نعرہ انا الحق کا مطلب، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

نعرہ انا الحق کا مطلب
خودی کا اپنے آپ میں ڈوبنا اور پھر ابھر کر اپنے خدا ہونے کا احساس کرنا خودی کا وہ تجربہ ہے جس سے وہ اپنی تحقیق اور تصدیق کرتی ہے کیونکہ اسے یہ تجربہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو ماسویٰ اللہ سے ہٹا کر پوری طرح اپنی گرفت میں دے دیتی ہے یعنی پوری طرح سے خود گیر اور خود دار ہو جاتی ہے اور اس کا کوئی غیر اس پر اپنی گرفت یا حکومت نہیں رکھتا۔
بخود گم بہر تحقیق خودی شو
انا الحق گود صدیق خودی شو
٭٭٭
خودی گیری و خود داری و گلبانگ انا الحق
آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات
خودی کے انا الحق کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ خودی فی الواقع خدا ہو جاتی ہے یا خدا ہو سکتی ہے بلکہ اس کا مطلب فقط اتنا ہی ہے کہ خودی خدا کی شدید محبت کی وجہ سے عارضی طور پر یہ احساس پیدا کر لیتی ہے کہ وہ خدا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو جب آگ میں رکھ دیا جائے تو وہ ا س قدر سرخ ہو جاتا ہے کہ آگ سے اس کا امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم لوہے کا ٹکڑا لوہے کا ٹکڑا ہی رہتا ہے اور وہ آگ نہیں بنتا جو اس کو گرم کر کے سرخ کر دیتی ہے۔ اسی طرح عبادت گزار مومن پر اس کی شدید محبت کی وجہ سے ایک حالت ایسی وارد ہوتی ہے کہ اس کی خودی اپنے جداگانہ وجود کو قائم رکھتے ہوئے بھی خدا کی محبت میں اس طرح جذب ہو جاتی ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ کو خدا سے امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ایک سچا عاشق اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ جانتا ہے کہ اس کا یہ احساس کہ وہ خدا ہے ایک غلطی ہے جو کثرت عبادت اور شدت محبت سے پیدا ہوئی ہے لہٰذا رفتہ رفتہ اس کا یہ احساس کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتا ہے اور عاشق پھر محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ اور اس کا محبوب الگ الگ ہیں اور ان کا باہمی تعلق فقط معبود اور عبد اور خالق اور مخلوق کا ہے۔ محبوب اس کا خالق اور معبود ہے اور وہ محبوب کا مخلوق اور عبد ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور کئی اور اولیاء اللہ نے اپنے اس تجربہ کا ذکر فرمایا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک عاشق پر جو اپنی آرزوئے حسن کو مطمئن کرنے کے لئے جی بھر کر خدا کی عبادت اور اطاعت کرتا ہے، یہ تینوں حالتیں گزرتی ہیں۔ کبھی اس کے شعور کی دنیا میں خدا ہی خدا ہوتا ہے اور وہ خود نہیں ہوتا کبھی وہ خود ہی خود ہوتا ہے اور خدا نہیں ہوتا اور کبھی خدا بھی ہوتا ہے اور وہ خود بھی ہوتا ہے اور یہ خودی کی فطرت کا ایک راز ہے۔
یکے گم مے کنم خود را یکے گم مے کنم اورا،
زمانے ہر دورا یابم چہ راز است ایں چہ راز است ایں
اس تیسری حالت کو نہ ہجران کہہ سکتے ہیں اور نہ وصال۔ اس کے باوجود وہ ہجران بھی ہے اور وصال بھی۔ لہٰذا یہ بات نہ عقل سمجھ سکتی ہے اور نہ عشق۔
ہم باخود وہم با او ہجراں کہ وصال است ایں
اے عقل چہ مے گوئی اے عشق چہ فرمائی
خودی کا مکمل ہونا یا اپنے خدا ہونے کا احساس پیدا کرنا ایک ہی بات ہے خودی نے ذکر اور فکر اور حسن عمل کے مشاغل کیوں اختیار کئے تھے۔ اگر ہمیں کہیں کہ وہ اپنی آرزوئے حسن کی تکمیل چاہتی تھی یعنی اس کا مقصد اپنی جستجو تھا تو یہ بالکل درست ہے۔ اس جستجو سے اسے جو کچھ حاصل ہواتھا وہ خدا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ گئی تھی۔ لہٰذا اگر ہم کہیں کہ ان مشاغل سے خودی کا مقصد یہ تھا کہ وہ خدا (یعنی خدا کی محبت اور دوستی) کو حاصل کرے اور یا خدائی کی جستجو کرے تو یہ بھی بالکل درست ہے۔ لیکن خدا کی اس جستجو سے اسے جو کچھ حاصل ہوا تھا وہ اس کی اپنی ہی مکمل خودی تھی۔ گویا خودی اگر خدا کی جستجو کرے تو اپنے آپ کو پاتی ہے اور اگر اپنے آپ کی جستجو کرے تو خدا کو پاتی ہے۔
تلاش او کنی جز خود نہ بینی
تلاش خود کنی جز اونیابی،
انسان کی عقل اور دل اور نظر سب خدا کے کوچے میں گم ہیں۔ جب تک انسان خدا کو نہ پائے نہ اس کی عقل صحیح ہوتی ہے نہ اس کا دل اطمینان پاتا ہے اور نہ اس کی نظر کو حسن کا وہ سامان مل سکتا ہے جس کی آرزو اس کو بے تاب رکھتی ہے لہٰذا انسان کا خدا کی جستجو کرنا در حقیقت اپنی ہی جستجو کرنا ہے۔
من بہ تلاش تو روم یا بہ تلاش خود روم
عقل و دل و نظر ہمہ گم شدگان کوئے تو،
خدا کو پانا اپنے آپ کو پانا ہے
یہی وجہ ہے کہ اقبال کے ہاں خدا کو تلاش کرنا یا اپنی خودی کو تلاش کرنا، خدا کی خودی میں گم ہونا یا اپنی خودی میں گم ہونا خداکی خودی کو گم کرنا یا اپنی خودی کو گم کرنا خدا کی خودی میں ڈوبنا یا اپنی خودی میں ڈوبنا‘ خدا کی نمود ہونا یا انسان کی نمود ہونا‘ خداکا انسان کو بے حجاب کرنا یا انسان کا خدا کو بے حجاب کرنا خدا کو فاش دیکھنا یا خودی کو فاش دیکھنا‘ خدا کو دیکھنا یا اپنے آپ کو دیکھنا‘ خدا سے خودی کو طلب کرنا یا خودی سے خدا کو طلب کرنا خدا کے ساتھ خلوت گزین ہونا یا اپنے آپ کے ساتھ خلوت گزین ہونا ۔ خدا کے نور سے اپنے آ پ کو منور کرنا یا اپنے نور سے اپنے آ پ کومنور کرنا‘ خدا کی طرف گامزن ہونا یا اپنی طرف گامزن ہونا‘ خد ا سے پیوستہ ہونا یا اپنے آپ سے پیوستہ ہونا۔ ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کے مختلف پیرائے ہیں اور ایک ہی عمل کی مختلف تعبیرات ہیں۔
نمود تیری نمود اس کی نمود اس کی نمود تیری
خدا کو تو بے حجاب کر دے خدا تجھے بے حجاب کر دے
٭٭٭
اگر خواہی خدا را فاش بینی
خودی را فاش تر دیدن بیا موز
٭٭٭
از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب
ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب
٭٭٭
محکم از حق شو سوئے خود گام زن
لات و عزی ہوس را سر شکن
٭٭٭
چناں با ذات حق خلوت گزینی
کہ او بیند ترا‘ اورا تو بینی
٭٭٭
تو ہم بدذوق خودی رس کہ صاحبان طریق
بریدہ از ہمہ عالم بخویش پیوستند
٭٭٭
اگرچہ خدا ہونے کا احسا س خودی کا ایک عارضی تجربہ ہوتا ہے ۔ تاہم وہ ان معنوںمیں عارضی نہیںہوتا کہ اس تجربہ کے منقطع ہونے اور اپنی معمولی حالت کی طرف عود کرنے کے بعد خودی کا یہ تغیر صاف طور پر نظر آتا ہے کہ خودی اس تجربہ کی وجہ سے مستقل طور پر خدا کی صفات کے رنگ سے رنگین ہو جاتی ہے اور خدا کے اخلاق سے متخلق ہو گئی ہے اور خدا کی دنیا کو بھی اسی طرح سے بدلنا چاہتی ہے جس طرح سے خدا خود اسے بدلنا چاہتا ہے۔ گویا مستقل طور پر خدا کی معاون بن گئی ہے۔ اہل مغرب سے تو یہ توقع ہی نہیں کہ وہ فطرت انسانی کے اسرار و رموز کو سمجھ سکیں گے۔ لیکن مشرق میں بھی اس حقیقت کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ ہر انسان کی خودی وہ مقام حاصل کر سکتی ہے جو ایک وقت میں منصور حلاج نے پایا تھا اور جسے پانے کے بعد اس نے انا الحق کہا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر انسان کی خودی اپنی قدرتی نشوونما کے نتیجہ کے طور پر بالاخر ایک ایسے مقام پر پہنچتی ہے جہاں وہ خدا کے ہونے کا احساس کرتی ہے۔ اور اس کے بعد وہ خدا کی دنیا کو بھی اسی طرح سے بدلنا چاہتی ہے جس طرح خدا اسے بدلنا چاہتا ہے ۔ اگر اس حقیقت سے پردہ اٹھادیا جاتا تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی کہ بعض لوگ تو خدا سے بیزار ہیں اور بعض لوگ خدا کے عرفان کے مدعی ہیں اپ؛نی خودی کی نفی کرتے ہیں اور اپنے عرفان کو اپنی خودی کے استحکام اور اثبات کے لیے خدا کی نیابت کا احساس پیدا کرنے کے لیے اور دنیا کو بدلنے کے لیے ایک زبردست قوت کے طورپر کام میں لاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انسان اب تک اس دنیا میں مشرق کے زیر قیادت نوع بشر کی تکمیل کا وہ کردار ادا نہیں کر سکا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اقبال حلاج کی زبان سے ہمیں بتاتاہے کہ اب مشرق میں ایک مرد قلندر نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اور وہ خود اقبال ہے اقبال کا پیغام یہ ہ کہ انسان اپنی خودی کو بیکار نہ کرے۔ اخدا کے حضور میں محکم اور استوار رہے اور اس بحر نور میں ناپید نہ ہو جائے تاکہ دنیا میں خدا کی مرضی کو پورا کر سکے۔
بخود محکم گزر اندر حضورش
مشو ناپید اندر بحر نورش
٭٭٭
شاہد ثالث شعور ذات حق
خویش را دیدن بنور ذات حق
پیش ایں نورا ربانی استوار
حی و قائم چوں خدا خود را شمار
٭٭٭
بے ذوق نمود زندگی موت
تعمیر خودی میں ہے خدائی
اقبال نے سنائی اور رومی کی ایک گفتگو کے پیرایہ میں اپنے اس پیغام کی اہمیت کا خود ذکر کیا ہے۔ اس پیغام کا چرچا فردوس میں بھی ہے چنانچہ وہاں سنائی۔ رومی سے کہتا ہے کہ مشرق میں ابھی تک تو وہی ہے بیکار فلسفہ زندگی رائم ہے جو پہلے تھا لیکن حلاج (جس نے انا الحق کا نعرہ لگایا تھا اور جو اس بنا پر خوب سمجھتا ہے کہ انا الحق کے کیا معنی ہیں) یہ روایت کرتاہے کہ مشرق میں ایک قلندر نے خودی کایہ راز فاش کر دیا ہے کہ تعمیر خودی میں خدائی ہے یعنی تعمیر خودی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا کے اوصاف اور اخلاق اختیار کرتا ہے او ر خدا ہی کی طرح دنیا کو بدلنا چاہتا ہے۔
فردوس میں رومی سے یہ کہتا ہے سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آتش
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش

خودی کا یہ احساس کہ وہ خدا ہے‘ عارضی ہونے کے باوجود خودی کے اندر ایک عظیم الشان مستقل انقلاب پیدا کر جاتا ہے جس کے بعد خودی کے لیے ایک بالکل ہی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ خودی کے اس انقلاب کے مختلف پہلو حسب ذیل ہیں۔