سیرت کے مصادر اور مآخذ |
سیرت طیبہ کے مآخذ و مصادر
کسی علم خصوصاً جس کا تعلق تاریخ سے ہو ، اس کے مآخذ سے مراد وہ کتابیں ، روایات اور آثار وغیرہ ہیں جن میں اس علم کے متعلق سب سے پہلے بات کی گئی ہو یا جن میں اس علم کے متعلق معلومات سب سے پہلے جمع کی گئی ہوں۔ کسی تاریخی شخصیت کے بارے میں معلومات کا اہم مآخذ وہ کتاب یا کتابیں ہوں گی جو اس کی زندگی میں لکھی گئی ہوں یا اس کے بعد قریب ترین زمانے میں لکھی گئی ہوں اور جن میں زیادہ سے زیادہ مواد یکجا جمع کیا گیا ہو یا اس مواد کے جمع کرنے میں علمی تگ و دو اور تحقیقی چھان بین سے کام لیا گیا ہو۔ اس لحاظ سے سیرت طیبہ کے اہم بنیادی مآخذ حسب ذیل بنتے ہیں۔
1-قرآن مجید:
سیرت طیبہ کا اصل اور سب سے زیادہ صحیح اور مستند مآخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید دو طرح سے سیرت کے مآخذ کا کام دیتا ہی۔
الف۔ اس میں آنحضرت کی مبارک زندگی کے متعدد واقعات ، غزوات اور بعض دیگر پیش آمدہ حالات کا ذکر ہے۔ کہیں تفصیل اور کہیں اجمالی اشارات موجود ہیں۔
ب۔ قرآن کریم میں وہ تمام تعلیمات ہیں جن کو آحضرت نے عملاً نافذ کیا۔ اسی طرح معاصر کفار کے بعض اعتراضات اور ان کے جوابات مذکور ہیں۔ قرآن کریم کی اس قسم کی آیات کی تفصیل اور زمانہ یا موضع نزول کے بارے میں سیرت طیبہ کے واقعات کی طرف رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہی۔ گویا قرآن کریم سیرت طیبہ کے بارے میں کچھ تفصیلی معلومات بھی دیتا ہے اور اجمالی اشارات کے ذریعے سے واقعات سیرت کی اصل کی نشاندہی کر کے اس کی تفصیلات جاننے پر آمادہ بھی کرتا ہے۔
بعض لوگوں نے صرف قرآن کریم میں صراحتہً یا کنایتہً بیان کردہ واقعات سیرت کی ترتیب و جمع سے سیرت پر کتابیں تالیف کی ہیں۔ مثلاً محمد عزت دروازہ کی کتاب [[سیرۃ الرسول (صورۃ مقتبسہ من القرآن) جو دو جلدوں میں ہے۔
2-کتب حدیث:
قرآن کریم کو رسول اللہ نے کس طرح سمجھا اور اسے کس طرح نافذ کیا ، اس کی تفصیلات ہی کتب حدیث کا اصل موضوع ہے لیکن قرآن کریم میں آنحضرت کے احکام، تعلیمات، خطبات، مواعظ اور قضایا یعنی قانونی فیصلے وغیرہ ہی بیان نہیں ہوئے بلکہ بعض نہایت اہم واقعات سیرت بھی بیان ہوئے ہیں۔ چونکہ حدیث کی روایت و نقل میں عام کتب تاریخ کی نسبت زیادہ تحقیق و چھان بین سے کام لیا جاتا ہے ، اس لیے کتب حدیث میں بیان کردہ واقعات سیرت قرآن کے بعد باقی تمام مآخذ سیرت سے زیادہ مستند اور زیادہ قابل اعتماد ہیں۔
صحاح ستہ اپنے اپنے درجہ استناد کے مطابق معلومات سیرت کے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن صحاح ستہ کے بعد
جو کتابیں وقیع مواد پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک قابل اعتماد بھی ہیں وہ درج ذیل ہیں
1. مسند امام احمد 2. السنن الکبریٰ، امام بیہقی 3. مصنف عبدالرزاق 4. مصنف ابن ابی شیبہ 5. امعجم الکبیر، امام طبرانی 6. مجمع الزوائد، علامہ ھیثمی
کتب حدیث کے ساتھ ساتھ سیرت کا ایک بہت اہم اور ضروری ماخذ کتب فقہ بھی ہیں۔ بالخصوص دوسری اور تیسری صدی ہجری کے دوران لکھی جانے والی فقہ کی وہ کتابیں جن میں بڑی تعداد میں روایات و احادیث پائی جاتی ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب حدیث اور فقہ آہستہ آہستہ دو الگ الگ تخصصات کے طور پر سامنے آ رہے تھے۔ فقہ اور حدیث کی بالکل الگ الگ کتابیں تو ذرا بعد میں (غالباً چوتھی صدی ہجری سے) آنی شروع ہوئیں۔ لیکن ابتدائی دو صدیاں (دوسری اور تیسری صدی) ان دونوں علوم کے امتزاج اور پھر تدریجی امتیاز کی صدیاں تھیں۔
اس دوران فقہ کی جو کتابیں مرتب ہوئیں ان میں خاصا بڑا حصہ احادیث وروایات کا پایا جاتا ہے۔ ان احادیث و روایات میں سیرت کی بہت سی اہم معلومات موجود ہیں۔ فقہ کی ان کتابوں میں وہ کتابیں نسبتاً زیادہ اہم ہیں جو مالیات اور دوسرے انتظامی امور پر لکھی گئیں۔
مثلاً کتاب الخراج، امام ابو یوسف ، کتاب الاموال، یحیٰ بن آدم ، کتاب الاموال، ابوعبید ، کتاب الاموال، ابن زنجویہ ، کتاب الاموال، ابونصر داؤدی
3-کتب سیرت و مغازی:
سیرت کا تیسرا اور سب سے اہم ماخذو مصدر کتب سیرت اور مغازی ہیں ۔عہدِ نبوی میں حدیث اور سیرت میں کوئی فرق نہ تھا۔ رفتہ رفتہ فنی لحاظ سے علمِ سیرت، علمِ حدیث سے جدا ہوتا چلا گیا۔ ابتدائی دور میں سیرت کی کتابوں کو مغازی کا نام دیا جاتا تھا، گو اُن میں مغازی کے علاوہ دیگر مباحث بھی ہوتے تھے۔تابعین اور تبع تابعین میں سے جن لوگوں نے سیرت و مغازی پر مواد جمع کیا اور ابتدائی کتابیں لکھیں جن کا ذکر بعد کی لکھی ہوئی کتابوں میں ملتا ہے، ان میں سے مشہور لوگوں کے نام سنین وفات کی ترتیب سے پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے کہ کس طرح سیرت نگاری کا عمل ایک تسلسل سے جاری رہا اور تفسیر، حدیث اور تاریخ کی طرح تیسری صدی ہجری کے آخر تک مکمل ہوا۔
نام سن وفات
عروہ بن زبیر 92ھ
ابان بن عثمان بن عفان 105ھ
شعبی 109ھ
وہب بن منبہ 114ھ
عاصم بن عمر بن قتادہ 121ھ
شرجیل بن سعد 123ھ
ابن شہاب زہری 124ھ
یعقوب بن عتبہ ثقفی 128ھ
عبداللہ بن ابی بکر بن حزم 125ھ
موسیٰ بن عقبہ 141ھ
ہشام بن عروہ بن زبیر 146ھ
محمد بن اسحاق 150ھ
معمر بن راشد 152ھ
عبد الرحمن بن عبد العزیز 162ھ
محمد بن صالح بن دینار 168ھ
ابو معشر نجیح المدنی 170ھ
عبداللہ بن جعفر مخزومی 170ھ
عبدالملک بن محمد انصاری 176ھ
زیاد بن عبداللہ البکائی 173ھ
سلمہ بن الفضل 191ھ
یحییٰ بن سعید بن ابان 194ھ
ولید بن مسلم القرشی 195ھ
یونس بن بکیر 199ھ
محمد بن عمر الواقدی 207ھ
یعقوب بن ابراہیم زہری 208ھ
عبد الملک بن ہشام 213ھ/218ھ
علی بن محمد المدائنی 225ھ
محمد بن سعید 230ھ
ابراہیم بن اسحاق 285ھ
ابو بکر احمد البغدادی 277ھ
کتب سیرت اور مغازی میں بعض بنیادی کتابیں ہیں۔ بعض بہت بنیادی حیثیت نہیں رکھتیں۔ بعض کتابیں کمزور ہیں۔ بعض کے بارے میں مورخین اور محدثین کی رائے ہے کہ ان میں بہت کچھ رطب یا بس بھی موجود ہے۔ اس لئے ان میں سے صحیح کتابوں کا درجہ تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ کتب سیرت و مغازی کی تاریخ پر ہم علیحدہ سے تفصیلی تحریر پیش کریں گے۔ انشاء اللہ
4-سیرت کا چوتھا ماخذ
چوتھا درجہ حدیث کے ان مجموعوں کا ہے جو محدثین کی نظروں میں بہت اونچے مجموعے نہیں ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے حدیث کی کتب کے تین اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز نے ان کے چار مجموعے قرار دئیے ہیں۔ سب سے پہلے مجموعہ الف یا کیٹیگری اے کی کتب ہیں جن کے بار ے میں شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ کتابیں حدیث کے صحیح ترین مجموعے ہیں۔
1. اس کیٹیگری میں انہوں نے تین کتابوں کے نام لئے ہیں یعنی موطاء امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم ۔
2. درجہ دوم میں انہوں نے پانچ کتابیں رکھی ہیں یعنی صحاح ستہ کی بقیہ چار کتابیں اور پانچویں مسند امام احمد۔
3. درجہ سوم میں انہوں نے حدیث کی بقیہ مشہور کتابیں رکھی ہیں۔
4. چوتھے درجہ میں انہوں نے حدیث کی وہ کتابیں رکھی ہیں جن میں رطب ویابس کی بھر مار ہے اور جو کسی بھی اعتبار سے استناد کے لائق نہیں ہیں۔ اس لئے جو بقیہ کتابیں ہیں ان کا سیرت کے ماخذ میں درجہ چوتھا ہونا چاہئے۔
5 -کتب تاریخ
سیرت کا ایک بڑا ماخذ تاریخ ہے بعض مغربی اہل علم کا کہنا ہے کہ عربوں میں تاریخ نویسی کا رواج نہیں تھا، یہ بات درست ہے۔ اس کے برعکس بہت سے محققین کا اصرار ہے کہ عربوں میں تاریخ کا رواج تھا۔ یہ بات بھی درست ہے۔ دونوں باتیں درست ہیں۔ تاریخ نویسی کا رواج اس اعتبار سے نہیں تھا کہ کوئی مرتب اور مدون تاریخ نویسی عربوں میں رائج نہیں تھی۔ لیکن اپنے بزرگوں کے ماضی کے واقعات سے واقف ہونا، ان کی تفصیلات کو محفوظ رکھنا اور ان سے اعتنا کرنے کا رواج عربوں میں یقیناً تھا۔ خاص طور پر دو ادارے ایسے تھے جن میں یہ معلومات ناگزیر تھیں۔ ایک ادارہ منافرہ کے نام سے تھا۔ منافرہ سے مراد یہ تھی کہ جب دو عرب قبائل میں اختلاف ہو جاتا تھا کہ کون سا قبیلہ افضل ہے۔ یا قبائل کی سرداری میں دو افراد کے درمیان مقابلہ ہو جاتا تھا تو یہ سوال کہ ان دونوں دعویداروں میں سے کس کو ترجیح دی جائے، اہم سوال سمجھا جاتا تھا۔ ایسے مواقع پر ترجیح کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہوتا تھا کہ کس کے اباواجداد کی خدمات زیادہ تھیں۔ کس کا خاندان خدمت میں زیادہ پیش پیش تھا۔ کس کے اباواجداد کی صلاحیتیں زیادہ تھیں۔ جب یہ مرحلہ پیش آتا تھا تو پھر آباواجداد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ ان معلومات کی بنیاد پر سربراہ منافرہ تنازعہ کا فیصلہ کیا کرتا تھا۔
منافرہ کا یہ ادارہ حضرت عمر فاروقؓ کے خاندان میں چلا آرہا تھا اور جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے چوتھے دادا جناب عبد مناف کا انتقال ہو تو ان کی جانشینی پر ان کے دو بیٹوں میں اختلاف ہوا۔ جناب ہاشم کا دعویٰ تھا کہ میں زیادہ حقدار ہوں اور ان کے بڑے بھائی عبد شمس کا دعویٰ تھا کہ میں زیادہ حقدار ہوں۔ اب ان دو بھائیوں میں جو ایک بڑے باپ کے بیٹے تھے۔ مکہ کی سرداری کے بارے میں اختلاف ہوا۔ اس موقعہ پر حسب روایت حضرت عمر فاروق کے دادا کو حکم دیا گیا، کیونکہ منافرہ کامحکمہ ان کے پاس تھا۔ انہوں نے تفصیل سے دونوں کا موقف سنا اور جناب ہاشم کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ مکہ کی سرداری کا حقدار جناب ہاشم ہیں۔ اس طرح کئی اور مثالیں بھی ہیں۔ یوں منافرہ کے لئے ضروری تھا کہ قبائل کے حالات اور اکابر کی خدمات کے بارے میں معلومات جمع کی جائیں۔ اس لئے یہ معلومات جمع ہوتی تھیں اور عرب قبائل اس سے نا مانوس نہیں تھے۔
اس طرح کا دوسرا بڑا اداراہ “ایام ” کے نام سے تھا۔ ایام العرب کے نام سے ایک الگ فن موجود تھا۔ عربوں میں قدیم قبائل کے کارنامے اور خاص طور پر جنگوں میں فتوحات کےتذکرے باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے۔ ایام العرب پر اس وقت بھی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔ ایک بڑی ضخیم کتاب آج سے کوئی پچاس سال پہلے ایک مصری عالم نے مرتب کی تھی۔ اس میں کوئی پچاس ساٹھ کے قریب ایام کا تذکرہ موجود ہے۔ یوم بعاث، یوم فجار، یوم ذی قار، یہ بڑی بڑی جنگیں تھیں۔ یہ صرف جنگیں نہیں تھیں جو ایام العرب کا موضوع تھیں بلکہ اور بھی بہت سے معرکے تھے جن کی وجہ سے کوئی قبیلہ با عزت یا زیادہ کامیاب قرار پاتا تھا۔ یہ معلومات عربوں میں جمع ہوتی تھیں اور نسلاً بعد نسل چلتی رہتی تھیں۔ اس لئے ان حقائق کی بنیاد پر ہم بلاخوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ سے شغف کسی حد تک عربوں میں موجود تھا۔
جن لوگوں نے تاریخ مرتب کی ان میں قدیم ترین حضرات میں سے ایک مؤرخ خلیفہ بن خیاط بھی ہیں جن کی تاریخ چھپی ہوئی موجود ہے۔ ان کی کتاب کا ابتدائی حصہ سیرت پر مشتمل ہے۔ ان کے مآخذ میں امام بیہقی، امام بقی بن مخلد اور امام لیث بن سعد جیسے صف اوّل کے محدثین کے علاوہ بیشتر نامور سیرت نگار شامل ہیں۔ یہ خلیفہ بن خیاط مستند ترین مؤرخین میں سے شمار ہوتے ہیں۔ امام بخاری کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ ان کے مستند ہونے پر حضرات محدثین بھی متفق ہیں۔
دیگر قابل ذکر مورخین میں ابو حنیفہ دینوری، امام ابن جریر طبری کے علاوہ یعقوبی اور مسعودی بھی نمایاں ہیں۔ اگرچہ یعقوبی اور مسعودی کا درجہ استناد اور ان دونوں کے بیانات کی ثقاہت ہمیشہ محل نظر رہی ہے۔ طبری کے ہاں سیرت پر بہت قیمتی مواد موجود ہے۔ طبری نے مکمل سند اور حوالوں کے ساتھ ہر بات کہی ہے۔ اور حوالوں کی تحقیق کا کام قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔
6-چھٹا مصدر و ماخذ
a۔تواریخ حرمین
حرمین سے مراد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔ اسلام میں ان دونوں شہروں کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی بناء پر بعض علماء نے خاص ان شہروں کی تاریخ اور ان کے اہم تاریخی مقامات سے متعلق معلومات کو مستقل تالیفات کا موضوع بنایا ۔ اس قسم کی کتابوں میں بعض مقامات کے ذکر کی مناسبت سے سیرت طیبہ کے بعض اہم واقعات بھی ملتے ہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تواریخ حرمین پر لکھی گئی کتابوں میں سیرت نبوی سے متعلق ایسی معلومات بھی مل جاتی ہیں جو عام کتب تاریخ و سیرت میں مذکور نہیں ہوتیں۔
مدینہ منورہ کی تاریخ پر سب سے پہلی کتاب ابن زبالہ 199ھ میں لکھی، اس فن کی اہم بنیادی کتابوں میں اخبار مکہ المشرفۃ مولف ابن الارزق، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی از سمہودی ہیں۔ یہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تاریخ پر دو مشہور کتابیں ہیں اور سیرت کے بارہ میں بہت اہم مواد پر مشتمل ہیں۔ ارزقی تو غالباً تیسری صدی ہجری کے آدمی ہیں جبکہ سمہودی بعد کے ہیں۔اس طرغ عمربن شبہ مشہور مورخ ہیں۔ طبری کے بے شمار حوالے عمر بن شبہ کی کتابوں سے ماخوذ ہیں ۔ ان کی کتاب “اخبار المدینہ المنورہ” حال ہی میں چھپی ہے۔ تمام قدیم مورخین کی کتب میں اس کے حوالے موجود ہیں۔ اس کتاب کے انہوں تین حصے قرار دئیے ہیں۔ پہلا حصہ ہے مدینہ منورہ حضور کے عہد میں، دوسرا حصہ ہے مدینہ منورہ حضرت عمر کے عہد میں اور تیسرا حصہ ہے مدینہ منورہ حضرت عثمان کے عہد میں۔
b۔کتب ادب :
صدر اسلام میں اور اس سے پہلے بھی یہ رواج تھا کہ عربی زبان میں ادبیات کے اعلیٰ ترین نمونوں کو محفوظ رکھا جائے۔ اسلام سے پہلے قبائلی تفاخر کے جذبہ سے یہ چیزیں محفوظ رکھی جاتی تھیں۔ ہر قبیلہ اپنے بڑے بڑے اور نامور شعراء کے قصائد اور خطباء کی تقریریں وغیرہ محفوظ رکھا کرتا تھا۔ قبیلہ کے بچہ بچہ کی زبان پر یہ قصائد رہتے تھے۔ اسلام کے آنے کے بعد ظاہر ہے کہ ان نمونوں کی حفاظت کا اصل اور بنیادی مقصد قرآن پاکی کی زبان کی حفاظت، قرآن پاک کی اسالیب کو سمجھنے میں مدد اور قرآن پاک کی فصاحت و بلاغت کا اندازہ کرنا قرار پایا۔ اس لئے اسلام کے بعد بہت سے حضرات نے اپنی زندگی کا ایک بڑا اور بنیادی ہدف یہ قرار دیا کہ اسلام سے پہلے کے اور فوراً بعد کے عربی ادب کے ذخائر، تقریریں، خطابت، کہانت، نظم، اور شاعری کو محفوظ کیا جائے۔ خود صحابہ کرام کو اس کام میں بڑی دلچسپی تھی۔ سیدنا عمر فاروقؓ کو اس چیز بڑا اہتمام تھا۔ وہ خود عربی زبان و ادب کا بہت اچھا ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے خود اپنے زمانے میں لوگوں کو تلقین اور ہدایت کی کہ اپنے بچوں کو شعر و ادب ضرور سکھاؤ، فان “الشعر دیوان العرب” اس لئے کہ شعر عرب کی تاریخ کا مجموعہ ہے۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ بھی شعر و ادب سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔
کتب ادب کی ترتیب و تدوین کا یہ اہتمام گویا صحابہ کرام کے زمانے سے شروع ہو گیا تھا۔ لیکن کتب ادب میں جو مواد ہے وہ سیرت کے اصل اور بنیادی حقائق کے بارہ میں نہیں ہے۔ بلکہ اس مواد میں بہت سی ایسی جزوی تفصیلات بکھری ہوئی ہیں جن سے سیرت کے متعدد اہم گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ یوں تو ادب کی کتابیں جو سیرت کے مطالعہ میں کام آسکتی ہیں بے شمار ہیں۔ ہم ان میں سے میں دو کتابوں کا حوالہ دیں گے ۔ یہ دونوں کتب نہ تو براہ راست سیرت پر ہیں اور نہ ان کے مرتبین نے ان کو سیرت کے واقعات کے نقطہ نظر سے لکھا تھا۔ ان کتابوں میں سیرت کے بارے میں براہ راست معلومات اول تو ہیں نہیں اور اگر ہیں بھی تو ظاہر ہے ان سے سیرت کے بارے میں براہ راست معلومات لینا کبھی بھی مناسب یا درست نہیں سمجھا گیا۔ ان دو کتابوں میں بھی زیادہ اہم اور زیادہ دلچسپ اور معلومات افزا کتاب تیس جلدوں میں ابوالفرج اصفہانی کی کتاب ‘کتاب الاغانی’ ہے۔ اس میں عرب کے گویوں اور بھانڈوں کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب کی ایسی کوئی علمی یا دینی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن جب مصنف عرب کے گویوں اور گانے والوں کا تذکرہ کرتا ہے تو جگہ جگہ ان کے قبائل کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔ کہ فلاں قبیلے کے گوئیے نے فلاں قبیلہ کے خلاف یہ ہجو لکھی ۔ لکھنے کی وجہ بھی تحریر کی ہے۔ اس طرح کی جزوی معلومات جو قبائلیات ، اجتماعیات اور عام معاشرتی معاملات کے بارے میں ہیں’ کتاب میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں، اس کتاب میں موجود ہیں۔ بہت سی قیمتی معلومات ادب کی ایسی دوسری کتب سے بھی مل جاتی ہیں۔ اسی طرح سے بعض کتابیں ایسی ہیں جن سے عرب کے تجارتی میلوں کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ عکاظ کے میلے میں تشریف لے جاتے تھے۔ تبلیغ اسلام کرتے تھے۔ قرآن پاک کی طرف دعوت دیتے تھے۔ پھر حضور نے بعض مواقع پر بعض صحابہ کرام کو بھی تبلیغ کے لئے ان میلوں میں بھیجا، کیوں بھیجا ؟کس میلے میں بھیجا۔؟ یہ سب معلومات چاہے فی نفسہ اہم نہ ہوں لیکن یہ سب معلومات ایسی ہیں کہ بعض خلاؤں کو پر کرنے میں جزوی طور پر کام آتی ہیں۔ بشرطیکہ کہ جو خال پر کیا جاتا ہے۔ وہ بقیہ مستند کتابوں کے مطابق ہو۔
۔c.طبقات مشاہیر
ہم نے اوپر عرب میں دو مشہور اداروں منافرہ اور ایام کا تذکرہ کیا ، ان دونوں اداروں سے بڑھ کر علم انساب کے بارے میں بھی عربوں میں اہتمام تھا ۔ اس پر بہت سی مستند کتابیں موجود ہیں۔عربوں میں نسب سے دلچسپی اسلام سے بہت پہلے سے رہی ہے ۔ ہر قبیلہ میں انساب کے ماہرین ہوا کرتے تھے جو خصوصی اہتمام کے ساتھ انساب کے بارے میں معلومات جمع کیا کرتے تھے۔ ایام العرب، مخالف قبائل کی شکست اور مظالم کی رودادیں، اپنے قبیلہ کی فتوحات کا فخریہ بیان اور ان سب کو نسل درنسل بیان کرنے کی روایت، یہ تینوں چیزیں عرب میں چلی رہی تھیں۔
جب یہ چیزیں جمع ہو رہی تھیں تو حضور کے خاندان کے بارے میں بھی ان سب عنوانات کے تحت ضروری اور اہم معلومات خود بخود جمع ہو رہی تھیں۔ جناب ہاشم اور جناب عبدمناف کے بارے میں بھی یہ ساری معلومات خود بخود جمع ہو رہی تھیں۔ جناب ہاشم اور جناب عبدمناف کے بارے میں بھی یہ ساری معلومات جمع ہو رہی تھیں۔ قصی اور دوسری تمام شخصیات کے بارے میں بھی جمع ہورہی تھیں۔ جن مورخین کی کتابوں میں یہ معلومات ملتی ہیں ان میں ابن حبیب بہت نمایاں ہیں۔ ان کی دو کتابیں کتاب المحبر اور کتاب المنمق آج سے ساٹھ ستر سال قبل حیدر آباد دکن میں چھپی تھیں۔ ان دونوں کتابوں سے بہت سی قیمتی معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ جن حضرت نے علم انساب پر لکھا ہے ان میں حضرت مصعب بن زبیر ؓ، حضرت عائشہ کے نو اسے تھے اور ان کو صحابہ تک براہ راست رسائی حاصل تھی۔ حضور کے خاندان ہی کے فرد تھے۔ انہوں نے انساب کے بارے میں معلومات جمع کیں۔
آج بھی نسب ناموں کو ریکارڈ کرنے کی روایت پائی جاتی ہے۔ بلکہ دنیائےعرب سے باہر بھی عربی النسل خانوادوں میں شجروں کا اہتمام پایا جاتا ہے۔ برصغیر ، ایران، ترکی، حتی کہ مشرق بعید میں پائے جانے والے عربی النسل خاندانوں میں انساب سے دلچسپی آج بھی نظر آتی ہے۔ صحابہ کرام میں بہت سے حضرات انساب کے ماہر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ “کان انسب العرب” کہ وہ عرب میں علم انساب کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ انساب کے بارہ میں معلومات جمع کرنے کا سیرت نگاروں نے اتنا ہی اہتمام کیا جتنا سیرت کے دیگر مصادر کے بارہ میں نظر آتا ہے۔ بلا ذری اور سمعانی جیسے مورخین کے علاوہ ابن حزم جیسے فقیہ نے بھی انساب کی تحقیق کو اپنا میدان بنایا اور دستیاب معلومات کو مدون کیا۔ اس موضوع پر جو قدیم ترین مصنفین ہیں ان میں بلاذری، زبیر بن بکار، سمعانی اور ابن حزم شامل ہیں۔
عام اور مسلسل تاریخ اسلام (سن وار) لکھنے کے علاوہ بعض مسلمان اہل علم نے مشہور شخصیتوں کی اقسام الگ الگ کر کے ہر گروہ یا طبقے کے مشاہیر کے حالات الگ الگ کتابوں میں جمع کیے مثلاً صحابہ، حفاظ و قراء، شعراء، علمائے لغت و نحو، اطباء وغیرہ۔ اس قسم کی کتابیں عموماً طبقات کے نام سے لکھی گئی ہیں مثلاًطبقات ابن سعد، طبقات القراء، طبقات الاطباء وغیرہ۔ اس قسم کی کتابوں، جن کا تعلق بالخصوص صحابہ کرام سے ہے، ان میں سیرت طیبہ پر بھی بہت کچھ مواد ملتا ہے۔
• انساب الاشراف۔ ابو الحسن احمد بن یحٰیی بن جابر بن داؤد البلازری متوفی 279ھ ۔ 892ء کی تصنیف جو عربوں کی ایک ضخیم تاریخ اور جامع تاریخ ہے۔ اس کی ترتیب ان کے نامور خاندانوں کے اعتبار سے رکھی گئی ہے۔ سب سے پہلے بنو ہاشم کا ذکر ہے جس کے ضمن میں پوری سیرت آگئی ہے۔
• الطبقات الکبیر المعروف طبقات ابن سعد۔ محمد ابن سعد کی تصنیف جو صحابہ کرام اور تابعین کے حالات پر ہے۔ اس کتاب کے ابتدائی حصے میں سیرت طیبہ کا بیان ہے۔ مکمل کتاب کی آٹھ حصوں میں سے پہلے دو حصے سیرت پر مشتمل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سیرت نبوی کے نہایت قدیم اور قیمتی مصادر و مآخذ میں شمار ہوتی ہے۔
• تاریخ الاسلام و الطبقات المشاہیر و الاعلام۔ ذہبی۔ اس کتاب کی متعدد جلدوں میں سے پہلی جلد سیرت سے متعلق ہے۔
انساب کے اس ذخیرہ میں بلاذری کی انساب الاشراف کو سب سے معتبر اور مستند مانا جاتا ہے۔ بلاذری کے انساب کی پہلی جلد چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں سیرت اور متعلقات سیرت پر قیمتی مواد موجود ہے۔ بلاذری کے مصادر اور اساتذہ میں امام دشعبی اور امام زہری جیسے جید محدثین کے ساتھ ساتھ واقدی اور ابن اسحاق جیسے نامور سیرت نگار بھی شامل ہیں۔ زہری کی روایات بلاذری کے ہاں دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ ہیں۔ اس سے بھی بلاذری کی ثقاہت میں اضافہ ہوتا ہے۔
d۔لغت کی کتابیں
اس طرح لغت کی کتابوں میں بھی معلومات سیرت کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جب لغت نگاروں نے یا عربی قاموس نویسوں نے عربی لغت کے مجموعے تیار کئے تو بعض مشکل الفاظ کی شرح میں انہوں نے بعض ایسے واقعات بھی بیان کئے یا وہ تفصیلات بھی بیان کر دیں جن کا تعلق سیرت سے تھا۔ مثلاً “لسان العرب” عربی لغت کی بڑی مشہور کتاب ہے۔ بارہ پندرہ سے لیکر بیس پچیس تک جلدوں میں کئی کئی بار چھپی ہے۔ اس میں جگہ جگہ سیرت کے واقعات تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ کوئی لفظ ہے جس میں کسی قبیلے کا نام ہے تو اس لفظ کی تشریح کے ضمن میں اس قبیلہ کی تفصیل دے دی گئی ہے۔ کوئی لفظ ہے جو کسی نبوی دستاویز میں آیا ہے تو اس دستاویز کا پس منظر دے دیا گیا ہے۔ کوئی لفظ ایسا ہے جو کسی مشہور حدیث میں آیا ہے تو اس حدیث کا پورا سیاق و سباق بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ ادب اور لغت کی کتابوں میں بکھرا ہوا مواد بہت مفید اور قیمتی ہے اور سیرت نگاروں نے ان معلومات کو استعمال کیا ہے اور ان سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اسی طرح کتب جغرافیہ ہیں ۔
e۔کتب رجال
کتب رجال بھی سیرت کا اہم ماخذ رہی ہیں۔ محدثین جب حدیث کا فن مرتب کر رہے تھے تو حدیث کے راویوں کے حالات بھی جمع کرتے جاتے تھے۔ راویوں کے حالات جمع کرنے کے اس طویل اور جاں گسل عمل میں سب سے پہلے صحابہ کرام کے حالات جمع کئے گئے۔ اس طرح صحابہ کرام کے تذکرے مرتب ہوئے۔ پھر تابعین اور تبع تابعین کے تذکروں پر کتابیں مرتب ہوئیں۔ ان تذکروں میں جا بجا اور کثرت سے ایسی معلومات بھی ملتی ہیں جو سیرت سے متعلق ہیں اور ان سے سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی راوی کے بارے میں تذکرہ آیا کہ یہ فلاں صاحب ہیں اور ان کے دادافلاں غزوہ میں حضورعلیہ الصلوٰۃ ﷺکے ساتھ تھے۔ اس طرح رجال کے تذکرے تابعین اور تبع تابعین کے حالات سے بھی سیرت کے بارہ میں معلومات ملتی ہیں۔
ماخذ و مصادر-استناد کا معیار
پہلے تین مصادر کے علاوہ بھی جن کتابوں کا تذکرہ کیا گیا وہ ہمارے نزدیک تو مستند ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں استناد کا ایک معیار ہے۔ جس کی بنیاد پر معلومات کو پرکھا جاتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ رجال اور تذکرہ کی یہ کتابیں استناد کے ایک معیار پر نہیں ہیں۔ جو درجہ قرآن پاک کا ہے وہ کسی اور کتاب کا نہیں ہو سکتا۔ جو درجہ مستند کتب حدیث کا ہے وہ بقیہ کتب کا نہیں ہو سکتا۔ جو کتابیں ارباب سیر کے متفق نقطہ نظر کے مطابق ہیں وہ سیرت کی دوسری کتابوں سے زیادہ بلند مرتبہ ہیں۔ اس لئے کہ جو درجہ متفق علیہ مسائل کا ہے وہ درجہ بقیہ مختلف فیہ مسائل کا نہیں ہو سکتا۔ حدیث کے جو غیر مستند مجموعے ہیں ان میں چھان بھٹک کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی ہے۔ ان میں ہر دور میں صحیح اور سقیم میں فرق کیا گیا۔ ہر دور میں یہ بحث سامنے آئی کہ یہ روایت قابل قبول ہے یا ناقابل قبول ہے۔ اس لئے یہ بات ہر دور کے مسلمانوں میں قریب قریب طے شدہ رہی ہے کہ ہر روایت یکساں طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ مسلمان اہل علم نے روایات کے اخذ و قبول کے اصول مقرر کئے ہیں۔ اب یہ بات کہ ان سب اصولوں کو نظر انداز کر کے اُن تمام مجموعوں کو نظر انداز کر دیا جائے جن کی ترتیب وتدوین میں اہل علم نے زندگیاں کھپائی ہیں اور ان کو بیک جنبش قلم غیر تاریخ اور غیر مستند ثابت کیا جائے۔ یہ سراسر ایک غیر علمی اور بے بنیاد بات معلوم ہوتی ہے۔
جہاں تک مستشرقین کے تامل اور شک کی بات ہے اس کی ایک وجہ اور بھی ہو سکتی ہے جس کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیے۔ وہ یہ کہ ہمارے ہاں چوتھی پانچویں صدی ہجری کے بعد کے مصنفین نے سیرت کے نام پر بہت سا کمزور مواد اور رطب ویابس مسالہ جمع کر دیا ہے۔ بعض ایسی روایات جو بہت غیر مستند ہیں اور علم حدیث اور سیرت کے اصولوں کی روشنی میں قابل قبول نہیں ہیں وہ بہت کثرت سے سیرت کی کتابوں میں جمع کر دی ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے مغربی محققین کو سیرت کے تمام ذخائر پر شک کرنے کا موقع ملا۔
اگر خود مسلمان محقیقن معروضی طور پر اس سارے ذخیرے کا جائزہ لے کر رطب ویابس کو الگ الگ کر دیں تو جو غیر جانبداراور متعدل مزاج مغربی مصنفین ہیں ان کے طرز عمل میں تبدیلی آ جائے گی۔ جو متعصب مصنفین ہیں وہ تو پہلے بھی نہیں مانتے تھے اب بھی نہیں مانیں گے۔
سیرت نگاری کے اصول بیان کئے جاسکتے ہیں اور لوگوں نے بیان بھی کئے ہیں۔ سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ کوئی ایسا واقعہ یا روایت قبول نہیں کرنی چاہیے جو قرآن پاک کی نص قطعی کے خالف ہو ۔ جو احادیث صحیح اور صحابہ کرام کے مقام ومرتبہ کے خلاف ہو۔ جو شان رسالت سے ہم آہنگ نہ ہو۔ جو عربی زبان وادب اور اس کے معیار فصاحت کے خلاف ہو۔ جو مورخین اور ارباب سیرت کے متفقہ نقطہ نظر کے خلاف ہو۔ یہ اصول ہیں جن کی بنیاد پر بہت سے اہل علم نے سیرت کی کتابیں لکھی ہیں۔ بہت سے لوگوں سے ان اصولوں کے بارے میں کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں۔ بعض لوگوں نے ایسی چیزیں سیرت کے نام سے منسوب کر دی ہیں جس کی وجہ سے مستشرقین کو اعتراضات کا موقع ملتا ہے۔
----------------
بشکریہ : الحاد ڈاٹ کام