فتنۂ خلقِ قرآن اور امام احمد ابن حنبل ؒ

فتنۂ خلقِ قرآن اور امام احمد ابن حنبل ؒ 

سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

مامون نے خلق قرآن کے مسئلہ پر اپنی پوری توجہ مرکوز کر دی۔ ۲۱۸ھ میں اس نے والیِ بغداد اسحٰق بن ابراہیم کے نام ایک مفصل فرمان بھیجا جس میں عامۂ مسلمین اور بالخصوص محدثین کی سخت مذمت اور حقارت آمیز تنقید کی۔ ان کو خلق قرآن کا عقیدہ سے اختلاف کرنے کی وجہ سے توحید میں ناقص، مردود الشہادۃ، ساقط الاعتبار اور شرار امت قرار دیا۔ اور حاکم کو حکم دیا کہ جو لوگ اس مسئلہ کے قائل نہ ہوں، ان کو ان کے عہدوں سے معزول کر دیا جائے۔ اور خلیفہ کو اس کی اطلاع کی جائے۔ (اس خط کا مکمل متن "تاریخ طبری" اور طیفور کی "تاریخ بغداد" میں موجود ہے۔)
یہ فرمان مامون کی وفات سے چار مہینے قبل کا ہے، اس کی نقلیں تمام اسلامی صوبوں کو بھیجی گئیں اور صوبہ داروں (گورنروں) کو ہدایت کی گئی کہ اپنے اپنے صوبوں کے قضاۃ کا اس مسئلہ میں امتحان لیں، اور جو اس عقیدہ سے متفق نہ ہو اس کو اس کے عہدہ سے ہٹا دیا جائے۔

اس فرمان کے بعد مامون نے حاکم بغداد کو لکھا کہ سات بڑے محدثین کو (جو اس عقیدہ کے مخالفین کے سرگروہ ہیں۔ اس کے پاس بھیج دیا جائے، وہ سب آئے تو مامون نے ان سے خلق قرآن کے متعلق سوال کیا۔ ان سب نے اس سے اتفاق کیا اور ان کو بغداد واپس کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے علماء و محدثین کے ایک مجمع کے سامنے اپنے اس عقیدہ کا اقرار کیا لیکن شورش ختم نہیں ہوئی اور عام مسلمان اور تقریباً تمام محدثین اپنے خیال پر قائم رہے۔

انتقال سے پہلے مامون نے اسحٰق بن ابراہیم کو تیسرا فرمان بھیجا، جس میں ذرا تفصیل سے پہلے خط کے مضمون کو بیان کیا تھا، اور امتحان کے دائرہ کو وسیع کر کے اہلکارانِ سلطنت اور اہلِ علم کو بھی اس میں شامل کر لیا تھا۔ اور سب کے لئے اس عقیدہ کو ضروری قرار دیا تھا۔ اسحٰق نے فرمان شاہی کی تعمیل کی ، اور مشاہیر علماء کو جمع کر کے ان سے گفتگو کی، اور ان کے جوابات اور مکالمہ بادشاہ کے پاس لکھ کر بھیج دیا۔ مامون اس محضر کو پڑھ کر سخت برافروختہ ہوا۔ ان علماء میں سے دو (بشر بن الولید اور ابراہیم ابن المہدی) کے قتل کا حکم دیا۔ اور لکھا کہ بقیہ میں سے جس کو اپنی رائے پر اصرار ہو، اس کو پابجولاں اس کے پاس بھیجدیا جائے۔ چنانچہ بقیہ تیس (۳۰) علماء میں سے (جو پہلے قائل نہیں ہو رہے تھے) چار اپنی رائے (عدم خلق قرآن) پر قائم رہے۔ یہ چار اشخاص امام احمد ابن حنبل، سجادہ، قواریری اور محمد بن نوح تھے۔ دوسرے دن سجادہ اور تیسرے دن قواریری نے بھی اپنی رائے سے رجوع کیا۔ اور صرف امام اور محمد بن نوح باقی رہے جن کو مامون کے پاس طرطوس، ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں روانہ کر دیا گیا۔ ان کے ہمراہ انیس دوسرے مقامات کے علماء تھے، جو خلق قرآن کے منکر اور اس کے غیر مخلوق ہونے کے قائل تھے۔ ابھی یہ لوگ رقہؔ ہی پہونچے تھے کہ مامون کے انتقال کی خبر ملی، اور ان کو حاکم بغداد کے پاس بغداد واپس کر دیا گیا۔ راستہ میں محمد بن نوح کا انتقال ہو گیا اورامام اور ان کے رفقاء بغداد پہونچے۔


مامون نے اپنے جانشین معتصم بن الرشید کو وصیت کی تھی کہ وہ قرآن کے بارے میں اس کے مسلک اور عقیدہ پر قائم رہے اور اسی کی پالیسی پر عمل کرے (وخذ بسیرۃ اخیک فی القرآن) اور قاضی ابن ابی دودا کو بدستور اپنا مشیر اور وزیر بنائے رہے۔ چنانچہ معتصم نے ان دونوں وصیتوں پر پورا پورا عمل کیا۔

امام احمد ابتلاء و امتحان میں
اب مسئلہ خلق قرآن کی مخالفت اور عقیدہ صحیحہ کی حمایت اور حکومت وقت کے مقابلہ کی ذمہ داری تنہا امام احمد بن حنبل کے اوپر تھی، جو گروہِ محدثین کے امام اور سنت و شریعت کے اس وقت امین تھے۔

امام احمد کو رقہؔ سے بغداد لایا گیا۔ چار چار بیڑیاں ان کے پاؤں میں پڑھی تھیں، تین دن تک ان سے اس مسئلہ پر مناظرہ کیا گیا، لیکن وہ اپنے اس عقیدہ سے نہیں ہٹے۔ چوتھے دن والیِ بغداد کے پاس ان کو لایا گیا۔ اس نے کہا کہ احمد! تم کو اپنی زندگی ایسی دوبھر ہے، خلیفہ تم کو اپنی تلوار سے قتل نہیں کرے گا، لیکن اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم نے اس کی بات قبول نہ کی تو مار پر مار پڑے گی اور تم کو ایسی جگہ ڈال دیا جائے گا جہاں کبھی سورج نہیں آئے گا۔ اس کے بعد امام کو معتصم کے سامنے پیش کیا گیا، اور ان کو اس انکار و اصرار پر ۲۸ کوڑے لگائے گئے۔ ایک تازہ جلاد صرف دو کوڑے لگاتا تھا، پھر دوسرا جلاد بلایا جاتا تھا۔ امام احمد ہر کوڑے پر فرماتے تھے :


اعطونی شیئاً من کتاب اللہ او سنۃ رسولہ حتی اقول بہ۔

میرے سامنے اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے کچھ پیش کرو تو میں اس کو مان لوں۔

واقعہ کی تفصیلات امام احمد کی زبان سے


اما م احمد نے اس واقعہ کو خود تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :

"میں جب اس مقام پر پہونچا جس کا نام باب البستان ہے تو میرے لئے سواری لائی گئی اور مجھ کو سوار ہونے کا حکم دیا گیا۔ مجھے اس وقت کوئی سہارا دینے والا نہیں تھا اور میرے پاؤں میں بوجھل بیڑیاں تھیں۔ سوار ہونے کی کوشش میں کئی مرتبہ اپنے منہ کے بل گرتے گرتے بچا۔ آخر کسی نہ کسی طرح سوار ہوا اور معتصم کے محل میں پہنچا۔ مجھے ایک کوٹھری میں داخل کر دیا گیا اور دروازہ بند کر دیا گیا۔ آدھی رات کا  وقت تھا اور وہاں کوئی چراغ نہیں تھا، میں نے نماز کے لئے مسح کرنا چاہا اور ہاتھ بڑھایا تو پانی کا ایک پیالہ اور طشت رکھا ہوا ملا، میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ اگلے دن معتصم کا قاصد آیا اور مجھے خلیفہ کے دربار میں لے گیا۔ معتصم بیٹھا ہوا تھا۔ قاضی القضاۃ ابن ابی دُواد بھی موجود تھا۔ اور ان کے ہم خیالوں کی ایک بڑی جمعیت تھی۔ ابو عبد الرحمٰن الشافعی بھی موجود تھے، اسی وقت دو آدمیوں کی گردنیں بھی اڑائی جا چکی تھیں، میں نے ابو عبد الرحمٰن الشافعی سے کہا کہ تم کو امام شافعی سے مسح کے بارے میں کچھ یاد ہے؟ ابی دُواد نے کہا کہ اس شخص کو دیکھو کہ اس کی گردن اڑائی جانے والی ہے اور یہ فقہ کی تحقیق کر رہا ہے۔ معتصم نے کہا کہ ان کو میرے پاس لاؤ، وہ برابر مجھے پاس بلاتا رہا، یہاں تک کہ میں اس سے بہت قریب ہو گیا۔ ان نے کہا بیٹھ جاؤ۔ میں بیڑیوں سے تھک گیا تھا۔ اور بوجھل ہو رہا تھا، تھوڑی دیر کے بعد میں نے کہا کہ مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے، خلیفہ نے کہا کہو! میں نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اللہ کے رسول نے کس چیز کی طرف دعوت دی ہے؟ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ان کہا کہ "لا الہٰ الا اللہ" کی شہادت کی طرف، میں نے کہا تو میں اس کی شہادت دیتا ہوں، پھر میں نے کہا کہ آپ کے جد امجد ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جب قبیلۂ عبد القیس کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے ایمان کے بارے میں آپ سے سوال کیا، فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ ایمان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ معلوم ہے۔ فرمایا، اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی اور مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ کا نکالنا، اس پر معتصم نے کہا کہ اگر تم میرے پیش رو کے ہاتھ میں پہلے نہ آ گئے ہوتے تو میں تم سے تعرض نہ کرتا۔ پھر عبد الرحمٰن بن اسحٰق کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے تم کو حکم نہیں دیا تھا کہ اس آزمائش کو ختم کرو، امام احمد کہتے ہیں کہ میں نے کہا اللہ اکبر اس میں تو مسلمانوں کےلئے کشایش ہے۔ خلیفہ نے علماء حاضرین سے کہا کہ ان سے مناظرہ کرو اور گفتگو کرو، پھر عبد الرحمٰن سے کہا کہ ان سے گفتگو کرو (یہاں امام احمدؒ اس مناظرہ کی تفصیل بیان کرتے  ہیں ) ۔
ایک آدمی بات کرتا اور میں اس کا جواب دیتا دوسرابات کرتااور میں اس کا جواب دیتا ، معتصم کہتا، احمد تم پر خدا رحم کرے تم کیا کہتے ہو میں کہتا امیر المؤمنین ! مجھے کتاب اللہ یا سنت رسولؐ میں سے کچھ دکھائیے تو میں اس کا قائل ہوجاؤں معتصم کہتا اگر یہ میری بات قبول کرلیں تو میں اپنے ہاتھ سے ان کو آزاد کردوں اور اپنے فوج ولشکر کے ساتھ ان کے پاس جاؤں اور ان کے آستانہ پر حاضر ہوں ، پھر کہتا احمد ! میں تم پر بہت شفیق ہوں اور مجھے تمہارا ایسا ہی خیال ہےجیسے اپنے بیٹے ہارون کا، تم کیا کہتے ہو میں وہی جواب دیتا کہ مجھے کتاب اللہ یا سنت رسول میں سے کچھ دکھاؤ تو میں قائل ہوں ، جب بہت دیر ہوگئی تو وہ اکتا گیا اور کہا جاؤ اور مجھے قید کردیا اور میں اپنی اصلی جگہ پر واپس کردیا گیا ، اگلے دن پھر مجھے طلب کیا گیا اور مناظرہ ہوتا رہا اور میں سب کا جواب دیتا رہا یہاں تک کہ زوال کا وقت ہو گیا جب اکتا گیاتو کہا کہ ان کو لیجاؤ ، تیسری رات کو میں سمجھا کہ کل کچھ ہو کر رہے گا ، میں نے ڈوری منگوائی اور اس سے اپنی بیڑیوں کو کس لیا اور جس ازار بند سے میں نے بیڑیاں باندھ رکھی تھیں اس کو اپنے پائجامہ میں پھر ڈال لیا کہ کہیں کوئی سخت وقت آئے اور میں برہنہ ہوجاؤں ، تیسرے روز مجھے پھر طلب کیا گیا میں نے دربار بھرا ہوا ہے ، میں مختلف ڈیوڑھیاں اور مقامات طے کرتا ہوا آگے بڑھا کچھ لوگ تلواریں لئے کھڑے تھے ، کچھ کوڑے لئے اگلے دونوں دنوں کے بہت سے لوگ آج نہیں تھے ، جب میں معتصم کے پاس پہنچا تو کہا بیٹھ جاؤ ، پھر کہا ان سے مناظرہ کرو اور گفتگو کرو لوگ مناظرہ کرنے لگے میں ایک کا جواب دیتا پھر دوسرے کا جواب دیتا میری آوازسب پر غالب تھی جب دیر ہو گئی تو مجھے الگ کردیا اور ان کے ساتھ تخلیہ میں کچھ بات کہی پھر ان کو ہٹادیا اور مجھے بلا لیا پھر کہا احمد ! تم پر خدا رحم کرے میری بات مان لو میں تم کو اپنے ہاتھ سے رہا کروں گا   میں نے پہلا جواب دیا اس پر اس نے برہم ہو کر کہا کہ ان کو پکڑو اور کھینچو اور ان کے ہاتھ اکھیڑدو، معتصم کرسی پر بیٹھ گیا اور جلادوں اور تازیانہ لگانے والوں کو بلایا جلادوں سے کہا آگے بڑھو ایک آدمی آگے بڑھتا اور مجھے دو کوڑے لگاتا معتصم کہتا زور سے کوڑے لگاؤ پھر وہ ہٹ جاتا اور دوسرا آتااور دو کوڑے لگاتا انیس کوڑوں کے بعد پھر معتصم میرے پاس آیا اور کہاکیوں احمد اپنی جان کے پیچھے پڑے ہو ، بخدامجھے تمہارا بہت خیال ہے ایک شخص عجیف مجھے اپنی تلوار کے دستے سے چھیڑتااور کہتاکہ تم ان سب پرغالب آناچاہتے ہودوسراکہتاکہ اللہ کے بندے! خلیفہ تمہارے سر پر کھڑاہواہے کوئی کہتاکہ امیرالمؤمنین !آپ روزےسے ہیں اورآپ دھوپ میں کھڑے ہوئے ہیں ،معتصم پھر مجھ سے بات کرتااور میں اس کو وہی جواب دیتا وہ پھرجلاد کوحکم دیتاکہ پوری قوت سے کوڑے لگاؤ، امام کہتے ہیں کہ پھر اس اثناء میں میرے حواس جاتے رہے جب میں ہوش میں آیاتودیکھا کہ بیڑیاں کھول دی گئی ہیں ، حاضرین میں سے ایک شخص نے کہاکہ ہم نے تم کواوندھے منہ گرادیا تم کوروندا،احمد کہتے ہیں کہ مجھ کوکچھ احساس نہیں ہوا-( تاریخ الاسلام للذہبی، ترجمہ الامام احمد ص 41۔49 تلخیصا)
بے نظیر عزیمت و استقامت 
اس کے بعداحمد بن حنبل کو گھر پہنچادیاگیا جب سے وہ گرفتارکئے گئے رہائی کے وقت تک اٹھائیس مہینے ان کوحبس میں گزرے، ان کو 33۔34 کوڑے لگائے گئے ،ابراھیم بن مصعب جوسپاہیوں میں سے تھے کہتے ہیں کہ میں نے احمدسے زیادہ جری اور دلیرنہیں دیکھاان کی نگاہ میں ہم لوگوں کی حقیقت بالکل مکھی کی سی تھی محمد بن اسمٰعیل کہتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ احمد کو ایسے کوڑے لگائے گئے کہ اگر ایک کوڑا ہاتھی پرپڑتا تو چیخ مار کربھاگتا، ایک صاحب جو واقعہ کے وقت موجود تھے بیان کرتے ہیں کہ امام روزے سے تھے میں نے کہا بھی کہ آپ روزے سے ہیں اور آپ کواپنی جان بچانے کے لئے اس عقیدہ کا اقرار کر لینے کی گنجائش
ہے، لیکن انھوں نے اس کی طرف التفات نہیں کیا،ایک مرتبہ پیاس کی بہت شدت ہوئی تو پانی طلب کیا آپ کے سامنے برف کے پانی کا پیالہ پیش کیا گیا، آپ نے اس کو ہاتھ میں لیا، اور کچھ دیر اس کو دیکھا، پھر پئے بغیر واپس کر دیا (تاریخ الاسلام للذہبی، ترجمۃ الامام احمد ص 49۔50 باختصار و تلخیص)۔
صاحبزادہ کہتے ہیں کہ انتقال کے وقت میرے والد کے جسم پر ضرب کے نشان تھے، ابوالعباس الرقی کہتے ہیں کہ احمد رقہّ میں محبوس تھے، تو لوگوں نے ان کو سمجھانا چاہا، اور اپنے بچاؤ کرنے کی حدیثیں سنائیں، انھوں نے فرمایا خبات کی حدیث کا کیا جواب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پہلے بعض بعض لوگ ایسے تھے، جن کے سر پر آرا رکھ کر چلا دیا جاتا تھا، پھر بھی وہ اپنے دین سے ہٹتے نہیں تھے، یہ سن کر لوگ نا امید ہوگئے اور سمجھ گئے کہ وہ اپنے مسلک سے نہیں ہٹیں گے اور سب کچھ برداشت کریں گے

امام احمد کا کا رنامہ اور اس کا صلہ

 امام احمد کی بے نظیر ثابت قدمی اور استقامت سے یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا، اور مسلمان ایک بڑے دینی خطرہ سے محفوظ ہو گئے، جن لوگوں نے اسی دینی ابتلاء میں حکومت وقت کا ساتھ دیا تھا، اور موقع پرستی اور مصلحت شناسی سے کام لیا تھا، وہ لوگوں کی نگاہوں سے گر گئے، اور ان کا دینی و علمی اعتبار جاتا رہا، اور اس کے بالمقابل امام احمد کی شان دو بالا ہو گئی، ان کی محبت اہل سنت اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کا شعار اور علامت بن گئی، ان کے معاصر قتیبہ کا مقول ہے کہ:۔

اذارایت الرجل یحب احمد بن حبنل فاعلم انہ صاحب سنۃٍ 
جب تم کسی کو دیکھو کہ اس کو احمد بن حنبل سے محبت ہے تو سمجھ لو کہ وہ سنت کا متبع ہے۔
(تاریخ الاسلام للذہبی، ترجمۃ الامام احمد ص 16 باختصار و تلخیص)
ایک دوسرے عا لم احمد بن ابراہیم الدورقی کا قول ہے

من سمعتموہ یذکر احمدبن حنبل بسوء فاتھموہ علی الاسلام (تاریخ بغداد للخطیب ج 4 ص 421)

جس کو تم امام احمد بن حنبل کا ذکربرائی سے کرتے سنو اس کے اسلام کو مشکوک نظر سے دیکھو

امام احمد حدیث میں امام وقت تھے مسند کی ترتیب وتالیف ان کا بہت بڑا علمی کارنامہ ہے وہ مجتہد فی المذہب اور امام مستقل ہیں ، وہ بڑے زاہد وعابد تھے یہ سب فضیلتیں اپنی جگہ پر مسلم ہیں لیکن ان کی عالمگیر مقبولیت ومحبوبیت اور عظمت وامامت کا اصل راز ان کی عزیمت اور استقامت ، اس فتنہ عالم آشوب میں دین کی حفاظت اور اپنے وقت کی سب سے بڑی بادشاہی کا تنہا مقابلہ تھا ، یہی ان کی قبولِ عام اور بقائے دوام کا اصل سبب ہے

آوازہ خلیل زیرتعمیر کعبہ نیست

مشہور شدارزاں کہ در آتش نکونشت

ان کے معاصرین نے جنھوں نے اس فتنہ کی عالم آشوبی دیکھی تھی ان کے اس کارنامہ کی عظمت کا بڑی فراخ دلی سے اعتراف کیا ہے اور اس کو دین کی بروقت حفاظت اور مقام صدیقیت سے تعبیر کیا ہے ، ان کے ہمعصر اور ہم استاذ مشہور محدث وقت علی بن المدینی (جو امام بخاری کے مایہ ناز استاد ہیں ) کا ارشاد ہے:

ان اللہ اعزھذاالدین برجلین لیس لھما ثالث ابوبکر الصدیق یوم الردۃ واحمد بن حنبل یوم الفتنۃ  ( ؎2 ایضا ص 418)

اللہ تعالی نے اس دین کی غلبہ وحفاظت کاکام دو شخصوں سے لیا ہے جن کا کوئی تیسرا ہمسر نظر نہیں آتا ارتداد کے موقع پر ابوبکرصدیق اور فتنہ خلق قرآن کے سلسلہ میں احمد بن حنبل اس عظمت و مقبوليت كا نتيجہ یہ تھا کہ 241ھ میں جب اس امامِ سنت نے انتقال کیا تو سارا شہر امنڈ آیا، کسی کے جنازہ پر خلقت کا ایسا ہجوم اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا تھا، نماز جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد کا اندازہ یہ ہے کہ آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار عورتیں تھیں۔ (ترجمۃالامام احمد للذہبی، تاریخ ابن خلکان۔)

 (ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص  94-102، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  (خلق قرآن کی بحث ایک خاص علمی اور فلسفیانہ بحث تھی جس کا دماغی اثر (جیسا کہ بعض اعتزال دوست مورخین نے اعتراف کیا ہے) یہ پڑنا لازمی تھا کہ قرآن مجید کی عظمت و جلالت اور اس کے لفظاً و معناً کلام الہٰی ہونے کا عقیدہ کمزور پڑ جاتا۔ محدثین معتزلہ کی ان تعبیرات کو غلط اور امت کے لئے مضر سمجھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اس کی علانیہ مخالفت کی۔ معتزلہ روشن خیال اور آزادیِ آراء کا احترام کرنے والے مشہور ہیں لیکن انہوں نے اس مسئلہ میں سخت غلو اور مذہبی جبر و استبداد سے کام لیا۔ اور اپنی ناعاقبت اندیشی سے سارے عالم اسلام کو میدانِ جنگ اور دارالامتحان بنا دیا۔ انہوں نے اس مسئلہ میں اپنے مخالفین کے ساتھ وہ سلوک کیا جو قرونِ وسطیٰ میں ارباب کلیسا نے آزاد خیالوں کے ساتھ کیا تھا۔ بالآخر یہی سختی اور حکومت وقت کی سرپرستی مذہب اعتزال، اور معتزلہ کے زوال کا باعث ہوئی۔)