امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا کمال


امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا کمال : جدید زمانہ کے قوانین  بڑی حد تک حنفی فقہ کا چربہ ہے۔

قانون اسلامی کے تین شعبے ہیں :
1۔ اعتقادی قانون جو علی الاطلاق تمام مسلمانوں سے تعلق ہے ۔
2۔ دستوری قانون جس کا تعلق صرف سلطنت اسلامی سے ہے ۔
3۔ بین الاقوامی قانون یا صحیح الفاظ میں تعلقات خارجیہ کا قانون جو مسلمانوں اور غیر قوموں کے تعلقات سے بحث کر تا ہے ۔
ہماری کتب فقہیہ میں ان قوانین کو الگ الگ مرتب نہیں کیا گیا اور نہ ان کو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے لیکن قرآن وحدیث میں ایسے واضح اشارات موجود ہیں جس سے قدرتی طور اسلامی قوانین کا ارتقاء  تین الگ الگ راستوں پر ہوا ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ جس فقیہ اعظم کی قانونی بصیرت  اور فقیہانہ دقیقہ سنجی نے سب سے بڑھ کر ان اشارات کو سمجھا اور ان کی بنا پر قانون کے ان تینوں شعبوں کو حدود میں ٹھیک ٹھیک امتیاز کیا اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل میں اس امتیاز کو ملحوظ رکھا و ہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی ہیں ۔ فقہائے اسلام میں کوئی بھی ان کا ہمسر نظرنہیں  آتا ۔ حتی کہ امام ابو یوسف جیسے بالغ النظر فقیہ کی رسائی بھی اس مقام تک نہ ہو سکی ۔ امام اعظم کے کمال کا ایک ادنی ثبوت  یہ ہے کہ 12سوسال پہلے انہوں نے قرآن و سنت سے استنباط کر کے دستوری اور بین الاقوامی قوانین  کے جو احکام مدون کیے تھے آج تک دنیا  کے قانونی افکار کا ارتقاء ان سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا ہے ، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ دراصل یہ ارتقاء ہواہی ان خطوط پر ہے جو 12صدی قبل کوفہ کے ایک پارچہ فروش نے کھینچ دیئے تھے ۔ فقہ حنفی کی بہ نسبت جدید زمانہ کے قوانین  میں بظاہر جو ترقی نظر آتی ہے وہ کسی حد تک تمدنی احوال کے تغیر کا اور زیادہ تر بین الاقوامی معاہدات کا نتیجہ ہے تاہم اصولی حیثیت سے جدید زمانہ کے قوانین  بڑی حد تک حنفی فقہ کا چربہ ہے اور ان کے مطالعہ سے حنفی فقہ کو سمجھنے میں بڑی آسانی  ہو تی ہے ۔

(سود، سید ابوالاعلی مودودی ؒ ص 401)