مدیر بلاگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مدیر بلاگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فن ادب اور ادبی تخلیق - ابوالبشر احمد طیب

فن ادب

فن ادب اور ادبی تخلیق
یہ حقیقت ہے کہ انسانیت اور انسانی معاشرت  فلسفہ اور سائنس پر نہیں بلکہ جذبات پر قائم  ہے ، فرض کریں ایک بڈھے شخص کا بیٹا مرگیا ہے اور لاش سامنے پڑی ہے ، یہ شخص اگر سائنسدان سے رائے لے تو جواب ملے گا کہ ایسے اسباب جمع ہوگئے جن کی وجہ سےدوران خون یا دل کی حرکت بندہوگئی ، اسى کا نام موت ہے ، یہ ایک مادی  حادثہ ہے لہذا رونا دھونا بےکار ہے ، رونے سے وہ دو بارہ زندہ نہیں ہوگا۔ لیکن کیا سائنسدا ن خود اس اصول پر عمل پیرا ہوسکتا ہے ، بچوں کا پیار ، ماں کی مامتا ، محبت کا جوش ، غم کا ہنگامہ ، موت کا رنج ، ولادت کی خوشی ، کیا ان چیزوں کو سائنس سے کوئی تعلق ہے ، لیکن یہ چیزیں اگر مٹ جائیں تو زندگی میں سناٹا چھاجائے گا ، اور دنیا قالب بے جان ، شراب بے کیف ، گل بےرنگ ، گوہر بے آب ہوکر رہ جائیگی ، دنیا کی چہل پہل ، رنگینی ، دلآویزی ، دلفریبی ، سائنس  اور فلسفہ کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی جذبات کی وجہ سے ہے جو عقل کی حکومت سے تقریبا آزاد ہیں ۔

 فن ادب یا تخلیق ادب کو جذبات ہی سے تعلق ہے  اس لیے تاثیر اس کا عنصر ہے ، ادب ہر قسم کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے ، اس لیے رنج ، خوشی ، جوش ، استعجاب ، حیرت  میں جواثر ہے وہی ادب میں ہے ، باد سحر کی جھونکے ، آب رواں کی رفتا ر ، پھولوں کی شگفتگی ، غنچوں کا تبسم ، سبزہ کی لہلہاہٹ ، خوشبؤں کی لپٹ ، بادل کی پھوہار ، بجلی کی چمک ، یہ منظر آنکھ کے سامنے ہو تو دل پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، شاعر یا انشا پرداز ان مناظر کو بعینہ پیش کردیتا ہے تو  دل پر ان کا اثر ہوتا ہے ۔  ادب صرف محسوسات کی تصویر نہیں کھینچتا ، بلکہ جذبات اور احساسات کو بھی پیش نظر کردیتا ہے ، اکثر عام انسان اپنے جذبات سے خود واقف نہیں ہوتے اگر ہوتے ہیں تو صرف دھندلاسا نقش نظر آتا ہے ، شاعر یا انشا پر داز ان پس ِپردہ چیزوں کو پیش نظر کردیتا ہے ، دھندلی چیزیں چمک اٹھتی ہیں ، مٹا ہوا نقش اجاگر ہوجاتا ہے ،یہاں تک کہ روحانی تصویر جو کسی آئینہ کے ذریعہ ہم نہیں دیکھ سکتے ، ادب ہمیں دکھا دیتا ہے ۔ 

مشہور عربی عمر سیریز (رضی اللہ عنہ ) کا مکمل تعارف

اسلامی ادبیات ، اسلامک موویز
عربی عمر سیریز (رضی اللہ عنہ )  کا مکمل تعارف 
عمر یا عمر فاروق ایک  عرب ٹیلی ویژن ڈراما سلسلہ ہے۔ اس کے تخلیق کار اور ہدایت کار ( MCB ) ایم سی بی Middle East Broadcasting Center کے حاتم علی ہیں، جو قطر ٹی وی کے شریک ہدایت کار ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی پر مبنی ہے، ڈراما ان کی 18 سال کی عمر سے ان کی وفات کے لمحات تک واقعات بیان کرتا ہے۔ اس ٹی وی سیریل پر تنازع بھی ہوا ، کچھ مسلم علماء کا خیال تھا کہ رسول اللہ کی طرح دیگر کرداروں کو بھی مخفی رکھنا چاہیے تھا، جیسے چار خلفائے راشدین ابو بکر، عثمان اور علی بن ابی طالب ہین ۔  سلسلہ 31 اقساط پر مشتمل ہے جو ماہِ رمضان میں نشر کیا گیا اور 20 جولائی 2012ء سے شروع ہوا،  اور 19 اگست 2012ء کو ختم ہوا۔ یہ لگ بھگ 200 ملین سعودی ریالوں کے خرچ پر تیار ہوا اور مراکش میں فلمایا گیا، زیادہ تر شہر مراکش، طنجہ، الجدیدہ، دار البیضاء اور محمدیہ شہروں میں۔ ایم بی سی پر جاری ہونے کے بعد بین الاقوامی سطح پر نشر کیا گیا اور سلسلے کا کچھ زبانوں میں ترجمہ (ڈب) ہوا،  اور یوٹیوب پر یہ انگریزی اور اردو سب ٹائٹل کے ساتھ بھی دستیاب ہے۔ اس سلسلے نے مختلف علما اور عوام کی طرف سے بھرپور تائید حاصل کی۔ یہ سلسلہ بہت حد تک معتبر تاریخی حقائق پر مبنی ہے، اس اسلامی  ٹی وی سلسلہ  کے  مواد  کو تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسے گزشتہ اسلام کے  تاریخی واقعات  پر مبنی فلموں نے سامنا کیا تھا۔ خصوصاً علماء کے ایک بڑے طبقے نے اسے خوب سراہا اور اس کی توثیق میں ایک فتوے بھی صادر فرمائے۔ مشہور عرب علماء علامہ یوسف القرضاوی، شیخ اکرم ضیاء العمری،شیخ سلمان العودہ،شیخ علی الصلابی وغیرہ نے  اس کے مواد پر نظر ٽانى اور ان کی توثیق کى-

اسلام ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت

موجودہ فلسفہ، ادب ، سماجی اور سائنسی علوم میں کائنات اور انسان کے بارے میں دوہی نقطہ نظر پائے جاتے ہیں ۔ 
ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے، انسان اس کی دیگر مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، دنیا کے مشہور مذاہب کے نمائندہ  فلاسفہ ، ادیب اور دانشور اس نقطہ نظر کے قائل ہیں ۔ 

دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں، انسان ڈرون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق ایک ترقی یافتہ حیوان ہے۔ 
مغربی دنیا کے اکثر فلاسفہ ، دانشور ، سماجی شخصیات اور سائنس دان اس نقطہ نظر پر عامل ہیں۔ جو بھی ان کےخیالات کا جائزہ لے گا تو معلوم ہوگا کہ ان کی غالب سوچ انکار خالق پر مبنی ہے، اس بناء پر ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو مغرب میں آج بھی فروغ حاصل ہورہا ہے ۔

معتزلہ اور فتنۂ خلق قرآن

معتزلہ اور فتنہ خلق قرآن 
جب یونانی اور سریانی اور قدیم فارسی  کتابوں کے تراجم مسلم ممالک میں منتقل ہوئے اور مسلمانوں کا  دیگر مذاہب کے افکار اور علماء سے سابقہ ہوا  توجلد مسلمانوں کا ایک گروہ ان سے متاثر ہوئے اس کے نتیجے میں اللہ تعالی کی ذات و صفات،  کلام الہی،  رویت باری تعالی ، اللہ تعالی کی صفت عدل و تقدیر اور مسئلہ جبر و اختیار زیر بحث آیا ۔ یہ مسائل ایسے تھے جن کا ذریعہ علم  صرف وحی الہی ہے ، انسانوں کو ان کے بارے میں کوئی علم حاصل نہیں تھا ۔ لیکن یونانی فلسفہ اور منطق سے متاثرین  نے ان مسائل کے بارے میں  سوالات اٹھائیے ۔ 

عباسی دور میں اس گروہ کی قیادت معتزلہ کررہے تھے ۔ انھوں نے ان مسائل کو کفر وایمان کا معیار بنادیا ۔ان کے مقابلہ میں محدثین اور آئمہ فقہ کا گروہ تھا  جو صحابہ کرام اور تابعین کے مسلک پر قائم تھے ۔ 

خلیفہ مامون کے زمانہ میں معتزلہ کو خوب عروج حاصل ہوا۔ قاضی ابن ابی داؤد جو معتزلہ تھا دولت عباسیہ کا قاضی القضاۃ بن گیا۔ اس طرح  معتزلہ کے مسلک کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی ۔ حکومتی سرپرستی میں معتزلہ نے مسئلہ خلق قرآن  پر پوری توجہ مرکوز کردی ، یہاں تک کہ مامون نے والی بغداد اسحق بن ابراہیم کے نام ایک مفصل فرمان جاری کیا۔  مسئلہ خلق قرآن  سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا کہ جو لوگ اس مسئلہ کے قائل نہ ہوں ان کو سرکاری عہدوں سے معزول کردیا جائے اور خلیفہ کو اس کی اطلاع دی جائے۔  

اس کی نقلیں تمام اسلامی صوبوں کو بھیجی گئی  اور گورنروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ  ہر قاضی کا اس مسئلہ میں امتحان لیں جو اس سے متفق نہ ہو اس کو عہد ہ سے معزول کردیا جائے۔ 

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی - ابوالبشر احمد طیب

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی 
فلسفہ یونان کا اصل موضوع ، ان کے غور و فکر کا اصل میدان طبیعات اور ریاضیات ہے۔  لیکن جس میدان میں ان کو ٹھوکر لگی وہ عقائد یا الہیات ہے۔ لیکن  ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو آج بھی عقائد کے مسائل میں  ان کو قرآن وحدیث کے مقابل لاتے ہیں ۔ حالانکہ جن  غیبی حقائق کی انبیاء علیہ السلام نے خبر دی  ان سے یونانی فلاسفر بالکل ناآشنا تھے ۔ 

 انسان محدود عقل اور مشاہدات سے ان موجودات کا مشاہدہ کسیے کرسکتا ہے جن تک اس کی رسائی نہیں ہے ۔ ان کا حال تو ایسا تھا جیسے قرآن نے بیان کیا" بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (یونس : 39) 

انھوں نے ان چیزوں کو جھٹلا دیا جن کا ان کو پورا علم حاصل نہیں تھا حالانکہ ابھی تک ان پر ان کی پوری حقیقت  واضح نہیں ہوئی۔اسی طرح ان سے پہلے والوں نے کیا ۔ 

اللہ کی ذات و صفات  کے بارے میں ایمان لا نے حکم تھا اس لئے یہ کسی علمی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کا مسئلہ  نہیں تھا ، اس بارے میں انسانی کا ذریعہ علم صرف انبیاء کرام کی اطلاع اور وحی الہی ہے ۔ اسی سے ہی اللہ کی  معرفت حاصل ہو سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے پاس عقائد کی تفصیلات معلوم کرنے  کےلئے  قرآن و حدیث کی صورت میں  سب سے محکم بنیاد موجود ہے ۔ اس باب میں ان کو یونانی فلسفہ کی ذہنی موشگافیوں کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ کرام ، اور محدثین  اسی مسلک پر قائم تھے۔

عباسی دور میں یونان کا جو فلسفہ ترجمہ ہوکر عالم اسلام میں منتقل ہوا، پھر اس کے ذریعے پورپ تک پہنچا ، وہ اپنے قدیم مشرکانہ اعتقادات و تصورات کے ساتھ  منطق کی  ثقیل فرضی اصطلاحات میں منتقل ہواتھا۔  مسلم فلاسفر اور مترجمین  ابتدا میں اس حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ پہلی دفعہ دو ٹوک  انداز میں  امام غزالی اور ابن تیمیہ نے اس نکتہ کو فاش کیا،  یونان کے فلسفہ الہیات  اور علم الاصنام کے اصل راز سے بردہ اٹھایا ۔

علامہ شبلی ؒ کا مکتب فکر - احمد طیب

 ؒ علامہ شبلی 
علامہ شبلی نعمانی ؒ  کی پیدائش ضلعہ  اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 1857ء میں ہوئی- ابتدائی تعلیم گھر پر  مولوی فاروق چڑیاکوٹی سےحاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔  یہیں پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم ، مصر اورشام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔

علامہ شبلی ؒ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب قومی زوال نے ہر حساس مسلمان کو بے قرار کر رکھا تھا  ۔انیسویں صدی میں مغربی تہذیب و ثقافت جب عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے تو برصغیر کے مسلمانوں نے  سب سے زیادہ اس کی مزاحمت کی ۔ اس  جد وجہد میں دو گروہ  شامل تھے۔  ایک گروہ کا تعلق تحریک دیوبند سے تھا اور دوسرے کا   تحریک علی گڑھ   سے۔ 

یہ دونوں گروہ دو  انتہاوں پر تھے ۔ایک طرف سر تا پا قدامت پسندی اور دوسری طرف سرتا پا   الحاد اور  لادین جدت پسندی۔ ان دونوں کے درمیان امتزاج اور مصالحت کے لیے  عالم اسلام کو عظیم شخصیات کی ضرورت تھی ۔  اس سلسلہ میں اگر کسی  ہستی کا  نام سب سے  پہلے آتا  ہے تو  وہ  شیخ المشرق سید جمال الدین افغانیؒ  ہیں ۔ اس دور میں  وہ  پہلے شخص تھے جنھوں نے اسلام کو بحیثیت ایک نظامِ فکر پیش کیا ۔ اُنھوں نے  مغرب کے سرمایہ دارانہ  اور اشتراکی نظام کی سخت  مخالفت کی اور خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ کرنے کے لیے "جمعیت العروۃ الوثقٰی" کے نام سے جماعت  تشکیل دی  ۔  دنیاے اسلام میں  بعدکے زمانوں میں جتنی بھی اصلاحی  تحریکیں اُٹھیں اُن سب کا تعلق  اسی  سے جا  ملتا ہے۔ 

اُنھوں نے  پہلی مرتبہ اسلامی قومیت کا نظریہ  پیش کیا۔   خانقاہی قدامت پسندوں   کے طریقہ تعلیم و تربیت پر  شدید تنقید کی  اور دوسری طرف  الحاد اور لادین جدت پسندوں کے نظام تعلیم   کی بھی مخالفت کی۔  ساتھ ہی  مسلمانوں کو جدید علوم کی اہمیت  کی طرف متوجہ کیا  اور اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکی جد وجہد کی ۔  مغربی ادب و صحافت کی یلغار کا جواب  اسلامی  ادب و صحافت سے دیا  ۔  
علامہ اقبال نے ان  کو گزشتہ صدی کا مجدّ داعظم قرار دیا ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا"..........زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدّد کہلانے کے مستحق ہیں تو وہ صرف اور صرف جمال الدین افغانی ہیں۔ مصر، ایران، ترکی اور ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا  تو اُسے سب سے پہلے عبدالوھّاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔ موخرالذکر ہی اصل میں مجدّد ہیں زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا ۔ اگر قوم نے اُن کو عام طور پر مجدّد نہیں کہا یا اُنھوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا، تو اس سے اُن کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہلِ بصیرت کے نزدیک نہیں آتا"۔ (ذکر اقبال، صفحہ ۲۶۵)
نیز جاوید نامہ کے روحانی سفر میں افلاک میں کسی مقام پر نمازِ فجر کا وقت ہوتا ہے تو وہ نماز بھی اسی امامِ مشرق کی امامت میں ادا کی جاتی ہے ۔ یہ گویا ایک تمثیل ہے۔نمازِ فجر سے مراد اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی صبح ہے اور جمال الدین افغانی کا بحیثیت امام منتخب کرنا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے بانی اوراپنے زمانے کے مجد اور امام  سید جمال الدین افغانی ہیں۔

1880ء سے 1882ء تک جمال الدین افغانی ہندوستان میں مقیم تھے۔ اس دوران برصغیر میں سب سے پہلے علامہ شبلی ؒ کو  سید جمال الدین افغانی ؒ   کی روشن خیال سحر انگیز شخصیت نے متاثر کیا ۔اُن کی ذات سے شبلی کا ابتدائی تعارف اسی زمانے میں ہوا ۔  پیرس سے  سید افغانی کا   عربی رسالہ ’’ العروۃ الوثقٰی‘‘  علی گڑھ کالج کی لائبریری میں آیا کرتا تھا اور اس  میں شائع ہونے والے عربی مضامین کا اُردو ترجمہ ہفت روزہ ’’دارالسلطنت‘‘ کلکتہ اور ماہنامہ ’’مشیرِ قیصر‘‘ لکھنؤ میں  شائع ہوتا رہا ۔ العروہ میں شائع ہونے والے  فکر  انگیز مقالات کے مطالعہ کے بعد شبلی کے لیے علی گڑھ میں رہنا  محال  ہوگیاتھا ۔ 1892ء میں وہ مصر چلے گئے۔ وہاں اُنھوں نے جمال الدین افغانی کے شاگردِ خاص مفتی محمد عبدہ کی صحبت اختیار کی۔مصر سے آپ 1893ء میں ترکی چلے گئے اور وہاں جیل میں  سید جمال الدین افغانی سے بالمشافہ  ملاقات کا شرف حاصل کیا اور واپس ہندوستان آگئے۔ وطن واپسی پر اِس طویل دورہ کے بارے میں اُنھوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا: 
’’سفر بے شبہ ضروری تھا۔ جو اثر اس سفر سے میرے دل پر ہوا، وہ ہزاروں کتابوں سے نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔ (سفر نامہ مصر و روم و شام۔ شبلی)

برصغیر میں  اُنھوں نے جمال الدین افغانی کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے باقاعدہ  علمی  و فکر ی تحریک کا آغاز کیا۔دارالعلوم  ندوۃ العلما اور دارالمصنفین  اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ علامہ  شبلی کے زیرِ اثر جن لوگوں نے تربیت پائی ،اُن میں چار نام بہت اہم ہیں۔ سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا آبادی، ابوالکلام آزاد، حمید الدین فراہی۔علامہ شبلی نے وفات سے تین دن پہلے ان تینوں حضرات  کو ایک ہی مضمون کے تار دیے کہ وہ آئیں تو سیرت نبوی اور دار المصنفین  کی سکیم کا کچھ انتظام ہوجائے ۔

علامہ شبلی کو خدا نے غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی تھیں ۔ ان کے پش نظر بقول سید سلیمان ندویؒ ان کے طائر ہمت کو ایک آشیان بلند کی تلاش تھی ۔  ان  کی زندگی اور ان کے کارناموں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حصول  علم میں بے حد حریص تھے ، اگرچہ  ان کی تعلیم پرانے اصولوں پر ہوئی لیکن اس کی تکمیل کے لئے اس زمانے میں جہاں جہاں مشہور اساتذہ تھے وہان گئے اور فیض حاصل کیا ۔  ان کے  حصول علم کا یہ  سلسلہ عمر بھر جاری رہا ۔  اس وقت  بر صغیر میں ان کے معاصر ین میں  ان  جیسے جامع الصفات کوئی ہستی نہ تھی ،   اگرچہ ابتدائی تعلیم نے انہیں طبقہ علماسے وابستہ کردیا تھا،  لیکن حصول علم  کے لئے علی گڑھ ، حیدر آباد ، بمبئی ، لکھنو کے قیام میں ان کا قسم قسم کے لوگوں سے رابطہ پڑا اور ان  سے خوب  فائدہ اٹھایا ۔ 

علامہ شبلی کو علی گڑھ تحریک کا سب سے بڑا مخالف کہا  جا سکتا ہے ۔ علی گڑھ سے  وہ مایوس تھے ۔علی گڑھ کا پست علمی معیار انہیں سخت  نا پسند تھا ۔  ان کو اندازہ تھا کہ علی گڑھ  نے نہ تو کوئی  اعلی  سکالر اور مصنف  پیدا  کیا اور  نہ ہی  کوئی علمی  و فکری روایت قائم کی ۔  1883ء کے  ایک خط میں لکھتے ہیں  "  معلوم ہوا کہ انگریزی خوان قوم نہایت مہمل فرقہ ہے ، مذہب کو جانے دو ، خیالات کی وسعت، سچی آزادی ، بلند ہمتی ، ترقی کا جوش برائے نام نہیں ۔ یہاں ان چیزوں کا ذکر نہیں آتا ۔ بس خالی کوٹ پتلون کی نمائش گاہ ہے" 
اسی طرح   عمر کے آخری سال  1914 کے ایک خط میں لکھتے ہیں " علمی سطح باکل گرچکی اور انگریزی تعلیم بھی جہل کے برابر بن گئی " 
خود سر سید احمد خان کو بھی اس کا احساس تھا ۔ وہ  1890ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں " تعجب یہ ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی امید تھی وہ شیطان اور بد ترین قوم ہوتے جاتے ہیں " (بحوالہ موج کوثر، شیخ محمد اکرام  ص 228) 

علامہ شبلی نواب محسن الملک کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں " جدید تعلیم ایک مدت سے جاری ہے اور آج سینکڑوں ، ہزاروں تعلیم یافتہ بڑی بڑی خدمات پر مامور ہیں ، لیکن قومی علم ابھی ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، جنھوں نے کالجوں کے ایوانوں میں نہیں بلکہ مکتب کی چٹائیوں پر تعلیم پائی ہے " اس حقیقت کے اظہار کے باجود  وہ تحریک دیوبند سے مطمئن نہیں تھے ۔  انہوں نے اس کا اظہار ندوۃ العلما کے اجلاس منعقدہ  1894 میں ایک تقریر کے دوران  کیا ۔ 

" اے حضرات ! جس زمانے میں یہاں اسلامی حکومت قائم تھی ، اس وقت قوم کی دینی اور دنیوی دونوں قسم کے معاملات علما کے ہاتھ میں تھے ۔ نماز ، روزہ و غیرہ کے احکام بتانے  کے علاوہ ، علما ہی ان کے مقدمے فیصل کرتے تھے ۔ علما ہی جرائم پر حد و تعزیر کی سزا دیتے تھے ۔ علما ہی قتل و قصاص کے احکام صادر کرتے تھے ۔ غرض قوم کی دین و دنیا دونوں کی عنان اختیار علماہی کے ہاتھ میں تھی ۔ اب جبکہ انقلاب ہوگیا اور دنیوی معاملات گورنمنٹ کے قبضہ اختیار میں آگئے تو ہم کو دیکھنا چاہیے کہ قوم سے علما کا کیا تعلق باقی ہے یعنی گورنمنٹ نے کس قدر اختیارات  اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اورکس قدر  باقی رہ گئے ہیں جو دراصل علما کا حق ہے اور جس میں دست اندازی کرنی خود گورنمنٹ کو مقصود نہیں ۔  "  آگے اسی تقریر میں مزید کہا   " علما جب تک قوم کے اخلاق، قوم کے خیالات، قوم کے دل و دماغ، قوم کی معاشرت ،قوم کا تمدن غرض قومی زندگی کے تمام بڑے بڑے حصوں کو اپنے قبضہ اختیار میں نہ لیں قوم کی ہر گز ترقی نہیں ہو سکتی "  (بحوالہ موج کوثر ص 233)

غرض ان کے نزدیک مسلمانوں کی ترقی کے لیے سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعلیم  وتربیت کا ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جس میں ایک طرف یورپ کے تمام جید علوم وفنون کی تعلیم ہو اور دوسری طرف خالص اسلامی علوم کی کی تعلیم اور ساتھ ہی  طریقہ  تعلیم و تربیت اور درس گاہوں کا ماحول تمام تر مذہبی ہو ، اگر ساری قوم کی تعلیم ک کا یہ بندوبست نہ تو کم از کم عربی درس گاہوں میں ایسی اصلاح کی جائے کہ یونان کے بوسیدہ علوم کا سارا دفتر ہٹ کر اس کی جگہ نئے علوم و فنون کی تعلیم لے لے اور خالص مذہبی علوم اپنی جگہ پر رہیں ۔ اور نصاب میں متاخرین کی شروح و حواشی کے بدلے قدما کی اصلی کتابیں جو فن کی جان ہیں پڑھائی جائیں ، درس گاہیں عالیشان رہے، کمرے صاف ستھرے اور ترتیب ایسی ہو کہ طلبہ میں اولوالعزمی حوصلہ مندی بلند نظری اور خود داری پید ہو  یہ چیز ان کو نہ قسطنطنیہ (موجودہ استنبول )میں ملی نہ شام میں اور نہ مصر میں سفرنامہ میں لکھتے ہیں " اس سفر میں جس چیز کا تصور میری تمام مسرتوں اور خوشیوں کو برباد کردیتا تھا وہ اسی قدیم تعلیم کی ابتری تھی ہندوستان میں تو اس خیال سے صبر آجاتا تھا کہ جو چیز گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں نہ ہو  اس کی بے سرو سامانی قدرتی بات ہے ۔ لیکن قسطنطنیہ شام اور مصر میں یہ حالت دیکھ کر سخت رنج ہوتا تھا ۔ ( حیات شبلی ص  190 ، سلیمان ندوی ) 

علامہ شبلی نہ صرف میدان علم  وفکر کے شہسوار  تھے بلکہ اردو ادب میں بھی ان کو بلند مسند حاصل ہے ۔ اس کا اظہا ر اردو کے  معروف نقاد ڈاکٹر سید عبدالحق نے ان الفاظ میں کیا  "شبلی کو اردو ادب میں جو بلند مسند اور مقام حاصل ہے اسکی بنا علمی بھی ہے اور ادبی بھی ۔ مگر جو چیز ان کے لیے بقائے دوام کا باعث ہوگئی وہ ان کا اسلوب بیان ہے ۔ وہ اپنے علمی انکشاف اور تاریخی رازوں کی پردہ کشائی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تند و تیز ، زہریلے اور چبھتے ہوئے ، گہرے زخم لگاتے ہوئے ، دماغوں کو مفلوج کرتے ہوئے ، دلوں میں جوش و ہیجان پیدا کرتے ہوئے طرز بیان کی وجہ سے اردو نثرمیں بلند مقام حاصل کرچکے ہیں ۔ اور یہی وہ چیز ہے جو انہیں اردو کے باقی صاحب طرز انشابرداز وں سے ممتاز کر تی ہے ۔" (شبلی کا اسلوب بیان ، ڈاکٹر سید عبداللہ ) 

انسانی حقوق کا عالمی منشور Universal Declaration of Human Rights


انسانی حقوق کا عالمی منشور 

Universal Declaration of Human Rights 


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948ء کو "انسانی حقوق کا عالمی منشور " منظور کرکے اس کا اعلان عام کیا ۔  ذیل میں  اس منشور کا مکمل متن درج ہے ۔ اس تاریخی کارنامے کے بعد اسمبلی نے اپنے تمام ممبر ممالک پر زور دیا کہ وہ بھی اپنے اپنے ہاں اس کا اعلان عام کریں اور اس کی نشر و اشاعت میں حصہ لیں ۔ مثلا یہ کہ اسے نمایاں مقامات پر آویزاں کیا جائے ۔ اور خاص طور پر اسکول اور تعلیمی اداروں میں اسے پڑھ کر سنایا جائے اور اسکی تفصیلات واضح کی جائیں ، اور اس ضمن میں کسی ملک یا علاقے کی سیاسی حیثیت کے لحاظ سے کوئی امتیاز نہ برتا جائے ۔ 

تمہید: 

چونکہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حرمت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابلِ انتقال حقوق کو تسلیم کرنا دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے، 


چونکہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جن سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچے ہیں اور عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ رہیں، 


چونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عملداری کے ذریعے محفوظ رکھا جائے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ انسان عاجز آ کر جبر اور استبداد کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہوں، 


چونکہ یہ ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھایا جائے، 


چونکہ اقوامِ متحدہ کی ممبر قوموں نے اپنے چارٹر میں بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخصیت کی حرمت اور قدر اور مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں اپنے عقیدے کی دوبارہ تصدیق کر دی ہے اور وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشرتی ترقی کو تقویت دینے اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، 

چونکہ ممبر ملکوں نے یہ عہد کر لیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے اشتراکِ عمل سے ساری دنیا میں اصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے اور کرائیں گے، 

چونکہ اس عہد کی تکمیل کے لیے بہت ہی اہم ہے کہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت کو سب سمجھ سکیں، لہٰذا 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اعلان کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصولِ مقصد کا مشترک معیار ہو گا تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی کارروائیوں کے ذریعے ممبر ملکوں میں اور اُن قوموں میں جو ممبر ملکوں کے ماتحت ہوں، منوانے کے لئے بتدریج کوشش کر سکے۔ 


دفعہ 1 


تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے۔ اس لئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیئے۔ 

امام داؤد ظاہریؒ

داود بن علی بن خلف ظاہری (201ھ – 270ھ — 815ء – 883/4ء) تاریخ اسلام کے سنہری دور کے ایک  مفسر، محدث اور مورخ تھے۔ داود ظاہری کا شمار اہل سنت کے علمائے مجتہدین میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرت کی اصل وجہ فقہی مذاہب میں ایک نئے منہج یا مسلک یعنی فقہ ظاہری کی تشکیل ہے۔

 ان کو  ظاہری کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ قرآن و سنت کے ظاہر ہی کو قابل اعتبار خیال کرتے اور ان میں کسی قسم کی تاویل، یا قیاس آرائی کوغلط سمجھتے تھے۔

 تاریخ اسلام میں داود ظاہری پہلے عالم ہیں جنہوں نے سب سے پہلے علانیہ اس مسلک کو اختیار کیا۔ فقہ ظاہری کو اہل سنت کا پانچواں فقہی مکتب فکر بھی سمجھا جاتا ہے تاہم انہوں نے کبھی خود کو اس حیثیت سے پیش کیا اور نہ ان کے پیروکاروں نے اپنے مکتب فکر کے بانی کو اس نظر سے دیکھا۔ گوکہ انہیں متنازع شخصیت سمجھا جاتا ہے لیکن مورخین لکھتے ہیں کہ داؤد ظاہری کو ان کے عہد میں خاصی مقبولیت حاصل تھی، حتیٰ کہ بعض مورخین نے انہیں "محقق دوراں" کے لقب سے بھی یاد کیا ہے۔ ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں: وہ اصفہانی کے لقب سے معروف تھے کیونکہ ان کی والدہ کا وطن اصفہان تھا نیز ان کے والد حنفی تھے۔


حالات زندگی

داؤد ظاہری کی اصل جائے پیدائش پر مورخین کا اتفاق نہیں ہے۔ عموما انہیں ایرانی شہر اصفہان سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسی لیے متعدد کتابوں میں انہیں "داود اصفہانی" بھی لکھا گیا ہے۔ ابن حزم اندلسی اور شمس الدین ذہبی وغیرہ نے اس انتساب کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درحقیقت ان کی والدہ کا تعلق اصفہان سے تھا جبکہ داود ظاہری عراقی نژاد تھے اور عراقی شہر کوفہ میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ ایگناز گولڈزیہر نے بھی اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ وہ کوفہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا کہ ان کے والد عباسی خلیفہ مامون الرشید کی جانب سے کاشان میں دیوانی ملازمت پر مامور تھے۔ کاشان اصفہان کے قریب واقع ایک چھوٹا ایرانی شہر ہے۔

امریکہ کی تحریک آزادی

ریاست ہائے متحدہ امریکا کے عام ناموں میں یونائیٹڈ سٹیٹس، یو ایس، یو ایس اے، دی یو ایس اے، دی یو ایس آف اے، دی سٹیٹس اور امریکا شامل ہیں۔ امریکا نام کا پہلا استعمال 1507ء میں ہوا جب ایک جرمن نقشہ ساز نے گلوب بنا کر جنوبی اور شمالی امریکی براعظموں کو ظاہر کرنے کے لیے لفظ امریکا چنا۔

امریکی جھنڈا
امریکاؤں کو کولمبس کے حوالے سے کولمبیا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور بیسویں صدی کے شروع تک امریکا کے دارالحکومت کو کولمبیا بھی کہتے تھے۔ بعد ازاں اس کے استعمال کو ختم کیا گیا، لیکن ابھی بھی سیاسی طور پر کولمبیا کا نام استعمال ہوتا ہے۔ کولمبس ڈے امریکا اور دیگر ممالک میں عام تعطیل ہوتی ہے جو کولمبس کے 1492ء میں امریکی سرزمین پر اترنے کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا کو سب سے پہلے 4 جولائی 1776ء میں سرکاری طور پر اعلان آزادی میں استعمال کیا گیا۔ 15 نومبر 1777 کو دوسری براعظمی کانفرنس نے کنفیڈریشن کے آرٹیکل کو قبول کیا جس میں لکھا "The Stile of this Confederacy shall be 'The United States of America.'" تھا۔ اس نام کو درحقیقت تھامس پائن نے تجویز کیا تھا۔

پانچ صدیاں قبل تک ساری مشرقی دنیا یعنی براعظم یورپ، افریقا اور ایشیا مغربی نصف کرہ کے ممالک امریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک کے وجود سے بالکل بے خبر تھی۔ پندرہویں صدی کے اواخر میں یورپی مہم جوئی کا آغاز ہوا تو یکے بعد دیگرے مختلف ممالک اور خطے دریافت ہوتے چلے گئے۔

12 اکتوبر 1492ء کو کولمبس امریکا کے مشرقی ساحل کے قریب بہاماز پہنچا۔ یہ مقام امریکا کے جنوب مشرقی ساحل پر فلوریڈا کے قریب واقع ہے۔ امریکا کی سرزمین پر کسی یورپی کا یہ پہلا قدم تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف مقامات کی دریافت کا سلسلہ چل پڑا۔ 1524ء ءمیں فرانسیسی مہم جو ”جیووانی ویرازانو“ (Giovanni Verra Zano) ایک مہم لے کرکیرولینا سے شمال کی طرف بڑھتا ہوا نیویارک میں داخل ہوا۔ 1579 ءمیں فرانسسزڈریک (Francies Drake) مغربی ساحل پر سان فرانسیسکو کی خلیج میں داخل ہوا اور ایک برطانوی نوآبادی کی بنیاد رکھی۔ 1607ء ءمیں کیپٹن جان سمتھ تین جہازوں میں 105 سپاہی لے کر ورجینیا کے ساحل پر اترا اور جیمز ٹائون کے نام سے پہلی برطانوی نوآبادی قائم کی۔ 1624ء میں البانی اور نیویارک کے علاقوں میں ولندیزی نوآبادیاں” نیو نیدرلینڈز “کے نام سے قائم ہوئیں۔

اس طرح مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاں بنتی چلی گئیں۔ ان نو آبادیوں میں آپس میں چپقلش اور بعض اوقات جنگ و جدل تک نوبت پہنچتی رہی۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی حکومت نے اپنی نو آبادیوں سے واقعتا نوآبادیاتی سلوک شروع کر دیا۔ ان کا استحصال کرنے کے لیے آئے دن نت نئے ٹیکس عائد ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے ان میں بے چینی اور بغاوت کے آثار پیدا ہونے لگے جو آخرکار تحریک آزادی کی شکل اختیار کر گئے۔ ہم یہاں مختصر طور پر چند مثالیں پیش کر کے اپنی بات کو واضح کریں گے۔


مشاہیر اسلام : امام غزالی ، ابن حزم ، ابن رشد ، ابن خلدون

1- امام غزالی ؒ 

ابو حامد غزالی اسلام کے مشہور مفکر اور متکلم تھے۔ نام محمد اور ابو حامد کنیت تھی جبکہ لقب زین الدین تھا۔ ان کی ولادت 450ھ میں طوس میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں ہوئی۔

نیشا پور سے وزیر سلاجقہ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے اور 484ھ میں مدرسہ بغداد میں مدرس کی حیثیت سے مامور ہوئے۔ جب نظام الملک اور ملک شاہ کو باطنی فدائیوں نے قتل کر دیا تو انہوں نے باطنیہ، اسماعیلیہ اور امامیہ مذاہب کے خلاف متعدد کتابیں لکھیں۔ اس وقت وہ زیادہ تر فلسفہ کے مطالعہ میں مصروف رہے جس کی وجہ سے عقائد مذہبی سے بالکل منحرف ہو چکے تھے۔ ان کا یہ دور کئی سال تک قائم رہا۔ لیکن آخر کار جب علوم ظاہری سے ان کی تشفی نہ ہوئی تو تصوف کی طرف مائل ہوئے اور پھر خدا ،رسول، حشر و نشر تمام باتوں کے قائل ہو گئے۔

488ھ میں بغداد چھوڑ کر تلاش حق میں نکل پڑے اور مختلف ممالک کا دورہ کیے۔ یہاں تک کہ ان میں ایک کیفیت سکونی پیدا ہو گئی اور اشعری نے جس فلسفہ مذہب کی ابتدا کی تھی۔ انہوں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ ان کی کتاب’’ المنقذ من الضلال‘‘ ان کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ اسی زمانہ میں سیاسی انقلابات نے ان کے ذہن کو بہت متاثر کیا اور یہ دو سال تک شام میں گوشہ نشین رہے۔ پھر حج کرنے چلے گئے۔ اور آخر عمر طوس میں گوشہ نشینی میں گزاری۔

ان کی دیگر مشہور تصانیف احیاء العلوم، تحافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب ہیں۔ ان کا انتقال 505ھ کو طوس میں ہوا۔

دنیا کے 20 مقبول ترین سیاحتی مقامات

ماسٹر کارڈ نے گزشتہ دنوں دنیا بھر میں سب سے زیادہ گھومے جانے والے شہروں کی فہرست جاری کی ہے۔

اس فہرست میں 20 ایسے شہروں کو شامل کیا گیا ہے جہاں گزشتہ سات سال یعنی 2009 سے 2016 تک بہت بڑی تعداد میں سیاحوں کا جانا ہوا۔

اس فہرست میں 11 ایشیائی شہر، 4 مشرقی وسطیٰ کے شہر جبکہ باقی یورپی شہر شامل ہیں۔

تو آپ بھی ان کا جائزہ لیں ہوسکتا ہے کوئی شہر آپ کو بھی گھومنے کے لیے پسند آجائے۔

20۔ پراگ، چیک جمہوریہ
کریٹیو کامنز فوٹو

تیسرے امیر تبلیغی جماعت حاجی عبد الوھاب ؒ کا مختصر تعارف

راؤ محمد عبد الوہاب (1 جنوری 1923ء - 18 نومبر 2018ء) پاکستان کی تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر تھے۔


ابتدائی زندگی

حاجی عبد االوھاب ؒ  سابق امیر تبلیغی جماعت 
1922ء کو ان کی پیدائش دہلی میں ہوئی۔  آپ کا آبائی گاؤں گمتھلہ راؤ تحصیل تھانیسر ضلع کرنال انبالہ ڈویژن ہے۔ آپ کا تعلق راجپوت خاندان سے ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انہوں نے بطور تحصیلدار فرائض سر انجام دیے۔ ۔ ہجرت کے بعد آپ پاکستان میں ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا کے چک نمبر 331/EB ٹوپیاں والا میں آباد ہوئے۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم انبالہ کے سکولوں میں حاصل کی۔ گریجوایشن اسلامیہ کالج، لاہور سے کی جہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی آپ کے استاد رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ تحصیلدار بھرتی ہوگئے۔

زندگی

تبلیغی جماعت

1944ء کے آغاز میں تبلیغی مرکز بستی حضرت نظام الدین انڈیا میں موسسِ تبلیغ حضرت جی مولانا محمد الیاس کاندھلوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہی کے ہو رہے۔ اصلاحی تعلق مولانا عبدالقادر رائے پوری علیہ الرحمہ سے تھا اور ان سے خاندانی تعلق بھی تھا۔ آپ پاکستان میں حاجی محمد شفیع قریشی صاحب، حاجی محمد بشیر صاحب اور مولانا ظاہر شاہ صاحب کے بعد چوتھے نمبر پر تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے۔ تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی کی وفات پر تبلیغی جماعت میں شورائی نظام نافذ ہونے کے بعد سے عبدالوہاب صاحب عالمی تبلیغی مرکز رائے ونڈ کی شوریٰ کے امیر اور مرکزی شوریٰ تبلیغی مرکز بستی حضرت نظام الدین دہلی کے رکن ہیں۔ 1944 سے لے کر 2018 تک 75 سال تحریکِ تبلیغ میں سرگرمی سے گزارنے کے بعد راؤ محمد عبدالوہاب صاحب نے آج 18 نومبر 2018 کو رائے ونڈ میں 96 سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ کسی مذہبی تحریک کے ساتھ کامل یکسوئی سے پورے 75 سال گزار دینے کی کوئی اور مثال ہمارے زمانے میں نہیں ملتی۔

پاکستان امن مذاکرات
اکتوبر 2013ء کو تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے درمیان میں امن مذاکرات کے لیے محمد عبد الوہاب کا نام بطور سربراہ لویہ جرگہ تجویز کیا گیا تھا۔ فروری 2014ء میں طالبان نے محمد عبد الوہاب،سمیع الحق،ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام تجویز کیا تھا کہ وہ پاکستان اور طالبان کے درمیان میں امن مذاکرات میں بطور سہولت کار کردار ادا کریں۔

وفات

18 نومبر 2018ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ تبلیغی مرکز رائے ونڈ اعلامیہ کے مطابق مولانا حاجی عبد الوہاب نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

---------------
یہ بھی پڑھیں !

بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ 

دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹرز

دنیا میں تیز ترین سپر کمپیوٹرز کی فہرست میں چین اب تیسرے نمبر پر آ گیا ہے جبکہ امریکہ پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔

تیز ترین دس کمپیوٹرز میں امریکہ کے پانچ کمپیوٹرز ہیں جبکہ دیگر ممالک میں سوئٹزلینڈ، جرمنی اور جاپان بھی شامل ہیں۔

امریکی سپر کمپیوٹر سمٹ دو لاکھ ٹریلین کیلکیولیشنز فی سیکنڈ کر سکتا ہے
فہرست میں 500 تیز ترین سپر کمپیوٹرز میں چین کے 227 کمپیوٹرز ہیں جبکہ امریکہ کے 109۔
تیز ترین سپر کمپیوٹرز کی فہرست سال میں دو بار شائع کی جاتی ہے۔

تازہ ترین فہرست کے مطابق امریکہ کے دو سپر کمپیوٹر سمٹ اور سیئیرا پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکی سپر کمپیوٹر سمٹ دو لاکھ ٹریلین کیلکیولیشنز فی سیکنڈ کر سکتا ہے۔ سمٹ اور سیئیرا دونوں ہی کمپیوٹر کمپنی آئی بی ایم نے تیار کیے ہیں۔

مظفر وارثی کا تعارف اوران کے چند مشہور کلام ان کی اپنی آواز میں



آپ کا اصل نام محمد مظفر الدین احمد صدیقی تھا اور آپ 23 دسمبر 1933 کو میرٹھ [ یو پی ، بھارت ] میں پیدا ہوئے ۔ والد بزرگوار الحاج صوفی شرف الدین احمد صدیقی "فصیح الہند" اور "شرف الشعرا ء جیسے القابات سے پہچانی جانے والی ایک عالم شخصیت تھے جنہوں نے کم ازکم دو درجن ادبی و دینی کتاب لکھیں۔ وہ صوفی شرف الدین احمد صدیقی صوفی وارثی میرٹھی کے نام سے مشہور تھے ۔

وارثی نسبت حاجی وارث علی کے سلسلے سے ہے ۔ مظفر الدین احمد صدیقی بھی اسی سلسلے میں بیعت ہوئے اور مظفر وارثی کے نام سے پہچانے گئے ۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ ہی میں حاصل کی ۔ ادیب فاضل کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی ۔ ذرائع معاش کے لئے 1953 سے 1989 تک اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے وابستہ رہے ۔

تبلیغی جماعت کا تعارف

محمد الیاس کاندھلوی کی قائم کردہ ایک اسلامی اصلاحی تحریک جو 1926ء میں قائم کی گئی۔ بنیادی طور پر فقہ حنفی کے دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں بھی سرگرم ہے۔


تبلیغی جماعت کے اصول:

(انہیں چھ باتیں، چھ صفات اور چھ نمبر بھی کہا جاتا ہے)

1- ایمان
2- نماز
3- علم و ذکر
4- اکرام مسلم
5- اخلاص نیت
6- دعوت و تبلیغ اور لایعنی امور سے اجتناب۔

جماعت

جماعت اس تحریک کی ایک مخصوص اصطلاح ہے جو اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب کئی افراد ایک مخصوص مدّت کے لیے دین سیکھنے اور سکھانے کی خاطر کسی گروہ کی شکل میں کسی جگہ کا سفر کرتے ہیں ان کے دورے کی مدّت تین دن، چالیس دن، چار ماہ اور ایک سال تک ہو سکتی ہے۔ یہ افراد اس دوران علاقے کی مسجد میں قیام کرتے ہیں۔

گشت

کسی بھی جگہ کے دورے میں اپنے قیام کے دوران یہ افراد گروہ کی شکل میں علاقے کا دورہ کرتے اور عام افراد خصوصاً دکان دار حضرات کو دین سیکھنے کی دعوت دیتے ہوئے مسجد میں مدعو کیا کرتے ہیں۔ اس عمل کو جماعت کی اصطلاح میں 'گشت' کہا جاتا ہے۔

تعلیم

عموماً چاشت کے وقت اور ظہر کی نماز کے بعد مسجد میں تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد ایک کونے میں مرتکز ہوجاتے ہیں اور کو‎ئی ایک فرد فضا‎ئل اعمال کا مناسب آواز میں مطالعہ کرتا ہے تاہم اس امر کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ نماز و تلاوت میں مشغول افراد کے انہماک میں خلل نہ پڑے۔

فضائل اعمال کی تعلیم کا مقصد: اس كتاب کے تعلیم کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں۔ 1۔ فضائل سن سن کر اعمال کا شوق پیدا ہو جائے۔ 2۔ علم اور عمل میں جوڑ پیدا ہو جائے۔ 3۔ مال سے ہٹ کر اعمال پر یقین بن جائے۔ 4۔ سب کے دل قرآن و حدیث سے اثر لینے والے بن جائیں۔

فضا‎ئل اعمال

( تفصیلی مضمون کے لیے فضائل اعمال (کتاب) ملاحظہ کریں۔)

اخوان الصفاء

اخوان الصفاء دسویں صدی عیسوی ، عباسی دور  میں مسلم اہل فکر و  فلسفہ کی ایک خفیہ جماعت تھی ۔  جن کے افکار و نطریات بنیادی طور پر نوفلاطونیت پر مبنی تھے ۔ یہ اس لیے خفیہ تھی کہ اس زمانے میں بعض سیاسی مصلحتوں کی بنا پر فلسفیوں اور سائنسدانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ علومِ عقلیہ یعنی فلسفہ، سائنس، ریاضی وغیرہ کا فروغ ملک و قوم کے لیے خطرے کا باعث ہو گا۔ چنانچہ فلسفی اور سائنس دان اپنے علمی مشاغل خفیہ طور پر جاری رکھنے پر مجبور ہوئے . یہ نہایت راز داری سے ایک دوسرے سے ملا کرتے اور خالص علمی و فکری مسائل پر سوچ بچار کرتے، اس کے بعد تمام گفتگو ایک مفصل مکتوب کی شکل میں لکھ لیا کرتے پھر یہ تحریر خفیہ طور پر ان لوگوں تک پہچتی جو ان مجالس میں حاضر نہیں  ہو سکتے تھے ۔ اس طرح  چراغ سے چراغ جلتا جاتا ۔

یہ جماعت  خفیہ ہونے کی وجہ سے اس کے متعلق بہت سی باتیں مختلف الرائی ہیں ۔ اس کے بارے چند اہم معلومات درج ذیل ہیں ۔ 

اخوان الصفاء کا پورا نام "اخوان الصفاء و خلان الوفاء و اھل العدل و ابناء الحمد و ارباب الحقائق و اصحاب المعانی " تھا۔ اس کا مختصر نام "اخوان الصفاء " تھا  ، اس جماعت نے دار الخلافہ بغداد سے دور بصرے کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا. اس کے ارکان کی مکمل فہرست کہیں نہیں ملتی۔ ارکان کے نام پوشیدہ رکھے جاتے . ابو حیان التوحیدی نے 973ء میں ان میں سے چند کے نام ظاہر کر دیے . ابو حیان اس دور کا ایک ممتاز فاضل تھا اور اخوان الصفا کے بعض ارکان کا دوست تھا۔ ابو حیان نے جو نام بتائے ان میں ابو سلیمان محمد بن معشر البستی المقدسی، ابو الحسن علی بن ہارون الزنجانی ، ابو احمد المہر جانی ، ابوالحسن العوفی  اور زید بن رفاعہ شامل ہیں .

اعلی تعلیم میں تحقیق کا طریقہ - ابو البشر احمد طیب

اعلی تعلیم میں  تحقیق کا طریقہ
( نوٹ : قاری کے لیے یہ مضمون ڈاکٹر گیان چند کی معروف  کتاب " تحقیق کا فن " کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے ۔)

تحقیق ایک منظم کوشش کا نا م ہے جس میں معلومات، مشاہدات اورتجربات سے مدد لی جاتی ہے ۔ تحقیق حقائق تک پہنچنے کے لئے کی جاتی ہے یا دریافت شدہ حقائق کی مزید توضیح اور تشریح کے لے ، یا نا معلوم یا کم معلوم کو جاننے کی کوشش کا نام تحقیق ہے ۔ 

اسلام کے متعلق تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ مسلم دانشور ، مصنفین ، اسلامی کتب اور اسلام کے بارے میں جن متفرق تحقیقات کے بارے میں کم معلوم ہے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جائیں، اسلام کے بارے میں اب تک جو کچھ معلوم ہے اس کی جانچ پڑتال کرکے اس کی غلط بیانیوں کی تصحیح کردی جائے تاکہ غلط مواد کی بناپر غلط معلومات عام نہ کردی جائے ۔ 

تحقیق کے مقاصد : 

اساتذہ کے نزدیک یونیورسٹیوں میں تحقیق کے چار اہم مقاصد ہیں : 1- غیر موجود حقائق کی دریافت 2- موجود حقائق کا دوبارہ جائزہ 3- حدود علم کی توسیع 4- مناسب اسلوب 5- مواد کی تنقیح 6- فکر کی مدد سے اصول تلاش کرنا 7- منتشر معلومات اور مواد کو مرتب کرنا ۔ 

یونیورسٹیوں میں تحقیق کے مختلف شعبے ہیں ، سائنس ، تاریخ ، سماجی سائنس کے علاوہ ادب اور مذاھب کے بارے میں  تحقیق کی جاتی ہے ، سائنس کی تحقیق تجزیاتی ہوتی ہے ، سماجی اور انسانی علوم کی تاریخی، تجزیاتی یا عملی ہوتی ہے جبکہ ادب کی تاریخی، تحلیلی اور تنقیدی ۔ 

تحریک خلافت اور آزادئی ہند

خلافت خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنھم کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس سے ہوتی ہوئی ترکی کے عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی۔

پہلی جنگ عظیم کے وقت اسلامی سلطنت کا مرکز ترکی تھا اور اس کے سربراہ خلیفہ عبد الحمید تھے۔

 خلفائے راشدین نے دار الحکومت کا درجہ مدینہ منورہ کو دیا جبکہ حضرت علی نے انتظامی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے دار الحکومت کو کوفہ منتقل کیا۔

 بنوامیہ کے دور میں دار الحکومت کوفہ سے دمشق لے جایا گیا بنی عباس کے دور میں دار الحکومت کی سرگرمیوں کا مرکز بغداد بنا۔
 بغدادکی تباہی (1258ء ) کے بعد دار الحکومت کو قاہرہ میں لے جایا گیا۔ 1518ء میں ترک عثمانی بادشاہ سلطان سلیم نے خلافت کے اختیارات سنبھال کر دار الحکومت قسطنطنیہ (استنبول) کا اعلان کیا ۔

پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ ہوگی ۔

جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل کر دیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کو وعدے یاد دلانے کے لیے اور خلافت کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کی جسے "تحریک خلافت" کا نام دیا گیا۔

ریاست پاکستان اور پاکستانی قومیت کی بحث

ابوالبشر احمد طیب 

قیام پاکستان سے قبل اور اس کے بعد  ہی سے صحافیوں ، دانشورں اور علماء کے درمیان یہ بحث جاری ہے کہ  دوقومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کی حقیقت کیا ہے ؟ پاکستانی قوم کی  شناخت کیا ہے ؟ اور ریاست پاکستان کا بیانیہ کیا ہے؟  اس بحث میں شریک  ایک گروہ کا تو یہ بھی دعوی ہے کہ اس وقت پاکستانی قومیت کی شناخت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ قوم کی بازیافت کے لیے ریاست کو نیابیانیہ پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے پیچھے خاص کر وہ طبقہ ہے جو مدارس اور علماء دین سے بیزار ہے۔ وہ مدارس اور علماء دین کے تصور ریاست سے مطمئن نہیں وہ اس تصور کو پاکستانی قوم اور معاشرہ کی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ 

دوسری طرف علماء کرام اور ان کے نمائدہ دانشور اور صحافی ہیں، وہ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ نظریہ پاکستان، دوقومی نظریہ پر زور دیتے ہیں۔ قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان اور پاکستانی معاشرہ اور قوم کی تشکیل پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ روشن خیال طبقہ قرارداد مقاصد کو درست نہیں مانتے وہ ریاست پاکستان کی نئی تشکیل کرنا جاہتے ہیں اور نیا پاکستان، ایک نئی قوم اور نیا معاشرہ وجود میں لانا چاہتے ہیں ۔ 

رضیت باللہ ربا ، ماہر زین


ماہر زین طرابلس، لبنان میں 1981ءمیں پیدا ہوا۔ وہ سویڈن سے تعلق رکھنے والا ایک گلوکار ہے۔۔ لیکن بعد میں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ عام گلوکار نہیں بلکہ اسلامی موضوعات پر بالخصوص حمد ونعت پر اپنا تشخص بنائے گا۔
2009ء میں شادی ہوئی، ماہر زین کا ایک بیٹا عبد اللہ اور ایک بیٹی آیہ ہے۔
2010ء کے آخر تک ماہر زین ملائیشیا میں سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا فن کار بن گیا۔ سب سے زیادہ کامیابی بھی ماہرزین کو ملائیشیا میں ملی۔ اس کو وارنر میوزک ملائیشیا نے 8 پلاٹینیم ایوارڈ دیے۔