کی محبت کے جذبہ کا ظہور
اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان پہلا اور آخری حیوان ہے جو خود شعور ہے۔ یعنی جس کا شعور اپنے آپ سے آگاہ ہے۔ انسان اپنی خود شعوری کی وجہ سے یہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی محبوب ہے جو اس سے بچھڑا ہوا ہے اور جس کے بغیر اس کی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے وہ تصورات حسن قائم کرتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے اور اپنی عملی زندگی کو ان کی پیروی کے لئے وقف کرتا ہے لیکن صرف ایک ہی تصور حسن ایسا ہے جو اپنی صفات اور خصوصیات کی وجہ سے اس کی خودی کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے اور انہیں پوری طرح سے مطمئن کر سکتا ہے اور وہ خدا کا تصور ہے۔
انسان میں خودی کا اور اس کے ساتھ خدا کی محبت کے جذبہ کا ظہور نوع انسانی کی تکمیل کے اصلی عمل کا نقطہ آغاز ہے۔ اس سے پہلے مادہ کی تکمیل اور اس کے بعد جسم حیوانی کی تکمیل اس عمل کی تیاری کے مرحلے تھے اب خدا کی محبت کا عملی اظہار کرنے سے نوع انسانی اپنے اس حسن یا کمال کو پہنچے گی ۔ جو خدا کے قول کن کا مقصود ہے۔ خدا نے جس کے حسن و کمال کی کوئی حد نہیں۔ انسان کو اپنے حسن اور کمال کی آرزو کے ساتھ اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ انسان اس آرزو کی تشفی کر کے خدا کے رنگ میں رنگا جائے اور اس طرح سے اپنے حسن و کمال کو انتہا کو پہنچے۔ ارتقائے کائنات کے جس نقطہ پر انسان میں خودی کا ظہور ہوا وہاں کائناتی خودی نے گویا اپنا راز جو آفرینش کائنات میں مضمر تھا۔ آشکار کر دیا انسان کے اندر جوہر خودی کے نمودار ہونے کے عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’ یہ گویا کائنات کا اپنے ارتقاء کے ایسے نقطہ پر پہنچ جانا ہے جہاں وہ اپنی راہ نمائی خود کر سکتی ہے اور جہاں حقیقت مطلقہ گویا اپنے راز کو آشکار کر دیتی ہے اور اپنی اصل حقیقت کا سراغ بہم پہنچاتی ہے۔‘‘
انسان میں خودی کے ظہور کا مطلب یہ تھا کہ ایک مشت خاک میں خدا کی محبت زندہ ہو گئی ہے اور دنیا میں پہلی دفعہ حسن کا قدر دان اور چاہنے والا پیدا ہوا ہے جو اپنی محبت کی وجہ سے خدا کا راز دار بن سکتا ہے۔ او رکائنات کے راز ہائے سربستہ کی پردہ دری کر سکتا ہے۔ سنگ و خشت کی دنیا تو بے اختیار اور مجبور تھی۔ لیکن اب ایک ایسا وجود ظہور پذیر ہو گیا ہے جو آزاد ہے اور آزادی عمل سے اپنی اصلاح کرکے اپنی شخصیت کی نئی تعمیر کر سکتا ہے۔ خدا کی آرزو یا محبت اپنی حیرت انگیز قوتوں سے بے خبر زندگی کے آغوش میں سوئی پڑی تھی لیکن اب اس نے اپنی آنکھیں کھول لی ہیں اور اب گویا اس کے لئے ایک ایسا دروازہ کھل گیا ہے جہاں سے وہ خدا کے حسن کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ خدا کی آرزو کی اس بیداری سے جہاں دگرگوں ہو گیا ہے اور پوری دنیا ہی بدل گئی ہے۔
نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد
حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد
خبر سے رفت ز گردوں بہ شبستان ازل
حذر اے پروگیاں پردہ درے پیدا شد
فطرت آشفت کہ از خاک جہاں مجبور
خود گرے خود شکنے خود نگرے پیدا شد
آرزو بے خبر از خویش باغوش حیات
چشم دا کر دو جہان دگرے پیدا شد
زندگی گفت کہ در خاک تپیدم ہمہ عمر
تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد
کہاں انسان خاک کا پتلا اور کہاں خالق کائنات خدا جو منتہائے حسن و کمال ہے۔ انسان میں خودی اور خودی کے ساتھ خدا کی محبت کے ظہور کا مدعا کیا ہے۔ عقل اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔
غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال

خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے