اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف، سید ابوالاعلی مودود ی ؒ

اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف

 سید ابوالاعلی مودود ی ؒ 

اجتہاد کا مقصد چونکہ خدائی قانون کو انسانی قانون سے بدلنا نہیں بلکہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی رہنمائی میں اسلام کے قانونی نظام کو زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ متحرک کرنا ہے۔ اس لیے کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں:
۱- شریعت الٰہی پر ایمان، اس کے برحق ہونے کا یقین، اس کے اِتباع کا مخلصانہ ارادہ، اس سے آزادہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اور مقاصد، اصول اور اقدار کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجاے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔
۲-  عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت، کیوں کہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا ہے اور سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع بھی اسی زبان میں ہیں۔
۳- قرآن اور سنت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو، بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔ اس کو ایک طرف یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے شریعت کی مجموعی اسکیم کیا ہے اور دوسری طرف یہ جاننا چاہیے کہ شریعت اس کی تشکیل کن خطوط پر کرنا چاہتی ہے اور اس تشکیل میں اس کے پیش نظر کیا مصالح ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اجتہاد کے لیے قرآن و سنت کا وہ علم درکار ہے جو مغز شریعت تک پہنچتا ہو۔
۴-  پچھلے مجتہدین اُمت کے کام سے واقفیت، جس کی ضرورت صرف اجتہاد کی تربیت ہی کے لیے نہیں ہے، بلکہ قانونی ارتقا کے تسلسل کے لیے بھی ہے۔ اجتہاد کا مقصد بہرحال یہ نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے کہ ہرنسل پچھلی نسلوں کی چھوڑی ہوئی تعمیرکو ڈھاکر یا متروک قرار دے کر نئے سرے سے تعمیر شروع کرے۔
۵- عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت، کیوں کہ انھی پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا مطلوب ہے۔
۶- اسلامی معیارِ اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار، کیوں کہ اس کے بغیر کسی اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہوسکتا اور نہ اُس قانون کے لیے عوام میں کوئی جذبۂ احترام پیدا ہوسکتا ہے، جو غیرصالح لوگوں کے اجتہاد سے بنا ہو۔
اس کے بغیر جو قانون سازی کی جائے گی، وہ نہ اسلامی قانون کے نظام میں جذب ہوسکے گی اور نہ مسلم سوسائٹی اس کو ایک خوش گوار غذا کی طرح ہضم کرسکے گی۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ،ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۴، جنوری ۱۹۵۸ء)


دو مختلف نظاموں میں کچھ چیزیں مشترک ہوتے ہوئے بھی، وہ الگ الگ نظام ہوتے ہیں۔ ان دونوں نظاموں کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں بیش تر چیزیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں، مگر اس کے باوجود ہم انھیں ایک نظام نہیں کہہ سکتے۔ دو مختلف نظاموں کا کسی ایک یا چند اُمور میں ایک دوسرے سے متفق ہو جانا بھی کبھی اُن کے ایک ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی حال اسلام اور مغربی جمہوریت کا ہے۔
اس ضمن میں یہ چیز ذہن نشین رہے کہ کسی نظام کا اصل جوہر طریق نہیں بلکہ وہ اصولی و مقصدی روح ہوتی ہے، جو اُس کے اندر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی روح کے متعلق ہم حکم لگاسکتے ہیں۔
ان گزارشات کے بعد اب آپ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے فرق پر غور فرمائیں:
(الف) مغربی جمہوریت میں حاکمیت جمہور کی ہوتی ہے اور اسلام میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مغربی جمہوریت میں کسی چیز کے حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار اکثریت کو حاصل ہے ، مگر اسلام میں یہ حق صرف باری تعالیٰ کو پہنچتا ہے، جس نے اپنا آخری منشا    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دنیا پر واضح فرما دیا۔ یہ اختلاف کوئی معمولی نہیں بلکہ اس کی بنا پر یہ دونوں نظام بنیادوں سے لے کر کاخ و ایوان تک ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔
(ب) اسلامی جمہوریت میں خلافت ایک امانت ہے، جو ہرمسلمان کو سونپی جاتی ہے، اور تمام مسلمان محض انتظامی سہولت کے لیے اُسے ارباب حل و عقد کے سپرد کردیتے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں اصحابِ اقتدار صرف اپنی پارٹی [یا منتخب ایوان] کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی ریاست میں عوام کے نمایندے خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔
(ج) یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی نظام صرف ایک طریق انتخاب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے سارے معاملات میں اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر اور زاویۂ نگاہ پیش کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ کو آخری سند مان کر اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالا جائے___ پاکستان میں ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اس اصول کو تسلیم تو کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ  اس کے نفاذ کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ (’رسائل و مسائل‘ [پروفیسر عبدالحمید صدیقی]، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۳، ربیع الاوّل ۱۳۷۷ھ، دسمبر ۱۹۵۷ء،ص ۱۸۳-۱۸۴)


(بشکریہ ، ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، جنوری  2018ء)
آن لائن حوالہ : http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/1159