تخلیق کائنات کا سبب, ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

تخلیق کائنات کا سبب
تخلیق کائنات کا باعث خودی کا مرکزی وصف محبت ہے جس کی طرف اقبال بار بار زور دار الفاظ میں توجہ دلاتا ہے۔ خودی ہمہ تن محبت ہے اور اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک نصؓ العینی حسن کے محبوب کی محبت کا جذبہ محسوس کرتی ہے۔ اس سے شدید محبت کرتی ہے اور ہر قسم کی ممکن رکاوٹوں اور مزاحمتوں کو راستہ سے ہٹاتے ہوئے اس کی سمت میں اپنے عمل کو جاری رکھتی ہے یہاں تک کہ اسے پا لیتی ہے۔ نصب العین کی محبت کا یہ وصف جس طرح سے انسانی خودی میں موجود ہے اسی طرح سے کائناتی خودی میں بھی موجود ہے اور دونوں صورتوں میں وہ خود بخود اپنا اظہار پاتا ہے اقبال نے اپنے خطبات میں لکھا ہے:
’’ حقیقت کائنات کوئی ایسی قوت حیات نہیں جو کسی نصب العین سے بے نیاز ہو بلکہ اس کی فطرت سراسر نصب العین کی جستجو ہے۔‘‘
انسان کا نصب العین خدا ہے اور خدا کا نصب العین انسان کی وہ حالت کمال ہے جو اس کے جسمانی کمال کے علاوہ جسے مدت ہوئی وہ حاصل کر چکا ہے اور تمام کمالات یعنی علمی، اخلاقی، روحانی اور جمالیاتی کمالات کی آئینہ دار ہو گی اور جو حالت کمال ہونے کی وجہ سے تمام تعارضات اور تضادات سے مبرا ایک وحدت ہو گی۔ کمال حسن کی اس حالت پر پہنچی ہوئی نوع انسانی کے لئے بطور ایک نصب العین کے خدا نے محبت کا احساس کیا لہٰذا جوش محبت سے اسے وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور اسے لفظ’’ کن‘‘ (ہو جا) کہا تاکہ وہ وجود میں آئے۔ کیونکہ قرآن حکیم میں ہے کہ خدا جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ اس قول کن کا نتیجہ یہ ہے کہ اب وہ بتدریج عالم وجود میں آ رہی ہے یعنی ایک ابتدائی حالت سے آغاز کر کے اپنی حالت کمال کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ کائنات کی اس تدریجی ترقی کا مقصد انسان کی تکمیل ہے کیونکہ صرف انسان ہی خدا کے قول کن کا مدعا اور مخاطب اور اس کے تخلیقی عمل کا نشان یا مقصود ہے۔
ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست
نشان بے نشاں غیر از تو کس نیست
انسان خدا کا محبوب اور مقصود ہے
جب خدا کی محبت کائنات کی تخلیق اور تدریجی ترقی کی صورت میں اپنے مطلوب کی جستجو کرنے لگی تو اس کا نتیجہ انسان تھا۔ یہی سبب ہے کہ خدا کی محبت کا جلوہ پوری کائنات اور کائنات کی ہر چیز کی تدریجی ترقی اور تربیت کی صورت میں اس کائنات کے مادی پردہ کے پیچھے صاف طور پر نظر آ رہا ہے۔
عشق اندر جستجو افتاد و انسان حاصل است
جلوہ او آشکار از پردہ آب و گل است
اپنی حالت کمال پر پہنچی ہوئی نوع انسانی خدا کا وہ محبوب ہے جو اس سے کھو گیا ہے اور اب خدا کائنات کے طویل ارتقائی عمل کے ذریعہ سے اس کی جستجو کر رہا ہے۔ خدا بھی ہماری طرح ایک آرزو رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے پیکر خاکی کا دیدار کرے جس کا حسن درجہ کمال پر ہو اس کے دیدار کے لئے اس نے یہ ہنگامہ عالم برپا کیا ہے رنگ و بو کا یہ تماشا خانہ محبوب کے نظارہ کے لئے ایک بہانہ ہے ورنہ اس کا مدعا اور کچھ نہیں:
ما از خدائے گم شدہ ایم و جستجوست
چوں ما نیاز مند و گرفتار آرزوست
ہنگامہ بست از پے دیدار خاکئے
نظارہ را بہانہ تماشائے رنگ و بوست
کائنات خدا کی ایک آیت یا نشان ہے لیکن آیت کا مطلب بہت دیر کے بعد کھلنے والا ہے کیونکہ اس کا مطلب وہ انسان ہے جو کائنات کے ایک طویل تدریجی ارتقاء کے نتیجہ کے طور پر آئندہ اپنے کمال کو پہنچے گا۔ کائنات کی مادی، حیاتیاتی اور نفسیاتی یا انسانی سطحوں پر خدا کی رنگا رنگ مخلوقات کے قافلے جو ارتقائے کائنات کے مقامات اور مدارج ہیں اسی انسان کی تخلیق اور تکمیل کے سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
وقت کی رفتار یا گردش روزگار جو کائنات کے تدریجی ارتقاء کو اپنے ساتھ لاتی ہے اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ انسان کی خودی اپنے کمال کو پہنچے اور پوری طرح سے آشکار ہو جائے:
یہ ہے مقصد گردش روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
اقبال کو بجا طور پر اس بات کی شکایت ہے کہ ہمارے علماء دین جو اس بات کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ خدا انسان کا محبوب ہے اور انسان کو چاہئے کہ خدا کی عبادت اور اطاعت کرے بہت کم اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ انسان بھی خدا کا محبوب ہے اور خدا کے لئے وہ سب کچھ کر رہا ہے جو اسے ایک محبوب کے لئے جسے وہ ترقی دے کر حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانا چاہتا ہے کرنا چاہئے۔
یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے
کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ
ظاہر ہے کہ یہاں حرم خدا سے اور چراغ امت مسلمہ سے (جو نوع انسانی کے لئے خدا کی روشن کی ہوئی ایک شمع ہے) استعارہ ہے۔
یہی سبب ہے کہ مسلمانوں میں اپنے مستقبل کے متعلق ایک گہری مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔ افسوس کہ خدا کا نور جن نگاہوں کے نظاروں کی تمنا خود کر رہا تھا وہی نگاہیں خدا کے نور کے دیدار سے مایوس ہو گئی ہیں۔
خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہو گئیں
عمل تخلیق ایک دوسرے کیلئے خدا اور انسان کی جستجو ہے
چونکہ انسان کا محبوب خدا ہے اور خدا کا محبوب انسان ہے خدا اور انسان دونوں کائنات کے ارتقائی عمل کے ذریعے سے ایک دوسرے کی جستجو کر رہے ہیں جب انسان اپنی حالت کمال کو پہنچے گا تو اس وقت ایک طرف سے خدا انسان کو پائے گا اور دوسری طرف سے انسان خدا کو پائے گا۔
تلاش اوکنی جز خود نہ یابی
تلاش خود کنی جز او نہ بینی
اس طرح سے جب خدا کو پانے سے انسان کی اپنی خودی کا مخفی حسن بے حجاب ہو گا تو یہی وقت ہو گا جب انسان کے لئے خدا کا حسن بھی پوری طرح سے بے حجاب ہو گا خدا کی نمود انسان کی نمود ہے اور انسان کی نمود خدا کی نمود ہے۔
نمود اس کی نمود تیری نمود تیری نمود اس کی
خدا کو تو بے حجاب کر دے خدا تجھے بے حجاب کر دے
خدا اور انسان دونوں کی ایک دوسرے کے لئے جستجو کا عمل ایک ہی ہے یہاں تک کہ یہ کہنا کہ اس عمل کے ذریعہ سے خدا انسان کی جستجو کر رہا ہے یا یہ کہنا کہ انسان خدا کی جستجو کر رہا ہے ایک ہی بات ہے:ـ
در خاکدان ما گہر زندگی گم است
ایں گوہرے کہ گم شدہ ما ایم یا کہ اوست
ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ہر لمحہ بدل کر ایک نئی حالت اختیار کرتی ہے۔
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود
تغیرات کے اس غیر متناہی سلسلہ سے خود ثابت ہوتا ہے کہ کائنات ابھی نامکمل ہے اور اس سے پہلے کہ یہ اپنی حالت کمال کو پہنچے جہاں انسانیت کاملہ کا ظہور ہو اسے ابھی بہت سی منزلوں سے گزرنا ہے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
ان تغیرات کی وجہ یہ ہے کہ کائنات بہتر سے بہتر حالتوں کو اختیار کرنا چاہتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خود شہید آرزو ہے اور ہر آن ایک زیادہ خوبصورت اور پھر اس سے بھی زیادہ خوبصورت پیکر کی تمنا اسے دامن گیر رہتی ہے اس کی جستجو اس وقت ختم ہو گی جب نوع انسانی اپنی حالت کمال کو پہنچے گی۔
فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو
خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو

’’ رہتی نہ ہو‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ کہنے والے کو شک ہے کہ شاید فطرت ہستی شہید آرزو نہ بھی رہتی ہو بلکہ مخاطب پر اس سوال کا جواب چھوڑنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک بلیغ اور موثر طرز بیان سے بتایا جائے کہ وہ در حقیقت شہید آرزو رہتی ہے۔ یعنی مخاطب خود بھی غور کر کے دیکھ لے کیا کائنات کے حقائق صاف طور پر بتا نہیں رہے کہ کائنات کے اندر بھی ایک آرزوئے حسن موجود ہے جس کی وجہ سے وہ ایک ایسے پیکر سے آراستہ ہونا چاہتی ہے جو منتہائے حسن و کمال ہو اور یہ پیکر حسن اسے اس وقت نصیب ہو گا جب ایک طرف سے انسانیت کاملہ خدا کو پائے گی اور دوسری طرف سے خدا انسانیت کاملہ کو پائے گا۔