ایمان کامل کا نشان
جو مومن زمان و مکان کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوا وہ بھی ماسویٰ اللہ کے طلسم میں گرفتار ہے اور پوری طرح سے موحد نہیں بن سکا۔
کسے از دو جہان خویش رو بردن نہ شتافت
فریب خوردہ ایں نقش باطل است ہنوز
جاوید نامہ میں جب شاعر رومی سے پوچھتاہے کہ معراج انسانی کیا ہے تو رومی جواب دیتا ہے کہ وہ خدا کے روبرو ہو کر انسان اک اپنا امتحان کرنا ہے کہ آیا وہ خدا کے سامنے ٹھہر سکتا ہے یا نہیں اور اس کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں یا نہیں اگر وہ ٹھہر سکے اور اس کے حواس مخنل نہ ہوں تو وہ پختہ اور قوی اور کامل عیار ہے ورنہ مجذوب ہو کر بے کار ثابت ہو جائے گا۔ اپنی روشنی کو بڑھانا اچھا ہے لیکن سورج کے سامنے لا کر اسے آزمانا چاہئے کہ وہ اتنی کم تو نہیں کہ ماند پڑ جائے۔
طیست معراج آرزوئے شاہدے
امتحانے روبروئے شاہدے
تاب خود را برفرودن خوشتر است
پیش خورشید آزمودن خوشتر است
پھر شاعر رومی سے پوچھتا ہے کہ خدا کے سامنے آنا ہم خاک و آب سے بنے ہوئے انسانوں کے لئے کس طرح ممکن ہے۔ خدا امرا ور خلق (یعنی زمان و مکان کی کائنات) کا مالک امر اور خلق سے باہر ہے اور ہم زمان و مکان کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ رومی جواب دیتا ہے کہ ’’ سلطان تمہارے ہاتھ آ جائے تو تم زمان و مکان کی اس تعمیر کو جو زمین و آسمان کی صورت میں نظر آتی ہے۔ توڑ سکتے ہو۔ جو شخص نکتہ سلطان سے استفادہ کر کے زمان و مکان کے طلسم کو نہیں توڑتا وہ جہالت کی موت مرتا ہے اور مر کر مورو ملخ کی طرح مٹی میں مل جاتا ہے۔ تم اس زمان و مکان کی دنیا میں ایک ولادت سے پہنچے تھے۔ اب ایک اور ولادت سے ہی اس سے باہر جا سکتے ہو اور ا س کی بندشوں سے آزاد ہو سکتے ہو۔‘‘
باز گفتم پیش حق رفتن چساں
کوہ خاک و آب را گفتن چساں
آمر و خالق برون از امر و خلق
مازشت روزگاراں خستہ خلق
گفت اگر سلطان ترا آید بدست
مے تواں افلاک را از ہم شکست
نکتہ الا بسلطان یاد گیر،
ورنہ چوں مور ملخ در گل یمیر،
از طریق زاون اے مرد نکوے
آمدی اندر جہاں چار سوے
ہم برون جستن بزاون مے توان
بند ہا از خود کشاون مے توان
یہاں قرآن کے اس اشارہ کی طرف تلمیح ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ اے جنو اور انسانو اگر تم سے ہو سکے تو کائنات کی حدود سے باہر نکل جاؤ۔ لیکن بغیر سلطان (یعنی غالب کرنے والی حجت یا قوت) کے تم ایسا نہیں کر سکو گے۔
یمعشر الجن والانس ان استطعنم ان تنفذوا من اقطار السموات والارض فانفذوالاتنفذون الا بسلطان
اقبال کے نزدیک سلطان سے مراد روح کا وہ مقام ہے جہاں وہ عبادات اور نوافل کی کثرت سے اس قابل ہو جاتی ہے کہ زمان و مکان کی حدود سے نکل کر خدا سے ملاقی ہو جائے۔
جسمانی اور روحانی ولادت کا فرق
اقبال رومی کی زبان سے بتاتا ہے کہ یہ ولادت آب و گل سے تعلق نہیں رکھتی۔ آب و گل کی ولادت کے بعد انسان ہنستا ہے۔ وہ ولادت جستجو کرنے والے کی ہے اور یہ جستجو میں کامیاب ہونے والے کی ہے۔ وہ زمان کی حدود کے اندر سیر و سکون کا موقعہ دیتی ہے اور یہ زمان و مکان کی حدود سے باہر نکل کر اسرار حقیقت کی سیر کا۔ وہ روز و شب کی محتاجی ہے اور یہ روز و شب کی سواری۔ دونوں کے لئے اذان ہوتی ہے۔ اس کے لئے وہ اذان جو فقط زبان سے بلند ہو اور اس کے لئے ایسی اذان جو دل و جان سے ادا ہو۔ جب کسی انسان کے بدن کے اندر ایک جان بیدار ولادت پاتی ہے تو اس کے کارناموں سے دنیا لرزنے لگتی ہے۔
لیکن ایں زاون نہ از آب و گل است
داند آں مردے کہ او صاحبدل است
آں یکے با گریہ ایں باخندہ ایست
یعنی آں جویندہ ایں یا بندہ ایست
آں سکون و سیر اندر کائنات
ایں سراپا سیر بیرون از جہات
آں یکے محتاجی روز و شب است
واں دگر روز و شب اور امر کب است
ہر دوز ادن را دلیل آمد اذاں
آن بلب گویند و ایں از عین جہان
جان بیدارے چو زاید در بدن
لرزہ ہا افند درین دیر کہن
اقبال خود تمنا کرتا ہے کہ خدا اسے طلسم زمان و مکان کو توڑنے کے قابل بنا دے۔
زیر گردوں خویش را یابم غریب
ز آنسوے گردوں بگو انی قریب
تا مثال مہر و ماہ گرد و غروب
ایں جہات و ایں شمال و ایں جنوب
از طلسم دوش و فردا بگذ دیم،
از مہ و مہر و ثریا بگذ دیم،
ایک ہی مقام کی مختلف تعبیرات
خودی کی یہی حالت ہے جو اقبال کے نزدیک کاشف اسرار حیات ہے اور جس کو اقبال کبھی اپنے ’’ من میں ڈوبنا‘‘ کبھی ’’ خودی میں ڈوبنا‘‘ اور کبھی’’ تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوبنا‘‘ کہتا ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن،
٭٭٭
عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف،
٭٭٭
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ ہمت مردان ہیچ کارہ نہیں،
٭٭٭
ہزار چشمہ تیرے سنگ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر،
٭٭٭
ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی
کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا
پھر اس حالت کو وہ کبھی اپنے آپ میں گم ہو جانے کا اور کبھی اپنے آپ کو گم کر دینے کا نام بھی دیتا ہے۔
بخود گم بہر تحقیق خودی شو،
انا الحق گود صدیق خودی شو،
٭٭٭
یکے گم مے کنم خود را یکے گم مے کنم اورا
زمانے ہر دورا یابم چہ راز است ایں چہ راز است ایں
پھر اس کو اقبال کبھی حرائے دل میں بیٹھنے سے کبھی خود کو ترک کرنے سے اور کبھی خدا کے پاس خلوت گزیں ہونے سے بھی تعبیر کرتا ہے۔
اند کے اندر حرائے دل نشین
ترک خود کن سوئے حق خلوت گزیں
اور پھر اس کو وہ کبھی جہان دل کے اندر جھانکنے کا اور کبھی اعماق ضمیر کے اندر نگاہ ڈالنے کا نام بھی دیتا ہے۔
اند کے اندر جہان دل نگر
تاز نور خود شوی روشن بصر
٭٭٭
فاش مے خواہی اگر اسرار دیں
جز باعماق ضمیر خود مبین
لذت مجذوبیت سے خطرہ
خودی کو اس حالت میں ایک ایسی گہری اور دل کشا مسرت نصیب ہوتی ہے کہ دنیا کی ہر بڑی سے بڑی مسرت بھی اس کے سامنے ہیچ اور بے حقیقت رہ جاتی ہے۔ اس مسرت کی لذت خودی کو مست اور مخمور کر دیتی ہے۔ اسی نوعیت کی لیکن اس سے کم درجہ کی ایک مسرت جو بتدریج بڑھ رہی تھی خودی کو اس کے ارتقا کے گزشتہ مقامات اور مدارج میں بھی محسوس ہو رہی تھی اور اسے اپنی ہمت آزما جدوجہد کے دوران تسلیوں اور امیدوں کے سہارے دے رہی تھی۔ اب یہ عالم خود فراموشی کی مسرت اسی مسرت کے عروج کا نقطہ کمال ہے۔ یہ مسرت اس قدر جاذب ہوتی ہے کہ اسے ترک کر کے بیداری اور ہوشیاری کی حالت کی طرف لوٹنا بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے اور بعض وقت در حقیقت عاشق اسے ترک کر کے اپنی حالت صحو کی طرف واپس آنا نہیں چاہتا۔ لیکن اس خواہش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عاشق کے ذہنی قویٰ (جو اسے نہ صرف اس لئے دئیے گئے ہیں کہ وہ ان کی مدد سے محبوب کی پیدا کی ہوئی کائنات پر غور و فکر کر کے محبوب کے حسن و کمال کی معرفت حاصل کرے۔ بلکہ اس لئے بھی کہ وہ ان کی مدد سے اس دنیا کو محبوب کے مقاصد کے مطابق بدلنے کے لئے سر گرم عمل رہے) معطل ہو جانے کی وجہ سے بیکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت کا یہ قاعدہ ہے کہ جن قویٰ سے کام نہ لیا جائے وہ ان کو کام کی استعداد سے محروم کر دیتی ہے۔ عاشق عالم زمان و مکان سے اپنا تعلق کھو دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اس تعلق کو قائم رکھنا نہیں چاہتا۔ مستقل مجذوبیت کی یہ کیفیت اس عاشق کی قسمت میں ہوتی ہے جو نبوت کی تعلیم سے پوری طرح مستفید نہیں ہوتا اور جو اپنی کم علمی کی وجہ سے خودی کے محبوب اور مقصود کے متعلق غلط نقطہ نظر رکھتا ہے اور خودی کی فطرت سے یعنی خودی کی آرزوئے حسن کے فطری تقاضوں سے بے خبر ہوتا ہے۔ ان تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ خودی دنیائے عمل میں شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محبوب کی خدمت اور اطاعت کے لئے موجود رہے اور محبوب کے حسین و جمیل مقاصد کی پیش برو کے لئے کام کر کے اپنی آرزوئے حسن کی تشفی کا سامان مسلسل طور پر پیدا کرتی رہے۔ جب تک کہ کائنات میں خدا کی جستجوئے حسن ختم نہیں ہوتی یعنی جب تک کائنات اپنے کمال کو نہیں پہنچتی۔ اس وقت تک مومن کی جستجوئے حسن بھی ختم نہیں ہوتی تو مومن خدا کا دوست ہونے کی وجہ سے کائنات میں خدا کے مقاصد کا ممد و معاون ہوتا ہے۔ لذت مجذوبیت پر مر مٹنے والا عاشق یا وہ عاشق جو مجذوب تو نہیں لیکن دنیا میں محبوب کے مقاصد کی تکمیل کے لئے پوری پوری جدوجہد کر کے اپنی محبت کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ محبوب کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک پست تر مقام سے دیکھتا ہے۔ لہٰذا وہ لذت ذکر و فکر سے جو خلوت میں اسے محبوب کے قرب کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے، واقف ہوتا ہے۔ لیکن لذت کردار سے جو اسے جلوت میں عالم انسانی کے گوشہ گوشہ میں باطل کو فنا کر کے حکم حق کو جاری کرنے کی عملی جدوجہد سے نصیب ہوتی ہے آشنا نہیں ہوتا۔ ایسے عاشق کے متعلق اقبال بڑے افسوس سے لکھتا ہے:
وائے درویشے کہ ہوئے آفرید
باز لب بربست ودم در خود کشید
حکم حق را در جہان جاری نہ کرو
نانے از جو خورد و کراری نہ کرد
خودی میں ڈوب کر ابھرنا
لیکن ایک ایسا عاشق جو نظری اور عملی طور پر نبوت کے علم سے پوری طرح مستفید ہو رہا ہو۔ نہ صرف یہ جانتا ہے کہ محبوب کے ساتھ اس کا تعلق ایک اطاعت گزار بندہ کا ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی محسوس کرتا ہے کہ اس کا فطری جذبہ محبت فقط اطاعت ہی سے پوری تشفی پا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی پوری زندگی کو اور اپنی زندگی کی ہر چیز کو اپنے فکر و عمل کی قوتوں کے سمیت اپنے محبوب کی اطاعت اور خدمت کے لئے وقف کر دیتا ہے۔ اس لئے محبوب کے ساتھ پیوست ہو کر خود فراموش ہونے کی حالت میں بھی وہ اپنی خودی کو محبوب کی اطاعت کے لئے بیدار اور برقرار رکھنے کی کوششیں کرتا ہے اور اگرچہ کہ اس کی یہ کوشش خود فراموشی اور مست و مخمور کرنے والی مسرت کی وجہ سے نہایت ہی مشکل ہوتی ہے تاہم وہ اپنی محبت ہی کی وجہ سے اس میں کامیاب ہوتا ہے اور اپنی حالت بیداری و ہوشیاری کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اب اسے جو کچھ محسوس ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ محبوب کے آغوش میں چلا گیا ہے اور فقط خدا ہی خدا ہے اور وہ نہیں بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ محبوب خود اس کی آغوش میں آ گیا ہے اور اب وہی وہ ہے اور خدا نہیں یعنی وہ خود ہی خدا ہے گویا وہ اپنی ز بان حال سے اپنے احساسات کی بنا پر انا الحق کا نعرہ لگاتا ہے۔ یہ خودی میں ڈوب کر پھر ابھر آنے کا وہ نہایت ہی مشکل کام ہے جسے مردان بلا کش کی ہمت آسان بناتی ہے۔
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ ہمت مردان ہیچ کارہ نہیں
یہی ہے خودی کا اپنی تکمیل کے مقام پر پہنچنا یا خدا کی ذات کو بے پردہ دیکھنا یا عین خود ہو جانا یا زندہ ہو جانا اور یہی خودی کی نمودار اور آشکارائی ہے۔ یہی خودی کا کمال ہے۔ یہی اس کی بلندی ہے۔ یہی اس کی تعمیر ہے اور یہی اس کی تربیت ہے۔
بر مقام خود رسیدن زندگی است،
ذات را بے پردہ دیدن زندگی است
٭٭٭
چشم بر حق باز گردن زندگی است
خویش را بے پردہ دیدن زندگی است
٭٭٭
بے ذوق نمود زندگی موت
تعمیر خودی میں ہے خدائی،
٭٭٭
خودی اندر خودی گنجد محال است
خودی را عین خود بودن کمال است
٭٭٭
چناں با ذات حق خلوت گزینی،
کہ او بیند ترا اورا تو بینی،