تخلیق کی حقیقت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ


تخلیق کی حقیقت
خدا کی تخلیق اگر کسی کھوئے ہوئے محبوب کی جستجو کی صورت اختیار کر رہی ہے اور تخلیق کے دوران خدا کی صفات حسن و کمال اپنا اظہار پا رہی ہیں تو اس میں تعجب کی بات کون سی ہے۔ تخلیق کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی محبوب کی جستجو کرنا جس سے محبوب کے سامنے اپنی صفات اور ممکنات کا اظہار ہو۔
آفریدن جستجوئے دلبرے
وا نمودن خویش را بر دیگرے
وجود یا خودی یا زندگی کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تخلیق میں اپنے آپ کا یعنی اپنی صفات کا اظہار کرتی ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ خودی یا زندگی یا وجود ہی نہ ہو۔ خودی کے لئے تخلیق یا جستجوئے محبوب ضروری ہے۔
گفت موجود آنکہ مے خواہد نمود
آشکارائی تقاضائے وجود
کائنات کا ہر ذرہ اس بات کا گواہ ہے کہ تخلیق میں اپنے آپ کا اظہار کرنا خودی کی فطرت ہے کیونکہ خودی کا زور عمل یا خودی کی قوت تخلیق کائنات کے ہر ذرہ میں پوشیدہ ہے۔
وا نمودن خویش را خوئے خودیست
خفتہ در ہر ذرہ نیروئے خودیست
آج انشقاق جوہر سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کائنات کے ہر ذرہ میں کتنی قوت چھپی ہوئی ہے۔
ارتقاء تخلیق کے کئی اور لوازمات میں سے ایک ہے
اگر پوچھا جائے کہ کائنات خدا کے قول کن سے فی الفور کیوں پیدا نہ ہو گئی اور کیوں اس کی بجائے ایک طویل ارتقائی عمل سے وجود میں آ رہی ہے تو اقبال اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ خودی کی فطرت کا ایک تقاضا ہے کہ اس کی تخلیق ہمیشہ ایک ایسے ارتقائی عمل کی صورت اختیار کرتی ہے جس پر ایک مدت صرف آتی ہو۔
چو فطرت مے تراشد پیکرے را
تماش مے کندور روزگارے
دراصل تدریجی تکمیل یا تدریجی ارتقاء ہی نہیں بلکہ عمل تخلیق کے اور بہت سے لوازمات ہیں جو خودی کی فطرت سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً تخلیق کا پہلے ایک ذہنی یا شعوری حالت میں موجود ہونا اور بعد میں ایک عزم سے یا قول کن سے شروع ہونا کسی محبوب یا مقصود کی محبت اور جستجو کی شکل اختیار کرنا مقصود یا محبوب کے غلط اور ناقص متبادلات یا اقبال کے الفاظ میں پیکر اغیار کا ظہور اور ان کا ترک یا استیصال، وحدت خالق سے کثرت کا ظہور، زمان و مکان کا ظہور، عناصر تخلیق کے اندر جذب یا کشش کا ظہور، خوب و نا خوب، نیک و بد اور حق و باطل کے امتیاز کا ظہور، خودی کی صفات جلال و جمال کی آشکارائی وغیرہ، تخلیق خدا کی ہو یا انسان کی اس کے لوازمات میں کوئی فرق نہیں آتا یہی سبب ہے کہ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جو شخص آفرینش کائنات کے اسرار و رموز معلوم کرنا چاہے اسے اپنے آپ پر نگاہ ڈالنی چاہئے خدا واحد ہے اور مخفی ہے لیکن اپنی تخلیق کی وجہ سے کثیر بھی ہے اور آشکار بھی ہے، ضروری ہے کہ کثرت اور آشکارائی کی طرح خدا اور انسان کی تخلیق کے اور لوازمات بھی مشترک ہوں اور انسان کی تخلیق خدا کی تخلیق کی طرف راہ نمائی کرتی ہو۔
اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن
یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی
اس مضمون کو سمجھانے کے لئے اقبال نے تصویر اور مصور کا ایک مکالمہ لکھا ہے۔ تصویر اپنے مصور کو دیکھنا چاہتی ہے تو مصور کچھ گفتگو کے بعد اسے کہتا ہے:
مرے دیدار کی ہے ایک یہی شرط
کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے
ظاہر ہے کہ یہاں مصور خدا سے اور تصویر انسان سے استعارہ ہے۔ قرآن حکیم میں ہے صورکم فاحسن صورکم (اس نے تمہاری تصویریں بنائیں اور تمہاری تصویریں عمدہ بنائیں) اقبال کا یہ نظریہ کہ اگر انسان اپنے آپ پر نگاہ ڈالے تو وہ خدا اور کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھ سکتا ہے دراصل قرآن حکیم ہی سے ماخوذ ہے جس کا ارشاد ہے:
"وفی انفسکم افلا تبصرلن"
(اور خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات تمہاری اپنی جانوں میں موجود ہیں کیا تم نہیں دیکھتے)
اسی لئے کہا گیا ہے "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ" (جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا)
ایک خط کی تخلیق کا عمل
جب کوئی شخص ایک خط لکھنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دل میں کہتا ہے کہ اس مضمون کا لکھا ہو ایک خط سپرد ڈاک ہو جائے۔ اس کا یہی عزم اس کے خط کے لئے اس کا قول کن ہے اس قول کے وقت اس کے خط کا ایک ایک لفظ اس کے شعور کے اندر موجود ہوتاہے اور وہ خط کی اسی ذہنی یا شعوری صورت کو ہی خارجی طور پر ظہور پذیر کرنے کے لئے قول کن سے خطاب کرتا ہے۔ تاہم جب تک خط اس کے ذہن میں ہی ہوتا ہے، عملی طور پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس کے الفاظ در حقیقت کیا ہیں۔ قول کن کے بعد تخلیق کی صورت میں زمان و مکان کے اندر خط کا بیرونی ظہور فوری نہیں ہوتا بلکہ تدریجی تکمیل یا تدریجی ارتقا کے ایک عمل کی صورت اختیار کرتاہے جب تک خط اس کے شعور میں ہوتا ہے اس وقت تک اگرچہ خط کے وہ الفاظ جن کا ارادہ وہ کر چکا ہوتا ہے اس کے سامنے نہیں آتے تاہم اس کے شعور میں موجود ہوتے ہیں اور پھر قول کن سے اس کے شعور میں وہ الفاظ ہی وجود میں نہیں آتے جو در حقیقت اس کے مقصد سے مطابقت رکھتے ہیں اور لہٰذا درست اور زیبا اور اچھے ہوتے ہیں بلکہ وہ تمام الفاظ بھی جو اس کے مقصد سے نزدیک یا دور کی مطابقت کا کوئی امکان رکھ سکتے ہیں وجود میں آتے ہیں لیکن مقصود الفاظ کو غیر مقصود الفاظ سے ممیز کرنے کا موقع اس وقت آتا ہے جب وہ خط لکھنے لگتا ہے کیونکہ اس وقت وہ ان الفاظ کو جو اس کے مقصد سے در حقیقت مطابقت نہیں رکھتے عملی طور پر جان لیتا ہے لہٰذا یا تو لکھ کر کاٹ دیتا ہے یا بغیر لکھنے کے اپنے ذہن میں منسوخ کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس کے مقصد کے اعتبار سے غلط اور ناخوب اور برے ہوتے ہیں۔ ترک و اختیار اور تنسیخ و تثبیت کے اس عمل سے وہ در حقیقت اس صحیح مطلوب اور مقصود خط کی جستجو کرتا ہے جس کو اس نے قول کن کہا تھا اور جو اس کے شعور میں شروع سے ہی موجود ہو گیا تھا۔ اس طرح سے خط کی تخلیق میں لکھنے والے کی تمام صفات جلال و جمال اپنا اظہار پاتی ہیں اگر درست الفاظ کی ترتیب اور تنظیم میں لکھنے والے کی صفات جمال کام کرتی ہیں تو غلط الفاظ کی تردید اور تنسیخ میں اس کی صفات جلال بروئے کار آتی ہیں۔ الغرض اس کا خط لکھنا کسی مقصود یا مطلوب کی ایسی جستجو کی صورت اختیار کرتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے آپ کا اظہار کرتا ہے اور اسی بنا پر وہ تخلیق یا آفریدن کا ایک عمل ہوتا ہے جس پر اقبال کی یہ تعریف صادق آتی ہے:
آفریدن جستجوئے دلبرے
وا نمودن خویش را بر دیگرے

پھر جب تک خط اس کے ذہن میں ہوتا ہے خط زمان و مکان کی دنیا میں نہیں ہوتا او رنہ ہی یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خط کے مقصد کے اعتبار سے کون سے الفاظ درست ہیں اور کون سے نادرست، کون سے زیبا ہیں اور کون سے نازیبا اور کون سے اچھے ہیں اور کون سے برے، لیکن جونہی کہ وہ خط لکھنے لگتا ہے خط کا مضمون ایک ابتدا سے ایک انتہا کی طرف حرکت کرنے یا بتدریج ارتقا کرنے یا تکمیل پانے لگتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے کاغذ پر کچھ فاصلہ طے کرتا ہے اور کچھ وقت صرف کرتا ہے اس طرح خط کی تخلیق سے حرکت اور خط کے زمان و مکان وجود میں آتے ہیں پھر خط لکھنے والا اپنے مقصد سے جو کشش رکھتا ہے وہ خط کے تمام الفاظ کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور ان کی باہمی کشش کی صورت اختیار کرتی ہے ان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہے اور ان کے اندر ایک خاص ترتیب اور تنظیم اور تسلسل پیدا کرتی جاتی ہے گویا خط جب خارج میں تخلیق کی صورت اختیار کرتاہے تو کسی مطلوب یا مقصود کی محبت اور جستجو، مقصود کے غلط اور ناقص متبادلات، حرکت، تدریجی ارتقائ، خط کے زمان و مکان، الفاظ کی باہمی کشش، درست و نا درست اور خوب و نا خوب کا امتیاز اور لکھنے والے کی صفات جلال و جمال کا اظہار خط کی تخلیق کے لوازمات کے طور پر نمودار ہوتے ہیں۔