تصوف و تزکیہ یا احسان و سلوک لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تصوف و تزکیہ یا احسان و سلوک لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

چیلنج قبول کیجیے اور فاتح بنیے - مرزا یاور بیگ

 ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن فروری ۲۰۲۳م 

زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ (النجم۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔

غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ 'پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔

اصل آزادی کیا ہے؟ : مولانا عبد الماجد دریابادی

اصل آزادی کیا ہے؟ -  عبد الماجد دریا بادی
اصل آزادی کیا ہے ؟  عبد الماجد دریابادیؒ 

اصل آزادی کیا ہے؟


آپ کے دل میں اپنے کسی بزرگ خاندان، استاد، عالم، فقیر، دوست، عزیز، قومی رہبر، مذہبی پیشوا، غرض کسی زندہ یا مردہ شخص کی عزت وعظمت ہے؟ کسی نہ کسی شخص کی یقینا ہوگی۔ اگر ہے تو اپنے دل میں ذرا غور کیجئے ، کہ کس بناپرہے؟ کیا اس بناپر، کہ وہ شخص لباس بہت قیمتی پہنتاہے؟ کیا اس لئے کہ وہ کھانا بہت لذیذ کھاتاہے؟ کیااس بنیاد پر، کہ اس کے پاس روپیہ بہت سا جمع ہے؟ کیا اس لئے کہ اس کے پاس نوکر چاکر بہت سے ہیں؟ کیاس لئے، کہ وہ اپنی دولت رشوت وسود لے کر پیداکرتاہے، اور شراب پینے میں اسے اڑاتاہے؟ کیا اس بناپر، کہ وہ اپنے وقت کا بڑا حصہ ناچ، تھیٹراور سنیما دیکھنے میں صرف کرتاہے؟

سوال خوف ودہشت کی بابت نہیں، صرف عزت، وقعت ، وعظمت کی بابت ہے۔ یعنی آپ کا دل، بغیر کسی ظاہری دباؤ اورمادّی غرض کے، خود بخود جو اس کی تعریف کرتارہتاہے ، اور اس کی بڑائی کو محسوس کرتا رہتاہے، سویہ کس بنا پر ہے؟ کیا اوپر لکھی ہوئی چیزوں میں سے کسی کی بناپر؟ اپنے دل کو خوب ٹٹول کر جواب دیجئے ۔ اور یہ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ عزت ووقعت آپ ہرگز اوپر کی لکھی ہوئی چیزوں میں سے کسی کی بنا پر نہیں کرتے، بلکہ کسی ایسی چیز کی بنا پر کرتے ہیں ، جس کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں باطن سے، باہر سے نہیں اندرسے، نمائش سے نہیں، اصلیت سے ہے۔ آپ کو اپنے قابل عزت ممدوح کی سیرت کا کوئی جزء پسند آگیاہے، اوراسی کا نقش آپ کے دل پر قائم ہے ۔ سچائی ، سادگی، بے نفسی، بلند ہمتی، خلق کی خیرخواہی، بے آزاری، قناعت، فروتنی، شیریں کلامی، غرض اسی قسم کی کوئی نہ کوئی خوبی آپ کے تجربہ میں آئی ہوگی، اور وہی شے آپ کے دل میں اُن بزرگ کی عزت ووقعت قائم کئے ہوئے ہے۔

روح کے نغمے : سید قطب شہید ؒ - مترجم: ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

روح کے نغمے : سید قطب شہید ؒ 
(تاریخ اشاعت : جنوری 2020 ء ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن )

سیّد قطب شہیدؒ (۱۹۰۶ء-۱۹۶۶ء) کی لافانی تحریروں نے لاکھوں دلوں کوگرمایاہے اور ان میں ایمان ویقین کی تازگی پیدا کی ہے۔ ان کی تصانیف کاترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکاہے۔ سیّد قطب شہید کی ایک قیمتی تحریر افراح الروح کے نام سے ہے۔جس میں انھوں نے متعدد ا ہم موضوعات پر اپنے قلبی احساسات کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس تحریر کا اردو ترجمہ ہے۔
سیّد قطب شہیدؒ پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے۔ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء کو ۱۵سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔۱۰ سال کے بعد ۱۹۶۴ء میں انھیں رہائی ملی۔ اس نام نہاد رہائی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ۱۹۶۵ء میں انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور ایک ڈھونگ نما عدالت سے فیصلہ کرواکے ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔یہ تحریر سیّد قطب نے قید وبند کے انھی ایام میں کسی موقعے پر اپنی بہن اورمعروف ادیبہ امینہ قطب کے نام ایک خط کی صورت میں لکھی تھی۔ ۱۵نکات پر مشتمل اس تحریر کے ہر نکتے کو سیّدقطب نے ’خاطرہ‘ کہا ہے۔ واضح رہے کہ ذیلی عنوانات محترم مترجم کے قائم کردہ ہیں۔ ( ادارہ ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن )


پہلا خیال: زندگی کے مقابلے میں موت کی حقیقت


 موت کا تصوربرابر تمھارے فکر وخیال پر چھایارہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو۔ اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو، جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کم زور ، کھوکھلی اور خوف زدہ پاتی ہو۔ تاہم، میرا نقطۂ نظر تمھارے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں، موت کو ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتاہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی، سوائے اس کے کہ اپنی خوراک کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گراپڑا ٹکڑا اٹھالے۔

حسد سے نجات؟۔ ڈاکٹر تابش مہدی


’حسد‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس کے لُغوی معنی کینہ، جلن، ڈاہ، بدخواہی یاکسی کا زوال چاہنے کے ہیں۔ اِصطلاحِ عام میں حسد اُن خداداد نعمتوںاور ترقیات و بلندیِ مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہُنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوئے ہوں۔ یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔ یہ بیماری پست ذہن وفکر رکھنے والوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔

قرآن کریم اور روحانیت ۔ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی


 اللہ کی رضا کا حصول روحانیت کا سب سے بلند مرتبہ ہے۔ اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مضبوط قلبی تعلق مطلوب ہے اور یہی عبادت کی روح ہے۔ جبریل امینؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے ، آنجنابؐ نے پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا:
اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (الجامع الصحیح مسلم) اللہ کی عبادت اس طرح کیجیے کہ گویا آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو اتنی کیفیت پیدا کیجیے کہ خد اآپ کو دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رُوبرو ہونا بندگی کا کمال ہے، مگر اس کیفیت کا دل میں پیدا ہونا پاکیزگیِ  قلب اور انابت کی گہرائی چاہتا ہے۔خدا کو دیکھنے کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے اعضاو جوارح کی تربیت کے ساتھ نفس کا تزکیہ اور دل کی خشیت ضروری ہے ۔ اس سے نیچے کی منزل یہ ہے کہ یہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ خدا ہم کو دیکھ رہا ہے۔ یہ تصور بھی انسان کے دل کو بدل دیتا ہے اور نفس کے شروروفتن کوزائل کر دتیا ہے۔ یہی اخلاص ہے۔

٭اخلاص

ایک مزدور کو اگریہ معلوم ہو کہ اس کا مالک موقعے پر موجود نہیں ہے تو وہ کام میں سستی کرتا ہے، وقت ضائع کرتا ہے اور کام کرتا بھی ہے تو بے دلی سے کرتا ہے، کام کا مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلتا ۔ لیکن اگر کسی مزدور کو یہ معلوم ہو کہ اس کا مالک اس کے سامنے کھڑا ہے تو کام میں چستی دکھاتا ہے ، جی لگا کر کام کرتا ہے اور وقت گذاری سے پرہیز کرتا ہے۔ اسی طرح بندے کو یہ احساس ہو جائے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو اس کے دل کی کیفیت اور جسمانی عمل کی حالت بدل جاتی ہے۔اس کی عبادت میں یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے اور اسی سے اخلاص پیدا ہوتا ہے۔

انسانی زندگی میں نصیب یا مقدر کا دخل - واصف علی واصفؔ

سکون یا اطمینان محنت کا نتیجہ نہیں، یہ نصیب کی عطا ہے۔ اگر انسان کی زندگی میں نصیب، مقدر یا منشائے الٰہی کا دخل نہ ہوتا تو اسباب و نتائج کا رشتہ سائنس کے اصول کی طرح ہمیشہ قائم رہتا۔ لیکن ایسا نہیں۔ اس لیے کہ انسان کے عمل میں فطرت کا دخل ہے، گردشِ روزگار کا دخل ہے، حالاتِ زمانہ کا دخل ہے۔ کوششیں اپنی ذات تک تو نتیجہ دے سکتی ہیں، لیکن جب انسان دوسرے انسان سے متعلق ہوتا ہے تو کوشش کے باوجود متوقع نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ انسان اپنے راستے پر صحیح سفر کررہا ہو تو بھی اُسے کسی اور کی غلط رَوی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ حادثہ، سبب کو نتیجے سے محروم کرنے والے واقعے کا نام ہے اور زندگی حادثات کی زَد میں رہتی ہے۔ یہ چراغ ہمیشہ نامعلوم آندھیوں کی زد میں رہتا ہے۔ اسی طرح اگر نصیب ساتھ دے اور کوئی شعیبؑ میسر آئے تو شبانی کو کلیمی بنادیتا ہے۔ اس میں محنت کا استحقاق نہیں۔ یہ ازلی نصیب ہے۔ یہ قدرت کے اپنے جلوے ہیں، فطرت کی اپنی عطا ہے، مالک کی اپنی منشا ہے۔ ہر محنت کرنے والا بامراد نہیں ہوسکتا۔
دنیا میں بے شمار محنتیں رائیگاں ہوکر رہ گئیں۔ بے شمار مسافر منزلوں سے محروم رہے۔ بے حساب اسباب اپنے نتائج نہ دیکھ سکے۔ کم و بیش ہر انسان زندہ رہنے کے لیے کوشش کرتا ہے، اور زندہ رہنے کی کوشش نے ہی انسان کو موت تک لانا ہے۔ یہ ایسا نتیجہ ہے جو اپنے سبب کے بالکل برعکس ہے۔ زندگی پیدا کرنے والے کا یہ ارشاد ہے کہ وہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے۔ وہ جسے چاہے ملک عطا کرے اور جسے چاہے معزول کردے۔ وہ جسے چاہے بے حساب رزق دے، جسے چاہے اُس کے گناہ معاف فرمادے اور اُس کی سابقہ برائیوں کو اچھائیوں میں بدل دے۔ جسے چاہے، جب چاہے پیدا فرمادے اور جب چاہے اُسے واپس بلالے۔

قرآن کریم اور روحانیت

پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی

انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔جسم ایک مادی وجود ہے جسے آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، ہاتھوں سے چھوا جا سکتا ہے اور حواس کے ذریعے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے، جب کہ روح غیرمادی وجود ہے، جسے نہ تو چھو ا جا سکتا ہے اور نہ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے ، مگر انسان کے وجود کے لیے اس حد تک لازم ہے کہ جسم اس کے بغیر باقی نہیں رہتا بلکہ فنا ہو جاتا ہے۔ روح کا رشتہ جس لمحے جسم سے منقطع ہوتا ہے انسان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور وہ مُردہ قرار پاتا ہے۔ جسم اپنی بقا کے لیے روح کا محتاج ہے۔

سوال یہ ہے کہ روح کیا چیز ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟

عصر حاضر کے مغربی مفکرین روح کو بھی مادّی شے سمجھتے ہیں، یعنی جس طرح جسم مادی وجود ہے اسی طرح روح کو بھی مادی وجود تسلیم کرتے ہیں اور ان دونوں مادوں کے اتصال سے انسانی زندگی قائم رہتی ہے۔ روح سے جدا ہوکر جسم گل سڑ جاتا ہے اور روح بھی فنا ہو جاتی ہے ۔ جرمن فلسفی کانٹ کا کہنا ہے کہ: ’’ہم اپنے وجود کے اندر نہ تو مافوق الشعور شے کو تسلیم کر سکتے ہیں اور نہ اس کے اثرات کا تجربہ کر سکتے ہیں ‘‘۔ (Encyclopedia of Religions and Ethics، نیویارک، ۱۹۵۸ء، جلد xi، ص ۸۳)

بانی درس نظامی ملا نظام الدین ؒ کے والد ماجد ملا قطب الدین سہالویؒ

احمد قاسمی

(بہت کم علما وٖطلباکے علم میں یہ بات ہوگی کہ ایشیا کے زیادہ تر مدارس اسلامیہ میں رائج نصاب "درس نظامی" کے بانی ملا نظام الدین سہالوی ابن ملاقطب الدین سہالوی ہندوستان کےصوبہ اتر پردیش ضلع بارہ بنکی کے ایک قصبہ سہال سےتعلق رکھتے تھے۔ایک مدت سے خاندان شہید قطب کے حالات وواقعات کی جستجو تھی ۔اللہ کے فضل ہے کتاب" بانی درس نظامی "جو کمیاب ہے دستیاب ہوئی ہے ۔کتاب ہذا سے پہلی قسط ہدیہ ناظرین ہے ۔ )

"لٹا ہوا کنبہ جن کا مورث اور سر پرست ،اشقیا کی اچانک یلغار میں اپنے گھر کے اندر گھر والوں کی نگاہوں کے سامنے شہید ہو چکا تھا جب دارالبوار سے مسکن عافیت کی طرف جارہا تھا تو اس میں ایک چودہ سالہ یتیم بھی تھا جو اپنے بڑے بھائی ،والدہ اور چھوٹے بھائی اور بھتیجوں کے ساتھ ایسی سمت گامزن تھا جن کی منزل مقصود خواہ طے پا چکی ہو ،لیکن اس ہجرت اور ترکِ وطن کا مستقبل دھندلے میں تھا ۔

اس یتیم کی، اس آوارہ وطن قافلہ میں اس سے زیادہ کیا اہمیت ہو سکتی تھی کہ ایک مضلوم خاندان کا ایک بچہ جس کا مستقبل پورے خاندان کے مستقبل کی طرح غیر واضح اور غیر یقینی ہے ۔ یہ لٹا ہوا کنبہ ملا قطب الدین شہید سہالوی کاتھا۔

ملا قطب الدینؒ کی شہادت ۱۹ر جب ۱۱۰۳؁ھ(مطابق ۲۷ مارچ ۱۶۹۲ ؁ء کو قصبہ سہالی ضلع بارہ بنکی میں اُس وقت ہوئی جب وہ طلوعِ آفتاب کے بعد اپنی محلسرا کے دیوان خانہ میں جو مدرسہ کہلاتا تھا، درس وتدریس کے لئے بیٹھے تھے ،اور طلباء کی محدود تعداد اُس وقت تک حاضر ہو پائی تھی۔"روزآنہ کے معمول کے مطابق ملاقطب الدینؒ فجر کی نماز اور وظائف سے فارغ ہو کر اپنے مدرسہ میں آئے اور حاضرِ خدمت فاضلین کو درس دینے میں مشغول ہوگئے ، جب دو گھڑی دن گزر چکا تھا اچانک اسداللہ جو آس پاس کے زمیندار ہیں ،آئے اور ملا صاحب کےمکان کا محاصرہ کر لیا ،چاروں طرف سے دیواروں میں نقب لگا کر گھر کے اندر گھس آئے ،ملا صاحب کو "تبر" کا ایک زخم ، گولی کا ایک زخم اور چہرے پر تلوار کے سات زخم پہنچائےاور ان کو شہید کر ڈالا ، زبدۃ الاولیاء بندگی شیخ نظام الدین ساکن امیٹھی کی اولاد میں شیخ غلام محمد اور سندیلہ کے شیخ عزت اللہ بھی جو فاتحۃ الفراغ پڑھنے کے لئے حاضر خدمت تھے ، مذکورہ ظالموں کے ہاتھ شہید ہوئے ، پرگنہ سہالی کے چو دھری محمد آصف جو ملا صاحب کی مدد کیلئے ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے اپنے ہمرائیوں سمیت شہید ہوئے ، فدوی محمد سعید (فرزند دوم ، ملا قطب الدین شہید ) اور کچھ طلباء نیز پر گنہ سہالی کے قاضی عبد اللہ کے بھائی اور نائب فضل اللہ بھی اس ہنگامہ میں زخمی ہوئے"

روضۂ نبویؐ پر

نوٹ : روضۃ نبوی ﷺ پر حاضری کے واقعات اور کیفیات  کو ہمارے اکثر دانشورں  شاعروں اور علماء کرام نے قلم بند کیا ہے ،  ہم برصغیر کے چند  مشاھیر کی تحریرکردہ  حاضری کی کیفیات یہاں نقل کررہے ہیں ۔

٭ سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ

جدے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے ، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت غزوات اور سرایا ہوئے۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقامات دیکھے ، اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے،لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے۔ اسی افسوس ناک صورتِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا۔ کاش، سعودی حکومت اس معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرے، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے۔

تاریخِ اسلام کے اہم ترین مقامات جن کو ہم سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے عہد ِ تاریخ میں پڑھتے ہیں، اور جن کے دیکھنے کی ہمیں مدت سے تمنا تھی، ان میں سے کسی بھی جگہ کوئی کتبہ لگا ہوا نہ پایا،جس سے معلوم ہوتا کہ یہ فلاں جگہ ہے، حتیٰ کہ حدیبیہ جیسا مقام بھی اس علامت سے خالی ہے، اور بدر جیسے مقام پر بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ بدر ہے۔

۲۷جولائی [۱۹۵۶ء] کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، اور اگلے روز تقریباً مغرب کے وقت وہاں پہنچے۔ راستے میں بدر سے گزر ہوا، لیکن حج کے زمانے میں انسان کچھ اس طرح قواعد و ضوابط سے بندھا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں جانا ، اور کہیں ٹھیرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے دلی تمنا کے باوجود وہاں ٹھیرنا ممکن نہیں ہوا۔

ذوق تجسُّس

محمد تہامی بشر علوی

ماہنامہ اشراق 
 تاریخ اشاعت: جولائی 2018 

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے کائنات کی ہر چیز انوکھی ہی ہوتی ہے۔ وہ حیرت میں گھرا رہتا ہے کہ یہ کیسے جہاں اور کس بستی میں پہنچ گیا ہوں میں؟ اس کے بعد جب وہ گفتگو کرنا شروع کرتا ہے تو وہ اپنی حیرت کا اظہار مختلف طریقوں سے کر رہا ہوتا ہے۔ وہ جس چیز کو دیکھتا ہے، اس کے بارے میں پوچھنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اسے چھونا چاہتاہے، وہ ٹٹول کر جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔اس کے لیے یہ سب کائنات بڑی عجیب و غریب سی ہوتی ہے۔ کوئی پرندہ اڑتا ہوا دیکھے گا تو پوچھے گا: یہ کیا چیز ہے ؟یا گاڑی باہر سے گزر جائے اور ہارن بج جائے تو وہ تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہے اور کیسے ہو رہا ہے؟ باہر نکلے گا تو چاند کو دیکھ کر پوچھے گا کہ یہ کیا چیز ہے؟ وہ ہر ہر چیز کے بارے میں ایک تجسس لیے ہوئے ہو گا۔ اس کی فطرت میں چیزوں کے جاننے کی تمنا انگڑائی لے رہی ہو گی۔ نظر آنے والی چیزوں سے بے خبری اسے بے چین کرے گی۔ اس کا چین تب بحال ہو گا، جب اسے اس نا معلوم کی معلومات حاصل ہو جائے۔ آپ موبائل چھوٹے بچے کے سامنے رکھ دیں اور اس کے تجسس کا بغور مشاہدہ کریں۔ آپ ملاحظہ کرتے جائیں کہ وہ کیسے اس موبائل میں گھسے گا، کس طرح الٹ پلٹ کر اس کو جاننا چاہے گا، کس طرح اس کو ٹٹول ٹٹول کروہ اس کو سمجھنا چاہے گا۔ کہیں کوئی پرندہ بول جائے تو اس کے اندر حیرت کا سمندر موجزن ہو جائے گا۔ وہ جاننا چاہے گا اور پوچھے گا کہ یہ حیرت ناک آواز کیا ہے؟ وہ چھپکلی کو دیکھے گا تو بڑا حیران ہو گا۔

کامیاب زندگی کا سب سے بڑا راز

ابوالبشر احمد طیب 

ہماری زندگی دراصل وقت ہی ہے ۔ جس طرح ہماری زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔اسی طرح وقت کا بھی کوئی نعم البدل نہیں۔ وقت کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے او ر نہ ہی فروخت کیا جا سکتا ہے ۔ اسے نہ تو کرایہ پر لے سکتے ہیں اور نہ ہی کرائے پر دے سکتے ہیں ۔ اور نہ ہی مقررہ وقت ( زندگی) سے زیادہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ وقت ہر انسان کی اپنی متا ع ہے ، ہر انسان جو صبح اٹھتا ہے ، چاہے وہ غریب ہو یا امیر ، چھوٹا ہو یا بڑا اسے چوبیس گھنٹے کی فرصت مل جاتی ہے۔ یہ چو بیس گھنٹے اپنے بہترین مفاد میں استعمال کر سکتا ہے ۔ اور ضائع بھی کر سکتا ہے۔ غرض وقت وہ قیمتی سر مایہ ہے ، جو ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکساں عطا ہو ا ہے ۔ جو لوگ اس قیمتی سرمایہ کو کا م میں لا تے ہیں کامیابیوں سے بھر پو زندگی گزار تے ہیں ۔ وقت کے صحیح استعمال سے ایک جاہل عالم بن جا تا ہے ، ایک مفلس مالدار ہوجا تا ہے ۔ ایک گم نام شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جا تا ہے ۔


جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس میں مختلف سورتوں کے آغاز میں وقت کی قسم کھا ئی ہے ۔ جیسے والعصر (زمانہ کی قسم )و الیل (رات کی قسم )، والنہار (دن کی قسم ) ، والفجر (فجر کی قسم) ولیال عشر (دس راتوں کی قسم )، والضحی (چاشت کے وقت کی قسم )