امام غزالی اور علم کلام

امام غزالی اور علم کلام 


سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 


امام غزالی جس مجتہدانہ دماغ کے آدمی تھے اس کے لیے یہ مشکل تھا کہ وہ متقدمین کے مباحث و تحقیقات کے ناقلِ محض یا ترجمان و شارح بن کر رہ جائیں اور کہیں ان کی شخصیت نمودار نہ ہونے پائے۔

 بدقسمتی سے چوتھی صدی میں علمِ کلام کا حلقہ بھی (جس کو تمام دوسرے علمی اداروں سے زیادہ اپنے زمانہ کی عقلی اور علمی سطح کے ساتھ چلنے کی ضرورت تھی) جمود و تقلید کا شکار ہو گیا تھا۔ متکمین اشاعرہ کو نہ صرف اس پر اصرار تھا کہ ان کے نتائج تحقیقات اور ان کے عقائد تسلیم کئے جائیں بلکہ اس پر بھی اصرار تھا کہ ان عقائد کے ثبوت کے لئے امام ابو الحسن اشعری اور علامہ ابو بکر باقلانی وغیر نے جو مقدمات و دلائل قائم کئے ہیں ان کو بھی بعینہ تسلیم کیا جائے اور ان کے علاوہ دوسرے مقدمات و دلائل سے کام نہ لیا جائے۔ 

امام غزالی نے اپنی تصنیفات میں مجتہدانہ انداز میں اصول و عقائد پر گفتگو کی اور ان کے ثبوت کے لئے انہوں نے بعض  ایسے نئے مقدمات و دلائل قائم کئے جو ان کے نزدیک زیادہ مؤثر و دلپذیر تھے،

 صفابِ باری تعالٰی۔۔۔۔۔۔ نبوت،معجزات، تکلیفات شرعیہ، عذاب و ثواب، برزخ، قیامت کے متعلق انہوں نے نئے متکلمانہ انداز سے گفتگو کی اور ان کے ثبوت کے لئے انہوں نے بہت سے متکلمین کی طرح احتمال آفرینیوں، تشکیکات اور منطقی مقدمات و نتائج کے بجائے زیادہ عام فہم اور اطمینان بخش دلائل فراہم کئے اور اس سلسلہ میں انہوں نے پیشرو متکلمین کے استدلال زبان اور اصطلاحات اور ان کی ترتیب کی پابندی نہیں کی اور اس طرح اشعری علم کلام کی تجدید کی خدمت انجام دی جس کے لئے متکلمین اشاعرہ کو ان کا ممنون اوران کی عظیم الشان دینی خدمت کا معترف ہونا چاہئے تھا، مگر چونکہ انھوں نے یہ کام عام متکلمین کی روش سے ہٹ کر انجام دیا تھا، اور کہیں کہیں امام ابوالحسن اشعری اور ان کے نامور متبعین کی تحقیقات سے اختلاف پایا جاتا تھا، اس لئے اشعری مکتب فکر (جس سے خود امام صاحب منسلک، اور منسوب تھے) ان کے اس علم کلام اور ان دلائل و مقدمات پر چیں بجیں تھا، اور اس حلقہ کے بہت سے پرجوش علماء اس میں "زیغ وضلال" اورمسلکِ سلف سے بعد و انحراف محسوس کرتے تھے ، احیاء العلوم کی تالیف اور اس کی غیر معمولی اشاعت و مقبولیت کے بعد اس مسئلہ پر اشعری علماء میں چہ مگوئیاں بہت بڑھ گئیں ، اور بہت سے لوگوں کو امام صاحب کے عقائد میں شبہات پیدا ہونے لگے، کسی مخلص نے امام صاحب کو خط لکھا اور اس صورتِ حال کی اطلاع دیتے ہوئے اپنی قلبی تکلیف کا اظہار کیا امام صاحب نے ان کو مفصل جواب دیا،ایک مستقل رسالہ ( فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ) کے نام سے موجود ہے، اس کے شروع میں وہ تحریر فرماتے ہیں: 

"برادرِ شفیق!حاسدین کا گروہ جو میری بعض تصنیفات (متعلق باسرار دین) پر نکتہ چینی کررہاہے، اورخیال کرتا ہے کہ یہ تصنیفات قدمائے اسلام اور مشائخ اہل کلام کے خلاف ہیں ، اور یہ اشعری کے عقیدے سے بال برابر بھی ہٹنا کفر ہے، اس پر جو تم کو صدمہ ہوتاہے، اور تمہارا دل جلتاہے، میں اس سے واقف ہوں لیکن عزیزمن! تم کو صبر کرناچاہئے جب رسول اللہ ﷺ مطاعنِ سے نہ بچ سکے، تومیری کیا ہستی ہے؟ جس شخص کا یہ خیال ہے کہ اشاعرہ یا معتزلہ یا حنابلہ یا اور دیگر فرقوں کی مخالفت کفر ہے تو سمجھ لو کہ وہ اندھا مقلد ہے، اس کی اصلاح کی کوشش میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو، اس کو خاموش کرنے کے لئے مخالفین کا دعویٰ کافی ہے، اس لئے کہ تمام مذاہب (کلامیہ) میں اشعری سے اختلافات پائے جاتے ہیں ، اب اگر کوئی دعویٰ کرتاہے کہ تمام تفصیلات وجزئیات میں اشعری کا اتباع ضروری ہے، اور ادنیٰ مخالفت بھی کفر ہے تو اس سے سوال کرو کہ یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ حق اشعری کے ساتھ مخصوص ہے، اور انہی کی اتباع میں منحصر ہے، اگر ایسا ہے تو وہ شاید باقلانی کے کفر کا فتویٰ دیں گے ۔

اس لئے کہ صفت بقاء میں ان کو اشعری سے اختلاف ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ ذاتِ الہی سے زائد کوئی صفت نہیں ہے ، اور پھر سوال یہ ہے کہ باقلانی ہی اشعری کی مخالف کرکے کیوں کفر کے مستحق ہیں ، اشعریؒ باقلانی سے اختلاف کی بناء پر کیوں کفر کے مستحق نہیں ، اور حق ان میں سے کسی ایک میں کیوں منحصر سمجھا جائے اگر کہا جائے کہ اشعری متقدم ہیں ، تو خود اشعری سے معتزلہ متقدم ہیں ، تو پھر معتزلہ کو برسرِ حق ہوناچاہئے یا یہ محض علم وفضل کے تفاوت کی بناء پر ہے؟ توبتلایا جائے کی علم وفضل کا موازنہ کرنے کے لئے کون ساترازو ہے جس کی وجہ سے ایک شخص اپنے پیشوا کو علم وفضل میں سب سے بلند مرتبہ مانتاہے ، اگر باقلانی کو اشعری سے اختلاف کرنے کی اجازت ہے تو باقلانی کے بعد آنے والے اس حق سے کیوں محروم رہیں ، اور اس میں کسی ایک شخص کی تخصیص کیوں کی جائے.۔ 

علم کلام پر مجتہدانہ گفتگو اور اس میں بیش بہا اضافہ کرنے کے بعد امام غزالی اپنی سلامتِ طبع ، حق پسندی اور ذاتی تجربوں کی بناء پر اس نتیجہ پر پہونچے کہ علم کلام کافائدہ بہت محدود ہے ، 

اور بعض اوقات اس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ ہے ، نیز وہ ایک وقتی اورضرورت کی چیز ہے ، اور ایک صالح غذا کا حکم رکھتی ہے ، اور جس سے کوئی انسان مشتثنیٰ نہیں ، وہ قرآن مجید کا طرز بیان اوراستدلال ہے ، جس سے سب کو اپنا اپنا حصہ ملتاہے ، اورکوئی اس سے محروم نہیں ، "الجام العوام عن علم الکلام" میں جو ان کی آخری تصنیف ہے ، لکھتے ہیں ۔ 
"فادلۃ القرآن مثل الغذاء وینتفع بہ کل انسان وادلۃ المتکلمین مثل الدواء وینتفع بہ اٰحاد الناس ویستضرُّ بہ الاکثرون بل ادلۃ القرآن کالماء الذی ینتفع بہ "
قرآنی دلائل غذا کی طرح ہیں ، جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے ، متکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں ، اس سے کوئی کوئی فائدہ اٹھاتا ہے اور اکثر آدمیوں کو اس سے نقصان ہوتاہے، بلکہ قرآنی دلائل کی مثال پانی کی سی ہے ۔ 
"الصّبی الرّجیع والرّجل القوی وسائر الادلۃ کلاطعمۙ الّتی ینتفع بھا الا قویاء مرۃ ویطضون بھا الفریٰ ولا ینتفع بھا الصبیان اصلا۔" (الجام العوام عن علم الکلام ص 20)
جس سے دودھ پیتا بچہ اور طاقتور آدمی یکساں فائدہ اٹھاتے ہیں ، باقی دلائل (کلامیہ) کھانے کے انواع و اقسام کی طرح ہیں ، کہ کبھی ان سے طاقتور آدمیوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور کبھی ضرر ، اور بچوں کے لئے وہ مطلقاً کارآمد نہیں ۔

علم کلام سے جو نقصان پہنچا ہے ، اس کا ذکر کرتے ہوئے اپنا مشاہدہ اور تجربہ بیان کرتے ہیں :
والدلیل علی تضرر الخلق بہ المشاہدۃ والعیان والتجربۃ وما ثار من الشرّ منذ نبغ المتکلمون و فشت صناعة الکلام مع سلامۃ العصر الاول من الصحابۃ عن مثل ذلک ۔ (ایضا)
لوگوں کو علم کلام سے جو نقصان پہنچا ہے اس کی دلیل خود مشاہدہ اور تجربہ ہے ۔ اہل تجربہ جانتے ہیں کہ جب سے متکلمین پیدا ہوئے اور علم کلام کا چرچا ہوا ، کیسی مصیبت آئی اور خرابی پھیلی ، صحابہ کا دور اس خرابی سے محفوظ تھا ۔

(ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 184-187، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )