چند ملاقاتیں
سید الطاف حسین، ایم اے
اکثر لوگوں کی طرح میں بھی جب پریشان کن حالات میں محصور ہو جاؤں تو تسکین خاطر کے لیے عہد ماضی کے چند زریں ایام کی یاد میں پناہ لے لیا کرتا ہوں۔ میری مختصر گذشتہ زندگی کے بہترین واقعات جنہیں میں اپنے لیے سرمایہ فخر و ناز سمجھتا ہوں اور جن کی یاد متاع زندگی بن کر عمر بھر میرے دل میں آباد رہے گی، وہ چند مختصر ملاقاتیں ہیں جومجھے علامہ مرحوم سے نصیب ہوئیں۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ان کی زیارت کے مواقع مجھے صرف طالب علمی کے زمانہ میں میسر ہوئے جب میں ان کی صحبت بابرکت سے کماحقہ استفادہ کرنے کے قابل نہ تھا، مگر جب مجھ میں ان سے بات کرنے اور ان کی بات سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہونے لگی تو وہ چل بسے۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ملاقاتیں مختصر اور پریشان سی ہیں۔ یوں تو انہیں کئی مرتبہ بیک وقت نگہہ باز گشت کے سامنے ایک داستان کے مختلف ٹکڑوں کی صورت میں لا چکا ہوں مگر انہیں سپرد قلم کر کے صفحہ قرطاس پر یکجا کرنے کا خیال علامہ مرحوم کے انتقال کے بعد محض چند احباب کا خیال علامہ مرحوم کے انتقال کے بعد محض چند احباب کی تحریک پر ہوا۔ عدم فرصت کے سبب یہ خیال ایک طویل عرصہ تک ذہنی حدود سے باہر نہ آ سکا، مگر پھر جی میں آئی کہ انتظار فرصت میں اگر ساری عمر بھی ضائع ہو جائے تو بعید نہیں؟ اس کام سے جتنی جلدی ممکن ہو فارغ ہو جانا چاہیے چنانچہ آج گویا اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے:
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
مدت ہوئی ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تو شکوہ کے اشعار ورد زباں تھے۔ کالج کی کتابیں پڑھتے پڑھتے اگر شکوہ شروع کر دیتا تو دل و دماغ پر ایک بیخودی سی طاری ہو جاتی جس سے ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بیدار ہو کر معلوم کیا کرتا کہ کتابیں میز پر دھری کی دھری ہیں۔ ان دنوں ہر وقت دھن سی لگی رہتی کہ ان بلند پایہ اشعار کے مصنف کی زیارت نصیب ہو۔ چند احباب کی منت سماجت کی کہ اگر ان کی رسائی اقبال تک ہو تو کبھی نہ کبھی مجھے اپنے ہمراہ ضرور لے چلیں۔ ایک صاحب نے رضا مندی کا اظہار تو کیا مگر نہ معلوم کس خیال سے بہت لیت و لعل کرتے رہے۔ آخر پورے نو مہینے ٹالم ٹول کے بعد وہ مجھے اس قبہ عالیہ تک لے کر پہنچے جس کے شوق دید میں میں ایک عرصہ سے بے قرار تھا۔ غالباً جولائی کے اواخر کی چاندنی رات تھی، ڈاکٹر صاحب میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے صحن میں ایک پلنگ پر تہمد اور سفید بنیان زیب تن کیے لیٹے ہوئے تھے۔ ایک ملازم شانے داب رہا تھا۔ کوٹھی کی ایک جانب سرکنڈوں کی قطار تھی، جن کا سایہ صحن کے سامنے کافی دور تک پڑ رہا تھا۔ روشنی وغیرہ کوئی نہ تھی۔ چاندنی رات کا سماں، سرکنڈوں کا خاموش اور دراز سایہ، مکان کی ’’ پر سکونی‘‘ و ’’ بے چراغی‘‘ اور اس عظیم الشان شخصیت کی انتہائی سادگی جو میری دنیائے عقیدت کے اوج ثریا پر مقیم تھی۔ایک عجیب منظر تھا جس کی کیفیت آج تک دل میں باقی ہے مگر کبھی محتاج الفاظ نہیں ہوئی۔ جو صاحب میرے ہمراہ تھے انہوں نے ایک ملازم کے ذریعہ اپنی آمد کی خبر بھیجی۔ ڈاکٹر صاحب نے نام سنتے ہی ہمیں بلا لیا۔ چنانچہ ہم جا کر اور السلام علیکم کہہ کر ان کے قریب کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میری آنکھوں کو ان کے چہرے کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں ہمہ تن دید بن کر اس محویت سے ان کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا، گویا کسی دیرینہ خواب کی تعبیر دیکھ رہا ہوں۔ قریباً ہر دو منٹ کے بعد ایک لمبی اور گہری سانس لیتے تھے جس سے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا دود پیچاں کے انبار کا ایک بارثقیل سینے پر دھرا ہے جس کی تخفیف چاہتے ہیں۔ کبھی کبھی پاؤں کو چارپائی پر اوپر نیچے حرکت دیتے تو بستر پر سلوٹیں پڑ جاتیں۔ پیشانی اور رخسار ابھرے ہوئے تھے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور ٹھوڑی کے نچلے حصے کا گوشت ڈھلک رہا تھا۔ مزاج پرسی کے بعد میرے محترم دوست نے ڈاکٹر صاحب سے میر ااس طرح تعارف کرایا کہ یہ گورنمنٹ کالج کے ایک طالب علم ہیں اور آپ کے بہت مداح ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک لحظہ میری طرف غور سے دیکھا۔ باوجودیکہ سر سے شانوں تک ان کا جسم نسبتاً اندھیرے میں تھا، ان کی آنکھوں میں جو چمک اس وقت نمودار ہوئی مجھے روز روشن کی طرح واضح طور پر نظر آئی اور آج تک میری نگاہوں میں محفوظ ہے۔ اس سے یہ ہر گز نہ سمجھنا چاہیے کہ اپنے کلام کے ایک مداح کو دیکھ کر انہیں مسرت ہوئی کیونکہ ان کی آنکھیں قدرتی طور پر چمکدار تھیں ۔ بالخصوص جب کسی چیز کو آنکھ پھیر کر دیکھا کرتے تو یہ چمک نمایاں طور پر نظر آیا کرتی۔ میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے:’’ کون سی جماعت میں پڑھا کرتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی’’ سیکند ایر کا امتحان دے چکا ہوں اور تھرڈ ایر میں داخل ہونے کا ارادہ ہے۔‘‘ مضامین کون سے ہیں؟ میں نے کہا’’ عربی اور اے کورس کی صلاح ہے‘‘ فرمایا’’ اے کورس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ ’’ اے کورس ریاضی کا ایک مضمون ہے‘‘ کہنے لگے’’ بی اے وغیرہ میں ریاضی تو غالباً چند مخصوص قسم کے سوالات تک محدود ہے جن سے اس کے چند موٹے موٹے اصولوں کو طلباء کے ذہن نشین کرانا مقصود ہوتا ہے، البتہ ریاضی اعلیٰ کے لیے تخیل کی ضرورت ہوتی ہے، تم اکنامکس2؎ کیوں نہیں لے لیتے؟‘‘ ان دنوں مجھے علم اقتصادیات سے کچھ دلچسپی نہ تھی (اگرچہ آج اس کی تحصیل کو ترستا ہوں) چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی تجویز مجھے پسند نہ آئی اور میں خاموش رہا۔ پھر فرمایا’’تعلیم سے کچھ مقصد پیش نظر ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا’’ فی الحال کچھ نہیں‘‘ میرے سامنے رکھے بغیر بے تکے مضامین لے لیتے ہیں۔ اس گفتگو کو مجھ پر اتنا اثر ضرور ہوا کہ میں نے بی اے میں اے کورس کی بجائے تاریخ اے لی۔ اس کے بعد روئے سخن دیگر عنوانات کی طرف منتقل ہوا۔ کچھ دیر پنجاب کے چند بڑے بڑے شہروں کے آباد ہونے کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد یہ سبیل تذکرہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک ہم جماعت کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’ کہ وہ ہر سال امتحان میں ناکامی سے دو چار ہوا کرتا تھا۔ جس طرح ملاح ہر مرتبہ مسافروں کو دریا پار کرنے کے بعد واپس کنارے پر آ جاتا ہے اس کا بھی یہی حال تھا۔ چنانچہ ہم اسے ملاح کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور اکثر بطور تمسخر اسے کہا کرتے تھے کہ بھئی تم نے یونیورسٹی کا سالانہ وظیفہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ پھر ڈاکٹر صاحب نے ایک مولوی صاحب کا قصہ سنایا جن سے چند روز ہوئے سیالکوٹ میں ان کی ملاقات ہو چکی تھی۔ ان کے اصلی الفاظ یاد نہیں مگر صورت حالات یہ تھی کہ مولوی صاحب کو ایک پردہ نشین لڑکی کے والدین نے حسن ظن میں گرفتار ہو کر لڑکی کو اقلیدس پڑھانے کے لیے معلم مقرر کیا۔ تعلیم اور تعلم کا انداز قدرے مضحکہ انگیز تھا یعنی مولوی صاحب اور ان کی شاگرد رشیدہ کے درمیان پردہ حائل رہتا اور مولوی صاحب پردے کے نیچے سے ہاتھ بڑھا کر سلیٹ یا کاغذ پر مستطیلوں اور مربعوں کو کھینچ کر ان کے رقبوں کے قواعد لڑکی کو سکھایا کرتے۔ چند روز کے بعد مولوی صاحب نے ریاضی کے دقیق نکات و رموز کی تعلیم میں پردے کو سد راہ سمجھا۔ آخر پردہ تھا، اٹھ گیا، اور مولوی صاحب استاد اور شاگرد کے تعلقات کی محدود اور بے کیف دنیا سے نکل کر عشق اور تعشق کے بحر نا پیدا کنار کی غواصی پر کمر بستہ ہوئے۔ بات اڑ گئی، مولوی صاحب کی تشہیر ہوئی اور معاملہ در عدالت تک پہنچا ان دنوں مقدمہ چل رہا تھا لہٰذا قصہ یہیں ختم ہوا۔ مولوی صاحب کی وارفتگی پر قدرے تعجب کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ میں نے لڑکی کو دیکھا ہوا ہے، کوئی خاص خوبصورت نہیں۔‘‘ مجھے ان الفاظ میں ایک ہلکا سا شبابی رنگ نظر آیا اور ان کے تلفظ میں کسی کے شباب رفتہ کی صدائے باز گشت سنائی دیتی معلوم ہوئی۔ علاوہ ازیں جس معصومانہ انداز میں ڈاکٹر صاحب نے ان الفاظ کو ادا کیا ا س سے میرے دل میں گدگدی سی پیدا ہوئی، مگر میں مسکراہٹ تک کو ضبط کر کے بیٹھا رہا۔ آج تنہائی میں کبھی یہ فقرہ یاد آ جائے تو مسکرا لیا کرتا ہوں۔ جہاں تک یاد ہے پہلی ملاقات میں اور کوئی بات قابل ذکر نہ ہوئی اور ہم اجازت لے کر واپس چلے آئے۔ میں اگرچہ آج بھی سن رسیدہ نہیں ہوں مگر ان دنوں بالکل بچہ تھا اور میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس شعر و سخن کے علاوہ اور کسی قسم کی باتیں نہ ہوں گی، لہٰذا پہلی مرتبہ ان سے ملنے کے بعد میں مایوس سا ہوا اور دل میں کہا کہ بجائے شاعر اقبال کے بیرسٹر اقبال سے ملاقات ہوئی۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے اشعار ان کے جگر پارے ہیں اور کسی متشاعر کے کلام کی طرح لوگوں کی تفریح طبع کا سامان نہیں اور ان سے مزید واقفیت نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ وہ کسی علم خام رکھنے والے کی طرح نمائش پسند نہیں کہ جن صفات کے سبب دنیا ان کی معتقد ہو وہ ان کا مظاہرہ ملنے والوں پر خواہ مخواہ کرتے رہیں۔ یہ راز بھی بعد میں آشکار ہوا کہ نظم و نثر کے امتیازات منظور ہے کہ اور لوگوں کو بھی ان کے سانچے میں ڈھالا جائے لہٰذا الفاظ ان کے منہ سے ایک عجیب دلکش و موثر انداز میں نکلتے ہیں جسے دنیا اپنی اصطلاح میں شعر کے نام سے موسوم کرتی ہے۔ نیز ان سے مل کر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ جب تک شخص شعر و شاعری کی بحث میں انہیں زبردستی گھسیٹ کر نہ لے آئے وہ اس سے حتیٰ الامکان اجتناب کیا کرتے۔ اس موقع پر اپنے ایک عزیز کا قصہ یاد آ گیا۔ وہ سناتے تھے کہ ایک مرتبہ یوپی کے رہنے واے دو شاعری زدہ اصحاب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرنے کے لیے گئے۔ علیک سلیک کے بعد مزاج پرسی ہوئی اور پھر بعد کچھ دیر تک دونوں جانب خاموشی طاری رہی۔ کچھ انتظار کے بعد جب ان میں سے ایک کو شاعری کے پھپھولے نے بہت تنگ کیا تو وہ ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگا’’ قبلہ آج آسمان پر بادل ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’’جی ہاں! آج آسمان پر بادل ہیں‘‘ پھر خاموش رہ کر دوسرے حضرت بولے:’’ جناب! آج ہوا میں خنکی ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ جی ہاں! آج ہوا میں خنکی ہے‘‘ اس کے بعد دونوں اصحاب وہاں سے تشریف لے آئے اور میرے دوست سے سیخ پا ہو کر کہنے لگے:’’ کہ ایسے شاعر تو ہمارے ہاں بیسیوں کی تعداد میں ہیں۔ ہم نے خنکی اور بادلوں کا عمداً ذکر کیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب طبع آزمائی کر کے ہمیں تازہ ترین اشعار سے محظوظ کریں گے، مگر وہ تو بالکل چپ سادھے رہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات کرنے سے پیشتر جس غلط فہمی میں میں مبتلا تھا یہ لوگ بھی یقینا اسی غلط فہمی میں گرفتار تھے۔ الحمد للہ کہ جب میں ان سے دوسری ملاقات کرنے کے لیے حاضر ہوا تو اس غلط فہمی کو رفع ہوئے گویا صدیاں ہو چکی تھیں۔ وہ تو قعات جنہیں دل میں لے کر میں ان سے پہلی مرتبہ ملنے گیا آج کبھی ان کا دل میں خیال بھی آ جانے تو عرق خجالت میں ڈوب جاتا ہوں۔
کچھ عرصہ کے بعد شوق دید پھر مجھے ان کے در دولت تک لے پہنچا۔ اس وقت آپ ایک شخص سے محو گفتگو تھے۔ میں بھی قریب جا کر بیٹھ گیا۔ غالباً مکان و زمان کے مسئلہ پر بحث شروع تھی۔ میں دلائل کی ابجد تک سمجھنے سے قاصر تھا، البتہ وقتاً فوقتاً آئن سٹائن، طوسی، شہرستانی وغیرہ ہم ایسے نام سننے میں آ رہے تھے اور ان کی بحث میں صرف یہ جملہ آج تک یاد ہے کہ صوفیائے کرام کے نزدیک مکان و زمان3؎ ایک سے زیادہ ہیں۔ میری طرف مڑ کر فرمانے لگے’’ کہیے؟‘‘ میں نے عرض کی ’’ صرف زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘ سن کر خاموش ہو گئے اور میں چپکا بیٹھا ان کی گفتگو سنتا رہا۔ شام کا وقت تھا جب اندھیرا زیادہ ہونے لگا تو اجازت مانگ کر واپس چلا آیا۔ کئی ماہ کے بعد ان کی کوٹھی کے سامنے سے پھر گزر ہوا تو دل میں آئی کہ ڈاکٹر صاحب سے ملتے ہی چلیں۔ اجازت لے کر ان کے کمرے میں پہنچا اور سلام عرض کر کے ان کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اس وقت یونیورسٹی امتحانات کے پرچے دیکھنے میں مصروف تھے۔ کہنے لگے’’ کس طرح آئے؟‘‘ میں نے کہا’’ ایک پریشانی ہے جسے رفع کرنا چاہتا ہوں‘‘ ’’ یعنی؟‘‘ میں نے عرض کی’’ نکلسن نے عربوں کی ادبی تاریخ میں قرآن شریف کی دو آیتوں کا انگریزی ترجمہ کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کے معانی میں کامل تضاد ہے ایک آیت کا مطلب ہے کہ انسان جو چاہے کرے اور دوسری کا یہ کہ سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آیات مجھے یاد نہیں مگر ان کے معانی قریب قریب یہی ہیں‘‘ فرمانے لگے جب نکلسن نے کتاب شائع کی تھی تو میں نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اسے لکھا تھا کہ یہ ’’ تضاد‘‘ کی بکواس کیسی، جیسے تم تضاد کہہ رہے ہو وہ حقائق زندگی کے عین مطابق ہے۔ میں نے کہا’’ ڈاکٹر صاحب! میں نہیں سمجھا کہ حقائق زندگی کے مطابق ہونے سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ کہنے لگے’’ تو بس میرا یہی مطلب ہے۔ حقیقت کوئی بکرنگ چیز نہیں بلکہ ایک مختلف الالوان مرکب ہے۔‘‘ میں نے پوچھا:’’ قبلہ اس میں کیا مصلحت ہے کہ انسان مختار بھی ہے اور مجبور بھی کیوں نہ ہمیں بالکل مجبور یا مختار بنایا گیا؟‘‘ مسکرا کر فرمانے لگے ’’ اس کی مصلحت سے تو وہی واقف ہے جس نے انسان کو پیدا کیا۔ البتہ انسانی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ آدمی اپنی مجبوریوں پر غالب آتا رہے۔ احوال زندگی کے مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان رفتہ رفتہ اپنی تقدیر تک پہنچ رہا ہے۔‘‘ پھر میں نے پوچھا ’’ کیا قوت وجدان ہر شخص میں موجود ہے؟‘‘ کہنے لگے:’’ ہاں عورتوں میں مردوں سے نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔ صوفیا نے اس قوت کی نشوونما کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ بعض لوگ ان پر عمل کرنے سے کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض لوگ نہیں ہوتے۔‘‘ اس کے بعد میں نے ان سے قرآنی تفاسیر کے متعلق سوال کیا ’’ کہ آپ کے خیال میں کون سی تفسیر بہترین ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں اکثر مفسرین قرآن کے مختلف الفاظ کے معانی اور ان کی صوفی و نحوی خوبیوں کے دکھانے میں اپنی تمام تر کوشش صرف کر دیتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے:’’ ہاں، مگر ایسی کتابوں کی بھی ضرورت ہے 4؎‘‘ تفسیر کے متعلق میں نے ایک دو اور مواقع پر بھی ان سے سوال کیا، مگر نہ معلوم کیوں وہ اس سوال کے جواب میں ہمیشہ خاموش رہے۔
ایک عرصہ کے بعد ان سے پھر ملنے کا اتفاق ہوا۔ میرے علاوہ ایک پروفیسر صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ سلسلہ کلام شروع تھا جب میں وہاں پہنچا تو پروفیسر صاحب سے کہہ رہے تھے کہ ’’ہمارے نوجوان اگر آج بھی اپنے اخلاق درست کر لیں تو میں امید کرتا ہوں کہ ان کا مستقبل خوشگوار ہو گا۔‘‘ دوران گفتگو میں پروفیسر صاحب نے کہا:’’ ڈاکٹر صاحب! آج تک کوئی قوم یا کسی قوم کی تہذیب مرنے کے بعد پھر زندہ نہیں ہوئی۔‘‘ کہنے لگے’’ یہ خیال صحیح نہیں۔ مختار قومیں عام طور پر اپنے محکوموں کے دل و دماغ پر یہ خیال اس لیے مسلط کر دیتی ہیں کہ ان میں پھر سے اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہی نہ ہو سکے۔ اسلام اس خیال کا قطعی مخالف ہے۔ آپ محض ایک قوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ مرکر زندہ نہیں ہو سکتی مگر خیال فرمائیے قرآن تو قیامت کا قائل ہے وہ تو کہتا ہے کہ یہ ایک قوم کیا ساری دنیا مر کے ایک بار پھر زندہ ہو گی۔‘‘ لفظ قیامت کی اس تفسیر سے جو سرور مجھے حاصل ہوا اس کا اندازہ میں خود نہیں کر سکتا۔ پروفیسر صاحب کے چہرے کو دیکھا تو وہاں بھی مسرت کی سرخی نظر آئی۔ یہ ملاقات جب بھی یاد آئے قیامت کی تفسیر یاد آ جاتی ہے۔
اس کے بعد دو ملاقاتیں اور ہوئیں جن کا نقشہ ہو بہو آنکھوں کے سامنے ہے اور جن کے تاثرات عمر بھر تازہ رہیں گے۔ پہلی ملاقات دو ہم جماعت عزیزوں کے علاوہ پروفیسر صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم کی معیت میں نصیب ہوئی۔ آپ اپنی پرانی کوٹھی کے برآمدہ میں ایک قمیض اور شلوار پہنے ہوئے رونق افروز تھے۔ حقہ پاس رکھا تھا وہ مرض جس سے ان کی آواز قریباً بالکل بیٹھ چکی تھی اور جس نے ان کو غالباً دم واپسیں تک نہ چھوڑا، اسے لاحق ہوئے ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ پہلے صوفی صاحب سے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد فرمانے لگے کہ ’’ آج ایک روسی ترک موسیٰ جار اللہ مجھے ملنے کے لیے آ رہے ہیں؟ غالباً پندرہ بیس منٹ تک آ جائیں گے۔ وہ روس سے یہاں تک محض اس لیے آئے ہیں کہ مجھ سے اسلامی نظریہ سیاست و نظام حکومت کے متعلق استفسار کریں۔ کتنا افسوس ہے کہ روس سے یہاں تک انہیں ایک شخص بھی ایسا نہیں مل سکا جو ان کی ان امور میں تشفی کر سکتا۔‘‘ قریباً دس منٹ گزرے ہوں گے کہ موسیٰ جار اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ پردے کے متعلق ضمنی طور پر ایک مختصر سی بحث چھڑ گئی۔ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے:’’ فطرت کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جس میں تخلیقی صفات ہوں پردے میں رہے۔ خود خدا کو دیکھیے بے حجاب نہیں۔ زندگی کو لیجئے اگرچہ اس کے آثار کو ہم دیکھ سکتے ہیں مگر بذات خود وہ ہماری نگاہوں سے پنہاں ہے۔ اسی طرح آپ جس چیز کو بھی لیں جو کار تخلیق سے تعلق رکھتی ہو، آپ دیکھیں گے کہ وہ نقاب پوش ہے۔ اس پر موسیٰ جار اللہ نے کہا کہ ہم لوگ بھی پردے کے قائل تو ضرور ہیں مگر حجاب رو ضروری نہیں سمجھتے اور نہ ہی قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی نص قطعی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’’ نہیں قرآن حجاب رو کا قائل ہے‘‘ یہاں پہنچ کر میرا جی چاہتا تھا کہ قطع کلام کر کے ڈاکٹر صاحب سے اس نکتے کی مزید وضاحت کے لیے درخواست کروں، مگر اتنی بے باکی کی جرأت پیدا نہ ہو سکی، لہٰذا طوعاً و کرہاً خاموش ہو رہا۔ اس کے بعد سلسلہ کلام نے اصل موضوع کی طرف رجوع کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلامی نظام سیاسی پر اظہار خیالات کی ابتدا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ انسان ایک فرد یکتا یا گوہر یکتا ہے جس کی ترکیب روح اور مادے سے ہوئی ہے، لہٰذا ہر وہ نظام حکومت جو محض انسان کی جسمی یا مادی ضروریات کو پورا کر سکے انسان کی تشفی نہیں کر سکتا اور نہ ہی نوع انسانی اس نظام کے وضع کردہ راستے پر گامزن ہو کر ارتقائی سیادت سے بہرہ ور ہو سکتی ہے۔ اسلام دین و سیاست میں تفریق اسی لیے روا نہیں رکھتا کہ انسان کی ہیئت ترکیبی ان ہر دو عناصر کے امتزاج کی متقاضی ہے۔ اسلامی نظام حکومت5؎ نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت نہ Aristocracyہے اور نہ تھیا کریسی (Theocracy) بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام کے محاسن سے متصف اور قبائح سے منزہ ہے۔‘‘ اس فقرے کی کچھ تشریح کرنے کے بعد موضوع سے متعلقہ افکار و خیالات کا اظہار جہاں جہاں ان کی کتابوں میں ہو چکا تھا، آپ نے ان مقامات کی طرف موسیٰ جار اللہ کی توجہ مبذول کروائی۔ سلسلہ کلام ا گرچہ فارسی میں تھا تاہم زبان اتنی سلیس تھی کہ باوجود فارسی سے بخوبی واقف نہ ہونے کے ان کی ایک ایک بات سمجھ رہا تھا۔ بعد ازاں کچھ دیر تک موسیٰ جار اللہ آپ سے آپ کے کئی ایک اشعار کے معانی اور گرامر کی رو سے ان کی تراکیب کے متعلق پوچھتے رہے۔ شام ہو چکی تھی اور چونکہ موسم سرما تھا لہٰذا ہوا میں خنکی ذرا ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب کا ملازم ایک کمبل لے آیا جو تبسم صاحب نے آپ کے کندھوں کے گرد ڈال دیا۔ سلسلہ کلام بڑھانا چاہتے تھے کہ آپ کی آواز نے قریباً بالکل جواب دے دیا اور آپ موسیٰ جار اللہ کو یہ کہہ کر رخصت کرنے پر مجبور ہو گئے کہ کل پھر تشریف لائیے۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہو گئی اور ہم واپس آ گئے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا دل و دماغ ایک جہان نور و سرود میں منتقل ہو چکے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک احساس حسرت بھی لاحق تھا جیسے لیلائے محمل ایک ہی جھلک دکھا کر غائب ہو گئی ہو یا زندگی بھر کی خوں گشتہ آرزوئیں ایک سہانے خواب میں پوری ہو رہی ہوں اور آنکھ کھل جائے۔‘‘
ایم اے کے آخری سال میں ہم چند ہم جماعتوں نے موسم سرما کی ایک شام کو دفعتہ ارادہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے چلیں۔ ارادہ کرتے ہی ہوسٹل سے روانہ ہو پڑے اور راستے میں صلاح کی کہ آج حضرت علامہ سے مسئلہ خیر و شر کے متعلق استفسار کریں گے۔ در دولت پر پہنچ کر اجازت لینے کے بعد ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت ساتھ کے کمرے میں مصروف مطالعہ تھے، خبر پا کر تشریف لائے۔ مزاج پرسی کے بعد ہم میں سے ایک نے اس مسئلہ کو چھیڑنے کی جرأت کی تو فرمانے لگے کہ ’’ اپنے فلسفہ کے پروفیسر سے کیوں نہیں پوچھتے، وہ کوئی کتاب بتا سکیں گے۔اس پر ایک اور صاحب نے ان کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ہم قرآنی اور اسلامی نظریہ خیر و شر کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘ فرمایا:’’ پہلے اس مسئلہ کی عام بحث سے واقفیت حاصل کر لو، اس کے بعد میرے پاس آنا اور جو جی چاہے پوچھ لینا۔ ڈکنسن نے ایک کتاب لفظ خیر سے مراد The Meaning of Good لکھی ہے، وہ مفید مطلب رہے گی۔ کتاب آسان ہے۔ اگر کسی نے فلسفہ نہ بھی پڑھا ہو تو وہ بھی بلا دقت اسے سمجھ سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک صاحب نے پوچھا ڈاکٹر صاحب! اسلام کس نظام حکومت کا قائل ہے؟ فرمایا کچھ عرصہ ہوا میں نے اس موضوع پر موسیٰ جار اللہ سے بحث کی تھی، اس بحث کو دہرا نہیں سکتا، البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت نہ ارسٹا کریسی (Aristocracy) ہے نہ تھیا کریسی (Theocracy) ہم نے کہا ’’ تو پھر وہ کون سا نظام ہے اگر ان چاروں میں سے ایک بھی نہیں؟‘‘ مسکرا کر فرمانے لگے؟’’ اس نظام کو معرض وجود میں لانا آپ لوگوں کا کام ہے۔‘‘ پھر آپ نے ہم سے تھیاکریسی کی تعریف پوچھی مگر باوجود اس کے کہ بعض ہم جماعت پولیٹکل سائنس کے طالب علم تھے، ہم میں سے کوئی بھی صحیح جواب نہ دے سکا۔ اس پر ہمیں کچھ ندامت سی محسوس ہوئی۔ آپ مسکرانے لگے اور ایک کتاب طاق میں سے نکال کر ہمیں اس لفظ کی تعریف پڑھ کر بتائی۔ پھر ہم نے آپ سے جنت کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا:’’ قرآن نے کئی قسم کی جنتیں6؎ بیان کی ہیں۔ بعض مادی ہیں اور بعض روحانی۔ مادی جنتوں کے بیان سے تو آپ واقف ہی ہوں گے، مگر بعض بعض مقامات پر روحانی جنتوں کا بھی ذکر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ قرآن نے روحانی جنت کی تعریف کس طرح کی ہے؟ فرمایا ’’ فیھا لا لغو ولا تاثیم‘‘ اس کے بعد ہم میں سے ایک نے کہا:’’ قبلہ یہ بڑے بڑے لوگ جو ہیں سر فلاں اور خان بہادر فلاں میں سمجھتا ہوں کہ یہی ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو ہمیں نسبتاً کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘ فرمایا: ’’ زندگی اسی طرح بسر کرو گویا یہ لوگ پیدا ہی نہیں ہوئے۔ مجھے دیکھو، میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔ یہی لوگ میرے پاس بھی کبھی کبھی آ جاتے ہیں، علیک سلیک کر کے چلے جاتے ہیں۔ میں بھی جواباً علیک سلیک کہہ دیتا ہوں ۔ اللہ اللہ خیر صلاح۔ انہیں محض بڑی بڑی تنخواہوں کا وصول کرنا ہی آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کچھ نہیں جانتے‘‘ پھر نماز کا ذکر آ گیا، کسی نے پوچھا کہ ’’ اگر اردو میں نماز پڑھ لی جائے تو کیا حرج ہے؟‘‘ کہنے لگے:’’ عربی میں نماز بالکل سیدھی سادی ہے، کوئی مشکل الفاظ نہیں، لہٰذا نماز کے اردو ترجمے کا خیال نہیں پیدا ہونا چاہیے7؎ ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ اردو میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مجھے یاد ہے میری والدہ صاحبہ عربی الفاظ کا تلفظ صحیح نہ کر سکتی تھیں، لہٰذا میرے والد صاحب انہیں اجازت دیا کرتے تھے کہ وہ بیشک اردو میں ہی نماز پڑھ لیا کریں‘‘ (خدا کی قدرتیں بہت ذیشان ہیں ماں وہ کہ نماز کے سادہ عربی الفاظ کا صحیح تلفظ نہ کر سکے، اور بیٹا وہ جس کی علمیت کا ایک جہان معترف ہو اور جس کی قابلیت کے سامنے ایک دنیا سر تسلیم خم کرے)‘‘
ان دنوں بال جبریل نئی نئی شائع ہوئی تھی اور ان کی ’’ سمجھا تھا میں‘‘ والی غزل زباں زد خاص و عام تھی۔ ویسے اس غزل کا پہلے ہی سے شہرہ تھا کیونکہ بال جبریل کی اشاعت سے پیشتر وہ رسالہ ’’کارواں‘‘ کے پہلے نمبر میں شائع ہو چکی تھی۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اس غزل کا بہترین شعر یعنی:
عرصہ محشر8؎ میں میری خوب رسوائی ہوئی
داور محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں
شائع ہونے سے رہ گیا۔ کہنے لگے:’’ ہاں، مگر مجھے اس بات کا اس وقت خیال آیا جب کہ کتاب کاتب کے پاس جا چکی تھی اور اس شعر کا اندراج ممکن نہ تھا۔‘‘ ازاں بعد۔۔۔ اور آپ کے نظریہ فوق البشر کے متعلق بات چیت ہوئی تو ہم نے آپ سے دریافت کیا کہ فوق البشر کی کیا تعریف ہے؟ کہنے لگے:’’ ہر صحیح مومن فوق البشر ہے اور اسلام وہ بہترین سانچہ ہے جس میں فوق البشر9؎ ڈھلتے ہیں۔‘‘ چونکہ کارلائل کی کتابیں ہمارے کورس میں شامل تھیں، لہٰذا ضمنی طور پر اس کے نظریہ ہیرو(Hero) کے متعلق بھی تذکرہ آ گیا۔ کہنے لگے ہیرو کی تعریف یہ ہے کہ ’’ وہ انسان جس کے اعمال و افعال نوع انسانی کے لیے چشمہ ہائے زندگی جاری کرنے والے ہوں‘‘ شخصیت پرستی (Heroworship) ہندو قوم کی امتیازی صفت ہے، مگر اسلام کے خلاف ہے یہاں آپ نے بہ طریق تعلیٰ نہیں بلکہ گزارش احوال واقعی کے طور پر ایک تقریب کاقصہ سنایا، جس پر وائسرائے کے علاوہ ہندوستان کی ریاستوں کے فرمانروا اور دیگر اکابر و زعمائے ملک کا ایک جم غفیر رونق افروز تھا۔ کہنے لگے:’’ جس وقت مہاتما گاندھی اس مجمع میں داخل ہوا تو قریباً سب لوگ اس کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، جس کے سامنے سے گزرتا وہی احتراماً اٹھ کھڑا ہوتا مگر جب میرے پاس سے گزرا تو میں بدستور اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔ اس کے بعد وائسرائے نے چند لوگوں کی دعوت کی جن میں میں بھی مدعو تھا، دعوت کے بعد وائسرائے نے مجھے تنہائی میں کہا کہ:’’ میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں بشرطیکہ آپ کسی سے اس کا ذکر نہ کریں‘‘ میں نے کہا کہیے۔ کہنے لگا:’’ کہ تقریب پر مہاتما گاندھی کی تعظیم کے لیے سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ میں نے سر شفیع کو بھی اٹھتے ہوئے دیکھا مگر آپ اپنی جگہ پر بدستور قائم رہے اس کا کیا سبب ہے؟‘‘ فرمایا ایک دو سیکنڈ تو میں خاموش رہا، مگر پھر مجھے دفعتہ جواب سوجھا اور میں نے کہا:’’ غالباً آپ کو معلوم نہیں کہ اس ملک میں کئی مسلمان ایسے ہیں، جن کے باپ دادا ہندو تھے، ان میں سے اکثر و بیشتر ہنوز اپنے آباؤ اجداد کی صفات سے متصف ہیں، الحمد للہ میں ان میں سے نہیں ہوں۔ ‘‘
پھر آپ نے کہا کہ ’’ اسوۂ رسول شخصیت پرستی کی مخالفت کا بہترین مظہر ہے۔ رسول خدا ؐ صحابہ کرامؓ کی جماعت کے پاس جب کبھی جاتے تو وہ آپ کو دور سے دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے۔ آپ نے ایک دو مرتبہ دیکھا اور تیسری مرتبہ منع فرمایا۔ خیال کیجئے، وہ ہستی جس کی خاطر اس کے متعین اپنے خون کا آخری قطرہ گرا دینا دینی و دنیوی سعادت مندی کا واحد ذریعہ تصور کرتے تھے اسے اتنا بھی گوارا نہ تھا کہ کوئی اس کی خاطر اٹھ کھڑا ہو۔ ایک اور واقعہ یاد آ گیا، کہتے ہیں کہ رسول خداؐ شام کا کھانا کھانے کے بعد صحابہ کرامؓ کے ہمراہ عام طور پر صحرا میں برائے سیر جایا کرتے تھے۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ جب آپ مصروف سیر تھے تو چند غزال آپ کے پاؤں کو آکر چومنے لگے۔ صحابہؓ نے عرض کیا:’’ قبلہ دو عالم! جانوروں کو تو یہ سعادت نصیب ہو مگر ہم اس کے لیے ہمیشہ ترستے رہیں‘‘ آپ نے فرمایا۔۔۔۔ یہاں ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش ہو گئے جیسے طاقت گفتار یک لخت جواب دے گئی ہو۔ چونکہ ہم نے سن رکھا تھا کہ ذکر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی کیا کیفیت ہوا کرتی ہے، لہٰذا ہم ہمہ تن دید بن کر ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ مثال مجسمہ جامد و ساکت تھے۔ کمرے میں سناٹے کا عالم تھا خاموشی نے طول پکڑا یہاں تک کہ قریباً ایک منٹ اسی طرح گزر گیا۔ اس کے بعد ان کے چہرے پر ایک لرزش نمودار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی رخساروں پر آنسوؤں کی بارش شروع ہو گئی۔ سسکتے ہوئے کہنے لگے: رسول خداؐ نے فرمایا:’’ اسجدو اللہ اکرموا اخوالکم‘‘ 10؎(یعنی بزرگوں کی محض واجبی تعظیم کرو، سجدے کے لائق صرف خدائے تعالیٰ کی ذات واحد ہے) بخدا دنیا بھر کی ادبیات میں اس سے بہتر فقرہ مجھے دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔‘‘ ہم اس واقعے سے اور ڈاکٹر صاحب کی کیفیت کے مشاہدے سے بے حد متاثر ہوئے اس کے بعد سلسلہ کلام کو جاری رکھنا بے محل سا معلوم ہوا۔ ویسے بھی کافی دیر ہو چکی تھی، لہٰذا مجلس برخاست ہوئی اور ہم اٹھ کر چلے آئے۔ آج تک یاد ہے کہ اس رات دلوں کی میل دھل چکی تھی اور ہم سب اس احساس سے مسرور تھے کہ بہرحال جیتے جی کم از کم ایک مسلمان تو دیکھ لیا۔
اسلام کی موجودہ حالت کے پیش نظر یہ واقعہ خرق عادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی یاد آ جائے حیرت ہوتی ہے کہ اس کافرستان میں یہ دیوانہ رسولؐ کسی طرح پیدا ہو گیا اور اس ظلمت کدۂ الحاد میں یہ قندیل ایمان کیسے جگمگا اٹھی۔ تعجب ہوتا ہے کہ باوجود اتنی سیہ کاریوں کے مسلمان اس نعمت سے مشرف ہونے کے لیے دیدۂ قدرت میں کیونکر منتخب ہو گئے اور یقین نہیں آتا کہ:
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
آج اس واقعہ کو قریباً چار سال ہو چکے ہیں، مگر تاثرات کی تازگی کے سبب ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کل کی بات ہے۔ علامہ مرحوم کی تصویر بار بار آنکھوں کے سامنے آ کر جنت نگاہ بن رہی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ وہ پیکر حیات جس کے کلام کا ہر لفظ عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، خود موت کے چنگل سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ جہاں تک ’’ دنیائے سماوی‘‘ کا تعلق ہے پہلی ملاقات کا منظر آج کی رات سے مشابہہ تھا۔ گرد و پیش کا سماں ان لمحات رفتہ کی خوابیدہ یاد کو پیام برخیز دے رہا ہے۔ آسمان پر’’ تارے آوارہ و کم آمیز‘‘ نظر آتے ہیں۔ چاندنی دور دور تک چھٹکی ہوئی ہے۔ جہان بقعہ نور بن رہا ہے۔ گویا زمین ایک شفاف نوری سمندر کی تہ میں مستقر ہو گئی ہو۔ افق کے قریبی مناظر تاریکی کے ہلکے حجاب میں کھوئے کھوئے معلوم ہوتے ہیں۔ دل میں ارمانوں کی لہر اداس نغموں کے زیر و بم کی طرح کبھی اٹھتی ہے، کبھی بیٹھ جاتی ہے۔ بے ثبات انسانی زندگی کا منظر طلسمی نقش و نگار کی صورت ہر لمحہ ’’ فریب نظر‘‘ بن رہا ہے۔ ابھی پیدا، ابھی پنہاں، افکار پریشاں مجسمہ حیرت بن کر اس موج سراب کے معمہ ہست و نیست سے دو چار ہیں۔ انسانی زندگی کے پیہم ظہور و پیہم غیوب کا تصور دل و دماغ پر حاوی ہے اور اس تصور کی آغوش بسیط میں دوش و امروز، امروز و فردا آپس میں مل مل کر جدا ہو رہے ہیں۔ تقسیم زمانہ کی مصنوعی حدود احساسی طور پر پھیکی پڑ چکی ہیں گویا ماضی و حال و مستقبل ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے ہوں۔ ایام رفتہ کی تصویر عرصہ تخیل میں پیدا ہو کر چشم تصور سے اوجھل ہو رہی ہے۔ کمرے کے اندر چاند کی کرنیں ایک میز پر پڑ رہی ہیں جس کے ایک کونے پر ڈکنسن کی کتاب The Meaning of Goodمیری زندگی کے رفتہ و حاضر کو یمین و یسار میں لیے ہوئے ایک عرصہ سے پڑی ہے۔ کتاب کا مطالعہ کئے مدت ہو چکی ہے۔ مسئلہ خیر و شر کے متعلق ابتدائی خیالات جو کبھی حصار سنگین معلوم ہوتے تھے، مصنف کی تخریبی تنقید سے شکوک و شبہات کی اس فضا میں تحلیل ہو چکے ہیں جہاں پائے تخیل کو قرار نہیں۔ نگاہیں آفاق کی تاریکیوں اور فضا کی نوری پہنائیوں میں حیران و سرگرداں اس ہستی کی متلاشی ہیں جس کا وعدہ تھا کہ تم خیر و شر کی عام بحث سے واقفیت حاصل کر کے میرے پاس آؤ میں تمہیں اسلامی نظریہ خیر و شر سے آگاہ کروں گا۔ اس کے جیتے جی تو ہزاروں امیدیں تھیں مگر آج جب کہ ہر لمحہ اس دلخراش حقیقت کا سامنا ہے کہ:
’’ہوا جو خاک سے پیدا وہ خاک میں مستور‘‘
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ دل و دماغ کی پریشانیوں کو رفع کرنے کی تدبیر کیا ہو گی:
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں
اگر ایفائے وعدہ نہ ہوا تو قصور کس کا؟ اسے اپنی شومی قسمت تصور کروں یا مشیت ایزدی؟ اسے اپنی مجبوری کہوں یا ان کی؟ یہ تعبیرات سود مند ہوں یا بے سود، با معنی ہوں یا بے معنی، حقیقت ہوں یا دھوکا مگر دل کو یہ احساس ہر لمحہ کھائے جا رہا ہے کہ یہ وعدہ اب قیامت تک کے لیے ایفا طلب رہ گیا اور یہ امید عمر بھر کے لیے حسرت جانگداز میں منتقل ہو گئی:
قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے
گناہگار ہے کون اور خون بہا کیا ہے؟
سید الطاف حسین، ایم اے