اقبال کے ہاں
خضر تمیمی، ایم اے، ایل ایل بی
حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ذات گرامی کے متعلق ایک ہیچ مدان کا کچھ کہنا، چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ لیکن ایک صحبت کی یاد میرے دل سے محو نہ ہو گی۔
1936ء قادیانیت کی شدید مخالفت کا زمانہ تھا۔ ایک طرف تو مجلس احرار اور دوسرے علمائے اسلام اپنی تحریروں اور تقریروں سے ’’ قصر خلافت قادیان کی بنیادیں متزلزل‘‘ کر رہے تھے اور دوسری طرف مرزائی صاحبان اپنی طویل اور قاطع دلیلوں سے’’ سعید روحوں‘‘ کو راہ راست پر لا رہے تھے۔ ان ایام میں حضرت ممدوح علیل تھے۔ لیکن طرفین کی وزنی دلیلیں، سیدھے سادے نوجوانوں کو سوچنے کا موقعہ ہی نہیں دے رہی تھیں۔ اس لیے کئی ایک تشنگان ہدایت، رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ نوجوان بڑی بیتابی کے ساتھ آپ کے ارشادات عالیہ کے منتظر ہیں، آپ نے اپنا شہرۂ آفاق مضمون ’’ اسلام اور قادیانیت‘‘ شائع فرمایا، جس سے کئی ایک گتھیاں سلجھ گئیں اور وہ دلائل جو سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر، سادہ دل نوجوانوں کو گمراہ کر سکتی تھیں، تار عنکبوت کی طرح کمزور نظر آنے لگیں اور نوجوانوں کی متوقع بیراہ روی کا مکمل سد باب ہو گیا۔
پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کو اس مضمون کے بعض حصے سمجھ میں نہ آئے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں اسلامی تعلیمات اور ماحول سے واقفیت نہ تھی، چنانچہ انہوں نے ’’ ماڈرن ریویو‘‘ (کلکتہ میں مذکورہ مضمون پر تنقید لکھی جس کا جواب حضرت علامہ رحمتہ اللہ علیہ نے ’’ اسلام اور احمدیت‘‘ کے عنوان سے تحریر فرمایا۔ اس کی اشاعت سے دلوں کے رہے سہے شکوک بھی رفع ہو گئے۔
قصہ کوتاہ ہر طرف قادیانیت کے موافق یا مخالف تذکرے شروع تھے جن سے مساجد اور عام جلسہ گاہوں کے علاوہ مکلف کوٹھیوں کے خلوت کدے بھی خالی نہ تھے۔ ان ایام میں یہی معلوم ہوتا تھا کہ دنیا میں صرف دو ہی فریق رہ گئے ہیں: ایک وہ جو قادیانیت کا مخالف ہے اور دوسرا وہ جو اس کے موافق۔ میں نے اس سال پنجاب یونیورسٹی کے ایم اے (فارسی) کا امتحان دیا۔ حضرت ممدوح ہمارے ایک پرچے کے ممتحن اعلیٰ تھے اور اس میں ممدوح نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خلافت الٰہیہ اور مجدد کے نظریے کے متعلق ایک سوال پوچھا تھا جس میں ضمنی طور پر قادیانیت بھی زیر بحث آ جاتی تھی۔
اپنے دوست، صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم کے ساتھ ’’ جاوید منزل‘‘ میں مجھے حضرت ممدوح کی زیارت نصیب ہوئی۔ ہمارے جانے سے پیشتر قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح، کسب فیض کے بعد موٹر میں سوار کوٹھی سے نکل رہے تھے۔آپ نے دروازے تک ان کی مشائعت کی اور پھر ہماری طرف توجہ فرمائی۔ صوفی صاحب کو دیکھ کر تو آپ بس نہال ہی ہو گئے۔
ڈیوڑھی میں ایک کھری چارپائی بچھی تھی جس کے سرہانے چھوٹا سا تکیہ دھرا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پائنتی کی طرف کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس پر ایک کتاب کھلی ہوئی پڑی تھی، جس کے ایک خاص مقام پر پنسل دھری تھی۔ ایک کابی شاید مختصر یاد داشتوں کے لیے پاس تھی۔ حضرت ممدوح صرف سادہ سے کرتے اور شلوار میں ملبوس تھے۔ آخر الذکر پنجاب کی پانچ گزی شلوار اور پائجامے کے بین بین تھی۔ اللہ اللہ مشرق و مغرب کے جملہ علوم کا ماہر خرابی صحت اور زیادتی عمر کے باوجود اب بھی اس شان سے ہمہ تن مطالعہ تھا!
حضرت علامہ اور ہم’’ جاوید منزل‘‘ کے گول کمرے میں گئے جس کی مشرقی فضا سے ہم بہت متاثر ہوئے۔ سب سے پہلے ایک قلفی دار، سادہ،فرشی حقہ لایا گیا جس میں نرم تمباکو بھرا تھا۔ میں نے کڑوے تمباکو کا ذکر چھیڑا تو آپ نے جھنگ کے تمباکو کو سراہا، لیکن گلے کی تکلیف کے باعث اس سے لطف اندو زہونے سے معذوری ظاہر فرمائی۔ ہم میں سے ممدوح کے ساتھ حقہ پینے کا شرف صرف صوفی صاحب قبلہ کو حاصل ہوا۔
ادبیات پر گفتگو شروع ہونے پر مشرق و مغرب کے ادبیات زیر بحث آ گئے جس میں حضرت علامہ سمندر کی سی وسعت کے مالک معلوم ہوتے تھے اور ان کے تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ جس موضوع پر گفتگو فرماتے تھے یہی معلوم ہوتا تھا گویا ساری عمر آپ نے اسی کے مطالعہ میں صرف فرمائی ہے۔ ضمناً پنجاب کی ادبی روایات پر بھی بات چیت ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ آئندہ ان کے برقرار رکھے جانے کی امیدیں دو نوجوانوں سے وابستہ نظر آتی ہیں۔ ایک (مخدومی پرنسپل) تاثیر ( پی ایچ ڈی کینٹب ایم اے او کالج امرتسر) اور دوسرے (محترمی) محمد اسد خان صاحب اسد ملتانی بی اے۔
علی بخش چائے لایا اور آپ نے میٹھی چائے پر نمکین کو ترجیح دی۔ چائے کے ساتھ ساتھ ماہبیات کا دور شروع ہوا۔ میں نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کی ان تصریحات کے متعلق استصواب کیا۔
آن ز ایراں بود و ایں ہندی نژاد
آپ نے جواب میں قادیانیت اور اس کے بانی کی مختلف تحریروں اور دعاوی کے پیش نظر ظاہر فرمایا کہ ثانی الذکر کی شخصیت نفسیاتی مطالعہ کے لیے بہت موزوں ہے۔ صوفی صاحب بولے کہ آپ سے بڑھ کر موصوف کا تجزیہ نفسی کون کر سکے گا۔ ارشاد ہوا کہ موضوع واقعی بہت دلچسپ ہے، لیکن صحت کی خرابی مانع ہے، کوئی نوجوان اس کام کے لیے اٹھے تو اس کی ہر ممکن امداد اور رہبری کروں گا۔ اس کے بعد آپ نے ان نقصانات کو گنایا جو قادیانیت کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں مذاہب عالم کو برداشت کرنے پڑے۔ پھر مختلف مذاہب سے اسلام کے امتیازات کو بشرح تمام واضح کر کے ارشاد فرمایا کہ اسلام نہ صرف دنیا کے مذاہب میں سے کامل ترین 1؎ مذہب ہے، بلکہ اس سلسلے میں جو ارتقائی بلندیاں انسان کو ودیعت کی گئی ہیں ان کی بھی آخری کڑی ہے۔ آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ قادیانیت کی تعلیم اسلام کی تیرہ سو سال کی علمی اور مذہبی ترقی کے کس طرح منافی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر آپ نے ظاہر فرمایا کہ قادیانیت کے ارکان اعلیٰ اسلاف صالحین کی تحریروں کو محرف کر دیتے ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انہیں ایک خاص موضوع پر کی مسلمہ کتب کا علم تک بھی نہیں ہوتا۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے، ایل ایل بی امیر جماعت احمدیہ لاہور کا ذکر بھی درمیان میں آتا رہا۔ آخر کار میں نے عرض کیا کہ فریقین کی آراء کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ الیوما کملت لکم دینکم کی صریح نص قرآنی کے بعد اجرائے نبوت کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی2؎ میں نے عرض کیا کہ آخر اسلام میں اور فرقے بھی تو ہیں، صرف قادیانی صاحبان کی مخالفت ہی کیوں کی جائے؟ اس پر ارشاد ہوا کہ ان کا اختلاف بنیادی نہیں3؎ بلکہ فروعی ہے اور حقیقت میں یہ اسلامی فرقے مختلف گروہ ہائے خیال(Schools of thoughts) ہیں جن کے اختلافات فقہ پر مبنی ہیں۔ ہر ایک فرقہ اسلام کے مسلمان پر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن قانون اسلامی کے بعض حصوں کی تشریح میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہے۔ فقیہوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’ تعجب ہوتا ہے کہ یہ اصحاب ’’ خشک‘‘ ہونے کے باوجود حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں کس قدر حساس واقع ہوئے ہیں۔ ایک صاحب اٹھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلاں کام اس طرح کیا۔ اس دعویٰ کی تائید میں وہ ہر ممکن ثبوت (قرآن حدیث یا دیگر مآخذ سے) بہم پہنچاتے ہیں۔ دوسرے صاحب اس کی تردید میں فرماتے ہیں کہ نہیں یہ کام حضورؐ نے یوں سر انجام دیا۔ وہ اپنے دلائل الگ پیش کرتے ہیں جس سے مستفسر کو حضورؐ کی مبارک زندگی کے ایک خاص پہلو کے متعلق موثق معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ امر ہے کہ جہاں کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر آیا ان ’’ جذبات سے عاری متنفین‘‘ کے دلوں میں محبت کے سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگ گئے۔ ان حضرات کی زندگی کا محبوب سرمایہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسوۂ حسنہ ہے جس کے ہر پہلو کو اس قدر حزم و احتیاط سے محفوظ و ملحوظ رکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ (یہاں آپ نے Grealously Guard کرتے ہیں کا فقرہ ارشاد فرمایا تھا) اب تم خود اندازہ کر لو کہ ایسی محبوب و مفتجر ہستی کے جملہ اعزازات کے لیے کسی اور صاحب کو چن لینا، اسلامی علوم کی فلک رفعت عمارت کے انہدام سے مترادف نہ ہو گا؟‘‘ بانی مرزائیت کے کوائف زندگی اور انہی حالات میں حضورؐ کے مبارک افعال کے تفاوت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ آبدیدہ ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بہت ہوئے آنسوؤں سے ہم شکوک کے داغوں کو دھوتے اور دلوں کو روشن کرتے، صوفی صاحب کے دولت کدے پر لوٹ آئے۔ سچ ہے:
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
خضر تمیمی، ایم اے، ایل ایل بی