اقبال کے ہاں عقل کی تنقید کا مضمون اکچڑ عشق کی توصیف کے دوش بدوش چلتا ہے اور جا بجا بعض اوقات ایک ہی شعر کے دو مصرعوں میں کہیں کہیں مسلسل اشعار میں ان کا موازنہ اور مقابلہ ملتا جلتا ہے عقل کی تنقید تو اکثر پڑھنے والوں کی سمجھ میں آ جاتی ہے لیکن عشق سے اقبا کی امراد لیتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے ہاں صدیوں سے عشق حقیقی اور عشق مجازی کی اصطلاحیں زبان زد عام ہیں۔ عشق حقیقی سے بعض اوقات انسانوں کی باہمی بے لوث محبت مراد ہوتی ہے۔ جس میں خود غرضی نفسانیت یا جنسیت کا کوئی شائبہ نہ ہو اور بعض اوقات اس کے معنی عشق الٰہی کے ہوتے ہیں۔ یعنی اشخاص و اشیا کی محبت کے ماوریٰ خدا کا عشق اور یہ عشق حقیقی دل میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کا دل ہر قسم کی غرض وہوس سے پاک ہو جائے:
سرمد غم عشق بوالہوس را ندہند
سوز دل پروانہ مگس را ندہند
اقبال نے عشق کے مفہوم میں بڑی گہرائی اور بڑی وسعت پیدا کر تی ہے۔ اور اس بارے میں وہ خاص طورپر عارف رومی کا شاگرد رشید ہے۔ اقبا ل نے حکمت و عرفان کے بیش بہا جواہر اسی مرشد سے حاصل کیے ہیں لیکن عشق کے بارے میں وہ خاص طور پر رومی کا ہم آہنگ ہے۔ رومی کے ہاں حکمت و علم بہت ہے اور عقل کی تعریف میں بھی اس کے نہایت بلیغ اشعار ملیت ہیں۔ لیکن رومی جہاں عقل سے عشق کی طر ف آتا ہے وہاں عجیب ولولہ اور جوش دکھائی دیتا ہے۔ ایک لحاظ سے تمام مثنوی کا موضوع عشق ہی ہے۔ مثنوی کے تمہیدی اشعار میں بھی وہ عشق ہی کو بیان کرتا ہے۔ لیکن فوراً اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی:
گرچہ تفسیر و بیان روشن گر است
لیک عشق بے زباں روشن تر است
عقل در شرحش چو خر در گل بخفت
شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت
عارف رومی کے نزدیک دین کا جوہر بھی عشق ہی ہے۔ ادیان میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اور عقائد و شعائر و اعمال میں بہت کچھ فرق پایا جاتا ہے لیکن جب کسی شخص میں عشق حقیقی پیداہ و جاتا ہے تو وہ ان امتیازات کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھتا اور یہ کہہ اٹھتا ہے کہ :
مذہب عشق از ہمہ دیں با جداست
چونکہ ظواہر ہی کو لوگ دین سمجھتے ہیں۔ جن کی حقیقت عاشق کے نزدیک ثانوی رہ جاتی ہے۔ اس لیے عوام ہی نہیں بلکہ فقہا بھی عاشقوں کو کافر کہنے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ عشاق خود بھی اپنے کفر کی اصطلاح استعمال کرنے لگتے ہیں:
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من راگ گشتہ حاجت زنار نیست
میر کہتا ہے:
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
عام لوگوں کو جو کچھ دین کے ظواہر و شعائر و عبادات سے حاصل ہوتا ہے عشق الٰہی کے نزدیک وہ سطحی اورناپائدارہوتا ہے۔ عشق تمام امراض ظاہر و باطنی کا علاج ہے:
اے دواے جملہ علت ہاے ما
اے دواے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جس عشق کی مدح سرائی حکماء اور صوفیہ اورشعرائے متصوفین نے کی ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک تاثراتی یا جذباتی اور دوسرا نظریاتی۔ یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے جد ا بھی ہو سکتے ہیں اور باہم مخلوظ بھی ہوتے ہیں۔ جن حکما کامیدان فقط عقلیت ہے ان کے ہاں اس چیز کے متعلق نظریات ملتے ہیں جسے انہوںنے مشاہدی کائنات و حیات سے مدد لے کر استدلال سے مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مقابلے میں ایسے صوفیہ بھی ملتے ہیں جن کے ہاں عشق کی کیفیت بڑے جوش و خروش کے ساتھ موجو دہے لیکن وہ اس کی عقلی توجیہ کی کوشش نہیں کرتے یہ کیفیت ان سے دوسروں کی طرف برکت صحبت اور فیض روحانی سے کم و بیش منتقل ہوتی ہے راہ استدلال تو دراز اور پر پیچ ہے اور تسکین آفرین بھی نہیں لیکن لبریز عشق عاشق کی توجہ ایک لمحے میں مستفیض انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ تصوف کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ ایک شخص کسی عاشق الٰہی کی نظر کیمیا گر اثر سے ایسا بدلا کہ اس کے عمر بھر کے ساتھی اس کوکوئی دوسرا ہی انسان سمجھنے لگے۔ قبل فیضان کی زندگی میں کوئی مشابہت نہ رہی۔
آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشہ چشمے بما کنند
چند لمحوں میں وہ بات حاصل ہو جاتی ہے جو عمر بھر کی ذہنی کاوشوں اور عمر بھر کی بے ریا سطحی عبادتوں سے حاصل نہ ہو:
یک زمانے در حضور اولیا
بہتر اس صد سالہ طاعت بے ریا
(رومی)
طے شود جادہ صدد سالہ بہ آہے کاہے (اقبال)
بعض اوقات فیضان الٰہی سے جس کے اسباب و علل پر ماہر نفسیات حاوی نہیں ہو سکتا۔ یک بیک خود بخود کسی کے اند ر سے یہ چیز ابھر پڑتی ہے۔ تاثر کا پہلو ایک ذوق چیز ہے۔ نہ استدلال سے پیدا ہوتا ہے نہ استدلال سے دوسرو ں کو سمجھایا جا سکتا ہے:
ذوق ایں بادہ ندانی بخدا تانہ چشی
صوفیانہ عشق کی مثال حضرت امام غزالی نے بہت عمدہ بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک شخص شراب پیتا ہے اور رگ و پے اور اعضائے جسمانی پر اس کے جوگوناگوں اثرات ہوتے ہیں ان سے وہ ذات تجربے کی بناپرپوری طرح آشنا ہوتا ہے۔ بمقابلہ اس طبیب کے جو شراب نوشی ہر ایک مبسوط کتاب لکھ سکتا ہے۔ لیککن اس نے اگر خود شراب نہیں پی تو وہ اس کے ذوق و سرور سے مطلقاً نا آشنا ہوتا ہے یہی حال نظری اور علمی تصوف کا ہے۔ لیکن کہیں کہیں ایسے بزرگ بھی نظر آتے ہیں جن کے اندر یہ تاثراتی کیفیت بھی ہوتی ہے کہ اور اس کے متعلق وہ حکیمانہ نظریات پیش کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ عطار و سنائی و رومی اسی سم کے جامع عقل و عشق ہیں۔ اسی لیے ان کا کلام حکمت پسندوں اور عاشقوں دونوں کے لیے بصیرت افروز اور دل رس ہے۔ اس بارے میں رومی کے کمال کو کوئی نہیں پہنچا۔ اقبال میں بھی یہ دونوں چیزیںموجود ہیں عشق کا حکیمانہ بیان رومی سے بھی کسی قدر بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ تاثراتی پہلو رومی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشق کی یہ مستی اور ذوق اس کے متعلق حکیمانہ نظریات مسلمانوں کی زندگی میں کب پیدا ہوئے اور کس راستے سے داخل ہوئے کیا یہ چیز رسول کریم صلعم اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں موجود تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عشق شدت محبت کا نام ہے اور خود قرآن پاک نے مومن کی یہ صفت اشد حباللھ بیان کی ہے۔ مومن کی صفت ظاہر ہے کہ بدرجہ اتم محب و محبوب خدا محمد مصطفی صلعم میں موجو دہونی چاہے۔ تمام مسلمان صوفیہ جو عشق الٰہی میں مستغرق رہے اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اس عشق میں ؤان سے کوئی رسول کریم صلعم کے عشق تک نہ پہنچ سکا۔ عش کا کمال یہ ہے کہ عاشق کا اٹھنا‘ بیٹھنا کھانا پینا سونا جاگنا غرضیکہ اس کے تمام افکار و اعمال و جذبات کا محور محبوب کا عشق اور اس کا تصور ہو۔ عاشق الٰہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت قرآن کریم میں بھی اچھی طرح بیان کی گی ہے۔ عشق و عرفان کا کمال یہ ہے کہ عاشق کی مرضٰ معشوق کی مرضٰ میں ضم ہو جائے ۔ اسلام کے بھی یہی معنی ہیں ۔ خدا کی مشیت کے سامنے انسان کی کامل تسلیم مشیت اس تسلیم و رضا کی بدولت رسول صلعم کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ:
تہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
یہ مارمیت اذرمیت کا مقام ہے جس میں کمال فنا کمال بقا سے ہم آغوش ہ۔ جس طرح کا عشق رسولؐ کو خدا کے ساتھ تھا اس سے کچھ مشابہ عشق صحابہ کبارؓ کو رسولؐ کے ساتھ تھا۔ صحابہ کبارؓ می ںخوئی شخص دکھائی نہیں دیتا جو استدلال کی بناپر یا کسی خرق عادت یا معجزے سے رسولؐ پر ایمان لایا ہوان لوگوں میں عشق رسولؐ کی صحبت اورم حبت سے پیدا ہوا اور اس محبت میں یہ شدت تھی کہ زن و فرزند اور والدین کی محبت اس کے مقابلے میں قابل اعتنا نہ تھیں۔ اس کے بعد اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ اسلا م عشق سے پید ا ہوا۔ بلکہ عشق ہی کا دوسرا نام اسلام ہے۔ مغرب کے کوتاہ اندیش مستشرقوں نے یہ الاپنا شروع کیا کہ اصل اسلام میں محبت اور عشق کا کوئی سوال نہ تھا فقط خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت تھی جس کی بدولت دینداروں میں ایک زہد خشک پیدا ہو گیا۔ جس کے اندر کوئی تاثراتی پہلو نہ تھا۔ یہ مغالطہ ان کو اس لیے پید اہو گیا کہ اسلام کی شروع کی زندگی میں عملی اور اخلاقی پہلو غالب تھا۔ اسلام نے ایک نظریہ حیات کی تلقین کی تھی جو مومنوں کا ایمان بن گیا تھا۔ ان کو فلسفیانہ اور حکیمانہ استدلالات اور موشگافیوں کی ضرورت تھی۔ اس لیے ابتدائی دور میں نہ فلسفہ ابھر سکا اور نہ عمل کے مقابلے میں دور اول کے مسلمان عالم تاثرات میں زیادہ غوطہ زن ہوئے۔ نفسیات کا ایک مسلمہ ہے کہ تاثر اور تفکر کی کثرت قوت ارادی اور قوت عمل کوکمزور کر دیتی ہے۔ اور اسلام کا مقصد اس انقلابی اور اصلاحی دور میں انفرادی اور اجتماعی اصلاح عمل تھا۔ اور تاثر اور تفکر کو کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ جب تک کہ نئی تہذیب اور تمدن کے سانچے استوار نہ ہو گئے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عربوں کا مزاج بھی زیادہ تر عملی تھا وہ عجمیوں ہندوئوں اور یونانیوں کی طرح غوطہ خوار قلزم بود و عدم نہ تھے۔ ان کے لیے بس یہی بس تھا کہ خدائے واحدو خالق علیم و رحیم حکیم ہم سے اس قسم کے اعمال کا تقاضاکرتا ہے اور اعمال کے حسن و قبح کے ساتھ دنیا وآخرت میں جزا وسزا وابستہ ہے۔ خیر و شر کی ماہیت کے متعلق حکیمانہ استدلال شروع کرو تو ان کے امتیاز فرق اور ان کے حدود کا یقین ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ موجودہ طبیعی سائنس اس کا اقرار کرتی ہے کہ اس کی تحقیقا ت کامطلق کوئی تعلق اقدار حیات کے ساتھ نہیں۔ وہ صرف مظاہر فطرت کے باہمی روابط کا علم حاصل کرتی ہے۔ خیر و شر کے متعلق اسی تذبذب نے یونان میں سقراط و افلاطون و ارسطو کے دور میں سو فسطائین کا ایک سیلاب پید اکر دیا اور وہ سپارٹا سے شکست کھا گئے جہاں کے شہر ی نظام حیات کے متعلق کوئی پیچاک انگیز بحثیںنہ کرتے اور یکے بین و یک دان و یک باش پر عامل تھے۔ محض تاثرات سے لذت اندوزی بھی اخلاقی و عملی زندگی کو ضعیف بنا دیتی ہے۔ اور جب کوئی تہذیب زوال پذیر ہوتی ہے تو ہر شخص اپنے انفرادی تاثرات میں غرق ہو جات اہے اور اس کو معیار زندگی بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی عشق کا شاعرانہ اور صوفیانہ جوش و خروش ان کے دور انحطاط ہی میں نظر آتا ہے۔
ایسے خطوں میں ایسی ملتوں نے اسلام قبول کر لیا جن کا مزاج عربی نہ تھا ورجہاں پہلے سے فلسفیانہ بحثوں کے اکھاڑے موجود تھے۔ ان میں تخیلات بھی ترقی یافتہ تھے اور تاثرات بھی۔ جب یہ چیزیں حجازی اسلا م میں داخل ہو کر اس کا جزو لاینفک بن گئیں تو اس سے مسلمانوں کو کچھ فوائد کے ستھ ہی لا طائل علم الکلام بھی پیدا ہوا۔ صوفیہ کے یہاں شریعت کے علاوہ عشق کے جذبے کو بھی ترقی ہوئی ظاہر پرستی کے مقابلے میں تزکیہ باطن کی طرف توجہ مبذول ہوئی لیکن باطن میں بہت زیادہ غوطہ زنی نے دین داروں کو اصلاح معاشرت اور امور مملکت سے بیگانہ کر دای۔ آفاق کی طرف سے آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اور عالم نفسی کے احوال مرجع توجہ بن گئے۔ مشاہدہ کائنات جس پر قرآن نے بہت زیادہ زور دیا ہے سپرد تغافل ہو گیا:
چشم بند ولب بند و گوش بند
گر نہ بینی نور حق برمن بخند
روحانین کا لائحہ عمل بن گیا شریعت کی طرف سے بے اعتنائی ظہور میں آئی اور عشق الٰہی میں مست ہونے والے کہنے لگے کہ:
با خدا آں چناں مشغولم کہ از رسول خجالتہا دارم تا بہ اولوالامر چہ رسد
ان لوگوں میں سے جو رومی اور غزالی کی طرح زندگی کا توازن قائم رکھ سکے ان کی حکمت اور معرفت اور عشق نے خلق خدا کو ان سے آگاہ کیا۔ لیکن اس نفسی غوطہ زنی میں تکمیل حیات کے لیے بہت سے خطرات بھی تھے جنہوں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو غلط راستوں پرڈال دیا۔ انسان کو اپنے نفس کے مطالعے اور محاسطے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آفاق میں آیات الٰہیہ کا مشاہدی بھی اس کا فرض ہے۔ اسلام اسی توازن کا نام تھا۔ لیکن نفسی حالات و مقامات میں الجھنے والوںنے لوگوں کو دنیا کی طرف سے رخ پھیر لینے کی ہدایت کی:
ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن درآ
تو زغنچہ کم ندمیدہ در دل کشا بہ چمن درآ
اور کہا کہ نفس کے عالم باطن میں داخل ہو کر وہاں سے پھر باہر نہ آ سکو۔ زدر بروں نہ شدن در آ ا س نظریہ حیات کی بدولت مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی ترقی رک گئی۔ کچھ حکمت پسند افراد اپنا تحقیقی کام کرتے رہے لیکن اس کا اثر عام معاشرت پر نہ پڑا۔ یہاں تک کہ سولھویں صدی اور سترھوین صدی میں اہ مغرب نے مسلمانوں کی حکمت اور علوم و فن کی اساس پر اپنی زندگی کی تعمری شروع کی۔ یہ ترقی بھی یک طرفہ ہوئی اس لیے بہت سے فائدوں کے ساتھ کچھ نقصانات بھی اپنے ساتھ لیتی آئی۔ اقبال نے کئی مقامات پر اس بارے میں شرق و غرب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تاثرات نفسی یعنی عشق کو عقل یا زیرکی سے الگ کرنے سے مشرق بھی گمراہ ہوا اور مغرب بھی۔ دونوں بیک وقت ترقی کریں اور باہم معاون ہوں تو انسانیت ایک نیا عالم پیدا کر سکتی ہے۔ جس کاانداز حیات مشرق و مغرب دونوں سے افضل ہو:
غریباں را زیرکی ساز حیات
شرقیاں را عشق راز کائنات
زیرکی از عشق گردد حق شناس
کار عشق از زیرکی محکم اساس
عشق چوں با زیرکی ہم بر شود
نقشبند عالم دیگر شود
خیز و نقش عالم دیگر بنہ
عشق را با زیرکی آمیز دہ
محاورہ علم و عشق کی نظم کے اشعار اوپر درج ہو چکے ہیں ان میں یہی مضمون ہے کہ علم و عشق کے تعاون سے یہ عالم پیر پھر جوان ہو سکتا ہے۔ اور ایک صالح زندگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جسے فردوس ارضی کہہ سکیں۔ آخرت کی جنت کی حقیقت تو آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو گی لیکن عقل وعشق دونوں مل کر دنیا کو بھی جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں۔ اسلام کا یہ تقاؤضا تھا کہ اطاعت یا عبادت عشق کے درجے تک پہنچ جائے اور عبد عابد عاشق بن جائے لیکن یہ عشق ایک طرف علم یا معرفت کی بدولت پیدا ہواور دوسری طرف معرفت اس عشق کو صرا ط مستقیم سے نہ ہٹنے دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں تو کہیں عشق کا ذکر نہیں۔ تمام قرآن میں کہں ایک جگہ بھی یہ لفظ نہیں ملتا۔ لیکن ایک اصطلاح کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتاہے۔ عشق سے بعد میں لوگوں نے جو کچھ مراد لیا ہے اس کی صحیح و صالح تشریح و توضیح قرآن میں موجود ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ لفظ عشق نہ قرآن میں ملتاہے نہ حدیث میں اور نہ شعرائے جاہلیت کے کلام میں لیکن کیااس سے کوئی سمجھ دار انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہیکہ اس دور کے عرب اس کیفیت سے ناآشنا تھے جسے عشق کہتے ہیں؟ کیا عشقیہ شاعری اور افسانے ان کے ہاں نہ تھے اور کیا امام العشاق قیس عامری حجازینہ تھا؟ البتہ عشق کے متعلق جو نکتہ آفرینیاں او رموشگافیاں عجمیوں نے پیدا کی وہ دور طلوع اسلام بلکہ اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک عربی ادب میں نظر نہیں آتیں۔ اس میں جو لطف پیدا کیا ہے وہ عجمی مذاق نے پیدا کیا ہے۔ مولانا شبلی اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایران کی آب و ہوا حسن و عشق سے لبریز تھی اس لیے عشقیہ شاعری کو یہاں غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ روحانیت میں بھی عشق کے عنصر کو ایران میں اس لیے ترقی ہوئی کہ ایرانیوں کی فطرت کے خمیر میں موجود تھا۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے اقبال کامل میں عشق کی بحث کرتے ہوئے جو یہ خیال ظاہر کیاہے کہ نظریاتی اور فلسیانہ حیثیت سے عشق کے متعلق تصورات فلسفہ اشراق کی بدولت اسلامی ادب میں داخل ہوئے۔ وہ میرے نزدیک صحیح ہے۔ فلسفہ اشراق کا بہت سا حصہ فلاطینوس سکندری کی جدید فلاطونیت کا رہین منت ہے۔ جس نے یونانی فلسفے کو وحدت الوجود کا نظریہ اور تصوف بنا دیا۔ فلاطینوس کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ ذات بحت جو ذات احد ہے وہ تمام صفات اور تعینات سے ورا الورا ہے وہ ایک نور محض ہے جس کا اشعاع یا اشراق تمام ہستی میں ہوتاہے۔ موجودات کا نظام تدریجی ہے۔ جو نفس کلی یا عقل کلی سے شروع ہو کر مادہ محض پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں ہستی کا ہر درجہ اس تنویر سے معین ہوتا ہے کہ جو اس کو آفتاب ہستی سے حاصل ہوتی ہے بلند تر درجے میں نور زیادہ ہوتاہے ۔ اور اس سے پست تر درجے میں مقابلتاً کم۔ ذات احد سے مادے تک تنزلات کا ایک سلسلہ ہے۔ اسی فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے ابن عربی نے کہا ہے کہ رب رب ہی رہتا ہے خواہ اس سے تنزلات سرزد ہوں اور عبد عبد ہی رہتا ہے۔ خواہ وہ درجہ حیات میں کتنی ہی ترقی کر جائے۔ اسی بحث میں مولانا عبدالسلام نے شیخ الاشراق کی مشہور کتاب حکمتہ الاشراق کا ایک اقتبا س دیا ہے جسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔
ہر بلند نور کو نیچے کے نور پرغلبہ و اقتدار حاصل ہے اور نیچے کا نور بلند نور سے محبت رکھتا ہے۔ اور اسی قہر و مہر سے نظام عالم کا وجود وابستہ ہے۔ اور جب بہت سے انوار جمع ہو جاتے ہیں تو بلند نور نیچے کے نور پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے اور نیچے کے نور کو بلند نور کا شوق اور عشق ہو جاتا ہے۔ اس لے نور الانوار یعنی خدا کو اپنے ماسوا تمام موجودات پر غلبہ حاصل ہے اور وہ اپنی ذات کے سوا کسی اور کا عشق نہیں کرتا۔ کیوںکہ وہ ہر چیز سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اور مکمل ہیل۔ اور اس کو اپنا کمال نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ عاشق بھی ہے اور معشوق بھی۔ اور چونکہ خدا سے بہتر کوئی چیز حسین او رمکمل نہیں اس لیے کسی چیز کو بھی دوسری چیز کے عشق میں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو عشق الٰہی میں ہوتاہے۔ غرض نظام عالم کا وجود مہر و قہر سے قائم ہے اور انوار مجردہ کی جس قدر کثرت ہوتی ہے اور جس قدر ان میں علت و معلول کا سلسلہ بڑھتاجاتا ہے اسی قدر نظام عالم مکمل ہوتا ہے اور کل عالم مل کرایک عالم بن جاتے ہیں۔ ٭
٭ (ملحض از شرح حکمتہ الاشراق ص ۳۳۸‘ ۳۳۹‘ ۳۴۰)
اسی فلسفے نے وحدت الوجود کی صورت اختیار کر لی جو اکثر صوفیہ اور شعرائے متصوفین کا ایک دلکش مضمون ہے۔ موجودات کے اندر ہستی جس درجے کی بھی ہے وہ نور الٰہی کی کم و بیش تنویر ہے:
مشکل حکایتے است کہ ہر ذرہ عین اوست
لیکن نمی تواں کہ بشارت بہ او کنند
٭٭٭
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی توکوئی شے نہیں ہے
یہی اشراقی اور فلاطینوسی فلسفہ کی قدر تغیر کے ساتھ جلال الدین رومی کا فلسفہ ارتقا بن گیاہے کہ تمام ارواح خدا سے صادر ہوئی ہیں اوران کی جو ماہیت ہے وہ الٰہی ہے۔ ا س لحاظ سے ارواح بھی غیر مخلوق اور قدیم ہیںَ خدا سے لے کر جمادات تک موجودات کا ایک تدریجی نظام ہے۔ ہر روح خدا سے جدا ہو کر پہلے اسفل السافلین میں گرتی ہے لیکن اپنی اصل کی طرف رجعت کا میلان اس میں بدستور باقی رہتا ہے۔ کل شعی برجع الی اصلع:
ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
تمام کائنات اس لے مائل بہ ارتقاء ہے کہ وہ خدا کی طرف عود کرنا چاہتی ہے۔ اس تنزلاتی اور تدریجی نظام مین وہ جذبہ جو عالم کے اجزا اور نظم عالم غایت حیات اورکائنات نہیں۔ ہر ذرے کا مقصود و صعود الی اللہ ہے۔ ماید سے خدا تک ایک نردبان ہے اور جس ہستی کو بھی خدا کی طرف واپس جانا ہے اسے پایہ پایہ قدم بہ قدم ترقی کرنا ہے۔ مادہ آب و خاک میںجب ایک بیج ڈال دیا جاتا ہے تو اس کے گرد و پیش کا تما م مادہ جو جامد و بے جان معلوم ہوتا ہے‘ نبات کی محبت میں اپنی ہستی کو بنا کر کے نخل کی صورت میں مبدل ہوجاتاہے۔ اسی طرح نبات کو حیوان کھا جاتے ہیں تو نبات حیوانیت کے عشق کی بدولت حیوان کی ترقی یافتہ صورت میں بدل جاتی ہے۔ نبا ت و حیوان دونوں کو انسان کھا جاتا ہے تو وہ انسان بن جاتے ہیں۔ اب انسان کو آئندہ کسی اعلیٰ تر روحانیت کی محبت میں ہستی کے اعلیٰ تر مدراج میں اپنے آپ کو ختم کرنا ہے۔ اسی طریقے سے عشق اعلیٰ تر اقدار حیات کا خلاق بن جاتاہے۔ اور عشق کی بدولت ہستی کا ہر ذرہ وسیع ترین اتحاد پیدا کرنے اور اوپر کی طرف ترقی کرنے پر مائل ہے۔ ارتقا کے متعلق مولانا روم کے اشعار مشہور ہیں:
از جمادی مردم و نامہ شدم
وزنما مردم بہ حیوان سر زدم
مردم از حیوانی و آدم شدم
پس چہ ترسم کے ز مردن کم شدم
حملہ دیگر بمیرم از بشر
تا بر آرم از ملائک بال و پر
بار دیگر از ملک پراں شوم
آنچہ اندر وہم ناید آں شوم
آخر منزل خدا سے وصال کامل ہے جس پر وجود کو کوئی تصور قابل اطلاق نہیں اس لیے صوفیہ نے اس بقا کا نام عدم رکھ دیا ہے۔ جس کے معنی اثبات کامل ہیں نہ کہ نفی ہستی:
پس عدم گردم عدم چوں ارغنوں
گویدم کانا الہ راجعون
صوفیہ کے ہاں خدا کے پاس واپس لوٹنے کے عام ظاہر ی اورشرعی معنی نہیں بلکہ ذات الٰہی میں واصل اور یک رنگ و یک آہنگ ہونا ہے جو تمام جنتوں اور تمام اجروں سے افضل کیفیت ہے او ر ہر ہستی کی منزل مقصودہے:
منزل ما کبریاست
اس نظریہ حیات کو مسلمانوں کے بہت سے حکما نے قبول کیا ہے اور اخوان الصفا کے رسائل کے غیر معلوم مصنفین نے اس کو مسلمانوں میں عام کر دیا ہے۔ عشق کے اس فلسفیانہ نظریے کا لب لباب نہایت وضاحٹ کے ساتھ مثنوی مولانا روم کے مندرجہ ذیل اشعار میں ملتا ہے۔ ذرات کی ترکیب کے متعلق طبیعیات اور کیمیا کے نظریات اور اجرام فلکیہ کے باہمی تجاذب سے ان نظامات کا قیام اور جماد سے انسان تک حیات و کائنات کا طریق ارتقاء سب کی توجیہہ مولانا روم نے اسی نظریہ عشق سے کی ہے:
جملہ اجزائے جہاں زاں حکم پیش
جفت جفت و عاشقاں جفت خویش
ہست ہر جزوے ز عالم جفت خواہ
راست ہمچو کہربا و برگ کاہ
آسماں گوید زمیں را مرحبا
با توام چوں آہن و آہن رہا
میل ہر جزوے بہ جزوے ہم نہد
ز اتحاد ہر دو تولیدے جہد
ہر یکے خواہاں دگررا ہمچو خویش
از پے تکمیل فعل و کار خویش
دور گردوں را ز موج عشق داں
گر نبودے عشق بفسردے جہاں
کے جماعی محو گشتے در نبات
کے فداے روح گشتے نامیات
ہر یکے بر جا فسردے ہمچویخ
کے بدے پران و جویاں چوں ملخ
یہاں پر ایک شک کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔ مشرق و مغرب کے بہت سے محققین اور مورخین نے تمام تصوف اور اس کے نظری اور عملی اور جذباتی پہلوئوں کو اسلام میں خارج سے داخل شدہ چیز سمجھ لیا ہے۔ کوئی اس کو فلاطینوسی فلسفے سے اخذ قرار دیتا ہے تو کوئی بدھ مت اور ویدانت سے اس کا رشتہ جوڑتا ہے۔ اس خیال کو زیادہ تر مغرب کے مستشرقین نے عام کیا ہے کہ ور اس سے ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اسلام تو ایک خشک اور سطحی چیز ہے۔ اس میں فکر و تاثیر کی کوئی گہرائی نہ تھی۔ بالفاظ دیگر وہ ایک بے روح سا جسم تھا جس میں حکاء اسلام نے جو یونانی حکمت سے متاثر تھے اور صوفیہ نے جو غیر اسلامی حیات گریز نظریات کی عملی اور فکری تلقین کرتے تھے۔ حکمت اور روحانتی کوداخل کر کے ایک نیا مرکب بنا دیا جسے ہر ایک اکسیر حیات سمجھنے لگا۔ اس خیا ل نے ایک جزئی حقیقت کو کامل تحقیق بن اکر تصوف اور اسلام کے باہمی تعلق کی بابت گمراہ کن افکار کی ایک تعمیر کھڑی کر دی ہے۔ اس کا جواب ہم مختصراً پہلے دے چکے ہیں کہ عشق کا لفظ قرآن و حدیث میں مستعمل نہیںہے۔ کیوں کہ اس تصور کو بیان کرنے کے لیے عربی زبان میں اس دور تک اور الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ لیکن اسلام کی بنیاد عشق خدا اور عشق رسولؐ ہے۔ اسلام میں کائنات کو باطل فریب ادراک یا ویدانت کی طرح مایا نہیں سمجھتا۔ بلکہ اس خیال کو قرآن کئی جگہ دہراتا ہے کہ یہ کائنات حق ہے باطل نہیں۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا اور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ہم نے اسے یوں ہی کھیل نہیں بنایا یہ ایک معنی خیز اور نہایت سنجیدہ حقیقت ہے۔ جس کامشاہدہ اور جس کے آئین خلاق حیات و کائنات کی صفا ت کی نشاندھی کرتے ہیں۔ قرآن حکمت کو خیر کثیر کہتا ہے اور حکمت اسی چیز کا نام ہے جسے سائنس اور فلسفہ اپنا مقصو دسمجھتا ہے۔ اور مذہبی انسان تزکیہ نفس کو اس کا وسیلہ سمجھتا ہے۔ ارتقائے حیات و کائنات کے اشاروں سے بھی قرآن خالی نہیں وہ مادی کائنات کی ابتدائی حالات وہی بتاتا ہے جس پر آج کل کے طبیعی حکماء متفق ہیں کہ شروع میں ان کے دخان کی سی کیفیت تھی۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ ارض و سماوات پہلے ایک مخلوط سی چیز تھے۔ اس کے بعد اجرام فلکیہ اور ارض الگ الگ ہوئے اور پھر جہاں نباتی یا حیوانی زندگی پیدا ہوئی وہ پانی بننے کے بعد ہوتی۔
اولم یرالذین کفروا ان السموات والارض کانتارتقا ففتقنھما وجعلنا من الماء کل شی ء حی افلا یومنون ۲۱:۳۰
کیا منکرین نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں کا ایک بھنڈ ا سا تھا۔ پھر ہم نے اس کو توڑ کر زمین و آسمان کو الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جان دار چیزیں بنائیں تو کیا یہ لوگ پھر بھی یقین نہ کریں گے؟
انسان کے ارتقاء کی ابتدائی منازل کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ اس دہر میں ابتدائی دور میں وہ ایسا بے حیثیت تھا کہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی اس کا اطلاق بھی فرد پر ہوتا ہے اور نوع پر بھی:
ھل انی علی الانسان جین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا
ْپھر عام انسانی نوع تک پہنچ کر یہ ارتقا ختم نہیں ہوتا کیوں کہ قرآن کا نصب العینی آدم جو انسان کامل کا تصور ہے مسجود ملائک ہے اور یہ جبھی ہو سکتاہے کہ تخلقو باخلاق اللہ کی منزلیں طے کرتا ہوا وہ ایسے صفات پیداکرے کہ جو حکمت و مشیت الٰہی سے ہم آہنگی کی بدولت اس کو الوہیت سے بہت قریب کر دیں۔
امریکہ میں راقم الحروف نے فلسفہ اسلام پر بہت سے لیکچر دیے ۔ ایک روز بوسٹن میں سیسل یوینورسٹی کا مشہور پروفسیر ناتھروپ جس نے شرقی اور اسلامی نظریات حیات پر مبسوط کتابیں تصنیف کی ہیں۔ مجھ سے کچھ سوالات پوچھنے کے لیے ساٹھ میل کی مسافت طے کر کے آیا وہ علامہ اقبال کی بالغ النظری کا بہت قائل تھا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ اقبا ل نے یہ خودی اور عشق کے نظریات قرآن میں سے کہاں سے اخذ کیے ہیں ؟ کیوں کہ اقبال اس تعلیم کا ماخذ قرآن ہی بتاتا ہے۔ میں نے اس کو قرآن کا نظریہ آدم بڑی وؤضاحت سے بتایا اور پھر اس سے دریافت کیا کہ بتائو کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اسی نظریے کی شرح و تفسیر ہے یا نہیں۔ اس نے بے حد شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مدت سے ایک کانٹا میرے دل میں کھٹک رہا تھا۔ آج تم نے وہ کانٹا نکال دیا۔
اسلام یا قرآن کبھی اس کا مدعی نہیں ہوا کہ اس کی تعلیم کے اہم اجزا اس سے قبل کبھی انسانوں پر منکشف نہ ہوئے تھے۔ وہ خواہ مخواہ اوریجنلٹی کا دعویدار نہیں وہ انسانوں کو بھولی ہوئی صداقتیں یاد دلاتاہے جو دنیا کے قریہ قریہ میں مختلف انبیا مختلف زبانوںمیں پیش کر چکے تھے۔ بعض صداقتوں کا انکشاف انبیا پر ہوجاتا ہے اور بعض کا حکماء پر کیوںکہ حکمت بالغہ بھی نبو ت کا ایک جزو یا اس کی ایک قسم ہے۔ اگر قرآنی تعلیمات اور متشابہات کو تقویت پہنچانے کے لیے قبل اسلام کے فلاسفہ یا روحانی انسانوںکے تجربات اور متشابہات کو تقویت پہنچانے کے لیے قبل اسلام کے فلاسفہ یا روحانی انسانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ شرحیں اور تفسریریں غیر اسلامی نہیں بن جاتیں فقط یہ دیکھنا ہے کہ وہ قرآن کی بین اور اساسی تعلیمات سے متناقض نہ ہوں۔ تصوف کی بابت اہم سوال یہ ہے کہ کیا اشراقی نظریہ عشق جو صوفیانہ شاعری کا راس المال بن گیا قرآنی تعلیم کا معاون ہے یا اس کا مخالف؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دین کی اصلی بنیاد توحید ہے اور جس قدر ا س عقیدے میں گہرائی پیدا ہو گی اسی قدر وہ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو تا جائے گا۔ اگر تمام کائنات ایک خدائے واحد کا مظہر ہے تو اس کی کثرت میں وحدت کا ہونا لازمی ہے۔ کثرت میں وحدت نظم و آئین سے پیدا ہوتیہے۔ اور مظاہر میں رابطہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ جب تک ان کے درمیان اتصال کامیلان نہ ہو۔ کائنات کے اجزا باہمی تجاذب ہی سے قائم رہ سکتے ہیں۔ اسی تجاذب اور میلان ربط و صل کو حکماء اشراق اور صوفیہ نے عشق سے تعبیر کیا ہے۔ یہ نظریات اور حقائق تو حید ہی سے اخذ ہو سکتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر خدائے واحد کے علاوہ مختلف اداروں اور خواہشوں والے دیوتا نظم کائنات میں دخیل ہوتے تو کائنات میں تنظیم کی بجائے فساد ہی بپا رہتا۔ تنظیم بھی توحید سے سرزد ہوتی ہے اور ارتقا بھی توحید کا نتیجہ ہے۔ کیوں کہ حد اخلاق ہی نہیں بلکہ رب بھی ہے۔ ربوبیت کا تقاضا نشوونما ہے ۔ یعنی ہر چیز میں جوصلاحیتیں مضمرہیں ان کا امکان سے وجود میں لانا ہے اور اسلام خدا رب المسلمین ہی نہیں بلکہ اپنی لامحدود وسعت ربوبیت میں رب العالمین ہے۔ کائنات میں ہر شے کی ربوبیت رحمت الٰہی نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اور جو ازروئے قرآن ہر شے پر محٰط ہے۔ حکماء اشراقین نے صرف اس کی توضیح کی کہ کائنات میں وحدت اور ربوبیت کے کیا آئین اور کیا طریق عمل ہیں۔ کائنا ت میں تدریج فرق اور مراتب موجود ہے اور ترقی کے معنی اوپر کے دجے کی محبت پیدا کر کے اپنی صلاحیتوں کو بلند تر مدارج تک پہنچانا ہے۔ جس کی بدولت آب و گل نبا ت بن جاتے ہیں۔ اور نبات حیات حیوانی کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ اگر حجازی اسلام میں ابھی یہ افکار اس اندازمیں موجو دنہ تھے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ افکار غیر اسلامی ہیںَ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی صداقت تھی یا ہے وہ اسلامی چیز ہے۔ جلال الدین رومی یا اقبال نے خودی اور عشق کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ قرآن کی بنیادی تعلیم سے اسی طرح پیدا ہوا ہے۔ جس طرح کہ برگ و ثمر سے لدا ہوا نخل بلند ایک معمولی سے بیج میں سے نکلتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تصوف اور حکمت یونانی کے راستوں سے بہت سی غیر اسلامی تعلیمات بھی اسلام میں داخل ہو گئیں لیکن جو شخص روح اسلام سے واقف ہو وہ ان کو آسانی سے الگ کر سکتا ہے۔ محض ان مخربات سے گھبرا کر تمام حکمت و تصوف کو غیر اسلامی بنا دینا فکر و نظر میں افلاس پید ا کرنا ہے۔
تاریخ اسلام میں اقبا کا حقیقی پیش رو عار ف رومی ہے۔ مولانا روم فلسفے اور تصوف دونوں کے اسرار و رموز سے واقف تھے اس لیے وہ دونوں کے فرق وامتیاز سے آشنا تھے۔ وہ خود ایک قسم کے فلسفی تھے اسی لیے مسلمانوں نے انہیں مولوی معنوی کا لقب عطا کیا۔ وہ روحانی عقائد پر بھی حکیمانہ استدلال کرتے ہیں۔ اگرچہ بار بار پڑھنے والے کو اس سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر تم نے خالی استدلال پر بھروسا کیاتو روحانی زندگی کی حقیقت سے پوری طرح آشنا نہ ہو سکو گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے زیادہ عشق پیدا کرو جو کنہ حیات کا کاشف رموز اور وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ رومی کے زمانے میں ایک طرف فلسفہ اور علم کلام زوروں پر تھا۔ اور دوسری طرف صوفیہ نے عشق کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اسی لیے رومی کے کلا م میں عقل و عشق کی آمیزش بھی ہے اور آویزش بھی ۔ یہی حال اقبال کا ہے۔ اس کے ہاں بھی عقل و عشق او ردین و دانش کہیں باہم معاون نظر آتے ہیں تو کہیں ایک دوسرے کے حریف۔ عقلیات نے جو ترقی گزشتہ دو سو سال میں کی وہ رومی کے زمانے کے فلسفے اورسائنس کے مقابلے میں ہزار فرسنگ آگے ہے۔ اسی لیے روحانیت کو جو خطرہ رومی کے زمانے میں فلسفے کی طرف سے محسوس ہوتاہے وہ ا س کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہ تھا۔ جو زمانہ حال کی طبیعی سائنس اور اس سے پیدا شدہ نظریہ حیات کی وجہ سے پیدا ہوا۔ یہ زمانہ تو بقول اقبال آتش زن ہر خرمن ہے اورتمام اقوام کہن اور ان کے مسلمات اس آگ کا ایندھن بن گئے ہیں۔ اس الحاد آفرینی کے خلاف اقبال کو اتنے جو ش و خروش سے جہاد کرنا پڑٓ کہ جو رومی کے ہاں بھی نظر نہیں آتا۔ رومی میں عشق و مستی اقبال کے مقابلے میں کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ لیکن عشق اور عقل کے تقابل میں اقبال نے بعض ایسے نکات پیدا کیے ہیں جو رومی میں کم نظر آتے ہیں مگر اقباال نے عقل و عشق کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ اساسی طور پر رومی میں موجود ہے اورجابجا اقبال ا س سے فیض حاصل کرتا اور مریدی کا اقرار کرتاہے۔ لیکن اقبال نے اس مضمون کو ایسی وسعت دی ہے جو پہلے کہیں نظر نہیں آتی۔ اقبال کو ا س کا قوی احساس پیدا ہو گیا تھا کہ چھٹی صدی ہجری کے قریب جو فتنہ علم کلام اور یونانی فسلفے نے پیدا کیا تھا اسی قسم کا فتنہ زیادہ شر انگیزی کے ساتھ زمانہ حال میں پیدا ہوا ہے۔ اور آج روحانی زندگی کی بقا کے لیے رومی ہی کے قسم کے آدمی کی ضرورت ہے۔ جو عقل اور عشق دونوں کا رمزشناس ہو اور جزوی عقل طبیعی کے لیے مقابلے میں جذبہ عشق کو استوار کرے۔ اقبا ل کہتا ہے کہ دور حاضرمیں خدا نے اس جہاد کے لیے مجھے مامور کیا ہے:
چو رومی در حرم دادم اذان من
ازو آموختم اسرار جاں من
بہ دور فتنہ عصر کہن او
بہ دور فتنہ عصر رواں من
ہم اس سے پہلے کس قدر شرع و بسط کے ساتھ یہ لکھ چکے ہیں کہ اقبال عقل اور فلسفے کے متعلق کیا کہتا ہے۔ وہ اکثر اس کے مقابلے میں عشق کو پیش کرتا ہے اور ا س تقابل میں دونوں کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عشق کی گرفت اس کے قلب پر ایسی ہے کہ ہزا ر طریقوں سے اس کا ذکر کرتا ہے مگر ہر شعر میں انداز بیان نرالا ہوتا ہے۔ کہیں خالی جذبے کا اظہار ہے اور کہیں یہ واضح کرتا ہے کہ زندگی میں عشق کا مقام اور وظیفہ کیا ہے عششق کے متعلق اس نے جو کچھ کہا ہے اگر سب کو جمع کیاجائے تو ایک دفتر بن جائے ۔ کیوں کہ دور آخر میں یہ مضمون اس کی تمام وجدانی شاعری پر چھایا ہو ا ہے۔ کچھ منتخب اشعار درج ذیل کیے جاتے ہیں جن سے عشق کے متعلق اس کے نظریات کے مختلف پہلو سامنے آ جائیں گے:
زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل
بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری ست
عشق نہ فقہ ہے نہ زہد اور نہ حکمت اس میں یک بینی یک گیری اورسادگی ہے۔ عقل کے نظریات استدلال سے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ اور کسی ایک یقین پر قائم نہیںہونے دیتے:
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے زاہد نہ حکیم
قرآن کی کلامی اورروایتی تفسیریں بھی وہ گہری روحانیت پیدا نہیں کر سکتیں جو عشق سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے مفسر اعظم امام رازی کے متعلق جو کچھ رومی نے کہا اقبال بھی اس کو دہراتا ہے:
پاے استدلالیاں چوبیں بود
پاے چوبیں سخت بے تمکین بود
گر باستدلال کار دین بدے
فخر رازی رازدار دیں بدے
(رومی)
علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
(اقبال)
بو علی اور فارابی جیسے فلاسفہ کے حقیقت نارس ہونے کے متعلق رومی میں بھی کئی اشعار ملتے ہیح اور اقبال کے کلام میں بھی۔ بو علی سینا اور فارابی کی کتابوں کے اندر جاگزیں کرم کتابی پروانے سے اظہار افسوس کرتا ہے۔ کہ مدتوں سے اس کتاب کو چاٹ رہا ہوں لیکن اس کی حکمت نے مجھے کچھ نہیں سمجھایا۔ پروانہ جواب دیتا ہے کہ اسرار حیات تپش عشق سے فاش ہوتے ہیں جس سے زندگی بھی پیدا ہوتی ہے اور پرواز بھی۔ کتاب میں سے نکلو تو تمہیں کچھ حاصل ہو۔
شنیدم شبے در کتب خانہ من
بہ پرواز می گفت کرم کتابی
باوراق سینا نشیمن گرفتم
بسے دیدم از نسخہ فاریابی
نفہمیدہ ام حکمت زندگی را
ہمان تیرہ روزم ز بے آفتابی
نکو گفت پروانہ نیم سوزے
کہ ایں نکتہ را در کتابے نیابی
تپش می کند زندہ تر زندگی را
تپش می دہد بال و پر زندگی را
عشق انسان کے اندر بصیرت اور قوت دونوں کا اضافہ کرتا ہے اوراسے ایسی حقیقت سے آشنا کرتا ہے جو زمانی اورمکانی نہیں۔ عقل عالم مادی کو مسخر کرنے میں ید طولیٰ رکھتاہے۔ عقل خارا شگاف ہے مگر عشق عالم مادی کو پرکاہ کے برابر سمجھتا ہے۔ عشق کی قوت طبیعیات کے علم سے پیدا نہین ہوتی۔ اس کا ماخذ روح انسانی ہے جس کی باطنی قوتیں لامتناہی ہیں:
می نداند عشق سال و ماہ را
دیر و زود و نزد و دور راہ را
عقل در کوہے شگافے می کند
یا بگرد او طوافے می کند
کوہ پیش عشق چوں کاہے بود
دل سریع السیر چوں ماہے بود
زور عشق از باد او خاک و آب نیست
قوتش از سختی اعصاب نیست
مگر اکثر صوفیہ کے ہاں عشق فعال اور خلاق دکھائی نہیںدیتا۔ وہاں زیادہ تر محویت اور استغراق نظر آتاہے۔ یہ استغراق خلوت ہی میں حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن خالی خلوت سے یک طرفہ روحانیت اور رہبانیت پیدا ہوتی ہے جو اسلام میں ممنوع ہے۔ زندگی کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہستی میں نفس بھی ہے اور آفاق بھی۔ اور ازروئے قرآن ظاہر و باطن ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جن کو الگ کرنے کی کوشش ناکامی کا باعث ہوتی ہے۔ اقبال نے خلوت کی تعریف میں بہت کچھ کیا ہے۔ خلوت میں روح اور عشق کی پرورش ہوتی ہے۔ لیکن اس تربیت باطنی کا نتیجہ جلوت میں ظاہر ہونا چاہیے تاکہ شخصی اور اجتماعی زندگی میں انقلاب پیدا ہو رسول اللہ صلعم نے بھی ایک زمانہ خلوت کو کبھی ترک نہ کیا۔ اقبال کے نزدیک عشق کی بہترین مثال رسول کریم صلعم کی زندگی ہے جس میں خلوت اور جلوت کا توازن پایا جاتا ہے۔ عقل جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق خلوت کی طرف لیکن زندگی کی تکمیل دونوں کے توازن سے ہوتی ہے۔
عقل او را سوے جلوت می کشد
عشق او را سوے خلوت می کشد
جلوت او روشن از نور صفات
خلوت او مستیز از نور ذات
خلوت نشینی کا مقصد نور ذات سے مستیز ہو کر ملتوں کی زندگی اور انسانوں کی سیرتوں میںانقلاب پیدا کرنا ہے۔ مگر خلوت میں عشق کی کیفیات سے لذت اندوزی مقصود حیات نہیں۔ خلوت میں جب انسان اپنی پوری خودی کے اسرار فاش ہوتے ہیں تو وہ جلوت میں ایک نیا عالم پیدا کرتی ہے:
مصطفی اندر حرا خلوت گزید
مدتے جز خویشتن کس را ندید
نقشما را در دل او ریختند
ملتے از خلوتش انگیتند
اگر کسی فرس کے عشق الٰہی سے کوئی نیا عالم پیدا نہ ہو جو زندگی کے فرسودہ طریقوں کو تقویم پارینہ کر دے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اقدار کی تقدیر نو کر دے تو ایسا عشق روحانی لذت کا اسیر ہو جاتاہے اور کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکتا:
بیا اے کشت ما اے حاصل ما
بیا اے عشق اے رمز دل ما
کہن گشتند ایں خاکی نہاداں
دگر آدم بنا کن از گل ما
یہ ویسی ہی خواہش ہے جورومی ے عشق نے بھی اس کے دل میں پیدا کی تھی۔ رومی اقبال کی طرح ارتقائی صوفی ہے اور آدم جس درجے تک پہنچ سکا ہے اس سے آگے قدم رکھنے کا آرزو مند ہے۔ خواہ اس نئے عالم اور نئے آدم کا تصور پوری طرح ذہن میں نہ آ سکے۔ بہرحال یہ تمنا فطرت حیات میں مضمرہے جسے غالب نے اس بلیغ شعر میں ادا کیا ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
٭٭٭
دی شیخ با چراغ ہمی کشت گرد شہر
کز دامو دو ملولم و انسانم آرزوست
از ہمرہان ست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم یزدانم آرزوست
گھتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
مغربی حکما میں مجذوب فرنگی نطشہ بھی انسان کو فوق الانسان ہستی بننے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور موجودہ انسان کے سست عناصر ہونے سے بیزا ر تھا۔ لیکن اس اعلیٰ تر نوع کے جو صفات وہ بیان کرتا ہے اس سے تو وہ محض الحیوان ہستی ایک مطلق العنان قوی تر جوان ہی معلوم ہوتاہے۔ اسی لیے اقبال نے لکھا ہے کہ عظمت انسانی کے تصور میں یہ مرد حکیم بھٹک گیا۔
مشرقی عشق الٰہی میں مستغرق ہو کر دنیا و مافیہا سے غافل ہو گئے۔ او ر مغربی اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ عقلیت اور مادیت ہی سے ایک بہتر قسم کا عالم انسانیت پیدا ہو سکتاہے۔ اقبال نے اس خیال کو کئی جگہ دہرایا ہے کہ عالم نو عشق او رعقل کی آمیزش ہی سے پیدا ہو سکتا ہے یہ کام ابھی نہ شرقیوں نے کیا ہے اور نہ غریبوں نے۔ اس لیے اقبال کہتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑو ان دونوں کی قیمت ایک جو کے برابر نہیں:
بگذر از خاور و افسوسنی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
عشق اور زیرکی کی آمیزش سے ایک نیا عالم اور نیا آدم پیدا کرنا اقبال کا خاص مضمو ن ہے۔ جو اس کے مرشد رومی کے کلا میں بھی اس وضاحت سے نہیں ملتا۔ رومی کے ہاں اس مضمون کے نہایت دل کش اشعار ملتے ہیں کہ اس زمانی اور انسانی و حیوانی عالم کے علاوہ وسعت تر عالم موجود ہیں۔ جن کاانکشاف روحانی ترقی سے انسان پر ہوتا ہے۔ وہ کہتاہے کہ اس جہاں کی مثال رحم کی سی ہے جس میں سے نکل کر انسان پر وسیع تر عالم منکشف ہوتے ہیں اس لیے وہ عشق کی اس باطنی بصیرت افروزی اور وسعت آفرینی کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن یہ مضمون اس کے ہاں نہیں ملتا کہ اسی زمانی اور مکانی عالم کے اندر رہتے ہوئے عشق اور عقل کے تعاون سے عالم نو پیدا ہو سکتا ہے۔ مغرب میں کئی انقلابی تحریکیں ہوئی ہیں اور ہر ایک اس کی مدعی ہوئی کہ اس کی بدولت انسان ایک جدید اور دلکش دنیا بنا لے گا جو حسن و جمال علم و کمال اور عدل و محبت سے لبریز ہو گی۔ لیکن ہر انقلاب کے بعد انسانوں کو مایوسی ہوئی کہ انسان کے ظلوما جہولا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ کچھ اضافہ ہی ہو گیا ہے۔ اقبال اب ایک نسخہ تجویز کرتا ہے کہ جس پر کسی تہذیب و تمدن نے ابھی تک پوری طرح عمل نہیں کیا۔ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فرنگیوں کی طرف نہ دیکھو اور میرا نسخہ استعمال کرو جو طلوع اسلام کے وقت مسلمانوں نے چند روز استعمال کیا تھا:
خیز و نقش عالم دیگر بنہ
عشق را با زیرکی آمیز دہ
٭٭٭
شعلہ افرنگیاں نم خوردہ ایست
چشم شاں صاحب نظر دل مردہ ایست
سوز ومستی را مجو از تاک شاں
عصر دیگر نیست در افلاک شاں
زندگی را سوزو ساز از نار تست
عالم نو آفریدن کار تست
عشق کی ہر قوم کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔ لیکن جس شاعرمیں حکیمانہ نگاہ کی کمی ہوتی ہے اور تاثر کی زیادتی وہ اپنی شاعری میں اپنے عشق کی کیفیات اور معاملات کو بیان کر دیتا ہے۔ اور اس کے متعلق کوئی نظریہ پیش نہیں کرتا۔ لیکن کہیں کہیں عشق مجازی یا عشق حقیقی سے بہرہ اندوز شاعر ایسے بھی پیدا ہو جاتے ہیں کہ جن کی طبیعت میں فکر و تاثر کی آمیزش ہوتی ہے۔ وہ اپنی کیفیات اور نفسیات بھی بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تمام زندگی میں عشق یا محبت کا جو مقام ہے اس کے تعین کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ رومی کی طرح کے بعض صوفی شعراء ایسے بھی گزرے ہیں جن میں عشق مجازی کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ وہ زبان عشق مجازی ہی کی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ جس قسم کے عشق کو وہ محسوس کرتے ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے کوئی زبان وضع نہیں ہوئی۔ عارف رومی بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہتا ہے:
کاشکے ہستی زبانے داشتے
تا ز مستاں پردہ ہا برداشتے
اے خدا بنما تو جان را آں مقام
کاندراں بے حرف می روید کلام
اور مرزا غالب اس بے بسی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
جہاں فکر و اندیشہ کا دخل نہیں وہاں زبان کہاں سے آئے گی کیوں کہ انسان کے اندر فکر و زبان ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں اور بعض ماہرین نفسیات کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے اندر کوئی خیال زبان کا جامہ پہنے بغیر ذہن میں آ ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے مرزا صاحب یہ نصحت فرماتے ہیں کہ:
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن
اکثر صوفیہ و حکماء کی طرح اقبال کی زندگی میں بھی عشق مجازی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی عالم شباب کی شاعری میں کہیں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ مگر یہ آتی جاتی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ان کا یہ شبابی عشق مصری کی مکھی کی طرح ہے شہد کی مکھی نہیں جس کے پائوں اس میں دھنس کر رہ جائیں بقول غالب:
من بجا ماندم و رقیب بدر زد
نیمہ لبش انگبیں و نیمہ طبرزد
اصل حقیقت وہی ہے کہ جسے انہوںنے بعد میں ایک مصرعے میں ادا کر دیا ہے کہ دل بکسے نہ باختہ کسی فرد کے عشق میں اقبال کبھی بھی آہین بھرتا یا شب فراق میں اختر شماری کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر بانگ درا کی شبابی نظموں کے ساتھ ساتھ ہی اس کے عشق کے متعلق بھی نظمیں ملتی ہیں۔ جسے عشق حقیقی کہیے یا عشق الٰہی یا عالم گیر حٰات و کائنات کے متعلق ایک گہرا اور وسیع مگر مبہم جذبہ بانگ درا میں درد عشق کے عنوان سے ایک نظم ہے۔ یہ وہ درد ہے جو روح اور فطرت کی گہرائیں میں پایا جاتا ہے۔ اور جسے پنہاں رکھنا اس کی پرور ش کرنا ہے۔ یہاں مجاز سے حقیقت کی طرف گریز ہے۔ ظاہر پرست جسے عشق کہتے ہیں اور جس کی بابت مولانا روم
ایں نہ عشق است این کہ در مردم بود
ایں فساد از خوردن گندم بود
یہ عشق نہیں بلکہ جسمانیت کی پیدا کردہ ہوس ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ایسوں سے عشق کی بات نہ کرنا وہ اسے اپنی قسم کا عشق سمجھ لیں گے۔
اے درد عشق! ہے گہر آبدار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں نہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل تو کی نگاہ ہے
پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو
آواز نے میں شکوہ فرقت نہاںنہ ہو
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
اسی نظم کے آخری اشعار میں اقبال نے اپنا وہ نظریہ بھی بیان کر دیا ہے کہ جس میں وہ رومی جیسے صوفیہ کا اہم آہنگ ہے۔ کہ علم و عقل جو حیرت پیدا کرتی ہے وہ اس س یالگ چیز ہے اور خالی حکمت کی رسائی عشق پنہاں تک نہیں ہو سکتی:
غافل ہے تجھ سے حٰرت علم آفریدہ دیکھ!
جویا نہیں تری نگہ نا رسیدہ دیکھ
رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدہ حکمت پسند کو
یہ انجمن ہے کشتہ نظارہ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
اقبال کے اس دور میں ضمیر فطرت کا یہ پنہاں جذبہ ہے خلوت سے جلوت میں آنے پر مائل معلوم نہیں ہوتا۔ ابھی وہ فعال وخلاق و انقلاب آفرین نہیں بنا۔ اس کے عشق میں یہ ارتقاء رفتہ رفتہ ہو گا اور انجام کار اس کا رنگ اور ٓہنگ ایسا ہو جائے گا کہ جو اس کو خلوت نشیں حیات گریز محض خدا مست صوفیوں سے الگ کر دے گا۔ زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز کا جذبہ ابھی اس میں نظر نہیں آتا۔
ٹینی سن کی ایک نظم کا آزاد ترجمہ بھی بانگ دار میں ملتا ہے۔ اس کا موضوع یہ ہے کہ عشق کے فرشتے سے موت کے فرشتے کی ملاقات ہو گئی۔ ملک العشق کے سوال کرنے پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میرا کام رخت ہستی کے پرزے اڑا دینا ہے۔ لیکن ایک چیز ہے جو میری فنا کوشی کی گرفت میں نہیں آتی اور میں اس کے مقابل میں آئوں تو خو د اس طرح اڑ جاتاہوں جس طرح آگ سے پارہ ہوا ہو جائے۔ یہ آگ جو انسان کے دل میں شرر بن کر پنہاں رہتی ہے وہ نار بھی ہے اور نور بھی۔ یہی شرر نور مطلق کی آنکھوں کا تارا ہے ملک العشق کے لبوں پر ایک تبسم کی لہر آئی جو بجلی بن کر اجل پر گری اور عشق کے سامنے فضا کو خود موت آ گئی۔ موت کہتی ہے:
اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا
مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی
وہ آتشہے سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انسان کے دل میں
وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا
٭٭٭
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا
گری اس تبسم کی بجلی اجل پر
اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا
بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی ہو
قضاتھی شکار قضاہو گئی وہ
جسمانی زندگی میں حیات و موت عناصر مادی کی ترکیب وتحلیل کا نام ہے۔ لیکن جوہر روح ا س عالم کون و فساد کی چیز نہیں۔ اس کی حقیقت نہ مادی ہے اور نہ زمانی و مکانی۔ اس جوہر روح کی بقا کا ضامن عشق ہے۔ جس کی بدولت انسان ابد پیوند ہو جاتا ہے۔ محض حکمت موت پر غالب نہیں آ سکتی؟ چوں قضا آید طبیب ابلہ شود بقا فقط عشق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ عشق حقیقی ماخذ حیات بھی ہے اور مقصود حیات بھی۔ وہ جادہ حیات بھی ہے اور منزل حیات بھی:
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق
عشق اگر اشیاء افراد کے ساتھ وابستہ ہوجائے تو وہ خود حادث بن جاتا ہے۔ حادث کا عشق بھی حادث ہو گا۔ اس لیے عارف رومی فرماتے ہیں:
عشق آں زندہ گزیں کو باقی است
و ز شراب جانفرایت ساقی است
اپنی شبابی نظموں میں اقبال نے اس تغیر پذیر عشق کا بھی دل کھول کر ذکر کیاہے اور معشوق کے ساتھ بے وفائی اور اپنے ہرجائی ہونے کاجوا ز پیش کیا ہ۔ نظم کا عنوان عاشق ہرجائی ہے:
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟
ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے
لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو
تیری بیتابی کے صدقے ہے عجب بیتاب تو
اس کا جواز پیش کرتے ہوئے افلاطونی تصوف سے مدد لی ہے کہ ہر حسین حسن مطلق کے پرتو سے حسین دکھائی دیتا ہے۔ یہ پرتو مٹا اور حسن حسین غائب ہوا:
گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں
جستجو کل کے لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے
حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں
زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتاہوں میں
سچ اگر پوچھیے تو افلاس تخیل ہے وفا
دل میں ہر اک دم نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں
عشق کو آزا دستور وفا رکھنے کا آخر میں یہ نتیجہ ہوا کہ اقبال کو کسی معشوق سے نہیں بلکہ خود عشق سے عشق ہو گیا۔ وہ عشق جو پکارنے لگا صورت نہ پرستم من وہ عشق جو زمان و مکان اور افراد و اشیا کا خالق ہونے کی وجہ سے خود اپنے پیدا کردہ حدود و قیود سے آزاد ہو گیا۔ اس کو عشق الہی کہیے یا عشق حیات لامتناہی۔ اقبال اسی میں مست ہو گیا اور اسی کی تصریح و تبلیغ کرنے لگا۔ اس عق نے وہ تلاطم پیدا کیا جو بقول غالب:
شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے
اقبال کی اس نظم کا مقطع عشق اور ماہیت حیات کے متعلق اس کے آئندہ تصورات کا آئنہ دار ہے شعر صد فی صد بیدل کے رنگ کا ہے مگر اقبال کا اپنا ہے:
در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما
موج بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما
اس عشق کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا اور خود اقبال اس کی انتہا کا آرزو مند نہیں کیوں کہ اس کے نزدیک ز ندگی ازل سے ابد تک جستجو ہی جستجو ہے:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
ابتدائی غزلوں می اقبال کا ایک شعر تھا:
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ عشق کی انتہا بھی ہوتی ہے اور کیا آپ واقعی ا س کی انتہا کے متمنی ہیں؟ اس کا جواب اقبال نے یہ دیا کہ آپ نے دوسرے مصرع پر غور نہیںکیا کہ میں نے خود اس آرو کو سادگی یعنی بے وقوفی کہا ہے۔ یہ جواب کچھ اسی اندا زکا ہے جو غالب کے ایک شعر کے متعلق ایک صاحب نے دیا:
غلطیہائے مضامین مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا کہتے ہیں
معترض نے کہا کہ غالب فارسی دانی کے کمال کے باوجود ٹھوکر کھا گیا ہے لفظ غلطیہا غلط ہے صحیح لفظ غلطہا ہے۔ جواب دینے والے نے کہا عجب بے وقوف ہو غالب نے جان بوجھ کر غلط لکھا ہے اس لیے وہ خود کہ رہا ہے کہ غلطیہائے مضامین مت پوچھ اس کے باوجو د تم پوچھنے پر اصرار کرتے ہو۔
بانگ درا میں ایک نظم پیام عشق کے عنوان سے ہے جہاں اقبال کا نظریہ عشق نمایاں ہو گیا ہے ۔ کہ عشق ایک انقلاب آفریں اور ارتقا کوش جذبہ ہے:
سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا
کسی زمانے میں بھی کسی فرد نے جو کمال پیدا کیا ہے وہ عشق کی بدولت تمام انسان پیدا کر سکتے ہیں:
فیض روح القدس ار باز مدد فرماید
دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد
(حافظ)
اقبال کہتا ہے کہ سکندر نے آئینہ بنایا تھا تو بھی بنا سکتا ہے۔ تیرے سینے میں بھی اس کا سامان موجود ہے۔ پیکار حیات کو نافہم لوگ عشق کے منافی سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ مصاف ہستی خود عشق نے پیدا کی ہے تاکہ آویزش و ورزش سے تیری قوتوں میں اضافہ ہو۔ عشق کسی افعالی تاثر کا نام نہیں ہ۔ وہ کمال درجے کی فعلیت کا مصدر و ماخذ ہے۔ عشق کو مسخر حیات و کائنات ہونا چاہیے۔ قناعت کے یہ معنی نہیں کہ تو اپنی آرزوئوں کو محدود کرے ۔ زندگی کی وسعت تو توفیر آرزو سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ آرزو ایسی ہونی چاہیے کہ جو مفاد حاضر پر نظرجمانے کی بجائے موجود و غائب ہستی پر محیط ہو۔ فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر ہو:
نہ ہو قناعت شعار گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا
اسی خیال کو اقبال نے ایک اور شعر میں ادا کیا ہے:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
یہاں غالب کا ایک صوفیانہ اور حکیمانہ شعر یاد آ گیا :
ہر چہ درمبداء فیاض بود آن من است
گل جدا ناشدہ از شاخ بدامان من است
غالب کا یہ شعر اقبال کے شعر سے اونچا ہو گیا ہے پھولوں اور کلیوں کو توڑنے اور اپنے پیراہن کے دامن کو دراز کرنے کی ضرورت نہیں کائنات کے متعلق ایسا ذوق اور ایسی نگاہ پیدا کرنی چاہیے جو توڑنے کے بغیر گلشن حیات کے پھول انسان کے تاثر اور شعور کے دامن میں آ جائیں اقبال خود بھی عشق میں اسی قسم کی وسعت چاہتا ہے۔ مگر غالب کا انداز بیان زیادہ لطیف ہے ۔غزل کے آخری اشعار میں اقبال عشق کی طرف سے یہ پیغام دیتاہے کہ اب عشق الٰہی میں راہبانہ صحرا نوردیوں کا زمانہ نہیں اب عشق کی بدولت محفل کومستیز ہونا چاہیے اور اسے ملت میں فروغ و ترقی کا سامان مہیا کرنا چاہیے:
گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میاں محفل گداز ہو جا
عبدالقادر کے نام پیام میں بھی اقبال یہی کچھ کہہ گیا ہے:
شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں
خود جلٰں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
ْاقبال کے فارسی کلام میں عشق کا ولولہ بھی ہے اور اس کے بیان میں حکیمانہ کثرت بھی ہے۔ رفتہ رفتہ تمام کائنات پر یہ رنگ چھا گیا ہے ااس کے اشعار سے جو تاثر اور اس کے ساتھ جو بصیرت پیدا ہوتی ہے نثر میں اس کے متعلق کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی حکیم نباتی پھول کو توڑ کر اس کے اجزا کا تجزیہ کرے۔ بہرحال ان کے اندر فکر یا نظریہ حیات کا جو پہلو ہے اس کا افہام و تفہیم کی خاطر الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسی تنقید بھی برگ درخت سبز کے مقابلے میں ایک زرد و خشک خزاں زدہ پتا معلوم ہوتی ہے۔ شعر ایک ذوق چیز ہے اس میں سے زبان کی صفتوں اور مضمون کو اخذ کر دینا وہی شکایت پیدا کرتا ہے جو کسی مدرس کی تنقید پر انوری کی زبان سے نکلی تھی۔ کہ شعر مرا بمدرسہ کہ برد اقبال بھی یہ شکایت کر سکتا ہے کہ شعر مرا بفلسفی کہ برد۔ اس تنقید کا ایک ہی جواز ہو سکتا ہے کہ حضر ت نے خود بھی شعر میں حکتم کی آمیزش کی ہے اور اس لیے اس میں سے حکمت کو الگ کر کے دیکھنا یا دکھانا کوئی ایسا بڑا جرم نہیں۔
ہم کچھ اشعار پیام مشرق میں سے نقل کرتے ہیں۔ حسب ضرورت کسی قدر شرح بھی بیان ہوتی جائے گی۔
لالہ طور کی پہلی رباعی ہی میں اقبال نے تمام ہستی کو خلاق وجود کا عاشق بتایا ہے اسی لیے ہر ذرہ شبیہہ ناز ہے:
شہید ناز او بزم وجود است
نیاز اندر نہاد ہست و بود است
نمی بینی کہ از مہر فلک تاب
بسیمائے سحر داغ سجود است
اس کی تشریح میں غالب کے دو اشعار درج کرنے کے قابل ہیں۔ ایک فارسی کا شعر ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ ہر رے کا رخ خدا کی طر ف پھرا ہوا ہے۔ اگر کسی کی چشم بصیرت وا ہو تو اسے خدا کی طرف جانے کے لیے کسی خضر راہ کی ضرورت نہیں۔ صحرا کے ذرے ہی رہنمائی کے سکتے ہیں:
اے تو کہ ہیچ ذرہ را جز برہ تو روے نیست
در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری
دوسرا شعر اردو کا ہے:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدہ مجنوں بہ چشمکہائے لیلیٰ آشنا
پیام مشرق میں دوسرے قطعے میں اقبال کہتا ہے کہ عشق کو جنون سمجھنے والا رمز حیات سے بے گانہ رہتا ہے۔
تیسرے قطعے میں عشق کا وہی اشراقی اور ارتقائی نظریہ ہے جسے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جماد و نبات و حیوان و انسان میں نظم و نسق اوربصیرت اور ترقی عشق کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ عشق ہی پھول کھلاتا اور جماد کو نبات بناتا ہے۔ اورسمندروں کی تہہ میںظلمتوں کے اندر چشم ماہی میں بینائی اسی ذوق حیات کی بدولت پیدا ہوتی ہے جس کا دوسرا نام عشق ہے:
بباغاں باد فروردیں دبد عشق
براغاں غنچہ چوں پرویں دبد عشق
شعاع مہر او قلزم شگاف است
بماہی دیدہ رہ بیں دہد عشق
ارتقا کا ایک مادیاتی اور میکانکی نظریہ وہ ہے جو ڈارون کے نام کے ساتھ وابستہ ہے۔ کہ ہر جاندار زندہ رہنے کی کوشش میں ماحول سے توافق پیدا کرنے کی سعی کرتاہے اور اتفاق سے بعض جانداروں میں ایسے اعضا پیداہوجاتے ہیں کہ جو پیکار حیات میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اور توارث کے وسیلے سے وہ ایک نوع اصلح میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ کسی جاندار کی زندگی اپنے اندر سے کوئی خود ارتقائی قدم نہیں اٹھاتی۔ بہت سے حکماء اس ارتقاء کو صحیح نہیںسمجھتے اور اس کے قائل ہیں کہ افزونی حیات کا ارتقائی جذبہ انواع میں نئے اعضا اور نئے حواس پیدا کرتا ہے۔ اقبال کابھی یہی عقیدہ ہے۔ جسے ا س قطعے میں بیان کیا گیا ہے۔ اور جگہ بھی کئی اشعار میں اقبال نے اس خیال کو دہرایا ہے چکور کو رقاص پائوں شوخی رفتار کے ذوق نے عطا کیے ہیں اور بلبل میں منقار ذوق نوانے پیدا کی ہے۔ یہاں علت و معلول کا سلسلہ عام تصور کے برعکس ہے۔ اقبال کے نزدیک حقیقت یہ نہیں ہے کہ اتفاق سے خاص قسم کی ٹانگیں کبک کو مل گئیں جن کی بدولت اس کے لیے ناچنا ممکن ہو گیا۔ یا منقار اور گلے کی خاص ساخت کی وجہ سے بلبل نوا گر ہوگئی:
بلبل از ذوق نوا منقار یافت
کبک پا از شوخی رفتار یافت
عشق کا یہ تصور تمام کائنات کو ہم رنگ بنا دیتا ہے۔ جو جذبہ گل و لالہ میں ہے وہی جذبہ ترقی یافتہ صورت میں انسان کے اندر ہے۔ وہاں بھی وہ انقلاب اور ارتقاء پیدا کرتاہے اور نفس انسانی میں بھی۔ غرضیکہ خاک و افلاک سب عشق کی زد میں ہیں:
بر برگ لالہ رنگ آمیزی عشق
بجان ما بلا انگیزی عشق
اگر ایں خاکداں را واشگافی
درونش بنگری خوں ریزی عشق
شاعرانہ تمثیلیں اورتشبیہیں کبھی استدلال کے مقابلے میں زیادہ یقین آفریں اور دل نشیں ہوتی ہیں اور کبھ ثبوت کو کمزور بھی کر دیتی ہیں۔ ابھی اقبال کہہ چکا ہے کہ ذرے کا بھی دل چیریں تو اس کے اندر بھی زندگی کی تڑپ دکھائی دے گی۔ جسے وہ خون ریزی عشق کہتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ہی کے قطعے میں محبت کے عالم گیر ہونے پر شک پیدا ہو جاتا ہے:
نہ ہر کس از محبت مایہ دار است
نہ باہر کس محبت ساز گار است
بروید لالہ با داغ جگر تاب
دل لعل بدخشاں بے شرار است
کسی روحانی بصیر ت کے بغیر بھی حکیم طبیعی نے دل لعل بدخشاں کے اندر حکمت کی نظر ڈالی تو اسے وہاں نظام شمسی سے زیادہ جذب وا ضطراب دکھائی دیا اور اس کا اقرا ر کرنے لگا کہ اس سخت اور ٹھوس اور جامد نما لعل کے اندر حرکت کا ایسا محشرستان ہے جو ریاضیات اور طبیعیات کے قوانین کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی طبیعیاتی چیز نہیں بلکہ ایک شوق عناں گسیختہ ہے۔ غالب کی بصیرت کو طبیعیات نے بھی برحق ثابت کردیاہے:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدہ مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا
ساتویں قطعے میں یہ مضمون ہے کہ عشق کااس تذبذب سے رابطہ نہیں کہ آرزو برآئے یا نہ آئے اس کی فطرت ہی شہید سوز و ساز آرزو ہونا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ جو اقبال نے ایک اور جگہ ایک مصرعے میں کہی ہے کہ:
صلہ شہید کی اہے تب و تاب جاودانہ
کیا عجیب الہامی مصرع ہے تاریخ گوئی کے ایک ماہر کو یہ القا ہوا ہے کہ یہ مصرع شہید ملت لیاقت علی خاں کے سالل وفات کا مادہ ہے۔
اقبال کے نزدیک میلان بقا و ارتقا کانام عشق ہے جو ہر لمحہ احوال نو کا شائق ہے۔ اسے ایک حالت پر قائم رہنا پسندنہیں۔ ہرلمحہ جہان نو پیدا کرنا اس کی فطرت میں داخل ہے:
کہن را نو کن و طرح دگر ریز
د ما بر تنابد دیر و زودش
اقبال کی طبیعت غالب سے زیادہ جدت پسند ہے جو کہتا ہے:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا برافگنم
در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
اقبال کے ابتدائی فارسی کلام میں بھی یہ شعر ملتا ہے:
طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم
ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی
خدا کی صفت کل یوم ہو فی شان ہے۔ چونکہ آدم کے اندر بھی اس نے اپنی ہی روح پھونکی ہے یہی صفت آدم کی فطرت میں بھی ہے۔ اور اس جدت آفرینی میں وہ خدا کا شریک کار ہو گیاہے۔ خدا کی آفرینش کے اندر یہ اپنی صناعی سے کچھ اضافہ کر دیتا ہے:
نوائے عشق را ساز است آدم
کشاید راز و خود راز است آدم
جہاں او آفرید ایں خوب تر ساخت
مگر با ایزد انباز است آدم
عشق حسن سے پیدا ہوتا ہے اور پھر خود حسن آفرینی کرتا ہے۔ حسن و عشق ایک دوسرے کی علت و معلول ہیں۔ اقبال کے کلام میں عشق اور خودی کا مضمون جابجا ایک ہو گیا ہے عشق کو خودی سے اور خودی کو عشق سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اور اس نے اس مضمون کو کئی طرح باندھا ہے کہ عاشقی کوئی تقلیدی چیز نہیں۔ اصل عشق وہی ہے جو اپنے اندر سے ابھرے ۔ دوسرے کی آگ پر کرنا یا دوسروں سے تجلی کا تقاضا کرنا خودی اور عشق دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے:
دلا نارائی پروانہ تاکے
نگیری شیوہ مردانہ تاکے
یکے خودرا بسوز خویشتن سوز
طواف آتش بیگانہ تاکے
٭٭٭
کب تلک طور پر دریوزہ گری مثل کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر
یہ مضمون حافظ کے اس شعر میں بھی ملتا ہے کہ:
آتش آں نیست کہ بر شعلہ او خندد شمع
آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند
عشق میں متضاد نما کیفیات پائی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ اس منطق کی گرفت میں نہیںآتا۔ جس کی بنیاد ہی عدم تضاد ہے۔ ایک طرف عشق طبیعت میں ایک ایسی غیر معمولی محکمی اور قوت پیدا کرتا ہے کہ حوادث کے تھپیڑے اس پر کچھ اثر نہیں ڈالتے۔ اور دوسری طر ف اس میں کمال درجے کی رقت اور رافت ہوتی ہے۔ جوبظاہر ایک انفعالی تاثر معلوم ہوتا ہے۔ مگر عشق کے کمال میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اس سختی اور نرمی کی یکجائی کہسار اور جوئے کہسار میں ملتی ہے:
تنے پیدا کن از مشت غبارے
تین محکم تر از سنگیں حصارے
درون او درد دل آشنائے
چو جوئے درکنار کوہسارے
علامہ اقبال ایک روز اپنے شہر کے ایک درویش کا ذکر کیا کہ وہ بازار سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ ایک شخص زور سے ایک گائے کی پیٹھ پر لٹھ ما ررہا ہے۔ درویش پکارا کہ ارے کیا کرتا ہے۔ رکو مت مارو۔ اس نے کہا کہ گائے کو مار رہا ہوں تجھے تو نہیں ما رہا۔ ا س درویش نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا اور دکھایا کہ مجھے ہی تو مار رہے ہو۔ اس کی پیٹھ پر ویسے ہی چوٹ کے نشان تھے۔ علماء نفسیات نے بھی اسی قسم کے واقعات لکھے ہیں۔ کہ کمال ہمدردی سے محبت کرنے والے کے جسم پر بھی ضرب اور زخم کے نشانات نمایان ہو جاتے ہیں۔ عیسوی مغرب میں کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کے دل میں حضر ت مسیح کے مصلوب ہونے کے تصور نے کیسا گہرا اثر پیداکیاتھا کہ ہتھیلیوں سے اسی طرح خون نکلنے لگا جس طرح شخص مصلوب کے ہاتھو ں میں میخیں ٹھونکنے سے نکلتا ہے۔ عشق کی درد آشنائی کی بھی کوئی حد نہیں۔
آگے ایک قطعے میں عشق کے متعلق وہی مضمون ہے جسے اقبال نے سوڈھنگ سے باندھا ہے کہ اگر دل بھی خرد کی طرح محض زیرکی استعمال کرتا ہے اور سامنے نظر آنے والے نفع و ضرر ہی کو تول کر کام کرتا ہے تو زندگی میں نہ سوز و ساز پیدا ہو تا ہے اور نہ کسی قسم کی رونقَ برنارڈ شا نے اپنے مخصوص انداز میں خہا ہے کہ ارتقائے حیات نامعقولوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جو کچھ انقلاب آفرینوں نے کہا ے یا اس کی معقولیت ان کے معاصر دنیا داروں اور عقل مندوں کی سمجھ میں اس وقت نہ آئی۔ اگر زندگی میںکسی اہم اقدام کا مدار عقل مندوں کی رائے شماری پر ہو تو ترقی کا قدم نہ اٹھ سکے ۔ دنیا کے عقل مندوں کی نظر مفاد حاضر ہی پر جمی رہتی ہے۔ اور وہ کمال درجے کی محتاطی کی وجہ سے کوئی جرات کاکام نہیں کر سکتے۔
نبودے عشق و ایں ہنگامہ عشق
اگر دل چوں خرد فرزانہ بودے
اس اردو شعر میں بھی یہی خیال موجود ہے:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
بود کو نمود سے ایک لذت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے ہسی ہر وقت ظہور میں خود افشائی کرتی رہتی ہے۔ ایک حدیث قدسی کا بھی یہی مضمون ہے کہ خدا کاجمال ازلی اور ایک کنز مخفی تھا۔ اس میں ذوق نمود پیدا ہوا جس سے کائنات اور اس کے اندر حسن ازلی کا مشاہدہ کرنے والے معرض شہود میں آئے۔ فاجیت ان اعرف فخلقت الخلق الی اخرہ یہ حسن کی عشق آفرینی اور عشق کی حسن آفرینی کی لذت ہے جس کی بدولت زمین پر پھول اور چرخ پر تارے نمود ہوتے ہیں:
چہ لذت یا رب اندر ہست و بود است
دل ہر ذرہ در جوش نمود است
شگافد شاخ را چوں غنچہ گل
تبسم ریز از ذوق وجود است
ورڈز ورتھ نے کہا ہے کہ یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں کہ پھول کھنے سے خوش ہوتے ہیںَ ماہر نباتیات ڈاکٹر بوس نے حساس آلات سے تجربہ کر کے یہ ثابت کیا کہ نبات میں بھی رنج و مسرت کی کیفیت ہوتی ہے۔ جس کا اثر ان کے نشوونما پر پڑتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ پھول شاخ سے نکلتے ہوئے حقیقت میں تبسم ریز ہوتا ہے۔
قرآن کریم نے آفرینش آدم اور اعتراض ملائکہ کا جو قصہ بیان کیا ہے وہ آدم کے مسجود ملائک ہونے پر منتج ہوتا ہے آدم کو وہ علم عطا کیا گیا جو ملائکہ کو حاصل نہ تھا۔ اس وسعت علم کی بدولت آدم ملائکہ سے افضل قرار پایا۔ لیکن علم کے ساتھ ہی آدم کا طالب عفو ہونا اور خدا کی طرف رجوع کرنا عشق کی بدولت تھا۔ اس لیے عارف رومی محض علم کو نہیں بلکہ عشق کو آدم کی امتیازی خصوصیت قرار دیتا ہے۔ خالی علم زیرکی پیدا کرتاہے جو ابلیس کی صفت ہے۔ عشق اس سے الگ چیز ہے۔ عشق سے علم کی تمیل ہوتی ہے۔ لیکن رومی اور اقبال دونوں کے نزدیک آدم فوراً واصل باللہ نہیں ہو گیا بلک عشق کی بدولت اس پر ایک طویل مہجوری طاری ہوگئی۔ اس مہجوری کی وجہ سے از جدائی ہا شکایت مے کند۔
وصول الی اللہ کی منزل بہت دور ہے:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں درازہے اب میرا انتظار کر
یہی عشق اور مہجوری کا احساس انسان سے کشاں کشاں ارتقا کی منزلیں طے کرارہا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ملائکہ کے مقابلے میں احساس فراق انسان کی کمتری اور کوتاہی کا ثبوت نہیں۔ یہی مہجوری مصدر حیات ہے۔ یہ مہجوری طلب اور جستجو پیدا کرتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ میں افشائے راز کا خواہاں نہیں ہوں۔ اگر را ز حیات پوری طرح منکشف ہو جائے تو پھر زندگی میں کوئی لذت نہ رہے مشہور المانوی فلسفی اور ادیب لیسنگ کا قول ہے کہ اگر خدا اپنے ایک ہاتھ میں صداقت کلی اور دوسرے ہاتھ میں تلاش حق رکھ کر مجھ کو اختیار دے کہ ان میں سیجو چاہو منتخب کر لو تو میں عجز و نیاز سے عرض کروں کہ اے خدا حقیقت کلی کو تو اپنے پاس رہنے دے کیوں کہ حقیقت کلی سے آشنا اور عالم الغیب و الشہادہ ہونے کے باوجود تو حی و قیوم رہ سکتا ہے ۔ لیکن میں اس سے واقف ہو کر زندگی سے بے بہرہ ہو جائوں گا۔ انسانی زندگی کا تمام لطف تو طلب اور جستجو ہی ہے۔ اقبال بھی ایسی ہی طبیعت کا مالک اور اسی نظریہ حیات کا قائل ہے:
نہ من انجام و نے آغاز جویم
ہمہ رازم جہان راز جویم
گر از روے حقیقت پردہ گیرند
ہماں بوک و مگر را باز گویم
٭٭٭
خیال او درون دیدہ خوشتر
غمش افزودہ جاں کاہیدہ خوشتر
مرا صاحبدلے ایں نکتہ آموخت
ز منزل جادہ پیچیدہ خوشتر
٭٭٭
بگو جبریل را از من پیامے
مرا آں پکر نوری ندادند
ولے تاب و تب ما خاکیاں بیں
بنوری ذوق مہجوری ندادند
لہٰذا فرشتوں پر رشک کرنے کی ضرورت نہیں عرش معلیٰ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے یا اس کے گرد طواف کرنے یا کائنات کے اندر حکم ایزدی سے نظم و نسق میں خدمت گزری میں وہ لطف کہاں جو عاشق کے اضطراب میں ہے۔ فلک العرش ہجوم خم دوش مزدور:
رشک ملک چہ و چرا چون بتو رہ نمی برد
بیہدہ در ہوائے تو می پرد از سبک سری
(غالب)