خودی کا انقلاب۔ خودی کی تربیت کے لوازمات۔ خلوت، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی کا انقلاب
خودی کی تربیت کے لوازمات۔ خلوت
خدا کا ذکر، آیات اللہ کے طور پر مظاہر قدرت پر غور و فکر، فعل جمیل اور خدا کی محبت کے سوز و سرور سے ابھرنے والا آرٹ، خودی کی یہ چاروں فعلیتیں خدا کی محبت کو ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچاتی ہیں تاہم ان میں سے خودی کی ترقی اور تربیت کا زیادہ دار ومدار آخر کار مواظبت ذکر، قدرت پر غور و فکر اور فعل جمیل پر ہوتا ہے۔ ذکر اور فکر پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرنے کے لئے خودی کی خلوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر وہ ذکر اور فکر سے پورا فائدہ حاصل نہیں کر سکتی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) خود غار حرا میں خلوت گزیں ہوئے تھے۔ اعتکاف کے اسلامی شعائر کی غرض و غایت بھی خلوت گزینی ہے۔
خودی را مردم آمیزی دلیل نارسائیا
تو اے درد آشنا بیگانہ شواز آشنائی ہا
٭٭٭
از کم آمیزی تخیل زندہ تر
زندہ و جوئندہ پابندہ تر
٭٭٭
وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک میدانی
کہسار کی خلوت ہے تعلیم خود آگاہی
٭٭٭
مصطفیٰ اندر حرا خلوت گزید
مدتے جز خویشتن کس را ندید
خودی کے مقام کمال کی کیفیتیں
لہٰذا مومن شروع میں خلوت اختیار کرتا ہے۔ جب مومن خلوت کے ذکر اور فکر کو اور فعل جمیل کو کچھ عرصہ کے لئے بڑی احتیاط اور بڑے ذوق و شوق سے جاری رکھتا ہے تو وہ جلد ہی ایک عظیم الشان انکشاف حقیقت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس مقام پر خودی بے حد سرور اور اطمینان محسوس کرتی ہے اور اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ اس دنیا میں حاصل کرنا چاہتی تھی اس نے وہ سب کچھ پا لیا ہے اور اسے اور کسی چیز کی حاجت نہیں سوائے اس کے کہ جو کچھ اس نے پایا ہے اس کے پاس ہمیشہ موجود رہے اور اس میں ہمیشہ اور اضافہ ہوتا رہے۔ یہی خودی کا مقام کمال ہے۔ انسان کی محبت جو ذکر اور فعل جمیل سے رفتہ رفتہ ترقی پاتی رہتی ہے۔ بالآخر اس قدر طاقت ور ہوجاتی ہے کہ انسان کی پوری عملی زندگی پر حکمران ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ مزاحمت کرنے والے غلط تصورات یا اپنی کشش کھو کر بالکل مٹ جاتے ہیں یا اگر ان میں یہ صلاحیت موجود ہو تو خدا کی محبت کے ماتحت اس کے خدمت گزار بن جاتے ہیں۔ بہرحال ان میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ خودی کو مسلسل عبادت اور اطاعت اور عمل کے ذریعہ سے خدا کی معرفیت اور محبت میں ترقی پانے اور معرفت اور محبت کے مقام کمال پر پہنچ کر خدا کا دیدار کرنے سے باز رکھ سکیں۔
خدا کا دیدار
حضورؐ کے ارشادات میں خدا کے دیدار کے مقام کو احسان کا نام دیا گیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح سے کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو
(الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ)
شاید بعض لوگوں کو شبہ ہو کہ خدا کو دیکھنا ممکن نہیں۔ لیکن اگر ہم دیکھنے کے عمل کا تجزیہ کریں تو یہ شبہ رفع ہو جاتا ہے۔ جب ہم کسی مادی چیز کو دیکھتے ہیں تو اس چیز پر نظر ڈالنے اور روئت کا احساس کرنے تک جو عمل معرض وجود میں آتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ اس چیز سے جو روشنی کی شعاعیں بکھر رہی ہوتی ہیں وہ ہماری آنکھوں پر پڑتی ہیں۔ ہماری آنکھوں کا محدب شیشہ انہیں سمیٹ کر چیز کا ایک عکس بناتا ہے جس کی اطلاع عصب روئت کے ذریعہ سے دماغ تک پہنچتی ہے اور دماغ کی معرفت ہمارے شعور کو اس چیز کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ گویا جو چیز خارج میں موجود کسی جسم کو دیکھتی ہے وہ دراصل ہمارا شعور ہی ہوتا ہے اور ہمارا شعور بھی جو چیز دیکھتا ہے وہ خود وہ جسم نہیں ہوتا بلکہ اس جسم کے چند اوصاف ہوتے ہیں جن کے مجموعہ کو ہی ہم وہ جسم قرار دیتے ہیں۔ دماغ، عصب، روئت، آنکھ اور روشنی فقط ان اوصاف کا علم حاصل کرنے کے آلات یا ذرائع ہیں جن کو ہمارا شعور اپنے کام میں لاتا ہے۔ جب شعور کو ان اوصاف کا واضح علم ہو جاتا ہے تو خواہ وہ جسم آنکھوں کے سامنے رہے یا نہ رہے۔ شعور اگر چاہے تو اس کو پھر دیکھ سکتا ہے اور جس قدر شعور کا علم واضح ہو گا۔ اس قدر اس کی بلا واسطہ روئت جسم بھی واضح ہو گی۔ جب مومن کے دل میں مطالعہ جمال اور فعل جمیل سے حق تعالیٰ کے اوصاف کی محبت درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے تو شدت محبت کی وجہ سے ذکر اور فکر کے دوران میں مومن کی ساری توجہ ان اوصاف پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ اوصاف اس کے شعور پر چھا جاتے ہیں اور ان کا علم اس کے شعور پر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے۔ اس وقت مومن کا شعور حق تعالیٰ کو بالکل اس طرح سے دیکھتا ہے جس طرح سے اس دنیا کی کسی اور چیز کو دیکھنا اس کے لئے ممکن ہوتا ہے۔ چونکہ یہ روئت ان آنکھوں سے نہیں ہوتی جو مادی اجسام کے دیکھنے کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر بنائی گئی ہیں۔ اس لئے حدیث کے الفاظ ہیں کہ خدا کی عبادت اس طرح سے کر ’’ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے‘‘ (کانک تراہ) یعنی مومن خدا کو دیکھتا تو ہے لیکن اس کا دیکھنا ان آنکھوں کے ذریعہ سے عمل میں نہیں آتا۔ یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک ہم خدا کو روبرو نہ دیکھیں ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے حالانکہ ایمان لانا خدا کو دیکھنے کی پہلی شرط تھی۔ اس کٹ حجتی کیلئے ان کو سزا دی گئی۔
ایک زور دار کشش
اپنے مقام کمال کے قریب پہنچ کر خودی خدا کی ذات کے لئے ایسی زور دار کشش محسوس کرتی ہے کہ اس کا اختیار اپنے آپ پر باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا وہ نہایت ہی بے بس ہو کر اپنے محبوب کی طرف کھنچ جاتی ہے۔ اور کچھ عرصہ کے لئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ اپنے محبوب کی آغوش میں چلی گئی ہے اور محبوب کے ساتھ پیوست ہو کر ایک ہو گئی ہے۔ جیسے ایک لوہے کی سوئی جب آہستہ آہستہ مقناطیس کے نزدیک لائی جا رہی ہو تو مقناطیس کے قریب پہنچ کر ایک مقام ایسا آ جاتا ہے جہاں مقناطیس اسے خود بخود فی الفور اٹھا لیتا ہے۔ یہ خودی کے ارتقاء کی وہ حالت ہے جو اسے خلوت میں عبادت سے حاصل ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ تاہم اس کی ترقی کے اور مقامات جو جلوت میں محبوب کے مقاصد کی تکمیل کے لئے پر زور اور دلیرانہ عمل سے حاصل ہو سکتے ہیں بعد میں آتے ہیں۔ جب تک خودی اس حالت میں ہوتی ہے (اور اس حالت میں وہ بالعموم بہت تھوڑی مدت کے لئے رہتی ہے) وہ خود فراموشی کے عالم میں ہوتی ہے اور اس کا اپنے الگ وجود کا احساس اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ گویا بالکل ہی مفقود ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہی خدا ہے اور وہ نہیں۔ اس حالت میں خودی زمان و مکان کی قیود میں نہیں ہوتی کیونکہ وہ دونوں کے خالق کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب انسان اس حالت سے اپنے آپ کو لوٹتا ہے تو دوسروں کے لئے اس کی کیفیت کو پوری طرح سے بیان نہیں کر سکتا اور اظہار مطلب کی بہترین کوششوں کے باوجود اپنے الفاظ کو ناکافی پاتا ہے بلکہ الفاظ اس کے مطلب کا حجاب بن جاتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس حالت کی پوری کیفیت کو جاننا چاہے اسے خود ہی اس میں سے گزرنا چاہئے۔
ہر معنی پیچیدہ در حرف نمی گنجد
یک لحظہ بدل در شو شائد کہ تو دریابی
٭٭٭
حقیقت پہ ہر جامہ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ
مولانا روم فرماتے ہیں کہ عشق کی کیفیت عشق ہی بیان کر سکتا ہے۔ کوئی آفتاب کو جاننا چاہے تو اسے آفتاب ہی کو دیکھنا چاہئے۔
ہرچہ گویم عشق را شرح و بیان،
چوں عشق آیم خجل باشم ازان
گرچہ تفسیرو بیان روشنگر است
یک عشق بے زبان روشن تر است
چوں قلم در وصف ایں حالت رسید
ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید
عقل در شرحش جو خر ورگل نجفت
شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت
آفتاب آمد دلیل آفتاب
گر دلیلت باید ازوے رومتاب
ایک نئی قسم کی ولادت
چونکہ خودی کی یہ حالت جب گزر جاتی ہے۔ تو انسان کی ایک ایسی نئی زور دار اور حیرت انگیز طور پر فعال زندگی کا سبب بنتی ہے جسے انسان کی نئی زندگی کہنا چاہئے۔ اس لئے اسے ایک اقبال ایک قسم کی پیدائش قرار دیتا ہے اور اسے بچے کی پیدائش سے ممیز کرنے کے لئے انسان کی پیدائش کا نام دیتا ہے۔ اس انسانی قسم کی پیدائش کے موقع پر انسان کائنات کی حدود زمان و مکان کو توڑ کر باہر نکل آتا ہے۔ جس طرح سے انسان اپنی حیوانی قسم کی پیدائش کے وقت ایک بچہ کی صورت میں اپنی ماں کے پیٹ کی حدود سے باہر نکل آتا ہے۔ اس پیدائش کے بعد وہ کائنات کے اندر نہیں ہوتا بلکہ کائنات اس کے اندر ہوتی ہے۔
ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی
گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پہنائی
انسان کی حیوانی پیدائش (جسے بچہ کی پیدائش کہا جاتا ہے) شکست شکم سے ہوتی ہے اور انسانی پیدائش عالم زماں و مکان کی شکست ہے۔
زاون طفل از شکست اشکم است
زاون مرد از شکست عالم است
اس انسانی قسم کی پیدائش سے بہرہ ور ہونا انسان کی بڑی خوش نصیبی ہے کیونکہ جس طرح بچے کو پیدائش کے بعد شباب حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو اس نئی قسم کی پیدائش کے بعد ایک نئی قسم کا شباب حاصل ہوتا ہے۔
زاون اندر عالم دیگر خوش است
تا شباب دیگرے آید بدست
زمان و مکان کی بندشوں سے رہائی کا یہ مقام مومن کی ترقی کے راستہ کی ایک ضروری قدرتی منزل ہے جسے مومن ضرور پا کر رہتا ہے۔ بشرطیکہ اس کی نظریاتی یا نفسیاتی نشوونما میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور وہ صحیح قدرتی طریق سے جاری ہے لہٰذا خود مومن کو بھی اس بات کے لئے کوشاں ہونا چاہئے کہ اس کی محبت کی قدرتی نشوونما جاری رہے اور اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو تاکہ وہ اس مقام کو پائے جب تک وہ اس مقام کو نہیں پاتا اس کا ایمان ناقص رہتا ہے۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
٭٭٭
مشو در چار سوئے ایں جہاں گم
بخود باز او بشکن چار سو را
مومن کا یہی وہ مقام ہے جس کی وجہ سے مومن چرخ نیلی فام اور سورج اور چاند اور ستاروں کی بلندیوں سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ ان کو بحر وجود کے گرداب اور اپنے راستہ کی رکاوٹیں سمجھتا ہے اور اپنی منزل مقصود کو ان سے بہت آگے دیکھتا ہے۔
فضا تری مہ و پروین سے ہے ذرا آگے
قدم اٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں
٭٭٭
دل اگر اس خاکدان میں زندہ و بیدار ہو
تیری نگاہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ!
٭٭٭
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب
٭٭٭
پرے ہے چرخ نیلی فام ہے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد را ہوں وہ کارواں تو ہے
اس مقام کو پانے والے خود شناس لوگ وہی ہیں جو اس عالم خاکی کی حدود سے باہر کود جاتے ہیں اور جنہوں نے آسمان سورج اور ستاروں کا طلسم توڑ ڈالا ہے۔
خود آگہان کہ ازیں خاکدان برون جستند
طلسم مہر و سپہر و ستارہ بشکستند
انسان کو جولا نگاہ یا مقصود عمل یہ مادی دنیا نہیں جو زیر آسماں آب و گل کا ایک کھیل سا بنا ہوا ہے بلکہ اس مادی دنیا سے پرے اسے خدا کے عرش تک پہنچنا ہے اور خدا کی محبت کو حاصل کرنا ہے انسان کی منزل مقصود خدا ہے، یہ مادی دنیا نہیں۔
شعلہ ور گیر زد در خس و خاشاک من
مرشد رومی کہ گفت منزل ما کبریاست
انسان کا آسمان یہ روائے نیلگوں نہیں جسے لوگ آسمان سمجھتے ہیں بلکہ اس کا آسمان اس سے پرے ہے۔ یہ آسمان تو نگاہوں کا ایک طلسم تھا جو خدا کے بے حجاب ہونے سے ٹوٹا اور ٹوٹ کر فقط ایک روائے نیلگوں ثابت ہوا۔ خدا کے دیدار سے یہ مسئلہ حل ہوا کہ میرا آسمان یعنی میری بلند ترین امیدوں اور آرزوؤں کی حد کیا ہے۔ میں اپنی تمناؤں کی فضا میں ایک ایسے قافلہ کے ساتھ پرواز کر رہا تھا جس میں مہرو ماہ و مشتری بھی شامل تھے اور میں یہ سمجھتا کہ یہ میرے ہم عنان ہیں۔ لیکن ان کا قافلہ تھک کر رہ گیا اور میری پرواز پھر بھی جاری تھی۔ یعنی میری منزل مقصود مہر و ماہ و مشتری سے پرے ایسی جگہ پر ہے جہاں اس قدر بلند ہونے کے باوجود ان کی رسائی نہیں۔ عشق کی ایک ہی جست سے میں نے اس زمین و آسمان کی حدود کو پار کر لیا اور میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ یہ کائنات بے کراں ہے۔ اقبال نے ایک غزل کے چند اشعار میں اس مضمون کو ادا کیا ہے۔
اپنی جولانگاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تیری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک روائے نیلگوں کو آسمان سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ مشتری کو ہم عنان سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں