انسانی زندگی میں نصیب یا مقدر کا دخل - واصف علی واصفؔ

سکون یا اطمینان محنت کا نتیجہ نہیں، یہ نصیب کی عطا ہے۔ اگر انسان کی زندگی میں نصیب، مقدر یا منشائے الٰہی کا دخل نہ ہوتا تو اسباب و نتائج کا رشتہ سائنس کے اصول کی طرح ہمیشہ قائم رہتا۔ لیکن ایسا نہیں۔ اس لیے کہ انسان کے عمل میں فطرت کا دخل ہے، گردشِ روزگار کا دخل ہے، حالاتِ زمانہ کا دخل ہے۔ کوششیں اپنی ذات تک تو نتیجہ دے سکتی ہیں، لیکن جب انسان دوسرے انسان سے متعلق ہوتا ہے تو کوشش کے باوجود متوقع نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ انسان اپنے راستے پر صحیح سفر کررہا ہو تو بھی اُسے کسی اور کی غلط رَوی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ حادثہ، سبب کو نتیجے سے محروم کرنے والے واقعے کا نام ہے اور زندگی حادثات کی زَد میں رہتی ہے۔ یہ چراغ ہمیشہ نامعلوم آندھیوں کی زد میں رہتا ہے۔ اسی طرح اگر نصیب ساتھ دے اور کوئی شعیبؑ میسر آئے تو شبانی کو کلیمی بنادیتا ہے۔ اس میں محنت کا استحقاق نہیں۔ یہ ازلی نصیب ہے۔ یہ قدرت کے اپنے جلوے ہیں، فطرت کی اپنی عطا ہے، مالک کی اپنی منشا ہے۔ ہر محنت کرنے والا بامراد نہیں ہوسکتا۔
دنیا میں بے شمار محنتیں رائیگاں ہوکر رہ گئیں۔ بے شمار مسافر منزلوں سے محروم رہے۔ بے حساب اسباب اپنے نتائج نہ دیکھ سکے۔ کم و بیش ہر انسان زندہ رہنے کے لیے کوشش کرتا ہے، اور زندہ رہنے کی کوشش نے ہی انسان کو موت تک لانا ہے۔ یہ ایسا نتیجہ ہے جو اپنے سبب کے بالکل برعکس ہے۔ زندگی پیدا کرنے والے کا یہ ارشاد ہے کہ وہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے۔ وہ جسے چاہے ملک عطا کرے اور جسے چاہے معزول کردے۔ وہ جسے چاہے بے حساب رزق دے، جسے چاہے اُس کے گناہ معاف فرمادے اور اُس کی سابقہ برائیوں کو اچھائیوں میں بدل دے۔ جسے چاہے، جب چاہے پیدا فرمادے اور جب چاہے اُسے واپس بلالے۔


خالق کا عمل انسانی زندگی میں شامل رہتا ہے، اور خالق کا عمل کسی سبب کا محتاج نہیں۔ وہ خود مسبب ہے اور قادرِ مطلق ہے۔ اسی لیے انسانی زندگی اسباب و نتائج کے فارمولے میں قائم نہیں رہتی۔ دو کسان اپنے اپنے کھیت میں ہل چلاتے ہیں، بیج بوتے ہیں، بارش کا انتظار کرتے ہیں۔ بادل برستے ہیں، ایک کھیت سیراب ہوجاتا ہے اور دوسرا خشک رہتا ہے۔ یہ عمل ہر سطح پر ہے۔ زندگی میں ایسے واقعات بھی دیکھے گئے ہیں کہ ایک سبب کبھی ایک نتیجہ پیدا کرتا ہے اور کبھی دوسرا نتیجہ… پہلے سے بالکل مختلف اور برعکس!

زندگی کو سائنس بنانے والے، زندگی کو فارمولا بنانے والے، زندگی کو ریاضی کے اصول بنانے والے لوگ زندگی کی نغمگی، زندگی کے حسن، زندگی کے لطف اور زندگی کے باطن کی جلوہ گری سے اکثر محروم رہتے ہیں۔

زندگی صرف اصول ہی نہیں، حسن بھی ہے، محبت بھی ہے، جلوہ بھی ہے۔ ہمارے اعمال کیا اور ہمارے نتیجے کیا! اُس کا فضل نہ ہو تو انسان اپنے عمل کے زعم میں ہی تباہ ہوجائے۔ کیا گمراہ ہونے والا، راستہ طے نہیں کرتا؟ کیا گنہگار محنت نہیں کرتا؟ کیا غلطی عمل نہیں ہے؟ کیا ملاوٹ کرنے والا محنت نہیں کرتا؟ کیا ساری سیاسی جماعتیں محنت نہیں کرتیں؟ کیا کچھ محنتیں رائیگاں نہیں جاتیں؟ کیا ہر سبب نتیجہ دے سکتا ہے؟ کیا ہر بیج اُگتا ہے؟ کیا ہر عالم دانا ہوتا ہے؟ کیا ہر سفر آسودۂ منزل ہوتا ہے؟ کیا مخلص دوستوں کا میسر آنا کسی سبب کا نتیجہ ہے؟ کیا حالاتِ زمانہ کا سازگار ہونا ہمارے عمل کا نتیجہ ہے؟ کیا خوبصورت چہرہ انسان کا اپنا عمل ہے؟ کیا مکھی نے محنت کرکے شہد بنانے کا فارمولا حاصل کیا ہے؟ کیا سیارے اور ستارے سفر کرتے کرتے تھک تو نہیں گئے؟ کیا چاند اور سورج کسی اور سبب کے نتائج ہیں یا کسی اور نتیجے کے اسباب؟ کیا بنانے والے نے زندگی میں دخل دینا چھوڑ دیا ہے؟ کیا علاج نے بیماری کو مسخر کرلیا ہے؟ کیا دوا سائنس بن گئی ہے؟ کیا دُعا کی ضرورت ختم ہوگئی ہے؟ کیا انسان بھول گیا ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے اُس کا ذکر تک نہیں تھا اور آج سے کچھ عرصہ بعد بھی اُس کا ذکر تک نہ ہوگا؟ کیا انسان سبب اور نتیجے کے حوالے سے فطرت اور فاطر سے باغی تو نہیں ہورہا؟ کیا غرورِ نفس انسان کو اُس مقام تک لے آیا ہے جہاں وہ اپنے بازوئوں کو قادر سمجھ رہا ہو؟ اپنی قوت کو اپنا مقدر سمجھ رہا ہو؟ کیا وہ جانتا نہیں کہ پسند کی جانے والی ہر چیز اُس کے لیے مفید نہیں، اور ناپسند ہونے والی ہر چیز اُس کے لیے مضر نہیں؟ کیا انسان کو یاد نہیں کہ فرعون کے تمام ’’اسباب‘‘، اُس کی تمام تر کوشش اُس کے لیے وہ نتیجہ مرتب نہ کرسکیں جس کی اُسے ضرورت تھی۔

(’’قطرہ قطرہ قلزم‘‘…)