دو ملاقاتیں , سید عابد علی عابد ایم اے، ایل ایل بی

دو ملاقاتیں

سید عابد علی عابد   ،  ایم اے، ایل ایل بی

ٹھیک یاد نہیں لیکن غالباً1923ء یا1924ء کی بات ہے، کہ ایک بیرونی یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسری خالی ہوئی، میں نے بھی درخواست دی، لیکن درخواست دینے کے بعد چپکا بیٹھ رہا۔ ایک دوست نے جن کی تجربہ کاری پر بہت اعتماد تھا، یہ قصہ سنا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ علامہ اقبال سے سفارش کروائی جائے۔ اس وقت تک مجھے ان کی خدمت میں کبھی جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا اور ان کی عظمت کا نقش دل پر اس قدر گہرا تھا کہ یوں کہیے کہ جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی تھی، لیکن یہ سفارش والا سلسلہ ایسا نکلا کہ میں نے ان کی ملاقات کے وسائل کے متعلق تگ و دو شروع کی، جوئندہ یا بندہ ایک بزرگوار جن سے ابھی تک عقیدت استوار ہے، اس معاملے میں خضر راہ ثابت ہوئے (خضر راہ علامہ اقبال کے کلام کی رعایت سے نہیں لکھا گیا) گرمیوں کے دن تھے، شام کا وقت تھا، جب میرے یہ خضر طریقت مجھے اپنے سات لے کر نکلے، تو میرے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ کبھی یہ خیال آتا تھا کہ علامہ میری سفارش کیوں کریں گے، نہ وہ مجھ سے ذاتی طور پر واقف نہ میرے ہفوات نظم و نثر کے آشنا۔ کبھی یہ خیال آتا تھا کہ شاید میرے خضر طریقت کی سفارش موثر ثابت ہو اور علامہ میری سفارش پہ آمادہ ہو جائیں۔ بہر نوع راستہ کٹ گیا اور ہم علامہ اقبال کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے دروازے پہ جا پہنچے۔ علامہ کا معمول یہ تھا کہ ہر قسم کے رسمی تکلفات سے بے نیاز ہو کر ملتے تھے۔ نہ کارڈ بھیجنے کی ضرورت نہ سر زیر بار منت درباں کرنے کی حاجت۔ علامہ بیٹھے ہیں یا لیٹے ہیں، لوگ باگ آ جا رہے ہیں، تانتا لگا ہوا ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ خسرو کے اس شعر کا مطلب انہی کے مکان پہ جا کر سمجھ میں آتا تھا:
ہر کہ خواہد گو بیا و ہر کہ خواہد گو برو
گیر و دار و حاجب و درباں در ایں درگاہ نیست
یہ باتیں میں نے سن رکھی تھیں لیکن اس دن بچشم خود مشاہدہ کیں۔ علامہ برآمدے میں آرام کرسی پر لیٹے حقہ پی رہے تھے۔ میں اور میرے دوست سلام کر کے بیٹھ گئے۔ ذرا اندازہ کر لیجئے کہ اس وقت میرے دل میں کیا کیفیت ہو گی۔ دور سے تو علامہ کو کئی بار دیکھا تھا، اس دن پہلی بار یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ان کی باتیں سنیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ سچ مچ مجھ کو یقیں نہیں آتا تھا کہ اقبال میرے سامنے لیٹا باتیں کر رہا ہے۔ دل بلیوں اچھل رہا تھا کہ علامہ نے میرے خضر طریقت سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کون ہیں؟ انہوں نے میرا نام بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پنجاب کے بہت بڑے ادیب اور شاعر ہیں، انہوں نے ایک جگہ درخواست دی ہے، چاہتے ہیں آپ ان کی سفارش کریں۔ علامہ نے حقہ کا ایک کش لیا، ’’ ہوں‘‘ کہا اور میرے دوست سے سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے لگے۔ ان سے باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک بیرسٹر صاحب تشریف لے آئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یہ صاحب علامہ سے ایسی بے تکلفی سے باتیں کر رہے تھے کہ مجھے تعجب ہوتا تھا۔ یہ بزرگوار بہت ہنس مکھ تھے اور پھبتی کہنے میں طاق۔ ان کے آنے سے گفتگو کا رخ تبدیل ہو گیا اور علامہ بھی ان نو وارد بیرسٹر صاحب کی طرف متوجہ ہوئے، مسکراتے جاتے تھے اور کبھی کبھی ان کی پھبتیوں کا جواب بھی دیتے تھے۔ یہ نو وارد بیرسٹر صاحب اپنے ہم پیشہ قانون دانوں پر پھبتیاں کس رہے تھے اور حق بات یہ ہے کہ مزے کی باتیں کر رہے تھے۔ ناگاہ باتیں کرتے کرتے رک گئے اور ایک عجیب انداز میں بے تکلفانہ کہا:’’ یار توں حقے دو رکھیا کر، اک اپنے لئی تے اک دوسریاں لئی۔ حقے دی نڑی منہ وچ پا کے توں تے فیر کڈدا ای نہیں۔ اے تینوں خبرے کی پیڑی عادت لے گئی ہوئی اے‘‘ (یار تم حقے دو رکھا کرو۔ ایک اپنے لیے ایک دوسرے کے لیے، حقہ کی نے منہ لیتے ہو تو لیے ہی رہتے ہو۔ خدا جانے تمہیں یہ کیا بری عادت پڑ گئی ہے) مندرجہ بالا فقرے ٹھیٹھ پنجابی میں کچھ ایسے بے تکلفانہ انداز میں کہے گئے تھے کہ ہمیں بے اختیار ہنسی آ گئی۔ علامہ مسکرائے اور نوکر کو آواز دے کر کہا:’’ پیر صاحب کے لیے دو سمار حقہ لے آؤ۔‘‘ میں علامہ کی باتیں دلچسپی سے سن تو رہا تھا، لیکن میرے گوش قلب میں ایک شبہ سا پرورش پا رہا تھا کہ علامہ میری سفارش نہ کریں گے کیونکہ انہوں نے اس معاملے میں سوائے’’ ہوں‘‘ کہنے کے اس کے بعد کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔ کوئی آدھ گھنٹے کے بعد میرے خضر طریقت نے میرا زانو دبایا، گویا مجھے اشارہ کیا کہ اٹھو چلیں، میں نے اجازت چاہی اور ساتھ ہی میرے خضر طریقت نے کہا:’’ عابد صاحب کے لیے سفارش‘‘ فرمایا: ’’ سفارش ہاں‘‘ پھر انگریزی میں کہا:’’ جو آپ مناسب سمجھیں لکھ لائیں میں دستخط کر دوں گا‘‘ ہم دونوں سلام کر کے رخصت ہوئے۔ علامہ کے’’ محقق‘‘ دوست ابھی تشریف رکھتے تھے۔ راہ میں میرے خضر طریقت نے مجھ سے کہا:’’ لو بھئی تمہارا کام تو ہو گیا‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا۔ گھر پہنچا تو سوچتا رہا کہ یہ بھی علامہ نے کیا ارشاد فرمایا جو مناسب سمجھو لکھ لاؤ۔ کبھی یہ خیال آتا کہ پھر جب ان کی اجازت ہے تو کیوں نہ اپنے متعلق واقعی جو جی میں آئے لکھ لوں۔ پھر سوچتا بہت بیہودہ بات ہو گی کہ علامہ تو مجھ پہ اتنا اعتماد کریں اور میں یہ حرکت کروں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو کچھ میں نے اپنے متعلق لکھا نہایت معقول تھا۔ شام کو وہ تحریر لے کر علامہ کی خدمت میں پہنچا، انہوں نے تحریر پڑھی، مسکرائے اور مجھ سے کہا کہ:’’ ان لفظوں سے آپ کا کام ہو جائے گا۔‘‘ میں نے عرض کی جو امید تو ہے۔ وہ پھر مسکرائے اور فرمایا:’’ دیکھ لیجئے میں نے آپ کو کھلی چھٹی دے دی تو آپ نے خود ہی اپنی تعریف میں مبالغے سے کام نہیں لیا۔‘‘ یہ کہہ کر دستخط کر دئیے۔
اس کے بعد کئی بار علامہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی جن میں سے اس مرحلے پر میں صرف ایک ملاقات کا تفصیلی ذکر کروں گا۔
دسمبر1937ء میں ایک دن میں اور میرے ایک دوست کسی کام سے جا رہے تھے کہ سنٹرل ٹریننگ کالج کے پاس ہمیں ایک خوش پوش نوجوان نے ٹھہرا لیا۔ ان دنوں یوم اقبال منانے کی تحریک کا بڑا چرچا تھا۔ میں اگرچہ ذرا فاصلہ پر تھا لیکن میں سن رہا تھا کہ یہ نوجوان تحریک کے متعلق کچھ باتیں کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ سمجھ کر کہ ان دونوں کی باتیں شاید ایسی ہوں کہ میرا شامل ہونا انہیں ناگوار ہو، میں ذرا آگے بڑھ گیا۔ میرے دوست نے مجھے آواز دے کر بلایا اور اب معلوم ہوا کہ یہ نوجوان میرے دوست سے یوم اقبال کے سلسلے میں مشورہ لے رہا ہے، میرے دوست نے میرا تعارف کرایا تو اس باہمت نوجوان نے میرا نام سنتے ہی فوراً کہا آپ علامہ کی شاعری پر کوئی پیپر نہیں پڑھیں گے؟ میں نے کوئی رسمی سا عذر پیش کیا لیکن دونوں صاحب میرے سر ہو گئے اور آخر مجھے وعدہ کرنا پڑا کہ میں اقبال اور فنون لطیفہ پر مقالہ پڑھوں گا۔
رات کو لوٹا اور اس مضمون کا خیال آیا تو کچھ الجھن سی ہونے لگی، سوچتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جو علامہ مرحوم کی تعلیم کی اصل روح کے خلاف ہو۔ اگرچہ نقاد کی حیثیت سے مجھے کامل آزادی حاصل تھی، لیکن علامہ مرحوم سے جو مجھے عقیدت تھی، اس کی وجہ سے یہ خیال ضرور پیدا ہوتا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کہہ جاؤں جس سے اصل مقصد (اقبال کے نظریہ فنون لطیفہ کی تفسیر) فوت ہو جائے یا علامہ کو کسی قسم کی ذہنی تکلیف ہو۔
دوسرے دن راجہ حسن اختر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے موقع پا کر اپنی الجھن کا ذکر چھیڑا۔ راجہ صاحب نے بیساختہ کہا کہ چلیے علامہ کے ہاں چلتے ہیں۔ مجھے جرأت تو نہیں کہ ان کے سامنے بحث کا آغاز کر سکوں، لیکن اگر آپ کسی مسئلے پر بحث چھیڑ دیں گے اور علامہ کو اس سے دلچسپی پیدا ہو جائے گی تو کئی گرہیں خود بخود کھل جائیں گی۔ چنانچہ اسی شا میں اور راجہ صاحب علامہ کے در دولت پر حاضر ہوئے۔
ایک دو اور بزرگوار بھی بیٹھے تھے جن کو میں نہیں پہچانتا۔ حسن اتفاق سے ایک مقامی مشاعرے کا ذکر آ گیا جس میں پو ۔ پی کے ایک برخود غلط شاعر انقلاب نے بہت ہنگامہ بپا کیا تھا۔ اسی سلسلے میں اردو اور فارسی محاورات اور تضمینات کا ذکر چھڑ گیا۔ یاد نہیں کہ دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز کس نے کہا۔ میں نے یہ محاورہ سن کر غالب کا شعر پڑھا:
باید ز مے ہر آئینہ پرہیز گفتہ اند
آرے دروغ مصلحت آمیز گفتہ اند
علامہ مسکرائے اور ایک شعر پڑھا جو میں نے اچھی طرح نہیں سنا کیونکہ ان کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ کچھ لفظ کان میں پڑتے تھے، کچھ نہیں سنائی دیتے تھے۔ میرے چہرے کے انداز سے وہ بھانپ گئے کہ میں نے شعر نہیں سنا، اس لیے پھر ذرا بلند تر آواز سے پڑھا:
راستی فتنہ انگیز، اس سہی قد کا ہے قد
اور دہن اس کا دروغ مصلحت آمیز ہے
راجہ صاحب نے موقع دیکھ کر کہہ دیا کہ عابد صاحب ’’ اقبال اور فنون لطیفہ‘‘ پر ایک مقالہ پڑھ رہے ہیں۔ علامہ نے میری طرف تیز تیز متجسسانہ نظروں سے دیکھا۔ جن لوگوں کو ان نظروں کی دور بینی اور دور رسی محسوس کرنے کا اتفاق ہوا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان تیز تیز نظروں میں کیا بات پوشیدہ تھی۔ علامہ کی آنکھیں، گویا مخاطب کے تمام سرمایہ ذہنی کو ٹٹول کر، گویا اس کے تہہ قلب کے خفیہ ترین گوشوں میں پہنچ کر اس کے اعمال اور افعال کے محرکات شعوری اور غیر شعوری کا جائزہ لیتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں او راس طرح محسوس ہوتا تھا گویا علامہ مخاطب کو تول رہے ہیں۔ ان تاثرات کو بیان کرنے کے لیے پانچ چھ سطریں لکھنے کی ضرورت پڑی ہے، لیکن در حقیقت یہ سب کچھ ایک لمحہ میں ہو گیا۔ ایک آدھ منٹ چپ رہنے کے بعد علامہ نے فرمایا:’’ میرے کلام کو آرٹ1؎ (شاید اس کا مغربی تصور مراد تھا) سے کیا تعلق ہے؟ میری شاعری اسلامی تفکر اور فقہہ کی تفسیر اور تعبیر ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو واضح کر دوں کہ آپ کے خیال میں فنون لطیفہ کا نصب العین کیا ہے۔ فرمایا’’ ہاں اس اعتبار سے مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔‘‘
اس کے بعد کچھ عرصہ علامہ چپ رہے، شفیع صاحب آ گئے اور ان کے شانے دبانے لگے۔ میں نے جرأت کر کے پوچھا کہ آرٹ کے زوال پذیر ہونے کے جو محرکات ہوتے ہیں ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ علامہ نے لیٹے لیٹے جواب دیا کہ آرٹ کی زوال پذیری دراصل اقوام کی مجموعی زوال پذیری کے تابع ہوتی ہے۔جب تک خدا کو کسی قوم سے کچھ کام لینا مقصود ہوتا ہے اور اسے سرداری کے منصب پر فائز رکھنا منظور ہوتا ہے، اس وقت تک آرٹ زندہ اور جاندار رہتا ہے، بلکہ سب سے پہلے کسی قوم کی زوال پذیری کی علامت آرٹ کی زوال پذیری کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ علامہ یہ کہہ کر چپ ہوئے تو نیازی صاحب نے پوچھا کہ ان حالات میں کیا شاعری سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے؟ فرمایا ضروری نہیں، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے جب کوئی قوم زوال پر آمادہ ہو جاتی ہے تو ٹھوس چیزوں سے، مغز سے، معنی سے، بیگانہ ہو جاتی ہے۔ چھلکے سے، شکل سے، دل بستگی بڑھ جاتی ہے۔ یہی آرٹ کی زوال پذیری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اردو شاعری2؎ میں شاید ناسخ اور اس کے سکول کا کلام آپ کے ارشاد کی بہترین تفسیر ہے۔ فرمایا میں نے ناسخ اور اس کے سکول کا کلام بہت کم پڑھا ہے، میرا اردو ادبیات کا مطالعہ بہت محدود ہے، البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اردو کی تاریخ میں دکنی ادبیات کا حصہ نسبتاً بہت جاندار نظر آتا ہے۔ نیازی صاحب نے فرمایا کہ شاید اس کی وجہ یہ ہو گی کہ دکنی ادبیات کو مذہب سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ فرمایا:’’ ہاں، یا یوں کہو کہ زندگی سے دکنی ادبیات کا تعلق اصلی اور اساسی ہے۔‘‘ میں نے کہا:’’ کچھ دن ہوئے ہیں رسالہ اردو میں ایک مقالہ نگار نے میر حسن اور ایک پرانے دکنی ادیب کی مثنویوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی تھی کہ دکنی شاعر کا کلام زیادہ جاندار اور پر جوش ہے۔‘‘ علامہ نے فرمایا:’’ مقالہ نگار کا خیال ٹھیک ہو گا۔ حسن کے وقت تک اردو شاعروں میں کافی ژولیدہ بیانی پیدا ہو چکی تھی۔ یا تو کچھ کہنا ہی نہیں چاہتے تھے، یا کہنا چاہتے تھے تو کہہ نہیں سکتے تھے، بلکہ جو بزرگوار کچھ کہنا چاہتے تھے ان کے کلام میں بھی ایک خاص قسم کی ژولیدہ گفتاری ہے جو ذہنی ژولیدگی اور پریشان فکری کی خبر دیتی ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ اس قسم کی ژولیدہ گفتاری کا معیاری نمونہ غالب کا ابتدائی کلام سمجھا جائے گا۔ کسی نے غالب کے ’’ نسخہ حمیدیہ ‘‘ والے دیوان کا ایک شعر پڑھا۔ شعر یاد نہیں، غالباً ژنگ آخر اور پلنگ آخر، ان قافیوں میں تھا۔ علامہ کچھ عرصہ چپ رہے، پھر فرمایا:’’ کسی حد تک، لیکن غالب سے کہیں زیادہ مومن3؎ ژولیدہ گفتار ہے۔‘‘ میں خود اگرچہ مومن کے مداحوں میں سے نہیں ہوں اور اس کے اسلوب فکر اور انداز تغزل کو ایک کارنامہ نہیں سمجھتا، لیکن کچھ نقادوں نے غالب کے مقابلے میں مومن کو اچھالا تھا۔ اس سلسلے کے تمام واقعات مجھے یا دآ گئے اور معاً خیال آیا کہ زوال پذیر قوموں کے نقاد بھی کس قدر ژولیدہ فکر ہو جاتے ہیں کہ پریشان گفتاری کو ندرت اسلوب اور ژولیدہ بیانی کو جدت ادا کا لقب دے کر معایب کو محاسن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ادھر ادھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ بلہے شاہ کی کافیوں کا ذکر آیا۔ کچھ وقت تک پنجابی شاعری اور تصوف کا ذکر چلتا رہا، لیکن میرے دل کو چیٹک سی لگ گئی تھی کہ موقع ملے تو علامہ سے کچھ اور پوچھوں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسلام کی زوال پذیری کے سلسلے میں ایرانی تحریکات مذہبی کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے عرض کیا کہ شاید اسلام کی زوال پذیری میں ان تحریکات نے کافی حصہ لیا ہے جنہیں مجوسی کہا جاتا ہے اور جن کو دراصل شبعمیت سے کوئی تعلق نہیں۔ فرمایا:’’ ہاں، اگر اسلامی علوم و فنون اور اسلامی روایات کا چشمہ بہت کم گدلا ہوا ہے تو ترکان عثمانی کے ہاں ہے 4؎۔ ورنہ اسلام کا چشمہ جس زمین سے گزرا ہے اس کو گدلا کر دیا گیا ہے۔ اس کا رخ پھیر دیا گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد کچھ عرصہ علامہ چپ رہے۔ ایک صاحب نے کسی نئی تصنیف کا ذکر چھیڑا جس میں آرٹ کے فلسفے سے بحث کی گئی تھی۔ علامہ نے فرمایا:’’ ایک جرمن مصنف کہتا ہے کہ فلسفے کے نظام دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ٹھوس وزنی، ان میں مغز زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے ذرا ہلکے۔ جب قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ہر ٹھوس چیز سے بیگانہ ہو جاتی ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’آرٹ بھی ٹھوس اور ہلکا ہو سکتا ہے؟‘‘ فرمایا’’ ہو سکتا ہے زوال پذیر اقوام میں آرٹ کا رس نچوڑ کر نہیں پیا جاتا، بلکہ پھل کی شکل بنا دی جاتی ہے اور اس کے رنگ کو دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
میں نے عرض کیا کہ آرٹ کی عظمت کا انحصار کس چیز پر ہے، شکل پر یا مغز پر؟ علامہ نے ارشاد فرمایا کہ یوں تو شکل بھی مغز ہی کا ایک پہلو ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آرٹ کی عظمت کا معیار مغز کی صحت مندی اور توانائی پر ہوتا ہے۔ 5؎ یہ کہہ کر علامہ چپ ہوئے تو ان کے ایک پرانے دوست تشریف لے آئے۔ انہوں نے مجھے آنکھ کے اشارے سے بولنے سے منع کیا۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد میں نے اور راجہ صاحب نے اجازت چاہی۔ اجازت چاہی میں رسماً لکھ گیا ہوں، ورنہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں علامہ پر یہ شعر صادق آتا تھا:
ہر کہ خواہد گو بیا و ہر کہ خواہد گو برو
گیر و دار و حاجب و درباں در ایں درگاہ نیست
سید عابد علی عابد
ایم اے، ایل ایل بی

٭٭٭