خودی کی تکمیل کے مرحلے، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی کی تکمیل کے مرحلے
چونکہ ارتقاء کا مقصد فقط انسان کی تکمیل ہے اور انسان کی اصل ایک خودی ہے جو ایک مکمل جسم حیوانی میں مقیم ہوئی ہے اور یہ مکمل جسم حیوانی ایک مکمل مادہ سے بنا ہے ضروری تھا کہ کائناتی خودی کی تخلیقی فعلیت کی تین منزلیں قرار پاتیں۔ جن میں سے پہلی منزل تکمیل مادہ دوسری منزل تکمیل جسم حیوانی اور تیسری منزل تکمیل خودی ہوتی۔ ضروری تھا کہ پہلے اس کیچڑ یا مٹی کی تکمیل کی جاتی جس سے انسان کا جسم بنا ہے۔ مادی ارتقاء کے کروڑوں برس اس مٹی کی تکمیل میں صرف ہوئے اس مرحلہ ارتقاء میں جوئے حیات کی تیز روان دیرپا اور کار آمد مادی ذرات یا جواہر کی تعمیر کی سمت میں بہتی رہی جو انسانی جسم کی ساخت اور نشوونما اور اس کے قیام اور ارتقا کے ساز و سامان کی تیاری کے لئے ضروری تھے۔ ان جواہر کی تعمیر کے دوران میں اور قسم کے بھاری اور پیچیدہ جواہر بھی وجود میں آتے رہے لیکن چونکہ وہ ارتقا کے مقاصد سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا وہ دیرپا نہ تھے اور ماضی میں ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوتے رہے اور آج تک فنا ہو رہے ہیں۔ کیچڑ یا مٹی کے مکمل ہونے کے بعد جب اس سے جسم انسانی کی ابتدائی حالت وجود میں لائی گئی تو ضروری تھا کہ اس کی اور تکمیل کی جاتی یہاں تک کہ وہ اس قابل ہو جاتاکہ اس کے اندر انسان کا جوہر جسے آزاد اور خود مختاری کہا جاتا ہے نمودار ہو جاتا۔ لہٰذا حیاتیاتی ارتقا کے کروڑوں سال انسان کے جسم کی تکمیل میں صروف ہوئے اس مرحلہ ارتقا میں جوئے حیات کی تیز رو انسان کے جسم کی ان ترقی پذیر شکلوں کی تعمیر کی سمت بہتی رہی جو متواتر کامل سے کامل تر بنتی رہیں۔ یہاں تک کہ بالآخر انسان کے مکمل جسم پر ختم ہوئیں اس مرحلہ میں اور قسم کی حیوانی شکلیں بھی انواع حیوانات کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی رہیں لیکن چونکہ وہ ارتقا کے مقاصد کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی تھیں لہٰذا وہ اس قابل نہ تھیں کہ زندہ رہ سکتیں۔ وہ ماضی میں فنا ہوتی رہیں اور ان کے فنا ہونے کا عمل اب تک جاری ہے۔ جسم انسانی کی تکمیل کے بعد جب اس میں خودی کا جوہر نمودار ہوا تو ضروری تھا کہ اس جوہر کی تکمیل کر کے اسے مکمل کر دیا جاتا تاکہ تخلیق اور ارتقا کا مقصد پورا ہو۔ لہٰذا نظریاتی ارتقا کے لاکھوں برس آج تک تکمیل خودی پر صرف ہو چکے ہیں اور معلوم نہیں کہ اور کتنی مدت اس پر صرف ہو گی۔ اس نظریاتی ارتقاء کے دوران ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف قسم کی نظریاتی اشکال نظریاتی جماعتوں کی صورت میں پیدا ہو رہی ہیں۔ جن میں سے اکثر ساتھ ساتھ مٹی جا رہی ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ ارتقاء کے آخری مقصد یعنی تکمیل انسان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں اس طرح سے اگرچہ ارتقا کے ان تینوں مرحلوں میں شاخ زندگی سے ہر آن پھول جھڑتے رہے ہیں۔ لیکن نئے پھول نکلتے بھی رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ شاخ متواتر اپنے کمال کی طرف نشوونما پاتی رہی ہے مجموعی طور پر زندگی کے حاصلات نہ کبھی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں او رنہ بے ثبات۔ علامہ اقبال کی زندگی کی ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے
اور اس شاخ سے پھوٹتے بھی رہے
سمجھتے ہیں نادان اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات
ایک پہاڑی ندی سے خودی کی مماثلت
ارتقاء کے مختلف مراحل میں سے زندگی (یعنی قول کن کی قوت) کی نہ رکنے والی مسلسل پیش قدمی کو اقبال ایسی تیز رو ندی سے تشبیہہ دیتا ہے جسے پہاڑوں کے درمیان بہتے ہوئے چٹانوں کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں اور وہ دائیں یا بائیں مڑ کر ان سے بچتی ہوئی اور یا پھر انہیں اپنے تیز اور تند بہاؤ کے پھاوڑے سے کاٹتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔
وہ جوئے کوہستان اچکتی ہوئی
اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب توسل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
دیکھ دیکھ اے ساقی لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
٭٭٭
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر ایک شے سے پیدارم زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمو
کہ شعلہ میں پوشیدہ ہے موج دود
گراں اگرچہ ہے محنت آب و گل
خوش آئی اسے صحبت آب و گل
اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ببول
اسی کے بیاباں اسی کے ہیں پھول
کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور
کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور
کہیں پر ہے شاہین سیماب رنگ
لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
٭٭٭
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی،
فقط ذوق پرواز ہے زندگی،
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے
تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے
ہوا جب اسے سامنا موت کا
کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا
اتر کر جہان مکافات میں
رہی زندگی موت کی گھات میں
مذاق دوئی سے بنی زوج زوج
اٹھی دشت و کہسار سے موج موج
٭٭٭
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
تجسس کی ہیں بدلتی ہوئی
دمادم نگاہیں بدلتی ہوئی
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
خودی جو روز ازل سے اس طرح اپنی پیدا کی ہوئی رکاوٹوں کے ساتھ کشمکش میں مصروف تھی اور مادی اور حیاتیاتی ارتقاء کے طویل اور دشوار گزار راستہ پر آہستہ آہستہ مگر پورے استقلال کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ آخر کار جسم انسانی میں نمودار ہوئی اور اب اس کے ذریعہ سے اپنی ترقی کی آئندہ منزلوں کو طے کر رہی ہے۔
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر

ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر