![]() |
مولانا اسلم جیراجپوری کی تصنیفات |
مولانا بیک وقت مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ قرآن کریم کی باریکیوں حدیث کی قدر و قیمت فقہ کی نزاکتوں، اسلامیات کے مختلف مصادر عربی فارسی اور اردو ادب کی گہرائیوں سے بخوبی واقف تھے ۔
ان کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ تاریخ اسلام پر گہری نظر رکھتے تھے انہوں نے عربی فارسی اور اردو میں اشعار بھی کہے ۔
مولانا کو مطالعہ کا حد درجہ شوق تھا وہ اکثر تنہائیوں میں اوراق کتب میں گم رہتے، علامہ ابن تیمیہ ، ابن قیم کی تصانیف نیز اس دور میں مصر سے چھپ کر آنے والی جدید کتب بھی زیر نظر رہیں ۔ آخر میں اپنی تمام تر توجہات مطالعہ قرآن پر مرکوز کردیں۔
مولانا مسلکی تعصبات سے بالاتر تھے مختلف مسالک کے ماننے والے ان کی نظر میں یکساں تھے جبکہ اہل حدیث گھرانے میں آنکھ کھولی تھی ان کے والد ایک مشہور اہل حدیث عالم تھے لیکن ان کی دینی اور علمی بصیرت نے انہیں کسی مسلک تک محدود نہ رکھا ۔
وہ قرآن کریم کی حکمتوں و اسرار میں کھوکر رہ گئے مسلک اہل حدیث کے متعلق ان کا نقطہ نظر درج ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے ۔
" میں اس موقع پر ان نوجوان سعادت مند روحوں سے خطاب کرتا ہوں جن کے اندر امت کا درد اور حق کی محبت ہے کہ وہ اللہ کی اس کتاب کی طرف رجوع کریں جو ہر تاریکی کے لئے نور اور ہر دکھ لے لیے شفا ہے اور جس میں دین مکمل کردیا گیا ہے رہے اہل حدیث تو :
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو جوروایات پر قرآن کو فدا کرتے ہیں
راویوں پر انہیں ایمان ہے نبیوں کی طرح جو کہ تقلید کو بھی شرک کہا کرتے ہیں
امت مسلمہ میں موجود تمام فرقوں سے وہ بیزار تھے کیونکہ ان کی نظرمیں فرقہ واریت کی وجہ سے امت اجتہادی شان سے محروم ہوگئی اور مختلف خانوں میں بٹ کر تقلید جامد کا شکار ہوگئی۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں :
مولانا کی آپ بیتی : "میری طالب علمی"
اور" مولانا اسلم جیراجپوری" ماہنامہ جامعہ شمارہ اگست 1982 جامعہ ملیہ ، دہلی
"مولانا اسلم جیراجپوری کی قرآنیات" ۔ پرو فیسر ابو سفیان اصلاحی