متوازن غذا صحت مند زندگی
جمیل احمد
ایک صحت مندفرد دیکھنے میں خوبصورت لگتا ہے۔ وہ چاق و چوبند رہتاہے اور ذہنی و جسمانی طور پر تھکن محسوس نہیں کرتا۔ اس کے چہرے، جسم اور پاؤں کی جلد نرم اور تازہ ہوتی ہے۔ اس کے ہونٹ تازہ نظر آتے ہیں اور سانسوں سے بدبو نہیں آتی۔ دانت اورمسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔ غذا کاسب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس سے جسم کو حرارت و توانائی حاصل ہوتی ہے۔ حرارت ہمارے جسم کو زندگی کے مختلف کام سرانجام دینے میں مدد دیتی ہے۔ حرارت کی وہ مقدار جو ایک کلوگرام پانی کا درجہ حرارت ایک سینٹی گریڈ تک بڑھاتی ہے، حرارہ یا کیلوری کہلاتی ہے۔ ہر غذا میں حراروں کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ تیل، گھی اور چکنائی میں زیادہ حرارے ہوتے ہیں جبکہ رس دار پھل اور سبزیوں میں حراروں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اچھی صحت کی بنیاد اچھی غذا پر ہوتی ہے اور اچھی غذا سے مراد متوازن غذا ہے۔ صحت و تندرستی کے بارے میں عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے: صحت کے ماہرین کے مطابق مکمل جسمانی و ذہنی اور معاشرتی راحت کا نام تندرستی ہے۔ موجودہ سائنسی دور میں غذائی اجزا کی دریافت نے متوازن غذا کا مسئلہ حل کیا ہے اور ان اجزا کو غذا میں شامل کرنے پرزور دیا ہے۔ لحمیات: ان غذائی اجزا میں اہم ترین جزو کو لحمیات کہاجاتا ہے۔ ہمارے جسم کا زیادہ حصہ لحمیات پر مشتمل ہے۔ گوشت پوست، رگ و ریشے اور خون وغیرہ یعنی جسم کے ہر حصے میں لحمیات موجود ہیں۔ 19سے 70 سال کی عورتوں کو تقریباً 46 گرام اوراسی عمر کے مردوں کو 56 گرام روزانہ لحمیات گوشت، دودھ اور انڈوں، اناج وغیرہ کی صورت میں ملنے چاہئیں۔ لحمیات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حیوانات سے حاصل ہونے والی غذاؤں مثلاً گوشت، انڈے اوردودھ سے اور دوسرے جو نباتات یعنی اناج، سبزیوں اور دالوں وغیرہ سے ملتے ہیں۔ لحمیات جسم کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔ ان کی کمی سے جسم کی نشوونما رک جاتی ہے۔ خون میں لحمیات کی موجودگی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ خون میں لحمیات کی کمی سے اعضا میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور ہاتھ پاؤں سوجنے لگتے ہیں۔ یہ جسم میں تیزابیت نہیں بڑھنے دیتے اور بہت سے امراض کی روک تھام کرتے ہیں۔ نشاستہ :شکر اور نشاستہ جسم کو طاقت دینے والے اجزا ہیں۔ ان کی کچھ اقسام دماغ، حرام مغز اور اعصابی نظام استعمال کرتا ہے۔ نشاستہ دار اور میٹھی غذائیں جسم میں چربی پیدا کرتی ہیں۔ غذا میں چکنا ئی اور نشاستہ دار اجزا کم ہوں تو انسان کا جسم لحمیات سے طاقت حاصل کرنے لگتا ہے جس سے لحمیات کا اصل مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہماری غذا میں ان کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ خون میں شکر یا گلوکوز کی مقدار کا صحیح رہنا صحت کے لیے ضروری ہے۔ عام طور پر ناشتہ کرنے سے قبل خون میں شکر کی مقدار 80 سے 100ملی گرام ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد یہ مقدار 150ملی گرام اور کبھی کبھار 180 ملی گرام تک پہنچ جاتی ہے۔ چینی، شکر اور شہد وغیرہ میں نشاستہ دار اجزا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور اناج یعنی چاول، گیہوں، جو، مکئی، باجرہ اور بعض سبزیوں مثلاً آلو، شکر قندی، اروی،مٹر، چنے، لہسن اور ادرک وغیرہ میں ان کی مقدار مناسب ہوتی ہے۔ چکنائی:گھی، مکھن اور تیل چکنائیاں ہیں اور یہ ہماری روزانہ کی غذا کااہم حصہ ہیں۔ یہ جسم کو حرارت اور طاقت دیتی ہیں۔ ایک گرام چکنائی سے ہمیں نو حرارے ملتے ہیں۔ زیادہ چکنائی جسم میں جمع ہونے کے بعد ایک تہہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ گھی، تیل اور چند دوسری چکنائیوں میں کچھ وٹامن بھی پائے جاتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے ضروری ہیں۔ چکنائی مکھن، گھی، دودھ، دہی، پنیر، جانوروں کی چربی کے علاوہ بنولے، زیتون اورتلوں کے تیل سے حاصل ہوتی ہے۔ غذا میں چکنائی کے بڑے فائدے ہیں لیکن اگر غذا میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہو جائے تو آدمی بیمار پڑ جاتا ہے۔ حراروں کی روزانہ ضرورت کا پانچواں حصہ چکنائی سے حاصل کرنا ضروری ہے۔ گھی اورتیل میں چکنائی کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بادام اور اخروٹ میں اس کی نسبت قدرے کم، مونگ پھلی، ناریل، پنیر اور انڈے کی زردی میں اس سے کم اور مرغی، مچھلی، کلیجی، دودھ، روٹی، سبزیوں اور پھلوں میں چکنائی کا تناسب انتہائی کم ہوتا ہے۔ چینی اور شکر میں چکنائی نہیں ہوتی ۔ معدنی نمکیات اور پانی:ہمارے جسم کے لیے آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن کی ضروری ہیں۔ لیکن نمکیات کی اہمیت بھی کم نہیں۔ کیلشیم،پوٹاشیم، کلورین، سوڈیم، میگنیشیم، تانبا اور آیوڈین جیسے نمکیات بھی ضروری ہیں۔ معدنی نمکیات کا غذا میں ہونا بے حد ضروری ہے۔ ایسے نمک یا ان کو بنانے والے اجزا غذا میں کم ہوں تو صحت متاثر ہوتی ہے۔ عضلات کو بچانے کے لیے غذا میں کیلشیم کی مناسب مقدار ضروری ہے۔ کیلشیم کی مقدار کم ہونے سے دانت اور ہڈیوں کی صحیح نشوونما نہیں ہوتی۔ کیلشیم زیادہ تر دودھ، دودھ سے بنی ہوئی چیزوں خاص طورپر پنیر، کھوئے اور مکھن وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مچھلی، انڈے کی زردی اور ہری سبزیوں میں بھی کیلشیم ہوتاہے۔ بالغ آدمی کے مقابلے میں بچے کو کیلشیم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کیلشیم کی طرح ہمارے جسم اور غذا میں فاسفورس کی موجودگی بے حد ضروری ہے۔ غذا میں جتنا فاسفورس ہوتا ہے اس کا 70 فیصد حصہ عام طور پر بدن کا حصہ بنتا ہے۔ 19 برس کے بعد روزانہ سات سو ملی گرام فاسفورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر حیوانی لحمیات گوشت، مچھلی اور انڈوں میں اور کم مقدار میں دودھ، پنیر، دہی، خشک میوہ جات، دالوں اور پھلوں میں موجود ہوتاہے۔ فولاد ہمارے جسم کا ایک بہت ہی اہم جزو ہے۔ یہ جسم میں آکسیجن پہنچانے کے علاوہ خون میں سرخ مادہ بناتا ہے۔ جسم میں آیوڈین کی کمی سے گلہڑ کا مرض ہوتاہے۔ آیوڈین جسمانی نظام کو صحیح طور پر چلنے میں مدد کرتی اور توانائی پیدا کرتی ہے۔ آیوڈین یا تو سمندی مچھلی میں ہوتی ہے یا ان سبزیوں میں جن کی کاشت ان زمینوں میں ہوتی ہے جس میں آیوڈین کی مقدار زیادہ ہو۔ ہوا کے بعد پانی ہماری زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ زندہ رہنے کے لیے جسم میں پانی کے ساتھ ساتھ چند سادہ کیمیائی اجزا کا توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ یہ توازن پانی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پانی میں کئی قسم کے معدنیات بھی ہوتے ہیں ۔ وٹامن:وٹامن یا حیاتین وہ نامیاتی مادے ہیں جو ہماری مختلف غذاؤں میں مختلف مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ مادے ہماری صحت و تندرستی کے لیے ضروری ہیں۔ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی خوراک میں وٹامن والی چیزیں شامل کریں۔ مختلف وٹامن کا جائزہ لیا جائے تو وٹامن اے ہمارے صحت اور نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر بچوں کے لیے تو یہ بہت اہم ہے اور اس کی کمی سے چہرے کی جلد کھردری ہوجاتی ہے۔ یہ وٹامن انسان میں بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ وٹامن بی بہت مشہور حیاتین ہے۔ اس میں کئی ایک ذیلی وٹامن شامل ہوتے ہیں۔ انہیں مجموعی طور پر وٹامن بی کمپلیکس کہتے ہیں۔ یہ تمام وٹامن مختلف غذاؤں یعنی گوشت، دودھ، پھلوں اور سبزیوں وغیرہ میں مل جاتے ہیں۔
(تاریخ اشاعت : 28 مارچ 2018 روزنامہ دنیا )