ابوالقاسم الزہراوی |
ابو القاسم خلف بن عباس الزہراوی اندلس سے تعلق رکھنے والے علم جراحت کے بانی، متعدد آلات جراحی کے موجد اور مشہور مسلم سائنس دان تھے۔ قرطبہ کے شمال مغرب میں امویوں کے بنائے گئے شہر الزہراء کی نسبت سے الزہراوی کہلاتے ہیں، یورپیوں نے ان کا نام بہت ساری اشکال پر لاطینی زبان میں کندہ کیا ہے، وہ طبیب، جراح اور مصنف تھے، وہ عرب کے عظیم تر جراح اور طبیب مانے جاتے ہیں جن کی جراحی کا دورِ جدید بھی معترف ہے، ان کا زمانہ اندلس میں چوتھی صدی ہجری (دسویں صدی عیسوی) ہے، ان کی زندگی جلیل القدر کارناموں سے بھرپور ہے جس کے نتیجے میں قیمتی آثار چھوڑے، وہ عبد الرحمن سوم الناصر کے طبیبِ خاص تھے، پھر ان کے بیٹے الحکم دوم المستنصر کے طبیبِ خاص ہوئے، تاریخ میں ان کی زندگی کے حوالے سے بہت کم تفصیلات ملتی ہیں حتی کہ ہمیں ان کا سالِ پیدائش 936ء، ان کی وفات غالباً 404 ھ کو ہوئی۔ ان کی سب سے اچھی تصانیف میں ان کی کتاب “الزہراوی” ہے جبکہ ان کی سب سے بڑی تصنیف “التصریف لمن عجز عن التالیف” ہے جو کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر کئی بار شائع ہوچکی ہے۔
الزہراوی صرف ماہر جراح ہی نہیں تھے بلکہ تجربہ کار طبیب بھی تھے، ان کی کتاب میں آنکھوں کے امراض، کان، حلق، دانت، مسوڑھے، زبان، عورتوں کے امراض، فنِ تولید، جبڑہ اور ہڈیوں کے ٹوٹنے پر تفصیلی ابواب موجود ہیں۔
الزہراوی نے ناسور کے علاج کے لیے ایک آلہ دریافت کیا اور بہت سارے امراض کا استری سے علاج کیا، زہراوی وہ پہلے طبیب تھے جنہوں نے “ہیموفیلیا” نہ صرف دریافت کیا بلکہ اس کی تفصیل بھی لکھی۔
زہراوی کا یورپ میں بڑا عظیم اثر رہا، ان کی کتب کا یورپ کی بہت ساری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور یورپ کی طبی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہیں، یورپ کے جراحوں نے ان سے خوب استفادہ کیا اور ان سے اقتباس بھی کیا، حتی کہ بعض اوقات بغیر حوالہ دیے ان کی دریافتیں اپنے نام منسوب کر لیں، ان کی کتاب “الزہراوی” پندرہویں صدی عیسوی کے شروع سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر تک یورپ کے اطباء کا واحد ریفرنس رہی۔ ان کے ایجاد کردہ آلات جراحی آج تک استعمال ہوتے ہیں۔
ان پر بنی یہ ڈاکومینٹری فلم دیکھیں !