ملفوظات اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ملفوظات اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بزم اقبال ، سعادت علی خاں، ایم اے

بزم اقبال
سعادت علی خاں، ایم اے

میں جھنگ سے ایک دن کے لیے لاہور آیا۔ عبداللہ یوسف علی صاحب نے لنڈن سے اپنے پمفلٹ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی چند کاپیاں مجھے بھیجی تھیں کہ انہیں ارباب علم و ذوق کی خدمت میں پیش کر دوں۔
دوپہر کا وقت تھا، میں ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی ایک کاپی لے کر علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حسب معمول اہل شوق کا ایک گروہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کی نشست گاہ میں بیٹھا ہوا ان انمول موتیوں کو چن رہا تھا جو علامہ موصوف دوران گفتگو میں یوں بکھیرا کرتے تھے کہ ہم میں ہر ایک اس لٹتی ہوئی دولت کی افراط و ارزانی کو دیکھ کر اپنے کو جواہر معرفت و روحانیت سے مالا مال تصور کرتا تھا۔ کہاں ہے اب وہ محفل اور وہ بے مثل آواز؟ اس کا جواب موت سے پوچھیے، میری غم زدہ روح اور کانپتا ہوا قلم کیا اس کا جواب دیں گے!
میرے کمرہ میں داخل ہونے پر اس غیر فانی تبسم سے جس پر ہزار الفاظ قربان ہوں، مجھے اپنے پاس کی ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سلسلہ گفتگو کشمیر سے متعلق تھا۔ کشمیر میں آزادی کی روح صدیوں کے تشدد و جبر کے بعد اپنا سر ابھار رہی تھی۔ ریاست اسے ہر طریق سے پھر دبانا چاہتی تھی۔ لیکن علامہ مرحوم فرما رہے تھے کہ یہ نا ممکن ہے، یہ روح کی چنگاری ہے، شعلہ بن کر رہے گی1؎۔
محفل میں سے ایک صاحب نے کشمیریوں کی غربت و جہالت کا ذکر کیا۔
مرحوم مسکرا دیے:’’ غربت و جہالت قوت ایمان و حریت کی راہ میں نہ کبھی سد راہ ہو سکے ہیں اور نہ ہوں گے۔ ہم تو امی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت ہیں۔ مسلمان کے لیے غربت و جہالت کی آڑ لینا اس کی روحانی کمزوری کی پکی دلیل ہے۔‘‘
ان الفاظ نے سامعین پر ایک رقت سی طاری کر دی۔ علامہ مرحوم نے غالباً اس کا احساس کرتے ہوئے بات کا رخ پلٹ دیا، فرمانے لگے میں تو نبی ہوتا ہوتا رہ گیا۔ حالات نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کی طباعت اور اشاعت میں تاخیر کر دی ورنہ کشمیر کے اس ہیجان کو تو میں مدت سے’’ دیکھ ‘‘ رہا تھا۔
اب میری طرف رجوع کیا۔ میں نے ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی کاپی پیش کر دی۔ میں علم النفس کا طالب علم ہوں، جانتا ہوں کہ ایک اعلیٰ ترین شخصیت جس طرح پر اپنی توجہ کسی نقطہ خاص پر مبذول کر سکتی ہے، اس کی صلاحیت عام آدمیوں میں بالعموم نہیں ہوتی۔ جونہی علامہ مرحوم نے ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کے ورق الٹنے شروع کیے میں خوش ہوا کہ اس بات کے عملی تجربہ کا موقعہ ہاتھ آ گیا۔ کوئی دس پندرہ منٹ تک پمفلٹ کے پینتیس چالیس صفحوں پر سرسری نظر ڈالتے رہے، لیکن اس عرصہ میں وہ گویا ہم میں وہاں موجود ہی نہ تھے۔ کئی ایک حضرات نے کشمیر کے متعلق چند ایک سوالات بھی کیے لیکن علامہ مرحوم نے ایک حرف تک بھی نہ سنا۔
اب مجھے معلوم ہوا کہ ایک طرف کشمیر کے ایک مذہبی تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیٹھے ہیں اور علامہ مرحوم کی خدمت میں مالی امداد حاصل کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔
انہیں مخاطب کر کے فرمایا:’’ تمہارا اس وقت پنجاب میں ہونا اگر درد ناک نہیں تو تعجب انگیز ضرور ہے۔ تم بیکاری کا رونا رو رہے ہو اور تمہارے ہم وطن اپنی آزادی اور حقوق کے لیے طرح طرح کی قربانیاں کر رہے ہیں۔ غربت اور بھوک کی شکایت کرتے ہو، اپنے وطن کو واپس چلے جاؤ، آزادی کی رو میں کود پڑو، اگر قید ہو جاؤ گے تو کھانے کو تو ضرور مل ہی جائے گا، اور اس گداگری سے بچ جاؤ گے۔ اگر مارے گئے تو مفت میں شہادت پاؤ گے اور کیا چاہتے ہو؟ اگر قرآن نے تمہیں یہ بھی نہیں سکھایا2؎ تو تم اور سیکھتے کیا ہو؟ اگر کشمیر جانا ہو تو کرایہ کے پیسے میں دیے دیتا ہوں۔‘‘
نوجوان نے گردن جھکا لی۔ سب خاموش تھے۔ میرا گاڑی کا وقت قریب تھا، اجازت لے کر رخصت ہوا۔
شام ہونے کو تھی، سورج کی آخری شعاعیں شام کے پھیلتے ہوئے دھندلکے سے بر سر پیکار تھیں۔ علامہ مرحوم کو کوٹھی *کے برآمدے میں اکیلے بیٹھا دیکھ کر اپنی قسمت پر رشک کرنے لگا۔ میں نے دل میں کہا:’’ رموز‘‘ ، اسرار، زبور عجم، پیام مشرق، جاوید نامہ آج تو کچھ سبق پڑھ کر جاؤں گا۔
سلام عرض کر کے بیٹھ گیا۔ ارشاد ہوا:’’ شینلگر3؎ کی ’’ زوال مغرب ‘‘ (Decline of the West) پڑھی؟ خوب کتاب ہے، بیسویں صدی کے آغاز کی بہترین کتابوں میں سے ہے۔‘‘
*یہ بھی میکلوڈ روڈ کے زمانہ*قیام کا ذکر ہے۔
میں اس کتاب کی پہلی جلد پڑھ چکا تھا، دوسری نہ پڑھی تھی۔ شینلگر کے اچھوتے نظریے نے میرے دماغ پر خاصا گہرا اثر کیا تھا۔ میں اس کے ساتھ پھر ہیگل 4؎ (Hegal) کے ٹھوس خیالات سے دو چار ہونا چاہتا تھا لیکن مجھے تو آج ’’ سبق‘‘ پڑھنا تھا۔ مختصر سی ’’ جی ہاں، یونہی دیکھی ہے‘‘ کے بعد ہمہ تن گوش ہو کر علامہ مرحوم کی طرف متوجہ ہوا۔
یہ سلسلہ یہیں منقطع ہو گیا۔ ٹھیک اسی وقت میانہ قد، زرد رو، اجنبی نامانوس شکل کا نوجوان وارد ہوا۔ قہر درویش، برجان درویش میں کرسی کی پشت سے لگ کر بیٹھ گیا۔ نوجوان جاوا کا رہنے والا تھا۔ کسی وہاں کے رسالہ یا اخبار کا نامہ نگار تھا۔ اسلامی ممالک کا دورہ کرنے کی غرض سے گھر سے نکلا تھا۔ لاہور میں مولانا ظفر علی خاں کے یہاں مقیم تھا۔ زاد راہ دوسروں کی مہمان نوازی اور فیاضی تھی۔ علامہ مرحوم کے پاس بھی سوال کے لیے حاضر ہوا تھا۔
مرحوم نے ملازم سے پانچ روپے منگوا کر اس کو دیتے ہوئے کہا:’’ اگر تم میں کچھ صلاحیت ہے تو ممکن ہے یہ اسلامی ملکوں کا سفر کسی حد تک تمہاری ذہنی و دماغی ترقی کا باعث ہو۔ لیکن جب تک کہ تم واپس اپنے ملک میں پہنچو گے یہ بھیک مانگنا تمہاری روح کو تو بالکل فنا کر دے گا۔ دماغ یا روح! اس کا فیصلہ تم خود کر لو۔‘‘
کچھ عرصہ تک ہم تینوں خاموش بیٹھے رہے۔ مجھے تو پہلے ہی اس اجنبی کا آنا ایک آنکھ نہ بھایا تھا، اب جو ذرا اس کو تنبیہہ ہوئی، مجھے ایک گونہ تسلی ہوئی۔ اگرچہ اب میں کئی بار متاسف ہوتا ہوں کہ محض خود غرضی کی بنا پر ایک غریب الوطن کا اچانک آنا جانا مجھے کیوں برا معلوم ہوا۔ آخر اس گھر میں تو سبھی کا حق تھا، مسلمانوں کا، ہندوستانیوں کا، سارے دنیا والوں کا ۔
علامہ مرحوم کے چہرے پر وہی متانت اور مسکراہٹ عیاں تھی؟ فرمانے لگے:’’ تمہارے اس طرح گھر سے نکل پڑنے نے ایک پرانے واقعہ کی یاد تازہ کر دی۔ میں شملہ سے واپس آ رہا تھا۔ امرتسر کے اسٹیشن پر گاڑی کھڑی تھی، کھڑکی میں سے باہر دیکھا تو چند ترک پلیٹ فارم پر کھڑے نظر آئے۔ ترکوں کو دیکھ کر میرا دل قابو میں نہیں رہتا۔ فوراً اٹھا اور گاڑی سے باہر نکلا، ان سے باتیں شروع کر دیں۔ وہ گھر سے حج کے ارادہ پر نکلے تھے، لیکن ساتھ ہی ایران، افغانستان اور ہندوستان کی سیر بھی کرنا چاہتے تھے۔‘‘
جاوا کے نوجوان نے خیال ظاہر کیا کہ غالباً پیسے والے ہوں گے۔
لیکن علامہ مرحوم فرمانے لگے:’’ نہیں، معمولی حیثیت کے معلوم ہوتے تھے۔ تھرڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ البتہ بجائے بھیک مانگنے اور دوسروں کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھانے کے اپنی عقل اور محنت پر بھروسہ رکھتے تھے۔ جہاں جاتے وہاں کی مخصوص چیزیں خرید کر دوسری جگہ بیچ دیتے اور اس طرح تجارت کرتے ہوئے قلیل منافع پر ان کا گزران تھا۔ کتنے اچھے ہیں یہ ترک! آزادی ان کا حق ہے۔‘‘
اتنے میں ملازم آیا، معلوم ہوا کہ علامہ مرحوم کو کہیں باہر تشریف لے جانا تھا، ہم دونوں سلام عرض کر کے رخصت ہوئے۔

سعادت علی خاں، ایم اے

اقبال کے ہاں ، خضر تمیمی، ایم اے، ایل ایل بی

اقبال کے ہاں
خضر تمیمی، ایم اے، ایل ایل بی

حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ذات گرامی کے متعلق ایک ہیچ مدان کا کچھ کہنا، چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ لیکن ایک صحبت کی یاد میرے دل سے محو نہ ہو گی۔
1936ء قادیانیت کی شدید مخالفت کا زمانہ تھا۔ ایک طرف تو مجلس احرار اور دوسرے علمائے اسلام اپنی تحریروں اور تقریروں سے ’’ قصر خلافت قادیان کی بنیادیں متزلزل‘‘ کر رہے تھے اور دوسری طرف مرزائی صاحبان اپنی طویل اور قاطع دلیلوں سے’’ سعید روحوں‘‘ کو راہ راست پر لا رہے تھے۔ ان ایام میں حضرت ممدوح علیل تھے۔ لیکن طرفین کی وزنی دلیلیں، سیدھے سادے نوجوانوں کو سوچنے کا موقعہ ہی نہیں دے رہی تھیں۔ اس لیے کئی ایک تشنگان ہدایت، رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ نوجوان بڑی بیتابی کے ساتھ آپ کے ارشادات عالیہ کے منتظر ہیں، آپ نے اپنا شہرۂ آفاق مضمون ’’ اسلام اور قادیانیت‘‘ شائع فرمایا، جس سے کئی ایک گتھیاں سلجھ گئیں اور وہ دلائل جو سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر، سادہ دل نوجوانوں کو گمراہ کر سکتی تھیں، تار عنکبوت کی طرح کمزور نظر آنے لگیں اور نوجوانوں کی متوقع بیراہ روی کا مکمل سد باب ہو گیا۔
پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کو اس مضمون کے بعض حصے سمجھ میں نہ آئے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اسلامی تعلیمات اور ماحول سے واقفیت نہ تھی، چنانچہ انہوں نے ’’ ماڈرن ریویو‘‘ (کلکتہ میں مذکورہ مضمون پر تنقید لکھی جس کا جواب حضرت علامہ رحمتہ اللہ علیہ نے ’’ اسلام اور احمدیت‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا۔ اس کی اشاعت سے دلوں کے رہے سہے شکوک بھی رفع ہو گئے۔
قصہ کوتاہ ہر طرف قادیانیت کے موافق یا مخالف تذکرے شروع تھے جن سے مساجد اور عام جلسہ گاہوں کے علاوہ مکلف کوٹھیوں کے خلوت کدے بھی خالی نہ تھے۔ ان ایام میں یہی معلوم ہوتا تھا کہ دنیا میں صرف دو ہی فریق رہ گئے ہیں: ایک وہ جو قادیانیت کا مخالف ہے اور دوسرا وہ جو اس کے موافق۔ میں نے اس سال پنجاب یونیورسٹی کے ایم اے (فارسی) کا امتحان دیا۔ حضرت ممدوح ہمارے ایک پرچے کے ممتحن اعلیٰ تھے اور اس میں ممدوح نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خلافت الٰہیہ اور مجدد کے نظریے کے متعلق ایک سوال پوچھا تھا جس میں ضمنی طور پر قادیانیت بھی زیر بحث آ جاتی تھی۔
اپنے دوست، صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم کے ساتھ ’’ جاوید منزل‘‘ میں مجھے حضرت ممدوح کی زیارت نصیب ہوئی۔ ہمارے جانے سے پیشتر قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح، کسب فیض کے بعد موٹر میں سوار کوٹھی سے نکل رہے تھے۔آپ نے دروازے تک ان کی مشائعت کی اور پھر ہماری طرف توجہ فرمائی۔ صوفی صاحب کو دیکھ کر تو آپ بس نہال ہی ہو گئے۔
ڈیوڑھی میں ایک کھری چارپائی بچھی تھی جس کے سرہانے چھوٹا سا تکیہ دھرا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پائنتی کی طرف کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس پر ایک کتاب کھلی ہوئی پڑی تھی، جس کے ایک خاص مقام پر پنسل دھری تھی۔ ایک کابی شاید مختصر یاد داشتوں کے لیے پاس تھی۔ حضرت ممدوح صرف سادہ سے کرتے اور شلوار میں ملبوس تھے۔ آخر الذکر پنجاب کی پانچ گزی شلوار اور پائجامے کے بین بین تھی۔ اللہ اللہ مشرق و مغرب کے جملہ علوم کا ماہر خرابی صحت اور زیادتی عمر کے باوجود اب بھی اس شان سے ہمہ تن مطالعہ تھا!
حضرت علامہ اور ہم’’ جاوید منزل‘‘ کے گول کمرے میں گئے جس کی مشرقی فضا سے ہم بہت متاثر ہوئے۔ سب سے پہلے ایک قلفی دار، سادہ،فرشی حقہ لایا گیا جس میں نرم تمباکو بھرا تھا۔ میں نے کڑوے تمباکو کا ذکر چھیڑا تو آپ نے جھنگ کے تمباکو کو سراہا، لیکن گلے کی تکلیف کے باعث اس سے لطف اندو زہونے سے معذوری ظاہر فرمائی۔ ہم میں سے ممدوح کے ساتھ حقہ پینے کا شرف صرف صوفی صاحب قبلہ کو حاصل ہوا۔
ادبیات پر گفتگو شروع ہونے پر مشرق و مغرب کے ادبیات زیر بحث آ گئے جس میں حضرت علامہ سمندر کی سی وسعت کے مالک معلوم ہوتے تھے اور ان کے تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ جس موضوع پر گفتگو فرماتے تھے یہی معلوم ہوتا تھا گویا ساری عمر آپ نے اسی کے مطالعہ میں صرف فرمائی ہے۔ ضمناً پنجاب کی ادبی روایات پر بھی بات چیت ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ آئندہ ان کے برقرار رکھے جانے کی امیدیں دو نوجوانوں سے وابستہ نظر آتی ہیں۔ ایک (مخدومی پرنسپل) تاثیر ( پی ایچ ڈی کینٹب ایم اے او کالج امرتسر) اور دوسرے (محترمی) محمد اسد خان صاحب اسد ملتانی بی اے۔
علی بخش چائے لایا اور آپ نے میٹھی چائے پر نمکین کو ترجیح دی۔ چائے کے ساتھ ساتھ ماہبیات کا دور شروع ہوا۔ میں نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کی ان تصریحات کے متعلق استصواب کیا۔
آن ز ایراں بود و ایں ہندی نژاد
آپ نے جواب میں قادیانیت اور اس کے بانی کی مختلف تحریروں اور دعاوی کے پیش نظر ظاہر فرمایا کہ ثانی الذکر کی شخصیت نفسیاتی مطالعہ کے لیے بہت موزوں ہے۔ صوفی صاحب بولے کہ آپ سے بڑھ کر موصوف کا تجزیہ نفسی کون کر سکے گا۔ ارشاد ہوا کہ موضوع واقعی بہت دلچسپ ہے، لیکن صحت کی خرابی مانع ہے، کوئی نوجوان اس کام کے لیے اٹھے تو اس کی ہر ممکن امداد اور رہبری کروں گا۔ اس کے بعد آپ نے ان نقصانات کو گنایا جو قادیانیت کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں مذاہب عالم کو برداشت کرنے پڑے۔ پھر مختلف مذاہب سے اسلام کے امتیازات کو بشرح تمام واضح کر کے ارشاد فرمایا کہ اسلام نہ صرف دنیا کے مذاہب میں سے کامل ترین 1؎ مذہب ہے، بلکہ اس سلسلے میں جو ارتقائی بلندیاں انسان کو ودیعت کی گئی ہیں ان کی بھی آخری کڑی ہے۔ آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ قادیانیت کی تعلیم اسلام کی تیرہ سو سال کی علمی اور مذہبی ترقی کے کس طرح منافی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر آپ نے ظاہر فرمایا کہ قادیانیت کے ارکان اعلیٰ اسلاف صالحین کی تحریروں کو محرف کر دیتے ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انہیں ایک خاص موضوع پر کی مسلمہ کتب کا علم تک بھی نہیں ہوتا۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے، ایل ایل بی امیر جماعت احمدیہ لاہور کا ذکر بھی درمیان میں آتا رہا۔ آخر کار میں نے عرض کیا کہ فریقین کی آراء کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ الیوما کملت لکم دینکم کی صریح نص قرآنی کے بعد اجرائے نبوت کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی2؎ میں نے عرض کیا کہ آخر اسلام میں اور فرقے بھی تو ہیں، صرف قادیانی صاحبان کی مخالفت ہی کیوں کی جائے؟ اس پر ارشاد ہوا کہ ان کا اختلاف بنیادی نہیں3؎ بلکہ فروعی ہے اور حقیقت میں یہ اسلامی فرقے مختلف گروہ ہائے خیال(Schools of thoughts) ہیں جن کے اختلافات فقہ پر مبنی ہیں۔ ہر ایک فرقہ اسلام کے مسلمان پر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن قانون اسلامی کے بعض حصوں کی تشریح میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہے۔ فقیہوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’ تعجب ہوتا ہے کہ یہ اصحاب ’’ خشک‘‘ ہونے کے باوجود حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں کس قدر حساس واقع ہوئے ہیں۔ ایک صاحب اٹھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں کام اس طرح کیا۔ اس دعویٰ کی تائید میں وہ ہر ممکن ثبوت (قرآن حدیث یا دیگر مآخذ سے) بہم پہنچاتے ہیں۔ دوسرے صاحب اس کی تردید میں فرماتے ہیں کہ نہیں یہ کام حضورؐ نے یوں سر انجام دیا۔ وہ اپنے دلائل الگ پیش کرتے ہیں جس سے مستفسر کو حضورؐ کی مبارک زندگی کے ایک خاص پہلو کے متعلق موثق معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ امر ہے کہ جہاں کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر آیا ان ’’ جذبات سے عاری متنفین‘‘ کے دلوں میں محبت کے سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگ گئے۔ ان حضرات کی زندگی کا محبوب سرمایہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسوۂ حسنہ ہے جس کے ہر پہلو کو اس قدر حزم و احتیاط سے محفوظ و ملحوظ رکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ (یہاں آپ نے Grealously Guard کرتے ہیں کا فقرہ ارشاد فرمایا تھا) اب تم خود اندازہ کر لو کہ ایسی محبوب و مفتجر ہستی کے جملہ اعزازات کے لیے کسی اور صاحب کو چن لینا، اسلامی علوم کی فلک رفعت عمارت کے انہدام سے مترادف نہ ہو گا؟‘‘ بانی مرزائیت کے کوائف زندگی اور انہی حالات میں حضورؐ کے مبارک افعال کے تفاوت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ آبدیدہ ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بہت ہوئے آنسوؤں سے ہم شکوک کے داغوں کو دھوتے اور دلوں کو روشن کرتے، صوفی صاحب کے دولت کدے پر لوٹ آئے۔ سچ ہے:
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

خضر تمیمی، ایم اے، ایل ایل بی

دو ملاقاتیں , سید عابد علی عابد ایم اے، ایل ایل بی

دو ملاقاتیں

سید عابد علی عابد   ،  ایم اے، ایل ایل بی

ٹھیک یاد نہیں لیکن غالباً1923ء یا1924ء کی بات ہے، کہ ایک بیرونی یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسری خالی ہوئی، میں نے بھی درخواست دی، لیکن درخواست دینے کے بعد چپکا بیٹھ رہا۔ ایک دوست نے جن کی تجربہ کاری پر بہت اعتماد تھا، یہ قصہ سنا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ علامہ اقبال سے سفارش کروائی جائے۔ اس وقت تک مجھے ان کی خدمت میں کبھی جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا اور ان کی عظمت کا نقش دل پر اس قدر گہرا تھا کہ یوں کہیے کہ جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی تھی، لیکن یہ سفارش والا سلسلہ ایسا نکلا کہ میں نے ان کی ملاقات کے وسائل کے متعلق تگ و دو شروع کی، جوئندہ یا بندہ ایک بزرگوار جن سے ابھی تک عقیدت استوار ہے، اس معاملے میں خضر راہ ثابت ہوئے (خضر راہ علامہ اقبال کے کلام کی رعایت سے نہیں لکھا گیا) گرمیوں کے دن تھے، شام کا وقت تھا، جب میرے یہ خضر طریقت مجھے اپنے سات لے کر نکلے، تو میرے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ کبھی یہ خیال آتا تھا کہ علامہ میری سفارش کیوں کریں گے، نہ وہ مجھ سے ذاتی طور پر واقف نہ میرے ہفوات نظم و نثر کے آشنا۔ کبھی یہ خیال آتا تھا کہ شاید میرے خضر طریقت کی سفارش موثر ثابت ہو اور علامہ میری سفارش پہ آمادہ ہو جائیں۔ بہر نوع راستہ کٹ گیا اور ہم علامہ اقبال کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے دروازے پہ جا پہنچے۔ علامہ کا معمول یہ تھا کہ ہر قسم کے رسمی تکلفات سے بے نیاز ہو کر ملتے تھے۔ نہ کارڈ بھیجنے کی ضرورت نہ سر زیر بار منت درباں کرنے کی حاجت۔ علامہ بیٹھے ہیں یا لیٹے ہیں، لوگ باگ آ جا رہے ہیں، تانتا لگا ہوا ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ خسرو کے اس شعر کا مطلب انہی کے مکان پہ جا کر سمجھ میں آتا تھا:
ہر کہ خواہد گو بیا و ہر کہ خواہد گو برو
گیر و دار و حاجب و درباں در ایں درگاہ نیست
یہ باتیں میں نے سن رکھی تھیں لیکن اس دن بچشم خود مشاہدہ کیں۔ علامہ برآمدے میں آرام کرسی پر لیٹے حقہ پی رہے تھے۔ میں اور میرے دوست سلام کر کے بیٹھ گئے۔ ذرا اندازہ کر لیجئے کہ اس وقت میرے دل میں کیا کیفیت ہو گی۔ دور سے تو علامہ کو کئی بار دیکھا تھا، اس دن پہلی بار یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ان کی باتیں سنیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ سچ مچ مجھ کو یقیں نہیں آتا تھا کہ اقبال میرے سامنے لیٹا باتیں کر رہا ہے۔ دل بلیوں اچھل رہا تھا کہ علامہ نے میرے خضر طریقت سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کون ہیں؟ انہوں نے میرا نام بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پنجاب کے بہت بڑے ادیب اور شاعر ہیں، انہوں نے ایک جگہ درخواست دی ہے، چاہتے ہیں آپ ان کی سفارش کریں۔ علامہ نے حقہ کا ایک کش لیا، ’’ ہوں‘‘ کہا اور میرے دوست سے سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے لگے۔ ان سے باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک بیرسٹر صاحب تشریف لے آئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یہ صاحب علامہ سے ایسی بے تکلفی سے باتیں کر رہے تھے کہ مجھے تعجب ہوتا تھا۔ یہ بزرگوار بہت ہنس مکھ تھے اور پھبتی کہنے میں طاق۔ ان کے آنے سے گفتگو کا رخ تبدیل ہو گیا اور علامہ بھی ان نو وارد بیرسٹر صاحب کی طرف متوجہ ہوئے، مسکراتے جاتے تھے اور کبھی کبھی ان کی پھبتیوں کا جواب بھی دیتے تھے۔ یہ نو وارد بیرسٹر صاحب اپنے ہم پیشہ قانون دانوں پر پھبتیاں کس رہے تھے اور حق بات یہ ہے کہ مزے کی باتیں کر رہے تھے۔ ناگاہ باتیں کرتے کرتے رک گئے اور ایک عجیب انداز میں بے تکلفانہ کہا:’’ یار توں حقے دو رکھیا کر، اک اپنے لئی تے اک دوسریاں لئی۔ حقے دی نڑی منہ وچ پا کے توں تے فیر کڈدا ای نہیں۔ اے تینوں خبرے کی پیڑی عادت لے گئی ہوئی اے‘‘ (یار تم حقے دو رکھا کرو۔ ایک اپنے لیے ایک دوسرے کے لیے، حقہ کی نے منہ لیتے ہو تو لیے ہی رہتے ہو۔ خدا جانے تمہیں یہ کیا بری عادت پڑ گئی ہے) مندرجہ بالا فقرے ٹھیٹھ پنجابی میں کچھ ایسے بے تکلفانہ انداز میں کہے گئے تھے کہ ہمیں بے اختیار ہنسی آ گئی۔ علامہ مسکرائے اور نوکر کو آواز دے کر کہا:’’ پیر صاحب کے لیے دو سمار حقہ لے آؤ۔‘‘ میں علامہ کی باتیں دلچسپی سے سن تو رہا تھا، لیکن میرے گوش قلب میں ایک شبہ سا پرورش پا رہا تھا کہ علامہ میری سفارش نہ کریں گے کیونکہ انہوں نے اس معاملے میں سوائے’’ ہوں‘‘ کہنے کے اس کے بعد کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔ کوئی آدھ گھنٹے کے بعد میرے خضر طریقت نے میرا زانو دبایا، گویا مجھے اشارہ کیا کہ اٹھو چلیں، میں نے اجازت چاہی اور ساتھ ہی میرے خضر طریقت نے کہا:’’ عابد صاحب کے لیے سفارش‘‘ فرمایا: ’’ سفارش ہاں‘‘ پھر انگریزی میں کہا:’’ جو آپ مناسب سمجھیں لکھ لائیں میں دستخط کر دوں گا‘‘ ہم دونوں سلام کر کے رخصت ہوئے۔ علامہ کے’’ محقق‘‘ دوست ابھی تشریف رکھتے تھے۔ راہ میں میرے خضر طریقت نے مجھ سے کہا:’’ لو بھئی تمہارا کام تو ہو گیا‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا۔ گھر پہنچا تو سوچتا رہا کہ یہ بھی علامہ نے کیا ارشاد فرمایا جو مناسب سمجھو لکھ لاؤ۔ کبھی یہ خیال آتا کہ پھر جب ان کی اجازت ہے تو کیوں نہ اپنے متعلق واقعی جو جی میں آئے لکھ لوں۔ پھر سوچتا بہت بیہودہ بات ہو گی کہ علامہ تو مجھ پہ اتنا اعتماد کریں اور میں یہ حرکت کروں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو کچھ میں نے اپنے متعلق لکھا نہایت معقول تھا۔ شام کو وہ تحریر لے کر علامہ کی خدمت میں پہنچا، انہوں نے تحریر پڑھی، مسکرائے اور مجھ سے کہا کہ:’’ ان لفظوں سے آپ کا کام ہو جائے گا۔‘‘ میں نے عرض کی جو امید تو ہے۔ وہ پھر مسکرائے اور فرمایا:’’ دیکھ لیجئے میں نے آپ کو کھلی چھٹی دے دی تو آپ نے خود ہی اپنی تعریف میں مبالغے سے کام نہیں لیا۔‘‘ یہ کہہ کر دستخط کر دئیے۔
اس کے بعد کئی بار علامہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی جن میں سے اس مرحلے پر میں صرف ایک ملاقات کا تفصیلی ذکر کروں گا۔
دسمبر1937ء میں ایک دن میں اور میرے ایک دوست کسی کام سے جا رہے تھے کہ سنٹرل ٹریننگ کالج کے پاس ہمیں ایک خوش پوش نوجوان نے ٹھہرا لیا۔ ان دنوں یوم اقبال منانے کی تحریک کا بڑا چرچا تھا۔ میں اگرچہ ذرا فاصلہ پر تھا لیکن میں سن رہا تھا کہ یہ نوجوان تحریک کے متعلق کچھ باتیں کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ سمجھ کر کہ ان دونوں کی باتیں شاید ایسی ہوں کہ میرا شامل ہونا انہیں ناگوار ہو، میں ذرا آگے بڑھ گیا۔ میرے دوست نے مجھے آواز دے کر بلایا اور اب معلوم ہوا کہ یہ نوجوان میرے دوست سے یوم اقبال کے سلسلے میں مشورہ لے رہا ہے، میرے دوست نے میرا تعارف کرایا تو اس باہمت نوجوان نے میرا نام سنتے ہی فوراً کہا آپ علامہ کی شاعری پر کوئی پیپر نہیں پڑھیں گے؟ میں نے کوئی رسمی سا عذر پیش کیا لیکن دونوں صاحب میرے سر ہو گئے اور آخر مجھے وعدہ کرنا پڑا کہ میں اقبال اور فنون لطیفہ پر مقالہ پڑھوں گا۔
رات کو لوٹا اور اس مضمون کا خیال آیا تو کچھ الجھن سی ہونے لگی، سوچتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جو علامہ مرحوم کی تعلیم کی اصل روح کے خلاف ہو۔ اگرچہ نقاد کی حیثیت سے مجھے کامل آزادی حاصل تھی، لیکن علامہ مرحوم سے جو مجھے عقیدت تھی، اس کی وجہ سے یہ خیال ضرور پیدا ہوتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جس سے اصل مقصد (اقبال کے نظریہ فنون لطیفہ کی تفسیر) فوت ہو جائے یا علامہ کو کسی قسم کی ذہنی تکلیف ہو۔
دوسرے دن راجہ حسن اختر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے موقع پا کر اپنی الجھن کا ذکر چھیڑا۔ راجہ صاحب نے بیساختہ کہا کہ چلیے علامہ کے ہاں چلتے ہیں۔ مجھے جرأت تو نہیں کہ ان کے سامنے بحث کا آغاز کر سکوں، لیکن اگر آپ کسی مسئلے پر بحث چھیڑ دیں گے اور علامہ کو اس سے دلچسپی پیدا ہو جائے گی تو کئی گرہیں خود بخود کھل جائیں گی۔ چنانچہ اسی شا میں اور راجہ صاحب علامہ کے در دولت پر حاضر ہوئے۔
ایک دو اور بزرگوار بھی بیٹھے تھے جن کو میں نہیں پہچانتا۔ حسن اتفاق سے ایک مقامی مشاعرے کا ذکر آ گیا جس میں پو ۔ پی کے ایک برخود غلط شاعر انقلاب نے بہت ہنگامہ بپا کیا تھا۔ اسی سلسلے میں اردو اور فارسی محاورات اور تضمینات کا ذکر چھڑ گیا۔ یاد نہیں کہ دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز کس نے کہا۔ میں نے یہ محاورہ سن کر غالب کا شعر پڑھا:
باید ز مے ہر آئینہ پرہیز گفتہ اند
آرے دروغ مصلحت آمیز گفتہ اند
علامہ مسکرائے اور ایک شعر پڑھا جو میں نے اچھی طرح نہیں سنا کیونکہ ان کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ کچھ لفظ کان میں پڑتے تھے، کچھ نہیں سنائی دیتے تھے۔ میرے چہرے کے انداز سے وہ بھانپ گئے کہ میں نے شعر نہیں سنا، اس لیے پھر ذرا بلند تر آواز سے پڑھا:
راستی فتنہ انگیز، اس سہی قد کا ہے قد
اور دہن اس کا دروغ مصلحت آمیز ہے
راجہ صاحب نے موقع دیکھ کر کہہ دیا کہ عابد صاحب ’’ اقبال اور فنون لطیفہ‘‘ پر ایک مقالہ پڑھ رہے ہیں۔ علامہ نے میری طرف تیز تیز متجسسانہ نظروں سے دیکھا۔ جن لوگوں کو ان نظروں کی دور بینی اور دور رسی محسوس کرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان تیز تیز نظروں میں کیا بات پوشیدہ تھی۔ علامہ کی آنکھیں، گویا مخاطب کے تمام سرمایہ ذہنی کو ٹٹول کر، گویا اس کے تہہ قلب کے خفیہ ترین گوشوں میں پہنچ کر اس کے اعمال اور افعال کے محرکات شعوری اور غیر شعوری کا جائزہ لیتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں او راس طرح محسوس ہوتا تھا گویا علامہ مخاطب کو تول رہے ہیں۔ ان تاثرات کو بیان کرنے کے لیے پانچ چھ سطریں لکھنے کی ضرورت پڑی ہے، لیکن در حقیقت یہ سب کچھ ایک لمحہ میں ہو گیا۔ ایک آدھ منٹ چپ رہنے کے بعد علامہ نے فرمایا:’’ میرے کلام کو آرٹ1؎ (شاید اس کا مغربی تصور مراد تھا) سے کیا تعلق ہے؟ میری شاعری اسلامی تفکر اور فقہہ کی تفسیر اور تعبیر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو واضح کر دوں کہ آپ کے خیال میں فنون لطیفہ کا نصب العین کیا ہے۔ فرمایا’’ ہاں اس اعتبار سے مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔‘‘
اس کے بعد کچھ عرصہ علامہ چپ رہے، شفیع صاحب آ گئے اور ان کے شانے دبانے لگے۔ میں نے جرأت کر کے پوچھا کہ آرٹ کے زوال پذیر ہونے کے جو محرکات ہوتے ہیں ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ علامہ نے لیٹے لیٹے جواب دیا کہ آرٹ کی زوال پذیری دراصل اقوام کی مجموعی زوال پذیری کے تابع ہوتی ہے۔جب تک خدا کو کسی قوم سے کچھ کام لینا مقصود ہوتا ہے اور اسے سرداری کے منصب پر فائز رکھنا منظور ہوتا ہے، اس وقت تک آرٹ زندہ اور جاندار رہتا ہے، بلکہ سب سے پہلے کسی قوم کی زوال پذیری کی علامت آرٹ کی زوال پذیری کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ یہ کہہ کر چپ ہوئے تو نیازی صاحب نے پوچھا کہ ان حالات میں کیا شاعری سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے؟ فرمایا ضروری نہیں، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے جب کوئی قوم زوال پر آمادہ ہو جاتی ہے تو ٹھوس چیزوں سے، مغز سے، معنی سے، بیگانہ ہو جاتی ہے۔ چھلکے سے، شکل سے، دل بستگی بڑھ جاتی ہے۔ یہی آرٹ کی زوال پذیری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اردو شاعری2؎ میں شاید ناسخ اور اس کے سکول کا کلام آپ کے ارشاد کی بہترین تفسیر ہے۔ فرمایا میں نے ناسخ اور اس کے سکول کا کلام بہت کم پڑھا ہے، میرا اردو ادبیات کا مطالعہ بہت محدود ہے، البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اردو کی تاریخ میں دکنی ادبیات کا حصہ نسبتاً بہت جاندار نظر آتا ہے۔ نیازی صاحب نے فرمایا کہ شاید اس کی وجہ یہ ہو گی کہ دکنی ادبیات کو مذہب سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ فرمایا:’’ ہاں، یا یوں کہو کہ زندگی سے دکنی ادبیات کا تعلق اصلی اور اساسی ہے۔‘‘ میں نے کہا:’’ کچھ دن ہوئے ہیں رسالہ اردو میں ایک مقالہ نگار نے میر حسن اور ایک پرانے دکنی ادیب کی مثنویوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی تھی کہ دکنی شاعر کا کلام زیادہ جاندار اور پر جوش ہے۔‘‘ علامہ نے فرمایا:’’ مقالہ نگار کا خیال ٹھیک ہو گا۔ حسن کے وقت تک اردو شاعروں میں کافی ژولیدہ بیانی پیدا ہو چکی تھی۔ یا تو کچھ کہنا ہی نہیں چاہتے تھے، یا کہنا چاہتے تھے تو کہہ نہیں سکتے تھے، بلکہ جو بزرگوار کچھ کہنا چاہتے تھے ان کے کلام میں بھی ایک خاص قسم کی ژولیدہ گفتاری ہے جو ذہنی ژولیدگی اور پریشان فکری کی خبر دیتی ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ اس قسم کی ژولیدہ گفتاری کا معیاری نمونہ غالب کا ابتدائی کلام سمجھا جائے گا۔ کسی نے غالب کے ’’ نسخہ حمیدیہ ‘‘ والے دیوان کا ایک شعر پڑھا۔ شعر یاد نہیں، غالباً ژنگ آخر اور پلنگ آخر، ان قافیوں میں تھا۔ علامہ کچھ عرصہ چپ رہے، پھر فرمایا:’’ کسی حد تک، لیکن غالب سے کہیں زیادہ مومن3؎ ژولیدہ گفتار ہے۔‘‘ میں خود اگرچہ مومن کے مداحوں میں سے نہیں ہوں اور اس کے اسلوب فکر اور انداز تغزل کو ایک کارنامہ نہیں سمجھتا، لیکن کچھ نقادوں نے غالب کے مقابلے میں مومن کو اچھالا تھا۔ اس سلسلے کے تمام واقعات مجھے یا دآ گئے اور معاً خیال آیا کہ زوال پذیر قوموں کے نقاد بھی کس قدر ژولیدہ فکر ہو جاتے ہیں کہ پریشان گفتاری کو ندرت اسلوب اور ژولیدہ بیانی کو جدت ادا کا لقب دے کر معایب کو محاسن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ بلہے شاہ کی کافیوں کا ذکر آیا۔ کچھ وقت تک پنجابی شاعری اور تصوف کا ذکر چلتا رہا، لیکن میرے دل کو چیٹک سی لگ گئی تھی کہ موقع ملے تو علامہ سے کچھ اور پوچھوں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسلام کی زوال پذیری کے سلسلے میں ایرانی تحریکات مذہبی کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے عرض کیا کہ شاید اسلام کی زوال پذیری میں ان تحریکات نے کافی حصہ لیا ہے جنہیں مجوسی کہا جاتا ہے اور جن کو دراصل شبعمیت سے کوئی تعلق نہیں۔ فرمایا:’’ ہاں، اگر اسلامی علوم و فنون اور اسلامی روایات کا چشمہ بہت کم گدلا ہوا ہے تو ترکان عثمانی کے ہاں ہے 4؎۔ ورنہ اسلام کا چشمہ جس زمین سے گزرا ہے اس کو گدلا کر دیا گیا ہے۔ اس کا رخ پھیر دیا گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد کچھ عرصہ علامہ چپ رہے۔ ایک صاحب نے کسی نئی تصنیف کا ذکر چھیڑا جس میں آرٹ کے فلسفے سے بحث کی گئی تھی۔ علامہ نے فرمایا:’’ ایک جرمن مصنف کہتا ہے کہ فلسفے کے نظام دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ٹھوس وزنی، ان میں مغز زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے ذرا ہلکے۔ جب قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ہر ٹھوس چیز سے بیگانہ ہو جاتی ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’آرٹ بھی ٹھوس اور ہلکا ہو سکتا ہے؟‘‘ فرمایا’’ ہو سکتا ہے زوال پذیر اقوام میں آرٹ کا رس نچوڑ کر نہیں پیا جاتا، بلکہ پھل کی شکل بنا دی جاتی ہے اور اس کے رنگ کو دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
میں نے عرض کیا کہ آرٹ کی عظمت کا انحصار کس چیز پر ہے، شکل پر یا مغز پر؟ علامہ نے ارشاد فرمایا کہ یوں تو شکل بھی مغز ہی کا ایک پہلو ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آرٹ کی عظمت کا معیار مغز کی صحت مندی اور توانائی پر ہوتا ہے۔ 5؎ یہ کہہ کر علامہ چپ ہوئے تو ان کے ایک پرانے دوست تشریف لے آئے۔ انہوں نے مجھے آنکھ کے اشارے سے بولنے سے منع کیا۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد میں نے اور راجہ صاحب نے اجازت چاہی۔ اجازت چاہی میں رسماً لکھ گیا ہوں، ورنہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں علامہ پر یہ شعر صادق آتا تھا:
ہر کہ خواہد گو بیا و ہر کہ خواہد گو برو
گیر و دار و حاجب و درباں در ایں درگاہ نیست
سید عابد علی عابد
ایم اے، ایل ایل بی

٭٭٭

چند ملاقاتیں , سید الطاف حسین، ایم اے

چند ملاقاتیں
سید الطاف حسین، ایم اے

اکثر لوگوں کی طرح میں بھی جب پریشان کن حالات میں محصور ہو جاؤں تو تسکین خاطر کے لیے عہد ماضی کے چند زریں ایام کی یاد میں پناہ لے لیا کرتا ہوں۔ میری مختصر گذشتہ زندگی کے بہترین واقعات جنہیں میں اپنے لیے سرمایہ فخر و ناز سمجھتا ہوں اور جن کی یاد متاع زندگی بن کر عمر بھر میرے دل میں آباد رہے گی، وہ چند مختصر ملاقاتیں ہیں جومجھے علامہ مرحوم سے نصیب ہوئیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی زیارت کے مواقع مجھے صرف طالب علمی کے زمانہ میں میسر ہوئے جب میں ان کی صحبت بابرکت سے کماحقہ استفادہ کرنے کے قابل نہ تھا، مگر جب مجھ میں ان سے بات کرنے اور ان کی بات سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہونے لگی تو وہ چل بسے۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ملاقاتیں مختصر اور پریشان سی ہیں۔ یوں تو انہیں کئی مرتبہ بیک وقت نگہہ باز گشت کے سامنے ایک داستان کے مختلف ٹکڑوں کی صورت میں لا چکا ہوں مگر انہیں سپرد قلم کر کے صفحہ قرطاس پر یکجا کرنے کا خیال علامہ مرحوم کے انتقال کے بعد محض چند احباب کا خیال علامہ مرحوم کے انتقال کے بعد محض چند احباب کی تحریک پر ہوا۔ عدم فرصت کے سبب یہ خیال ایک طویل عرصہ تک ذہنی حدود سے باہر نہ آ سکا، مگر پھر جی میں آئی کہ انتظار فرصت میں اگر ساری عمر بھی ضائع ہو جائے تو بعید نہیں؟ اس کام سے جتنی جلدی ممکن ہو فارغ ہو جانا چاہیے چنانچہ آج گویا اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے:
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
مدت ہوئی ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تو شکوہ کے اشعار ورد زباں تھے۔ کالج کی کتابیں پڑھتے پڑھتے اگر شکوہ شروع کر دیتا تو دل و دماغ پر ایک بیخودی سی طاری ہو جاتی جس سے ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بیدار ہو کر معلوم کیا کرتا کہ کتابیں میز پر دھری کی دھری ہیں۔ ان دنوں ہر وقت دھن سی لگی رہتی کہ ان بلند پایہ اشعار کے مصنف کی زیارت نصیب ہو۔ چند احباب کی منت سماجت کی کہ اگر ان کی رسائی اقبال تک ہو تو کبھی نہ کبھی مجھے اپنے ہمراہ ضرور لے چلیں۔ ایک صاحب نے رضا مندی کا اظہار تو کیا مگر نہ معلوم کس خیال سے بہت لیت و لعل کرتے رہے۔ آخر پورے نو مہینے ٹالم ٹول کے بعد وہ مجھے اس قبہ عالیہ تک لے کر پہنچے جس کے شوق دید میں میں ایک عرصہ سے بے قرار تھا۔ غالباً جولائی کے اواخر کی چاندنی رات تھی، ڈاکٹر صاحب میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے صحن میں ایک پلنگ پر تہمد اور سفید بنیان زیب تن کیے لیٹے ہوئے تھے۔ ایک ملازم شانے داب رہا تھا۔ کوٹھی کی ایک جانب سرکنڈوں کی قطار تھی، جن کا سایہ صحن کے سامنے کافی دور تک پڑ رہا تھا۔ روشنی وغیرہ کوئی نہ تھی۔ چاندنی رات کا سماں، سرکنڈوں کا خاموش اور دراز سایہ، مکان کی ’’ پر سکونی‘‘ و ’’ بے چراغی‘‘ اور اس عظیم الشان شخصیت کی انتہائی سادگی جو میری دنیائے عقیدت کے اوج ثریا پر مقیم تھی۔ایک عجیب منظر تھا جس کی کیفیت آج تک دل میں باقی ہے مگر کبھی محتاج الفاظ نہیں ہوئی۔ جو صاحب میرے ہمراہ تھے انہوں نے ایک ملازم کے ذریعہ اپنی آمد کی خبر بھیجی۔ ڈاکٹر صاحب نے نام سنتے ہی ہمیں بلا لیا۔ چنانچہ ہم جا کر اور السلام علیکم کہہ کر ان کے قریب کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میری آنکھوں کو ان کے چہرے کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں ہمہ تن دید بن کر اس محویت سے ان کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا، گویا کسی دیرینہ خواب کی تعبیر دیکھ رہا ہوں۔ قریباً ہر دو منٹ کے بعد ایک لمبی اور گہری سانس لیتے تھے جس سے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا دود پیچاں کے انبار کا ایک بارثقیل سینے پر دھرا ہے جس کی تخفیف چاہتے ہیں۔ کبھی کبھی پاؤں کو چارپائی پر اوپر نیچے حرکت دیتے تو بستر پر سلوٹیں پڑ جاتیں۔ پیشانی اور رخسار ابھرے ہوئے تھے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور ٹھوڑی کے نچلے حصے کا گوشت ڈھلک رہا تھا۔ مزاج پرسی کے بعد میرے محترم دوست نے ڈاکٹر صاحب سے میر ااس طرح تعارف کرایا کہ یہ گورنمنٹ کالج کے ایک طالب علم ہیں اور آپ کے بہت مداح ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک لحظہ میری طرف غور سے دیکھا۔ باوجودیکہ سر سے شانوں تک ان کا جسم نسبتاً اندھیرے میں تھا، ان کی آنکھوں میں جو چمک اس وقت نمودار ہوئی مجھے روز روشن کی طرح واضح طور پر نظر آئی اور آج تک میری نگاہوں میں محفوظ ہے۔ اس سے یہ ہر گز نہ سمجھنا چاہیے کہ اپنے کلام کے ایک مداح کو دیکھ کر انہیں مسرت ہوئی کیونکہ ان کی آنکھیں قدرتی طور پر چمکدار تھیں ۔ بالخصوص جب کسی چیز کو آنکھ پھیر کر دیکھا کرتے تو یہ چمک نمایاں طور پر نظر آیا کرتی۔ میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے:’’ کون سی جماعت میں پڑھا کرتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی’’ سیکند ایر کا امتحان دے چکا ہوں اور تھرڈ ایر میں داخل ہونے کا ارادہ ہے۔‘‘ مضامین کون سے ہیں؟ میں نے کہا’’ عربی اور اے کورس کی صلاح ہے‘‘ فرمایا’’ اے کورس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ ’’ اے کورس ریاضی کا ایک مضمون ہے‘‘ کہنے لگے’’ بی اے وغیرہ میں ریاضی تو غالباً چند مخصوص قسم کے سوالات تک محدود ہے جن سے اس کے چند موٹے موٹے اصولوں کو طلباء کے ذہن نشین کرانا مقصود ہوتا ہے، البتہ ریاضی اعلیٰ کے لیے تخیل کی ضرورت ہوتی ہے، تم اکنامکس2؎ کیوں نہیں لے لیتے؟‘‘ ان دنوں مجھے علم اقتصادیات سے کچھ دلچسپی نہ تھی (اگرچہ آج اس کی تحصیل کو ترستا ہوں) چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی تجویز مجھے پسند نہ آئی اور میں خاموش رہا۔ پھر فرمایا’’تعلیم سے کچھ مقصد پیش نظر ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا’’ فی الحال کچھ نہیں‘‘ میرے سامنے رکھے بغیر بے تکے مضامین لے لیتے ہیں۔ اس گفتگو کو مجھ پر اتنا اثر ضرور ہوا کہ میں نے بی اے میں اے کورس کی بجائے تاریخ اے لی۔ اس کے بعد روئے سخن دیگر عنوانات کی طرف منتقل ہوا۔ کچھ دیر پنجاب کے چند بڑے بڑے شہروں کے آباد ہونے کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد یہ سبیل تذکرہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک ہم جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’ کہ وہ ہر سال امتحان میں ناکامی سے دو چار ہوا کرتا تھا۔ جس طرح ملاح ہر مرتبہ مسافروں کو دریا پار کرنے کے بعد واپس کنارے پر آ جاتا ہے اس کا بھی یہی حال تھا۔ چنانچہ ہم اسے ملاح کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور اکثر بطور تمسخر اسے کہا کرتے تھے کہ بھئی تم نے یونیورسٹی کا سالانہ وظیفہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ پھر ڈاکٹر صاحب نے ایک مولوی صاحب کا قصہ سنایا جن سے چند روز ہوئے سیالکوٹ میں ان کی ملاقات ہو چکی تھی۔ ان کے اصلی الفاظ یاد نہیں مگر صورت حالات یہ تھی کہ مولوی صاحب کو ایک پردہ نشین لڑکی کے والدین نے حسن ظن میں گرفتار ہو کر لڑکی کو اقلیدس پڑھانے کے لیے معلم مقرر کیا۔ تعلیم اور تعلم کا انداز قدرے مضحکہ انگیز تھا یعنی مولوی صاحب اور ان کی شاگرد رشیدہ کے درمیان پردہ حائل رہتا اور مولوی صاحب پردے کے نیچے سے ہاتھ بڑھا کر سلیٹ یا کاغذ پر مستطیلوں اور مربعوں کو کھینچ کر ان کے رقبوں کے قواعد لڑکی کو سکھایا کرتے۔ چند روز کے بعد مولوی صاحب نے ریاضی کے دقیق نکات و رموز کی تعلیم میں پردے کو سد راہ سمجھا۔ آخر پردہ تھا، اٹھ گیا، اور مولوی صاحب استاد اور شاگرد کے تعلقات کی محدود اور بے کیف دنیا سے نکل کر عشق اور تعشق کے بحر نا پیدا کنار کی غواصی پر کمر بستہ ہوئے۔ بات اڑ گئی، مولوی صاحب کی تشہیر ہوئی اور معاملہ در عدالت تک پہنچا ان دنوں مقدمہ چل رہا تھا لہٰذا قصہ یہیں ختم ہوا۔ مولوی صاحب کی وارفتگی پر قدرے تعجب کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ میں نے لڑکی کو دیکھا ہوا ہے، کوئی خاص خوبصورت نہیں۔‘‘ مجھے ان الفاظ میں ایک ہلکا سا شبابی رنگ نظر آیا اور ان کے تلفظ میں کسی کے شباب رفتہ کی صدائے باز گشت سنائی دیتی معلوم ہوئی۔ علاوہ ازیں جس معصومانہ انداز میں ڈاکٹر صاحب نے ان الفاظ کو ادا کیا ا س سے میرے دل میں گدگدی سی پیدا ہوئی، مگر میں مسکراہٹ تک کو ضبط کر کے بیٹھا رہا۔ آج تنہائی میں کبھی یہ فقرہ یاد آ جائے تو مسکرا لیا کرتا ہوں۔ جہاں تک یاد ہے پہلی ملاقات میں اور کوئی بات قابل ذکر نہ ہوئی اور ہم اجازت لے کر واپس چلے آئے۔ میں اگرچہ آج بھی سن رسیدہ نہیں ہوں مگر ان دنوں بالکل بچہ تھا اور میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس شعر و سخن کے علاوہ اور کسی قسم کی باتیں نہ ہوں گی، لہٰذا پہلی مرتبہ ان سے ملنے کے بعد میں مایوس سا ہوا اور دل میں کہا کہ بجائے شاعر اقبال کے بیرسٹر اقبال سے ملاقات ہوئی۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے اشعار ان کے جگر پارے ہیں اور کسی متشاعر کے کلام کی طرح لوگوں کی تفریح طبع کا سامان نہیں اور ان سے مزید واقفیت نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ وہ کسی علم خام رکھنے والے کی طرح نمائش پسند نہیں کہ جن صفات کے سبب دنیا ان کی معتقد ہو وہ ان کا مظاہرہ ملنے والوں پر خواہ مخواہ کرتے رہیں۔ یہ راز بھی بعد میں آشکار ہوا کہ نظم و نثر کے امتیازات منظور ہے کہ اور لوگوں کو بھی ان کے سانچے میں ڈھالا جائے لہٰذا الفاظ ان کے منہ سے ایک عجیب دلکش و موثر انداز میں نکلتے ہیں جسے دنیا اپنی اصطلاح میں شعر کے نام سے موسوم کرتی ہے۔ نیز ان سے مل کر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ جب تک شخص شعر و شاعری کی بحث میں انہیں زبردستی گھسیٹ کر نہ لے آئے وہ اس سے حتیٰ الامکان اجتناب کیا کرتے۔ اس موقع پر اپنے ایک عزیز کا قصہ یاد آ گیا۔ وہ سناتے تھے کہ ایک مرتبہ یوپی کے رہنے واے دو شاعری زدہ اصحاب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرنے کے لیے گئے۔ علیک سلیک کے بعد مزاج پرسی ہوئی اور پھر بعد کچھ دیر تک دونوں جانب خاموشی طاری رہی۔ کچھ انتظار کے بعد جب ان میں سے ایک کو شاعری کے پھپھولے نے بہت تنگ کیا تو وہ ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگا’’ قبلہ آج آسمان پر بادل ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’’جی ہاں! آج آسمان پر بادل ہیں‘‘ پھر خاموش رہ کر دوسرے حضرت بولے:’’ جناب! آج ہوا میں خنکی ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ جی ہاں! آج ہوا میں خنکی ہے‘‘ اس کے بعد دونوں اصحاب وہاں سے تشریف لے آئے اور میرے دوست سے سیخ پا ہو کر کہنے لگے:’’ کہ ایسے شاعر تو ہمارے ہاں بیسیوں کی تعداد میں ہیں۔ ہم نے خنکی اور بادلوں کا عمداً ذکر کیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب طبع آزمائی کر کے ہمیں تازہ ترین اشعار سے محظوظ کریں گے، مگر وہ تو بالکل چپ سادھے رہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات کرنے سے پیشتر جس غلط فہمی میں میں مبتلا تھا یہ لوگ بھی یقینا اسی غلط فہمی میں گرفتار تھے۔ الحمد للہ کہ جب میں ان سے دوسری ملاقات کرنے کے لیے حاضر ہوا تو اس غلط فہمی کو رفع ہوئے گویا صدیاں ہو چکی تھیں۔ وہ تو قعات جنہیں دل میں لے کر میں ان سے پہلی مرتبہ ملنے گیا آج کبھی ان کا دل میں خیال بھی آ جانے تو عرق خجالت میں ڈوب جاتا ہوں۔
کچھ عرصہ کے بعد شوق دید پھر مجھے ان کے در دولت تک لے پہنچا۔ اس وقت آپ ایک شخص سے محو گفتگو تھے۔ میں بھی قریب جا کر بیٹھ گیا۔ غالباً مکان و زمان کے مسئلہ پر بحث شروع تھی۔ میں دلائل کی ابجد تک سمجھنے سے قاصر تھا، البتہ وقتاً فوقتاً آئن سٹائن، طوسی، شہرستانی وغیرہ ہم ایسے نام سننے میں آ رہے تھے اور ان کی بحث میں صرف یہ جملہ آج تک یاد ہے کہ صوفیائے کرام کے نزدیک مکان و زمان3؎ ایک سے زیادہ ہیں۔ میری طرف مڑ کر فرمانے لگے’’ کہیے؟‘‘ میں نے عرض کی ’’ صرف زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘ سن کر خاموش ہو گئے اور میں چپکا بیٹھا ان کی گفتگو سنتا رہا۔ شام کا وقت تھا جب اندھیرا زیادہ ہونے لگا تو اجازت مانگ کر واپس چلا آیا۔ کئی ماہ کے بعد ان کی کوٹھی کے سامنے سے پھر گزر ہوا تو دل میں آئی کہ ڈاکٹر صاحب سے ملتے ہی چلیں۔ اجازت لے کر ان کے کمرے میں پہنچا اور سلام عرض کر کے ان کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اس وقت یونیورسٹی امتحانات کے پرچے دیکھنے میں مصروف تھے۔ کہنے لگے’’ کس طرح آئے؟‘‘ میں نے کہا’’ ایک پریشانی ہے جسے رفع کرنا چاہتا ہوں‘‘ ’’ یعنی؟‘‘ میں نے عرض کی’’ نکلسن نے عربوں کی ادبی تاریخ میں قرآن شریف کی دو آیتوں کا انگریزی ترجمہ کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کے معانی میں کامل تضاد ہے ایک آیت کا مطلب ہے کہ انسان جو چاہے کرے اور دوسری کا یہ کہ سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آیات مجھے یاد نہیں مگر ان کے معانی قریب قریب یہی ہیں‘‘ فرمانے لگے جب نکلسن نے کتاب شائع کی تھی تو میں نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اسے لکھا تھا کہ یہ ’’ تضاد‘‘ کی بکواس کیسی، جیسے تم تضاد کہہ رہے ہو وہ حقائق زندگی کے عین مطابق ہے۔ میں نے کہا’’ ڈاکٹر صاحب! میں نہیں سمجھا کہ حقائق زندگی کے مطابق ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ کہنے لگے’’ تو بس میرا یہی مطلب ہے۔ حقیقت کوئی بکرنگ چیز نہیں بلکہ ایک مختلف الالوان مرکب ہے۔‘‘ میں نے پوچھا:’’ قبلہ اس میں کیا مصلحت ہے کہ انسان مختار بھی ہے اور مجبور بھی کیوں نہ ہمیں بالکل مجبور یا مختار بنایا گیا؟‘‘ مسکرا کر فرمانے لگے ’’ اس کی مصلحت سے تو وہی واقف ہے جس نے انسان کو پیدا کیا۔ البتہ انسانی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ آدمی اپنی مجبوریوں پر غالب آتا رہے۔ احوال زندگی کے مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان رفتہ رفتہ اپنی تقدیر تک پہنچ رہا ہے۔‘‘ پھر میں نے پوچھا ’’ کیا قوت وجدان ہر شخص میں موجود ہے؟‘‘ کہنے لگے:’’ ہاں عورتوں میں مردوں سے نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔ صوفیا نے اس قوت کی نشوونما کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ بعض لوگ ان پر عمل کرنے سے کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض لوگ نہیں ہوتے۔‘‘ اس کے بعد میں نے ان سے قرآنی تفاسیر کے متعلق سوال کیا ’’ کہ آپ کے خیال میں کون سی تفسیر بہترین ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں اکثر مفسرین قرآن کے مختلف الفاظ کے معانی اور ان کی صوفی و نحوی خوبیوں کے دکھانے میں اپنی تمام تر کوشش صرف کر دیتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے:’’ ہاں، مگر ایسی کتابوں کی بھی ضرورت ہے 4؎‘‘ تفسیر کے متعلق میں نے ایک دو اور مواقع پر بھی ان سے سوال کیا، مگر نہ معلوم کیوں وہ اس سوال کے جواب میں ہمیشہ خاموش رہے۔
ایک عرصہ کے بعد ان سے پھر ملنے کا اتفاق ہوا۔ میرے علاوہ ایک پروفیسر صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ سلسلہ کلام شروع تھا جب میں وہاں پہنچا تو پروفیسر صاحب سے کہہ رہے تھے کہ ’’ہمارے نوجوان اگر آج بھی اپنے اخلاق درست کر لیں تو میں امید کرتا ہوں کہ ان کا مستقبل خوشگوار ہو گا۔‘‘ دوران گفتگو میں پروفیسر صاحب نے کہا:’’ ڈاکٹر صاحب! آج تک کوئی قوم یا کسی قوم کی تہذیب مرنے کے بعد پھر زندہ نہیں ہوئی۔‘‘ کہنے لگے’’ یہ خیال صحیح نہیں۔ مختار قومیں عام طور پر اپنے محکوموں کے دل و دماغ پر یہ خیال اس لیے مسلط کر دیتی ہیں کہ ان میں پھر سے اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہی نہ ہو سکے۔ اسلام اس خیال کا قطعی مخالف ہے۔ آپ محض ایک قوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ مرکر زندہ نہیں ہو سکتی مگر خیال فرمائیے قرآن تو قیامت کا قائل ہے وہ تو کہتا ہے کہ یہ ایک قوم کیا ساری دنیا مر کے ایک بار پھر زندہ ہو گی۔‘‘ لفظ قیامت کی اس تفسیر سے جو سرور مجھے حاصل ہوا اس کا اندازہ میں خود نہیں کر سکتا۔ پروفیسر صاحب کے چہرے کو دیکھا تو وہاں بھی مسرت کی سرخی نظر آئی۔ یہ ملاقات جب بھی یاد آئے قیامت کی تفسیر یاد آ جاتی ہے۔
اس کے بعد دو ملاقاتیں اور ہوئیں جن کا نقشہ ہو بہو آنکھوں کے سامنے ہے اور جن کے تاثرات عمر بھر تازہ رہیں گے۔ پہلی ملاقات دو ہم جماعت عزیزوں کے علاوہ پروفیسر صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم کی معیت میں نصیب ہوئی۔ آپ اپنی پرانی کوٹھی کے برآمدہ میں ایک قمیض اور شلوار پہنے ہوئے رونق افروز تھے۔ حقہ پاس رکھا تھا وہ مرض جس سے ان کی آواز قریباً بالکل بیٹھ چکی تھی اور جس نے ان کو غالباً دم واپسیں تک نہ چھوڑا، اسے لاحق ہوئے ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ پہلے صوفی صاحب سے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد فرمانے لگے کہ ’’ آج ایک روسی ترک موسیٰ جار اللہ مجھے ملنے کے لیے آ رہے ہیں؟ غالباً پندرہ بیس منٹ تک آ جائیں گے۔ وہ روس سے یہاں تک محض اس لیے آئے ہیں کہ مجھ سے اسلامی نظریہ سیاست و نظام حکومت کے متعلق استفسار کریں۔ کتنا افسوس ہے کہ روس سے یہاں تک انہیں ایک شخص بھی ایسا نہیں مل سکا جو ان کی ان امور میں تشفی کر سکتا۔‘‘ قریباً دس منٹ گزرے ہوں گے کہ موسیٰ جار اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ پردے کے متعلق ضمنی طور پر ایک مختصر سی بحث چھڑ گئی۔ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے:’’ فطرت کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جس میں تخلیقی صفات ہوں پردے میں رہے۔ خود خدا کو دیکھیے بے حجاب نہیں۔ زندگی کو لیجئے اگرچہ اس کے آثار کو ہم دیکھ سکتے ہیں مگر بذات خود وہ ہماری نگاہوں سے پنہاں ہے۔ اسی طرح آپ جس چیز کو بھی لیں جو کار تخلیق سے تعلق رکھتی ہو، آپ دیکھیں گے کہ وہ نقاب پوش ہے۔ اس پر موسیٰ جار اللہ نے کہا کہ ہم لوگ بھی پردے کے قائل تو ضرور ہیں مگر حجاب رو ضروری نہیں سمجھتے اور نہ ہی قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی نص قطعی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’’ نہیں قرآن حجاب رو کا قائل ہے‘‘ یہاں پہنچ کر میرا جی چاہتا تھا کہ قطع کلام کر کے ڈاکٹر صاحب سے اس نکتے کی مزید وضاحت کے لیے درخواست کروں، مگر اتنی بے باکی کی جرأت پیدا نہ ہو سکی، لہٰذا طوعاً و کرہاً خاموش ہو رہا۔ اس کے بعد سلسلہ کلام نے اصل موضوع کی طرف رجوع کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلامی نظام سیاسی پر اظہار خیالات کی ابتدا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ انسان ایک فرد یکتا یا گوہر یکتا ہے جس کی ترکیب روح اور مادے سے ہوئی ہے، لہٰذا ہر وہ نظام حکومت جو محض انسان کی جسمی یا مادی ضروریات کو پورا کر سکے انسان کی تشفی نہیں کر سکتا اور نہ ہی نوع انسانی اس نظام کے وضع کردہ راستے پر گامزن ہو کر ارتقائی سیادت سے بہرہ ور ہو سکتی ہے۔ اسلام دین و سیاست میں تفریق اسی لیے روا نہیں رکھتا کہ انسان کی ہیئت ترکیبی ان ہر دو عناصر کے امتزاج کی متقاضی ہے۔ اسلامی نظام حکومت5؎ نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت نہ Aristocracyہے اور نہ تھیا کریسی (Theocracy) بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام کے محاسن سے متصف اور قبائح سے منزہ ہے۔‘‘ اس فقرے کی کچھ تشریح کرنے کے بعد موضوع سے متعلقہ افکار و خیالات کا اظہار جہاں جہاں ان کی کتابوں میں ہو چکا تھا، آپ نے ان مقامات کی طرف موسیٰ جار اللہ کی توجہ مبذول کروائی۔ سلسلہ کلام ا گرچہ فارسی میں تھا تاہم زبان اتنی سلیس تھی کہ باوجود فارسی سے بخوبی واقف نہ ہونے کے ان کی ایک ایک بات سمجھ رہا تھا۔ بعد ازاں کچھ دیر تک موسیٰ جار اللہ آپ سے آپ کے کئی ایک اشعار کے معانی اور گرامر کی رو سے ان کی تراکیب کے متعلق پوچھتے رہے۔ شام ہو چکی تھی اور چونکہ موسم سرما تھا لہٰذا ہوا میں خنکی ذرا ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب کا ملازم ایک کمبل لے آیا جو تبسم صاحب نے آپ کے کندھوں کے گرد ڈال دیا۔ سلسلہ کلام بڑھانا چاہتے تھے کہ آپ کی آواز نے قریباً بالکل جواب دے دیا اور آپ موسیٰ جار اللہ کو یہ کہہ کر رخصت کرنے پر مجبور ہو گئے کہ کل پھر تشریف لائیے۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہو گئی اور ہم واپس آ گئے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا دل و دماغ ایک جہان نور و سرود میں منتقل ہو چکے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک احساس حسرت بھی لاحق تھا جیسے لیلائے محمل ایک ہی جھلک دکھا کر غائب ہو گئی ہو یا زندگی بھر کی خوں گشتہ آرزوئیں ایک سہانے خواب میں پوری ہو رہی ہوں اور آنکھ کھل جائے۔‘‘
ایم اے کے آخری سال میں ہم چند ہم جماعتوں نے موسم سرما کی ایک شام کو دفعتہ ارادہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے چلیں۔ ارادہ کرتے ہی ہوسٹل سے روانہ ہو پڑے اور راستے میں صلاح کی کہ آج حضرت علامہ سے مسئلہ خیر و شر کے متعلق استفسار کریں گے۔ در دولت پر پہنچ کر اجازت لینے کے بعد ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت ساتھ کے کمرے میں مصروف مطالعہ تھے، خبر پا کر تشریف لائے۔ مزاج پرسی کے بعد ہم میں سے ایک نے اس مسئلہ کو چھیڑنے کی جرأت کی تو فرمانے لگے کہ ’’ اپنے فلسفہ کے پروفیسر سے کیوں نہیں پوچھتے، وہ کوئی کتاب بتا سکیں گے۔اس پر ایک اور صاحب نے ان کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ہم قرآنی اور اسلامی نظریہ خیر و شر کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘ فرمایا:’’ پہلے اس مسئلہ کی عام بحث سے واقفیت حاصل کر لو، اس کے بعد میرے پاس آنا اور جو جی چاہے پوچھ لینا۔ ڈکنسن نے ایک کتاب لفظ خیر سے مراد The Meaning of Good لکھی ہے، وہ مفید مطلب رہے گی۔ کتاب آسان ہے۔ اگر کسی نے فلسفہ نہ بھی پڑھا ہو تو وہ بھی بلا دقت اسے سمجھ سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک صاحب نے پوچھا ڈاکٹر صاحب! اسلام کس نظام حکومت کا قائل ہے؟ فرمایا کچھ عرصہ ہوا میں نے اس موضوع پر موسیٰ جار اللہ سے بحث کی تھی، اس بحث کو دہرا نہیں سکتا، البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت نہ ارسٹا کریسی (Aristocracy) ہے نہ تھیا کریسی (Theocracy) ہم نے کہا ’’ تو پھر وہ کون سا نظام ہے اگر ان چاروں میں سے ایک بھی نہیں؟‘‘ مسکرا کر فرمانے لگے؟’’ اس نظام کو معرض وجود میں لانا آپ لوگوں کا کام ہے۔‘‘ پھر آپ نے ہم سے تھیاکریسی کی تعریف پوچھی مگر باوجود اس کے کہ بعض ہم جماعت پولیٹکل سائنس کے طالب علم تھے، ہم میں سے کوئی بھی صحیح جواب نہ دے سکا۔ اس پر ہمیں کچھ ندامت سی محسوس ہوئی۔ آپ مسکرانے لگے اور ایک کتاب طاق میں سے نکال کر ہمیں اس لفظ کی تعریف پڑھ کر بتائی۔ پھر ہم نے آپ سے جنت کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا:’’ قرآن نے کئی قسم کی جنتیں6؎ بیان کی ہیں۔ بعض مادی ہیں اور بعض روحانی۔ مادی جنتوں کے بیان سے تو آپ واقف ہی ہوں گے، مگر بعض بعض مقامات پر روحانی جنتوں کا بھی ذکر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ قرآن نے روحانی جنت کی تعریف کس طرح کی ہے؟ فرمایا ’’ فیھا لا لغو ولا تاثیم‘‘ اس کے بعد ہم میں سے ایک نے کہا:’’ قبلہ یہ بڑے بڑے لوگ جو ہیں سر فلاں اور خان بہادر فلاں میں سمجھتا ہوں کہ یہی ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو ہمیں نسبتاً کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘ فرمایا: ’’ زندگی اسی طرح بسر کرو گویا یہ لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے۔ مجھے دیکھو، میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔ یہی لوگ میرے پاس بھی کبھی کبھی آ جاتے ہیں، علیک سلیک کر کے چلے جاتے ہیں۔ میں بھی جواباً علیک سلیک کہہ دیتا ہوں ۔ اللہ اللہ خیر صلاح۔ انہیں محض بڑی بڑی تنخواہوں کا وصول کرنا ہی آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کچھ نہیں جانتے‘‘ پھر نماز کا ذکر آ گیا، کسی نے پوچھا کہ ’’ اگر اردو میں نماز پڑھ لی جائے تو کیا حرج ہے؟‘‘ کہنے لگے:’’ عربی میں نماز بالکل سیدھی سادی ہے، کوئی مشکل الفاظ نہیں، لہٰذا نماز کے اردو ترجمے کا خیال نہیں پیدا ہونا چاہیے7؎ ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ اردو میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مجھے یاد ہے میری والدہ صاحبہ عربی الفاظ کا تلفظ صحیح نہ کر سکتی تھیں، لہٰذا میرے والد صاحب انہیں اجازت دیا کرتے تھے کہ وہ بیشک اردو میں ہی نماز پڑھ لیا کریں‘‘ (خدا کی قدرتیں بہت ذیشان ہیں ماں وہ کہ نماز کے سادہ عربی الفاظ کا صحیح تلفظ نہ کر سکے، اور بیٹا وہ جس کی علمیت کا ایک جہان معترف ہو اور جس کی قابلیت کے سامنے ایک دنیا سر تسلیم خم کرے)‘‘
ان دنوں بال جبریل نئی نئی شائع ہوئی تھی اور ان کی ’’ سمجھا تھا میں‘‘ والی غزل زباں زد خاص و عام تھی۔ ویسے اس غزل کا پہلے ہی سے شہرہ تھا کیونکہ بال جبریل کی اشاعت سے پیشتر وہ رسالہ ’’کارواں‘‘ کے پہلے نمبر میں شائع ہو چکی تھی۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اس غزل کا بہترین شعر یعنی:
عرصہ محشر8؎ میں میری خوب رسوائی ہوئی
داور محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں
شائع ہونے سے رہ گیا۔ کہنے لگے:’’ ہاں، مگر مجھے اس بات کا اس وقت خیال آیا جب کہ کتاب کاتب کے پاس جا چکی تھی اور اس شعر کا اندراج ممکن نہ تھا۔‘‘ ازاں بعد۔۔۔ اور آپ کے نظریہ فوق البشر کے متعلق بات چیت ہوئی تو ہم نے آپ سے دریافت کیا کہ فوق البشر کی کیا تعریف ہے؟ کہنے لگے:’’ ہر صحیح مومن فوق البشر ہے اور اسلام وہ بہترین سانچہ ہے جس میں فوق البشر9؎ ڈھلتے ہیں۔‘‘ چونکہ کارلائل کی کتابیں ہمارے کورس میں شامل تھیں، لہٰذا ضمنی طور پر اس کے نظریہ ہیرو(Hero) کے متعلق بھی تذکرہ آ گیا۔ کہنے لگے ہیرو کی تعریف یہ ہے کہ ’’ وہ انسان جس کے اعمال و افعال نوع انسانی کے لیے چشمہ ہائے زندگی جاری کرنے والے ہوں‘‘ شخصیت پرستی (Heroworship) ہندو قوم کی امتیازی صفت ہے، مگر اسلام کے خلاف ہے یہاں آپ نے بہ طریق تعلیٰ نہیں بلکہ گزارش احوال واقعی کے طور پر ایک تقریب کاقصہ سنایا، جس پر وائسرائے کے علاوہ ہندوستان کی ریاستوں کے فرمانروا اور دیگر اکابر و زعمائے ملک کا ایک جم غفیر رونق افروز تھا۔ کہنے لگے:’’ جس وقت مہاتما گاندھی اس مجمع میں داخل ہوا تو قریباً سب لوگ اس کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، جس کے سامنے سے گزرتا وہی احتراماً اٹھ کھڑا ہوتا مگر جب میرے پاس سے گزرا تو میں بدستور اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ اس کے بعد وائسرائے نے چند لوگوں کی دعوت کی جن میں میں بھی مدعو تھا، دعوت کے بعد وائسرائے نے مجھے تنہائی میں کہا کہ:’’ میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں بشرطیکہ آپ کسی سے اس کا ذکر نہ کریں‘‘ میں نے کہا کہیے۔ کہنے لگا:’’ کہ تقریب پر مہاتما گاندھی کی تعظیم کے لیے سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ میں نے سر شفیع کو بھی اٹھتے ہوئے دیکھا مگر آپ اپنی جگہ پر بدستور قائم رہے اس کا کیا سبب ہے؟‘‘ فرمایا ایک دو سیکنڈ تو میں خاموش رہا، مگر پھر مجھے دفعتہ جواب سوجھا اور میں نے کہا:’’ غالباً آپ کو معلوم نہیں کہ اس ملک میں کئی مسلمان ایسے ہیں، جن کے باپ دادا ہندو تھے، ان میں سے اکثر و بیشتر ہنوز اپنے آباؤ اجداد کی صفات سے متصف ہیں، الحمد للہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ ‘‘
پھر آپ نے کہا کہ ’’ اسوۂ رسول شخصیت پرستی کی مخالفت کا بہترین مظہر ہے۔ رسول خدا ؐ صحابہ کرامؓ کی جماعت کے پاس جب کبھی جاتے تو وہ آپ کو دور سے دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے۔ آپ نے ایک دو مرتبہ دیکھا اور تیسری مرتبہ منع فرمایا۔ خیال کیجئے، وہ ہستی جس کی خاطر اس کے متعین اپنے خون کا آخری قطرہ گرا دینا دینی و دنیوی سعادت مندی کا واحد ذریعہ تصور کرتے تھے اسے اتنا بھی گوارا نہ تھا کہ کوئی اس کی خاطر اٹھ کھڑا ہو۔ ایک اور واقعہ یاد آ گیا، کہتے ہیں کہ رسول خداؐ شام کا کھانا کھانے کے بعد صحابہ کرامؓ کے ہمراہ عام طور پر صحرا میں برائے سیر جایا کرتے تھے۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ جب آپ مصروف سیر تھے تو چند غزال آپ کے پاؤں کو آکر چومنے لگے۔ صحابہؓ نے عرض کیا:’’ قبلہ دو عالم! جانوروں کو تو یہ سعادت نصیب ہو مگر ہم اس کے لیے ہمیشہ ترستے رہیں‘‘ آپ نے فرمایا۔۔۔۔ یہاں ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہو گئے جیسے طاقت گفتار یک لخت جواب دے گئی ہو۔ چونکہ ہم نے سن رکھا تھا کہ ذکر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی کیا کیفیت ہوا کرتی ہے، لہٰذا ہم ہمہ تن دید بن کر ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ مثال مجسمہ جامد و ساکت تھے۔ کمرے میں سناٹے کا عالم تھا خاموشی نے طول پکڑا یہاں تک کہ قریباً ایک منٹ اسی طرح گزر گیا۔ اس کے بعد ان کے چہرے پر ایک لرزش نمودار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی رخساروں پر آنسوؤں کی بارش شروع ہو گئی۔ سسکتے ہوئے کہنے لگے: رسول خداؐ نے فرمایا:’’ اسجدو اللہ اکرموا اخوالکم‘‘ 10؎(یعنی بزرگوں کی محض واجبی تعظیم کرو، سجدے کے لائق صرف خدائے تعالیٰ کی ذات واحد ہے) بخدا دنیا بھر کی ادبیات میں اس سے بہتر فقرہ مجھے دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔‘‘ ہم اس واقعے سے اور ڈاکٹر صاحب کی کیفیت کے مشاہدے سے بے حد متاثر ہوئے اس کے بعد سلسلہ کلام کو جاری رکھنا بے محل سا معلوم ہوا۔ ویسے بھی کافی دیر ہو چکی تھی، لہٰذا مجلس برخاست ہوئی اور ہم اٹھ کر چلے آئے۔ آج تک یاد ہے کہ اس رات دلوں کی میل دھل چکی تھی اور ہم سب اس احساس سے مسرور تھے کہ بہرحال جیتے جی کم از کم ایک مسلمان تو دیکھ لیا۔
اسلام کی موجودہ حالت کے پیش نظر یہ واقعہ خرق عادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی یاد آ جائے حیرت ہوتی ہے کہ اس کافرستان میں یہ دیوانہ رسولؐ کسی طرح پیدا ہو گیا اور اس ظلمت کدۂ الحاد میں یہ قندیل ایمان کیسے جگمگا اٹھی۔ تعجب ہوتا ہے کہ باوجود اتنی سیہ کاریوں کے مسلمان اس نعمت سے مشرف ہونے کے لیے دیدۂ قدرت میں کیونکر منتخب ہو گئے اور یقین نہیں آتا کہ:
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
آج اس واقعہ کو قریباً چار سال ہو چکے ہیں، مگر تاثرات کی تازگی کے سبب ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کل کی بات ہے۔ علامہ مرحوم کی تصویر بار بار آنکھوں کے سامنے آ کر جنت نگاہ بن رہی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ وہ پیکر حیات جس کے کلام کا ہر لفظ عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، خود موت کے چنگل سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ جہاں تک ’’ دنیائے سماوی‘‘ کا تعلق ہے پہلی ملاقات کا منظر آج کی رات سے مشابہہ تھا۔ گرد و پیش کا سماں ان لمحات رفتہ کی خوابیدہ یاد کو پیام برخیز دے رہا ہے۔ آسمان پر’’ تارے آوارہ و کم آمیز‘‘ نظر آتے ہیں۔ چاندنی دور دور تک چھٹکی ہوئی ہے۔ جہان بقعہ نور بن رہا ہے۔ گویا زمین ایک شفاف نوری سمندر کی تہ میں مستقر ہو گئی ہو۔ افق کے قریبی مناظر تاریکی کے ہلکے حجاب میں کھوئے کھوئے معلوم ہوتے ہیں۔ دل میں ارمانوں کی لہر اداس نغموں کے زیر و بم کی طرح کبھی اٹھتی ہے، کبھی بیٹھ جاتی ہے۔ بے ثبات انسانی زندگی کا منظر طلسمی نقش و نگار کی صورت ہر لمحہ ’’ فریب نظر‘‘ بن رہا ہے۔ ابھی پیدا، ابھی پنہاں، افکار پریشاں مجسمہ حیرت بن کر اس موج سراب کے معمہ ہست و نیست سے دو چار ہیں۔ انسانی زندگی کے پیہم ظہور و پیہم غیوب کا تصور دل و دماغ پر حاوی ہے اور اس تصور کی آغوش بسیط میں دوش و امروز، امروز و فردا آپس میں مل مل کر جدا ہو رہے ہیں۔ تقسیم زمانہ کی مصنوعی حدود احساسی طور پر پھیکی پڑ چکی ہیں گویا ماضی و حال و مستقبل ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے ہوں۔ ایام رفتہ کی تصویر عرصہ تخیل میں پیدا ہو کر چشم تصور سے اوجھل ہو رہی ہے۔ کمرے کے اندر چاند کی کرنیں ایک میز پر پڑ رہی ہیں جس کے ایک کونے پر ڈکنسن کی کتاب The Meaning of Goodمیری زندگی کے رفتہ و حاضر کو یمین و یسار میں لیے ہوئے ایک عرصہ سے پڑی ہے۔ کتاب کا مطالعہ کئے مدت ہو چکی ہے۔ مسئلہ خیر و شر کے متعلق ابتدائی خیالات جو کبھی حصار سنگین معلوم ہوتے تھے، مصنف کی تخریبی تنقید سے شکوک و شبہات کی اس فضا میں تحلیل ہو چکے ہیں جہاں پائے تخیل کو قرار نہیں۔ نگاہیں آفاق کی تاریکیوں اور فضا کی نوری پہنائیوں میں حیران و سرگرداں اس ہستی کی متلاشی ہیں جس کا وعدہ تھا کہ تم خیر و شر کی عام بحث سے واقفیت حاصل کر کے میرے پاس آؤ میں تمہیں اسلامی نظریہ خیر و شر سے آگاہ کروں گا۔ اس کے جیتے جی تو ہزاروں امیدیں تھیں مگر آج جب کہ ہر لمحہ اس دلخراش حقیقت کا سامنا ہے کہ:
’’ہوا جو خاک سے پیدا وہ خاک میں مستور‘‘
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ دل و دماغ کی پریشانیوں کو رفع کرنے کی تدبیر کیا ہو گی:
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں
اگر ایفائے وعدہ نہ ہوا تو قصور کس کا؟ اسے اپنی شومی قسمت تصور کروں یا مشیت ایزدی؟ اسے اپنی مجبوری کہوں یا ان کی؟ یہ تعبیرات سود مند ہوں یا بے سود، با معنی ہوں یا بے معنی، حقیقت ہوں یا دھوکا مگر دل کو یہ احساس ہر لمحہ کھائے جا رہا ہے کہ یہ وعدہ اب قیامت تک کے لیے ایفا طلب رہ گیا اور یہ امید عمر بھر کے لیے حسرت جانگداز میں منتقل ہو گئی:
قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے
گناہگار ہے کون اور خون بہا کیا ہے؟

سید الطاف حسین، ایم اے