اصل آزادی کیا ہے؟ : مولانا عبد الماجد دریابادی

اصل آزادی کیا ہے؟ -  عبد الماجد دریا بادی
اصل آزادی کیا ہے ؟  عبد الماجد دریابادیؒ 

اصل آزادی کیا ہے؟


آپ کے دل میں اپنے کسی بزرگ خاندان، استاد، عالم، فقیر، دوست، عزیز، قومی رہبر، مذہبی پیشوا، غرض کسی زندہ یا مردہ شخص کی عزت وعظمت ہے؟ کسی نہ کسی شخص کی یقینا ہوگی۔ اگر ہے تو اپنے دل میں ذرا غور کیجئے ، کہ کس بناپرہے؟ کیا اس بناپر، کہ وہ شخص لباس بہت قیمتی پہنتاہے؟ کیا اس لئے کہ وہ کھانا بہت لذیذ کھاتاہے؟ کیااس بنیاد پر، کہ اس کے پاس روپیہ بہت سا جمع ہے؟ کیا اس لئے کہ اس کے پاس نوکر چاکر بہت سے ہیں؟ کیاس لئے، کہ وہ اپنی دولت رشوت وسود لے کر پیداکرتاہے، اور شراب پینے میں اسے اڑاتاہے؟ کیا اس بناپر، کہ وہ اپنے وقت کا بڑا حصہ ناچ، تھیٹراور سنیما دیکھنے میں صرف کرتاہے؟

سوال خوف ودہشت کی بابت نہیں، صرف عزت، وقعت ، وعظمت کی بابت ہے۔ یعنی آپ کا دل، بغیر کسی ظاہری دباؤ اورمادّی غرض کے، خود بخود جو اس کی تعریف کرتارہتاہے ، اور اس کی بڑائی کو محسوس کرتا رہتاہے، سویہ کس بنا پر ہے؟ کیا اوپر لکھی ہوئی چیزوں میں سے کسی کی بناپر؟ اپنے دل کو خوب ٹٹول کر جواب دیجئے ۔ اور یہ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ عزت ووقعت آپ ہرگز اوپر کی لکھی ہوئی چیزوں میں سے کسی کی بنا پر نہیں کرتے، بلکہ کسی ایسی چیز کی بنا پر کرتے ہیں ، جس کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں باطن سے، باہر سے نہیں اندرسے، نمائش سے نہیں، اصلیت سے ہے۔ آپ کو اپنے قابل عزت ممدوح کی سیرت کا کوئی جزء پسند آگیاہے، اوراسی کا نقش آپ کے دل پر قائم ہے ۔ سچائی ، سادگی، بے نفسی، بلند ہمتی، خلق کی خیرخواہی، بے آزاری، قناعت، فروتنی، شیریں کلامی، غرض اسی قسم کی کوئی نہ کوئی خوبی آپ کے تجربہ میں آئی ہوگی، اور وہی شے آپ کے دل میں اُن بزرگ کی عزت ووقعت قائم کئے ہوئے ہے۔


جب یہ ہے تو آپ خود اپنے لئے ظاہری ونمائشی چیزوں کو کیوں ضروری سمجھتے ہیں؟ آپ کیوں اس فکر میں لگے رہتے ہیں ، کہ آپ کا لباس ایسا ہو جس پر لوگوں کی نظریں پڑیں؟ آپ کو کیوں یہ دُھن رہتی ہے، کہ آپ کا مکان بہت وسیع وخوشنما ہو؟ آپ کو کیوں یہ شوق ہے کہ بجائے پیدل چلنے کے خواہ مخواہ آپ سواری پر مسافت طے کریں؟ آپ کوکیوں یہ ارمان رہتاہے ، کہ آپ کے پاس بہت سے نوکر چاکر ہوں؟ آپ کو کیوں یہ تمنا ہے ، کہ آرائش ونمائش پر صرف کرنے کے لئے آپ کے پاس بہت سا روپیہ ہو؟ آپ ایسی چیزوں ’’ضرورتوں‘‘ پر صرف کرنے کے لئے جن کا حکم نہ خدا نے دیا ہے ، نہ رسولؐ نے، اور نہ عقل سلیم جنہیں اچھا بتاتی ہے، خواہ مخواہ قرض آخر کس لئے لیتے ہیں؟ ایسی چیزوں پر وقت ضائع کرنا ، اور روپیہ صرف کرنا، جن سے آپ خدا کے بھی گنہگار ہوتے ہوں، اور دنیا میں بھی کسی قسم کا فائدہ نہ حاصل کرسکتے ہوں، کوئی بھی عقل اور سمجھ کی بات ہے؟ خدا کے سامنے اگر سرخرو ہوناہے، تو اپنے باطن کو سنوارئیے۔ دنیا میں اگر عزت ووقعت کے ساتھ رہناہے، تو اپنی اخلاقی حالت درست کیجئے۔ اپنی زندگی اگر چین اور سُکھ کے ساتھ گزارنا ہے تو اپنی سیرت کو اعلیٰ وپاکیزہ بنائیے۔ ہر مذہب کے بانی اور ہادی ، جن کی حکومت آج کروروں دلوں پر قائم ہے ، اپنے نفس کے غلام نہیں، بلکہ اپنے نفس کے حاکم ہوئے ہیں۔ اور ہمارے سرور وسردار ﷺ تو فاتح وکشورکشا ہونے کے ساتھ ہی مسکین وتہی دست بھی تھے، آپ بھی اپنے نفس کو اپنا ماتحت ومغلوب بنائیے۔ خود اس کے غلام وفرماں بردار نہ بن جائیے۔ مال ودولت، جاہ وثروت کی ہوس، نفس کی غلامی ہے۔ حاجتوں کو کم کرنا، اور ان سے بے نیازی کی کوشش کرنا یہی آزادی ہے۔

(27-03-1925)