امراؤ القیس( سن 540م ۔ 500م) کا پورا نام ابو الحارث حندج بن حجر الکندی تھا۔ یہ نسلا قحطانی یمنی تھا اور تمام جاہلی شعرا میں ممتاز، نامور، پرگو اور امام فن سمجھا جاتا تھا۔
اس نے شاعری میں بعض ایسے اصناف ایجاد کیے اور ایسے مضامین باندھے کہ جنہیں اس سے پہلے کسی جاہلی شاعر نے نہیں باندھا تھا اور نہ ان پر طبع آزمائی کی تھی۔ امراؤ القیس نے اپنے باپ کی عملداری نجد میں جو بنو اسد کا مسکن تھا پرورش پائی جب جوان ہوا تو شہزادوں کی طرح سیر و شکار ، کھیل کود، شراب نوشی اور شاہد بازی میں پڑ گیا۔ لڑکیوں سے عشق بازی اور عورتوں سے معاملہ بندی کے واقعات کو بصراحت نظم کرنا اور ان سے فحاشی کی حد تک اظہار تعلق کرنا رات دن کا مشغلہ بن گیا۔ رعیت اور حکومت کے کاموں سے نہ دلچسپی لیتا اور نہ اپنی حرکات و سکنات میں اس وقار اور تکمنت کو ملحوظ رکھتا جو ایک شہزادہ اور بڑے گھرانے کے نوجوان کے شایانِ شان تھی۔
چنانچہ اس کی نازیبا حرکات کی وجہ سے باپ اس سے خفا رہتا تھا۔ ڈانٹ ڈپٹ اور سختی سے بھی بگڑا نوجوان راہ راست پر نہ آسکا تو اسے گھر سے نکال دیا۔ جب گھر بار، خاندان اور اس کے وقار کے بندھنوں سے آزادی مل گئی تو اس کے اردگرد اس زمانہ کے بگڑے دل نوجوان، چور، اچکے قسم کے بدمعاش اور آوارہ لڑکے جمع ہو گئے جو دن رات تالابوں اور جھرنوں کے کنارے پڑاؤ ڈالے داد عیش دیتےا ور رقص و سرود کی محفلیں سجاتے۔ ایک دن جب کہ بے فکروں اور متوالوں کا یہ قافہ حضر موت کے قریب ایک گاؤں ، دمون میں تھا تو اس کو اپنے باپ کے قتل ہونے کی خبر ملی۔ اس کے دل پر سخت چوٹ لگی۔ اس نے مقابلہ کی تیاری شروع کر دی اور قبائل عرب میں پھر کر اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لیے مدد مانگتا رہا۔ بعض قبیلے اس کا ساتھ دیتے اور بعض قبیلے معذرت کر لیتے تھے۔
چنانچہ اپنے چند ساتھیوں اور قبیلہ بکرو تغلب سے اپنے رشتہ داروں کے لے کر اس نے بنو اسد سے جنگ کی اور ان میں سے بہتوں کو قتل کر ڈالا۔ جب اس کے دل کی آگ نہ بجھی تو قیصر روم کے پاس پہنچا اور اس سے مدد مانگی لیکن امراؤ القیس کے دشمنوں اور بعض دوستوں نے قیصر کو اس کے خلاف اس قدر بھڑکایا کہ بادشاہ نے اس کو مع اپنی بھیجی ہوئی فوج واپس طلب کر لیا اور بلاطائف الحیل اسے ختم کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ اس نے امراؤ القیس کو انعام کے طور پر ایک خلعت عطا کی جو زہر میں بجھی ہوئی تھی۔ جب امراؤ القیس اسے پہن کر چلا تو اس کے سارے جسم پر چھالے پڑ گئے اور کھال اتر گئی۔ اسی وجہ سے اسے "ذو القروح" یعنی زخموں والا کہتے ہیں۔ وہ قسطنطنیہ سے واپس ہوتے ہوئے انقرہ کے پاس مر گیا۔
امراؤ القیس جاہلی زمانہ کا وہ پہلا شاعر ہے جس نے سب سے پہلے دوستوں سے محبوبہ کے اجڑے دیار پر ٹھرنے اور تھوڑی دیر یاد میں رونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے سب سے پہلے عورتوں کو ہرنیوں اور نیل گایوں سے اور گورے رنگ کو شتر مرغ کے انڈے سے تشبیہ دی۔ اس طرح غزل میں نازک خیالی اور ایسا پیرایہ بیان اختیار کرنے کا سہرا اسی کے سر ہے جس کے معانی و مطالب فورا ذہن میں آ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے استعارہ اور تشبیہ کے بر محل اور پُر تاثیر استعمال میں بھی سارے جاہلی شعرا کے مقابلے میں خاص امتیازی شان پیدا کی۔ وصف میں اس کا کوئی جواب پوری جاہلی شاعری میں نہیں ملتا۔ زمانہ کا شکوہ اور دوستوں کے قطع تعلق سے متعلق جو اشعار اس نے کہے ہیں وہ بھی بپت پر تاثیر اور اچھوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والے شعرا نے بہت سے مضامین میں اس کی نقل اتارنے کی کوشش کی لیکن اُس کے مقام کو نہ پاسکے۔ الفاظ کے انتخاب میں امراؤ القیس کو جو ملکہ تھا وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوا۔ صوتی ہم آہنگی کے ساتھ سیاق و سباق سے مربوط ایسے الفاظ کا استعمال جو حسن معنی کو بھی تقویت دیتے ہیں، امراؤ القیس کی شاعری کی وہ صفت ہے جو کسی دوسرے عرب شاعر کے یہاں نہیں۔ یہ خصوصیت قرآن کریم میں نہایت اعلی درجے میں موجود ہے۔
امراؤ القیس کے کلام میں ان خوبیوں کے ساتھ پوری بدوی شان نمایاں ہے۔ خیالات میں بدویت کے علاوہ بہت ثقیل اور بھاری بھرکم الفاظ استعمال کرتا ہے۔ کہیں کہیں پیرایہ بیان خاصا گنجلک اور مشکل بھی ملتا ہے۔ عورتوں سے گفتگو اور معاملہ بندی کے وقت عریانی بلکہ فحاشی پر بھی اتر آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اسے اپنی چچا زاد بہن سے عشق تھا۔ اس سے ملاقات اور سفر میں ساتھ ہونے کے جو نقشے اس نے کھنچے ہیں وہ انتہائی عریاں، جنسیت سے بھرپور اور معاملہ بندی کی آخری حد ہیں۔ مگر انداز بہت دل آویز ہے۔ وہ چونکہ شہزادہ تھا اس لیے کلام میں شان و شکوہ اور بلند خیالی پائی جاتی ہے۔ سراپا "وصف" اور منظر نگاری میں امراؤ القیس نے جاہلی شعرا کے درمیان کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔
امراؤ القیس کے کلام کا سب سے اچھا اور بھرپور نمونہ اس کا وہ شہر آفاق معلقہ ہے جس میں اس نے ساری قوت بیان، حسن تغزل اور وصف و تشبیہ صرف کر دی ہے اور شاید اس کے کلام میں سے معلقہ ہی کے اکثر اشعار ایسے ہیں جن پر جاہلی ادب کے موافقین اور مخالفین سب کا تقریبا اتفاق ہے کہ وہ صحیح ہیں ورنہ اس کے بیشتر کلام کو الحاقی بتایا گیا ہے۔ اس معلقہ کے کہنے کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اسے اپنی چچا زاد بہت عنیزہ بنت شرجیل سے محبت تھی۔ خاندان کے لوگ اس سے ملنے میں اس وجہ سے مانع ہوتے تھے کہ ہو کہیں اس کا نام لے کر شعر و شاعری نہ شروع کر دے۔ یہ بات چونکہ بدوی معاشرہ میں معیوب تھی اس لیے وہ چوری چھپے اس سے ملا کرتا تھا۔
ایک دفعہ وہ اپنی محبوبہ سے ملا۔ سفر میں اس کے ساتھ رہا اور اس واقعہ کے بعد اس نے اپنا یہ مشہور معلقہ کہا جس میں نہ صرف اس واقعہ کا ذکر ہے بلکہ مختلف موضوعات ، مناظر اور مضامین اس میں آئے ہیں۔
(ماخوذ از اردو دائرہ معارف العلوم)