رموز بے خودی (1)

رموز بے خودی - خلیفہ عبد الحکیم 
اقبال کی کتاب اسرار خودی کے بعض نظریات کو سطحی فمم رکھنے والے نقادوں نے نظر تحسین سے نہ دیکھا۔ روایتی تصوف کے دل داد گان کو اس سے جا بجا ٹھوکر لگی۔ ہمارے ادب میں تو خودی ایک مذموم چیز تھی اور تصوف و اخلاق اس کو ابلیسانہ چیز سمجھتے تھے۔ فارسی اور اردو ادب میں نفس انسانی کے ایزدی جوہر کے متعلق تو بہت کچھ ملتا ہے لیکن ہر جگہ تلقین یہی ہے کہ انسان اپنی خودی کو سوخت کر کے ہی اس جوہر کو اجاگر کر سکتا ہے۔ خودی کی پرستش گناہ ہے اور خدا پرستی کے مخالف ہے:
تجھ کو خودی پسند ہے مجھ کو خدا پسند
تیری جدا پسند ہے میری جدا پسند
اس تصور میں یہ انا یا نہیں یا ہم پندار کا ایک بت ہے اور تمام بتوں کا قلع قمع کرنے کے بعد آخر میں یہی سنگ گراں معرفت میں سنگ راہ بن جاتا ہے۔
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور
وحدت وجود کا فلسفہ، جو اسلامی شاعری اور تصوف کا مرکز و محور بن گیا، زیادہ تر خودی سوز ہی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر مخلوقات کی حیثیت محض ظلی ہے۔ اقبال نے روایتی تصوف کے خلاف جہاد اسرار خودی ہی سے کیا اور عمر کے آخری لمحوں تک یہ جہاد جاری رہا۔ مابہ النزاع خودی ہی کا مسئلہ تھا۔ا قبال خدا کو خودی میں جذب کرنے کی تلقین کرتا تھا اور تصوف خودی کو خدا میں گم کرنے کی تعلیم دیتا تھا۔ اسرار خودی سے بہت سے قارئین نے دھوکا کھایا اور سمجھا کہ یہ قوت اور تکبر کی تعلیم ہے اور اس میں انسان کی خودی کو خدا بنا دیا گیا ہے۔ اسرار خودی میں خدا کہیں نمایاں معلوم نہیں ہوتا، انسانی خودی وہاں خلاق بن گئی ہے۔ ان نقادوں کو یہ علم نہ تھا کہ اقبال اس سے اچھی طرح آشنا تھا کہ بے خودی بھی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگرچہ بے خودی کا مفہوم فقط ایک پہلو اسرار خودی میں پیش ہوا تھا۔ اس کی تکمیل کے لیے دوسرے پہلو کو پیش کرنا لازمی تھا۔ رموز بے خودی، اسرار خودی کا تکملہ ہے۔ اقبال کے نظریات حیات میں بحیثیت مجموعی ایک توازن موجود ہے۔ اگرچہ کلام کے بعض حصوں کو الگ الگ کر کے دیکھیں تو بعض اوقات فقط ایک پہلو کسی قدر شدت اور مبالغے کے ساتھ نظر کے سامنے آتا ہے۔
رموز بے خودی کی تمہید میں ربط فرد و ملت کے متعلق اقبال اپنا زاویہ نگاہ پیش کرتا ہے۔ یہ مسئلہ نفسیات، اخلاقیات، سیاسیات اور معاشیات کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے متعلق اختلاف زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فرد کو ایک ایٹم سمجھ کر جو نفسیات لکھی گئی وہ حقیقت حیات سے بہت دور ہو گئی۔سادہ اخلاقی تصورات بھی اس کے لیے ناقبال فہم ہو گئے اور سجوک جیسے اخلاقیات پر ضخیم تصنیف کرنے والے فلسفی آخر میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں ایک فرد اپنی ذاتی مسرت کو دوسروں کے لیے قربان کرے۔ کانٹ کی اخلاقیات بھی آخر میں بے بنیاد ہو گئی اور اس نے اس عقیدے کا سہارا لیا کہ اگر تلافی کرنے والے خدا اور بع دالموت کا عقیدہ نہ ہو تو فرد کی فرض شناسی اور جماعت کے اغراض کے لیے اس کی ذاتی سعادت و مسرت کی قربانی کی کوئی عقلی تاسیس ممکن نہیں۔ جرمن فلسفی شٹیرنر اور نطشے کی طرح بعض حکما نے فرد کو مطلق العنان کرنے کی تلقین کی تاکہ جماعت کے حدود و قیود اور اوامر و نواہی اس کی شخصیت کے بے روک ارتقاء میں خلل انداز نہ ہوں۔ دوسری طرف ہیکل جیسے فلاسفہ نے جماعت اور مملکت کو معبود بنا دیا اور فرد کی انفرادیت وہاں ایک بے حقیقت سا مظہر رہ گئی۔ اس کا اثر معاشیات و سیاسیات پر بہت گہرا پڑا۔ کارل مارکس نے اپنے فلسفے کا ڈھانچا ہیگل سے اخذ کیا اور اس کا عملی نتیجہ وہ اشتراکیت ہے جہاں فرد کی آزادی ضمیر اور آزادی عمل ایک گناہ کبیرہ ہے مغرب میں حقوق طلبی کے جوش و خروش میں فرد نے جماعت کو اپنا حریف سمجھا رفتہ رفتہ وہ مذہب سے بھی برگشتہ ہو گیا جو فرد کو جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنا چاہتا تھا۔ یہ تمام کشاکش افراط و تفریط کا نتیجہ تھی۔
اسلام اعتدال اور توازن کا نام ہے۔ ادیان میں فرد و ملت کے ربط کا مسئلہ عمدہ طور پر اسلام نے حل کیا تھا۔ اسلام فرد کے نفسیات کے کسی پہلو کو جماعت کے مفاد سے الگ نہیں کرتا۔ اس کی تمام عبادات میں اجتماعی عنصر بہ نمایاں ہے۔ نماز ہو یا روزہ، حج ہو یا زکوٰۃ، سب میں فرد جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کے باوجود اسلام نے بڑے زور و شور سے آزادی ضمیر کی تلقین کی اور کہا کہ دین، جس میں عقیدہ اور طریق زندگی شامل ہے، کسی جبر کو گوارا نہیں کرتا۔ جو چیز اختیار سے قبول نہیں کی گئی اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں۔ رہبانی مذاہب میں اخلاق اور روحانیت انفرادی رہ گئے تھے۔ ایک طرف خدا اور دوسری طرف فرد جو غار میں یا صحرا میں جماعت سے بے نیاز ہو کر خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔
اقبال کے ہاں ربط فرد و ملت کا نظریہ اسی اسلامی زاویہ نگاہ سے اخذ کردہ ہے۔ جماعت کے ساتھ تمام نفسیاتی روابط کو ساقط کر کے اگر نفس انسانی کی باقی ماندہ حیثیت کو دیکھیں تو وہ صفر رہ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’ وجود افراد کا مجازی‘‘ ہے یعنی فرد کی جماعت سے ربط کے بغیر کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن جماعت کا یہ ہمہ گیر رابطہ انسان کی انفرادی خودی کو سوخت نہیں کرتا، بلکہ اس کی پرورش کرتا ہے۔ ہر شاخ اور ہر پتے کی اپنی بھی ایک مخصوص حیثیت ہے، لیکن شجر سے منقطع ہو کر نہ شاخ میں روئیدگی رہ سکتی ہے اور نہ پتا سرسبز رہ سکتا ہے:
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
تمام نوع انسان کی وحدت کی تعلیم قرآن میں موجود تھی کہ سب انسان ایک نفس واحدہ سے سر زد ہوئے ہیں۔ گویا تمام نوع انسان ایک جسم ہے اور مختلف افراد اس کے اعضا ہیں۔ اسی قرآنی تصور کو ان اشعار میں ادا کیا گیا ہے:
بنی آدم اعضاے یک دیگر اند
کہ در آفرینش زیک جوہر اند


چو عضوے بدرد آورد روزگار
دگر عضو ہا را نہ ماند قرار
اگر کسی عضو میں ایسی انانیت پیدا ہو جائے کہ وہ دوسرے اعضاء سے تعاون کو لا حاصل ایثار سمجھے تو خود وہ عضو معطل ہو جائے گا۔ یہ تمثیلی حکایت نہایت حکمت آموز ہے کہ انسانی جسم کے اعضا میں بے بصری سے ایک مرتبہ یہ خیال پیدا ہو گیا کہ ہم تو سب جدوجہد کرتے رہتے ہیں لیکن یہ پیٹ نکھٹو، ناکردہ کار ہماری محنت سے پیدا شدہ رزق کو اپنے اندر ڈال کر خود لطف اٹھاتا ہے۔ اس نکھٹو کا کامل مقاطعہ کرنا چاہیے۔ تمام اعضا نے رزق کی کوشش چھوڑ دی پیٹ میں کچھ نہ گیا تو سب کی حالت زار و نزار ہو گئی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ہم بیجان کیوں ہو رہے ہیں۔ آخر دماغ نے ان بے وقوفوں کو سمجھایا کہ شکم سمیت تم سب ایک ہی جان کے مظاہر اور اس کے خدمت گزار ہو۔ ہر ایک کا کام اسے خود بھی نفع پہنچاتا ہے اور کل جسم کو بھی۔جماعت کے ساتھ ہی ربط رکھنے سے عضو میں زندگی اور قوت ہے۔ فرد و جماعت کے ربط کی اس سے بہتر مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ علامہ اقبال بھی اسی تصور سے آغاز کرتے ہیں:
فرد را ربط جماعت رحمت است
جوہر او را کمال از ملت است


تا توانی با جماعت یار باش
رونق ہنگامہ احرار باش
اس کے بعد ایک حدیث نبوی کے حوالے سے کہا ہے کہ شیطان جماعت سے دور رہتا ہے فرد و قوم ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔فرد و ملت کا احترام و نظام ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ فرد کا جماعت میں گم ہونا خودی کو سوخت کرنا نہیں بلکہ قطرے کا قلزم بننا ہے۔ زندگی کے اقدار کا سرمایہ ملت ہی کے گنجینے میں ہوتا ہے۔ نوع انسان جو کچھ قرون میں یہ دوران ارتقاء پیدا کرتی رہی ہے، فرد اس تمام ثروت کا مالک بن جاتا ہے اور انسانیت کے مستقبل کی طرف بھی جماعت ہی قدم بڑھاتی ہے۔ ماضی اور مستقبل اس کی ذات میں ہم آغوش ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ لیکن جماعت باقی رہتی ہے۔ فرد کے اندر ترقی کی خواہش بھی جذبہ ملی سے پیدا ہوتی ہے اور خیر و شر کا معیار بھی حیات ملی کی پیداوار ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہتے ہیں لیکن فرد بے جماعت ناطق نہیں ہو سکتا۔ زبان جو ہزار ہا سال کے انسانی تجربات کی سرمایہ دار ہے، کسی ایک فرد کی پیدا کردہ چیز نہیں۔ یہ قیمتی ورثہ جماعت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ گرمی صحبت سے فرد میں ملت کی وسعت آ جاتی ہے۔ تمام کثرت وحدت میں منسلک ہو جاتی ہے۔ لفظ کے اندر معنی کی ثروت جملے یا مصرعے کے دوسرے الفاظ سے متحد ہو کر اظہار پذیر ہوتی ہے۔ تنہا فرد کے مقاصد خور و نوش کے علاوہ اور کیا ہو سکتے ہیں۔ فرد کے مضمرات و ممکنات اگر معرض شہود میں آتے ہیں تو محض ملت کے ربط سے ضبط و نظم سے زندگی کو نشوونما حاصل ہوتا ہے۔ حقیقی آزادی جو معاون حیات و ارتقاء ہے، وہ جماعتی پابندیوں ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح کہ ندی کے اگر کنارے نہ ہوں، جو اس کی روانی کو حدود کے اندر رکھتے ہیں، تو وہ ندی ہی نہیں بن سکتی۔ علامہ فرماتے ہیں کہ تو نے خودی اور بے خودی کے باہمی ربط کو نہیں پہچانا، اس لیے وہم و گمان میں مبتلا ہو گیا ہے اور ان کو باہم متضاد سمجھنے لگا ہے۔ تیری ذات کے اندر ایک جوہر نور ہے۔ اس نفس واحدہ میں دوئی نہیں۔ لیکن مظاہر حیات میں یہ وحدت من و تو کا امتیاز پیدا کر لیتی ہے۔ اس کی فطرت آزاد خود اپنی تکمیل کے لیے آئین کی زنجیریں بناتی ہے۔ اس جزو کے اندر ہمہ گیر قوت ہے۔ پیکار حیات ا س شمشیر کے لیے سنگ فساں ہے:
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
اسی کو خودی کہتے ہیں اور اسی کا نام زندگی ہے۔ جماعت کے اندر گم ہو کر، یعنی بے خودی ہے، یہ خودی اپنے آپ کو استوار کرتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئین کے جبر نے اختیار فرد کو سوخت کر دیا ہے، لیکن محبت اسی کا نام ہے کہ محبت محبوب کی ذات سے ہم آہنگ ہو جائے۔ خود شکنی سے کس طرح خودی مضبوط ہوتی ہے؟ استدلال کے لیے یہ نکتہ آسانی سے قابل فہم نہیں، اس میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے:
نکتہ ہا چوں تیغ پولاد است تیز
گر نمی فہمی ز پیش ما گریز
اس تمہید کے بعد اقبال نے اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ انسان کی فطرت میں یکتائی کا جوہر بھی ہے لیکن اس کی حفاظت انجمن آرائی سے ہی ہوتی ہے۔ افراد خود اپنی تکمیل ذات کے لئے اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرو لیتے ہیں۔ پیکار حیات میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ا فلاک پر نظام انجم بھی جذب باہم سے قائم ہے۔ انسانی افراد بھی اسی آئین سے قیام و ثبات حاصل کرتے ہیں۔ ابتدائی حالت میں انسان جب دشت و جبل میں آوارہ تھے تو زندگی کی قوتیں خوابیدہ تھیں،آرزوئیں محدود تھیں:
گو شمال جستجو ناخوردہ
زخمہ ہاے آرزو نا خوردہ
خون میں گرمی نہیں تھی۔ دیو و پری کے اندیشے سے لرزاں تھے۔ عقل و فکر نے بھی ماحول پر غلبہ حاصل نہ کیا تھا۔ برق و رعد سے خائف تھے۔ خود رو چیزیں کھا کر گزارہ کر لیتے تھے۔ اپنی کوشش سے فطرت سے کچھ نہ حاصل کر سکتے تھے۔ ایک انفعالی کیفیت تھی۔ جو کچھ میسر آ گیا اس پر قناعت کر لی۔ اس حالت میں سے انسان اس وقت نکلا جب کسی جماعت میں ایک مرد صاحب دل پیدا ہوا۔
یہ قرآنی تصور ہے کہ آدمیت کا آغاز نبوت سے ہوا ہے۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر علم و فن کا آغاز بھی وحی ہی کی بدولت ہوا۔ ایسا شخص انسانوں کو انتشار سے نکال کر ان میں وحدت پیدا کرتا ہے۔ ’’ تا دوئی میردیکی پیدا شود‘‘ ایسے مرد صاحب دل کا انداز نظر بالکل تازہ ہوتا ہے۔ وہ ہر شے کو ایک نئی بصیرت سے دیکھتا ہے اور اس سے نئے نتائج اخذ کرتا ہے۔ اس کے اندر زندگی کی حرارت ہوتی ہے جس کی چنگاریاں بے شمار قلوب میں شعلے پیدا کرتی ہیں۔ اس کی بدولت عقل کو بھی ایک نیا پیرایہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو کھوٹے اور کھرے میں تمیز کرنا سکھاتا ہے۔ وہ زندگی کے اقدار کی نئی تقدیر کرتا ہے۔ وہمی معبودوں کی پرستش سے انسان کو نجات دلاتا ہے۔ مادی فطرت کی قوتوں کا خوف دلوں سے زائل کرتا ہے اور انسان میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ تو خداے خلاق واحد کے سوا کسی کا بندہ نہیں۔ اس کے طفیل میں انسان ایک جماعت بن جاتے ہیں اور توحید الٰہی وحدت انسانی میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ تاہم زندگی کے لیے ایک مقصود معین ہو جاتا ہیـ:
تا سوے یک مدعایش می کشد
حلقہ آئیں بپایش می کشد


نکتہ توحید باز آموزدش
رسم و آئین نیاز آموزدش
اس قسم کے توحید آموز اور وحدت آفریں تلمیذ الرحمان کو اسلامی اصطلاح میں نبی کہتے ہیں۔ از آدم تا ایں دم نوع انسان نے جو ترقی کی ہے اور انسان کی بصیرت اور قوت میں جو اضافے ہوئے ہیں، سب کا سرچشمہ نبوت ہی ہے۔
اس کے بعد ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ کے عنوان کے تحت رکن اول توحید کی شرح ہے۔ انسانی عقل ابتدائی کوششوں میں اپنے ماحول میں اشیاء و حوادث کا فرداً فرداً ادراک کر کے ان کے ساتھ کوئی ہنگامی توافق پیدا کرتی رہی۔ ابھی تک ایسا شعو رپیدا نہ ہوا تھا جو مظاہر کی گوناگوئی اور کثرت کو کسی وحدت میں منسلک کر سکے۔ عقل کا پہلا ارتقائی قدم توحید کی بدولت اٹھا، ورنہ عقل کے لیے خود اپنا مقصود واضح نہ تھا۔ فطرت کی تسخیر فہم فطرت کے ساتھ وابستہ ہے اور اس فہم کا کام حوادث کی کثرت میں آئین کی وحدت تلاش کرنا ہے:
در جہان کیف و کم گردید عقل
پے بہ منزل برو از توحید عقل


ورنہ این بے چارہ را منزل کجاست
کشتی ادراک را ساحل کجاست
کم فہم لوگ دین اور دانش کو الگ الگ بلکہ متضاد چیزیں سمجھتے ہیں۔ اگر نکتہ توحید ان کی سمجھ میں آ جائے تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو کہ توحید کی پیدا کردہ وحدت کوشی ہی دین اور حکمت دونوں کا سرچشمہ ہے اور تمام قسم کی قوتیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں:
دین ازو، حکمت ازو، آئیں ازو
زور ازو، قوت ازو، تمکیں او
عالموں کی حیرت اور عاشقوں کی قوت عمل اسی زاویہ نگاہ کا نتیجہ ہیں۔ یہی عقیدۂ خاک کو اکسیر بناتا ہے۔ اس سے انسان کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ انسان راہ حق میں گرم رو ہو جاتا ہے۔ شک اور خوف کی جگہ یقین محکم پیدا ہوتا ہے، چشم بصیرت پر ضمیر کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔
کلمہ توحید ہی ملت بیضا کے تن میں بطور جان ہے۔ یہی عقیدہ ملت کا شیرازہ بند ہے۔ اسی سے زندگی میں قوت کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی سے تودۂ گل دل بن جاتا ہے اور دل میں سے اگر یہ نکل جائے تو دل مٹی ہو جاتا ہے۔ مسلمان کی اصلی دولت یہی ہے کہاسی توحید نے اسود و احمر کی تمیز مٹائی اور بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) فاروق (رضی اللہ عنہ) اور ابو ذر (رضی اللہ عنہ) کا ہمسر ہو گیا۔ ملت نہ جغرافیائی چیز ہے اور نہ نسلی یا لسانی۔ بقول شاعر ’’ نیم دلی از ہم زبانی بہتر است‘‘ ملت دلوں کی یک رنگی اور ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہے اور یہ بات توحید ہی کی برکت سے ظاہر ہوتی ہے:
ملت از یک رنگی دلہاستے
روشن از یک جلوۂ سیناستے


قوم را اندیشہ ہا باید یکے
در ضمیرش مدعا باید یکے
ملت اسے کہتے ہیں جس میں خیر و شر اور خوب و زشت کا معیار یکساں ہو۔ یہ اتحاد خدائے واحد ہی کی بخشی ہوئی بصیرت کا نتیجہ ہو سکتاہے، ورنہ ہر شخص خود اپنے لیے معیار بن جائے اور انسانی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے۔ بعض ملتوں نے اپنی تقدیر کو وطن کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ بعض نے اتحاد ملت کی تعمیر نسل و نسب کی بنیادوں پر قائم کی ہے۔ لیکن وطن پرستی خدا پرستی نہیں۔ وہ ایک خطہ ارض کی پرستش ہے، اسی طرح نسب کا مدار جسمانی توارث پر ہے، لیکن انسان کی ماہیت جسم نہیں بلکہ روح ہے۔ ملت اسلامیہ کی اساس نفسی ہے۔ یہ ایک غیر مرئی رشتہ ہے۔ جس طرح تجاذب انجم کے تار کسی کو نظر نہیں آتے مگر وہی نظام انجم کے قوام ہیں۔ اس قسم کی وحدت نفسی توحید پرستوں کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتی۔
قرآن نے جہاں نفس مطمئنہ اور نجارت یافتہ، خدا رس انسان کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے دو ہی صفات بالتکرار بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا انسان یاس و حزن و غم سے پاک ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ کسی قسم کا خوف اس کے دل میں نہیں رہتا۔ اسی صفت کا نام حریت ہے اور یہ توحید ہی کا ثمر ہے۔ مرد موحد کبھی نا امید نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کے نزدیک نا امیدی کفر ہے۔ امید سے زندگی کی قوتیں بیدار اور استوار ہوتی ہیں اور یاس سم قاتل کا کام کرتی ہے۔قطع امید سے انسان خود کشی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مایوس انسان کے عناصر سست ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں۔ غم انسان کی جان کو کھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لا تحزن کی تعلیم دی ہے اور نصب العین لا خوف علھم ولاہم یحزنون قرار دیا ہے:
گر خدا داری ز غم آزاد شو
از خیال بیش و کم آزاد شو
اسی قوت سے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے مقابل میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کو غرقاب کرتا ہے۔ غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن ہے لیکن خدا پر یقین ہمت عالی کا منبع ہے۔ خوف سے فکر و عمل کی تمام قوتیں بے کار ہو جاتی ہیں اور انسان خود مسخر و مغلوب ہو جاتا ہے۔ جس شخص کو سست عمل دیکھو سمجھ لو کہ اس کے دل میں خوف نے جگہ کر لی ہے۔
جدید نفسیات نے کوئی پچاس قسم کے فوبیا یعنی خوف کی قسمیں دریافت کی ہیں جو انسان کے تحت الشور میں داخل ہو کر اس کے نفس میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔ نفسیات تحلیلی، ان چوروں کو قلب کے تہ خانوں سے نکالنے کی تجویزیں کرتی رہتی ہیں۔ لیکن خود ایک بڑا ماہر نفسیات جدید، ینگ اس کا اقرار کرتا ہے کہ خدا پر راسخ عقیدہ رکھنے والے ان خوفوں اور نفسی پیچیدگیوں سے بری ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا علاج عقیدۂ توحید ہے:
ہر شر پنہاں کہ اندر قلب تست
اصل او بیم است اگر بینی درست


لابہ و مکاری و کین و دروغ
ایں ہمہ از خوف می گیرد فروغ
موحد کے دل بے ہراس کے متعلق ایک تمثیل پیش کی ہے کہ حزن و خوف سے بری انسان میں ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ حوادث کے تیر اس پر بے اثر ہو جاتے ہیں۔ تیر شمشیر سے کہتا ہے کہ میں کسی کے سینے میں داخل ہونے سے پہلے یہ دیکھ لیتا ہوں کہ اس کے اندر دل یاس و بیم میں مبتلا ہے یا نہیں۔ جہاں میں نے دیکھا کہ یہ شخص مایوس اور ڈرپوک معلوم ہوتا ہے، وہاں میں دھڑلے سے اس کی خوں ریزی کرتا ہوں۔ لیکن اگر سینے کے اندر قلب مومن نظر آئے تو میں اس کی حرارت سے پگھل کر پانی ہو جاتا ہوں:
در صفاے او ز قلب مومن است
ظاہرش روشن ز نور باطن است


از تف او آب گردد جان من
ہمچو شبنم می چکد پیکان من
اس نظم میں بے خودی کا مفہوم اس لحاظ سے داخل ہے کہ جب خودی میں سے خوف و حزن کے عناصر ناپید ہو جائیں تو اس قسم کی بے خودی کی حالت مستی و مدہوشی کے مماثل نہیں ہوتی بلکہ حوادث کے مقابلے میں ناقابل شکست حصن مدافعت بن جاتی ہے۔ خودی اور بے خودی میں کوئی تضاد نہیں رہتا۔ اسی خیال کو حکایت شیر و شہنشاہ عالمگیر میں ایک تاریخی واقعے سے استوار کیا ہے۔ نماز عاشقاں میں ایک بے خودی کی کیفیت ہوتی ہے کیوں کہ نفس انسانی اپنے تئیں کلیتاً خدا کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس سپردگی کی بدولت اس میں بے حد قوت اور بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے۔ شیر نے عالمگیر پر دوران نماز میں حملہ کیا۔ کوئی معمولی انسان خوف زدگی میں شیر کا شکار ہو جاتا یا بے اختیار فرار کی کوشش کرتا لیکن عالمگیر کی بے خودی میں خودی کی طاقت دیکھئے:
دست شہ نادیدہ خنجر برکشید
شرزہ شیرے را شکم از ہم درید


دل بخود را ہے نداد اندیشہ را
شیر قالیں کرد شیر بیشہ را
ایسے نفس میں خود نمائی کے ساتھ خود شکنی ہوتی ہے، لیکن یہی خود شکنی الٰہی قوتوں کی جاذب بن جاتی ہے:
ایں چنیں دل خود نما و خود شکن
دارد اندر سینہ مومن وطن
بعض اوقات لوگوں کو لا خوف علیھم ولاہم یحزنون کی صفت پڑھتے ہوئے یہ گمان گزرتا ہے کہ ماسوا کا خوف معدوم ہونے پر بھی خداکا خوف تو باقی رہتا ہے، اس لیے بندۂ مومن مطلقاً لا خوف تو نہ ہوا۔ لیکن یہ دھوکا انسانی زبان کی کوتاہی سے پیدا ہوتا ہے۔ خدا کے خوف کے وہ معنی نہیں جو ماسوا کے خوف کے معنی ہیں۔ خدا کوئی ڈراؤنی چیز نہیں ہے جسے دیکھ کر انسان کانپنے لگے۔ وہ تو سراپا رحمت و شفقت ہے۔ خوف خدا کے معنی ہیں حکم خداوندی اور آئین الٰہی کی خلاف ورزی کے درد ناک نتائج فطری ہیں۔ انہیں معنوں میں خوف خدا کو حکمت کا سرچشمہ کہا گیا ہے۔ ماسوا کا خوف تو انسان کو حواس باختہ اور عقل سوختہ کر دیتا ہے۔ خوف خدا کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ایک فرمان بردار بچہ سراپا شفقت ماں باپ کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے سے گریز کرتا ہے تاکہ محبت کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ یہاں سزا کا خوف نہیں ہوتا بلکہ محبت کے فقدان کا خوف ہوتا ہے۔ ان معنوں میں خدا ہی کا خوف انسان کو ہر قسم کے خوف حوادث سے نجات دلوا سکتا ہے:
عشق را آتش زن اندیشہ کن
روبہ حق باش و شیری پیشہ کن


خوف حق عنوان ایمان است و بس
خوف غیر از شرک پنہاں است و بس
خدا کے سوا کسی چیز سے خائف انسان کلمہ لا الٰہ الا اللہ زبان سے پڑھنے کے باوجود اندر سے شرک خفی میں مبتلا ہوتا ہے۔
رموز بے خودی میں اقبال پہلے اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ انسانوں میں ملت آفریں وحدت ان مردان حق کی بدولت پیدا ہوئی ہے جنہیں اصطلاحاً نبی کہتے ہیں۔ اس سے قبل اس عنوان کے تحت اشعار درج ہو چکے ہیں کہ ملت از اختلاط افراد پیدا می شود و تکمیل تربیت او از نبوت است، اسلام کا ’’ رکن دوم‘‘ رسالت ’’ ایک مخصوص تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ انبیاء تو آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک لا تعداد ہوئے ہیں لیکن قرآن کریم نے مسلمانوں کو ملت ابراہیم ؑ کہا، اس لیے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا توحید کی تعمیر اور شرک کی بیخ کنی میں جہاد تاریخ دین کا ایک اہم واقعہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا زمانہ توریت و انجیل سے پہلے کا زمانہ ہے، اس لیے توحید رموزی میں ان کو تمام انبیائے بنی اسرائیل پر زمانی سبقت حاصل ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے توحید کی بنیادیں قائم کیں تو اس وقت نہ کوئی یہودی تھا اور نہ کوئی نصرانی۔ یہ سب بعد کے کم و بیش بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ اس لیے توحید کو بھی خالص کرنے کے لیے موحد قدیم حضرت ابراہیم ؑ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ پہاڑ میں سے نکلتے ہوئے چشمے کا پانی صاف ہوتا ہے، بعد میں بہتی ہوئی ندیوں میں خس و خاشاک اور کثافت کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ رسالت کی توضیح میں علامہ اقبال، ابراہیم ؑ خلیل اللہ ہی سے آغاز کرتے ہیں:
تارک آفل براہیم خلیل
انبیاء را نقش پاے او دلیل
جس طرح توحید وحدت آفریں ہے، اسی طرح رسالت کا بھی یہی وظیفہ ہے کہ ہزار با انسان ایک عدل عام اور رحمت عامہ کی سلک میں منسلک ہو جائیں:
از رسالت در جہاں تکوین ما
از رسالت دین ما آئین ما


از رسالت صد ہزار ما یک است
جزو ما از جزو ما لا ینفک است
ابراہیمی رسالت نے جن بنیادوں کو استوار کیا اور رسالت محمودی نے ان پر جو عظیم الشان تعمیر انسانیت کھڑی کی، اسی کی بدولت توحید پرستوں کی ایک ملت بن گئی جو اہل عالم کے لیے پیام رحمت ہے۔ رسول کی محبت خدا کی محبت کا وسیلہ ہے۔ کوئی فرد شاید براہ راست بھی راہبوں کی طرح خدا سے رابطہ پیدا کرے، لیکن ملت کی شیرازہ بند تو رسالت ہی ہے:
فرد از حق، ملت از وے زندہ است
از شعاع مہر او تابندہ است
رسالت کی بدولت لاتعداد انسان ہم نوا اور ہم مدعا ہو جاتے ہیں۔ کثرت اس وحدت میں آ کر زندہ تر ہو جاتی ہے۔ دین فطر ت کا تقاضا اسی قسم کی وحدت آفرینی ہے۔ رسالت محمدی کی پیدا کردہ وحدت اگر ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے تو ہم ابد پیوند ہو سکتے ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں لیکن ایسی عالمگیر ملت قائم و دائم رہ سکتی ہے محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رسالت کے مقصد کی تکمیل ہو گئی۔ اس پر اب کوئی انسان بنیادی حقائق کا اضافہ نہیں کر سکتا۔ جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم النبیین ہیں اسی طرح ان کی امت خاتم الامم ہے۔ اس کے علاوہ جو ملتیں قائم ہوں گی وہ آئین فطرت کے خلاف ہوں گی یا جغرافیائی ہوں گی، یا نسلی، یا لسانی۔ ان میں سے کسی کو بقا حاصل نہیں ہو سکتی۔ حق کے مقابل میں باطل کی عمر نہایت قلیل ہوتی ہے۔ اب کوئی نئی نبوت اس سے وسیع تر وحدت پیدا نہیں کر سکتی۔ البتہ کسی جدید دعواے نبوت سے انسانوں میں مزید تفریق و تفرقہ پیدا ہو سکتا ہے :
لا نبی بعدی ز احسان خدا است
پردۂ ناموس دین مصطفی است


قوم را سرمایہ قوت ازو
حفظ سر وحدت ملت ازو


دل ز غیر اللہ مسلمان می کند
نعرۂ لا قوم بعدی، می زند
اس عقیدے کی نسبت یہ اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ مسلمان تمام نوع انسان تو نہیں۔ مسلمانوں کی باہمی اخوت رنگ و نسل و وطن سے بالاتر سہی، لیکن دنیا کی کثیر آبادی تو ان سے باہر ہے، اس لیے اسلام کی اخوت عالم گیر اخوت تو نہ ہوئی۔ یہی اعتراض اسرار خودی کے انگریز مترجم پروفیسر نکلسن نے کیا تھا۔ اس کا جواب اقبال نے نہایت مدلل اور مسکت دیا تھا کہ اسلام کا مقصود عالم گیر محبت و اخوت ہے لیکن جب تک ایک ملت اس کی مثال قائم نہ کرے اور دوسروں کے لیے نمونہ نہ بنے، تب تک اخوت کی حدیں وسیع نہیں ہو سکتیں۔ اقبال نے اس جواب میں اپنا پختہ یقیں بیان کیا کہ میرے نزدیک امت محمدیہ کا خاص مشن یہی ہے کہ وہ عالم گیر اخوت کے اصول کو عملی جامہ پہنائے۔ چنانچہ رموز بے خودی میں اس مضمون کے لیے ایک خاص عنوان قائم کیا ہے، در معنی ایں کہ مقصود رسالت محمدیہ تشکیل و تاسیس حریت و مساوات و اخوت بنی نوع آدم است۔ اس عنوان کے تحت یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام کا پیغام تمام نوع انسان کے لیے آزادی، برابری اور برادری کا پیغام ہے۔ اسلام نے جو کچھ تلقین کی اور اپنی خالص حالت میں جو معاشرت، معیشت اور سیاست پیدا کی اس نے تمام انسانوں کی گردنوں میں سے طوق اور دست و پا سے غلامی اور استبداد کی زنجیریں توڑ دیں۔ انسان انسانوں کی پوجا کرتے تھے۔ ارباب من دون اللہ معبود بنے ہوئے تھے۔ لا قیصر و کسریٰ کا اعلان اسلام نے کیا۔ کاہن و پایا و سلطان و امیر سب مل کر انسانوں کا شکار کرتے۔ کلیسا جنت کے پروانے ابلہان فریب خوردہ کے ہاتھ بیچتا تھا۔ برہمن نجات کے کمیشن ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ مذہب استحصال جاہ و مال کا آلہ بن گیا تھا۔ فطرت انسانوں کو آزاد پیدا کرتی تھی، لیکن وہ مہد سے لحد تک طرح طرح کے توہمات اور استبداد کی زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ خدا نے جو امانت آدم کے سپرد کی تھی وہ اس سے چھن چکی تھی۔ جب زبونی حال اس درجے کو پہنچی تو رحمت حق جوش میں آئی اور حق بحق دار سپردن کا دور شروع ہوا۔ یہ اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ہوا جس کو اس کے ہم وطن لوگ نبوت سے قبل بھی امین کہتے تھے:
تا امینے حق بہ حق داراں سپرد
بندگان را مسند خاقان سپرد
اب مکرم و معظم ہونے کا ایک ہی معیار رہ گیا، ان اکرمکم عندا للہ اتقاکم، جو سیرت میں افضل ہے وہی سردار ہے، خواہ وہ ایک نادار حبشی ہی ہو۔ انسانیت کے لیے یہ کام اور کس نے کیا؟ فقط حریت و اخوت و مساوات کے نعرے لگاتے رہے تاکہ اس دھوکے سے عوام کا شکار کرتے رہیں۔ محنت کش کسان اور مزدور کے لیے الکاسب حبیب اللہ کس نے کہا؟ یہ تمام اصنام کہن اسلام نے توڑے۔ یہ کسی ایک ملت پر احسان نہ تھا بلکہ تمام انسانیت میں ایک تازہ جان آفرینی تھی:
تازہ جان اندر تن آدم دمید
بندہ را باز از خداونداں خرید
اسلام صحیح معنوں میں انقلاب تھا، وہ دنیائے کہن کی موت او رعالم جدید کی تکوین تھی۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر قسم کا جبر ممنوع ہو گیا۔ حریت و مساوات کی تحریکیں عصر نو میں بھی پیدا ہوئی ہیں، لیکن تاریخ انسانی میں یہ تمام تقاضے اسلام کے منشور میں داخل ہو کر پہلے پہل منصہ شہود پر آئے:
حریت زاد از ضمیر پاک او
ایں مے نوشیں چکید از تاک او


عصر نو کایں صد چراغ آوردہ است
چشم در آغوش او وا کردہ است
جس اسلام نے کل مومن اخوۃ کہا، اسی نے تمام نوع انسان کی وحدت کی حقیقت کا بھی انکشاف کیا کہ تمام انسان، مرد و زن گورے کالے، امیر و غریب ایک نفس واحد کے اعضا ہیں۔ اخوت اور مساوات اسلام کی نہاد میں ہیں۔ جو کوئی جس حد تک اخوت، مساوات اور حریت کو لائحہ عمل بناتا ہے اسی قدر وہ مسلم و مومن ہے۔
اس کے بعد تاریخ اسلام سے مساوات ورزی کی کچھ مثالیں بیان کی ہیں۔ ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کا سپہ سالار جابان گرفتار ہو گیا۔ اس نے یہ نہ بتایا کہ میں کون ہوں اور ایک معمولی سپاہی سے امان طلبی کی۔ اس نے اسے امان دی اور وعدہ کیا کہ تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ جنگ کے ختم ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ اول نمبر کا جنگی مجرم ہے۔ سب نے ابوعبیدہ سپہ سالار سے کہا کہ اس کو قتل کرنا لازمی ہے۔ ابوعبیدہ سپہ سالار عسکر اسلامی نے کہا کہ اے مسلمانو! ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک کا وعدہ سب کا وعدہ ہے۔ امان دینے والا معمولی سپاہی سہی لیکن ہماری ملت کا فرد ہے۔ ہمیں اس کا پاس ہونا چاہیے۔ ملت کی یک آہنگی بڑے سے بڑے جبار قاتل کے قتل کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے:
نعرۂ حیدر نواے بوذر است
گرچہ از حلق بلال و قنبر است


ہر یکے از ما امین ملت است
صلح و کینش صلح و کین ملت است
اس کے بعد سلطان مراد اور معمار کا قصہ بیان کیا ہے۔ ایک معمار کی تعمیر سلطان کو پسند نہ آئی اور خشم گین ہو کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس نے قاضی کے ہاں نالش کی۔ قاضی نے سلطان کو عدالت میں طلب کیا۔ ایک طرف معمار دست بریدہ و ستم رسیدہ فریادی ہے اور دوسری طرف ایک وسیع مملکت کا شہنشاہ شرمندہ کھڑا ہے۔ سلطان نے جرم کا اقبال کیا۔ قاضی نے کہا کہ از روے قرآن قصاص واجب ہے۔ شریعت سلطان اور معمولی انسان کے حقوق و فرائض میں فرق روا نہیں رکھتی:
عہد مسلم کمتر از احرار نیست
خون شہ رنگیں تر از معمار نیست
سلطان نے اپنا ہاتھ پیش کیا کہ قصاص میں اس کو کاٹ دیا جائے۔ مدعی نے کہا کہ خدا نے قصاص کا حکم بھی دیا ہے لیکن عدل و احسان کو افضل قرار دیا ہے:
گفت از بہر خدا بخشیدمش
از براے مصطفیؐ بخشیدمش


یافت مورے رب سلیمانے ظفر
سطوت آئین پیغمبر نگر


پیش قرآن بندہ و مولا یکے ست
بوریا و مسند دیبا یکے ست
حریت کی مثال میں اقبال نے امام الشہداء حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے جگر گداز واقعے کو نظم کیا ہے۔ اسلام نے شہنشاہی اور سلطانی کا خاتمہ کر کے انسانوں کی حریت کو محفوظ کیا تھا، کیوں کہ مطلق العنان سلطانی جو عادل و ظالم، عاقل و احمق کو ورثے میں ملتی رہے ہر قسم کے استبداد کا مسموم سرچشمہ ہوتی ہے۔ خلافت راشدہ تک حریت کا یہ عالم تھا کہ معمولی فرد بھی خلیفہ پر نالش کر کے اس کو عدالت میں پیش ہونے پر مجبور کر سکتا تھا اور عورتیں مجمع عام میں امیر المومنین سے معمولی باتوں میں بھی باز پرس کرتی تھیں اور اس کے کسی غیر قرآنی فتوے کے خلاف احتجاج کرتی تھیں۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) جیسے بارعب خلیفہ سے بھی کوئی مرعوب نہ ہوتا تھا بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھے۔ مساوات و حریت کا یہ نمونہ چشم آفتاب نے اس دنیا کی سطح پر پھر کبھی نہ دیکھا۔ اس نظام حریت پر سب سے کاری ضرب امیر معاویہ نے لگائی اور یہ ضرب ایسی تھی کہ آج تک مسلمانوں کی سیاست اس سے مجروح ہے۔ امیر معاویہ اپنے سے یزید کو جس کے عاقل و عادل یا منطقی ہونے کی ملت قائل نہ تھی اور جسے اکابر ملت کبھی اس کی سیرت کی وجہ سے امیر المومنین منتخب نہ کرتے، ولی عہد مقرر کر دیا اور جبر و زجر سے اس کی جانشینی کو تسلیم کرایا۔ خلافت سلطنت میں تبدیل ہو گئی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہی قیصریت واپس آ گئی جس کی بیخ کنی اسلام کا فرض اولین تھا۔ ایک مرد مجاہد و حق پرست، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) و بتول کا پروردہ آغوش اور حیدر کرار کا فرزند ارجمند، اس حریت کشی اور اسلام سوزی کو برداشت نہ کر سکا۔حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے استبدادی سیاست کے خلاف حق کا علم بلند کیا اور حریت کی حفاظت میں اپنی اور اہل و عیال کی جانیں قربان کر دیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ آج تک اس پر ماتم کرتا ہے۔ لیکن اس امام احرار کی حریت پروری اور استبداد کشی کو کسی نے اپنا مسلک نہ بنایا۔ حریت کی حفاظت کے لیے سینہ زنی نہیں بلکہ سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے۔
عقل و عشق کا موازنہ اقبال کا ایک خاص مضمون ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے ذکر میں بھی شروع میں پندرہ اشعار عقل حیلہ جو کی تحقیر اور عشق کی مدح میں ہیں۔ اس موازنے میں نہایت لطیف نکات پیدا کیے ہیں۔ اقبال کا مقصود یہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ کے اندر عشق کی جذبہ انگیزی اور قوت ایثار کا نقشہ کھینچا جائے۔ اگر حضرت امام حسینؓ میں صرف عقل مصلحت اندیش ہوتی تو کمزور ایمان والے مسلمانوں کی طرح وہ بھی خاموشی سے یزید کی ولی عہدی کو تسلیم کر لیتے۔ حریت اور عشق ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ حضرت سید الشہداء حریت کی حمایت میں انتہائی قربانی پر آمادہ ہوئے۔ یہ جذبہ بھی زندگی کے اعلیٰ اقدار کے عشق ہی کا مظہر ہے:
عشق را آرام جاں حریت است
ناقہ اش را سارباں حریت است
دنیا ہمیشہ خیر و شر کی قوتوں کا میدان کار زار رہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام و فرعون اور حسین (رضی اللہ عنہ) و یزید زندگی کی دو مختلف قوتوں کے نمائندے ہیں۔ خلافت کو سلطنت بنا دینا گویا موسیٰ علیہ السلام کے خلاف فرعون کی حمایت کے مترادف تھا:
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
حریت کا علم بردار سربکف اٹھا: وہ انسانیت کے لیے ایک سحاب رحمت تھا:
بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت


تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد


ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونے سرش افگندہ نیست
علامہ اقبال اپنی شاعری کی ابتداء میں وطنیت کے ترانے الاپ کر بصیرت اندوزی کے بعد اس بت پرستی سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ اس انقلاب نظر کے بعد انہوں نے فارسی اور اردو میں وطن پرستی کے خلاف ایک مسلسل جہاد کیا۔ رموزبے خودی میں بھی یہ مضمون ایک خاص انداز میں موجود ہے۔ اس سے پہلے وہ کہہ چکے ہیںکہ ملت اسلامیہ ایک ابد قرار ملت ہے کیونکہ اس کی تعلیم حیات ابدی کی تعلیم ہے اور اس کے اصول فطرت کے اصول ہیں جن کی نسبت قرآن میں ارشاد ہے:
’’ فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا۔ لا تبدیل لخلق اللہ‘‘
اس سے لازم آتا ہے کہ اس ملت کی کوئی نہایت زمانی نہ ہو۔ اس کے بعد علامہ فرماتے ہیں کہ لازمانی ہونے کی طرح یہ ملت لامکانی بھی ہے یہ کسی خطہ ارض کے ساتھ وابستہ نہیںـ:
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا


قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
یہ بانگ درا وہی ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہے جس سے ماوریٰ کوئی حقیقت نہیں۔ مسلمان کا وطن اسلام ہے جس طرح ایک مقتدر اصحابی نے اپنا نسب اسلام بتایا تھا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک روحانی نظریہ ہے اور اس خاک دان سے اس کا کوئی لازمی رشتہ نہیں :
قلب ما از ہند و روم و شام نیست
مرزبوم او بجز اسلام نیست
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حضرت کعب نے قصیدے میں سیف الہند کہا جو فولاد کی خوبی اور تیزی کے لیے مشہور تھی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا کہ سیف الہند نہیں سیف اللہ کہو۔ اس سے اقبال نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور اسلام کو کسی خطہ ارض کے ساتھ وابستہ کرنا پسند نہ فرماتے تھے۔ اسی طرح اس دنیائے ارض کو ایک مشہور حدیث میں دنیا کم یعنی دنیا کہا ہے۔ جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں اس عالم خاکی کا باشندہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ یہاں چند روزہ مہمان اور مسافر تھے۔ ہجرت میں بھی یہ تعلیم مضمر تھی کہ اسلام کے مقابلے میں وطن کوئی چیز نہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمام روے زمین کو مسجد کہا۔ زمین کا کوئی مخصوص ٹکرا یا مخصوص معبد ہی خدا کا گھر نہیں ۔ جس طرح خدا کسی خطے میں محصور نہیں اسی طرح بندۂ خدا کے لیے شرق و غرب برابر ہیں۔ ’’ للہ المشرق والمغرب‘‘ فاینما تولو افثم وجہ اللہ خدا نے جس کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا اس کو مکے سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ مکے میں رہتے ہوئے بھی خدا دشمنوں کا قلع قمع کر سکتا تھا۔ ہجرت فقط وطن پرستی کے خلاف ایک موثر تلقین تھی:
صورت ماہی بہ بحر آباد شو
یعنی از قید مقام آزاد شو


ہر کہ از قید جہات آزاد شد
چوں فلک درشش جہت آباد شد
اسلام کا مقصود نوع انسان کی وحدت ہے۔ مغرب کی قومیت پروری اور وطن پرستی نے جغرافیائی حدود کے ادھر اور ادھر رہنے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔ اب مجلس اقوام بنا کر اس مہلک بیماری کا علاج کرنا چاہتے ہیں لیکن اصل علاج تب ہو گا جب مجلس اقوام کی جگہ مجلس انسان بنے گی۔ موجودہ مجلس میں تو اقوام ہی کی رسہ کشی اور حیلہ سازی نظر آتی ہے اور ظاہری کوشش صلح گرگ آشتی ہے۔ اصل خلل زاویہ نظر میں ہے:
آں چناں قطع اخوت کردہ اند
بر وطن تعمیر ملت کردہ اند


مردی اندر جہان افسانہ شد
آدمی از آدمی بیگانہ شد


روح از تن رفت و ہفت اندام ماند
آدمیت گم شد و اقوام ماند
مغرب میں دین کو کچھ مادیت نے سوخت کیا او رکچھ وطنیت نے جو مادیت ہی کی ایک صورت ہے۔ وطن پرستی اور مملکت پرستی نے مغرب میں شیطان کا ایک مرسل بھیج دیا۔ جس کا نام میکیا ویلی ہے۔ اس نے یہ تلقین کی کہ وطن اور مملکت کی حمایت اور قوت افزائی کے لیے عدل و اخلاق کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ فرنگ اسی مرسل شیطان کے صحیفے کا معتقد اور اسی پر عامل ہے۔ فرنگیوں کے ہاں مملکت معبود بن گئی ہے۔ مسلمانوں نے بھی اگر اس کی تقلید کی تو وہ بھی دین سے بیگانہ ہو جائیں گے۔
اس کے بعد اقبال پھر اس خیال کی طرف عود کرتا ہے کہ ملت اسلامیہ کبھی زمانے کی دستبرد سے کالعدم نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم نے امتوں کے متعلق ایک کلیہ بیان کیاہے ’’ ولکل امتہ اجل۔ اذا اجلھم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقد مون‘‘ اقبال کہتا ہے کہ ملت اسلامیہ اس کلیہ سے مستثنیٰ ہے۔ جن امتوں کو از منہ ماضیہ میں اجل آئی یا آئندہ اجل کا شکار ہونگی ان کی اساس ابدی حقائق پر نہ تھی۔ اگر اسلام کا چراغ کفر کی پھونکوں سے بجھ نہیں سکتا تو لازم ہے کہ اس پر کاربند امت کا چراغ حیات بھی ہمیشہ روشن رہے:
گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد
از اجل فرماں پذیرد مثل فرد


امت مسلم ز آیات خداست
اصلش از ہنگامہ قالو بلی است


از اجل ایں قوم بے پرواستے
استوار از نحن نزلناستے
تیرہ چودہ صدیوں میں ملت اسلامیہ پر قیامت خیز آفتیں آئیں، کبھی اپنے اعمال کی پاداش میں اور کبھی حوادث روزگار سے، لیکن اس کی راکھ میں جو چنگاریاں تھیں ان کی بدولت پھر نئے سرے سے حرارت حیات پیدا ہوتی رہی۔ یورش تاتار سے نہ صرف بغداد بلکہ عالم اسلامی کے بیشتر حصے میں ایسی قیامت نازل ہوئی جو روما پر وحشی اقوام کے حملوں سے بھی طاری نہ ہوئی تھی۔ کفار، خلافت کے جذے اور روح کو ٹھکرا کر مسند نشین ہو گئے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کا چراغ بجھ گیا ہے، لیکن دیکھتے دیکھتے یہی آتش تاتار گلزار ابراہیم بن گئی:
آتش تاتاریاں گلزار کیست
شعلہ ہاے او گل دستار کیست
تاریخ اسلام میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ مسلمان ایک طرف کمزور اور بے بس ہوئے تو دوسری طرف ان کا غلبہ ہو گیا۔ اندلس میں ان کا دور دورہ ختم ہو گیا تو مشرقی فرنگ میں ترکوں نے اسلام کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ادھر ترک مشرقی یورپ میں سے نکلے تو دور حاضر میں ایک طرف پاکستان جیسی عظیم الشان اسلامی مملکت قائم ہو گئی، دوسری طرف مشرق اقصیٰ میں انڈونیشیا میں ایک کثیر التعداد اسلامی ملت آزاد ہو گئی:
شعلہ ہاے انقلاب روزگار
چوں بباغ ما رسد گردد بہار
تاریخ عالم نے کئی عظیم القوت ملتوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا لیکن:
در جہاں بانگ اذاں بود است و ہست
ملت اسلامیاں بود است و ہست


ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
(حافظ)
اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ ملت کی صورت بندی آئین سے ہوتی ہے اور ملت اسلامیہ کے آئین کا مخزن قرآن حکیم ہے:
دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
٭٭٭
ملتے را رفت چوں آئین ز دست
مثل خاک اجزاے او از ہم شکست
قرآن نے اسلام کو دین فطرت قرار دے کر ’’ لا تبدیل لخلق اللہ‘‘کے اصولوں کے مطابق جو سرمدی حقائق حیات بیان کیے ہیں وہ زمانے کے تغیرات کی پیداوار نہیں اور نہ مرور ایام سے ان میں کہنگی پیدا ہو سکتی ہے اسی آئین کو قرآن حکمت بھی کہتا ہے، اور حکمت کے مفہوم میں کلیت اور زمان و مکان سے ماورائیت داخل ہے:
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لا یزال است و قدیم
اس کی تعلیم غلاموں کو احرار بنا دیتی ہے اور ضعیفوں کو قوت بخشتی ہے۔ اس نے ارتقاء کی راہیں کشادہ کر دی ہیں۔ اسی کی بدولت ان پڑھ صحرائیوں نے دنیا میں علوم و فنون کا چراغاں کر دیا۔ موحد بچوں کے سینے بھی اس امانت کے امین ہیں جسے دست و جبل نے زہرہ گداز سمجھ کر قبول نہ کیا تھا۔ تاریخ عالم میں صحرائی اور کوہستانی وحشیوں کے ٹڈی دل کئی مرتبہ متمدن دنیا پر نازل ہوئے۔ مگر پرانی تہذیبوں کے تاخت و تاراج کے بعد حیات انسانی میں کوئی وسعت اور ثروت افکار و اقدار پیدا نہ کر سکے۔ لیکن ان صحرائیوں نے قرآن سے فیض اور قوت حاصل کر کے قیصر و کسریٰ کے تخت ہی نہیں الٹے بلکہ انسانوں کو غلامی کی زنجیروں اور توہمات کے طوق سے آزاد کیا۔ اس وقت جو ملت اسلامیہ میں ضعف نظر آتا ہے تو اس کی وجہ قرآن سے تغافل ہے۔ اب قرآن سے کسی کو وجد نہیں آتا لیکن جامی اور عراقی کی غزلیں قوامی میں چنگ و رباب کے ساتھ گائی جائیں تو ایک جھوٹا جوش اور مستی پیدا ہو جاتی ہے:
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن


صوفی پشمینہ پوش حال مست
از شراب نغمہ قوال مست


آتش از شعر عراقی دل دلش
در نمی سازد بقرآن محفلش
خطیب کا کام اب فروعات کی جنگ ہے۔ ضعیف و شاذ و مرسل حدیثوں کی بحث میں قرآن طاق نسیاں پر دھرا رہتا ہے۔ احادیث میں غلو نے یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بنا دیا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک:
از خطیب و دیلمی گفتار او
با ضعیف و شاذ و مرسل کار او
قرآن اب یابے سمجھے طوطے کی طرح رٹا جاتا ہے یا کسی مسلمان کی وفات پر ملا حلوا مانڈا اجرت میں لے کر اس کے دو ایک سپارے بڑی سرعت سے پڑھ جاتا ہے یا پھرل فال کے لیے استعمال ہوتا ہے یا تبر کا بیمار کو اس کے اوراق کی ہوا دی جاتی ہے۔’’ فاعتبرو یا اولیٰ الابصار‘‘
اس کے بعد ایک مضمون ہے جو بظاہر اقبال کی عام تلقین کے منافی معلوم ہوتا ہے، لیکن در حقیقت اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اقبال نے بالتکرار سینکڑوں اشعار میں تقلید کی مذمت کی ہے اور تحقیق کی رغبت دلائی ہے۔ اجتہاد کے متعلق اقبال کے تصورات خطبات اور اشعار میں ایسے ملتے ہیں جن کو پڑھ کر مقلدوں کو اس کی جرأت پر حیرت ہوتی ہے۔ لیکن اقبال جب ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے کوئی گروہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جو اسلامی روح کے مطابق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو، او رجو لوگ اجتہاد کی جرأت کرتے ہیں وہ آزاد خیالی میں یا تقلید فرنگ میں اسلام سے دور جا پڑتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں ایسے خام مدعیان اجتہاد کی بجائے اسلاف کی تقلید بہتر ہے۔ بچوں کی عقل جب تک علم اور تجربے سے پختہ نہیں ہوتی تب تک ان کی تربیت کا مدار تقلید پر ہوتا ہے۔ اس انحطاط کے دور میں بھی اقوام عقل و حکمت کے بارے میں طفل نابالغ بن جاتی ہیں یا پیر فرتوت کی طرح جدت افکار و اعمال کے ناقابل ہو جاتی ہیں۔ جب قوم میں زندگی کے چشمے خشک ہو جائیں تو وہ روایت پرست اور مقلد ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ تقلید اور روایت پرستی میں کسی ہمت اور جرأت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مسلمانوں میں اس وقت ایک طبقہ جامد اور کورانہ تقلید اسلاف میں زندگی کی ارتقائی کوششوں کے لیے نااہل ہو گیا ہے اور دوسرا طبقہ مغرب زدہ روشن خیالوں کا ہے، جن کے لیے تہذیب جدید کا ہر نظریہ اور ہر طرز عمل سند ہے۔ یہ آزاد خیالی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن در حقیقت یہ بھی مقلد ہی ہیں۔ جب تک قوم میں نئی زندگی ابھرنے کے سامان پیدا نہ ہوں تب تک ہر طرف مقلد ہی مقلد نظر آئیں گے۔ اگر تقلید ہی کو شیوہ بنانا ہے تو پھر اپنے اسلاف کی تقلید اغیار کی تقلید سے بہتر ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ عہد حاضر کے فتنوں نے ہماری ملت کو اپنے جلوؤں سے چند ھیا دیا ہے اور ہمارے باطن کی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے:
جلوہ اش ما را ز ما بیگانہ کرد
ساز ما را از نواپیگانہ کرد


ازل دل ما آتش دیرینہ برو
نور و نار لا الٰہ از سینہ برو


مضمحل گردد چو تقویم حیات
ملت از تقدیر می گیرد ثبات
ماضی کی معتقدانہ تقلید سے جوے کم آب ہی ملے گی جو ہماری زندگی کو پوری طرح سیراب نہیں کر سکتی لیکن جب دریا ریگستان میں گم ہو گیا تو بچی کھچی چھوٹی سی نہر ہی کی حفاظت کریں:
بحر گم کردی زیاں اندیش باش
حافظ جوے کم آب خویش باش
تقلید کی یہ تلقین ایک مردہ قوم کے لیے ہے۔ اقبال ملت اسلامیہ کو دور حاضر میں مردہ ہی سمجھتا ہے، اگرچہ اس کے احیا سے نا امید نہیں۔ اب یہی بہتر ہے کہ اللہ اللہ کرو اور طرز فکر و عمل میں کسی گذشتہ امام کی تقلید ہی کر لو، لیکن یہ تقلید خدائے روح نہیں بلکہ مریض میں جو جان کی رمق باقی دکھائی دیتی ہے، اس کو سنبھالنے کے لیے ایک دوا ہے:
اے پریشان محفل دیرینہ ات
مرد شمع زندگی در سینہ ات


نقش بر دل معنی توحید کن
چارۂ کار خود از تقلید کن
یہ نصیحت عوام کے لیے ہے جن میں ہمارے کم علم اور بے بصیرت علماء کا ایک طبقہ بھی داخل ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ اس نصیحت کو اقبال اپنے لیے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا اپنا ذوق تو یہ ہے کہ اجتہاد اور جدت و قدرت میں اگر غلطی بھی سر زد ہو تو وہ اس کی مقلدانہ نیکی پر ترجیح دیتاہے:
تراش از تیشہ خود جادۂ خویش
براہ دیگراں رفتن عذاب است


گر از دست تو کار نادر آید
گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است
٭٭٭
چہ خوش بودے اگر مرد نکو پے
ز بند پاستان آزاد رفتے


اگر تقلید بودے شیوۂ خوب
پیمبرؐ ہم رہ اجداد رفتے
اتباع آئن کی تلقین پر ایک او رنظم ہے جس میں شریعت اسلام کی ماہیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ شریعت اور عشق دونوں کی ماہیت سے ناواقف لوگوں نے ان کو باہم بر سر پیکار سمجھ رکھا ہے۔
درکفے جام شریعت درکفے سندان عشق
یہ بحث اسلام سے زیادہ قدیم ہے۔ موسوی شریعت رفتہ رفتہ اس قدر پیچ در پیچ اور زندگی کے لیے جنجال بن گئی کہ اس کی تفصیل پابندیوں میں روح دین غائب ہو گئی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اس ظاہر پرستی اور شعائر پرستی کی شدت کے اخلاف احتجاج کیا۔ یہودی علماء نے ان پر مخالف شروع ہونے کا الزام لگایا اور ان کو مصلوب کرانے کے درپے ہو گئے۔ ہرچند کہ حضرت مسیح ؑ کہتے رہے کہ میں شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ اس کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ میں تمہیں شریعت کے ظاہر کی نسبت اس کے باطن کی طرف متوجہ ہونے کی تعلیم دیتا ہوں۔ حضرت مسیح ؑ کے بعد پولوس نے شریعت موسوی سے تنگ آ کر یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ مسیح ؑ کی آمد سے محبت نے شریعت کو منسوخ کر دیا ہے۔ عیسوی تاریخ میں اس کے اچھے نتائج نہ نکلے۔ کسی نہ کسی شریعت کی ضرورت تو زندگی کے لیے لابدی ہے۔ جب قسطنطین کے عیسائی ہونے سے مملکت غار نشیں راہبوں کے ہاتھ آ گئی تو ان کو آئین و قوانین وضع کرنے پڑے اور مسیح (علیہ السلام) کی بجائے کلیسا شریعت گر ہو گیا۔
اسلامی شریعت کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اسلامی شریعت کے حقائق سے اچھی طرح آشنا ہو تو اس پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہاں شریعت اور محبت میں کوئی تضاد نہیں اور شریعت کے ہر حکم کی تہ میں محبت ہی کا جذبہ ہے:
علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست
اصل سنت جز محبت ہیچ نیست
اب ہمارے ہاں شریعت کے علم بردار اور مدعی ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے فروعی مناقشات میں محبت کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ غیر مسلموں اور عام انسانوں سے محبت تو درکنار اپنوں میں تفرقہ اندازی حامیان شریعت کا شیوہ بن گیا ہے۔ لعن و طعن اور تشنع کا بازار گرم رہتا ہے۔ شریعت اسلامی کی اساس حکمت بھی ہے اور محبت بھی اور اس کا مقصد انسانوں کی قوتوں میں اضافہ کرنا ہے:
قدرت اندر علم او پیداستے
ہم عصا و ہم ید بیضاستے
اگر مستحب کی ادائیگی میں کوئی شخص یا گروہ مزاحم ہو تو اس کو ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ دشمن اگر مطمئن اور جنگ کے لیے تیار نہ ہو تو اس کو بے خبر اور کمزور پا کر اس پر حملہ آور ہونا حرام ہے۔ چنانچہ سلطان صلاح الدین نے یروشلم پر حملہ کرنے سے پیشتر دشمن کو پیغام بھیجا کہ اگر تم جنگ چاہوتو م؁ں تم کو اپنی قوتوں کو مستحکم اور منظم کرنے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں مہیا کروں گا، لیکن میں صلح کو اپنے لیے اور تمہارے لیے جنگ کے مقابلے میں بہتر سمجھتا ہوں۔ کمزور جانوروں کے شکار سے شکاری خود سست اور پست ہمت ہو جاتا ہے۔ دشمن کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا اصول شجاعت کے خلاف ہے:
نیست میشے ناتوانے لاغرے
در خور سر پنجہ شیر نرے


باز چوں با صعود خوگر می شود
از شکار خود زبوں تری شود
اسلامی شریعت نے رہبانیات کو اس لیے مزموم قرار دیا کہ اسلام سراپاپیغام عمل ہے :
ہست دین مصطفیؐ دین حیات
شرع او تفسیر آئین حیات


صیقلش آئینہ سازد سنگ را
از دل آہن رباید زنگ را
 مسلمان جب عجم میں پہنچے تو ذوق قوت نزاکت اور لطافت میں منتقل ہو گیا۔ شیرافگن مسلمان نواے عندلیب سے بیتاب ہونے لگے، یارگ گل سے بلبل کے پر باندھنے لگے:
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل


آنکہ کشتے شیر را چوں گو سفند
گشت از پامال مورے درد مند


آنکہ از تکبیر او سنگ آب کشت
از صفیر بلبلے بیتاب کشت
عجمی تصورات میں لطافت افکار بھی ہے اور پرواز تخیل بھی اور اس کے فن میں ذوق جمال بھی ہے، لیکن اسلام کی شریعت، بصیرت اور قوت سے اس کو لگاؤ معلوم نہیں ہوتا۔ بیچارے مرزا غالب نے صاف طور پر اقبال کیا کہ میں عجمی نہاد ہوں اس لیے دین عربی میرے دل و دماغ میں نہیں گھستا:
رموز دیں نشناسم عجب مدار ز من
کہ دین من عربی نہاد من عجمی است
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ احمد رفاعی (رحمتہ اللہ علیہ) نے اپنے ایک مرید کونصیحت کی کہ عجمی افکار سے پرہیز کرنا:
با مریدے گفت اے جان پدر
از خیالات عجم باید حذر


زانکہ فکرش گرچہ از گردوں گذشت
از حد دین نبی بیروں گذشت
ایک نظم میں اپنے بچپن کے ایک واقعے کو نظم کیا ہے کہ میں نے ایک سائل کو تنگ آ کر زد و کوب کی۔ والد صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے عجیب موثر انداز میں مجھے تنبیہہ کی کہ اسلام تو شفقت بر خلق کا نام ہے اور اس کا نبی رحمتہ للعالمین ہے۔ جب روز محشر میں سب کے سامنے مجھ سے پوچھا جائے گا کہ اپنے بیٹے کی تو نے یہی تربیت کی تھی کہ وہ ایک سائل بے نوا کو مارے پیٹے تو میں کس قدر شرمندہ ہوں گا۔ قرآن و سنت رحمت و شفقت کی تعلیم ہے:
فطرت مسلم سراپا شفقت است
در جہاں دست و زبانش رحمت است
اقبال نے شمع و شاعر میں ایک شعر کہا تھا:
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات
یہ کبھی شبنم کبھی گوہر کبھی آنسو ہوا
اب اقبال یہ کہتا ہے کہ شبنم اور آنسو بننے سے بہتر ہے کہ قطرہ گوہر بن جائے، لیکن قطرہ آغوش تلاطم میں گوہر بنتا تھا، اس لیے شریعت اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مزاحمتوں اور خطروں پر غالب آ کر انسان اپنے نفس کو قوی بنائے:
قطرۂ نیساں کہ مہجور از یم ست
نذر خاشاکے مثال شبنم است


طینت پاک مسلماں گوہر است
آب و تابش از یم پیغمبرؐ است
اس کے بعد ایک نظم میں اس خیال کی توضیح کی ہے کہ حیات ملیہ کے لیے کوئی مرکز محسوس بھی ہونا چاہیے۔ مسلمان کعبے کے سنگ و خشت کی پرستش نہیں کرتا، لیکن یہ مرکز محسوس شرق و غرب اور شمال و جنوب کے لاتعداد مسلمانوں کے لیے ایک نقطہ جاذب ہے جو حیات ملت میں ہم آہنگی اور وحدت کو ترقی دیتا ہے۔
پہلے زندگی کی ماہیت کے متعلق نہایت حکیمانہ اشعار کہے ہیں کہ حیات رم پیہم ہے مادہ ہو یا نفس اس میں مسلسل روانی اور تغیر احوال ہے۔ زندگی سراپا پرواز ہے، لیکن نشیمن بھی خود ہی بناتی ہے۔عارضی طور پر سکون و جمود کی آفرینش کا مقصد بھی یہی ہے کہ ذوق خرام میں افزائش ہو:
پا بگل گردد حیات تیز گام
تا دو بالا گردوش ذوق خرام


زندگی دو گھڑی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
(میر)
زندگی خود اپنے رشتے میں گرہیں ڈالتی ہے تاکہ گرہ کشائی کی لذت حاصل ہو:
دمبدم مشکل گر و آشان گزار
دمبدم نو آفرین و تازہ کار