عقل پر اقبال کی تنقید


عقل پر اقبال کی تنقید

زندگی کے متعلق اقبال کا زاویہ نگاہ جیسے جیسے معین اور پختہ ہوتا گیا ویسے ویسے وہ عقل استدلالی کا نفاذ بنتا گیا۔ اقبال فلسفی بھی ہے اور شاعر بھ اور وہ نادر چیز بھی اپنے سینے میں رکھتا ہے جسے دل کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ شاعر بنانے سے نہیں بنتا جب تک کسی کو فطرت کی طرف سے یہ ملکہ عطا نہ ہو۔ وہ کوشش سے صناع قافیہ پیما اور ناظم تو بن سکتا ہے لیکن شاعرنہیں بن سکتا۔ فطرت کی طرف سے اگر کسی کو یہ جوہر عطا کیا گیا ہے تو مشق اور اصول فن سے اس میں جلا پیداہوتی ہے لیکن ہیرا اگر مبدا فیاض نے نہیں بنایا ت ومحنت اور تراش و خراش سے وہ شعاعوں کا منبع نہیں بن سکتا۔ شاعری میں اقبال کسی کا شاگردنہیں ہے۔ مرزاداغ کو مراستل میں دو چار طالب علمانہ غزلیں بغرض اصلاح بھیجنے سے کوئی خاص تلمذ قابل ذکر پیدا نہیں ہوتا۔ شاگردی کی درخواست کرنے والوں کو فرمایا کرتے تھے کہ شاعری ایک بے پیرا فن ہے مطلب یہ تھا کہ شاگردی اس میں خدا کی ہی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے شاعر کو تلمیذ الرحمن کہا گیا ہے اور شاعری کو جزو پیغمبری قرار دیا گیا ہے۔ شاعری اقبال کو مبداً فیاض سے عطا ہوئی۔ لیکن فلسفے کی تعلیم اس نے اساتذہ سے حاصل کی گورنمنٹ کالج لاہور میں آرنلڈ جیسے جید فلسفی سے فیض حاصل کیا۔ درسیات کے علاوہ اقبال کا شرق و غرب کے فلسفوں کا مطالعہ نہایت وسیع تھا فلسفیانہ ذوق بھی اقبال میں فطری تھا۔ اقبال کو یگانہ روزگار وجہ کمال اسی دو گونہ عطیہ فطری نے بنایا۔ اس کی شاعری کا بڑا حصہ فلسفیانہ شاعری ہے۔ جہاں کہیں دماغ دل کی تائید کرتا ہے اور کہیں دونوں حریف نظر آتے ہیں۔ اقبال آخر تک اسی کش مکش میں مبتلا رہا کہ کبھی عقل سے اسرار حیات کی گرہ کشائی کرنے میں کوشاںہے اور کہیں اس سے بیزار و مایوس ہو کر عشق و وجدان کی طرف گریز کرتا ہے:
اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کچھ پیچ و تاب رازی
عمر بھر کر اس پیکار کے انجام میں اس کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس مصاف عقل و دل میں جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی لیکن اقبال کی رفتار افکار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھاڑیں کھا کر بھی رازی بار بار زور آزمائی کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات کی توجیہ نثر میں اقبال نے منظم طور پر صرف اپنے مدراس والے انگریزی خطبات میں کی ہے اور وہاں پیشہ ور فلسفی کی طرح فلسفیانہ استدلال کا تانا بانا بنا ہے۔ جس کا اہم حصہ غیر فلسفی کے لیے جہاں فہم بھی نہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ آخر تک اقبال کی وہی کیفیت ہے کہ :
طور ہوں یخ پیرہن عقل خنک فطرت سے ہوں
شاعری کا سرچشمہ وجدانات‘ تاثرات اور جذبات ہیں۔ ا چھی شاعری فلسفیانہ استدلال سے پید ا نہیں ہوتی محض علم کے زور پر جو شاعری کی جاتی ہے اور نہ دل نشین شعر۔ اقبال کو فطرت نے اگرچہ شاعر بھی بنایا تھا اور مفکر بھی لیکن اس کی طبیعت میں شعریت کو تفلسف پر غلبہ حاصل تھا۔ بعض نظموں اور بعض اشعار میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارضی طور پر فلسفہ شعر پر غالب آ گیا ہے لیکن شاعر اقبال بہت جلد شعریت کی طرف عود کر آتا ہے کیوں کہ اس کی طبیعت کا اصل جوہر شعریت ہی ہے۔ کل شی یرجع الی اصلہ۔ فلسفے اور شاعری کے باہمی تعلق میںایک تضاد ہے ۔ کہین باہمی تعاون ہے اور کہیں باہمی تخالف ۔ ان من الشعر حکمتہ وان من البیان سحرا میں اس حقیقت کا اظہار ہے۔ کہ اچھا شعر حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر استدلال سے شعر کی آفرینش نہ بھی ہوئی ہو تو بھی اس میں سے حکمت اخذ کر سکتے ہیں۔ لیکن خشک فلسفہ اور استدلال اگر شعریت پر غالب آ جائے تو شعر کو شاعری کے پائے سے گرا دیتا ہے۔ فلسفے کے متعلق ایک عربی نقاد کا قول کس قدر صحیح ہے کہ فلسفے کی حیثیت کھاد کی سی ہے۔ علو م ہوں یا اشعار اگر ان میں فلسفے کی ایک مناسب مقدار میں آمیزش ہوت تو ان کے نشوونما میں معاون ہوتی ہے۔ لیکن خالی استدلالی فلسفہ محض کھاد ہی کھاد ہے جس کی کثافت میں ہر کوئی جوہر لطیف مضمر ہے تو وہ محسوس و ظہور پذیر نہیں۔
اقبال نے کالج کی طالب علمی کے زمانے میں شاعری شروع کی اور اسی زمانے میں وہ فلسفے کی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ کچھ اپنی فطرت کے تقاضے سے اور کچھ تعلیم کی بدولت یہ لازمی تھا کہ ابتدا ہی سے اقبال کی شاعری میں فکر اور تصرو کا دل کش امتزاج پایا جائے۔ اردو کے شعرا میں اقبال نے غالاب اور داغ دونوں کی مدح سرائی کی ہے۔ داغ کو ہوس کی شاعری میں استاد ماؤنا ہے اگرچہ استاد کے احترام کی وجہ سے ہو س کی بجائے عشق کا لفظ استعمال کیا ہے:
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون
اٹھ گیا ناوک فگن مارے کا دل پر تیر کون
داغ کے ہاں لفظ آوارہ مجنونے رسوا سر بازارے‘ عشاق اور بازاری ہرجائی معشوقوں کے وصل اور رقابت کی تصویر کشی ہے۔ لیکن غالب کے ہاں اقبال کی طرح فلسفی بھی ہے اور شاعر بھی۔ اس لیے اقبال دل سے غالب ہی کا ستائش گر ہے۔ جسے وہ جرمنی کے مفکر شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیتا ہے  اور غالب کی خصوصیت بھی اقبال کے ہاں یہی ہے کہ اس کے کلام میں تصور اور فکر کی آمیزش ہے اور اعری حکمت سے ہم آغوش معلوم ہوتی ہے:
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
لطف گویاء میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرکامل ہم نشیں
آخری زمانے کے فارسی کلام میں بھی اقبال نے غالب کے فلسفیانہ اشعار کی توضیح میں لطیف نکتے پیدا کیے ہیں اور اسے مشرق اور مغرب کے اکابر شعراکے دوش بدوش کھڑا کیا ہے:
شاعری کے اندر فلسفہ سنائی اور عطار میں بھی ہے اور رومی و جامی میں بھی۔ عرفی اور فیضی بھی حکمت پسند شعر اہیں۔ فیضی اپنے حکیم ہونے کو شاعر ہونے سے افضل سمجھتا ہے۔ چنانچہ نل دمن کی تمہید میںفخریہ لکھتاہے:
امروز نہ شاعرم حکیمم
دانندہ حادث و قدیم
بانگ درا کے مجموعے میں بڑی کثرت سے فلسفیانہ اشعار ملتے ہیں۔ اقبال کی طبیعت تصور ور تفکر کے درمیان رقص کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس کی میزان طبیعت کے دو پلڑو میں ایک طرف فلسفہ ہے اور دوسری طرف شاعری۔ کبھی یہ پلڑا جھک جاتا ہے اورکبھی وہ۔ دل کا وجدان اور بلند پایہ عشق کا میلان جا بجا ابھرتا ہے لیکن عقل اس پر مخالفانہ تنقید کا زور شور نظر نہیںآتا جو بعد کے فارسی کلام اور اردو کلام میں دکھائی دیتا ہے۔ عقل و دل پر ایک نہایت صاف اور سلیس نظم ہے جس میں ڈونوں کا مقام بتایا گیا ہے۔ اس نظم کا حوالہ پہلے ایک اور ضمن میں کتاب میں آ چکا ہے۔ عقل نے اس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بھولے بھٹکوں کی رہنما ہوں میں زمین پر ہوتے ہوئے فلک پیما بھی ہوں میں شان کبریا کی مظہر اور کتاب ہستی کی مفسر ہوں۔ دل نے کہا کہ یہ سب دعوے درست ہیں لیکن دانش اور بینش میں فرق ہے عین الیقین علم الیقین سے افضل ہے۔ تیرا کام مظاہر میں علت و معلول کے رشتے تلاش کرنا او رمظاہر کی کثرت کو آئین کی وحدت میں پرونا ہے لیکن میں براہ راست باطن ہستی سے آشنا ہوں۔ تو خدا ہو ہے میں خدا نما ہوں۔ رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست اس کی وجہ سے تو مضطرب ہی رہتی ہے تیری بیتابی کا علاج فقط میرے پاس ہے۔ تو صداقت تلاش کرتی ہے وار میں کائنات کے حسن ظاہر و باطن کی محفل کا چراغ ہوں۔ تو محسوسات کے دائرے سے نہیں نکلتی جو زمان و مکاں سے رشتہ بپا ہیں اور میرا ادراک ان حقائق کا ہے جو نہ زمانی ہیں اور نہ مکانی میں رب جلیل کا عرش ہوں میرے مقام کی تو کہاں پہنچ سکتی ہے۔
اس نظم میں عقل کی نہ کوئی تنقیض ہے اورنہ اس کی کوتاہی اور حقیقت رسی پر وہ برہمی جواقبا کے بعد کے کلام میں آتی ہے عقل و دل کے اس مکالمے میں اعتدال صلح مندی اور توازن ے۔ اقبال نے عقل اور عشق کے موازنے کے مقالبے میں سینکڑوں اشعار لکھ ڈالے اور دل نوا ز نکتے پیدا کیے ہیں لیکن ا ن سب کا لب لباب در حقیقت وہی ہے جو اس سادہ سی نظم میں آ گیا ہے۔
بانگ درا کی بعض نظموں سے اس کا پتا چلتا ہے کہ اقبال اس دور میں بھی ابھی تک زندگی کے متعلق مقام حیرت میں ہے۔ وہ سراپا استفسار معلوم ہوتا ہے وہ زندگی کے عقدوں کو کبھی سوچ بچار سے حل کرنا چاہتا ہے ۔ اور کبھی دل کے وجدان سے اسرار حیات کی گرہ کشائی میں کوشاں ہے۔ اس کا نقش وجود مصور ازلی کی شوخی تحریر کا فریادی معلوم ہوتا ہے۔ وہ حیرت زدہ ہے مگر ابھی تک عقل کی حقیقت رسی سے مایوس نہیں۔ انسان کے عنوان سے جو نظ لکھی ہے وہ حقیقت میں اس کی اپنی کیفیت کا اظہار ہے:
قدرت کا عجیب یہ ستم ہے!
انسان کو راز جو بنایا
راز اس کی نگاہ سے چھپایا
بیتاب ہے ذوق آگہی کا
کھاتا نہیں بھید زندگی کا
حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے؟
جس طرح بعد میں اقبال نے عقل کو عشق کاغلام بنایا ہے اس دور میں وہ عقل کو حسن کا غلام سمجھتا ہے۔ لیکن جس حسن مجازی اور حسن حقیقی کی طرف اس کا دل کھنچتا ہے اس کے حقیقی وجود کی نسبت ابھی تک اس کے دل میں یقین پیدا نہیں ہوا۔ تشکیک اور تذبذب بڑی بے تابی کے ساتھ نمایاں ہیں:
جلوہ حسن کہ ہے جس سے تمنا بیتاب
پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب
ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے
ایک افسانہ رنگیں ہے جوانی جس سے
جو سکھاتا ہے ہمیں سر بگربیاں ہونا
منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا
دور ہوجاتی ہے ادراک کی خامی جس سے
عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے
آہ موجود ابھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں؟
خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں؟
جب خاک و افلاک سے کوئی جواب نہیں ملتا اور زندہ انسانوں میں سے کوئی اسرار حیت کی گرہ کشائی نہیں کرتا تو قبرستان سے جا کر پوچھتا ہے کہ شاید کیفیت ماورائے حیات سے آشنا ہو کر موت کے ذریعے زندگی کا عقدہ کھل جائے۔ خفتگان خاک سے نہایت دلچسپ سوالات کیے ہیں جن میں اس زندگی کی کش مکش بیتابی اور ناردسائی کا اندوہ انگیز نقشہ ہے پوچھتا ہے کہ وہاں کچھ اطمینان ہے یا کہ یہیں کا ساپیچ و تاب ہے۔ خدا نہ کرے وہاں بھی یہا ں کی سی الجھنیں اور کھکھیڑیں ہوں بقول غالب:
زاں نمی ترسم کہ گردد قعر دوزخ جاے من
واے گر باشد ہمیں امروز من فرداے من
یا ذوق کا وہ واحد شعر جو غالب کو بھی پسند تھا:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اس تذبذب اور تشکیک اور اس استفہامی کیفیت کے باوجود بانگ دراہی کی نظموں سے اقبال کی میلان طبع واضح ہوتا ہے۔ ابھی عقل سے بیزاری مایوسی اور بغٓوت نمایاں نہیں لیکن عقل کے مقابلے میں دل کا تاثر وجدان اور عشق کو زیادہ حقیقت رس سمجھنے لگتا ہے۔ فلسفے کا ایک ابدی استفہام یہ ہے کہ اس کائنات کا جوہر ازلی کیا ہے اور اس میں جو نظم و نسق آئین و قوانین دکھائی دیتے ہیں ان کا ماخذ کیا ہے۔ یونانیوں نے جب اس پر غور شروع کیا تو کسی نے کہا کہ اصل پانی ہے جس سے تمام چیزیں بنی ہیں کسی نے کہا کہ پانی نہیں آگ ہے۔ کسی نے کیہا مظاہر فطرت محبت اور نفرت کی باہمی آمیزش ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ فلسفیانہ تفکر لطیف ہوتا گیا اور فیثا غورس نے کہا کہ جوہور وجود ریاضی ہے اوراعداد و ریاضیاتی تناسب ہی سے لامحدود اشیا و اشکلا وجود میں آئے۔ سقراط افلاطون اور ارسطو کے ہاں حقیقی وجود صرف عقل کا ہے اور ہر چیز مختلف مدارج میں عقل ہی کی مظہر ہے۔ بعد میں تمام فلسفے پر یونانی عقلیات کا ہی تسلسل رہا ہے اور اکثر حکما میں ٰیہ عقیدہ واضح ہو گیا ہے کہ عقل ہی ماخذ وجود ہے اور عقل ہی معیار صداقت۔ مسلمانوں میں سے کسی نے یہ حدیث بھی وضع کر لی ہے کہ ابتدائے آفرینش میں خدا نے عقل ہی کو پیدا کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا نظریہ بھی کہیں کہیں پیدا ہو ا کہ اصل حقیقت عقل نہیں بلکہ عشق ہے یونانیوں کے ہا یہ نظریہ ناپسند تھا لیکن عقلیت کے مقابلے میں اس کو فروغ ؤحاصل نہ ہوا۔ عیسائیت میں عقل کو کوئی مقام حاصل نہ ہوا اورس کی جگہ اس عقیدے کی تلقین کی گئی کہ خدا سراپا محبت ہے۔ اسلام نے عقل کو ایک بلند  مقام بخشا اور خدا کی مشیت کو عاقلانہ قرار دیا۔ لیکن صفات ربانی میں سب سے زیادہ اہم صفت رحمت کو بتایا جو تمام مخلوقات پر محیط ہے۔ جس طرح فیثا غورث ریاضی کو اور سقرا ط و افلاطون و ارسطو عقل کو تمام موجودات پر محیط سمجھتے تھے۔ ارسطو کے ہاں خدا تعقل محض ہے اور وہ آپ ہی اپنا معروض ہے فلسفے اور سائنس نے عقل کی مریدی اختیار کر لی اور دوسری طرف دین اپنی بلند اور عمیق صورتوں میں عشق کے مصدر حیات اور جوہر وجود ہونے کا قائل ہو گیا۔
اقبا ل کا میلان مذہبی اور روحانی ہے۔ اس لیے فلسفے کا ذوق رکھنے کے باوجود رفتہ رفتہ عقل طبیعی اور عقل استدلالی سے گریز کرتا ہوا عشق میں غوطہ زن ہو گیا جس کے مقابلے میں اسے عقل کی جدوجہد سطحی اور ہیچ نظر آنے لگی۔
مسلمانوں میں صوفیہ نے اس خیال کو زیادہ ترقی دی کہ محسوسات اور عقل کے علاوہ اور اس سے برتر و فائق ذریعہ معرفت اور وسیلہ انکشا ف حقیقت الٰہی عشق ہے۔ حیات و کائنات کے اسرار عشق ہی کی بدولت روح انسانی پر فاش ہوتے ہیں عدم سے وجود میں آنے کا باعث بھی محبت ہی ہوئی جیسا کہ میر نے کہا ہے:
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
اسلام نے جو رحمت کو وجہ خلقت بتایا تھا اسی سے تصوف کے نظریات پیدا ہوئے۔ رحمت محبت ہی کا دوسرا نام ہے  اقبال نے بھی سیکڑوں اشعار میں عشق کو خلاق حیات قرار دیا ہے۔ اس مضحمون کی ایک نظم بانگ درا میں محبت کے عنوان سے درج ہے جس کا مطلع ہے:
عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے
ابھی دنیا امکان کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی ا س میں مذاق زندگی پوشیدہ تھا۔ لیکن عدم سے وجود میں آنے یا ہیولیٰ کی صورت میں منتقل ہونے کی وجہ یہ ہوئی کہ عالم بالا میں ایک کیمیا گر تھا اس نے عرش کے پائے پر لکھا ہوا اکسیر کا ایک نسخہ پڑھ لیا۔ وہ محبت کا نسخہ تھا اس نسخے کے بہت سے اجزا تھے جو جگہ جگہ سے جمع کرنے پڑے۔ محبت میں نور بھی ہے اورنار بھی  بجلی کی تڑپ بھی ہے اور حور کی پاکیزگی بھی۔ اس میں مسیحائی بھی ہے عاجزی بھی اور افتادگی بھی جب یہ تمام مرکب تیار ہو گیا تو اس کو عالم کے اجزائے پریشان پر چھڑکا۔ جس کے ذروں میں ذوق وصال پیدا ہوا اور موجودات ظہور میں آئے۔ اگر ذروں میں باہمی کشش نہ ہو تو عالم کسی شے کا وجود بھی نہ ہو۔ آسمان کے ستارے اور زمین کے لالہ زار سب محبت ہی کا کرشمہ ہیںَ وجود آفرین بھی ہے اور حسن آفرین بھی:
ہوئی جنبش عیاں ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے
خرام ناز پایا آفتابوں نے ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی داغ پائے لالہ زاروں نے
محبت کے ساتھ ایک خاص انداز کا سوز و ساز اور درد و غم بھی وابستہ ہے جو تاثر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو کر انسان کو زندگی کی حقیقت سے آشنا کر دیتا ہے:
جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے
عقل خنک کے نزیک غم ایک مہمل چیز ہے عقل کے نزدیک تمام قسم کے جذبات مخرب عقل  ہیں اس لیے حکما ہمیشہ جذبات کو دبانے کی تعلیم دیتے ہیں لیکن جس شخص نے عقل کی بجائے دل کی راہ ڈھونڈ لی ہو اس کے نزدیک عقل سے زیادہ غم عشق انسان کو زندگی کی گہرائیوں سے آشنا کرتا ہے۔ میاں فضل حسین کے نام ایک نظم بانگ درا میں موجود ہے۔ اس میںاس مضمون کو بڑی گہرائی اور خوبی سے ادا کیا ہے۔ کہ غم عشق ہی انسان کو رموز فطرت سے ہم آغوش کرتا ہے۔ کشف حقیقت نہ عقل سے ہوتا ہے اور نہ عیش و طرب سے۔ مسرت کوش انسان بھی فلسفی کی طرح زندگی کی سطحوں پر ہی تیرتا پھرتا ہے۔ اس کی گہرائیوںمیں جو معرفت کے گوہر ہیں وہ اس کے ہاتھ میں نہیں آئے:
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے
ساز یہ پیدا ہوتا ہے اسی مضراب سے
طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے
غم نہیں غم روح کا ایک نغمہ خاموش ہے
جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے
جس کی شام آشنائے نالہ یا رب نہیں جس کی رات میں آنسوئوں کے ستارے نہیں چمکتے جس کا دل شکست غم سے نا آشنا ہے۔ جو سدا مست عیش و عشرت ہے۔ اس کے روز و شب میں کلفت غم نہ ہو گی لیکن زندگی کا را ز ابھی اسکی آنکھ سے مستور رہے گا۔ اسی خیال کو اقبال نے او ر مقامات پر بھی مختلف پیرائوں می ادا کیا ہے:
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
٭٭٭
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوںمیں
٭٭٭
لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بیتاب ہوں جن کے جلانے کے لیے
ایک طرف علوم و فنون اور قدیم و جدید تفلسف سے اقبال کے دماغ کی نشوونما ور تربیت ہوتی گئی اور دوسری طرف دل وجدان اور رتاثر میں غوطہ زن ہوتا گیا۔ اقبال کا فلسفہ حیات یہ تھا کہ زندگی کے ارتقاء کے لیے تصادم اور پیکار ناگریز ہے ۔ یہ پیکار کبھی خاج میں ہوتی ہے اور کبھی باطن میں۔ کبھی فرد ماحول سے ستیزہ کار ہوتا ہے اور کبھی افکار باہم ٹکراتے ہیں۔ اگر زندگی کی کوئی ایک صورت اطمینان  کامل پیدا کر دے تو زندگی جامد ہو جائے۔ خواہ عقل ہو اور خواہ عشق اس کی حیات اورترقی کا مدا ر انفس و آفاق کے مسلسل تصادم پر ہے۔ غازی شمشیر سے کفر کے خلاف جہاد کرتا ہے مگریہ اس جہاد کے مقابلے میں جہاد اصغر ہے۔ جو انسان کو اپنے نفس کے خلاف کرنا پڑتا ہے۔ بقول غالب:
با غازیان ز شرح غم کار زار نفس
شمشیر را برعشہ ز تن جوہر افگنم
یہ نظریہ پیکار اقبا کے لیے کوئی محض علمی نظریہ نہ تھا۔ اس کے اندر بھی عمر بھر کشاکش رہی اور اس کے باہر بھی۔ یہ کشاکش اسے مضطرب بھی رکھتی تھی مگر یہی اس کا سرمایہ حیات بھی تھا:
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
٭٭٭
یہ شہادت کہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
جدید نفسیات کا ایک مسلمہ نظریہ ہے کہ انسا ن جس چیز کے خلاف زور شور سے احتجاج کرتا ہے اور صبح و شام اس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتاہے۔ وہ چیز اس کے اپنے نفس کے اندر تحت الشعور میں ابھی غیر مغلوب ہوتی ہے۔ اس کی قوت اور اس کے خروج سے وہ غیر شعوری طور پرخائف ہوتا ہے۔ اقبا ل جو ہزار جگہ ہزار پیرائوں میں خرد کی تحقیر اور تذلیل کو بڑے لطف اور جوش کے ساتھ بیان کرتا ہے اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے اندر خرد کے غلبے کو محسوس کرتا ہے اور جس کی سرکوبی میں وہ لگاتار کوشش میں مصروف ہے۔ وقتاً فوقتاً وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہے آخری ایام میں بھی وہ سوز و ساز رومی کے باوجود پیچ و تاب رازی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا اور جب اپنے متعلق بے غل و غش سچی بات کہتا ہے تو وہ یہی ہوتی ہے کہ:
طور ہوں یخ پیرہن عقل خنک فطرت سے ہوں
یا افسوس کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہے کہ نگہ آلودہ انداز فرنگ:
تو اے مولائے یثرے آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری
عقلیت کے خلاف جہاد کی دوسری توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ روحانی وجدان کی ایک کیفیت ہے جو تعقل سے ماوریٰ ہے اور مذہب کا سرچشمہ یہ وجدان ہے ج انبیا اور اولیا میں بدرجہ اولیٰ پایا جاتا ہے لیکن عام طورپر لوگ بھی تزکیہ باطن اخلاق محمودہ اور عبادت الٰہی کی بدولت کم و بیش اس سے بہر ہ اندوز ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ نماز کے متعلق ارشاد ہے کہ الصلوۃ المعراج المومنین یہ جنبش اعضا کی نماز  نہیں ہے۔ بلکہ حضور قلب کی نماز ہے جو انسان کے لیے رفتہ رفتہ باطن کے دروازے کھول دیتی ہے۔ مغرب میں گزشتہ تین سو سال سے خاص عقل استدلالی اور عقل طبیعی کی ترقی کادور ہیںَ لیکن خارجی فطرت کی تسخیر نے انسان کو باطن کی طرف سے غافل کر دیا ہے اور انسان کی صرف خدا ہی کی نہیں بلکہ اپنے نفس اور تمام مابعد الطبیعیاتی حقائق کا منکر ہو گیا ہے۔ اس دورتعقل نے عالم مادی میں بہت کارہائے نمایاں کیے جن کا اقبال منکر نہ تھا او ر خود مذہب میں سے بھی بہت سے توہمات اس کی بدولت دور ہو گئے۔ اقبال نے سلام کے متعلق جو کہا ہے کہ:
جس کے ڈر سے وہم کا قصر کہن آئین گرا
گردن انساں سے طوق راہب خود بیں گرا
یہ کام مغرب نے بہت کچھ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عقلیت ہی کی بدولت کیا لیکن اصلاحات کے باوجود اس میں خرابی کا یہ پہلو بھی ترقی کرتا گیا کہ مادی عالم اور عقلیت کے سوا اور کوئی چیز حقیقی نہیںملتی۔ اس تنگ نظر حکمت نے اسنان کی مزید ترقی روک دی اور روحانیت سے معرا ہونے کی وجہ سے مادی ترقی بھی فساد انگیز ہو گئی۔ انگریزی مثل ہے کہ نیم صداقت او ر ادھورا ایمان بہت خطرناک چیزیں ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی مقولہ ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان اورنیم ملا خطرہ ایمان ۔ ہمارے ہاں نیم ملا خطرہ ایمان بن گئے اور مغرب میں نیم حکیم خطرہ جان بھی بنے اور خطرہ ایمان بھی۔ اقبلاا کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ سیاست فرنگ اورتہذیب مغرب کے غلبے کی وجہ سے عقلیت کے خلاف جہاد شروع کر دیا تکاہ مسلمانوں کو اس خطرے سے آگاہ کرے۔ اقبال کے بعض نقادوں نے کہا ہے کہ اقبال نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ کیوں کہ روحانیت تو مشرق کے خمیر میں موجود ہی تھی۔ خواہ وہ خالص حالت میں ہو یا خواہ کم و بیش توہم و تقلید کی آمیزش کے ساتھ مشرق کو خصوصاً ملت اسلامیہ کو بھی عقلیت اور مادیت میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر یہ بھی زندگی کا ایک اہم پہلو اور تکمیل انسانیت کے لیے ایک لازمی چیز ہے۔ اقبال کی اس تلیقن سے مسلمان کہیں اپنی بے عقلی انسانیت کے لیے ایک لازمی چیز ہے۔ اقبال کی اس تلقین سے مسلمان کہیں اپنی بے عقلی پر ہی نہ مطمئن ہو جائیں اور جو ہمہ طرفی ترقی اقبال چاہتا ہے اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ اقبال کا حقیقی عقیدہ یہ تھا کہ عقل ایک خداداد نعمت ہے اور انسانوں اور حیوانوں میں تمیز و فرق قائم کرتی ہے۔ لیکن اس کی حقیقت کے کچھ حدود ہیں ان حدود سے باہر آ کر دعوے لا حاصل اورلایعنی ہو جاتے ہین لیکن ان حدود تک عقل سے زندگی کا احاطہ کرنا اور فطرت خارجی کی تسخیر سے قوت حاصل کرنا انسان کے لیے لازمی ہے۔ مغرب کی تعلی آمیز اور مائل بہ الحاد عقلیت نے اس کو ایسا پریشان کیا کہ اس نے علی الاطلاق خرد کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور عقل کے نعم البدل یعنی عشق کی حمایت میں نعرے لگانے لگا۔ اقبال کو اس کا افسوس تھا کہ مغرب نے تو دنیا کو جنت بنانے کی کوشش میں عاقبت اور روحانی حقائق کو فراموش کر دیا لیکن مشرق کے ظاہر اور باطن دونوں میں فساد ہی فساد ہے۔ یہاں خسر الدنیا و الاخرۃ کا منظر اہل زکر و فکر کو اندوہ گین بنا دیتا ہے۔ عشق کے متعلق اقبال کے کیا تصورات ہیں ان کو ہم بعد میں پیش کریں گے۔ لیکن عقل کے متعلق اور زیادہ تر اس کی مخالفت میں اس نے جو بے شمار اشعار کہے ہیں ان کا انتخاب ذیل میں درج کیا جاتاہے:
عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے؟
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
٭٭٭
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوںکر
٭٭٭
خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے
خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے
خر د بیزار ہے دل خرد سے
٭٭٭
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی
٭٭٭
حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں
٭٭٭
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
ضمیر پاک س نگاہ بلند و مستی شوق
نہ مال و دولت قاروں نہ فکر افلاطوں
٭٭٭
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل! تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے
وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے
٭٭٭
علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
٭٭٭
جہاں صوت و صدا میں سما نہیں سکتی
لطیفہ ازلی ہے فغان چنگ و رباب
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے مری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
٭٭٭
برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے
فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری
٭٭٭
عقل کو استاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
٭٭٭
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی
٭٭٭
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
٭٭٭
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
اس شعر میں اقبال نے خرد کی افادیت کا بھی اقرار کیا ہے اور اس نے جو کچھ عطاکیا ہے اس کا شکر گزار ہے مگرتکمیل نفس عشق کے بغیر نہیں ہوتی۔ یہ بھی فیضان الٰہی سے حاصل ہو گیا:
مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال
مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ
اقبال اس کا منکر نہیں کہ خارجی فطرت کی تسخیر خرد ہی کی بدولت ہو سکتی ہے۔ اور یہ کام بھی کرنے کا ہے جسے فرنگ نے کیا ہے مگر مشرق سوتا ہی رہا۔ فطرت کی تنظیم اور اس کے آئین بہت دلکش اورنظر افروز ہیں مگر انسان عقل سے اس تنظیم میں بہتری پیدا کر سکتا ہے۔ تو شب آفریدی چراغ آفریدم کے مضمون کے پانچ سات اشعار فطرت خارجی میں انسان کی ترمیم و اصلاح کو دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں:؛
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
٭٭٭
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم
عقل کی عیاری کا ذکر اقبال نے اور بھی بعض اشعار میں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل بھی علم کی طرح ایک بے طرف قو ت ہے۔ اس کی خوبی یا خرابی ان مقاصد پر منحصر ہے جن کے حصول کے لیے اسے استعمال کیا جائے۔ نفسیات کے بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ عقل میں فی نفسہ اپنی کوئی قوت نہیں۔ انسان کے اندر کچھ خواہشات او رجذبا موروثی اور جبلی ہیں اور انہیں کی بدنظمی اور یا امارگی سے بعض مفید آرزوئین یا معامالت بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ عقل ان جذبات اورجبلتوں کی محض تماشائی ہے۔ جو تمنا دوسروں کو شکست دے کر قوی ہو جاتی ہے وہ عقل کو حصول مقصد کے لیے بطو ر آلہ کار بحیثیت غلام استمعمال کرتی ہے۔ عقل اس جذبے کے خیر و شر پر تنقید نہیں کرتی۔ فقط اپنی عیاری او ر ہوشیاری سے غرض کو پورا کرنے کی راہیں سمجھاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عقل حیوانی سطح اسفل پر جذبات کی غلامی ہی کرتی ہے البتہ تزکیہ نفس سے عقل میں روحانی تنویر پیدا ہوتی ہے تو وہ ا س غلامی اور حیلہ سازی سے نجات حاصل کرتی ہے اور حکمت بالغہ کے حصول میں معاون بن جاتی ہے۔ اقبال جس عقل کی عیاری اور حیلہ گری کی طرف اشاعرہ کر رہا ہے وہ ابھی تک جذبات اسفل سے پابہ زنجیر عقل ہے۔ نجات کا راستہ یہ ہے کہ انسان پہلے اپنی عقل کو آواز کرے اور یہ کام نہایت دشوار ہے۔ جو لوگ تعلی سے اپنے تئیں آزاد خیال سمجھتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر عقل سے یہی کام لے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ان میلانات تعصبات اور آرزوئوں کی حمایت کرے۔ امراض نفسیات کی تحقیقات نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے کہ عقل کس کس طرح بھیس بدل کر اور قباحت کو لطافت کے رنگ میں پیش کر کے دھوکے پیدا کرتی ہے۔ یہی باتیں ہیں جنہیں من کی چوریاں کہتے ہیں۔ ذلیل و خبیث و ظالم انسان بھی اپنے عمال کے جواز میں بظاہر محکم دلائل تراش لیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بقول یہ ہوتا ہے کہ یہ شریر انسان شہر کو بوقت عمل خیر ہی سمجھ کر کرتا ہے۔ اس عقل کو عارف رومی زیرکی کہتا ہے جو روحانیت اور عشق سے معرا ہو کر امتیازی خصوصیت رہ جاتی ہے:
مے شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی زابلیس و عشق از آدم است
اقبال جو خودی کا پیغامبر ہے انسانوں کو تقویت و تکمیل نفس کا پیغام دیتا ہے۔ اس کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ نفس انسانی کی انفرادی حیثیت کا ایک پہلو عقل کے استعمال اور علم کے حصول سے محکم ہوتا ہے۔ لیکن خالی فہم انسانی محرک عمل نہیں بن سکتی۔ انسان جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی تاثیر اور جذبے کی بدولت کرتاہے۔ اگر اس میں کمی ہو تو عقل زندگی کی تماشائی رہے گی یا اس کی نظری تنقید سے آگے نہ بڑھ سکے گی ۔ مسلمان صوفیہ ور بعض حکماء نے جبرئیل کو عقل کا مظہر قرار دیا جو زندگی کے حقائق سے آشنا ہے اور ان میں سے بعض حقائق کو بحکم ایزدی ابنیاء پر منکشف کرتا ہے جسے وحی کہتے ہیں۔ معراج نبوی کے بارے میں بعض مسلمانوں نے جو تخیل آرائی کی ہے اس میں اس بات کو بطور واقعہ پیش کیا ہے کہ رسول کریمؐ کی ہم رکابی میں وہ فرشتہ ایک مقام پر پہنچ کر رک جاتاہے اور عرض کیا ہے ہ آپ آگے تشریف لے ائیے بندے کی پرواز کی آخری حد تو یہی تھی‘ اگرمیں اس سے آگے اڑنے کی جرات کروں تو میرے پر جل جائیں گے:
اگر یک سر موے برتر پرم
فروغ تجلی بسوزد پرم
عارف رومی نے بھی فیہ مافیہ میں بیان کیا ہے کہ ملائکہ عقل کل ہی کی متنوع اورمتمثل صورتیں تھیں۔ جبرئیل ہوں یا اس سے کمتر درجے کے ملائکہ سب اس عقل ہی کی صورتیں ہیں جو  نظام عالم میںکارفرما ہے۔ اقبال نے بھی اسی تصور کو قبول کر کے اس شعر میں بیان کیا ہے:
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
جبرئیل کا کام عاقلانہ پیغام پہنچاناہے لیکن اسرافیل کا کام قیامت انگیزی ہے۔ یہ شعر خیزی انسان کی فطرت میں مضمر ہے۔ بقول غالب:
قیامت می دمد از پردہ خاکے کہ انسان شد
لیکن یہ قیامت جذبہ عشق سے بپا ہوتی ہے۔ عشقہی خلاق و فعال ہے۔ محض عقل کی کیفیت انفعالی ہے۔ انسانی ارتقاء میں جو قدم بھی اٹھتا ہے۔ وہ جذبہ عشق کی بدولت اٹھتاہے۔ عالم علم میں مست رہتا ہے۔ اور عابد عبادت میں لیکن عاشق عشق کے اندر لمحہ بہ لمحہ نئے احوال پیدا کرتا ہے  یہ انقلابات و تغیرات صرف نفس تک محدود نہیں رہتے بلکہ اپنے گرد و پیش کے عالم انسانی کی بھی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ قیامت کے معنی ہیں پہلے عالم کی موت اور ایک دوسرے عالم کا ظہور ۔ قیامت کبریٰ کی حقیقت خدا کے سوا کسی کو معلوم نہیں لیکن دنیا میں جو کبھی کبھی قیامت صغرا سی بپا ہو تی ہے اور کسی مر د مجاہد کی بدولت کوئی بڑا انقلاب ظہور میں آتا ہے۔ اس کا سرچشمہ عقل بلکہ عشق محشر انگیز ہوتا ہے:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عشق ابراہیمی نے عقل کے سمجھانے ہوئے مادی و جسمانی نفع و ضرر سے قطع نظر کرنے کی بدولت بت پرستوں کے اڈے میں توحید کا علم گاڑ دیا اور تربیت انسان کے لیے ایک ملت موحدہ کی بنیاد ڈالی۔ محمد رسول اللہ صلعم کے عشق نے اور زیادہ زور سے صور پھونکا جس سے صدیوں کی مردہ نفس ملتیں زندہ اور بیدار ہو گئیں:
سر مکنون دل او ما بدیم
نعرہ بیباکانہ زد افشا شدیم
لیکن خودی علم سے محکم اسی حالت میں ہوتی ہے کہ یہ علم عقل جزوی کی پیداوار نہ ہو جو انسان کو عالم مادی میں پا بگل کر دے۔ دانش برہانی روحانی اسی وقت بنتی ہے جب دل و دماغ کے تما م دریچے کھلے رہیں اور انفس و آفاق کے نور کی کرنوں کے سامنے دیواریں حائل نہ ہوں۔ محض مادی علوم کی تعلیم نے خودی کو مستحکم کرنے کی بجائے اس کو ضعیف کر دیا ہے مادی اسباب تو یدا ہو گئے لیکن روح پژمردہ ہو کر رہ گئی۔ اقبال اس محدوددانش کے نتائج سے خوب آگاہ تھا:
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
اسی آگ کے متعلق اقبال کا دوسرا شعر ہے:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
اقبال نے عالم عقلی کی بہت سیر کی ہے لیکن روحانیت کے بارے میں اس صحرا میں اس کو سراب ہی نظر آیا اگر اسی صحرا میں سرکرداں رہتا  تو تشنہ میری کے سوا چارہ نہ تھا۔ مغرب میں وہ فلاسفہ مغرب کی صحبت میں اسرار حیات کو دلائل سے فاش کرنے میں سعی بلی کرتا رہا ہے لیکن آخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہی وہ علم ہے جسے صوفیہ نے حجاب الاکبر کہا ہے:
فلسفی خود را ز اندیشہ بکشت
ہاں بگو او را سوئے گنج است پست
(رومی)
استدلال کی تقدیر میں حضور نہیں۔ استدلالیوں کا پائے چوبیں ان کو لنگڑاتے اور لڑکھڑاتے ہوئے چند قدم تک لے جاتاہے لیکن کسی منزل پر نہیں پہنچاتا۔ دماغی کاوشوں سے دل کے اندر آب حیات کا چشمہ نہیں پھوٹتا۔ اقبال جب اپنے اس دور تفلسف پر ایک نگاہ باز گشت ڈالتا ہے۔ تو محسوس کرتا ہے کہ اس تگ و دو سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا:
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
فلسفے نے اس کو آستانے تک لے جا کر چھوڑ دیا۔ درون خانہ داخل ہونے کا راستہ نہ بتایا:
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضورنہیں
٭٭٭
رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست
بر عاشقاں جز خدا ہیچ نیست
فکر کی خامی کا علاج ذکر ہے۔ عقل کی کمی کو نالہ شب گیر اور فغان صبح کا ہی ہی پورا کر سکتی ہے خرد زمان و مکان میں محدود ہو کر لازمانی اور لامکانی حقیقت کو تلاش کرتی ہے اوراس میں کامیاب نہیں ہوتی۔
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں
نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی
اماں شاید ملے اللہ ہو میں
٭٭٭
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
ترا دم گرمی محفل نہیں ہے
گزر جا عقل سے آگے یہ نور
چراغ رہ ہے منزل نہیں ہے
دین نے بھی عقل کو چراغ ہی قرار دیا ہے۔ انسان کی آخری منزل تو کبریا ہے اور وہاں تک مسافت دراز ہے بقول اقبال:
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظارکر
جب تک انسان منزل تک نہیں پہنچتا۔ تب تک راستے کی ظلمتوں کے لیے چراغ کی ضرورت ہے۔ جو شخص ابھی راستہ ہی طے کر رہا ہے مگر چراغ سے بے نیازی ظاہر کرتا ہے۔ وہ ضرور اندھیرے میں ٹھوکریں کھائے گا لیکن اس نے چراغ ہی کومقصود و منتہا سمجھ لیا ہے وہ چراغ ہی کو معبود بنا لے گا۔ جیسا کہ بعض حکما نے کیا ہے۔ اسلا م نے جو عقل کے استعمال پر زور دیا ہے وہ اسی لیے ہے کہ صرا ط مستقیم پر چلنے کے لیے وہ چراغ کا کام دے گی۔ قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے کہ نجات یافتہ جنتیوں کا نور قلب راہنمائی کے لیے ان کے آگے آگے اور گرد و پیش ہو گا۔ نور  کا کام بہرحال راستے کو روشن کرنا ہے۔ نور فی نفسہ مقصود نہیں ہو سکتا۔ مقصود تو خدا ہے جس سے تمام انواار وجود کا اشراق ہوتا ہے:
نہ شب نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
ہمہ آفتاب بینم ہمہ آفتاب گویم
(رومی)
خرد کے چراغ راہ ہونے کے متعلق اقبال کا ایک دوسرا قطعہ بھی بصیرت افروز ہے:
خرد سے راہرو روشن بصر ہے
خرد کیا ہے چراغ راہ گزرہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے
عقل اگر جذبات کی غلامی سے کور و تاریک نہ ہو گئی ہو اور جادہ حیات میں مسلسل رہنمائی کرتی رہے تو عقل کی منزل اور عشق کا حاصل ایک ہو جاتاہے۔ علامہ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی اس کا اظہار ککیا ہے اور ویسے گفتگو میں بھی فرمایا ہے کہ عقل اپنے گماں میں وجدان میں مبدل ہو جاتی ہے۔ مرد مومن کے متعلق فرماتے تھے:
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ
اندلس کے مسلمان حکماء کی تعریف میں بھی کہتے ہیں:
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
یہ مادیات اور طبیعیات میں محصور خرد بے وحی و وجدان خدا کی ہستی کے متعلق یقین پیدا نہیں کر سکتی۔ اور انسان کو تشکییک اور تذبذب کی بھول بھلیوں سے نہیں نکال سکتی۔ اس عقیدے کو اقبا نے کئی جگہ مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ لینن بھی خدا کے حضور میں یہی معذرت کرتا ہے کہ مغربی سائنس کے پاس  خرد کے سوا کوئی ذریعہ وعلم نہ تھا اور خرد کے نظریات متغیر اور باہم متصادم تھے۔ ایسی حالت میں مجھے تیری ہستی کا یقین کہاں سے پیدا ہو سکتا تھا:
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
فرشتوں کا گیت میں ملائکہ کی زبان سے اقبال اس پر افسوس ظاہر کرتا ہے کہ انسان ابھی عشق ہی میں خام نہیں بلکہ اس نے بھی عقل کا بھی صحیح اور پورا استعما ل نہیں کیا۔ جب تک یہ دونوں خامیاں دور نہ ہوں گی اور عشق و عقل اپنے کمال میں ایک دوسرے کے معاون نہ بن جائیں تب تک انسانیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ عقل ابھی تک بے عنان ‘ راہ شناس سواری کے جانور کی طرح ہے اور اس کی وجہ سے انسان کا وہی حال ہے جو غالب نے اس شعر میں بیان کیا ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اور کچھ ایساہی حال عشق کا ہے کہ ادھر ادھر آنی جانی اشیا کے ساتھ لگائو پیدا کرتا ہے۔ ایک کوپکڑتا ہے اور دوسرے کو چھوڑتاہے۔ ازیک بگستی بد گر پیوستی کہیں مطمئن نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ اپنی منزل اور اپنے مقام سے آگاہ نہیں ہے۔ عشق خام بھی عقل خام کی طرح ہرزہ گرد اور ہرجائی ہے:
عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی
کوتاہ کمند خرد کی حکیمی اقبا ل کے نزدیک خودی کینامسلمانی ہے۔ محدود عقلیت کو جو اپنے محدود مشاہدات اور تجربات سے اصول حیات کا استقرا کرنا چاہتی ہے ۔ نہ کسی ولی کی ولایت سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اورنہ کسی نبی کی نبوت۔ ابلیس نے اسی محدود خرد سے آدم کو دیکھا تو اس کے اندر پھونکی ہوئی روح الوہیت اور ارتقا انسانی کے لامحدود امکانات اس  کی سمجھ میں نہ آ سکے۔ اسے نصب اللعینی آدم محض ایک خاک کا پتلا دکھائی دیا۔ آد م و ابلیس کا یہی قصہ تاریخ نے کئی بار دہرایا ہے۔ مسیح کو بنی اسرائیل نہ سمجھ سکے۔ ان کے نزدیک وہ منکر شریعت اور مخرب ملت ہونے کی وجہ سے سزائے موت کا مستوجب بنا۔ محمد صلعم بھی ابوجہل اور بولہب کے لیے قابل فہم نہ ہوئے۔ ان لوگوں میں محڈود سی دنیاوی عقل تو تھی لیکن عشق الٰہی سے ان کا ضمیر خالی تھا:
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیٰ عقل تمام بولہب
خارجی فطرت کی تسخیر کی وجہ سے عقل طبیعی میں ایک قسم کا پندار پیداہو جاتاہے۔ جس طرح پندار زہد اور فقہیانہ غرو ر انسان وک روحانیت سے دور کر دتیا ہے۔ اسی طرح پندار عقل بھی انسان کو بیباک اور گستاخ کر دیتا ہے۔ روحانیت کے بغیر حکیم طبیعی میں جتنی قوت پیدا ہوتی ہے وہ ایک ساحر کی قوت کی طرح تخریب حیات میں صڑف ہونے لگتی ہے۔ طبیعی سائنس اور فلسفہ کو س لمن الملک بجانے لگتا ہے اور اناربکم الاعلی کا نعرہ بلند کرنے لگتا ہے۔ یہ عقلیت فرعون کی طرح انا الحق کہہ کر انسانوں کو اپنا پرستار بنا نا چاہتی ہے۔ لیکن اس پرستاری کا انجام غرقابی اور تباہی کے سوا اور کچھ نہیں:
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
روحانیت سے معرا محض عقلیت کی پیدا کردہ تہذیب کے متعلق اقبال کی پیش گوئی پہلے درج ہو چکی ہے جو اس کی زندگی ہی میں پوری ہونی شروع ہو گئی تھی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا
اقبال کے کلام میں کئی جگہ خبر اور نظر کا موازنہ ملتا ہے۔ اس کی کسی قدر توضیح کی ضرورت ہے۔ ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ انسان کے پاس علم اور دو ذریعے ہیں۔ خود دیکھا ہوا اور محسوس کیا ہوا علم کم ہے اور دوسروں سے سنا ہوا کتابوں میں پڑھا ہوا یا روایات سے حاصل کردہ علم کی مقدار نسبتاً بہت زیادہ ہے۔ اکثر لوگوں کا دین بھی تقلیدی ہوتا ہے۔ محسوسات اور عقل کی بجائے اس کا مدار نقل پر زیادہ ہوتا ہے۔ جو خبریں لوگوں تک پہنچی ہیں ا ن میں سے بعض انبیا کی طرف بتحقیق یا بلا تحقیق منسوب ہیں اور بعض دیگر بزرگان دین اور ائمہ فقہ کی طرف۔ بعض اولیا کے روحانی تجربات اور وجدانات ہیں وہ بھی عام لوگوں کے لیے خبر ہی ہیں معقولات اور علوم طبیعی کا جو ذخیرہ ہے وہ بھی بہت حد تک بطور خبر ہی عوام تک پہنچتا ہے۔ حیات و کائنات کے بہت کم حقائق ایسے ہیں جن کا تجربہ کسی ایک انسان کو براہ راست ہو۔ ایک حکیم مغربی نے درست فرمایا ے کہ انسان کا اصلی علم جو جزو حیات پر اس کی زندگی میں موثر ہوا اتنا ہی ہوتا ہے کہ جتنا کہ اس کی اپنی زندگی کے تجربہ میں آ چکاہے۔ باقی معلومات یوں ہی سطح شعور پر تیرتے رہتے ہیں۔ دنیا میں جو کثرت سے علماء بے عمل ملتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا علم بطور خبر ان تک پہنچتا ہے۔ اور وہ اس خبر کو دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ چونکہ وہ تلقین ان کے اپنے قلوب کی گہرائیوں میں سے نہیں ابھرتی اور خود ان کا کچھ تجربہ اور مشاہدہ نہیں اس کے لیے ان کا وعظ بھی دوسروں کے قلوب کو مرتعش نہیں کرتا۔
ایک گہری بات خبر ونظر کے متعلق یہ ہے کہ زندگی کے حوادث اور کائنات کے مظاہر انسان کو کسی حقیقت ازلی کی خبر دیتے رہتے ہیں۔ یہ آیات یا نشانیاں ہیں ان حقائق کی جو نظر سے اوجھل ہیں لیکن بصیرت پر منکشف ہو سکتے ہیں۔ آیات قرآنی کی طرح قرآن نے مظاہر فطرت کو بھی آیات کہا ہے۔ کیوں کہ یہ تمام نشانیاں ہیں جو ایک خلاق حکیم و رحیم کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ انسان میں وہ نظر پیدا ہوجائے کہ جو منظور حقیقی کو براہ راست دیکھ سکے۔ غرضیکہ تقلیدی دین کی طرح سائنس بھی خبر ہی خبر ہے۔ عقل طبیعی دین تقلیدی کی طرح خبر سے نظر کی طرف ترقی نہیںکرتی۔ حالانکہ انسان کا مقصود براہ راست وجدان حقائق ہے دین بھی اسی شخص کا خالص اورکامل ہے جس کے لیے دین ایک شخصی اور روحانی تجربہ اور وجدان ہے۔ تقلید سے تحقیق کی طرف ترقی علم انفس و آفاق کا جادہ ارتقاء اور منزل مقصود ہے جس طرح دین تقلید محض سے ناقص رہ جاتا ہے اور ایمان میں دین عین الیقین والی پختگی پیدا نہیںہوتی اسی طرح حکیم طبیعی اگر مظاہر کی پیش کردہ خبر یا علامات سے آگے نہ بڑھ سکے و وہ بھی مقصود تک نہیں پہنچتا۔
مرید ہندی اورپیر رومی کے سوال و جواب میں اقبا ل نے مرشد سے ایک سوا ل کیا ہے کہ:
خاک تیرے نور سے روشن بصر
غایت آدم خبر ہے یا نظر
اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں کہ:
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
فلسفہ اور سائنس دانش ہے اور وجدان و عرفان بینش حضرت ابو سعید ابو الخیر اور بو علی سینا کے مکالمے کا حال ہم پہلے درج کر چکے ہیں۔ جس میں جو کچھ بوعلی سینا نے کہا وہ عقل کی خبر تھی لیکن جو کچھ ابوسعید جانتے تھے وہ چشم بصیرت کا براہ راست مشہود تھا شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔
بال جبریل میں ایک نظم فلسفہ و مذہب کے عنوان سے ہے ۔ اس میں فلسفی کے تذبذب کا حال تو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے لیکن مذہب کی نظر بطور تقابل اس میں نہیں۔ صرف انتا کہا گیا ہے کہ بندہ صاحب نظر کہیں نظر نہیں آتا۔ کہ اس کی بدولت یا خود مجھ میں نظر پیدا ہو یا اس کی نظر یقین آفرین ہو:
یہ آفتاب کیا یہ سپہر بریں ہے کیا؟
سمجھا نہیں تسلسل شام و سحر کو میں
اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار میں
ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں
کھلتا نہیں مرے سفر زندگی کا راز
لائوں کہاں سے بندہ صاحب نظر کو میں
رومی یہ سوچتا ہے کہ جائوں کدھر کو میں
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اقبال نے کئی اشعار میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بے یقنی فرد ملت اور دونوں کی موت ہے۔ اقبال نے اسی لیے ملت کو فلسفے سے گریز کی تعلیم دی ۔ کہ عوام و خواص سب کا ایمان پہلے ہی ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ اگر سوچنے والے اس حیرت میں پڑگئے جو فلسفے کا آغاز اور اس کی انتہا ہے تو وہ پوری قوت کے ساتھ کوئی راہ عمل اختیار نہ کر سکیں گے۔ حکمت بے عشق کے متعلق بال جبریل کے آخری حصے میں فلسفی پر دو اشعار ہیں:
بلند بال تھا لیکن نہ تھا ؤجسور و غیور
حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہین وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
یہ اشعار تھوڑی سی شرح کے محتاج ہیں۔ فلسفی کے بلند بال ہونے میں کیا شک ہے۔ فلسفی خاک سے افلاک تک اور ثریٰ سے ثریا تک مظاہر عالم کی پیمائش کرتا اور ان کو علت و معلول کے عالمگیر قوانین میں منسلک کر نے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جرات رندانہ کی طرح جرات عارفانہ بھی ایک چیز ہے جو کشف حقائق کے لیے بہت ضروری ہے۔ فلسفی زمانی اور مکانی طبیعی اور مادی عالم سے آگے پرواز کرتے ہوئے گھبراتاہے اور سمجھتا ہے  کہ جتنا عالم معقولات کے احاطے میں آ گیا ہے اس کے آگے خلا ہی خلا ہے۔ جن لوگوں نے اس سے آگے بھی کچھ دیکھا اور تجربہ کیا ہے ان کے مشاہدات و توہمات سمجھ کر ٹھکرا دیتا ہے۔ وہ خود ا س خوف میں مبتلا ہے کہ اگر محدود عقلیت کی زمین میرے پائوں تلے سے نکل گئی تو میں خلاے لامتناہی میں گر جائوں گا۔ وہ حاضر سے غائب کی طرف جرات کا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ آگے اس کو تاریکی ہی نظر آتی ہے۔ اور تاریکی سے انسان فطرتاً خائف ہوتا ہے۔ ایک حکی عارف نے عالم مادی کو چمٹنے والے اوراس پر سے اپنی گرفت کو ڈھیلا نہ کرنے والے شخص کا حال ایک تمثیل میں بیان کیا ہے کہ کوئی شخص رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر سے پھسلا نیچے گہری کھڈ تھی جس کے پہلوئو میں جا بجا درخت کھڑے تھے۔ تھوڑی دور لڑھکنے کے بعد ایک درخت کی شاخ پر ا س کا ہاتھ پڑ گیا۔ اس نے اس شاخ کو دونوں ہاتھوں سے بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا۔ زبردست قوت ارادی سے اپنے دونوں پنجوں کو پنجہ آہنیں کر کے تمام رات خوف سے لرزتا رہا اور لٹکتا رہا کہ اگر ہاتھ چھوٹ گئے تو ہزار فٹ نیچے گروں گا اور میرا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی حالت میں وہ صبح تک لٹکا رہا لیکن جب پو پھٹی اور کچھ دکھائی دینے لگا تو اس نے دیکھا کہ تھوڑی سی مسطح زمین اس کے قدموں کی طرف ایک فٹ نیچے تھی۔ خیر ا س کی جان میں جان آئی لیکن اپنی لاعلمی کی بدولت اس نے جو درد و کرب اور خوف میں رات گزاری تھی اس پر افسوس کرنے لگا۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ جسارت نہ کر سکا تھا۔ اقبال  کے نزدیک معقولات میں محصور حکیم طبیعی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ جسور نہیں۔ اگر جسارت کرے تو فنا نہیں بلکہ بقا کے قریب ہو جائے اور ا س خدا سے اقرب ہو جائے کہ جو کسی قعر عمیق میں نہیں اور نارسا بلندیوں پر عرش نشیں نہیں بلکہ شہ رگ کے قریب ترہے۔
دوسرا اعتراض حکیم طبیعی پر اقبال نے یہ کیا ہے کہ ہو غیور نہیں ۔ یہ اعتراض غور طلب ہے علم میں ـغیر ت کا کیا سوال ہے اس غیرت کا تعلق اقبال کے فلسفہ خودی سے ہے۔ غیور انسان اپنی خودی کا محافظ ہوتا ہے۔ خودی کا گہرا تصور انسان کو دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیتا ہے اس سے وقار نفس پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وقار نفس اسی حالت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے نفس کو عالم طبیعی کی پیداوار نہ سمجھے اور حوادث کے تھپیڑے نہ کھاتا رہے۔ لیکن اگر نفس کی لامتناہی قوتوں پر ایمان نہ ہو و انسان ہر حادثے سے مرعوب اور مغلوب ہو جائے گا۔ وہ مادی قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا اور جابر یا ذی اقتدار انسانوں کے سامنے بھی اس کی گردن جھکی رہے گی۔ ایسے انسان کو غیور کیسے کہہ سکتے ہیں۔ اقبال نے ایک جگہ خوب کہا ہے کہ خدائے کائنات کے سامنے ایک سجدہ انسان کو ہزار سجدوں سے نجات دلواتاہے۔ خدا کا پرستار ہی کسی مادی یا انسانی قوت کے سامنے نہیں جھکتا۔ تخلقوا باخلاق اللہ کی تعلیم کے مطابق خدا کے غیور ہونے کی صفت مرد مومن میں بھی پیدا ہوتی ہے۔ ماسویٰ اللہ کے سامنے جھکنے سے تن اور من دونوں جھوٹے معبودوں کی غلامی میں ذلیل ہو جاتے ہیں۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
خرد کی کوتاہیوں کا ذکر اقبال عام طور پراس انداز سے کرتا ہے کہ اس میں خلل ہی خلل معلوم ہوتاہے ۔ اور کوئی خوبی دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے ک عقل خود اپنے حدود کے اندر بھی مسلسل اپنی خامیوں سے آگاہ ہوتی رہتی ہے۔ فلسفے پر عام طور پر اقبال کا اعتراض یہ ہے کہ استدلالی مکانی اور حیوانی عقلیت کے ماوریٰ نہ اس کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہستی کے ان ماورائی پہلوئوں کا وہ قائل ہوتا ہے۔ یہ اعتراض فسفے کے کثیر حصے پر ضرور وارد ہوتا ہے۔ یونان میں فلسفہ ایک قسم کی مادیت سے شروع ہوا اور ترقی کرتا ہوا خالص عقلیت تک پہنچ گیا۔ لیکن سقراط و افلاطون کی عقلیت سے بھی ماورائے عقل کنہ وجود ے تصور سے مطلقاً معرا نہیں ہے۔ خود افلاطون کے ہاں ایروس یعنی عشق ازلی کا ایک بلند تصور ملتا ہے۔ سقراط نے بھی اقرار کیا ہے کہ میں ایک غیر معمولی عقلی الہام سے زندگی کے اہم موقع پر ہدایت حاصل کرتا ہوں۔ میرے اندر ایک دیوتا ہے جو مجھے ایسے اقدام سے ہمیشہ روک دیتا ہے کہ جو نامناسب اور نامعقول ہوں۔ میں اس مصدر ہدایت کے راز سے واقف نہیں ہوں۔ جو ہدایت مجھے ملتی ہے وہ استدلال کا نتیجہ نہیںہوتی۔ اسی لیے کسی استدلال سے میں اس کی صحت کا ثبوت بھی پیش نہیں کر سکتا۔ یہ آواز مجھے کچھ کرنے کا حکم نہیں دیتی۔ اس میں کوئی امر نہیں ہوتا۔ خالص نہی ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے باطنمیں الوہیت کا یہ سرچشمہ میری ایجابی زندگی کو اس مقصد کے موافق سمجھتا ہے جس کو پورا کرنے کا مشن میر ے حوالے کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں غلط روی کا امکان ہووہاں مجھے روک دیتا ہے۔ قدیم اور جدید فلاسفہ میں بڑے بڑے مفکرین ایسے گزرے ہیں جنہوںنے نظریہ علم میں یہی کام کیا ہے کہ عقل استدلالی اور زمان و مکان اور علت و معلول کے حدود کے اندر عمل کرنے والی خرد کی محدودی کو ثابت کیا جائے۔ زمانہ حال میں تنقید نظری کا عظیم الشان کام جرمنی کے امام فلسفہ کانٹ نے شروع کیا ۔ اس کے بعد کے اکابر حکمائے مغرب میں بہت کم ایسے ہیں جنہوںنے محض طبیعی عقلیت کو اسرار حیات و کائنات کا کاشف قرار دیا ہو۔ ہیگل کی منطق بھی ارسطو کی سی جامد منطق نہیں ہے۔ اس کے ہاں فکر و حیات میں ہم آہنگی ہے دونوں کے اندر مسلسل تضادات پیدا ہوتے ہیں اورایک اعلیٰ تر ترکیب کے اندر رفع ہوتے ہیں۔ گویا فکر بھی ایک مسلسل تخلیقی تحقیق ہے۔ جماد و نبات و حیوان و انسان سب کی تعمیر میں ایک خرابی کی صورت یہ پیدا ہوتی ہے کہ جس کو رفع کرنے میں وحدت ترکیبی پیدا کرنا روش حیات و کائنات ہے۔ مغرب میں خدا کے قائل فلسفیوں نے اس منطق سے موافق توحید نتائج اخذ کیے ہیں اگرچہ اس کے بعض پیرو مذہب سے دور ہو گئے المانوی فللاسفہ میں نطشے کا نظریہ حیات اقبا ل کے نظریہ حیات کے بہت مماثل ہے چنانچہ اسرار خودی کے بعض اشعار میں خودی کی بابت نطشے کا استدلال دلنشیں اشعار میں منتقل ہو گیا ہے۔ نطشے نفس الٰہی اور نفس انسانی کوازروئے ماہیت خلاق اور ارتقا کوش سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہستی خور ورشز تکمیل خودی کے لیے مزاحمتیں پیدا کرتی ہے۔ تاکہ ان پر غلب حاصل کر کے وہ قوی تر ہو جائے۔ اقبال کے ہاں بھی شر اور شطیان کا یہی صور ہے جس کی شان میں اس نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اس کا یہ مقصود واضح کرنا ہے کہ اگر شر یا اس کے مشخص تصور شیطان کا وجود نہ ہوتا تو ہستی جامد اور بے حرکت ہو کر رہ جاتی۔ عقل طبیعی کا سب سے بڑا نقاس فلسفی برگساں ہے۔ جس سے بہتر کبھی کسی حکیم نے عقل اور وجدان کا موازنہ نہیں کیا اور وجدان حیات کو جو طبیعی اور استدلالی نہیں ہے وہ بھی اقبال کی طرح عشق خلاق ہی قرار دیتا ہے۔ امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات اور فلسفی ولیم جیمز بھی طبیعی اور استدلالی عقل کو ہستی کے لامتناہی پہلوئوں کو مدرک نہیںسمجھتا۔ زمانہ حال میں جدید طبیعیات کے ماہرین میں س اڈنگٹن اورجیمز جیسے فلاسفہ پیدا ہو گئے ہیں جو طبیعیات کی ریاضیاتی عقل کو ایک ثانوی چیز قرار دیتے ہیں اور زندگی کو جو اپنا براہ راست وجدان حاصل ہے ان کے نزدیک وہ حقیقت حیات و کائنات سے زیادہ قریب ہے۔ ان تمام فلاسفہ میں کوئی نبی یا ولی نہیں ہے۔ خود عقل کے وسیع تر اطلاق نے اور خود عقل کے تجزیے نے ان کوان حقائق کا قائل کر دیا جو عقل اور محسوسات اور زمان و مکان سے ماوریٰ اور نفس انسانی کی ماہیت سے قریب تر ہیں۔ جس حد تک اقبال عقل کا نقاد ہے وہ بھی ان حکما کی فہرست میں شامل ہے جو بعض اشعار میں اس نے انہی حکما کے افکار کو اپنے شعریت کے خم میں ڈبو کر رنگین کر دیا ہے۔ان نظریات کو اقبال نے ایسے جوش اور ولولے کے ساتھ اورایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ خود ان حکماء کا استدلال طبیعت پر ایسا گہرا اثر نہیں چھوڑتا کہ جتنا کہ اقبا کے شعر سے پیدا ہوتا ہے ۔ اقبال خود فلسفی بھی ہے او ر شاعر بھی۔ اس کی طبیعت میں بو علی اور رازی کا اندا ز بھی ہے اور رومی کا سوز و گداز بھی ۔ اسی آمیزش نے اس کے کلام کو الہامی بنا دیا ہے اقبال فلسفے اور شعر کے فر ق سے خوب واقف تھا لیکن اقبال کے اندر یہ تضا د قائم نہیں رہتا اور فلسفہ شعر بن کر دل رس ہو جاتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے:
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می کردد چو شوز از دل گرفت
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
عقل کے بھی کئی مدراج ہیں۔ بعض حکماء نے ان مدارج کو مادے سے شروع کر کے خدا تک پہنچایا ہے۔ یہ تدرج بھی یونانیوں نے پیدا کی ہے۔ ان کے ہاں ہیولی ہستی بے صورت کا تصور تھا جو عدم کے مترادف ہے ہستی اسفل ترینج مدراج میں وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے یہ ہیولیٰ یا عدم کسی تصورکے تحقق سے کوئی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ تصور عالم عقلی ہی کا عکس ہوتا ہے جو عدم پر پڑ کر اس کو وجود بخشتا ہے۔ غرضیکہ عقل کا ظہور جمادات سے شروع ہوتا ہے اور نبات میں کچھ ترقی یافتہ ہے اور حیوانات میں کچھ اور برھ گیاہے۔ انسان میں پہنچ کر عقل کی ترقی انفس و آفاق پر محیط ہو جاتی ہے۔ لیکن ہر درجے میں عقل کے ساتھ مادے کی کچھ نہ کچھ آمیزش باقی رہتی ہے۔ سوا خدا کے جو عقل محض ہے۔ اس میں مادے کی کوئی آمیزش نہیں اورنہ مادے سے ملوث کوئی وجود اس کے علم کا معروض ہے۔ وہاں پہنچ کر عالم و معلوم کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ خدا محض اپنا ہی عالم ہے ماسویٰ کا وجود چونکہ حقیقی نہیں اس لیے خدا کو اس کا علم بھی نہیں کیوں کہ اگر علم کا معروض غیر حقیقی ہوتو وہ علم علم ہی نہ رہے گا۔ ارسطو کے نظریہ علم کا لب لباب یہی ہے۔
اکثر حکماء عقل طبیعی اور عقل استدلالی پر آ کر رک گئے اور اس عقیدے کی تلقین کرنے لگے ۔ کہ تمام عالم عقلی ہے اور اس کا ادراک بھی عقل کے سوااور کسی چیز سے نہیں ہو سکتا۔ لیکن امام غزالی جسیے حکماء صوفیا نے عقل جزوی اور عقل کلی میں فرق پیدا کیا ہے اور حکما طبیعین کی عقل کو وہ عقل جزوی کہتے ہیںَ جس سے عقل کلی ہونے کا مغالطہ پیدا ہو گیا ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ عقل کے مدارج انسانوں بلکہ حکماء تک بھی ختم نہیں ہوتے۔ اس سے برتر بھی عقل کا ایک درجہ ہے جسے امام غزالی عقل نبوی کہتے ہیں اور رومی نے کہیں کہیں اسے عقل ایمانی کہا ہے ۔ اقبال اپنے انگریزی خطبات میں روحانی وجدان کی بابت لکھا ہے کہ وہ بھی محض تاثر یا جذبہ نہیں ہے بلکہ حقائق حیات کی بابت اس میں وسیع تر علم اور عمیق تر بصیرت پائی جاتی ہے۔ یہاں بھی وجدان و عشق و سوز و گداز کے ساتھ ساتھ عقل و علم کی وسعتیں موجود ہیں۔ اقبال بار بار اس پر زور دیتا ہے کہ استدلالی اور طبیعی عقل ہی کو عقل نہ سمجھ لو اور چونکہ لوگوں نے اسی کو عقل سمجھ رکھا ہے جو اکثر حیوانی جذبات  کی غامی کرتی اور اور نزدگی کے متعلق انسان کی نظر میں تنگی پیدا کرتی ہے اور اس لیے وہ عقل کے مدراج کی توضیح کیے بغیر اس کی کوتاہی اور حقیقت نارسی ہی کا زور و شور سے اعلان کرتا ہے۔ جس سے عام پڑھنے والوں کو مغالطہ ہوتا ہ۔ کہ وہ علی الاطلاق ہر قسم کی عقل کو بیکار چیز سمجھجتا ہے۔ اور لوگوں کو اس سے بے راز کر کے بے سمجھے بوجھے ایمان لانے اور جذبہ عشق پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ عقل جزوی وہ ہے جو خود اپنی نقاد اور اپنے حدود و مقام کی شناسانہیں بن سکتی۔ اس کو وہ کبھی الحاد آفریں کہتا ہے اور کبھی بہانہ جو اور فسوں گر مگر اعلیٰ درجے کے حکما اس فسوں گری کا شکار نہیں اور خود فلسفیانہ استدلال ہی سے انہوںنے غیر استدلالی حقائق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ خود اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں ایسا ہی کیا ہے ان خطبات میں جو کچھ ہے وہ بھی فلسفہ ہی ہے۔ جسے اقبال نے الٰہیات کی معاونت میں استعمال کیا ہے ۔ باقی رہے عقل جزوی یا عقل محدود کے فلسفے جو عقل ایمانی یا عقل نبوی کے قائل نہیں ان کی بابت اقبال مخالفانہ تنقید سے نہیں تھکتا۔ کیوں کہ ایسے فلسفے انسان کو حقیقت حیات خدا اور خودی سب سے بیگانہ کر دیتے ہیں:
چہ کنم کہ عقل بہانہ جو گرہے بروے گرہ زند
نظریے! کہ گردش چشم تو شکند طلسم مجاز من
نرسد فسوں گری خرد بہ تپیدن دل زندہ
ز نشت فلسفیاں درآ بحریم سوز و گداز من
عقل کی تنقید ان دو چار مخصوص مضامین میں سے ہے جو اقبال کی خاص تبلیغ اور نطریہ حیات کے محور ہیں۔ جو اشعار منتخب کر کے پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور بہت سا کلام ااسی موضوع پر مشتمل ہے۔ اس تنقیدکو ختم کرتے ہوئے ہم پیام شرق میں مندرجہ ذیل نظم محاورہ علم و عشق قارئین کی لطف اندوزی اور بصیرت افروزی کے لیے پیش کرتے ہیں۔ اس کا لب لباب وہی ہے جو اس موضوع کے دوسرے اشعار میں بھی موجو د ہے۔ لیکن اقبال کے انداز شعریت میں ہمیشہ جلوہ تازہ بتازہ اور نو بنو ہوتا ہے۔ موضوع خواہ ایک ہی ہو لیکن انداز بیان کی بوقلمونی میں فرق نہیں آتا:
علم
نگاہم راز دار ہفت و چار است
گرفتار کمندم روزگار است
جہاں بینم بایں سو باز کردند
مرا با آنسے گردوں چہ کاراست
چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم
بیازار افگنم رازے کہ دارم
عشق
ز افسون تو دریا شعلہ زار است
ہوا آتش گذار و زہر دار است
چو بامن یار بودی نور بودی
بریدی از من و نور تو نار است
بخلوت خانہ لاہوت زادی
ولیکن در نخ شیطاں فتادی
بیا ایں خاک داں را گلستاں ساز
جہان پیر را دیگر جواں ساز
بیا یک ذرہ از درد دلم گیر
تہ گردوں بہشت جاوداں ساز
ز زور آفرینش ہمدم استیم
ہماں یک نغمہ را زیر و بم استیم
علم دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہفت افلاک اور چار عناصر یعنی خاک و افلاک کے رموز سے واقف ہوں۔ اور تمام زمانے کے احوال و حوادث میر احاطہ ادراک میں ہیں۔ مجھے بصیرت جہاں بینی کے لیے عطا ہوئی ہے سواس جہان کو سمجھنے کا کام میں نے بخوبی انجام دیا۔ ستاروںسے آگے اگر کوئی جہان ہیں یا کوئی لا زمانی و لا مکانی عوالم کہیں ہیں تو مجھے ان سے کیا واسطہ  میں اسرار کو سربستہ رکھنے کا قائل نہیں جو کچھ معلوم ہوتاہے تمام ماننے والوں کے سامنے علی روس الاشہاد بیانگ کو اس کا اعلان کردیتا ہوں۔ عشق اس کے جواب میں کہتا ہے کہ آ پ کی ساحرانہ قدرت کے توہم قائل ہین مگرآپ ہم سے قطع تعلق کر کے دنیا کو نمونہ جہنم بنا لیا ہے۔ دریائوں میں بھی آگ لگائی ہے اور ہوائوں  میں کہیں زہر پھیلایا ہے تو کہیں آتش فشاں مادوں سے فضا کو شعلہ زار بنا دیا ہے ۔ جب تک ہم سے یاری قائم تھی تو نور تھا ہم سے الگ ہو کر نار بن گیا۔ میری طرح تو بھی لاہوت ؤکے خلو ت کدے میں پیدا ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے تو شیطان کی لپیٹ میں آ گیا تلبیس ابلیس نے مجھے بھی شیطنیت سکھا دی۔ اب بھی اگر تو باز آ جائے تو پھر ہم اور تم بگڑی کو بنا سکتے ہیں۔ تو محض اپنی قدرت سے دنیا کو جنت بنانے کے وہم باطل میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اب تو نے تجربہ کر لیا ہے کہ بے اعانت عشق خالی علم سے جنت کی بجائے دوزخ وجود میں آتی ہے۔ ابتدائے آفرینش میں خدا نے ہم دونوں کو ہمد م اور ایک دوسرے کا معاون بنایا تھا۔ اب بھی باہمی تعاون سے ہم ا س خاکدان کو جنت بنا سکتے ہیں۔ اور اس فرسودہ جہان میں حیات نو پیدا کر سکتے ہیں۔ علم بے محبت کچھ اھے نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔ تھوڑا سا درد دل مجھ سے لے کر پھر عمل کر تو دیکھ کہ اس گردوں کے نیچے بھی بہشت جاوداں کا لطف پیدا ہو جائے گا۔ زندگی میں دو عظیم الشان قوتیں ہیں ایک علم اور دوسری عشق۔ خدا نے ان کو توام پیدا کیا ہے۔ اور ان کا رابطہ اس قسم کا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیربے کار بلکہ ضرر رساں ہو جاتاہے۔ ازروئے عقل اور بواسطہ ایمان و وجدان اقبال موحد ہے اور خداوعالم روحانی کا قائل ہے۔ مذہب کی تلقین اپنے وجدان اور حقائق حیات پر غور کرنے کے عد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ زندگی میں دو ہی اقدار اساسی ہیں ایک علم اور دوسرا عشق اور انسانی زندگی کے ہمہ سمتی کا ارتقا کا مدار انہیں اقدار کے تحقق پر ہے۔ لیکن ایک کافر طبیعی فلسفہ برٹ رینڈ رسل بھی اپنے عقائد کے متعلق ایک چھورے رسالے میں یہی لکھتا ہیکہ زندگی کے اساسی اقدار علم اور عشق ہی ہیں اور اگر انسانیت اسی عقیدے کو اپنا دین قرار دے کر عمل کرے تو انسانی زندگی کے آلام و خبائث اور ظلم و جہالت سے پاک ہو سکتی ہے۔ برٹ رینڈ رسل نہ حیات بعد الموت کا قائل ہے نہ خدا کو مانتا ہے ور نہ کسی روحانی عالم کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے ہاں علم کا مفہوم بھی اقبال کے معاملے میں تنگ ہے۔ اور عشق بھی اس کے نزدیک انسانی محبت کے علاوہ اور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ لیکن آزاد خیالی اور طبیعیاتی فلسفے نے بھی اس کو اقدار حیات کے متعلق روحانیین اور موحدین سے ایک گونہ متفق کر دیا۔ آزادانہ تحقق کی بدولت کفر اور ایمان کے ڈانڈے بھی مل جاتے ہیں:
کفر و دین است در رہت پویاں

وحدہ لا شریک لہ گویاں