بانی درس نظامی ملا نظام الدین ؒ کے والد ماجد ملا قطب الدین سہالویؒ

احمد قاسمی

(بہت کم علما وٖطلباکے علم میں یہ بات ہوگی کہ ایشیا کے زیادہ تر مدارس اسلامیہ میں رائج نصاب "درس نظامی" کے بانی ملا نظام الدین سہالوی ابن ملاقطب الدین سہالوی ہندوستان کےصوبہ اتر پردیش ضلع بارہ بنکی کے ایک قصبہ سہال سےتعلق رکھتے تھے۔ایک مدت سے خاندان شہید قطب کے حالات وواقعات کی جستجو تھی ۔اللہ کے فضل ہے کتاب" بانی درس نظامی "جو کمیاب ہے دستیاب ہوئی ہے ۔کتاب ہذا سے پہلی قسط ہدیہ ناظرین ہے ۔ )

"لٹا ہوا کنبہ جن کا مورث اور سر پرست ،اشقیا کی اچانک یلغار میں اپنے گھر کے اندر گھر والوں کی نگاہوں کے سامنے شہید ہو چکا تھا جب دارالبوار سے مسکن عافیت کی طرف جارہا تھا تو اس میں ایک چودہ سالہ یتیم بھی تھا جو اپنے بڑے بھائی ،والدہ اور چھوٹے بھائی اور بھتیجوں کے ساتھ ایسی سمت گامزن تھا جن کی منزل مقصود خواہ طے پا چکی ہو ،لیکن اس ہجرت اور ترکِ وطن کا مستقبل دھندلے میں تھا ۔

اس یتیم کی، اس آوارہ وطن قافلہ میں اس سے زیادہ کیا اہمیت ہو سکتی تھی کہ ایک مضلوم خاندان کا ایک بچہ جس کا مستقبل پورے خاندان کے مستقبل کی طرح غیر واضح اور غیر یقینی ہے ۔ یہ لٹا ہوا کنبہ ملا قطب الدین شہید سہالوی کاتھا۔

ملا قطب الدینؒ کی شہادت ۱۹ر جب ۱۱۰۳؁ھ(مطابق ۲۷ مارچ ۱۶۹۲ ؁ء کو قصبہ سہالی ضلع بارہ بنکی میں اُس وقت ہوئی جب وہ طلوعِ آفتاب کے بعد اپنی محلسرا کے دیوان خانہ میں جو مدرسہ کہلاتا تھا، درس وتدریس کے لئے بیٹھے تھے ،اور طلباء کی محدود تعداد اُس وقت تک حاضر ہو پائی تھی۔"روزآنہ کے معمول کے مطابق ملاقطب الدینؒ فجر کی نماز اور وظائف سے فارغ ہو کر اپنے مدرسہ میں آئے اور حاضرِ خدمت فاضلین کو درس دینے میں مشغول ہوگئے ، جب دو گھڑی دن گزر چکا تھا اچانک اسداللہ جو آس پاس کے زمیندار ہیں ،آئے اور ملا صاحب کےمکان کا محاصرہ کر لیا ،چاروں طرف سے دیواروں میں نقب لگا کر گھر کے اندر گھس آئے ،ملا صاحب کو "تبر" کا ایک زخم ، گولی کا ایک زخم اور چہرے پر تلوار کے سات زخم پہنچائےاور ان کو شہید کر ڈالا ، زبدۃ الاولیاء بندگی شیخ نظام الدین ساکن امیٹھی کی اولاد میں شیخ غلام محمد اور سندیلہ کے شیخ عزت اللہ بھی جو فاتحۃ الفراغ پڑھنے کے لئے حاضر خدمت تھے ، مذکورہ ظالموں کے ہاتھ شہید ہوئے ، پرگنہ سہالی کے چو دھری محمد آصف جو ملا صاحب کی مدد کیلئے ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے اپنے ہمرائیوں سمیت شہید ہوئے ، فدوی محمد سعید (فرزند دوم ، ملا قطب الدین شہید ) اور کچھ طلباء نیز پر گنہ سہالی کے قاضی عبد اللہ کے بھائی اور نائب فضل اللہ بھی اس ہنگامہ میں زخمی ہوئے"


ملا قطب الدین ؒ کی شہادت کی یہ سب سے قدیم اور مستند روئیداد ہےاور یہ اس کا مختصر اقتباس ہےجو ملا قطب الدینؒ شہید کے فر زندوں نے تیار کیا تھا ،اور جوار کے معززین نیز عمال شاہی کے تصدیقی دستخط اس پر لے کر اورنگ زہب عالمگیر کے سامنے پیش کیا تھا ،اس محضر سے جوہنود موجود ہے (اور مولانا جمال میاں صاحب فر نگی محلی فرزند مولانا قیام الدین محمد عبد الباری فر نگی محلی کے مِلک میں ہے )اس حادثے کے دیگر تفصیلات پر بھی پوری روشنی پڑتی ہے ،اس چشم دید بیان کے پیش نظر اُن قیاس آرائیوں یا روایتوں کے حاجت نہیں رہتی جن کے لئے تذکرہ نویسوں نے بار بار زحمت اٹھائی ہے ۔

قصبہ سہالی کے خانزادوں اور شیوخ عثمانی اور انصاریوں کے درمیان زمیندارانہ نزاع کو ملا صاحبؒ سے عداوت کا سبب قرار دینا کوئی دور رس تحقیق نہیں مانی ،اس لئے کہ ایسی نزاع اور رقابت قصبہ کی زندگی میں عامۃ الورد رہی ہے، قصبہ سہالی میں بھی نزاع ہو سکتی تھی اور تھی لیکن ملا قطب شہید کا اس میں مؤثر فریق کی حیثیت رکھنا قوی تاریخی ثبوت کا محتاج ہے،اسی محضر کے ذریعہ ملاقطب کے معمولات زندگی پر جو روشنی پڑتی ہے ،اس سے زمیندار انہ نزاعوں میں ان کی عملی شرکت کا عدم ِ امکان بھی واضح ہو جاتا ہے ۔"بر اصاغر وکابر ایں دیار روشن ومبرہن است کہ مولوی مذکور کہ موصوف بکمالات انسانیہ وفضائل علمیہ وعملیہ وحافظ قرآم مجید بودند وغیر اشتعال تدریس وتکرار ۔۔۔علوم دینیہ وعبادت وطاعت کارے نداشتند ودر اوقات فر اغ از درس وعبادت بہ تصنیف در علم تفسیر وحدیث وفقہ اُصول می پر داختند۔۔۔"( اس جوار کے تمام جھوٹے بڑے بخوبی جانتے ہیں کہ ملا قطب الدین شہیدؒ جو کمالات انسانیہ اور علمی اور عملی فضائل سے متصف اور حافظ قرآن مجید تھے ، علوم دینیہ کے طلبہ کے درس وتدریس اور عبادت خداوندی کے علاوہ ان کا کوئی اور کام نہ تھا درس وعبادت سے فرصت کے اوقات میں تفسیر ، حدیث ، فقہ اور اُصول فقہ کے ایسے علوم میں تصنیف وتالیف میں مصروف رہتے تھے۔

"غیر اشتعال تدریس وتکرار وعبادات وطاعت کائے نداشتند" کے الفاظ بڑی وضاحت کے ساتھ ملا قطب الدینؒ کے معمولات ِ روز وشب کو پیش کر دئیے ہیں،ان علمی مصروفیتوں اور روحانی مشغولیتوں میں جائداد کے جھگڑوں اور زمیندارانہ نزاع کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی ، یہ قیاس کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ شورہ پشتوں کے ظلم وجور کے ارمانوں کے پورا ہونے میں ملا صاحب کی وجاہت اور اصاغر واکابر میں ان کی مقبولیت سدراہ رہی ہو گی ،اس لئے کہ اورنگ زیب عالمگیرؒ تک ملا صاحب ؒ کے علم وفضل ،زہد واتقا اور قناعت وگوشہ نشینی کی خصوصیتوں سے کما حقہ واقف تھا، اس نے بار بار م؛اقطبؒ سے ملاقات کی درخواست بھی کی تھی مگر قطب نے اپنی جگہ سے ہلنے سے انکار کیا ۔

فرحۃ الناظرین ( مخطوطہ آزاد لائبریری مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ) کے الفاظ میں " ملا قطب الدین سہالوی علوم عقلیہ ونقلیہ میں اپنے ہم عصر علماء پر فوقیت رکھتے تھے ،اور گو شہ نشینی کے دامن میں پائے قناعت کو لپیٹے رہتے ،امیروں اور دو لتمندوں کے پاس وہ نہیں جاتے تھے اور برابر طلبائے علم کو پڑھانے نیز علومِ معرفت کے کسب میں مصروف ،قصبہ سہالی میں جو لکھنؤ کے مضافات میں ہے ، زندگی گزارتے رہے بادشاہ عالمگیر نے بارہا ملا صاحب کو ملاقات کی زحمت دی مگر ملا صاحب نے اسکی خواہش کو قبول کر نے سے انکار کر دیا ، انہوں نے بہت سے لو گوں کو شاگردی کے نچلے درجے سے اٹھاکر استادی کے اعلیٰ مرتبے تک پہونچایا ۔۔۔۔۔۔۔ ملا قطب شہید کے تمام اوصاف بیان کر نا تقریر وتحریر کے امکان سے خارج ہے ، بالآخر کچھ شر پسندوں کی سازش نے عالمگیری جلوس کے۴۷ویں سال قطب مذکور کوقصبہ سہالی میں ملا قطب الدین شہید ہو گئے ۔

فرحۃ الناظرین کا مصنف محمداسلم بن حفیظ اللہ انصاری بارھویں صدی ہجری کا آخر کا ہے جس نے اپنی کتاب ۱۱۸۷؁ھ میں فیض آباد میں مکمل کی ،اسی صدی کے آغاز میں واقعہ شہادت پیش آیاتھا ،تیرھوی صدی ہجری کے آغاز کی،ایک تصنیف میں جس کے مصنف ملا محمد ولی اللہ انصاری فرنگی محلی (وفات ۱۲۷۰؁ھ )ہیں جو چار واسطوں سے ملا قطب شہید کے ساتھ عالمگیر کی عقیدت مندی کاحال اس طرح ملتا ہے " جب ملا قطب الدین کے علم وفضل کا شہرہ اطراف ودیار میں خوب ہو چکا بلکہ تمام ہندوستان میں پھیل گیااور ملا صاحب کی ذہانت اور فضیلت نیز ان کی خدمت میں پڑھنے والوں کے از جلد فارغ التحصیل ہو نے کی خبر نیک خصال اورنگ زیب بادشاہ غازی کو پہونچی تو اس نے سلسلہ مراسلت ملا صاحب سے برابر جاری رکھا اور انتہائی عقیدت اسے ملا صاحب سے ہو گئی ۔یہی وجہ ہے کہ اورنگ زیب اپنے اُمراء اور حکام کو ملا قطب الدین شہید کی خدمت میں بھیجا کرتا تھا "

اور عالمگیر کی عقیدت مندی ہی ملا قطب الدین کی شہادت کی وجہ بھی ہوئی۔جیسا کہ ملا ولی اللہ فرنگی محلی اس کے آگے لکھتے ہیں "عالمگیر کی اتنی عقیدت مندی اور امراء شاہی کی ملا صاحب کی خدمت میں برابر آمدورفت اشقیاء کیلئے سبب خوف بن گئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان شورہ پشتوں کی بد معا شیاں بادشاہ کے علم میں آجائیں اور ان پر قہر شاہی نازل ہو جائے ان اشقیا نے باہم صلاح وسازش کی کہ ملا قطب الدین کو درمیان سے ہٹا دینا چاہئے تاکہ یہ اندیشہ رفع ہو جائے اور پوری طرح سکون مل جائے"

ان شورہ پشتوں کو محض شک ہوا یا واقعہ بھی یو نہی پیش آیا کہ قصبہ سہالی میں ان لوگوں نے جو فساد عرصہ سے بر پا کر رکھا تھا اُس کی اطلاع ملا صاحب کی ذریعہ بادشاہ کے کانوں تک پہنچ گئی اور قبل اس کے کہ یہ اشقیاء قہر سلطانی میں گرفتار ہوں وہ ملا صاحب سے بدلہ لینے کیلئے ملا محمد ولی اللہ فرنگی محلی کے الفاظ میں " بطریق ڈاکہ" گھر پر چڑھ آئے ۔

واقعہ سے متعلق چشم دید بیان یعنی بادشاہ کو پیش کئے جانے والے محضر کے یہ جملے بھی اس سلسلے میں بیحد اہم ہیں " ملا قطب الدین کی لاش کو ایک جگہ دفن کرتے پھر نکالتے پھر دوسری جگہ دفن کرتے پھر نکالتے رہے بالآخر نودن کے بعد ملا صاحب کی لاش کے دونوں ہاتھ کاٹ کر رکھ لئے اور لاش قصبہ سہالی بھیجوادی"

لاش کے دونوں ہاتھ کاٹ لینے کو محض " مثلہ" کی شقاوت تک محدود نہیں رکھا جا سکتا ، یہ وحشیانہ حرکت ضمنا اُسی پر دلالت کرتی ہے کہ اشقیا کے غیض وغضب کا جو سبب تھا اس میں ملا صاحب کے ہاتھوں کا دخل اِن اشقیا کی نظر میں کم از کم ضرور تھا ۔

سند اور قیاس سے یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ملا صاحب کی کسی تحریر سے یا اُن اُمرائے شاہی کی زبانی جو ملا صاحب کی خدمت میں بادشاہ کے بھیجے ہو ئے آیا کرتے تھے ،قصبہ سہالی کے ان شورہ پشتوں کا حاسل بادشاہ کے علم میں آچکا تھا اسی لئے " جب شاہی خبر رسانوں نے ملا قطب کے واقعہ شہادت کی اطلاع بادشاہ عالمگیر کو اس زمانہ میں دکن میں تھا لکھ بھیجی تو فی الفور شاہی احکام صوبداران علاقہ کو موصول ہوئے کہ ملا قطب الدین کے قاتلوں کو جلد ازجلد سزا دی جائے ،ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جائےاور قاتلوں میں سے جو بھی ہاتھ آئے اس کو قتل کر دیا جائے "ملا ولی اللہ فرنگی محلی جن کی کتاب عمدۃ الوسائل ( قلمی) کے یہ اقتباسات دئیے گئے ہیں اُسی صدی کے آخر میں پڑھ لکھ کر فارغ ہو چکے تھے جس صدی کے آغاز میں حادثہ شہادت پیش آیا تھا ، محضر اور ملا ولی اللہ فرنگی محلی کی تصریحات ، زیر بحث مسئلہ میں اس لئے بھی قابل تر جیح ہیں کہ ایک چشم دید بیان ہے اور دوسرا مورخ اور تراجم ورجال کا ماہر عالم اور مصنف ہے کس ثقاہت غیر نزاعی ہے ،رسالہ قطبیہ ( قلمی) کے مصنف بھی ملا قطب الدین شہید کے اخفاء میں ہیں اور ملا ولی اللہ سے ایک پشت اوپر ہیں لیکن رسالہ قطبیہ کی تصنیف اور ملا ولی کی اس تصنیف کے درمیان صرف نو سال کا فرق ہو، یہ رسالہ قطبیہ ۱۲۰۰ ؁ھ میں تمام ہوا اور ملا ولی اللہ کی کتاب ۱۲۸ ؁ھ میں مکمل ہوئی اور بحیثیت مصنف ومؤرخ ملا ولی اللہ ثقہ اور اثبت ہیں۔جاری ہے۔