بزم اقبال
سعادت علی خاں، ایم اے
میں جھنگ سے ایک دن کے لیے لاہور آیا۔ عبداللہ یوسف علی صاحب نے لنڈن سے اپنے پمفلٹ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی چند کاپیاں مجھے بھیجی تھیں کہ انہیں ارباب علم و ذوق کی خدمت میں پیش کر دوں۔
دوپہر کا وقت تھا، میں ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی ایک کاپی لے کر علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حسب معمول اہل شوق کا ایک گروہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کی نشست گاہ میں بیٹھا ہوا ان انمول موتیوں کو چن رہا تھا جو علامہ موصوف دوران گفتگو میں یوں بکھیرا کرتے تھے کہ ہم میں ہر ایک اس لٹتی ہوئی دولت کی افراط و ارزانی کو دیکھ کر اپنے کو جواہر معرفت و روحانیت سے مالا مال تصور کرتا تھا۔ کہاں ہے اب وہ محفل اور وہ بے مثل آواز؟ اس کا جواب موت سے پوچھیے، میری غم زدہ روح اور کانپتا ہوا قلم کیا اس کا جواب دیں گے!
میرے کمرہ میں داخل ہونے پر اس غیر فانی تبسم سے جس پر ہزار الفاظ قربان ہوں، مجھے اپنے پاس کی ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سلسلہ گفتگو کشمیر سے متعلق تھا۔ کشمیر میں آزادی کی روح صدیوں کے تشدد و جبر کے بعد اپنا سر ابھار رہی تھی۔ ریاست اسے ہر طریق سے پھر دبانا چاہتی تھی۔ لیکن علامہ مرحوم فرما رہے تھے کہ یہ نا ممکن ہے، یہ روح کی چنگاری ہے، شعلہ بن کر رہے گی1؎۔
محفل میں سے ایک صاحب نے کشمیریوں کی غربت و جہالت کا ذکر کیا۔
مرحوم مسکرا دیے:’’ غربت و جہالت قوت ایمان و حریت کی راہ میں نہ کبھی سد راہ ہو سکے ہیں اور نہ ہوں گے۔ ہم تو امی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت ہیں۔ مسلمان کے لیے غربت و جہالت کی آڑ لینا اس کی روحانی کمزوری کی پکی دلیل ہے۔‘‘
ان الفاظ نے سامعین پر ایک رقت سی طاری کر دی۔ علامہ مرحوم نے غالباً اس کا احساس کرتے ہوئے بات کا رخ پلٹ دیا، فرمانے لگے میں تو نبی ہوتا ہوتا رہ گیا۔ حالات نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کی طباعت اور اشاعت میں تاخیر کر دی ورنہ کشمیر کے اس ہیجان کو تو میں مدت سے’’ دیکھ ‘‘ رہا تھا۔
اب میری طرف رجوع کیا۔ میں نے ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کی کاپی پیش کر دی۔ میں علم النفس کا طالب علم ہوں، جانتا ہوں کہ ایک اعلیٰ ترین شخصیت جس طرح پر اپنی توجہ کسی نقطہ خاص پر مبذول کر سکتی ہے، اس کی صلاحیت عام آدمیوں میں بالعموم نہیں ہوتی۔ جونہی علامہ مرحوم نے ’’ اخلاقی تعلیم‘‘ کے ورق الٹنے شروع کیے میں خوش ہوا کہ اس بات کے عملی تجربہ کا موقعہ ہاتھ آ گیا۔ کوئی دس پندرہ منٹ تک پمفلٹ کے پینتیس چالیس صفحوں پر سرسری نظر ڈالتے رہے، لیکن اس عرصہ میں وہ گویا ہم میں وہاں موجود ہی نہ تھے۔ کئی ایک حضرات نے کشمیر کے متعلق چند ایک سوالات بھی کیے لیکن علامہ مرحوم نے ایک حرف تک بھی نہ سنا۔
اب مجھے معلوم ہوا کہ ایک طرف کشمیر کے ایک مذہبی تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیٹھے ہیں اور علامہ مرحوم کی خدمت میں مالی امداد حاصل کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔
انہیں مخاطب کر کے فرمایا:’’ تمہارا اس وقت پنجاب میں ہونا اگر درد ناک نہیں تو تعجب انگیز ضرور ہے۔ تم بیکاری کا رونا رو رہے ہو اور تمہارے ہم وطن اپنی آزادی اور حقوق کے لیے طرح طرح کی قربانیاں کر رہے ہیں۔ غربت اور بھوک کی شکایت کرتے ہو، اپنے وطن کو واپس چلے جاؤ، آزادی کی رو میں کود پڑو، اگر قید ہو جاؤ گے تو کھانے کو تو ضرور مل ہی جائے گا، اور اس گداگری سے بچ جاؤ گے۔ اگر مارے گئے تو مفت میں شہادت پاؤ گے اور کیا چاہتے ہو؟ اگر قرآن نے تمہیں یہ بھی نہیں سکھایا2؎ تو تم اور سیکھتے کیا ہو؟ اگر کشمیر جانا ہو تو کرایہ کے پیسے میں دیے دیتا ہوں۔‘‘
نوجوان نے گردن جھکا لی۔ سب خاموش تھے۔ میرا گاڑی کا وقت قریب تھا، اجازت لے کر رخصت ہوا۔
شام ہونے کو تھی، سورج کی آخری شعاعیں شام کے پھیلتے ہوئے دھندلکے سے بر سر پیکار تھیں۔ علامہ مرحوم کو کوٹھی *کے برآمدے میں اکیلے بیٹھا دیکھ کر اپنی قسمت پر رشک کرنے لگا۔ میں نے دل میں کہا:’’ رموز‘‘ ، اسرار، زبور عجم، پیام مشرق، جاوید نامہ آج تو کچھ سبق پڑھ کر جاؤں گا۔
سلام عرض کر کے بیٹھ گیا۔ ارشاد ہوا:’’ شینلگر3؎ کی ’’ زوال مغرب ‘‘ (Decline of the West) پڑھی؟ خوب کتاب ہے، بیسویں صدی کے آغاز کی بہترین کتابوں میں سے ہے۔‘‘
*یہ بھی میکلوڈ روڈ کے زمانہ*قیام کا ذکر ہے۔
میں اس کتاب کی پہلی جلد پڑھ چکا تھا، دوسری نہ پڑھی تھی۔ شینلگر کے اچھوتے نظریے نے میرے دماغ پر خاصا گہرا اثر کیا تھا۔ میں اس کے ساتھ پھر ہیگل 4؎ (Hegal) کے ٹھوس خیالات سے دو چار ہونا چاہتا تھا لیکن مجھے تو آج ’’ سبق‘‘ پڑھنا تھا۔ مختصر سی ’’ جی ہاں، یونہی دیکھی ہے‘‘ کے بعد ہمہ تن گوش ہو کر علامہ مرحوم کی طرف متوجہ ہوا۔
یہ سلسلہ یہیں منقطع ہو گیا۔ ٹھیک اسی وقت میانہ قد، زرد رو، اجنبی نامانوس شکل کا نوجوان وارد ہوا۔ قہر درویش، برجان درویش میں کرسی کی پشت سے لگ کر بیٹھ گیا۔ نوجوان جاوا کا رہنے والا تھا۔ کسی وہاں کے رسالہ یا اخبار کا نامہ نگار تھا۔ اسلامی ممالک کا دورہ کرنے کی غرض سے گھر سے نکلا تھا۔ لاہور میں مولانا ظفر علی خاں کے یہاں مقیم تھا۔ زاد راہ دوسروں کی مہمان نوازی اور فیاضی تھی۔ علامہ مرحوم کے پاس بھی سوال کے لیے حاضر ہوا تھا۔
مرحوم نے ملازم سے پانچ روپے منگوا کر اس کو دیتے ہوئے کہا:’’ اگر تم میں کچھ صلاحیت ہے تو ممکن ہے یہ اسلامی ملکوں کا سفر کسی حد تک تمہاری ذہنی و دماغی ترقی کا باعث ہو۔ لیکن جب تک کہ تم واپس اپنے ملک میں پہنچو گے یہ بھیک مانگنا تمہاری روح کو تو بالکل فنا کر دے گا۔ دماغ یا روح! اس کا فیصلہ تم خود کر لو۔‘‘
کچھ عرصہ تک ہم تینوں خاموش بیٹھے رہے۔ مجھے تو پہلے ہی اس اجنبی کا آنا ایک آنکھ نہ بھایا تھا، اب جو ذرا اس کو تنبیہہ ہوئی، مجھے ایک گونہ تسلی ہوئی۔ اگرچہ اب میں کئی بار متاسف ہوتا ہوں کہ محض خود غرضی کی بنا پر ایک غریب الوطن کا اچانک آنا جانا مجھے کیوں برا معلوم ہوا۔ آخر اس گھر میں تو سبھی کا حق تھا، مسلمانوں کا، ہندوستانیوں کا، سارے دنیا والوں کا ۔
علامہ مرحوم کے چہرے پر وہی متانت اور مسکراہٹ عیاں تھی؟ فرمانے لگے:’’ تمہارے اس طرح گھر سے نکل پڑنے نے ایک پرانے واقعہ کی یاد تازہ کر دی۔ میں شملہ سے واپس آ رہا تھا۔ امرتسر کے اسٹیشن پر گاڑی کھڑی تھی، کھڑکی میں سے باہر دیکھا تو چند ترک پلیٹ فارم پر کھڑے نظر آئے۔ ترکوں کو دیکھ کر میرا دل قابو میں نہیں رہتا۔ فوراً اٹھا اور گاڑی سے باہر نکلا، ان سے باتیں شروع کر دیں۔ وہ گھر سے حج کے ارادہ پر نکلے تھے، لیکن ساتھ ہی ایران، افغانستان اور ہندوستان کی سیر بھی کرنا چاہتے تھے۔‘‘
جاوا کے نوجوان نے خیال ظاہر کیا کہ غالباً پیسے والے ہوں گے۔
لیکن علامہ مرحوم فرمانے لگے:’’ نہیں، معمولی حیثیت کے معلوم ہوتے تھے۔ تھرڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ البتہ بجائے بھیک مانگنے اور دوسروں کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھانے کے اپنی عقل اور محنت پر بھروسہ رکھتے تھے۔ جہاں جاتے وہاں کی مخصوص چیزیں خرید کر دوسری جگہ بیچ دیتے اور اس طرح تجارت کرتے ہوئے قلیل منافع پر ان کا گزران تھا۔ کتنے اچھے ہیں یہ ترک! آزادی ان کا حق ہے۔‘‘
اتنے میں ملازم آیا، معلوم ہوا کہ علامہ مرحوم کو کہیں باہر تشریف لے جانا تھا، ہم دونوں سلام عرض کر کے رخصت ہوئے۔
سعادت علی خاں، ایم اے