مضامین سید ابوالاعلی مودودی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مضامین سید ابوالاعلی مودودی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سیاست اور نظریات

سیاست اور نظریات

خورشید  ندیم (کالم ، روزنامہ دنیا،  12فروری 2018)
''یہ لینن اور ماؤ کی امت کا نہیں، محمد عربیﷺ کی امت کا ملک ہے‘‘۔
سرد جنگ کے دنوں میں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا اور زیرِ بحث بھی رہا۔ اس جملے سے اس نظریاتی کشمکش کا اندازہ ہوتا ہے جو 1960ء اور 1970ء کی دھائیوں میں اپنے عروج پر تھی۔ عالمی سطح پر تو یہ امریکہ اور سوویت یونین کی جنگ تھی‘ جس میں ایک فریق سرمایہ داری اور دوسرا اشتراکیت کی نمائندگی کر رہا تھا‘ لیکن مولانا مودودی جیسے لوگ ایک تیسرا نقطۂ نظر پیش کر رہے تھے جو مذہبی تھا اور ان کی تعبیرِ اسلام سے پھوٹا تھا۔ مولانا کی تحریروں میں اشتراکیت اور سرمایہ داری‘ دونوں پر تنقید ملتی ہے۔
یہ تیسرا نقطۂ نظر عالمی سطح پر کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس قوتِ نافذہ نہیں تھی۔ یا یوں کہیے کہ کوئی خطۂ زمین موجود نہیں تھا‘ جو اس نظریے کے لیے ایک تجربہ گاہ ثابت ہوتا‘ جس کی بنیاد پر اس کی عملی افادیت یا عدم افادیت کا فیصلہ کیا جاتا۔ اشتراکیت کی قسمت کا فیصلہ سوویت یونین کی تجربہ گاہ نے کر دیا۔ سرمایہ دارانہ نظام بقا کی اس جنگ میں سرخرو ہوا۔ آج بھی عالمِ انسانیت اسی کے رحم و کرم پر ہے۔ ایران اور افغانستان وغیرہ میں تیسرے نقطۂ نظر کو موقع ملا‘ لیکن وہ اپنی انفرادیت کا کوئی تاثر قائم نہیں کر سکا۔
یہ ساری بحثیں آج از کارِ رفتہ ہیں۔ دنیا میں اس وقت ایک ہی نظام نافذ ہے‘ جو جوہری طور پر سرمایہ دارانہ ہے۔ اسے امرِ واقعہ کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سے جو آگے بڑھنا چاہتا ہے، اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اسے اپنا لے۔ ملائشیا، ترکی، پاکستان، چین اور اب سعودی عرب سمیت ہر ملک اسے نظام کو اپنا چکا۔ عملاً معاملے کی نوعیت یہ ہے کہ ماؤ اور لینن کی امت کے ساتھ تعامل پر، اب یہاں کسی کو اعتراض نہیں رہا۔ سی پیک اس کی شہادت ہے۔ ماؤ کی امت کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ آدم سمتھ کے دین پر ایمان لا چکی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ سرمایہ داری پر اس وقت عالمی سطح پر اجماع ہو چکا‘ تو شاید اس سے اختلاف نہ کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟
سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی اساسات پر قائم رہتے ہوئے، لچک اور اغیار کے ساتھ تعامل (accommodation) کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ اُسے اشتراکیت کا چیلنج درپیش ہوا تو اس نے فلاحی ریاست (welfare state) کے تصور کو قبول کر لیا۔ سرمایے نے اپنی بڑھوتی میں محنت کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے مزدور اور کارکن کی بقا اور امید کو اپنے نظامِ عمل کا حصہ بنا دیا۔ کم از کم اجرت کا تعین کیا۔ فلاحی ادارے قائم کیے۔ ٹیکسوں کے نفاذ میں عوامی نمائندگی کو یقینی بنایا۔ اس کے ساتھ ایک نظامِ اخلاق کی بھی پرورش کی‘ جس نے ایک ایسے سیاسی نظام کو جنم دیا جو خود احتسابی پر مبنی تھا۔ اس نے معاشرے کو گڈ گورننس کا تحفہ دیا۔ جمہوریت نے اس نظام کو مستحکم بنیاد فراہم کی کیونکہ عوام کو یقین ہو گیا کہ وہ جن حکمرانوں سے ناخوش ہوں گے، انہیںہٹانے پر بھی قادر ہوں گے۔ 
اسلام بطور نظام، سرمایہ داری کے لیے ایک چیلنج نہیں بنا لیکن بطور ایک فلسفۂ حیات اس کی اہمیت سے انکار کسی کے لیے ممکن نہیں۔ جس تصورِ زندگی کے ساتھ ایک ارب سے زیادہ افراد وابستگی رکھتے ہوں، اس کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایک مسلمان ذہن استحصال کی کسی صورت کو قبول نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ سود جیسے تصور سے وہ فطری عدم مناسبت رکھتا ہے‘ جس کی اساس استحصال پر ہے۔ اس وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام نے کھلی منڈی کی جس معیشت کو جنم دیا، اس میں اُن تجربات کے لیے بھی امکانات پیدا ہو گئے‘ جنہیں مارکیٹ قبول کرتی ہے۔ ان میں بلا سود بینکاری کا تجربہ بھی شامل تھا۔ 
سرمایہ دارانہ نظام نے جب محسوس کیا کہ اس تصور کے تحت معاشی عمل کو فروغ دیا جا سکتا ہے تو اس نے بلا سود سرمایہ کاری اور بینکنگ کے لیے بھی گنجائش پیدا کر دی۔ دنیا بھر سے علما کے ایک مؤثر گروہ کو اپنے نظام میں سمو لیا۔ آج سٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ، پاکستان کے تمام بینکوں کے ایڈوائزری بورڈز میں علما موجود ہیں اور اس نظام کے حق میں فتاویٰ بھی۔ یہی نہیں، بلا سودی بینکاری کے جو تجربات مغرب بالخصوص برطانیہ میں ہوئے، وہ بھی کامیاب ثابت ہوئے۔ آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ اشتراکیت کے بعد، سرمایہ دارانہ نظام نے اسلام کے ان معاشی تصورات کے لیے بھی جگہ پیدا کر دی ہے جو کبھی سرمایہ داری کو چیلنج کر سکتے تھے۔
گزشتہ چالیس سال میں ہونے والی اس پیش رفت نے نظریاتی سیاست کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ آج اہلِ اسلام، چین یا روس کی امریکہ کے ساتھ کوئی نظریاتی لڑائی نہیں ہے۔ اگر ہماری امریکہ سے کوئی نظریاتی لڑائی ہوتی تو لازم تھا کہ یہی لڑائی چین، روس اور جرمنی وغیرہ کے ساتھ بھی ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب ممالک ایک ہی نظریاتی نظامِ معیشت پر عمل پیرا ہیں۔ چین کے سوا سب کا سیاسی نظام بھی ایک ہی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تصادم کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک سامراج ہے۔ ہر سامراجی قوت دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے ہر وہ قوت اس کے مزاحم ہوتی ہے، وہ جس کی آزادی کو سلب کرنا چاہتا ہے۔ بیسویں صدی کے شروع میں انگریز سامراج تھا۔ سوویت یونین بھی ایک سامراجی قوت تھی۔ آج امریکہ ہے۔ یہ طاقت کا کھیل ہے، اس میں نظریات کا کوئی دخل نہیں۔
سیاست میں، میرا کہنا یہ ہے کہ نظریات کا دور ختم ہو چکا۔ آج جب کوئی نظریاتی سیاست کی بات کرتا ہے تو اس کے پیش نظر اصولی سیاست ہوتی ہے۔ جیسے نواز شریف یا عمران خان اپنے آپ کو نظریاتی کہتے ہیں تو اس سے مراد کسی نظامِ فکر سے وابستگی نہیں ہوتا۔ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہم اصولوں کی سیاست کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں جب کچھ لوگ اسلامی نظام وغیرہ کی سیاست کرتے ہیں یا بعض لوگ اشتراکیت کو زندہ رکھنے کی بات کرتے ہیں تو یہ انسان کے تہذیبی قافلے سے بچھڑے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ انسان کب کا ان مراحل سے گزر چکا۔ پاکستان جیسے نیم خواندہ معاشرے میں ان کی تھوڑی بہت پزیرائی باقی ہے لیکن یہ بھی اب دنوں کا معاملہ ہے۔ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی اساسی خرابیاں باقی ہیں۔ ان اساسات کے سلامت رہنے سے مراعات یافتہ اور غیر مراعات یافتہ طبقات کا فرق ختم نہیں ہو سکتا۔ اس فرق کو کوئی معاشی نظام نہیں بلکہ ایک مضبوط نظامِ اقدار ہی کم کر سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس وقت تین اساسات پر کھڑا ہے۔ سرمایہ کی مرکزیت، محنت کی شراکت کا جزوی اعتراف اور ایک نظامِ اخلاق جو غیر الہامی ہے۔ اگر اس نظامِ اخلاق کو ایک الہامی نظامِ اقدار سے بدل دیا جائے تو ارتکازِ زر کو لگام دی جا سکتی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا اصل المیہ ہے۔
یہ نظامِ اخلاق صرف الہامی ہو سکتا جو عمل کی اساس خدا کے سامنے جواب دہی کو قرار دیتا ہے۔ یہ انسان کو ایک ایسی تجارت کی طرف متوجہ کرتا ہے جس میں سرمایہ کم از کم سات سو گناہ بڑھتا ہے اور یہ بڑھوتی یقینی ہے۔ یہ بچت کے بجائے خرچ (انفاق) کو بطور قدر مستحکم کرتا ہے۔ یہ نفع و نقصان کا پیمانہ بدل دیتا ہے۔ آج مسلمانوں کے سامنے چیلنج کسی متبادل سیاسی یا معاشی نظام کی تشکیل نہیں، ایک نظامِ اقدار کی فراہمی ہے۔ سرمایہ اپنے راستے کا خود انتخاب کرتا ہے۔ یہ بقا کے فطری اصولوں کے مطابق ہے۔ ہمارا کام اس راستے کو غیر اخلاقی کانٹوں سے پاک کرنا ہے۔

اصلاحِ معاشرہ اور انتخابات

سید ابوالاعلی مودودیؒ 


ہم جس لائحۂ عمل پر برسوں سے کام کر رہے ہیں، اس کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کی تدابیر پر مشتمل ہیں۔ یہ ہمارا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵ دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں۔ اس لیے یہاں اصل بحث یہ نہیں ہے کہ آیا تبدیلیِ قیادت کے لیے اصلاحِ معاشرہ کا کام کیا جائے یا صرف انتخاب لڑے جائیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا اصلاحِ معاشرہ کی یہ ساری کوشش جاری رکھنے کے ساتھ انتخابات میں بھی حصہ لیا جائے یا نہیں؟ ہماری اسکیم یہ ہے کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے چاہییں.... [ایک] غلط بات یہ فرض کی گئی ہے کہ انتخاب صرف ووٹ لینے اور دینے کا کام ہے، معاشرے کے بنائو اور بگاڑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حالاں کہ دراصل معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور کوئی ایسا شخص جو ’اصلاحِ معاشرہ‘ کا محض لفظ ہی نہیں بلکہ اس کے معنی بھی جانتا ہو، اُن اثرات کو نظرانداز نہیں کرسکتا، جو انتخابات سے معاشرے پر پڑتے ہیں.... کیوں کہ معاشرے کا ہربالغ شخص اس میں ووٹر ہوتا ہے۔ ان ووٹروں سے اگر روپے کے عوض ووٹ خریدے جائیں، یا طرح طرح کے دبائو ڈال کر، یا لالچ دے کر ان کے ووٹ حاصل کیے جائیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے گردوپیش ایک ضمیرفروش، لالچی اور دَبُّو معاشرہ تیار ہورہا ہے، اور ساتھ کے ساتھ اسی معاشرے میں اُن دلالوں، غنڈوں اور بدکردار طالبینِ اقتدار کی تربیت بھی ہورہی ہے، جو اپنی قوم کی اِن اخلاقی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانے والے ہوں۔


دوسری طرف اگر ان ووٹروں سے برادریوں اور قبیلوں اور [علاقوں، نسلوں] کے نام پر بھی ووٹ لیے جائیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے معاشرے کو تنگ نظری، جاہلانہ تعصبات اور افتراق و انتشار کی تربیت بھی دی جارہی ہے،اور اس کے ساتھ آپ ہی کی قوم کے کچھ ذہین اور بااثر عناصر کو یہ تعلیم مل رہی ہے کہ اپنی ذاتی ترقی کے لیے وہ یہ ہتھکنڈے بھی استعمال کریں۔تیسری طرف اگر معاشی مفادات کے نام پر یا کچھ دوسرے لادینی اصولوں اور نظریات کی تبلیغ کرکے بھی ووٹ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پورے معاشرے کو مادہ پرستی ، دنیا پرستی اور لادینی نظریۂ حیات کے حق میں راے دینے کے لیے بھی تیار کیا جارہا ہے۔ ان عناصر کو اس تخریب معاشرہ کے لیے کھلی چھٹی دے دینا اور یہ کہنا کہ ہم تو انتخابات کو چھوڑ کر صرف اصلاحِ معاشرہ کریں گے، آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ 






(’اشارات‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۱-۲، محرم، صفر ۱۳۷۷ھ، اکتوبر، نومبر ۱۹۵۷ء، ص ۱۱-۱۲)

اسلامی تہذیب کے چودہ اصول

سیّدابوالاعلیٰ مودودی

کرئہ ارض جس پر ہم آپ رہتے ہیں خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں، ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجیے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بھاری فرق ہے۔

دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطانِ کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب ، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم وعمل کے وہ اصول بتائیں جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں، مگر اس فرق کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی ہے۔ دنیا کی حکومتیں گورنری جیسی ذمہ داری کے منصب ان ہی لوگوں کو دیتی ہیں، جو ان کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آدمی ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس عہدے پر مقرر کردیتی ہیں تو پھر انھیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کا پورا موقع دیتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح پالیسی پر چل رہا ہے اور ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کر دیتی ہیں، جو عام رعایا پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔

ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسی ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے، اور جب انھیں اس منصب پر مقرر کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار ظاہر کر دیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔

اسی نوعیت کے تجربات میں سے ایک وہ چیز ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔ معراج صرف سیر اور مشاہدہ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسے موقعے پر ہوتی ہے، جب کہ پیغمبر کو کسی کارِ خاص پر مقرر کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے، اور ایسا ہی ایک اہم موقع وہ تھا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا گیا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ صرف حجاز اور صرف عرب ہی نہیں بلکہ گردوپیش کی دوسری قوموں سے بھی سابقہ پیش آنا تھا اور اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی۔ اس لیے اس اہم موقعے پر آپ کو ایک نیا پروانۂ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے باد شاہِ کائنات نے اپنے حضور میں طلب فرمایا ۔

اسی پیشی وحضوری کا نام معراج ہے۔ عالمِ بالا کا یہ حیرت انگیز سفر ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس سفر کے ضمنی واقعات احادیث میں آئے ہیں، مثلاً: بیت المقدس پہنچ کر نماز ادا کرنا ، آسمان کے مختلف طبقات سے گزرنا ، پچھلے زمانے کے پیغمبروں سے ملنا اور پھر آخری منزل پر پہنچنا ۔ لیکن قرآن ضمنی چیزوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اصل مقصد تک اپنے بیان کو محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے کیفیت ِ معراج کا کچھ ذکر نہیں کیا،بلکہ وہ چیز تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے جس کے لیے آںحضرتؐ کو بلایا گیا تھا۔ قرآن کی ۱۷ویں سورت [بنی اسرائیل]میں آپ کو یہ تفصیل مل سکتی ہے۔

اس کے دوحصے ہیں۔ ایک حصے میں مکے کے لوگوں کو آخری نوٹس دیا گیا کہ اگر تمھاری سختیوں کی وجہ سے خدا کا پیغمبر جلاوطنی پر مجبور ہوا تو مکے میں تم کو چند سال سے زیادہ رہنے کا موقع نہ مل سکے گا، اور بنی اسرائیل کو جن سے عنقریب مدینے میں پیغمبر کو براہِ راست سابقہ پیش آنا تھا ، خبردار کیا گیا کہ تم اپنی تاریخ میں دو زبر دست ٹھوکریں کھا چکے ہواور دو قیمتی موقعے کھو چکے ہو۔ اب تم کو تیسرا موقع ملنے والا ہے اور یہ آخری موقع ہے۔

دوسرے حصے میں وہ بنیادی اصول بتائے گئے ہیں،جن پر انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر ہونی چاہیے ۔ یہ چودہ اصول ہیں :

۱- صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدارِ اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔

۲- تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرماں بردار وخدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مدد گارہوں۔

۳- سوسائٹی میں جو لوگ غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیے جائیں۔

۴- دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے ۔ جو مال دار اپنے روپے کو برے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔

۵- لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں ، نہ بخل کر کے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کر کے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کریں۔

۶- رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام جو خدا نے کیا ہے، انسان اس میں اپنے مصنوعی طریقوں سے خلل نہ ڈالے ۔خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔

۷- معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزایش نہ روکیں، جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا نتظام خدا نے کیا ہے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا۔

۸- خواہشِ نفس کو پورا کرنے کے لیے زنا کا راستہ برا راستہ ہے۔ لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔

۹- انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے۔ لہٰذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان دے ، نہ دوسرے کی جان لے۔

۱۰- یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے جب تک وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں۔ ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔

۱۱- عہدوپیمان کو پورا کیا جائے ۔ انسان اپنے معاہدات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

۱۲- تجارتی معاملات میں ناپ تول ٹھیک ٹھیک راستی پر ہونا چاہیے۔ اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں۔

۱۳- جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو۔ وہم اور گمان پر نہ چلو کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انھیں کس طرح استعمال کیا۔

۱۴- نخوت اور تکبر کے ساتھ نہ چلو۔ غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو،نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔

یہ چودہ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے تھے، ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی بلکہ یہ وہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آیندہ سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی ۔ لہٰذا یہ گویا ایک مینی فسٹو تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا کا پیغمبر ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں یہ۱۴نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض کی تا کہ جو لوگ اس پروگرام کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا حاکمِ اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے.

امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا کمال


امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا کمال : جدید زمانہ کے قوانین  بڑی حد تک حنفی فقہ کا چربہ ہے۔

قانون اسلامی کے تین شعبے ہیں :
1۔ اعتقادی قانون جو علی الاطلاق تمام مسلمانوں سے تعلق ہے ۔
2۔ دستوری قانون جس کا تعلق صرف سلطنت اسلامی سے ہے ۔
3۔ بین الاقوامی قانون یا صحیح الفاظ میں تعلقات خارجیہ کا قانون جو مسلمانوں اور غیر قوموں کے تعلقات سے بحث کر تا ہے ۔
ہماری کتب فقہیہ میں ان قوانین کو الگ الگ مرتب نہیں کیا گیا اور نہ ان کو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے لیکن قرآن وحدیث میں ایسے واضح اشارات موجود ہیں جس سے قدرتی طور اسلامی قوانین کا ارتقاء  تین الگ الگ راستوں پر ہوا ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ جس فقیہ اعظم کی قانونی بصیرت  اور فقیہانہ دقیقہ سنجی نے سب سے بڑھ کر ان اشارات کو سمجھا اور ان کی بنا پر قانون کے ان تینوں شعبوں کو حدود میں ٹھیک ٹھیک امتیاز کیا اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل میں اس امتیاز کو ملحوظ رکھا و ہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی ہیں ۔ فقہائے اسلام میں کوئی بھی ان کا ہمسر نظرنہیں  آتا ۔ حتی کہ امام ابو یوسف جیسے بالغ النظر فقیہ کی رسائی بھی اس مقام تک نہ ہو سکی ۔ امام اعظم کے کمال کا ایک ادنی ثبوت  یہ ہے کہ 12سوسال پہلے انہوں نے قرآن و سنت سے استنباط کر کے دستوری اور بین الاقوامی قوانین  کے جو احکام مدون کیے تھے آج تک دنیا  کے قانونی افکار کا ارتقاء ان سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا ہے ، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ دراصل یہ ارتقاء ہواہی ان خطوط پر ہے جو 12صدی قبل کوفہ کے ایک پارچہ فروش نے کھینچ دیئے تھے ۔ فقہ حنفی کی بہ نسبت جدید زمانہ کے قوانین  میں بظاہر جو ترقی نظر آتی ہے وہ کسی حد تک تمدنی احوال کے تغیر کا اور زیادہ تر بین الاقوامی معاہدات کا نتیجہ ہے تاہم اصولی حیثیت سے جدید زمانہ کے قوانین  بڑی حد تک حنفی فقہ کا چربہ ہے اور ان کے مطالعہ سے حنفی فقہ کو سمجھنے میں بڑی آسانی  ہو تی ہے ۔

(سود، سید ابوالاعلی مودودی ؒ ص 401)

اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف، سید ابوالاعلی مودود ی ؒ

اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف

 سید ابوالاعلی مودود ی ؒ 

اجتہاد کا مقصد چونکہ خدائی قانون کو انسانی قانون سے بدلنا نہیں بلکہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی رہنمائی میں اسلام کے قانونی نظام کو زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ متحرک کرنا ہے۔ اس لیے کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں:
۱- شریعت الٰہی پر ایمان، اس کے برحق ہونے کا یقین، اس کے اِتباع کا مخلصانہ ارادہ، اس سے آزادہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اور مقاصد، اصول اور اقدار کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجاے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔
۲-  عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت، کیوں کہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا ہے اور سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع بھی اسی زبان میں ہیں۔
۳- قرآن اور سنت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو، بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔ اس کو ایک طرف یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے شریعت کی مجموعی اسکیم کیا ہے اور دوسری طرف یہ جاننا چاہیے کہ شریعت اس کی تشکیل کن خطوط پر کرنا چاہتی ہے اور اس تشکیل میں اس کے پیش نظر کیا مصالح ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اجتہاد کے لیے قرآن و سنت کا وہ علم درکار ہے جو مغز شریعت تک پہنچتا ہو۔
۴-  پچھلے مجتہدین اُمت کے کام سے واقفیت، جس کی ضرورت صرف اجتہاد کی تربیت ہی کے لیے نہیں ہے، بلکہ قانونی ارتقا کے تسلسل کے لیے بھی ہے۔ اجتہاد کا مقصد بہرحال یہ نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے کہ ہرنسل پچھلی نسلوں کی چھوڑی ہوئی تعمیرکو ڈھاکر یا متروک قرار دے کر نئے سرے سے تعمیر شروع کرے۔
۵- عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت، کیوں کہ انھی پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا مطلوب ہے۔
۶- اسلامی معیارِ اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار، کیوں کہ اس کے بغیر کسی اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہوسکتا اور نہ اُس قانون کے لیے عوام میں کوئی جذبۂ احترام پیدا ہوسکتا ہے، جو غیرصالح لوگوں کے اجتہاد سے بنا ہو۔
اس کے بغیر جو قانون سازی کی جائے گی، وہ نہ اسلامی قانون کے نظام میں جذب ہوسکے گی اور نہ مسلم سوسائٹی اس کو ایک خوش گوار غذا کی طرح ہضم کرسکے گی۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ،ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۴، جنوری ۱۹۵۸ء)


دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔
اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔
ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں:
(الف) مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔
(ب) اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔
(ج) یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے___ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ  اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ [پروفیسر عبدالحمید صدیقی]، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)


(بشکریہ ، ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، جنوری  2018ء)
آن لائن حوالہ : http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/1159

مقدمۂ تفہیم القرآن، سید ابوالاعلی مودودی ؒ

ان گزارشوں کے عنوان میں لفظ”مقدمہ“ دیکھ کر کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ میں قرآن کا مقدمہ لکھ رہا ہوں۔ یہ قرآن کا نہیں تفہیمُ القرآن کا مقدمہ ہے، اور اس کے لکھنے سے میرے پیشِ نظر دو مقصد ہیں: اوّل یہ کہ قرآن کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے ایک عام ناظر اُن باتوں سے اچھی طرح واقف ہو جائے جن کو ابتدا ہی میں سمجھ لینے سے فہمِ قرآن کی راہ آسان ہو جاتی ہے، ورنہ یہ باتیں دورانِ مطالعہ میں بار بار کھٹکتی ہیں اور بسا اوقات محض اِن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آدمی برسوں تک معانیء قرآن کی سطح ہی پر گھُومتا رہتا ہے، گہرائی میں اُترنے کا راستہ اُسے نہیں ملتا۔ دوم یہ کہ اُن سوالات کا جواب پہلے ہی دے دیا جائے جو قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرتے وقت بالعمُوم لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ میں اس مقدمہ میں صرف اُن سوالات کا جواب دُوں گا جو خود میرے ذہن میں اوّل اوّل پیدا ہوئے تھے، یا جن سے بعد میں مجھ کو سابقہ پیش آیا۔ ان کے علاوہ اگر کچھ اور سوالات بھی جواب طلب باقی رہ گئے تو ان سے مجھے آگاہ کیا جائے۔ اُن کا جواب اِن شاءاللہ آئندہ اشاعت کے موقع پر اس مقدمہ میں بڑھا دیا جائے گا۔
_____________________________
عام طور پر ہم جن کتابوں کے پڑھنے کے عادی ہیں، ان میں ایک متعین موضوع پر معلومات ، خیالات اور دلائل کو ایک خاص تصنیفی ترتیب کے ساتھ مسلسل بیان کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر جب ایک ایسا شخص جو قرآن سے ابھی تک اجنبی رہا ہے ، پہلی مرتبہ اس کتاب کے مطالعے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ یہ توقع لیے ہوئے آگے بڑھتا ہے کہ ”کتاب“ ہونے کی حیثیت سے اس میں بھی عام کتابوں کی طرح پہلے موضوع کا تعیّن ہوگا، پھر اصل مضمون کو ابواب اور فصول میں تقسیم کر کے ترتیب وار ایک ایک مسئلے پر بحث کی جائے گی، اور اسی طرح زندگی کے ایک ایک شعبے کو بھی الگ الگ لے کر اس کے متعلق احکام و ہدایات سلسلہ وار درج ہوں گی۔ لیکن جب وہ کتاب کھول کر مطالعہ شروع کرتا ہے تو یہاں اسے اپنی توقع کے بالکل خلاف ایک دُوسرے ہی اندازِ بیان سے سابقہ پیش آتا ہے جس سے وہ اب تک بالکل نا آشنا تھا۔ یہاں وہ دیکھتا ہے کہ کہ اعتقادی مسائل، اخلاقی ہدایات، شرعی احکام، دعوت، نصیحت، عبرت،تنقید،ملامت،تَخْوِیْف، بِشارت، تسلّی،دلائل، شواھد، تاریکی قصّے، آثارِ کائنات کی طرف اشارے، بار بار ایک دُوسرے کے بعد آرہے ہیں۔ ایک ہی مضمون مختلف طریقوں سے مختلف الفاظ میں دُہرایا جارہاہے۔ ایک مضمون کے بعد دُوسرا اور دُوسرے کے بعد تیسرا اچانک شروع ہو جاتا ہے، بلکہ ایک مضمون کے بیچ میں دوسرا مضمون یکایک آجاتا ہے۔ مخاطَب اور مُتَکَلِّم بار بار بدلتے ہیں اور خطاب کا رُخ رہ رہ کر مختلف سمتوں میں پھرتا ہے۔ بابوں اور فصلوں کی تقسیم کا کہیں نشان نہیں۔ تاریخ ہے تو تاریخ نگاری کے انداز میں نہیں۔ فلسفہ و مابعد الطِّبیعیّات ہیں تو منطق و فلسفہ کی زبان میں نہیں۔ انسان اور موجوداتِ عالم کا ذکر ہے تو عُلُمِ طبیعی کے طریقے پر نہیں۔ تمدّن و سیاست اور معیشت ومعاشرت کی گفتگو ہے تو عُلُومِ عمران کے طرز پر نہیں۔ قانونی احکام اور اُصُولِ قانون کا بیان ہے تو مقنّنوں کے ڈھنگ سے بالکل مختلف ۔ اخلاق کی تعلیم ہے تو فلسفہء اخلاق کے سارے لٹریچر سے اس کا انداز جدا۔ یہ سب کچھ اپنے سابق کتابی تصوّر کے خلاف پا کر آدمی پریشان ہو جاتا ہے اور اُسے یوں محسُوس ہونے لگتا ہے کہ یہ ایک غیر مُرتّب، غیر مَرْ بُوط، مُنتشر کلام ہے جو اوّل سے لے کر آخر تک بے شمار چھوٹے بڑے مختلف شذرات پر مشتمل ہے،مگر مسلسل عبارت کی شکل میں لکھ دیا گیا ہے۔مخالفانہ نقطہء نظر سے دیکھنے والا اسی پر طرح طرح کے اعتراضات کی بنا پر رکھ دیتا ہے۔ اور موافقانہ نقطہء نظر رکھنے والا کبھی معنی کی طرف سے آنکھیں بند کر کے شکوک سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی اس ظاہری بے ترتیبی کی تاویلیں کر کے اپنے دل کو سمجھا لیتا ہے، کبھی مصنوعی طریقے سے ربط تلاش کر کے عجیب عجیب نتائج نکالتا ہے ، اور کبھی”نظریہء شذرات“ کو قبول کر لیتا ہے جس کی وجہ سے ہر آیت اپنے سیاق و سباق سے الگ ہو کر ایسی معنی آفرینیوں کی آماج گاہ بن جاتی ہے جو قائل کے منشاء کے خلاف ہوتی ہیں۔
_______________________________
پھر ایک کتاب کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پڑھنے والے کو اس کا موضوع معلوم ہو ، اس کے مقصد و مدّعا اور اس کے مرکزی مضمُون کا علم ہو، اس کے اندازِ بیان سے واقفیت ہو، اس کی اصطلاحی زبان اور اس کے مخصُوص طرزِ تعبیر سے شناسائی ہو، اور اس کے بیانات اپنی ظاہری عبارت کے پیچھے جن احوال و معاملات سے تعلق رکھتے ہوں و ہ بھی نظر کے سامنے رہیں۔ عام طور پر جو کتابیں ہم پڑھتے ہیں ان میں یہ چیزیں بآسانی مل جاتی ہیں ، اس لیے ان کے مضامین کی تہ تک پہنچنے میں ہمیں کوئی بڑی زحمت نہیں ہوتی۔ مگر قرآن میں یہ اُس طرح نہیں مِلتیں جس طرح ہم دُوسری کتابوں میں انہیں پانے کے عادی رہے ہیں۔ اس لیے ایک عام کتاب خواں کی سی ذہنیّت لے کر جب ہم میں کا کوئی شخص قرآن کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو اسے کتاب کے موضوع ، مدّعا اور مرکزی مضمُون کا سُراغ نہیں ملتا، اس کا اندازِ بیان اور طرزِ تعبیر بھی اُسے کچھ اجنبی سا محسُوس ہوتا ہے، اور اکثر مقامات پر اس کی عبارات کا پس منظر بھی اُس کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ متفرق آیات میں حکمت کے جو موتی بکھرے ہوئے ہیں ان میں کم و بیش مستفید ہونے کے باوجود آدمی کلام اللہ کی اصلی رُوح تک پہنچنے سے محرُوم رہ جاتا ہے اور علمئ کتاب حاصل کرنے کے بجائے اس کو کتاب کے محض چند منتشر نِکات و فوائد پر قناعت کر لینی پڑتی ہے۔ بلکہ اکثر لوگ جو قرآن کا مطالعہ کر کے شُبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کے بھٹکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فہم کتاب کے ان ضروری مبادی سے ناواقف رہتے ہوئے جب وہ قرآن کو پڑھتے ہیں تو اس کے صفحات پر مختلف مضامین انہیں بِکھرے ہوئے نظر آتے ہیں، بکثرت آیات کا مطلب اُن پر نہیں کھُلتا، بہت سی آیات کو دیکھتے ہیں کہ بجائے خود نورِ حکمت سے جگمگا رہی ہیں مگر سیاقِ عبارت میں بالکل بے جوڑ محسُوس ہوتی ہیں، متعدّد مقامات پر تعبیرات اور اسلوبِ بیان کی ناواقفیت انہیں اصل مطلب سے ہٹا کر کسی اور ہی طرف لے جاتی ہے، اور اکثر مواقع پر پس منظر کا صحیح علم نہ ہونے سے شدید غلط فہمیاں پیش آتی ہیں۔
______________________________
قرآن کِس قسم کی کتاب ہے؟ اِس کے نُزوُل کی کیفیت اور اس کی ترتیب کی نوعیت کیا ہے؟ اس کا موضوعِ گفتگو کیا ہے؟ اس کی ساری بحث کس مُدّعا کے لیے ہے؟ کس مرکزی مضمون کے ساتھ اس کے پہ بے شمار مختلف النّوع مضامین وابستہ ہیں؟ کیا طرزِ استدلال اور کیا طرزِ بیان اس نے اپنے مُدّعا کے لیے اختیار کیا ہے؟ یہ اور ایسے ہی دُوسرے چند ضروری سوالات ہیں جن کا جواب صاف اور سیدھے طریقے سے اگر آدمی کو ابتدا ہی میں مِل جائے تو وہ بہت سے خطرات سے بچ سکتا ہے اور اس کے لیے فہم و تدبّر کی راہیں کشادہ ہو سکتی ہیں۔ جو شخص قرآن میں تصنیفی ترتیب تلاش کرتا ہے اور وہاں اسے نہ پاکر کتاب کے صفحات میں بھٹکنے لگتا ہے ، اُس کی پریشانی کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ مطالعہء قرآن کے ان مبادی سے ناواقف ہوتا ہے۔ وہ اس گمان کے ساتھ مطالعہ شروع کرتا ہے کہ وہ”مذہب کے موضوع پر ایک کتاب“پڑھنے چلا ہے۔”مذہب کا موضوع“ اور ”کتاب“، ان دونوں کا تصوّر اس کے ذہن میں وہی ہوتا ہے جو بالعمُوم ”مذہب“ اور ”کتاب“ کے متعلق ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔ مگر جب وہاں اُسے اپنے ذہنی تصوّر سے بالکل ہی مختلف ایک چیز سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے مانوس نہیں کر سکتا اور سر رشتہ ء مضمون ہاتھ نہ آنے کے باعث بین السّطوریوں میں بھٹکنا شروع کر دیتا ہے جیسے وہ ایک اجنبی مسافر ہے جو کسی نئے شہر کی گلیوں میں کھو گیا ہے۔ اس گم گشتگی سے وہ بچ جائے اگر اسے پہلے ہی یہ بتا دیا جائے کہ تم جس کتاب کو پڑھنے جا رہے ہو وہ تمام دنیا کے لٹریچر میں اپنے طرز کی ایک ہی کتاب ہے ، اس کی ”تصنیف“ دُنیا کی ساری کتابوں سے بالکل مختلف طور پر ہوئی ہے، اپنے موضوع اور مضمون اور ترتیب کے لحاظ سے بھی وہ ایک نرالی چیز ہے، لہٰذا تمہارے ذہن کا وہ ”کتابی “سانچہ جو اب تک کی کُتب بینی سے بنا ہے، اس کتاب کے سمجھنے میں تمہاری مدد نہ کرے گا بلکہ اُلٹا مزاحم ہوگا۔ اسے سمجھنا چاہتے ہو تو اپنے پہلے سے قائم کیے ہوئے قیاسات کو ذہن سے نکال کر اس کی عجیب خصُوصیات سے شناسائی حاصل کرو۔
________________________________
اس سلسلے میں سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہو جانا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے یا نہ لائے، مگر اس کتاب کو سمجھنے کے لیے اسے نقطہء آغاز کے طور پر اس کی وہی اصل قبول کرنی ہوگی جو خود اس نے اور اس کے پیش کرنے والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان کی ہے۔ اور وہ یہ ہے: ۱۔ خدا وندِ عالم نے ، جو ساری کائنات کا خالق اور مالک اور فرمانروا ہے، اپنی بے پایاں مملکت کے اِس حصّے میں ، جسے زمین کہتے ہیں، انسان کو پیدا کیا۔ اُسے جاننے اور سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں دیں۔ بَھلائی اور بُرائی کی تمیز دی۔ انتخاب اور ارادے کی آزادی عطا کی۔ تصرّف کے اختیارات بخشے۔ اور فی الجُملہ ایک طرح کی خود اختیاری ( ) دے کر اسے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا۔ ۲۔ اس منصب پر انسان کو مقرر کرتے وقت خداوندِ عالم نے اچھی طرح اس کے کان کھول کر یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی تھی کہ تمہارا اور تمام جہان کا مالک ، معبُود اور حاکم میں ہوں۔ میری اس سلطنت میں نہ تم خود مختار ہو، نہ کسی دُوسرے کے بندے ہو، اور نہ میرے سوا کوئی تمہاری اطاعت و بندگی اور پرستش کا مستحق ہے۔ دنیا کی زندگی جس میں تمہیں اختیارات دے کر بھیجا جا رہا ہے دراصل تمہارے لیے ایک امتحان کی مدّت ہے جس کے بعد تمہیں میرے پاس واپس آنا ہوگا اور میں تمہارے کام کی جانچ کر کے فیصلہ کر وں گا کہ تم میں سے کون امتحان میں کامیاب رہا ہے اور کون ناکام۔ تمہارے لیے صحیح رویّہ یہ ہے کہ مجھے اپنا واحد معبُود اور حاکم تسلیم کرو۔ جو ہدایت میں بھیجوں اس کے مطابق دنیا میں کام رو، اور دنیا کو دارالامتحان سمجھتے ہوئے اس شعور کے ساتھ زندگی بسر کرو کہ تمہارا اصل مقصد میرے آخری فیصلے میں کامیاب ہونا ہے۔ اس کے برعکس تمہارے لیے ہر وہ رویّہ غلط ہے جو اس سے مختلف ہو۔ اگر پہلا رویّہ اختیار کرو گے ( جسے اختیار کرنے کے لیے تم آزاد ہو) تو تمہیں دنیا میں اطمینان حاصل ہوگا اور جب میرے پاس پلٹ کر آ ؤ گے تو میں تمہیں ابدی راحت و مسرّت کو وہ گھر دُوں گا جس کا نام جنّت ہے۔ اور اگر دُوسرے کسی رویّہ پر چلو گے ( جس پر چلنے کے لیے بھی تم کو آزادی ہے) تو دُنیا میں تم کو فساد اور بے چینی کا مزا چکھنا ہو گا اور دنیا سے گزر کر عالمِ آخرت میں جب آ ؤ گے تو ابدی رنج و مصیبت کے اُس گڑھے میں پھینک دیے جا ؤ گے جس کا نام دوزخ ہے۔ ۳۔ یہ فہمائش کر کے مالکِ کائنات نے نوعِ انسانی کو زمین میں جگہ دی اور اس نوع کے اوّلین افراد (آدم اور حوّا) کو وہ ہدایت بھی دے دی جس کے مطابق انہیں اور ان کی اولاد کو زمین میں کام کرنا تھا۔ یہ اوّلین انسان جہالت اور تاریکی کی حالت میں پیدا نہیں ہوئے تحے بلکہ خدا نے زمین پر ان کی زندگی کا آغاز پُوری روشنی میں کیا تھا۔ وہ حقیقت سے واقف تھے۔ انہیں ان کا قانونِ حیات بتا دیا گیا تھا۔ اُن کا طریقِ زندگی خدا کی اطاعت( یعنی اسلام ) تھا، اور وہ اپنی اولاد کو یہی بات سکھا کر گئے کہ وہ مطیعِ خدا (مُسلم) بن کر رہیں۔ لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ انسان اس صحیح طریقِ زندگی (دین) سے منحرف ہو کر مختلف قسم کے غلط رویّوں کی طرف چل پڑے۔ انہوں نے غفلت سے اس کو گم بھی کیا اور شرارت سے اس کو مَسْخ بھی کر ڈالا۔ انہوں نے خدا کے ساتھ زمین و آسمان کی مختلف انسانی اور غیر انسانی ، خیالی اور مادّی ہستیوں کو خدائی میں شرید ٹھہرا لیا۔ اُنہوں نے خدا کے دیے ہوئے علم ِ حقیقت (العلم) میں طرح طرح کے اوہام اور نظریوں اور فلسفوں کی آمیزش کر کے بے شمار مذاہب پیدا کر لیے۔ انہوں نے خدا کے مقرر کیے ہوئے عادلانہ اُصُولِ اخلاق و تمدّن (شریعت) کو چھوڑ کر یا بگاڑ کر اپنی خواہشاتِ نفس اور اپنے تعصّبات کے مطابق ایسے قوانین ِ زندگی گھڑ لیے جن سے خدا کی زمین ظلم سے بھر گئی۔ ۴۔ خدا نے جو محدُود خود اختیاری انسا ن کو دی تھی اس کے ساتھ یہ بات مطابقت نہ رکھتی تھی کہ وہ اپنی تخلیقی مداخلت سے کام لے کر ان بگڑے ہوئے انسانوں کو زبردستی صحیح رویّہ کی طرف موڑ دیتا۔ اور اس نے دنیا میں کام کرنے کے لیے جو مہلت اس نوع کے لیے اور اس کی مختلف قوموں کے لیے مقرر کی تھی اس کے ساتھ یہ بات بھی مطابقت نہ رکھتی تھی کہ اس بغاوت کے رُونما ہوتے ہی وہ انسانوں کو ہلاک کر دیتا۔ پھر جو کام ابتدائے آفرینش سے اُس نے اپنے ذمّہ لیا تھا وہ یہ تھا کہ انسان کی خوداختیاری کو برقرار رکھتے ہوئے اُس کی مہلتِ عمل کے دوران میں، اُس کی رہنمائی کا انتظام وہ کرتا رہے گا۔ چنانچہ اپنی اِس خود عائد کردہ ذمّہ داری کو ادا کرنے کے لیے اس نے انسانوں ہی میں سے ایسے آدمیوں کو استعمال کرنا شروع کیا جو اُس پر ایمان رکھنے والے اور اس کی رضا کی پیروی کرنے والے تھے۔ اس نے ان کو اپنا نمائندہ بنایا۔ اپنے پیغامات ان کے پاس بھیجے۔ ان کو علمِ حقیقت بخشا۔ انہیں صحیح قانونِ حیات عطا کیا۔ اور انہیں اس کام پر مامور کیا کہ بنی آدم کو اُسی راہِ راست کی طرف پلٹنے کی دعوت دیں جس سے وہ ہٹ گئے تھے۔ ۵۔ یہ پیغمبر مختلف قوموں اور مُلکوں میں اُٹھتے رہے۔ ہزار ہا برس تک ان کی آمد کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہزار ہا کی تعداد میں وہ مبعوث ہوئے۔ اُن سب کا ایک ہی دین تھا ، یعنی وہ صحیح رویّہ جو اوّل روز ہی انسان کو بتا دیا گیا تھا۔ وہ سب ایک ہی ہدایت کے پیرو تحے، یعنی اخلاق و تمدّن کے وہ اَزَلی و اَبَدی اُصُول جو آغاز ہی میں انسان کے لیے تجویز کر دیے گئے تھے۔ اور اُن سب کا ایک ہی مِشن تھا، یعنی یہ کہ اِس دین اور اِس ہدایت کی طرف اپنے ابنائے نعو کو دعوت دیں، پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں ان کو منظم کر کے ایک ایسی اُمّت بنائیں جو خود اللہ کے قانون کی پابند ہو اور دنیا میں قانونِ الہٰی کی اطاعت قائم کر نے اور اِس قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے جدّوجہد کرے۔ ان پیغمبروں نے اپنے اپنے دور میں اپنے اِس مشن کو پُوری خوبی کے ساتھ ادا کیا، مگر ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ انسانوں کی ایک کثیر تعداد تو ان کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوئی اور جنہوں نے اُسے قبول کر کے اُمّتِ مُسْلِمہ کی حیثیت اختیار کی و ہ رفتہ رفتہ خود بگڑتے چلے گئے حتّٰی کہ ان میں سے بعض اُمتیں ہدایتِ الہٰی کو بالکل ہی گم کر بیٹھیں ، اور بعض نے خدا کے ارشادات کو اپنی تحریفات اور آمیزشوں سے مَسْخ کر دیا۔ ۶۔ آخر کا ر خداوندِ عالم نے سرزمینِ عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسی کام کے لیے مبعوث کیا جس کے لیے پچھلے انبیاء آتے رہے تھے۔ اُن کے مخاطب عام انسان بھی تھے اور پچھلے انبیاء کے بگڑے ہوئے پیرو بھی۔ سب کو صحیح رویّہ کی طرف دعوت دینا، سب کو ازسرِ نو خدا کی ہدایت پہنچا دینا اور جو اس دعوت و ہدایت کو قبول کر یں اُنہیں ایک ایسی اُمّت بنا دینا اُن کا کام تھا جو ایک طرف خود اپنی زندگی کا نظام خدا کی ہدایت پر قائم کرے اور دُوسری طرف دنیا کی اصلاح کے لیے جدّوجہد کرے۔۔۔۔ اسی دعوت اور ہدایت کی کتاب یہ قرآن ہے جو اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔
________________________________
قرآن کی یہ اصل معلوم ہو جانے کے بعد ناظرین کے لیے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ اس کتاب کا موضوع کیا ہے، اس کا مرکزی مضمُون کیا ہے، اور اس کا مدّعا کیا ہے۔ اُس کا موضوع انسان ہے اِس اِعتبار سے کہ بلحاظِ حقیقت ِ نفس الامری اُس کی فلاح اور اُس کا خُسران کس چیز میں ہے۔ اُس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہر بینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب سے انسان نے خدا اور نظامِ کائنات اور اپنی دُنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں، اور اُن نظریات کی بنا پر جو رویّے اختیار کر لیے ہیں وہ سب حقیقت ِ نفسُ الامری کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کُن ہیں۔ حقیقت وہ ہے جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بتا دی تھی۔ اور اس حقیقت کے لحاظ سے انسان کے لیے وہی رویّہ درست اور خوش انجام ہے جسے پچھلے صفحات میں ہم ” صحیح رویّہ“ کے نام سے بیان کر چکے ہیں۔ اُس کا مدّعا انسان کو اُس صحیح رویّہ کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اُس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گُم اور اپنی شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ اِن تین بنیادی اُمور کو ذہن میں رکھ کر کوئی شخص قرآن کو دیکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ یہ کتاب کہیں اپنے موضوع اور اپنے مدّعا اور مرکزی مضمُون سے بال برابر بھی نہیں ہٹی ہے۔ اوّل سے لے کر آخر تک اس کے مختلف النّوع مضامین اس کے مرکزی مضمُون کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک ہار کے چھوٹے بڑے رنگ برنگ جواہر ہار کے رشتے میں مربوط و منسلک ہوتے ہیں۔ وہ زمین و آسمان کی ساخت پر ، انسان کی خلقت پر، آثارِ کائنات کے مشاہدات اور گزری ہوئی قوموں کے واقعات پر گفتگو کرتا ہے، مختلف قوموں کے عقائد و اخلاق اور اعمال پر تنقید کرتا ہے، مابعد الطّبیْعی امور و مسائل کی تشریح کرتا ہے، اور بہت سی دُوسری چیزوں کا ذکر بھی کرتا ہے، مگراس لیے نہیں کہ اسے طبیعیات یا تاریخ یا فلسفے یا کسی اور فن کی تعلیم دینی ہے ، بلکہ اس لیے کہ اسے حقیقتِ نفس الامری کے متعلق انسان کی غلط فہمیاں دُور کرنی ہیں، اصل حقیقت لوگوں کے ذہن نشین کرنی ہے، خلافِ حقیقت رویّہ کی غلطی و بد انجامی واضح کرنی ہے، اور اُس رویّہ کی طرف دعوت دینی ہے جو مطابقِ حقیقت اور خوش انجام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر چیز کا ذکر صرف اُس حد تک اوار اُس انداز میں کرتا ہے جو اس کے مدّعا کے لیے ضروری ہے، ہمیشہ ان چیزوں کا ذکر بقدرِ ضرورت کرنے کے بعد غیر متعلق تفصیلات کو چھوڑ کر اپنے مقصد اور مرکزی مضمُون کی طرف رجوع کرتا ہے، اور اس کا سارا بیان انتہائی یکسانی کے ساتھ”دعوت“ کے محور پر گھومتا رہتا ہے۔
________________________
مگر قرآن کے طرزِ بیان اور اس کی ترتیب اور اس کے بہت سے مضامین کو آدمی اُس وقت تک اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ اِس کی کیفیت ِ نزول کو بھی اچھی طرح نہ سمجھ لے۔ یہ قرآن اس نوعیّت کی کتاب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اِسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اِسے شائع کر کے لوگوں کو ایک خاص رویّہ کی طرف بُلائیں ۔ نیز یہ اس نوعیّت کی کتاب بھی نہیں ہے کہ اس میں مصنّفانہ انداز پر کتاب کے موضوع اور مرکزی مضمُون کے متعلق بحث کی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں نہ تصنیفی ترتیب پائی جاتی ہے اور نہ کتابی اُسْلُوب۔ دراصل اِس کی نوعیّت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے شہرِ مکّہ میں اپنے ایک بندے کو پیغمبری کی خدمت کے لیے منتخب کیا اور اُسے حکم دیا کہ اپنے شہر اور اپنے قبیلہ(قریش) سے دعوت کی ابتدا کرے۔ یہ کام شروع کرنے کے لیے آغاز میں جن ہدایات کی ضرورت تھی صرف وہی دی گئیں اور وہ زیادہ تر تین مضمونوں پر مشتمل تھیں: ایک ، پیغمبر کو اس امر کی تعلیم کہ وہ خود اپنے آپ کو اس عظیم الشان کام کے لیے کس طرح تیار کریں اور کِس طرز پر کام کریں۔ دوسرے، حقیقت ِ نفس الامری کے متعلق ابتدائی معلومات اور حقیقت کے بارے میں اُن غلط فہمیوں کی مجمل تردید جو گرد و پیش کے لوگوں میں پائی جاتی تھیں، جن کی وجہ سے اُن کا رویّہ غلط ہو رہا تھا۔ تیسرے، صحیح رویّہ کی طرف دعوت اور ہدایت ِ الہٰی کے اُن بُنیادی اُصُولِ اخلاق کا بیان جن کی پیروی میں انسان کے لیے فلاح و سعادت ہے۔ شروع شروع کے یہ پیغامات ابتدائے دعوت کی مناسبت سے چند چھوٹے چھوٹے مختصر بولوں پر مشتمل ہوتے تھے جن کی زبان نہایت شستہ، نہایت شیریں، نہایت پُر اثر اور مخاطب قوم کے مذاق کے مطابق بہترین ادبی رنگ لیے ہوئے ہوتی تھی تاکہ دلوں میں یہ بول تیر و نشتر کی طرح پیوست ہو جائیں، کان خود بخود ان کے ترنُّم کی وجہ سے ان کی طرف متوجّہ ہوں، اور زبانیں ان کے حُسنِ تناسب کی وجہ سے بے اختیار ہو کر اُنہیں دُہرانے لگیں۔ پھر ان میں مقامی رنگ بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ بیان تو کی جارہی تھیں عالمگیر صداقتیں مگر ان کے لیے دلائل و شواہد اور مثالیں اُس قریب ترین ماحول سے لی گئی تھیں جس سے مخاطب لوگ اچھی طرح مانوس تھے۔ اُنہی کی تاریخ، انہی کی روایات، انہی کے روز مرّہ مشاہدہ میں آنے والے آثار اور انہی کی اعتقادی و اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں پر ساری گُفتگو تھی تاکہ وہ اس سے اثر لے سکیں۔ دعوت کا یہ ابتدائی مرحلہ تقریباً چار پانچ سال تک جاری رہا ، اور اس مرحلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا ردِّ عمل تین صُورتوں میں ظاہر ہوا: (۱) چند صالح آدمی اس دعوت کو قبول کر کے اُمّتِ مسلمہ بننے کے لیے تیار ہو گئے۔ (۲) ایک کثیر تعداد جہالت یا خود غرضی یا آبائی طریقے کی محبّت کے سبب سے مخالفت پر آمادہ ہو گئی۔ (۳) مَکّے اور قریش کی حُدُود سے نِکل کر اس نئی دعوت کی آواز نسبتا زیادہ وسیع حلقے میں پہنچنے لگی۔
______________________________
یہاں سے اس دعوت کا دُوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں اسلام کی اِس تحریک اور پُرانی جاہلیت کے درمیان ایک سخت جاں گُسل کشمکش برپا ہوئی جس کا سلسلہ آٹھ نو سال تک چلتا رہا۔ نہ صرف مکّے میں، نہ صرف قبیلہء قریش میں ، بلکہ عرب کے بیشتر حِصّوں میں بھی جو لوگ پُرانی جاہلیّت کو برقرار رکھنا چاہتے تھے وہ اس تحریک کو بزور مٹا دینے پر تُل گئے۔ اُنہوں نے اسے دبانے کے لیے سارے حربے استعمال کر ڈالے۔ جھُوٹا پروپیگنڈا کیا، الزامات اور شُبہات اور اعتراضات کی بُوچھاڑ کی، عوام الناس کے دلوں میں طرح طرح کی وسوسہ اندازیاں کیں، ناواقف لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سُننے سے روکنے کی کوششیں کیں، اِسلام قبول کرنے والوں پر نہایت وحشیانہ ظلم و ستم ڈھائے، ان کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کیا، اور ان کو اتنا تنگ کیا کہ ان میں سے بہت سے لوگ دو دفعہ اپنے گھر چھوڑ کر حبش کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہوئے اور بالآخر تیسری مرتبہ ان سب کو مدینےکی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ لیکن اس شدید اور زوز افزوں مزاحمت کے با وجود یہ تحریک پھیلتی چلی گئی۔ مکّے میں کوئی خاندان اور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس کے کسی نہ کسی فرد نے اِسلام قبول نہ کر لیا ہو۔ بیشتر مخالفینِ اسلام کی دُشمنی میں شِدّت اور تلخی کی وجہ یہی تھی کہ ان کے اپنے بھائی، بھتیجے، بیٹے، بیٹیاں، بہنیں اور بہنوئی دعوتِ اسلام کے نہ صرف پیرو بلکہ جاں نثار حامی ہوگئے تھے اور ان کے اپنے دل و جگر کے ٹکڑے ہی ان سے برسرِ پیکار ہونے کو تیار تھے۔ پھر لُطف یہ ہے کہ جو لوگ پُرانی جاہلیت سے ٹوٹ ٹوٹ کر اس نوخیز تحریک کی طرف آرہے تھے وہ پہلے بھی اپنی سوسائیٹی کے بہترین لوگ سمجھے جاتے تھے ، اور اس تحریک میں شامل ہونے کے بعد وہ اِتنے نیک، اتنے راستباز اور اتنے پاکیزہ اخلاق کے انسان بن جاتے تھے کہ دنیا اُس دعوت کی برتری محسُوس کیے بغیر نہیں سکتی تھی جو ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور انہیں یہ کچھ بنا رہی تھی۔ اس طویل اور شدید کشمکش کے دوران میں اللہ تعالیٰ حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت اپنے نبی پر ایسے پُرجوش خطبے نازل کرتا رہا جن میں دریا کی سی روانی، سیلاب کی سی قوت اور تیز و تند آگ کی سی تاثیر تھی۔ اُن خطبوں میں ایک طرف اہل ایمان کو اُن کے ابتدائی فرائض بتائے گئے، ان کے اندر جماعتی شعُور پیدا کیا گیا، انہیں تقویٰ اور فضیلتِ اخلاق اور پاکیزگی ء سیرت کی تعلیم دی گئی ، ان کو دینِ حق کی تبلیغ کے طریقے بتائے گئے ، کامیابی کے وعدوں اور جنّت کی بشارتوں سے ان کی ہمّت بندھائی گئی، انہیں صبر و ثبات اور بلند حوصلگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں جدّوجہد کرنے پر اُبھارا گیا اور فدا کاری کا ایسا زبر دست جوش اور ولولہ اُن میں پیدا کیا گیا کہ وہ ہر مصیبت جھیل جانے اور مخالفت کے بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ دُوسری طرف مخالفین اور راہِ راست سے منہ موڑنے والوں اور غفلت کی نیند سونے والوں کو اُن قوموں کے انجام سے ڈرایا گیا جن کی تاریخ سے وہ خود واقف تھے، اُن تباہ شدہ بستیوں کے آثار سے عبرت دلائی گئی جن کے کھنڈروں پر شب و روز اپنے سفروں میں اُن کا گزر ہوتا تھا ، توحید اور آخرت کی دلیلیں اُن کھلی کھلی نشانیوں سے دی گئیں جو رات دن زمین اور آسمان میں اُن کی آنکھوں کے سامنے نمایاں تھیں اور جن کو وہ خود اپنی زندگی میں بھی ہر وقت دیکھتے اور محسُوس کرتے تھے، شرک اور دعوائے خود مختاری اور انکارِ آخرت اور تقلیدِ آبائی کی غلطیاں ایسے بیّن دلائل سے واضح کی گئیں جو دل کو لگنے اور دماغ میں اُتر جانے والے تھے۔ پھر ان کے ایک ایک شبہ کو رفع کیا گیا، ایک ایک اعتراض کا معقول جواب دیا گیا، ایک ایک اُلجھن جس میں وہ خود پڑے ہوئے تھے یا دُوسروں کو اُلجھانے کی کوشش کرتے تھے، صاف کی گئی، اور ہر طرف سے گھیر کر جاہلیّت کو ایسا تنگ پکڑا گیا کہ عقل و خرد کی دُنیا میں اس کے لیے ٹھہرنے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی۔ اس کے ساتھ پھر اُن کو خدا کے غضب اور قیامت کی ہولناکیوں اور جہنّم کے عذاب کا خوف دلایا گیا، ان کے بُرے اخلاق اور غلط طرزِ زندگی اور جاہلانہ رسُوم اورحق دشمنی اور مومن آزاری پر انہیں ملامت کی گئی، اور اخلاق و تمدّن کے وہ بڑے بڑے بنیادی اُصول ان کے سامنے پیش کیے گئے جن پر ہمیشہ سے خدا کی پسندیدہ صالح تہذیبوں کی تعمیر ہوتی چلی آرہی ہے۔ یہ مرحلہ بجائے خود مختلف منزلوں پر مشتمل تھا جن میں سے ہر منزل میں دعوت زیادہ وسیع ہوتی گئی، جِدّوجہد اور مزاحمت زیادہ سخت ہوتی گئی، مختلف عقائد اور مختلف طرزِ عمل رکھنے والے گروہوں سے سابقہ پیش آتا گیا ، اور اسی کی مطابق اللہ کی طرف سے آنے والے پیغامات میں مضامین کا تَنَوُّع بڑھتا گیا۔۔۔۔ یہ ہے قرآن مجید کی مکّی سُورتوں کا پس منظر۔
_____________________________
مکّے میں اس تحریک کو اپنا کام کرتے ہوئے تیرہ سال گزر چکے تھے کہ یکایک مدینے میں اس کو ایک ایسا مرکز بہم پہنچ گیا جہاں اس کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ عرب کے تمام حصّوں سے اپنے پیرووں کو سمیٹ کر ایک جگہ اپنی طاقت مجتمع کر لے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اور بیشتر متّبعینِ اسلام ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے۔ اِس طرح یہ دعوت تیسرے مرحلے میں داخل ہوئی۔ اِس مرحلے میں حالات کا نقشہ بالکل بدل گیا۔ اُمّتِ مُسْلِمَہ ایک باقاعدہ ریاست کی بنا ڈالنے میں کامیاب ہو گئی۔ پُرانی جاہلیّت کے عَلم برداروں سے مُسَلَّح مقابلہ شروع ہوا ۔ پچھلے انبیاء کی اُمّتوں (یہود و نصاریٰ) سے بھی سابقہ پیش آیا۔ خود اُمّتِ مسلمہ کے اندرونی نظام میں مختلف قسم کے منافق گھُس آئے اور ان سے بھی نمٹنا پڑا۔ اور دس سال کی شدید کشمکش سے گزر کر آخرِ کار یہ تحریک کامیابی کی اس منزل پر پہنچی کہ سارا عرب اس کے زیرِ نگیں ہو گیا اور عالمگیر دعوت و اصلاح کے دروازے اس کے سامنے کھُل گئے۔ اِس مرحلے کی بھی مختلف منزلیں تھیں اور ہر منزل میں اِس تحریک کی مخصُوص ضرورتیں تھیں۔ اِن ضرورتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تقریریں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر نازل ہوتی رہیں جن کا انداز کبھی آتشیں خطابت کا، کبھی شاہانہ فرامین و احکام کا، کبھی مُعَلِّمانہ درس و تعلیم کا، اور کبھی مُصْلِحانہ افہام و تفہیم کا ہوتا تھا۔ ان میں بتایا گیا کہ جماعت اور ریاست اور مَد نیّتِ صالحہ کی تعمیر کس طرح کی جائے، زندگی کے مختلف شُعبوں کو کن اُصُول و ضوابط پر قائم کیا جائے ، مُنافقین سے کیا سلوک ہو، ذِمّی کافروں سے کیا برتا ؤ ہو، اہلِ کتاب سے تعلقات کی کیا نوعیت رہے، برسرِ جنگ دُشمنوں اور مُعَاہِد قوموں کے ساتھ کیا طرزِ عمل اختیار کیا جائے، اور مُنَظَّم اہلِ ایمان کا یہ گروہ دنیا میں خداوندِ عالم کی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو کس طرح تیار کرو۔ اِن تقریروں میں ایک طرف مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی تھی، ان کی کمزوریوں پر تنبیہ کی جاتی تھی ، ان کو راہِ رخدا میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُبھارا جاتا تھا، ان کو شکست اور فتح ، مصیبت اور راحت، بدحالی اور خوش حالی، امن اور خوف، غرض ہر حال میں اس کے مناسب اخلاقیات کا درس دیا جاتا تھا، اور انہیں اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد آپ کے جانشین بن کر اس دعوت و اصلاح کے کام کو انجام دے سکیں۔ دُوسری طرف اُن لوگوں کو جو دائرہ ایمان سے باہر تھے، اہلِ کتاب ، منافقین ، کُفّار و مُشْرِ کین ، سب کو ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے سمجھنانے ، نرمی سے دعوت دینے، سختی سے ملامت اور نصیحت کرنے، خدا کے عذاب سے ڈرانے اور سبق آموز واقعات و احوال سے عبرت دلانے کی کوشش کی جاتی تھی ، تاکہ ان پر حُجّت تمام کر دی جائے۔ یہ ہے قرآن مجید کی مَدنِی سُورتوں کا پس منظر۔
______________________________
اِس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید ایک دعوت کے ساتھ اُترنا شروع ہوا ، اور وہ دعوت اپنے آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تکمیل تک تئیس سال کی مدّت میں جن جن مرحلوں اور جن جن منزلوں سے گزرتی رہی، ان کی مختلف النَّوع ضرورتوں کے مطابق قرآن کے مختلف حصّے نازل ہوتے رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی کتاب میں وہ تصنیفی ترتیب نہیں ہو سکتی جو ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے لیے کسی مقالے میں اختیار کی جاتی ہے ۔ پھر اس دعوت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ قرآن کے جو چھوٹے اور بڑے حصّے نازل ہوئے وہ بھی رسالوں کی شکل میں شائع نہیں کیے جاتے تھے، بلکہ تقریروں کی شکل میں بیان کیے جاتے اور اسی شکل میں پھیلائے جاتے تھے، اس لیے ان کا اُسْلُوب بھی تحریری نہ تھا بلکہ خطابت کا اُسْلُوب تھا۔ پھر یہ خطابت بھی ایک پروفیسر کے لیکچروں کی سی نہیں بلکہ ایک داعی کے خطبوں کی سی تھی جسے دل اور دماغ، عقل اور جذبات ، ہر ایک سے اپیل کرنا ہوتا ہے، جس کو ہر قسم کی ذہنیتوں سے سابقہ پیش آتا ہے، جسے اپنی دعوت و تبلیغ اور عملی تحریک کے سلسلے میں بے شمار مختلف حالتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر ممکن پہلو سے اپنی بات دلوں میں بٹھانا، خیالات کی دُنیا بدلنا، جذبات کا سیلاب اُٹھانا، مخالفتوں کا زور توڑنا، ساتھیوں کی اصلاح و تربیت کرنا اور ان میں جوش اور عزم اُبھارنا، دشمنوں کو دوست، اور منکروں کو مُعترف بنایا، مخالفین کی حُجَّت مُنْقَطع کرنا اور ان کی اخلاقی طاقت کا اِسْتیصال کر دینا، غرض اُسے وہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے جو ایک دعوت کے عَلم بردار اور ایک تحریک کے رہنما کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے اللہ نے اس کام کے سلسلے میں اپنے پیغمبر پر جو تقریریں نازل فرمائیں اُن کا طرزِ خطابت وہی تھا جو ایک دعوت کے مناسبِ حال ہوتا ہے ، اُن میں کالج کے لیکچروں کا سا انداز تلاش کرنا صحیح نہیں ہے۔
______________________________
یہیں سے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ قرآن میں مضامین کی اس قدر تکرار کیوں ہے۔ ایک دعوت اور عملی تحریک کا فطری اقتضا یہ ہے کہ وہ جس وقت جس مرحلے میں ہو اس میں وہی باتیں کہی جائیں جو اُس مرحلے سے مناسبت رکھتی ہوں، اور جب تک دعوت ایک مرحلے میں رہے بعد کے مراحل کی بات نہ چھیڑی جائے بلکہ اُسی مرحلے کی باتوں کا اِعادہ کیا جاتا رہے، خواہ اس میں چند مہینے لگیں یا کئی سال صرف ہو جائیں۔ پھر اگر ایک ہی قسم کی باتوں کا اعادہ ک ایک ہی عبارت اور ایک ہی ڈھنگ پر کیا جاتا رہے تو کان انہیں سُنتے سُنتے تھک جاتے ہیں اور طبیعتیں اُکتانے لگتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مرحلے میں جو باتیں بار بار کہنی ہوں انہیں ہر بار نئے الفاظ، نئے اسلوب، اور نئی آن بان سے کہا جائے تاکہ نہایت خوش گوار طریقے سے وہ دلوں میں بیٹھ جائیں اور دعوت کی ایک ایک منزل اچھی طرح مستحکم ہوتی چلی جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دعوت کی بُنیاد جن عقائد اور اُصُولوں پر ہو اُنہیں پہلے قدم سے آخری منزل تک کسی وقت اور کسی حال میں نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کا اِعادہ بہرحال دعوت کے ہر مرحلے میں ہوتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے ایک مرحلے میں قرآن کی جتنی سُورتیں نازل ہوئی ہیں ان سب میں با لعمُوم ایک ہی قسم کے مضامین الفاظ اور اندازِ بیان بدل بدل کر آئے ہیں۔ مگر توحید اور صفاتِ الہٰی ، آخرت اور اس کی باز پُرس اور جزا و سزا، رسالت اور ایمان بالکتاب، تقویٰ اور صبر و توکّل اور اسی قِسم کے دُوسرے بُنیادی مضامین کی تکرار پُورے قرآن میں نظر آتی ہے کیونکہ اس تحریک کے کسی مرحلے میں بھی ان سے غفلت گوارا نہیں کی جاسکتی تھی۔ یہ بُنیادی تصوّرات اگر ذرا بھی کمزور ہو جاتے تو اسلام کی یہ تحریک اپنی صحیح رُوح کے ساتھ نہ چل سکتی۔
_______________________________
اگر غور کیا جائے تو اِسی بیان سے سوال بھی حال ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے قرآن کو اُسی ترتیب کے ساتھ کیوں نہ مرتّب کر دیا جس کے ساتھ وہ نازل ہوا تھا۔ اُوپر آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ تئیس سال تک قرآن کا نُز ُول اُس ترتیب سے ہوتا رہا جس ترتیب سے دعوت کا آغاز اور اس کا ارتقاء ہوا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ دعوت کی تکمیل کے بعد ان نازل شدہ اجزاء کے لیے وہ ترتیب کِسی طرح درست نہ ہو سکتی تھی جو صر ف ارتقاء دعوت ہی کے ساتھ مناسبت رکھتی تھی۔ اب تو اُن کے لیے ایک دُوسری ہی ترتیب درکار تھی جو تکمیلِ دعوت کے بعد کی صُورت ِ حال کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ کیونکہ ابتداء میں اُس کے مخاطبِ اوّل و ہ لوگ تھے جو اسلام سے نا آشنا ئے محض تھے، اس لیے اُس وقت بالکل نقطہء آغاز سے تعلیم و تلقین شروع کی گئی ۔ مگر تکمیلِ دعوت کے بعد اُس کے مخاطبِ اوّل وہ لوگ ہو گئے جو اس پر ایمان لا کر ایک اُمّت بن چکے تھے اور اُس کام کو جاری رکھنے کے ذمّہ دار قرار پائے تھے جسے پیغمبر نے نظریّے اور عمل، دونوں حیثیتوں سے مکمل کر کے ان کے حوالے کیا تھا۔ اب لامحالہ مُقَدَّم چیز یہ ہوگئی کہ پہلے یہ لوگ خود اپنے فرائض سے ، اپنے قوانینِ حیات سے ، اور اُن فتنوں سے جو پچھلے پیغمبروں کی اُمّتوں میں رُونما ہو تے رہے ہیں، اچھی طرح واقف ہو لیں، پھر اسلام سے بیگانہ دنیا کے سامنے خدا کی ہدایت پیش کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ علاوہ بریں قرآن مجید جس طرز کی کتاب ہے اسے اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو اس پر خود ہی یہ حقیقت مُنْکَشِف ہو جائے گی کہ ایک ایک طرح کے مضامین کو ایک ایک جگہ جمع کرنا اِس کتاب کے مزاج ہی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کے مزاج کا تو تقاضا یہی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کے سامنے مَدنی مرحلے کی باتیں مکّی دَور والی تعلیم کے درمیان ، اور مکّی مرحلے کی باتیں مَدنی دَور والی تقریروں کے درمیان ، اور ابتدا کی گفتگو ئیں آخر کی تلقینات کے بیچ میں ، اور آخری دَور کی ہدایات آغازِ کار کی تعلیمات کے پہلو میں بار بار آتی چلی جائیں، تاکہ اسلام کا پورا منظر اور جامع نقشہ اس کی نگاہ میں رہے اور کسی وقت بھی وہ یک رُخا نہ ہونے پائے۔ پھر اگر قرآن کو اس کی نزُولی ترتیب پر مرتب کیا بھی جاتا تو وہ ترتیب بعد کے لوگوں کے لیے صرف اُسی صُورت میں بامعنی ہو سکتی تھی جبکہ قرآن کے ساتھ اس کی پوری تاریخِ نزُول اور اس کے ایک ایک جُزء کی کیفیتِ نزُول و شانِ نزُول لکھ کر لگا دی جاتی اور وہ لازمی طور پر قرآن کا ایک ضمیمہ بن کر رہتی۔ یہ بات اُس مقصد کے خلاف تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا یہ مجمُوعہ مرتّب اور محفوظ کرایا تھا۔ وہاں تو پیشِ نظر چیز ہی یہ تھی کہ خالِص کلامِ الہٰی بغیر کسی دُوسرے کلام کی آمیزش کے ، اپنی مختصر صُورت میں مرتب ہو، جسے بچّے، جوان، بُوڑھے، عورت، مرد، شہری ، دیہاتی، عامی ، عالِم، سب پڑھیں ، ہر زمانے میں اور ہر جگہ ہر حالت میں پڑھیں، اور ہر مرتبہء عقل و دانش کااندان کم از کم یہ بات ضرور جان لے کہ اُس کا خدا اُس سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد فوت ہو جاتا اگر اس مجمُوعہ ء کلامِ الہٰی کے ساتھ ایک لمبی چوڑی تاریخ بھی لگی ہوئی ہوتی اور اس کی تلاوت بھی لازم کر دی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں، وہ اس کتاب کے مقصد و مُدّعا سے صرف نابلد ہی نہیں ہیں، بلکہ کچھ اس غلط فہمی میں بھی مبتلا معلوم ہوتے ہیں کہ یہ کتاب محض علمِ تاریخ اور فلسفہء عمران کے طلبہ ہی کے لیے نازل ہوئی ہے۔
____________________________
ترتیبِ قرآن کے سلسلے میں یہ بات بھی ناظرین کو معلوم ہونی چاہیے کہ یہ ترتیب بعد کے لوگوں کی دی ہوئی نہیں ہے، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم ہی نے قرآن کو اس طرح مرتّب فرمایا تھا۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سُورۃ تازل ہوتی تو آپ اُسی وقت اپنے کاتبوں میں سے کسی کو بُلاتے اور اس کو ٹھیک ٹھیک قلمبند کرانے کے بعد ہدایت فرمادیتے کہ یہ سُورۃ فلاں سُورۃ کے بعد اور فلاں سُورۃ سے پہلے رکھی جائے۔ اسی طرح اگر قرآن کا کوئی ایسا حصّہ نازل ہوتا جس کو مستقل سُورۃ بنانا پیشِ نظر نہ ہوتا، تو آپ ہدایت فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سُورۃ میں فلاں مقام پر درج کیا جائے۔ پھر اس ترتیب سے آپ خود بھی نماز میں اور دُوسرے مواقع پر قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے اور اسی ترتیب کے مطابق صحابہء کرام بھی اس کو یاد کرتے تھے۔ لہٰذا یہ ایک ثابِت شُدہ تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن مجید کا نُز ُول جس روز مکمل ہوا اسی روز اس کی ترتیب بھی مکمل ہوگئی۔ جو اس کا نازِل کرنے والا تھا وہی اس کا مرتّب کرنے والا بھی تھا۔ جس کے قلب پروہ نازل کیا گیا اُسی کے ہاتھوں اسے مرتّب بھی کرا دیا گیا۔ کسی دُوسرے کی مجال نہ تھی کہ اس میں مداخلت کرتا۔
____________________________
چونکہ نماز ابتداء ہی سے مسلمانوں پر فرض ۱؎ تھی، اور تلاوتِ قرآن کو نماز کا ایک ضروری جُزء قرار دیا گیا تھا، اس لیے نزولِ قرآن کے ساتھ ہی مسلمانوں میں حفظِ قرآن کا سلسلہ جاری ہوگیا اور جیسے جیسے قرآن اُترتا گیا مسلمان اس کو یاد بھی کرتے چلے گئے۔ اس طرح قرآن کی حفاظت کا انحصار صرف کھجور کے اُن پتّوں اور ہڈّی اور جھِلّی کے اُن ٹکڑوں ہی پر نہ تھا جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے کاتبوں سے اس کو قلمبند کرایا کرتے تھے، بلکہ وہ اُترتے ہی بیسیوں، پھر سینکڑوں، پھر ہزاروں، پھر لاکھوں دلوں پر نقش ہو جاتا تھا اور کسی شیطان کے لیے اس کا امکان ہی نہ تھا کہ اس میں ایک لفظ کا بھی ردّو بدل کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی وفات کے بعد جب عرب میں اِرتدار کا طوفان اُٹھا اور اس کے فرو کرنے کے لیے صحابہء کرام کو سخت خونریز لڑائیاں لڑنی پڑیں، تو ان معرکوں میں ایسے صحابہ کی ایک کثیر تعداد شہید ہوگئی جن کو پُورا قرآن حِفظ تھا۔ اِ س سے حضرت عمر ؓ کو خیال پیدا ہوا کہ قرآن کی حفاظت کے معاملے میں صرفف ایک ہی ذریعے پر اعتماد کر لینا مناسب نہیں ہے ، بلکہ الواحِ قلب کے ساتھ ساتھ صفحاتِ قرطاس پر بھی اس کو محفوظ کرنے کا انتظام کر لینا چاہیے ۔ چنانچہ اس کام کی ضرورت انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ پر واضح کی اور انہوں نے کچھ تامّل کے بعد اس سے اتفاق کر کے حضرت زید بن ثابت انصاری ؓ کی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے کاتب (سیکرٹری) رہ چکے تھے اس خدمت پر مامور فرمایا۔ قاعدہ یہ مقرر کیا گیا کہ ایک طرف تو وہ تمام لکھے ہوئے اجزاء فراہم کر لیے جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے چھوڑے ہیں،دُوسری طرف صحابہء کرام میں سے بھی جس جس کے پاس قرآن یا اس کا کوئی حصّہ لکھا ہوا ملے، وہ ان سے لے لیا جائے ۲؎ ، اور پھر حفّاظ ِ قرآن سے بھی مدد لی جائے، اور ان تینوں ذرائع کی متّفقہ شہادت پر ، کام صحت کا اطمینان کرنے کے بعد ، قرآن کا ایک ایک لفظ مصحف میں ثبت کیا جائے۔ اس تجویز کے مطابق قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر کے اُمّ المومنین حضرت حفصہ ؓ کے ہاں رکھوا دیا گیا اور لوگوں کو عام اجازت دے دی گئی کہ جو چاہے اس کی نقل کرے اور جو چاہے اِس سے مقابلہ کر کے اپنے نسخے کی تصیح کر لے۔
____________________________
عرب میں مختلف علاقوں اور قبیلوں کی بولیوں میں ویسے ہی فرق پائے جاتے تھے جیسے ہمارے ملک میں شہر شہر کی بولی اور ضلع ضلع کی بولی میں فرق ہے، حالانکہ زبان سب کی وہی ایک اُردو یا پنجابی یا بنگالی وغیرہ ہے۔ قرآن مجید اگرچہ نازل اُس زبان میں ہوا تھا جو مَکّہ میں قریش کے لوگ بولتے تھے، لیکن ابتداءً اس امر کی اجازت دے دی گئی تھی کہ دُوسرے علاقوں اور قبیلوں کے لوگ اپنے اپنے لہجے اور محاورے کے مطابق اسے پڑھ لیا کریں، کیونکہ اس طرح معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، صرف عبارت اُن کے لیے ملائم ہو جاتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ جب اسلام پھیلا اور عرب کے لوگوں نے اپنے ریگستا ن سے نِکل کر دُنیا کے ایک بڑے حصّے کو فتح کر لیا، اور دُوسری قوموں کے لوگ بھی دائرہءِ اِسلام میں آنے لگے، اور بڑے پیمانے پر عرب و عجم کے اِختلاط سے عربی زبان متاثر ہونے لگی، تو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر اب بھی دُوسرے لہجوں اور محاوروں کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت باقی رہی تو اس سے طرح طرح کے فتنے کھڑے ہو جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ ایک شخص کسی دُوسرے شخص کو غیر مانوس طریقے پر کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے سُنے گا اور یہ سمجھ کر اس سے لڑ پڑے گا کہ وہ دانستہ کلامِ الہٰی میں تحریف کر رہا ہے۔ یا یہ کہ یہ لفظی اختلافات رفتہ رفتہ واقعی تحریفات کا دروازہ کھول دیں گے۔ یا یہ کہ عرب وعجم کے اختلاط سے جن لوگوں کی زبان بگڑے گی وہ اپنی بگڑی ہوئی زبان کے مطابق قرآن میں تصرّف کر کے اس کے حُسنِ کلام کو بغاڑ دیں گے۔ ان وجوہ سے حضرت عثمان ؓ نے صحابہء کرام کے مشورے سے یہ طے کیا کہ تمام ممالکِ اسلامیہ میں صرف اُس معیاری نسخہء قرآن کی نقلیں شائع کی جائیں جو حضرت ابو بکر ؓ کے حکم سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا تھا، اور باقی تمام دُوسرے لہجوں اور محاوروں پر لکھے ہوئے مَصاحف کی اشاعت ممنُوع قرار دے دی جائے۔ آج جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے، یہ ٹھیک ٹھیک اُسی مَصْحَفِ صدّیقی کے مطابق ہے جس کی نقلیں حضرت عثمان ؓ نے سرکاری اہتمام سے تمام دیا ر و امصار میں بھجوائی تھیں۔ اِس وقت بھی دُنیا میں متعدّد مقامات پر قرآن کے وہ مستند نسخے موجود ہیں۔ کسی کو اگر قرآن کی محفوظیّت میں ذرہ برابر بھی شک ہو تو وہ اپنا اطمینان اس طرح کر سکتا ہے کہ مغربی افریقہ میں کسی کتاب فروش سے قرآن کا ایک نسخہ خریدے، اور جاوا میں کسی حافظ سے زبانی قرآن سُن کر اس کا مقابلہ کرے، اور پھر دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں میں حضرت عثمان ؓ کے وقت سے لے کر آج تک مختلف صدیوں کے لکھے ہوئے جو مصاحف رکھے ہیں، ان سے اس کا تقابل کر لے۔ اگر کسی حرف یا شوشے کا فرق وہ پائے تو اس کا فرض ہے کہ دُنیا کو اس سب سے بڑے تاریخی انکشاف سے ضرور مطلع کرے۔ کوئی شک نواز قرآن کے مُنَزّل مِنَ اللہ ہونے میں شک کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، لیکن یہ بات کہ جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے یہ بلا کسی کمی بیشی کے ٹھیک وہی قرآن ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا، یہ تو ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی دُوسری چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس قدر قطعیِ الثُّبوت ہو۔ اگر کوئی شخص اس کی صحت میں شک کر تا ہے تو وہ پھر اس میں بھی شک کر سکتا ہے کہ رومن امپائر نامی کوئی سلطنت دُنیا میں رہ چکی ہے، اور کبھی مغل ہندوستان پر حکومت کر چکے ہیں، اور ”نپولین“ نام کا کوئی شخص بھی دنیا میں پایا گیا ہے۔ ایسے ایسے تاریخی حقائق پر شکوک کا اظہار کرنا علم کا نہیں، جہالت کا ثبوت ہے۔
________________________________
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی طرف دنیا میں بے شمار انسان بے شمار مقاصد لے کر رجوع کرتے ہیں۔ ان سب کی ضروریات اور اغراض کو پیشِ نظر رکھ کر کوئی مشورہ دینا آدمی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ طالبوں کے اس ہجوم میں مجھ کو صرف ان لوگوں سے دلچسپی ہے جو اس کو سمجھنا چاہتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کے خواہشمند ہیں کہ یہ کتاب انسان کے مسائل ِ زندگی میں اس کی کیا رہنمائی کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کو میں یہاں طریقِ مطالعہ ء قرآن کے بارے میں کچھ مشورے دُوں گا اور کچھ ان مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کروں گا جو بالعمُوم انسان کو اس معاملہ میں پیش آتی ہیں۔ کوئی شخص چاہے قرآن پر ایمان رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، بہر حال اگر وہ اس کتاب کو فی الواقع سمجھنا چاہتا ہے تو اوّلیں کام اسے یہ کرنا چاہیے کہ اپنے ذہن کو پہلے سے قائم کیے ہوئے تصوّرات سے ، اور موافقانہ یا مخالفانہ اغراض سے جس حد تک ممکن ہو خالی کرے اور سمجھنے کا خالص مقصد لے کر کھُلے دل سے اس کو پڑھنا شروع کرے۔ جو لوگ چند مخصُوص قسم کے خیالات ذہن میں لے کر اس کتاب کو پڑھتے ہیں وہ اس کی سطروں کے درمیان اپنے ہی خیالات پڑھتے چلے جاتے ہیں، قرآن کی اُن کو ہوا بھی نہیں لگنے پاتی۔ یہ طریقِ مطالعہ کسی کتاب کو پڑھنے کے لیے بھی صحیح نہیں ہے، مگر خصُوصیّت کے ساتھ قرآن تو اس طرز کے پڑھنے والوں کے لیے اپنے معانی کے دروازے کھولتا ہی نہیں۔ پھر جو شخص محض سرسری سی واقفیت بہم پہنچانا چاہتا ہو، اُس کے لیے تو شاید ایک دفعہ پڑھ لینا کافی ہو جائے، لیکن جو اس کی گہرائیوں میں اُترنا چاہے اس کے لیے دوچار دفعہ کا پڑھنا بھی کافی نہیں ہوسکتا۔ اس کو بار بار پڑھنا چاہیے، ہر مرتبہ ایک خاص ڈھنگ سے پڑھنا چاہیے، اور ایک طالب ِ علم کی طرح پنسل اور کاپی ساتھ لے کر بیٹھنا چاہیے تاکہ ضروری نِکات توٹ کر تا جائے۔ اِس طرح جو لوگ پڑھنے پر آمادہ ہوں اُن کو کم از کم دو مرتبہ پُورے قرآن کو صرف اس غرض کے لیے پڑھنا چاہیے کہ ان کے سامنے بحیثیت مجموعی وہ پُورا نظامِ فکر وعمل آجائے جسے یہ کتاب پیش کرنا چاہتی ہے۔ اِس ابتدائی مطالعہ کے دَوران میں وہ قرآن کے پُورے منظر پر ایک جامع نظر حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہ دیکھتے جائیں کہ یہ کتاب کیا بُنیادی تصوّرات پیش کرتی ہے اور پھر ان تصوّرات پر کِس قسم کا نظامِ زندگی تعمیر کرتی ہے۔ اِس اثنا میں اگر کسی مقام پر کوئی سوال ذہن میں کھٹکے تو اس پر وہیں اُسی وقت کوئی فیصلہ نہ کر بیٹھیں بلکہ اسے نوٹ کر لیں اور صبر کے ساتھ آگے مطالعہ جاری رکھیں۔ اغلب یہ ہے کہ آگے کہیں نہ کہیں انہیں اس کا جواب مِل جائے گا۔ اگر جواب مِل جائے تو اپنے سوال کے ساتھ اسے نوٹ کر لیں۔ لیکن اگر پہلے مطالعہ کے دَوران میں انہیں اپنے کسی سوال کا جواب نہ ملے تو صبر کے ساتھ دُوسری بار پڑھیں۔ میں اپنے تجربے کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ دُوسری بار کے غائر مطالعہ میں شاذ و نادر ہی کوئی سوال جواب طلب باقی رہ جاتا ہے۔ اِس طرح قرآن پر ایک جامع نظر حاصل کر لینے کے بعد تفصیلی مطالعہ کی ابتدا کر نی چاہیے۔ اس سلسلے میں ناظر کو تعلیماتِ قرآن کا ایک ایک پہلو ذہن نشین کر کے نوٹ کرتے جانا چاہیے۔ مثلاً وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ انسانیت کا کونسا نمو نہ ہے جسے قرآن پسندیدہ قرار دیتاہے اور کس نمونے کے انسان اس کے نزدیک مبغوض و مردُود ہیں۔ اس مضمُون کو اچھی طرح اپنی گرفت میں لانے کے لیے اس کو چاہیے کہ اپنی کاپی پر ایک طرف”پسندیدہ انسان“ اور دُوسری طرف ”نا پسندیدہ انسان“ کی خصُوصیات آمنے سامنے نوٹ کر تا چلا جائے۔ یا مثلاً وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ قرآن کے نزدیک انسان کی فلاح و نجات کا مدار کن اُمُور پر ہے، اور کیا چیزیں ہیں جن کو وہ انسان کے لیے نقصان اور ہلاکت اور بربادی کا موجب قرار دیتا ہے ۔ اس مضمون کو بھی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ جاننے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کاپی پر”موجباتِ فلاح“ اور”موجباتِ خُسران“ کے دو عنوانات ایک دُوسرے کے مقابل قائم کر لے اور مطالعہ ءِ قرآن کے دَوران دونوں قسم کی چیزوں کو نوٹ کرتا جائے۔ علیٰ ہٰذ ا القیاس عقائد، اخلاق، حقوق، فرائض، معاشرت، تمدّن، معیشت، سیاست، قانون، نظمِ جماعت، صلح، جنگ اور دُوسرے مسائلِ زندگی میں سے ایک ایک کے متعلق قرآن کی ہدایات کو آدمی نوٹ کر تا چلا جائے، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ان میں سے ہر ہر شعبے کی مجمُوعی شکل کیا بنتی ہے اور پھر ان سب کو مِلا کر جوڑ دینے سے پُورا نقشہء زندگی کِس قسم کا بنتا ہے۔ پھر جب آدمی کسی خاص مسئلہ ء زندگی کے بارے میں تحقیق کرنا چاہے کہ قرآن کا نقطہ ء نظر اس کے متعلق کیا ہے، تو اس کے لیے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ اس مسئلے کے متعلق قدیم و جدید لٹریچر کا گہرا مطالعہ کر کے واضح طور پر یہ معلوم کر لے کہ اس مسئلے کے بُنیادی نکات کیا ہیں، انسان نے اب تک اس پر کیا سوچا اور سمجھا ہے، کیا اُمور اس میں تصفیہ طلب ہیں، اور کہاں جا کر انسانی فکر کی گاڑی اٹک جاتی ہے۔ اس کے بعد انہی تصفیہ طلب مسائل کو نگاہ میں رکھ کر آدمی کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ اس طرح جب آدمی کسی مسئلے کی تحقیق کے لیے قرآن پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے ایسی ایسی آیتوں میں اپنے سوالات کا جواب ملتا ہے جنہیں وہ اس سے پہلے بیسیوں مرتبہ پڑھ چکا ہوتا ہے اور کبھی اس کے حاشیہ ء خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ یہاں یہ مضمون بھی چھُپا ہوا ہے۔
________________________________
لیکن فہمِ قرآن کی ، اِن ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی رُوح سے پُوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریّات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام دہ کُرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دُنیا کے عام تصوّرِ مذہب کے مطابق ایک نِری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کر لیے جائیں۔ جیسا کہ اس مقدمے کے آغاز میں بتایا جا چکا ہے، یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہء عزلت سے نکال کر خدا سے پھِری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علمبردار ان کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے ایک ایک سعید رُوح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیءحق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کروائی ۔ ایک فردِ واحد کی پُکار سے اپنا کام شروع کر کے خلافتِ الہٰیہ کے قیام تک پُورے تئیس سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطِل کی اس طویل و جاں گُسل کشمکش کے دَوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکہء اسلام و جاہلیّت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اسے تو پُوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوتِ اِلَی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نُز ُولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکّے اور حبش اور طاء کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بد و اُحُد سے لے کر حُنَین اور تَبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابُو جَہل اور ابُو لَہَب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہُود بھی آپ کو ملیں گے ، اور سابقینِ اوّلین سے لے کر مئولّفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اَور ہی قسم کا ”سُلوک“ ہے ، جس کو میں ”سُلوکِ قرآنی“کہتا ہوں۔ اِس سُلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے ، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اُتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لُغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھُپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی رُوح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بُخل برت جائے۔ پھر اسی کُلّیہ کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدّنی ہدایات ، اور زندگی کے مختلف پہلو ؤ ں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اُصُول و قوانین آدمی کی سمجھ میں اُس وقت تک آہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ عملاً ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔
____________________________
قرآن کے اس دعوے سے ہر کہ و مہ واقف ہے کہ وہ تمام نَوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے آیا ہے ۔ لیکن جب کوئی شخص اس کو پڑھنے بیٹھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کا رُوئے سخن زیادہ تر اپنے زمانہء نُز ُول کے اہلِ عرب کی طرف ہے۔ اگرچہ کبھی کبھی وہ بنی آدم اور عامۃ النّاس کو بھی پکارتا ہے، لیکن اکثر باتیں وہ ایسی کہتا ہے جو عرب کے مذاق، عرب ہی کے ماحول، عرب ہی کی تاریخ ، اور عرب ہی کے رسم و رواج سے ربط و تعلق رکھتی ہیں۔ اِن چیزوں کو دیکھ کر آدمی سوچنے لگتا ہے کہ جو چیز عام انسانوں کی ہدایت کے لیے اُتاری گئی تھی اس میں وقتی اور مقامی اور قومی عنصر اتنا زیادہ کیوں ہے ؟ اس معاملے کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگ اس شک میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ چیز اصل میں تو اپنے ہم عصر اہلِ عرب ہی کی اصلاح کے لیے تھی، لیکن بعد میں زبر دستی کھینچ تان کر اسے تمام انسانوں کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کتاب ِ ہدایت قرار دے دیا گیا۔ جو شخص یہ اعتراض محض اعتراض کی خاطر نہیں اُٹھاتا، بلکہ فی الواقع اسے سمجھنا چاہتا ہے اُسے میں مشورہ دُوں گا کہ وہ پہلے خود قرآن کو پڑھ کر ذرا اُن مقامات پر نشان لگائے جہاں اُس نے کوئی ایسا عقیدہ، یا خیال ، یا تصوّر پیش کیاہو، یا کوئی ایسا اخلاقی اُصُول ، یا عملی قاعدہ و ضابطہ بیان کیا ہو جو صرف عرب ہی کے لیے مخصُوص ہو، اور جس کو وقت اور زمانے اور مقام نے فی الواقع محدُود کر رکھا ہو۔ محض یہ بات کہ وہ ایک خاص مقام اور زمانے کے لوگوں کو خطاب کر کے ان کے مُشْرِکانہ عقائد اور رُسُوم کی تردید کرتا ہے، اور اُنہی کے گردوپیش کی چیزوں کو موادِ استدلال کے طور پر لے کر توحید کے دلائل قائم کر تا ہے، یہ فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس کی دعوت اور اس کا اپیل بھی وقتی اور مقامی ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ شرک کی تردید میں جو کچھ وہ کہتا ہے کیا وہ دُنیا کے ہر شرک پر اُسی طرح چسپاں نہیں ہوتا جس طرح مُشرکینِ عرب کے شرک پر چسپاں ہوتا تھا؟ کیا انہی دلائل کو ہم ہر زمانے اور ہر ملک کے مشرکین کی اصلاحِ خیال کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟ اور کیا اثباتِ توحید کے لیے قرآن کے طرزِ استدلال کو تھوڑے سے ردّوبدل کے ساتھ ہر وقت ہر جگہ کام میں نہیں لایا جا سکتا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایک عالمگیر تعلیم کو صرف اس بنا پر وقتی و مقامی قرار دیا جائے کہ ایک خاص وقت میں ایک خاص قوم کو خطاب کر کے وہ پیش کی گئی تھی۔ دُنیا کا کوئی فلسفہ اور کوئی نظامِ زندگی اور کوئی مذہب فکر ایسا نہیں ہے جس کی ساری باتیں از اوّل تا آخر تجریدی ( ) طرزِ بیان میں پیش کی گئی ہوں اور کسی متعیّن حالت یا صُورت پر اس کو چسپاں کر کے اُن کی توضیح نہ کی گئی ہو۔ ایسی مکمّل تجرید اوّل تو ممکن نہیں ہے، اور ممکن ہو بھی تو جو چیز اِس طریقے پر پیش کی جائے گی وہ صرف صفحہء کاغذ ہی پر رہ جائے گی ، انسانوں کی زندگی میں اس کا جذب ہو کر ایک عملی نظام میں تبدیل ہونا محال ہے۔ پھر کسی فکری و اخلاقی اور تمدّنی تحریک کو اگر بین الاقوامی پیمانے پر پھیلانا مقصود ہو ، تو اس کے لیے بھی یہ قطعاً ضروری نہیں ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ مفید بھی نہیں ہے، کہ شروع سے اس کو بالکل ہی بین الاقوامی بنانے کی کوشش کی جائے۔ در حقیقت اس کا صحیح عملی طریقہ صرف ایک ہی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ جن افکار اور نظریات اور اُصُولوں پر وہ تحریک انسانی زندگی کے نظام کو قائم کرنا چاہتی ہے، انہیں پُوری قوت کے ساتھ خود اس ملک میں پیش کیا جائے جہاں سے اس کی دعوت اُٹھی ہو، ان لوگوں کے ذہن نشین کیا جائے جن کی زبان اور مزاج اور عادات و خصائل سے اس تحریک کے داعی بخوبی واقف ہوں ، اور پھر اپنے ہی ملک میں ان اُصُولوں کو عملاً برت کر اور ان پر ایک کامیاب نظام ِ زندگی چلا کر دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا جائے۔ تبھی دُوسری قومیں اس کی طرف توجہ کریں گی اور ان کے ذہین آدمی خود آگے بڑھ کر اسے سمجھنے اور اپنے ملک میں رواج دینے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا محض یہ بات کہ کسی نظامِ فکر و عمل کو ابتداءً ایک ہی قوم کے سامنے پیش کیا گیا تھا، اور استدلال کا سارازور اسی کو سمجھانے اور مطمئن کرنے پر صَرف کر دیا گیا تھا ، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ وہ نظامِ فکر و عمل محض قومی ہے۔ فی الواقع جو خصُوصیات ایک قومی نظام کو ایک بین الاقوامی نظام سے اور ایک وقتی نظام کو ایک ابدی نظام سے ممیّز کرتی ہیں وہ یہ ہیں کہ قومی نظام یا تو ایک قوم کی برتری اور اس کے مخصُوص حقوق کا مدعی ہوتا ہے ، یا اپنے اندر کچھ ایسے اُصُول اور نظریات رکھتا ہے جو دوسری اقوام میں نہیں چل سکتے۔ اس کے برعکس جو نظام بین الاقوامی ہوتا ہے وہ تمام انسانوں کو برابر کا درجہ اور برابر کے حقوق دینے کے لیے تیار ہوتا ہے اور اس کے اُصُولوں میں بھی عالمگیریت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک وقتی نظام لازمی طور پر اپنی بُنیاد کچھ ایسے اُصُولوں پر رکھتا ہے جو زمانے کی چند پلٹیوں کے بعد صریحاً ناقابلِ عمل ہو جاتے ہیں، اور اس کے برعکس ایک ابدی نظام کے اُصُول تمام بدلتے ہوئے حالات پر منطبق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان خصُوصیات کو نگاہ میں رکھ کر کوئی شخص خود قرآن کو پڑھے اور ان چیزوں کو ذرا متعیّن کرنے کی کوشش کرے جن کی بنا پر واقعی یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ قرآن کا پیش کردہ نظام وقتی اور قومی ہے۔
______________________________
قرآن کے متعلق یہ بات بھی ایک عام نظر کے کان میں پڑی ہوئی ہوتی ہے کہ یہ ایک مفصّل ہدایت نامہ اور ایک کتابِ آئین ہے ۔ مگر جب وہ اسے پڑھتا ہے تو اس میں معاشرت اور تمدّن اور سیاست اور معیشت وغیرہ کے تفصیلی احکام و ضوابط اس کو نہیں ملتے۔ بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ جیسے فرائض کے متعلق بھی ، جن پر قرآن بار بار اس قدر زور دیتا ہے ، اس نے کوئی ایسا ضابطہ تجویز نہیں کیا ہے جس میں تمام ضروری احکام کی تفصیل درج ہو۔ یہ چیز آدمی کے ذہن میں خلجان پیدا کرتی ہے کہ آخر یہ کس معنی میں ہدایات نامہ ہے۔ اس معاملے میں ساری اُلجھن صرف اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کی نگاہ سے حقیقت کا ایک پہلو بالکل اوجھل رہ جاتا ہے، یعنی یہ کہ خدا نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی تھی بلکہ ایک پیغمبر بھی مبعوث فرمایا تھا۔ اگر اصل اسکیم یہ ہو کہ بس ایک نقشہ ء تعمیر لوگوں کو دے دیا جائے اور لوگ اس کے مطابق خود عمارت بنا لیں ، تو اس صُورت میں بلا شبہ تعمیر کے ایک ایک جزُء کی تفصیل ہم کو ملنی چاہیے۔ لیکن جب تعمیری ہدایات کے ساتھ ایک انجینیئر بھی سرکاری طور پر مقرر کیا جائے اور وہ ان ہدایات کے مطابق ایک عمارت بنا کر کھڑی کر دے ، تو پھر انجینیر اور اس کی بنائی ہوئی عمارت کو نظر انداز کر کے صرف نقشے ہی میں تمام جزئیات کی تفصیل تلا ش کرنا ، اور پھر اسے نہ پاکر نقشے کی نا تمامی کا شکوہ کرنا غلط ہے۔ قرآن جزئیات کی کتاب نہیں ہے بلکہ اُصُول اور کُلّیات کی کتاب ہے۔ اس کا اصل کام یہ ہے کہ نظامِ اسلامی کی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو پُوری وضاحت کے ساتھ نہ صرف پیش کرے بلکہ عقلی استدلال اور جذباتی اپیل ، دونوں کے ذریعے سے خوب مستحکم بھی کر دے۔ اب رہی اسلامی زندگی کی عملی صُورت ، تو اس معاملے میں وہ انسان کی رہنمائی اس طریقے سے نہیں کرتا کہ زندگی کے ایک ایک پہلو کے متعلق تفصیلی ضابطے اور قوانین بتائے، بلکہ وہ ہر شعبہ ء زندگی کے حُدُود اربعہ بتا دیتا ہے اور نمایاں طور پر چند گوشوں میں سنگِ نشان کھڑے کر دیتا ہے جو اس بات کا تعیّن کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ان شعبوں کی تشکیل و تعمیر کن خُطوُط پر ہونی چاہیے۔ ان ہدایات کے مطابق عملاً اسلامی زندگی کی صُورت گری کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا کام تھا ۔ انہیں معمُور ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ دنیا کو اُس انفرادی سیرت و کردار اور اس معاشرے اور ریاست کا نمونہ دکھا دیں جو قرآن کے دیے ہوئے اُصولوں کی عملی تعبیر و تفسیر ہو۔
_________________________________
ایک اور سوال جو بالعموم لوگوں کے ذہن میں کھٹکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو قرآن اُن لوگوں کی انتہائی مذمت کرتا ہے جو کتاب اللہ کے آجانے کے بعد تفرقے اور اختلاف میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے دین کے ٹکڑے کر ڈالتے ہیں، اور دُوسری طرف قرآن کے احکام کی تعبیر و تفسیر میں صرف متاخّرین ہی نہیں ، ائمّہ اور تابعین اور خود صحابہ تک کے درمیان اتنے اختلافات پائے جاتے ہیں کہ شاید کوئی ایک بھی احکامی آیت ایسی نہ ملے گی جس کی ایک تفسیر بالکل متفق علیہ ہو ۔ کیا یہ سب لوگ اس مذمت کے مصداق ہیں جو قرآن میں وارد ہو ئی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر وہ کون سا تفرقہ و اختلاف ہے جس سے قرآن منع کرتا ہے؟ یہ ایک نہایت وسیع الاطراف مسئلہ ہے جس پر مفصّل بحث کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔ یہاں قرآن کے ایک عامی طالبِ علم کی اُلجھن دُور کرنے کے لیے صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ قرآن اس صحت بخش اختلاف ِ رائے کا مخالف نہیں جو دین میں متفق اور اسلامی نظامِ جماعت متحد رہتے ہوئے محض احکام و قوانین کی تعبیر میں مخلصانہ تحقیق کی بنا پر کیا جائے، بلکہ وہ مذمت اُس اختلاف کی کرتا ہے جو نفسانیت اور کج نگاہی سے شروع ہو اور فرقہ بندی و نزاعِ باہمی تک نوبت پہنچا دے۔ یہ دونوں قسم کے اختلاف نہ اپنی حقیقت میں یکساں ہیں اور نہ اپنے نتائج میں ایک دُوسرے سے کوئی مشابہت رکھتے ہیں کہ دونوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانک دیا جائے۔ پہلی قسم کا اختلاف تو ترقی کی جان اور زندگی کی رُوح ہے۔ وہ ہر اُس سوسائٹی میں پایا جائے گا جو عقل و فکر رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہو۔ اس کا پایا جانا زندگی کی علامت ہے اور اس سے خالی صرف وہی سوسائٹی ہو سکتی ہے جو ذہین انسانوں سے نہیں بلکہ لکڑی کے کُندوں سے مرکّب ہو۔ رہا دُوسری قسم کا اختلاف ، تو ایک دُنیا جانتی ہے کہ اس نے جس گروہ میں بھی سر اُٹھایا اُس کو پراگندہ کر کے چھوڑا۔ اس کا رُونما ہونا صحتِ کی نہیں بلکہ مرض کی علامت ہے ، اور اس کے نتائج کبھی کسی اُمّت کے حق میں بھی مفید نہیں ہو سکتے ۔ ان دونوں قسم کے اختلافات کا فرق واضح طور پر یوں سمجھیے کہ : ایک صُورت تو وہ ہے جس میں خدا اور رسُول کی اطاعت پر جماعت کے سب لوگ منفق ہوں ، احکام کا ماخذ بھی بالا تفاق قرآن اور سُنّت کو مانا جائے، اور پھر دو عالم کسی جُزوی مسئلے کی تحقیق میں ، یا دو قاضی کسی مقدمے کے فیصلے میں ایک دُوسرے سے اختلاف کریں، مگر ان میں سے کوئی بھی نہ تو اس مسئلے کو، اور اس میں اپنی رائے کو مدارِ دین بنائے اور نہ اس سے اختلاف کرنے والے کو دین سے خارج قرار دے، بلکہ دونوں اپنے اپنے دلائل دے کر اپنی حد تک تحقیق کا حق ادا کردیں، اور یہ بات رائے عام پر، یا اگر عدالتی مسئلہ ہو تو ملک کی آخری عدالت پر، یا اگر اجتماعی معاملہ ہو تو نظامِ جماعت پر چھوڑ دیں کہ وہ دونوں رایوں میں سے جس کو چاہیں قبول کر یں، یا دونوں کو جائز رکھیں۔ دُوسری صُورت یہ ہے کہ اختلاف سرے سے دین کی بُنیادوں ہی میں کر ڈالا جائے، یا یہ کہ کوئی عالم یا صُوفی یا مفتی یا متکلّم یا لیڈر کسی ایسے مسئلے میں جس کو خدا اور رسُول نے دین کا بُنیادی مسئلہ قرار نہیں دیا تھا، ایک رائے اختیار کرے اور خواہ مخواہ کھینچ تان کر اس کو دین کا بُنیادی مسئلہ بنا ڈالے، اور پھر جو اس سے اختلاف کرے اس کو خارج از دین و مِلّت قرار دے، اور اپنے حامیوں کا ایک جتھا بنا کر کہے کہ اصل اُمّتِ مُسْلِمہ بس یہ ہے اور باقی سب جہنّمی ہیں، اور ہانک پُکار کر کہے کہ مسلم ہے تو بس اس جتھے میں آجا ورنہ تُو مسلم نہی نہیں ہے۔ قرآن نے جہاں کہیں بھی اختلاف اور فرقہ بندی کی مخالفت کی ہے اُس سے اس کی مراد یہ دُوسری قسم کا اختلاف ہی ہے۔ رہا پہلی قسم کا اختلاف ، تو اس کی متعدّد مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے پیش آچکی تھیں، اور آپؐ نے صرف یہی نہیں کہ اس کو جائز رکھا، بلکہ اس کی تحسین بھی فرمائی۔ اس لیے کہ وہ اختلاف تو اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ جماعت میں غور و فکر اور تحقیق و تجسّس اور فَہْم و تَفَقُّہ کی صلاحیّتیں موجود ہیں ، اور جماعت کے ذہین لوگوں کو اپنے دین سے اور اس کے احکام سے دلچسپی ہے، اور ان کی ذہانتیں اپنے مسائل ِ زندگی کا حل دین کے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر ہی تلاش کرتی ہیں، اور جماعت بحیثیتِ مجُموعی اِس زّرین قاعدے پر عامل ہے کہ اُصُول میں متفق رہ کر اپنی وحدت برقرار رکھے اور پھر اپنے اہلِ علم و فکر کو صحیح حُدُود کے اندر تحقیق و اجتہاد کی آزادی دے کر ترقی کے مواقع بھی باقی رکھے۔ ھٰذا ما عندی و العلم عنداللہ، علیْہ تو کلت والیْہ انیب۔
_______________________________
اس مقدمے میں تمام اُن مسائل کا استقصاء کرنا میرے پیشِ نظر نہیں ہے جو مطالعہء قرآن کے دَوران میں ایک ناظِر کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ان سوالات کا بیشتر حصّہ ایسا ہے جو کسی نہ کسی آیت یا سُورۃ کے سامنے آنے پر ذہن کو کھٹکتا ہے ، اور اس کا جواب تفہیم ُ القرآن میں برسرِ موقع دے دیا گیا ہے۔ لہٰذا ایسے سوالات کو چھوڑ کر میں نے یہاں صرف اُن مامع مسائل سے بحث کی ہے جو بحیثیت ِ مجمُوعی پُورے قرآن سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناظرینِ کرام سے میری درخواست ہے کہ صرف اس مقدمے کو دیکھ کر ہی اس کے تشنہ ہونے کا فیصلہ نہ کر دیں، بلکہ پُوری کتاب کو دیکھنے کے بعد اگر ان کے ذہن میں کچھ سوالات جواب طلب باقی رہ جائیں، یا کسی سوال کے جواب کو وہ ناکافی پائیں تو مجھے اس سے مطلع فرمائیں۔
―――――※―――――
۱؎ واضح رہے کہ پنج وقتہ نماز تو بعثت کے کئی سال بعد فرض ہوئی ، لیکن نماز بجائے خود اوّل روز ہی سے فرض تھی۔ اسلام کی کوئی ساعت کبھی ایسی نہیں گزری ہے جس میں نماز فرض نہ ہو۔
۲؎ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی زندگی میں متعدّد صحابہ نے قرآن کو یااس کے مختلف اجزاء کو اپنے پاس قلمبند کر کے رکھ چھوڑا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرات عثمان، علی، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عَمرو بن عاص، سالم مولیٰ حُذَیفہ، زید بن ثابت، مُعاذ بن جَبَّل، اُبَیّ بن کعب، اور ابو زید قیس بن السّکن رضی اللہ عنہم کے ناموں کی تصریح ملتی ہے۔

رحمۃٌ للعالمینؐ، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں دُنیا کے حالات جس قسم کے تھے، اس کی نشان دہی قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے:

ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے کرتُوتوں کے سبب۔

یعنی خشکی اور تری میں فساد کی جو کیفیت پھیلی ہوئی تھی، وہ لوگوں کے اپنے اعمال اور کرتُوتوں کا نتیجہ تھی۔ اِس زمانے کی دو بڑی طاقتیں فارس اور روم جیسی کہ آج کل روس اور امریکا ہیں، باہم دست و گریباں تھیں اور اس زمانے کی پوری مہذب دُنیا میں بدامنی، بے چینی اور فساد کی کیفیت رُونما ہوچکی تھی۔ اِس لپیٹ میں خود عرب بھی آچکا تھا اور اس کی حالت ایسی تھی گویا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ قرآن میں اسی حالت کا اِشارہ ان الفاظ میں ہے:

وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ( ٰالِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔

گوشۂ سید ابوالاعلی مودودیؒ

سید ابوالاعلٰی مودودی (1903ء - 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی ہیں ۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک ہیں ۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔ مزید پڑھیں !

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭