قول "کُن" کی ممکنات، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

قول کن کی ممکنات
تخلیق ایک آزادانہ فعل ہے تاہم اپنے مقاصد کا پابند ہے۔ تخلیق کا ارادہ ایک آزادانہ جمالیاتی وجدان (Aesthetic Judgement) کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن اس ارادہ کی ممکنات اس کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ ارادہ کی ممکنات کا پہلے سے موجود ہونا ارادہ کی آزادی میں فرق پیدا نہیں کرتا۔ خدا کے قول کن کے اندر خدا کی تمام صفات اور ربوبیت کی تمام قدرتیں اور قوتیں اور تخلیق کی تمام ممکنات جمع تھیں۔ اس لئے تمام تخلیق قول کن کی ممکنات کا ظہور ہے جو قول کن کے اندر مخفی قوتوں کے عمل سے ممکن ہوا ہے۔ تمام مادی قوانین یعنی مادی اشیاء کی تمام کیفیات اور خاصیات خدا کے قول کن کی ممکنات تھیں جو ظہور پذیر ہو گئی ہیں اگر ان قوانین کی تخلیق کے پیچھے خدا کا ارادہ تخلیق یا خدا کا جذبہ محبت یا خدا کی ربوبیت کی قوت کام نہ کرتی تو یہ کبھی وجود میں نہ آ سکتے یہی سبب ہے کہ ارتقاء کا عمل ایسا ہے جیسے کہ ایک بیج کا اپنی ممکنات کو ظہور پذیر کرنا اور اسی اظہار سے بالآخر ایک مکمل درخت بن جانا۔ مکمل درخت بیج کے اندر بالقوہ موجود ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ باہر آتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارتقا کے ہر مرحلہ پر خواہ وہ مادی ہو یا حیاتیاتی یا نفسیاتی زندگی کو جو قوتیں بھی کسی وقت حاصل ہو جاتی ہیں ان ہی قوتوں اور صلاحیتوں کے عمل سے نئی قوتیں اور صلاحیتیں جنم لیتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ نئی قوتیں اور صلاحیتیں پرانی قوتوں اور صلاحیتوں کے اندر بالقوہ موجود تھیں۔ مثلاً اگر برقی کائناتی شعاعوں کے اندر جذب اور دفع کے عمل کی وجہ سے حرکت نہ ہوتی تو ان سے الکتران اور پروتان کی برقی گھکڑیاں پیدا نہ ہو سکتیں اور اگر ان گھکڑیوں کے اندر باہمی کشش نہ ہوتی تو ان سے سالمات تیار نہ ہو سکتے اور اگر سالمات کے اندر باہمی کشش نہ ہوتی تو ان سے ایک بڑا بنولا تیار نہ ہوتا اور اس کے اندر محوری حرکت پیدا نہ ہو سکتی اور اس حرکت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بنولے نہ بنتے اور ہمارا نظام شمسی اور ہماری زمین وجود میں نہ آ سکتے۔ اسی طرح سے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں ہر حیوان اپنی قوتوں کے عمل سے اور قوتیں پیدا کرت اہے اور پھر ان نئی قوتوں کے عمل سے اور نئی قوتیں پیدا کرتا ہے یہاں تک کہ انسان ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ تاہم تخلیق کا عمل اپنے کسی مرحلہ میں بھی خداوندی قول کن کے حکم اور زور کے بغیر ایک قسم کے بعد دوسرا قدم نہیں اٹھا سکتا اور تخلیق کی کسی حالت کو بھی اگلی حالت میں نہیں بدل سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ تخلیق میکانکی اور مادی نہیں بلکہ ارادی اور روحانی ہے اور اپنے ہر قدم پر خدا کے حکم اور آزادانہ ارادہ تخلیق کا نتیجہ ہے جسے ہم سلسلہ اسلوب کہتے ہیں وہ در حقیقت قول کن کی ممکنات کا سلسلہ ہے اور خالق کے نصب العین کے ماتحت اور خالق کی آزادنہ تخلیق سے ظہور پذیر ہوتاہے۔
ارتقاء کیلئے حیوان کی جدوجہد
حیوان کی وہ قوتیں جن کو ہم جبلتوں کا نام دیتے ہیں جذب اور دفع کی صورت میں ہوتی ہیں اور ان قوتوں کا عمل حیوان کی جدوجہد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اس جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حیوان ان چیزوں کو قریب لائے اور حاصل کرے جو اس کی بقا اور نشوونما کے لئے ممد و معاون ہوں او ران چیزوں سے گریز کرے یا راستہ سے ہٹائے جو اس کی بقا اور نشوونما کے لئے مضر اور مخالف ہوں۔ حیوانی مرحلہ ارتقاء میں ایسا ہوتا رہا ہیکہ جب حیوانات اپنے ان مقاصد کے حصول کے لئے جو ان جبلتوں سے پیدا ہوتے تھے کوشش کرتے تھے تو ان کی جدوجہد خودی کائنات کے ارادہ کی قوت کا آلہ کار بن کر اسے زیادہ سے زیادہ کار فرما ہونے کا موقع دیتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ان حیوانات کے اندر ایسی نئی قوتیں اور جسمانی کفیتیں رونما ہو جاتی تھیں جو ان کے مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہوتی تھیں اور اس طرح سے ان کی جدوجہد زندگی کی مخفی صلاحیتوں کو کسی قدر اور آشکار کر دیتی تھی اور حیوانات کو ارتقاء کی آخری منزل یعنی مکمل جسم انسانی سے اس کی تمام معروف قوتوں اور صلاحیتوں کے سمیت قریب تر لے آتی تھی اسی جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ پرندوں نے پر پیدا کر لئے اور اڑنا یا چلنا یا چہچہانا سیکھ گئے اور ہم نے بھی آنکھ، کان، ہاتھ، دانت اور دماغ ایسے پیچیدہ اعضاء یا فکر، تخیل، یاد اور ہوش ایسے مفید قویٰ پیدا کر لئے دیکھنے کی خواہش نے جو جدوجہد ہم سے کرائی وہی ہماری آنکھ بن گئی اگر کبک میں شوخی رفتار کی تمنا نہ ہوتی تو اسے پاؤں میسر نہ آتے، بلبل گانے کی آرزو نہ کرتا تو منقار نہ پا سکتا۔ ہمارے تمام قویٰ ہماری خواہش اور خواہش کے مطابق جدوجہد کے نتیجہ کے طور پر ظہور پذیر ہوئے ہیں۔
چیست اصل دیدہ بیدار ما
بست صورت لذت دیدار ما
کبک پا از شوخنے رفتار یافت
بلبل از سعی نوا منقار یافت
زندگی مرکب چو درجنگاہ تاخت
بہر حفظ خویش ایں آلات ساخت
جذب اور دفع کے مظاہر کا سبب
چونکہ عمل ارتقاء کی قوت محرکہ وہی محبت ہے جو روز ازل سے خدا کے ارادہ تخلیق یا خدا کے قول کن میں مضمر تھی۔ لہٰذا اس قوت کا ایک پہلو محبت ہے اور دوسرا بیزاری۔ کیونکہ خدا کو ہر وہ چیز پسند ہے جو اس کے عمل تخلیق کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور ہر وہ چیز ناپسند ہے جو اس کے عمل تخلیق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن میں جا بجا اس کا ذکر ہے کہ کون سے انسانی اعمال خدا کو پسند نہیں اور کون سے پسند ہیں۔ خدا کے قول کن کی قوت کے یہ دونوں پہلو مادی مرحلہ ارتقاء میں مقناطیسی یا برقی جذب اور دفع کی قوتوں میں اور حیوانی مرحلہ ارتقاء میں میلان اور فرار کی جبلتوں میں نمودار ہوئے تھے اور اب انسانی مرحلہ ارتقاء میں نظریہ کی محبت اور ضد نظریہ کی نفرت کے جذبات کی صورت میں نمودار ہوئے ہیں۔ انسان ہر اس چیز سے محبت کرتا ہے اور اس کو قریب لانے یا اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے نصب العین کے لئے ممد و معاون ہو اور ہر اس چیز سے نفرت یا گریز کرتا ہے اور اس کو دور کرنے یا اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے نصب العین کی مخالف ہو۔ کوشش یا جدوجہد جس طرح سے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں حیاتیاتی ترقی کی کلید تھی۔ اسی طرح سے اب انسانی مرحلہ ارتقا میں نظریاتی یا نفسیاتی ترقی کی کلید ہے۔
مزاحمت کے خلاف خودی کی جدوجہد
انسان جب اپنے نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو وہ خدا کی عطا کی ہوئی قوت کا اظہار کرتا ہے لیکن یہ قوت فقط ایک ہے اور وہ خدا کے قول کن کی قوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے عمل سے خدا کے ارادہ یا قول کن کی قوت کو جو حرکت ارتقاء میں کار فرما ہے زیادہ سے زیادہ بروئے کار آنے کا موقعہ دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قول کن کی ان ممکنات کو جو اب اس کی تمنائے حسن یعنی خد اکی محبت کی صورت میں اس کی خودی کے اندر آ نکلی ہیں ظہور پذیر کرتا ہے وہ جس قدر زیادہ خدا کی جستجو کرتا ہے اسی قدر زیادہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کو بالفعل یا آشکار کرتا ہے اور اسی قدر زیادہ وہ ذات باری تعالیٰ کی صفات حسن کو جو قول کن کے اندر مضمر ہیں اپنے اندر ظہور پذیر کرتا ہے گویا وہ اپنی جدوجہد سے اگر خد اکی تلاش کرتاہے تو اپنے آپ کو پاتا ہے اور اگر اپنے آپ کو تلاش کرتا ہے تو خدا کو پاتا ہے۔
تلاش او کنی جز خود نہ بینی
تلاش خود کنی جزو او نہ یابی
خودی کی مزاحمت کا منبع
کوشش یا جدوجہد کا مطلب یہ ہے کہ خودی یا زندگی ہر قدم پر مزاحمت سے دو چار ہوتی ہے جسے مٹانے کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ مزاحمت خود زندگی کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ماضی سے متشکل ہوتی ہے۔ زندگی کا ایک وصف یہ ہے کہ جب وہ ترقی کر کے ایک حالت کو پا لیتی ہے تو اس حالت کا ایک پہلو جہاں اگلی حالت کے نمودار کرنے کے لئے ممد و معاون ہوتا ہے وہاں اس کا دوسرا پہلو اس کے نمودار ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی یا زندگی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف نت نئی ترقیاں حاصل کرنا چاہتی ہے بلکہ اس غرض کے لئے ان ترقیوں کا بھی محفوظ کرنا چاہتی ہے جنہیں وہ ایک دفعہ حاصل کر لیتی ہے۔ اگر وہ ماضی کی ترقیوں کو محفوظ نہ کرے تو مستقبل کی ترقیوں کو حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ زندگی کا مستقبل اس کے ماضی کے بنیادوں پر تعمیر پاتا ہے۔ زندگی اپنی تخلیقی قوت کے عمل سے نئی نئی خاصیتیں اور کیفیتیں نمودار کرتی ہے۔ لیکن جونہی کہ زندگی ایک کامیابی حاصل کر لیتی ہے وہ کامیابی مستقل اور خود کار اور غیر مبدل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے زندگی اس کی طرف بے پرواہ ہو کر اگلی کامیابیوں کی طرف توجہ کرتی ہے لیکن جب وہ ایسا کرنے لگتی ہے تو جو کامیابیاں وہ حاصل کر چکی ہوتی ہے وہی زندگی کو پست تر سطح سے متعلق ہونے کے باعث اس کی اگلی منزل کے راستہ کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
حیوانی مرحلہ ارتقا میں خودی کی مزاحمت
مثلاً مادی مرحلہ ارتقاء میں زندگی کی کامیابیاں مادی قوانین کی صورت میں نمودار ہوتی تھیں۔ یہ قوانین مستقل اور خود کار اور غیر مبدل ہیں اس لئے نہیں کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی تھے بلکہ اس لئے کہ اب ان کو بدلنے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ ماضی میں عرصہ دراز تک بدل بدل کر اغراض ارتقاء کے لئے بہتر اور بلند تر ہوتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے ایک ایسی شکل اختیار کر لی جو حیونای زندگی کے نمودار ہونے کے لئے موزوں تھی تو وہ مستقل اور غیر مبدل بن گئے۔ اورتغیر ان سے اوپر کی سطح زندگی پر نمودار ہو گیا۔ حیوانی مرحلہ ارتقاء میں زندگی کو ان ہی مادی قوانین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو اس نے خود ایک مقصد کے ماتحت ظہور پذیر کئے تھے۔ حیوانات مجبور تھے کہ ان قوانین کے خلاف جدوجہد کر کے اپنے آپ کو ان کے مخالفانہ عمل کی زد سے محفوظ کریں اور ان کی مزاحمت کے باوجود اپنے لئے خوراک مہیا کریں تاکہ اس طرہ سے اپنی اور اپنی نسل کی زندگی کو برقرار رکھ سکیں۔ ان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ حیوانات کی جبلتیں مختلف سمتوں میں جو زندگی کی فطرت یا نصب العین کے مطابق یا دوسرے لفظوں میں قول کن کی ممکنات کے مطابق تھیں ارتقاء کرتی رہیں اور اس عمل کے دوران میں بے شمار انواع حیوانات وجود میں آئیں۔ مادی قوانین کی مزاحمت پر فتح پانے کے لئے زندگی نے جو جدوجہد کی اس نے ممکن بنایا کہ زندگی جبلتوں کی صورت میں نئی کامیابیاں حاصل کر سکے یہ جبلتیں مادی قوانین ہی کی طرح ساتھ ساتھ مستقل اور غیر مبدل او خود کار ہوتی گئیں۔ اس طرح سے حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء کے ہر قدم پر زندگی کا ماضی جو اس کی مزاحمت کا موجب بنا۔ مادی قوانین کے علاوہ ان جبلتوں پر بھی مشتمل تھا جو مختلف انواع حیوانات کے اندر وجود میں آ کر مستقل اور غیر مبدل اور خود کار ہو گئی تھیں۔ گویا ہر حیوان اپنی جدوجہد میں نہ صرف مادی قوانین کی مزاحمت کا بلکہ اپنے اور دوسرے انواع حیوانات کے غیر مبدل جبلتی مقاصد کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنے پر مجبور تھا۔ اس طرح سے وہ انواع حیوانات کی ایک باہمی عالمگیر اور مسلسل جنگ میں شریک تھا۔ ہر نوع حیوانات کی جدوجہد ایک ایسے کردار کے مطابق سر زد ہوتی تھی جو اس کی جبلتوں کے مقاصد سے معین ہوتا تھا۔
نظریاتی مرحلہ ارتقا میں خودی کی مزاحمت
نظریاتی یا نفسیاتی مرحلہ ارتقاء میں جو اب جاری ہے زندگی نہ صرف مادی قوانین کی مزاحمت کا بلکہ جبلتوں کی مزاحمت کا بھی سامنا کر رہی ہے حالانکہ جبلتیں مادی قوانین کی طرح زندگی نے اپنی حفاظت بقا اور ترقی کے لئے پیدا کی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی افراد نہ تو مادی قوانین مثلاً موسمی حالات اور کشش ثقل وغیرہ کی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے بغیر اپنی جبلتی اور حیاتیاتی ضروریات کی تکمیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی جبلتی لذتوں کے حد سے بڑھے ہوئے مطالبات کا مقابلہ کرنے کے بغیر اپنی آرزوئے حسن کی (جو ان کی تمام فطری خواہشات میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے) تشفی کر سکتے ہیں ان کی اس جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے نظریات جس حد تک کہ وہ قول کن کی ممکنات اور زندگی کی مخفی تمناؤں کے مطابق ہیں۔ مختلف سمتوں میں ارتقا کر رہے ہیں اور اس عمل کے دوران میں بے شمار نظریاتی جماعتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ نظریاتی ارتقاء کے ہر بین مرحلہ پر زندگی کے ماضی میں نہ صرف مادی قوانین اور حیوانی جبلتیں شامل ہیں۔ بلکہ نظریاتی جماعتوں کے وہ نظریات بھی شامل ہیں جو اس مرحلہ سے پہلے وجود میں آ چکے تھے۔ لہٰذا اس مرحلہ ارتقاء پر ہر نظریاتی جماعت نہ صرف مادی قوانین اور جبلتوں کی مزاحمت کا سامنا کرتی ہے بلکہ اپنی تمام ہم عصر نظریاتی جماعتوں کے گوناگوں مقاصد کی مزاحمت کا بھی سامنا کرتی ہے۔ ہر نظریاتی جماعت کی جدوجہد ایک ایسے کردار کے مطابق سرزد ہوتی ہے جو اس کے نظریہ کے مقاصد سے متعین ہوتا ہے۔ یہ مقاصد ہر نظریاتی جماعت کے نصب العین حیات میں بالقوہ موجود ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کی زندگی میں آشکار ہوتے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ کردار مستقل اور غیر مبدل اور خود کار بن جاتا ہے اور اسی کو ہم نظریاتی جماعت کے قانون یا رسم و رواج کا نام دیتے ہیں۔ اس موقعہ پر اگر نظریاتی جماعت کے بعض افراد کسی اور نظریہ حیات کی محبت میں گرفتار ہو جائے تو ان کو اس قانون یا رسم و رواج کی قوت کے خلاف جدوجہد کرنا پڑتی ہے تاکہ اس کی مزاحمت کا خاتمہ کر دیں اگر وہ اس جدوجہد میں کامیاب ہو جائیں تو اس واقعہ کو ایک بابرکت انقلاب کا نام دی اجاتا ہے اور اگر کامیاب نہ ہوں تو اسے ایک خطرناک بغاوت کہا جاتا ہے جسے بر وقت دبا دیا گیا ہو۔
رکاوٹ خودی کی کوشش کو زور دار بناتی ہے
زندگی اپنے ماضی کی طرف سے جس مزاحمت کا سامنا کرتی ہے وہ اس کی ترقی یا منزل مقصود کی طرف ا سکی رفتار کو کم نہیں کرتی۔ اس کے برعکس چونکہ یہ مزاحمت اس کی کوششوں کو تیز تر کر دیتی ہے وہ اس کی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرتی ہے۔ جس طرح سے ایک جوئے کہستان کو جب پہاڑوں کے ایک تنگ درہ میں سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ بڑے زور سے بہنے لگتی ہے یہاں تک کہ ان چٹانوں کو جو اس کے راستہ کو دشوار بنا رہی ہوتی ہیں کاٹ کر بہار دیتی ہے۔ اس طرح سے جب زندگی کی رو کسی مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد اسے فنا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہو تو اس کی قوت اپنی انتہا پر ہوتی ہے زندگی کسی تھوڑی سی مزاحمت کو بھی خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہو برداشت نہیں کرتی اور اس سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔اس کے برعکس جب بھی اسے کوئی مزاحمت در پیش آتی ہے۔ خواہ وہ ایک پہاڑ کے برابر ہو تو وہ اپنی ساری قوت کو جمع کر کے اسے نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کوشش میں کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ خواہ مزاحمت کیسی ہی شدید کیوں نہ ہو۔ زندگی اسے فنا کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
رکے جب توسل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
قرآن حکیم نے اس حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے
واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون
(اور خدا اپنے مقصد پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں)
اگر زندگی کو ایک راہ سے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے کا موقعہ نہ ملے تو یہ کسی رکاوٹ کا سامنا کرنے والی ندی ہی کی طرح اپنی منزل کی طرف ایک اور کامیاب راستہ نکال لیتی ہے۔ اس کی جدوجہد کا نتیجہ آخر کار یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف مزاحمت ہو جاتی ہے بلکہ اپنے آئندہ جدوجہد کو جاری رکھنے کے لئے وہ خود بھی نئی صلاحیتوں اور قوتوں سے آراستہ ہو جاتی ہے جن کی وجہ سے وہ ارتقاء کی بلند تر سطحوں پر قدم رکھتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی مزاحمت کے خلاف جدوجہد کر کے اس پر غالب آنا زندگی کی فطرت کا ایک تقاضا ہے جسے زندگی مطمئن کرنا چاہتی ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ اپنے اندر سے خود اپنی مزاحمت پیدا کرتی ہے اقبال بڑی وضاحت کے ساتھ خودی کی اس خصوصیت کا ذکر کرتا ہے۔
در جہاں تخم خصومت کاشت است
خویشتن را غیر خود پیداشت است
ساز و از خود پیکر اغیار را
تا فزاید لذت پیکار را
اوپر کے حقائق کی روشنی میں یہ بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے کہ کیوں اقبال اپنی نظم میں جس کا عنوان ’’ ارتقائ‘‘ ہے ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح سے مشکل پسندی مشکل کشی اور جفاطلبی زندگی کی خصوصیات ہیں کس طرح سے زندگی اپنے راستہ کی رکاوٹوں کو للکارتی ہے اور پھر نہایت دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے ان کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔ کس طرح سے جدوجہد ہی وہ عمل ہے جس کی مدد سے زندگی ارتقاء کے مادی حیاتیاتی اور نظریاتی مرحلوں میں آگے بڑھتی ہے۔ کس طرح سے قوموں کی زندگی اور ترقی کا راز ان کی جدوجہد میں مضمر ہے اور کس طرح بے چینی اور اضطراب کے اس عالم میں مسلمان قوم کی موجودہ جدوجہد کا راز بھی یہی ہے کہ وہ زندہ رہنا اور ترقی کرنا چاہتی ہے۔
حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرشت اس کی ہے مشکل کشی جفا طلبی
سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہی
ہزار مرحلہ ہائے فغان نیم شبی
کشاکش زم و گرما تپ و تراش و خراش
ز خاک تیرہ دروں تابہ شیشہ حلبی
مقام بست و کشاد و فشار و سوز و کشید
میان قطرہ نیساں و آتش غبی
اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام

یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی