خوراک اور صحت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
خوراک اور صحت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

’تھوڑی سی شراب نوشی بھی مضرِ صحت‘( نئی تحقیق )

بی سی اردو ، 24 اگست 2018 

ان تمام لوگوں کے لیے بری خبر سامنے آئی ہے جو دن میں شراب کا ایک جام نوش کرنا صحت کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں۔

معتبر طبی جریدے لینسیٹ میں شائع ہونے والی ایک وسیع تحقیق نے ماضی کی رپورٹس کی تصدیق کی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ شراب نوشی ہر لحاظ سے مضر صحت ہے اور کم یا زیادہ پینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

محققین نے اس رپورٹ میں بتایا ہے کہ درمیانے درجے شراب نوشی دل کی بیماریوں سے تو بچاتی ہے لیکن سرطان اور دیگر بیماریوں کے خطرے اس فائدے سے کہیں زیادہ ہیں۔

اس تحقیق کے مصنفین نے کہا کہ شراب نوشی پر یہ اب تک کی سب سے جامع تحقیق ہے کیونکہ اس میں مختلف عناصر شامل کیے ہیں۔
گلوبل برڈن آف ڈیزیز کی اس تحقیق نے 195 ممالک میں 1990 سے 2016 شراب نوشی کے استعمال کے حوالے سے تحقیق کی۔ 15 عمر کے افراد سے 95 عمر کے افراد تک کی گئی اس تحقیق میں دن میں ایک گلاس شراب پینے والے اور نہ پینے والوں کا موازنہ کیا گیا۔

Do We Really Use Only 10 Percent of Our Brain?

It’s one of Hollywood’s favorite bits of pseudoscience: human beings use only 10 percent of their brain, and awakening the remaining 90 percent—supposedly dormant—allows otherwise ordinary human beings to display extraordinary mental abilities. In Phenomenon (1996), John Travolta gains the ability to predict earthquakes and instantly learns foreign languages. Scarlett Johansson becomes a superpowered martial-arts master in Lucy (2014). And in Limitless (2011) Bradley Cooper writes a novel overnight.

This ready-made blueprint for fantasy films is also a favorite among the general public. In a survey, 65 percent of respondents agreed with the statement, “People only use 10 percent of their brain on a daily basis.” But the truth is that we use all of our brain all of the time.

بارش کے بعد سوندھی خوشبو کہاں سے آتی ہے؟

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ جب خاصے عرصے کے بعد بارش ہو تو زمین سے سوندھی سوندھی خوشبو آتی ہے۔ لیکن اس خوشبو کا ماخذ کیا ہے؟

اس کے پیچھے بھی سائنس ہے۔

یہ خوشبو کا ایک خاص نام بھی ہے، پیٹریکور (petrichor اور یہ اس قدر خوشگوار ہوتی ہے کہ بعض کمپنیوں نے اس سے ملتی جلتی خوشبوئیں بنانے کی کوشش کی ہے۔

برطانیہ کے جان انز سینٹر کے مائیکروبیالوجی کے سربراہ پروفیسر مارک بٹر نے بی بی سی کو بتایا: 'مٹی میں جراثیم کی بہتات ہوتی ہے، اس لیے جب آپ کہتے ہیں کہ آپ گیلی مٹی سونگھتے ہیں تو آپ دراصل اس مالیکیول کو سونگھ رہے ہوتے ہیں جسے ایک خاص قسم کا جرثومہ تیار کرتا ہے۔'

اس مالیکیول کا نام جیوسمن ہے اور اسے بنانے والی جرثومے کا نام سٹریپٹومائسیز ہے۔ یہ وہی جرثومہ ہے جس سے اینٹی بایوٹک ادویات بھی تیار کی جاتی ہے۔

جب بارش کے قطرے مٹی سے ٹکراتے ہیں یہ مالیکیول ہوا میں منتشر ہو جاتا ہے اور لوگوں کی ناک تک پہنچ کر انھیں خوشبو کا احساس دلاتا ہے۔

صحت مند زندگی

محمد اقبال

 روزنامہ دنیا ،

تاریخ اشاعت : 27 جولائی 2018ء 

ہر انسان صحت مند رہنا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے طرز زندگی کا صحت کے اصولوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ خوشگوار اور بھر پور زندگی کے لیے ایسا کرنا لازم ہے۔

 یوں انسان تروتازہ اور توانا رہتا ہے اور موڈ بحال رہتا ہے۔ صحت مند طرز زندگی کے اصولوں کو اپنا کر بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھر پور اور مکمل نیند انتہائی اہم ہے۔

 اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ جسم کو متناسب رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند شوگر اور شریانوں کے سکڑنے کی بیماری کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ نیند کا پورا نہ ہونا چڑچڑاپن، تھکاوٹ اور طبیعت کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔

24 گھنٹے کا فاقہ نئے اسٹیم سیلزکی پیداوار میں اضافہ کرتا ہے۔

 ایک دلچسپ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 24 گھنٹے تک فاقہ کرنے سے بدن کے اندر اسٹیم سیلز (خلیاتِ ساق) کی پیداوار دوبارہ شروع ہوجاتی ہے۔


اس سے قبل ڈاکٹر اور غذائی ماہرین ایک عرصے سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ کم کھانا اور کم کیلوری ہی صحت مند اور طویل عمری کا اہم راز ہے لیکن اب تک اس کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آئی تھی تاہم ایک تازہ تحقیق سے اس راز سے پردہ اٹھانے میں مدد ملی ہے۔

اس کےلیے میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے وابستہ حیاتیات داں ڈاکٹر عمر یلماز اور ان کے ساتھیوں نے چوہوں پر تحقیق کے بعد کہا ہے کہ 24 گھنٹے تک فاقے کے بعد ان کے جسم کا میٹابولک سوئچ کھل جاتا ہے جو آنتوں کے اندر نئے اسٹیم سیل کی افزائش شروع کردیتا ہے۔


عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آنتوں میں موجود اسٹیم سیلز بہت مشکل سے بن پاتے ہیں۔ یہ خلیات نئے صحت مند ٹشوز بنانے اور امراض سے لڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان خلیات کی افزائش پھر سے شروع کرنے والا اگر کوئی طریقہ دریافت ہوتا ہے تو یہ ایک اہم بات ہوگی۔

ڈاکٹر عمر یلماز نے بتایا فاقہ، آنتوں پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتا ہے جن میں اسٹیم سیلز کی پیداوار کے ساتھ ساتھ کئی انفیکشن اور کینسر کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

24 گھنٹے کا فاقہ آنتوں میں اسٹیم سیلز کی دوبارہ پیداوار بڑھانے اور چربی ختم کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ فاقہ آنتوں پر بہت غیرمعمولی اثرات ڈالتا ہے۔ ایک جانب تو یہ کاربوہائیڈریٹس کی جگہ چربی کو بطور ایندھن استعمال کرتا ہے تو دوسری جانب آنتوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

عام طور پر آنتوں کے اوپر خلیات کی ایک پرت استر کی صورت میں ہوتی ہے اور کھانے پینے سے مکمل اجتناب کے چند گھنٹوں بعد یہ عمل تیز ہوجاتا ہے اور آنتوں کے اوپر نیا استر بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔

جب ماہرین نے تجربہ گاہ میں چوہے کی آنتوں سے لیے گئے اسٹیم سیلز کو 24 گھنٹے تک غذا سے دور رکھا تو ان میں ازخود بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی جو عام حالات کے مقابلے میں دوگنی تھی۔ یہ صلاحیت جوان اور بوڑھے، دونوں اقسام کے چوہوں میں نوٹ کی گئی۔

(روزنامہ ایکسپریس ، 9 مئی 2018)

پکانے کے تین طریقے

پکانے کے تین طریقے 

اگرچہ دنیا میں آج بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو گوشت تک کچا کھا جاتے ہیں لیکن آگ کی دریافت کے بعد سے اکثر غذائیں پکا کر ہی کھائی جاتی ہیں۔ ان غذاؤں میں اناج، مچھلی اور گوشت کے علاوہ انڈے اور متعدد سبزیاں بھی شامل ہیں۔ پکانے کے عمل کے چند اہم فوائد درج ذیل ہیں۔ ٭ خوراک نرم اور زود ہضم ہو جاتی ہے۔ ٭ کئی بیماریوں کے جراثیم مر جاتے ہیں، خصوصاً دودھ اور گوشت میں شامل مضر جراثیم کو مارنے کے لیے ان کا پکنا ضروری ہے۔ ٭ خوش ذائقہ ہو جانے کی بنا پر بھوک کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ ٭ مچھلی، گوبھی، انڈے اور کئی غذاؤں کی ناپسندیدہ بو ختم ہو جاتی ہے۔ ٭ مقدار اور حجم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مختلف چیزوں کو مختلف طریقوں سے یا ایک ہی چیز کو مختلف طریقوں سے پکا کر ذائقوں میں تنوع پیدا کیا جاتا ہے ۔ پکوائی کے لیے ان طریقوں کی تین اقسام ہیں۔ خشک پکوائی، تَر پکوئی، امتزاجی طریقے سے پکوائی۔ خشک پکوائی: تمام ایسے طریقے جن میں خوراک پکانے کے لیے پانی یا بھاپ کا استعمال نہ ہوتا ہو، پکوائی کے خشک طریقے کہلاتے ہیں۔ ان میں تلنا، بیک کرنا، سینکنا اور بھوننا شامل ہیں۔ تَر پکوائی: تَرپکوانی میں خوراک پکانے کے تمام ایسے طریقے شامل ہیں، جن میں پانی یا بھاپ کے استعمال کے بغیر خوراک پکائی ہی نہیں جا سکتی۔ مثلاً ابالنا، بھاپ دینا وغیرہ۔ امتزاجی طریقے: ان میں ایسے طریقے شمار ہوتے ہیں جن میں پانی، بھاپ اور روغن کا ملا جلا استعمال کیا جاتا ہو۔ مثلاً دم پخت کرنا(Stewing)۔ ہمارے ہاں سالن پکانے میں یہ طریقہ عام استعمال ہوتا ہے، جس میں بھونا بھی جاتا ہے اور ابالا بھی جاتا ہے۔ ٭…٭…٭

سعیدہ غنی ، روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت ، 3مئی 2018)

اشیائے خوردنی کی خریداری

اشیائے  خوردنی کی خریداری 


کھانے پینے کی چیزوں کی خریداری روزمرہ کا معمول ہے۔ اگر یہ خریداری محتاط طریقے سے کی جائے تو اس سے نہ صرف روپے پیسے اور وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ اس سے جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ اچھی خریداری کا یہ معیار نہیں کہ جو چیزیں سستے بھاؤ مل سکتی ہیں۔ ان کو مہنگے داموں خریدا جائے یا اپنی ضرورت سے زیادہ چیزیں خریدی جائیں، بلکہ کھانے پینے کی ایسی اشیا کا خریدنا بہتر ہے جو غذائی اجزا سے بھرپور ہوں اور اہل خانہ کی پسند و ناپسند اور ماہانہ آمدنی کے مطابق ہوں۔ اشیائے خوردنی کی اچھی اور سستی خریداری کے لیے چند ایسے اصول بھی ہیں جن پر عمل کر کے کم رقم میں بہترین خوراک حاصل کی جا سکتی ہے۔یہ چند اصول مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ خوراک خریدنے کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ تازہ، صحیح اور صاف ستھری غذاؤں کی پہچان ہو۔ اس میں مہارت کے لیے ضروری ہے کہ کھانے پینے کی اشیا ہمیشہ خود خریدی جائیں۔ تجربہ خود بخود اچھی خریداری سکھا دیتا ہے۔ ۲۔ حفظان صحت کے اصولوں اور بجٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے کم قیمت میں غذائیت سے بھرپور غذائیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اس مقصد کے لیے درج ذیل امور پیش نظر رکھیے: الف۔ غذائی اجزا کے بارے میں صحیح علم اور ان کی اہمیت سے آگاہی ضروری ہے۔ بہترین غذائی ذرائع کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا بھی ضروری ہے تاکہ وہی اجزا سستی غذاؤں سے بھی حاصل کیے جا سکیں۔ ب۔ خوراک کے چار بنیادی گروہوں سے واقفیت اور ان میں پائے جانے والے اجزا کا علم ہونا چاہیے تاکہ مخصوص غذائی اجزا کو سستی اور ’’نعم البدل‘‘ غذاؤں سے حاصل کرنے میں آسانی ہو سکے۔ مثلاً سبزیوں اور پھلوں کے گروہ میں مالٹے اور گاجر میں نسبتاً زیادہ غذائیت موجود ہوتی ہے۔ ۳۔ سبزیاں، پھل، گوشت اور دیگر اجناس اور اشیائے خوردنی خریدتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ان میں چھلکے، بیج، ہڈیاں اور اس کے طرح کے ناقابل استعمال اور ضائع ہونے والے اجزا کی مقدار کم سے کم ہو۔ اگر ان کی مقدار زیادہ ہو گی تو اس سے مالی نقصان ہو گا۔ ۴۔ غذاؤں کی صحیح قیمتوں کا اندازہ بھی ضروری ہے تاکہ اسے مدنظر رکھتے ہوئے بازار سے تیاری دہی، پنیر، شربت، اچار، مربے، سکوائش اور دیگر ایسی اشیا کی قیمتوں کا گھر پر تیار کی گئی اشیا کی قیمتوں سے موازنہ کر کے کم قیمت چیز استعمال کی جا سکے۔ اس سے خوراک کے بجٹ پر نمایاں اثر پڑ سکتا ہے۔ گھر پر تیار کردہ اشیا عموماًزیادہ صاف ستھری، خالص، تازہ اور غذائیت بخش ہوتی ہیں۔ ۵۔ خریداری کا سنہری اصول یہ ہے کہ جب تک آپ کو پہلے ہی سے قیمتوں کا صحیح علم نہ ہو کبھی ایک ہی دکان سے ساری خریداری نہ کی جائے۔ خود میںیہ عادت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جب بھی بازار سے گزر ہو تو کبھی کسی ریڑھی یا دکان سے دوچار سبزیوں یا کھانے پینے کی چیزوں کا بھاؤ ضروری معلوم کر لینا چاہیے۔ اس سے خریدار کو قیمتوں سے آگاہی رہتی ہے۔ ۶۔ سبزیوں اور پھلوں کی خریداری کرتے وقت ان کے سائز کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ اگر محض سائز میں قدرے چھوٹا ہونے کی وجہ سے سبزی یا پھل کم قیمت پر فروخت ہو رہا ہو تو اسے خریدنے پر ترجیح دینی چاہیے۔ ۷۔ دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ تازہ سبزیوں اور پھلوں کے بھاؤ بھی ڈھلتے رہتے ہیں۔ لیکن شام تک قیمتوں میںنمایاں کمی ہو جاتی ہے جبکہ ان کی غذائیت پر قابل ذکر اثر نہیں پڑتا، اسی لیے کمی بجٹ میں عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ سبزیاں وغیرہ بعد از دوپہر خریدی جائیں۔ ۸۔ خریدار کو موسمی اور بے موسمی سبزیوں اور پھلوں کے بارے میں علم ہونا ضروری ہے۔ زیادہ سے زیادہ موسمی غذائیں خریدنی چاہئیں۔ ہر موسم کی تازہ سبزی اور پھل کو سلاد کے طور پر بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ ۹۔ سارے ہفتے یا مہینے بھر کے لیے اشیائے خوردنی کی خریداری مقصود ہو تو دوسری چیزوں کی طرف ضرورت کے مطابق ان کی فہرست بنا لینے سے وقت اور رقم دونوں کی بچت ہو سکتی ہے۔ ۱۰۔ تازہ سبزیوں اور پھلوں کو اگر کچھ عرصہ کے لیے زیادہ مقدار میں اکٹھا خریدنا ہو تو اس امر کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ انہیں کس طریقے سے محفوظ کیا جائے۔ یعنی اسے عام درجہ حرارت پر رکھا جائے یا ٹھنڈی جگہ میں سٹور کیا جائے۔ ۱۱۔ غذائی اعتبار سے پھلوں اور سبزیوں کی مختلف حالتوں میں حیاتین الف (وٹامن اے) اور حیاتین ج (وٹامن سی) کی مقدار بھی مختلف ہوتی ہے، جسے مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ پوری طرح تیار ہونے کی صورت میں حیاتین الف اور حیاتین ج اپنی بہترین مقدار میں ہوتے ہیں، جبکہ کچی حالت میں ان کی مقدار کافی کم ہوتی ہے اور ضرورت سے زیادہ پکنے یا گلنے کی صورت میں کافی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ ۱۲۔ اشیائے خوردنی کی خریداری کے لیے بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ انہیں زیادہ مقدار میں یا زیادہ لمبے عرصے کے لیے سٹوری نہ کیا جائے۔ بلکہ سبزیوں اور پھلوں کو روز کے روز ہی خریدنا چاہیے ورنہ دو دن تک ہی محفوظ کریں۔ ۱۳۔ اگر پیکٹ یا ڈبے میں بند چیزیں خریدی جائیں تو ان پر لکھی ہوئی میعاد کی تاریخ پڑھنا نہایت ضروری ہے تاکہ اگر وہ معیاد کے اندر خراب نکلیں تو انہیں واپس یا تبدیل کیا جا سکے۔ اسی طرح ان میں شامل اجزا کا بھی علم حاصل کریں۔ مثلاً دودھ کے ڈبوں پر بغیر کریم یا فل کریم وغیرہ لکھا ہوتا ہے۔ اپنی جسمانی ضروریات کے مطابق ان اشیا کو استعمال کریں۔ ٭…٭…٭

(سعیدہ غنی ، روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت :10 اپریل 2018)
 ا

80 فیصد مریضوں کی بیماریوں کا تعلق طرزِ زندگی اور خوراک سے ہوتا ہے۔

80 فیصد مریضوں کی بیماریوں کا تعلق طرزِ زندگی اور خوراک سے ہوتا ہے۔

برطانیہ میں میڈیکل کے طلبہ نے کہا ہے کہ انھیں خوراک اور صحت پر طرزِ زندگی کے اثرات کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔
طلبہ کے مطابق جو انھیں پڑھایا جاتا ہے وہ بعد میں ہسپتالوں میں کام کرنے کے دوران عملی طور پر زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوتا۔
ایک ممتاز ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ان کے 80 فیصد مریضوں کی بیماریوں کا تعلق طرزِ زندگی اور خوراک سے ہوتا ہے۔ ان بیماریوں میں ذیابیطس، موٹاپا اور ڈیپریشن شامل ہیں۔
اس سال برطانوی محکمۂ صحت این ایچ ایس صرف ذیابیطس پر 11 ارب پاؤنڈ سے زیادہ خرچ کرے گا، جب کہ علاج کے دوران کام سے چھٹی، سماجی دیکھ بھال وغیرہ سے یہ خرچ دگنا ہو جائے گا۔
ذیابیطس درجہ دوم کا تعلق موٹاپے سے ہے۔ اور اس وقت برطانیہ موٹاپے کی دوڑ میں یورپ میں سے سب آگے ہے۔
تاہم ڈاکٹروں کو اس قسم کی بیماریوں سے نمٹنے کی مناسب تربیت نہیں ملتی، حالانکہ یہی برطانوی طبی نظام کو لے ڈوبنے کے درپے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رانگن چیٹرجی نے بتایا: 'گذشتہ 30 سے 40 برس میں برطانیہ کا طبی منظرنامہ خاصا تبدیل ہوا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ 80 فیصد بوجھ کا باعث ہمارا مشترکہ طرزِ زندگی ہے۔'
ڈاکٹر مائیکل موزلی نے کہا: 'بدقسمی سے یہ روایتی تربیت کا حصہ نہیں ہے۔ میڈیکل کالج میں مجھے خوراک اور غذائیت کے بارے میں کچھ نہیں پڑھایا گیا۔ میرا ایک بیٹا اس وقت میڈیکل کالج میں ہے اور یہ اس کے نصاب کا بھی حصہ نہیں۔
'اس لیے بہت سے ڈاکٹر ایسے ہیں جو اپنے مریضوں کو غذائیت کے بارے میں مشورہ دینے سے قاصر ہیں۔'


اس کمی کو پورا کرنے کے لیے برسٹل یونیورسٹی میں سالِ سوم کے میڈیکل سٹوڈنٹ ایلی جیفی نے 'نیوٹری ٹینک' کے نام سے ایک آن لائن تنظیم قائم کی ہے۔
اس کے تحت تازہ ترین طبی معلومات تقسیم کی جاتی ہیں اور کالجوں میں لیکچروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اب یہ تنظیم 15 دوسرے کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پھیل گئی ہے۔
ایلی جیفی کہتے ہیں: 'میڈیکل کالجوں میں ہر چیز کی سوسائٹیاں ہوتی ہیں، نہیں ہوتیں تو غذائیت کے بارے میں۔ ہمیں میڈیکل کالج کے چھ سالوں میں غذائیت کے بارے میں کل دس سے 24 گھنٹے تعلیم دی جاتی ہے۔'
ممتاز طبی رسالے بی ایم جے کی مدیر ڈاکٹر فیونا گوڈلی نے بی بی سی کو بتایا: 'وقت آ گیا ہے کہ ہم خوراک اور غذائیت کو صحت کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل سمجھیں۔'
(بی بی سی اردو،  تاریخ اشاعت: 25 مارچ 2018)

متوازن غذا صحت مند زندگی

متوازن غذا صحت مند زندگی 


جمیل احمد
ایک صحت مندفرد دیکھنے میں خوبصورت لگتا ہے۔ وہ چاق و چوبند رہتاہے اور ذہنی و جسمانی طور پر تھکن محسوس نہیں کرتا۔ اس کے چہرے، جسم اور پاؤں کی جلد نرم اور تازہ ہوتی ہے۔ اس کے ہونٹ تازہ نظر آتے ہیں اور سانسوں سے بدبو نہیں آتی۔ دانت اورمسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔ غذا کاسب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس سے جسم کو حرارت و توانائی حاصل ہوتی ہے۔ حرارت ہمارے جسم کو زندگی کے مختلف کام سرانجام دینے میں مدد دیتی ہے۔ حرارت کی وہ مقدار جو ایک کلوگرام پانی کا درجہ حرارت ایک سینٹی گریڈ تک بڑھاتی ہے، حرارہ یا کیلوری کہلاتی ہے۔ ہر غذا میں حراروں کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ تیل، گھی اور چکنائی میں زیادہ حرارے ہوتے ہیں جبکہ رس دار پھل اور سبزیوں میں حراروں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اچھی صحت کی بنیاد اچھی غذا پر ہوتی ہے اور اچھی غذا سے مراد متوازن غذا ہے۔ صحت و تندرستی کے بارے میں عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے: صحت کے ماہرین کے مطابق مکمل جسمانی و ذہنی اور معاشرتی راحت کا نام تندرستی ہے۔ موجودہ سائنسی دور میں غذائی اجزا کی دریافت نے متوازن غذا کا مسئلہ حل کیا ہے اور ان اجزا کو غذا میں شامل کرنے پرزور دیا ہے۔ لحمیات: ان غذائی اجزا میں اہم ترین جزو کو لحمیات کہاجاتا ہے۔ ہمارے جسم کا زیادہ حصہ لحمیات پر مشتمل ہے۔ گوشت پوست، رگ و ریشے اور خون وغیرہ یعنی جسم کے ہر حصے میں لحمیات موجود ہیں۔ 19سے 70 سال کی عورتوں کو تقریباً 46 گرام اوراسی عمر کے مردوں کو 56 گرام روزانہ لحمیات گوشت، دودھ اور انڈوں، اناج وغیرہ کی صورت میں ملنے چاہئیں۔ لحمیات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حیوانات سے حاصل ہونے والی غذاؤں مثلاً گوشت، انڈے اوردودھ سے اور دوسرے جو نباتات یعنی اناج، سبزیوں اور دالوں وغیرہ سے ملتے ہیں۔ لحمیات جسم کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔ ان کی کمی سے جسم کی نشوونما رک جاتی ہے۔ خون میں لحمیات کی موجودگی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ خون میں لحمیات کی کمی سے اعضا میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور ہاتھ پاؤں سوجنے لگتے ہیں۔ یہ جسم میں تیزابیت نہیں بڑھنے دیتے اور بہت سے امراض کی روک تھام کرتے ہیں۔ نشاستہ :شکر اور نشاستہ جسم کو طاقت دینے والے اجزا ہیں۔ ان کی کچھ اقسام دماغ، حرام مغز اور اعصابی نظام استعمال کرتا ہے۔ نشاستہ دار اور میٹھی غذائیں جسم میں چربی پیدا کرتی ہیں۔ غذا میں چکنا ئی اور نشاستہ دار اجزا کم ہوں تو انسان کا جسم لحمیات سے طاقت حاصل کرنے لگتا ہے جس سے لحمیات کا اصل مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہماری غذا میں ان کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ خون میں شکر یا گلوکوز کی مقدار کا صحیح رہنا صحت کے لیے ضروری ہے۔ عام طور پر ناشتہ کرنے سے قبل خون میں شکر کی مقدار 80 سے 100ملی گرام ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد یہ مقدار 150ملی گرام اور کبھی کبھار 180 ملی گرام تک پہنچ جاتی ہے۔ چینی، شکر اور شہد وغیرہ میں نشاستہ دار اجزا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور اناج یعنی چاول، گیہوں، جو، مکئی، باجرہ اور بعض سبزیوں مثلاً آلو، شکر قندی، اروی،مٹر، چنے، لہسن اور ادرک وغیرہ میں ان کی مقدار مناسب ہوتی ہے۔ چکنائی:گھی، مکھن اور تیل چکنائیاں ہیں اور یہ ہماری روزانہ کی غذا کااہم حصہ ہیں۔ یہ جسم کو حرارت اور طاقت دیتی ہیں۔ ایک گرام چکنائی سے ہمیں نو حرارے ملتے ہیں۔ زیادہ چکنائی جسم میں جمع ہونے کے بعد ایک تہہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ گھی، تیل اور چند دوسری چکنائیوں میں کچھ وٹامن بھی پائے جاتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے ضروری ہیں۔ چکنائی مکھن، گھی، دودھ، دہی، پنیر، جانوروں کی چربی کے علاوہ بنولے، زیتون اورتلوں کے تیل سے حاصل ہوتی ہے۔ غذا میں چکنائی کے بڑے فائدے ہیں لیکن اگر غذا میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہو جائے تو آدمی بیمار پڑ جاتا ہے۔ حراروں کی روزانہ ضرورت کا پانچواں حصہ چکنائی سے حاصل کرنا ضروری ہے۔ گھی اورتیل میں چکنائی کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بادام اور اخروٹ میں اس کی نسبت قدرے کم، مونگ پھلی، ناریل، پنیر اور انڈے کی زردی میں اس سے کم اور مرغی، مچھلی، کلیجی، دودھ، روٹی، سبزیوں اور پھلوں میں چکنائی کا تناسب انتہائی کم ہوتا ہے۔ چینی اور شکر میں چکنائی نہیں ہوتی ۔ معدنی نمکیات اور پانی:ہمارے جسم کے لیے آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن کی ضروری ہیں۔ لیکن نمکیات کی اہمیت بھی کم نہیں۔ کیلشیم،پوٹاشیم، کلورین، سوڈیم، میگنیشیم، تانبا اور آیوڈین جیسے نمکیات بھی ضروری ہیں۔ معدنی نمکیات کا غذا میں ہونا بے حد ضروری ہے۔ ایسے نمک یا ان کو بنانے والے اجزا غذا میں کم ہوں تو صحت متاثر ہوتی ہے۔ عضلات کو بچانے کے لیے غذا میں کیلشیم کی مناسب مقدار ضروری ہے۔ کیلشیم کی مقدار کم ہونے سے دانت اور ہڈیوں کی صحیح نشوونما نہیں ہوتی۔ کیلشیم زیادہ تر دودھ، دودھ سے بنی ہوئی چیزوں خاص طورپر پنیر، کھوئے اور مکھن وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مچھلی، انڈے کی زردی اور ہری سبزیوں میں بھی کیلشیم ہوتاہے۔ بالغ آدمی کے مقابلے میں بچے کو کیلشیم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کیلشیم کی طرح ہمارے جسم اور غذا میں فاسفورس کی موجودگی بے حد ضروری ہے۔ غذا میں جتنا فاسفورس ہوتا ہے اس کا 70 فیصد حصہ عام طور پر بدن کا حصہ بنتا ہے۔ 19 برس کے بعد روزانہ سات سو ملی گرام فاسفورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر حیوانی لحمیات گوشت، مچھلی اور انڈوں میں اور کم مقدار میں دودھ، پنیر، دہی، خشک میوہ جات، دالوں اور پھلوں میں موجود ہوتاہے۔ فولاد ہمارے جسم کا ایک بہت ہی اہم جزو ہے۔ یہ جسم میں آکسیجن پہنچانے کے علاوہ خون میں سرخ مادہ بناتا ہے۔ جسم میں آیوڈین کی کمی سے گلہڑ کا مرض ہوتاہے۔ آیوڈین جسمانی نظام کو صحیح طور پر چلنے میں مدد کرتی اور توانائی پیدا کرتی ہے۔ آیوڈین یا تو سمندی مچھلی میں ہوتی ہے یا ان سبزیوں میں جن کی کاشت ان زمینوں میں ہوتی ہے جس میں آیوڈین کی مقدار زیادہ ہو۔ ہوا کے بعد پانی ہماری زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ زندہ رہنے کے لیے جسم میں پانی کے ساتھ ساتھ چند سادہ کیمیائی اجزا کا توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ یہ توازن پانی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پانی میں کئی قسم کے معدنیات بھی ہوتے ہیں ۔ وٹامن:وٹامن یا حیاتین وہ نامیاتی مادے ہیں جو ہماری مختلف غذاؤں میں مختلف مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ مادے ہماری صحت و تندرستی کے لیے ضروری ہیں۔ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی خوراک میں وٹامن والی چیزیں شامل کریں۔ مختلف وٹامن کا جائزہ لیا جائے تو وٹامن اے ہمارے صحت اور نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر بچوں کے لیے تو یہ بہت اہم ہے اور اس کی کمی سے چہرے کی جلد کھردری ہوجاتی ہے۔ یہ وٹامن انسان میں بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ وٹامن بی بہت مشہور حیاتین ہے۔ اس میں کئی ایک ذیلی وٹامن شامل ہوتے ہیں۔ انہیں مجموعی طور پر وٹامن بی کمپلیکس کہتے ہیں۔ یہ تمام وٹامن مختلف غذاؤں یعنی گوشت، دودھ، پھلوں اور سبزیوں وغیرہ میں مل جاتے ہیں۔

(تاریخ اشاعت : 28 مارچ 2018 روزنامہ دنیا ) 

صرف ایک منٹ کی ورزش جسمانی حالت بہتر بنانے کے لیے کافی ہے۔



صرف ایک منٹ کی سخت ورزش ہی جسمانی حالت بہتر بنانے کے لیے کافی ہے۔


وقت کتنی جلدی ہاتھ سے پھسل جاتا ہے اور انسان کو اپنی مصروفیات میں اپنی صحت پر توجہ دینے کا خیال تک نہیں آتا تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق صرف ایک منٹ کی سخت ورزش ہی جسمانی حالت بہتر بنانے کے لیے کافی ہے۔ مگر اس سے بھی اچھی خبر یہ ہے کہ ایک منٹ یا 60 سیکنڈ سے کم وقت میں اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ سخت ورزش ہی کریں بلکہ چند دیگر طریقہ کار بھی آپ کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔


ہنسنا


ہنسی بہترین دوا ہے کیونکہ یہ نہ صرف جسم کو تناؤ سے نجات دلانے کا قدرتی ذریعہ ہے بلکہ اس سے دیگر طبی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، جیسے اگر دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہو گئی ہو یا بلڈ پریشر آسمان کو چھو رہا ہو تو ایک منٹ تک ہنسنے سے ہی یہ معمول پر آ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ یادداشت کو بھی بہتر بناتی ہے اور ہنسی کا عمل جسمانی سرگرمی بھی ہے یعنی کچھ کیلوریز بھی جلتی ہیں جس سے موٹاپے سے کسی حد تک تحفظ حاصل ہوتا ہے۔


چاکلیٹ کا مزہ لینا


کوکا میں ایک قدرتی جز پایا جاتا ہے جو بلڈ پریشر کم کرنے، اچھے کولیسٹرول کی مقدار بڑھانے جبکہ خراب کولیسٹرول کی شرح گرانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور یہ دوران خون کو بھی بہتر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ چاکلیٹ کا محدود مقدار میں استعمال ذیابیطس کو دور بھگاتا ہے اور جلد کی صحت کو برقرار رکھتا ہے۔


گہری سانس لینا


اگر آپ تناؤ کا شکار ہیں تو ذہن و جسم کو آرام کا احساس دلانے والے اس طریقہ کار کو مت بھولیں یعنی گہری سانس۔ ایک یا دو گہری سانسیں لینے سے آپ کے دل کی دھڑکن کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور ایسا کرنے سے بلڈ پریشر کی شرح کو نیچے لانے میں بھی مدد ملتی ہے، جبکہ جسم میں تناؤ کا باعث بننے والے ہارمونز بننے کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔


کسی سے گلے ملنا


کسی پیارے سے گلے ملنے سے زیادہ اچھا اور کیا طریقہ کار ہو سکتا ہے کیونکہ یہ گرمجوش معانقہ ہمیں خوشی کے احساس سے بھر دیتا ہے اور جسم میں سکون کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں جبکہ اس کے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن کی رفتار کم ہو جانا وغیرہ۔


پرامید رہنا


مشکل حالات میں بھی روشن رخ کو دیکھنا یا اس کی امید رکھنا صحت مند دل اور امراض کے خلاف طاقتور دفاعی نظام کا باعث بنتا ہے، تو اگر کبھی آپ خود کو مشکل میں محسوس کریں تو ایک منٹ کے لیے ان خیالات کو ذہن سے نکال کر امید کے دامن کو تھام کر رکھیں۔


کمپیوٹر سکرین سے نظر ہٹا لینا


اگر آپ ڈیسک جاب کرتے ہیں یا ٹیکنالوجی کے دیوانے ہیں تو آپ یقیناً اپنا زیادہ وقت کمپیوٹر سکرینز کے سامنے گزارتے ہوں گے، مگر جو وقت آپ سکرین پر نظریں جماتے ہوئے گزارتے ہیں وہ ذہن کے لیے کافی تناؤ اور آنکھوں کے امراض کا باعث بنتا ہے تو ان حالات میں آپ کو ہر بیس منٹ بعد کمپیوٹر سے نظریں ہٹا کر خود سے بیس فٹ دور موجود کسی چیز کو محض بیس سیکنڈ تک دیکھنا چاہیے اور اس کا فائدہ آپ کو حیران کر کے رکھ دے گا۔


ہاتھوں کو دھونا


اس کام میں بمشکل ہی بیس سیکنڈ لگتے ہیں اور اس کی اہمیت کا آپ اندازہ تک نہیں کر سکتے۔ درحقیقت ہاتھوں کی مناسب صفائی لوگوں کے اندر ہیضے کا خطرہ 31 فیصد اور سرد موسم میں لاحق ہونے والے امراض کا امکان 21 فیصد تک کم کر دیتی ہے۔


اپنے ناشتے میں دارچینی کا شامل کرنا


نمک یا چینی کی بجائے دارچینی کو ترجیح دینا موٹاپے سے بچاؤ کا انتہائی بہترین طریقہ ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ مصالحہ آپ کو ذیابیطس اور بلڈ پریشر سے بھی تحفظ دیتا ہے جبکہ کولیسٹرول بڑھنے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔


سن سکرین کا استعمال


سورج کی شعاعیں جلدی امراض کا باعث بن سکتی ہیں اور ان سے بچنا اکثر مشکل ہی ہوتا ہے تاہم سن سکرین کا استعمال آپ کو اس سے تحفظ دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔


کہنی کے بل زمین پر لیٹنا


روزانہ صرف ایک منٹ کے لیے اپنی دونوں کہنیاں زمین پر ٹکا کر پش اپ کے پوز میں رہنا کوئی مشکل کام نہیں اور یہ مشق آپ کے پیٹ کے عضلات کو مضبوط بناتی ہے اور کمر درد سے نجات ملتی ہے جبکہ دیگر کئی امراض کے لیے مفید ہونے کے ساتھ یہ عام اوقات میں کمر کو سیدھا رکھ کر بیٹھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔


(یہ تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی)

- See more at: http://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Technology/377207#sthash.1iRiiHOt.dpuf

کیا دھیمی روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کو نقصان پہنچتا ہے؟


کیا دھیمی روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کو نقصان پہنچتا ہے؟


اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ دھیمی روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔ یہ بات معقول بھی لگتی ہے کیوں کہ دھیمی روشنی میں کچھ پڑھنے سے آنکھوں پر زور پڑتا ہے اور جلن بھی شروع ہو جاتی ہے لیکن حقیقت کیا ہے؟

دھیمی روشنی میں کچھ پڑھنے کے بعد آنکھوں میں درد کا احساس اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کم روشنی میں آنکھوں کی پُتلیاں پھیل جاتی ہیں اور پڑھائی کے دوران آنکھوں کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آنکھوں کی تھکاوٹ درد کا احساس پیدا کرتی ہے۔


اس حوالے سے جرمن یونیورسٹی بون میں آنکھوں کی کلینک کے ڈائریکٹر فرانک ہولز کہتے ہیں کہ اس طرح آنکھوں میں تو درد ہوتا ہے لیکن اس کا آنکھ کی بینائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ’’دھیمی روشنی میں پڑھنے سے بینائی متاثر ہوتی ہے، اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کی ایک رات کی نیند کے بعد آنکھیں دوبارہ نارمل حالت میں آ جاتی ہیں۔‘‘ تاہم وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر روزانہ کی بنیاد پر ایک یا دو گھنٹے دھیمی روشنی میں پڑھائی کی جائے تو اس کا آنکھوں کی صحت پر اثر ضرور پڑتا ہے، خاص طور پر بچوں کی آنکھوں پر۔ ان کے مطابق اس طرح بچوں کی دور کی نظر خراب ہو جاتی ہے۔


قریب سے پڑھنے کا اثر


کیا نزدیک یا قریب سے پڑھنے کا بھی آنکھوں کی بینائی پر اثر پڑتا ہے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر ہولز کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نردیک سے پڑھنے یا کام کرنے سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے، ’’اس طرح دور کی نظر خراب ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر ہولز کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نردیک سے پڑھنے یا کام کرنے سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے، ’’اس طرح دور کی نظر خراب ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔‘‘


اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کے چالیس فیصد نوجوانوں کی بینائی متاثر ہے اور اس کی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے۔ خاتون محقق کیٹی ایم ویلیمز کی یورپی جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر تیسرے یورپی شہری کی دور کی نظر کمزور ہے۔ اس تحقیق کا حیران کن نتیجہ یہ ہے کہ 25 سے 29 برس کے افراد میں یہ شرح 47 فیصد ہے جبکہ 65 سے 69 برس کے افراد میں یہ شرح محض 16 فیصد ہے۔


اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آنکھوں کی بینائی پر بچپن میں اختیار کیے جانے والے رویے کا بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ اگر بچہ شروع ہی میں نزدیک کے کام، جیسے کہ کتاب پڑھنا، موبائل اور ٹیبلیٹ کا استعمال شروع کر دے گا تو اس کی دور کی نظر کمزور ہونے کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔


چین کے بعض علاقوں میں نوے فیصد نوجوانوں کی دور کی نظر کمزور ہے

میونخ کی محقق اور ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر بیٹینا فان لیونیس کہتی ہیں، ’’بچوں کی نظر کمزور ہونے کی ایک وجہ دن میں سورج کی مناسب روشنی کا نہ ہونا بھی ہے۔ اس وجہ سے جب بھی بچے پڑھنے لگیں تو ان کے لیے روشنی کا انتظام لازمی کیجیے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ کتابوں کے عادی بچوں کو دن میں کم از کم تین دن گھنٹے سورج کی روشنی میں لازمی بھیجیے کیوں کہ دن کی روشنی سے بچوں کی دور کی نظر بہتر ہوتی ہے۔


چین میں چھ سالہ بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر اسکول کے اوقات میں بچوں کو روزانہ چالیس منٹ تک کھیلنے کودنے دیا جائے تو آنے والے تین برسوں میں دور کی نظر خراب ہونے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔


چین میں بچوں پر پڑھائی کا بوجھ دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے اور وہاں بعض اوقات بچے بارہ بارہ گھنٹے مسلسل ایک کمرے میں بیٹھ کر پرھتے رہتے ہیں۔ چین کے بعض علاقوں میں نوے فیصد نوجوانوں کی دور کی نظر کمزور ہے۔ 

نشاستہ والی غذاؤں کو زیادہ بھوننا صحت کے لیے خطرناک


سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کینسر کے موجب ممکنہ کیمیائی مادوں کے استعمال میں کمی لانے کے لیے بریڈ، چپس اور آلو کو بھورے کے بجائے ہلکے پیلے یا سنہرے ہونے کی حد تک ہی پکایا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ سٹارچ یا نشاستہ والی غذاؤں کو اگر زیادہ دیر تک زیادہ درجۂ حرارت پر بھونا، تلا یا گرل کیا جاتا ہے تو اس سے ایکریلامائڈ نامی کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے۔


برطانیہ کی فوڈ سٹینڈرڈ ایجنسی (ایف ایس اے) نے کھانا پکانے کے طریقوں کو احتیاط سے برتنے کی صلاح دی ہے اور زیادہ بھوننے سے منع کیا ہے۔


سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دوسرے جانداروں میں کینسر اور ایکریلامائڈ کے درمیان تعلق پایا گیا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انسانوں میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔


تاہم برطانیہ کے کینسر ریسرچ ادارے کا کہنا ہے کہ انسانوں میں ابھی تک یہ تعلق ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔


(بی بی سی اردو تاریخ اشاعت 25 فروری 2017)) 

’لمبی زندگی کے لیے روز دس مرتبہ پھل کھائیں

محقیقین کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ ہر روز تقریباً دس مرتبہ پھل اور سبزیاں کھانے سے انسان قدرے لمبی عمر تک جی سکتا ہے۔ لندن کے امپیریئل کالج کی اس نئی تحقیق کے مطابق کھانے کی ایسا کرنے سے ہر سال 78 لاکھ افراد کی قبل از وقت ہلاکت سے بچا جا سکتا ہے۔


محقیقین کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں ایسے بعض پھل اور سبزیوں کی بھی نشاندہی کی ہے جن کے کھانے سے کینسر اور امراض قلب کے عارضوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔


تجزیے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کم مقدار میں بھی پھل اور سبزیاں کھانے کے بھی بہت سے فوائد ہیں لیکن اگر مقدار زیادہ ہو تو یہ کہیں بہتر ہے۔


محقیقین نے پھل یا سبزی کے ایک پورشن کی مقدار تقریباً 80 گرام یعنی ایک کیلے یا ناشپاتی کے وزون کر برابر بتائی ہے۔


اس تحقیق کے نتائج تقریباً 95 مختلف تحقیقات کے ڈیٹا کو ایک ساتھ جمع کرکے اخذ کیے گئے ہیں جس میں تقریباً بیس لاکھ افراد کے کھانے کی عادات کا مطالعہ کیا گيا۔


اس تحقیق کے مطابق پالک، شملہ مرچ اور گوبھیوں جیسی ہری سبزیاں کینسر کے خطرات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔


اسی طرح سے سیب، ناشپاتی، صلاد، کھٹّے گودے والے پھل، لیٹش طرح کی ہری پتیوں والی سبزیاں وغیرہ کھانے سے امراض قلب اور عارضہ قلب جیسی بیماریوں سے بچا چا سکتا ہے۔


اس تحقیق کو وبائی امراض سے متعلق معروف میگزین 'جرنل آف ایپیڈومی' میں شائع کیا گیا ہے جس میں وقت سے پہلے ہونے والی اموات کا بھی تجزیہ کیا گيا ہے۔


اس کے مطابق پھلوں کی 200 گرام کی مقدار میں کھانے سے امراض قلب کا خطرہ 13 فیصد کم ہوتا ہے جبکہ اگر 800 گرام کی مقدار لینے سے اس میں 28 فیصد کی کمی واقع ہوتی ہے۔


جبکہ کینسر کے معاملے میں 200 گرام کی مقدار سے 4 فیصد کی کمی آتی ہے جبکہ 800 گرام سے 13 فیصد کا خطرہ کم ہوتا ہے۔


اس تحقیق کے مطابق اگر کوئی شخص ہر روز تقریبا 200 گرام پھل اور سبزیاں کھاتا ہے تو وقت سے پہلے اس کی موت ہونے کا خطرہ 15 فیصد کم ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ 800 گرام کی مقدار میں کھاتا ہے تو وقت سے قبل مرنے کا خطرہ 31 تک کم ہوجاتا ہے۔


لیکن محقیقین کو اس بات کا ابھی علم نہیں ہے کہ اس سے زیادہ مقدار میں پھل اور سبزیاں کھانے سے بہتر نتائج برآمد ہوں گے یا نہیں کیونکہ اس بارے میں ان کے پاس شواہد کی کمی ہے۔


اس تحقیقاتی ٹیم میں شامل ڈاکٹر ڈیگفن آونی کا کہنا ہے کہ ' پھل اور سبزیاں کھانے سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی سطح کم ہوتی ہے وہیں خوان کے خلیے اس سے صحت مند ہوتے ہیں اور جسم کا دفاعی نظام بہتر ہوتا ہے۔'


ان کا مزید کہنا ہے: 'اس کی وجہ ان اشیا میں پائے جانے والی پیچیدہ غذایئت کا نیٹورک ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ان میں کافی اینٹی آکسیڈینٹ پائے جاتے ہیں، جو ڈی این کے کو خراب ہونے سے باز رکھتے ہیں جس سے کینسر کا خطرہ کم ہو جا تا ہے۔'


لیکن المیہ یہ ہے کہ بیشتر لوگ پھل اور سبزیاں مسلسل کھا نہیں پاتے ہیں۔ محقیقین کی ٹیم کے مطابق 800 گرام بہت مفید ہے لیکن بیشتر لوگ اس کا نصف حصہ بھی نہیں کھا پاتے جس کے لیے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے خود ہدایات دے رکھی ہیں۔

(بی بی سی اردو ، تاریخ اشاعت 2 فروری 2017)